خدا

کم لنک
حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
علاقائی تقاضوں سے غیر مماثل
غیر سلیس
غیر جامع
ویکی شیعہ سے

خدا جہان کا بنانے والا ، کامل ترین وجود اور اکثر ادیان خاص طور پر اکثر ادیان ابراہیمی کا بنیادی مفہوم اور محور ہے۔ مختلف ادیان، مذاہب اور افراد کے اذہان میں اسکی مختلف تعریفیں اور مفہوم ہیں۔ دینداری اور اور خدا کے درمیان کوئی ناگزیر رابطہ برقرار نہیں ہے بلکہ بعض لوگ دین کے معتقد نہیں ہیں لیکن وہ وہ خدا پر اعتقاد رکھتے ہیں۔

شیعہ نقطہ نظر کے مطابق خدا یگانہ، تمام کمالات کی ابتدا اور تمام موجودات کو ہستی بخشنے والا ہے۔ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔کوئی موجود اس کے مشابہ نہیں ہے۔اس کی ذات عین صفات ہے۔وہ ایک بسیط اور بغیر ماہیت کے موجود ہے۔وہ نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں ہی قابل رویت ہے۔ وہ صاحب علم و قدرت ہے۔وہ ہر جگہ موجود ہے اور ساری مخلوق کے ساتھ اس کا ارتباط ہے۔ خدا کا وجود اور اسکی بعض صفات حس ، عقل اور فطرت کے ذریعے قابل اثبات ہے لیکن اس کی حقیقت ذات نامحدود اور حس و عقل کے ذریعے قابل ادراک نہیں ہے۔

اعتقاد خدا کا تاریخچہ

انسانی ذہن میں موجود مفاہیم میں سے ایک اہم تریم مفہوم خدا کا مفہوم ہے اور انسان کی پیدائش اور فلسفہ کی پیدائش بلکہ سقراط سے پہلے سے لے کر آج تک اس کے بارے میں بحث جاری و ساری ہے۔ گاہے اس کے بارے میں نئے نظریات بیان ہوئے ہیں۔

تمام اادیان آسمانی کی تمام تعلیمات کی بنیاد اعتقادِ خدا پر ہے۔طول تاریخ میں کبھی یہ اعتقاد خدائے واحد کے ساتھ دیگر خداؤں کے ساتھ (شرک) فرض کیا گیا اور کبھی اس کی خصوصیات میں تحریف ہوئی جیسے انسان کو خدا کی شبیہ سمجھتے ہیں۔

علم عرفان خاص طور ادیان ابراہیمی کی کوکھ سے جنم لینے والے عرفان میں خدا مکمل طور پر ایک بنیادی اور محوری مفہوم ہے اور حقیقت میں کہا جا سکتا ہے کہ ان ادیان میں عرفان شناخت خدا اور اس تک پہنچنے اور اسے تلاش کرنے کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہے۔الہی ادیان خاص طور پر ادیان ابراہیمی خدا، اسکی صفات اور انسانوں اور خدا کی درمیان باہمی نسبت کی ابحاث کے متکفل رہے اور ان ادیان کیلئے کلامی ابحاث کیلئے نئے عناوین فراہم کرتے رہے۔ آجکل نہایت سنجیدگی سے ان ابحاث کے متعلق سوچ بچار کیا جاتا ہے نیز نئی ابحاث کے وجود میں آنے پر منتہی ہوتی ہیں۔[1]

خدا اور اسلام

دین اسلام کے تمام مفاہیم دینی کامحور، اصل اور اساس خدا ہے۔ مسلمان وہ ہے جو خدائے یکتا کے علاوہکسی کا قئل نہ ہو (أشهدُ أن لا إلهَ إلّا اللّهُ) اور حضرت محمد ؐ کو خدا کا بھیجا ہوا نبی مانتا ہو۔ حقیقت میں پیغمبر اسلام کی رسالت شناخت خدائے وحدہ لا شریک کی دعوت ہے۔[2]اسلام نے ایسی سرزمین میں آنکھ کھولی جہاں بت پرستی اور چند خداؤں کی فضا حاکم تھی۔ اسلام نے وجود خدا کے اثبات کی نسبت اس کی بعض صفات پر اور سب سے زیادہ خدا کی وحدانیت کی تاکید کی ہے۔ قرآن میں کئی مرتبہ اسکے مخصوص نام اللہ کا ذکر ہوا ہے۔ یہ لفظ خدا پر دلالت کرتا ہے اور عربی زبان میں خدا کا معادل ہے۔ نیز یہودی اور عیسائی کتاب مقدس میں اس کا ترجمہ خدا کے ساتھ کرتے ہیں۔ قرآن میں خدا کے خوبصورت اور گوناں گو اسما کی تصریح وارد ہوئی ہے۔ [3]

اسلامی اعتقادات کے مطابق اسلام یں خدا کا تصور ایک مخصوص خدا نہیں ہے بلکہ یہ وہی پہلے انبیا کا خدا ہے اور آدم سے لے کر خاتم تک ایک ہی خدا ہے۔ [4]

قرآن [5] کے مطابق خلقت آدم خدائے وحدہ کے ساتھ تھی اور شرک اس کے بعد وجود میں آیا جو طول تاریخ میں بشر کی گمراہی کی وجہ سے پیدا ہو۔

قرآن میں اسمائے الہی

قرآن میں اللہ کہ جو مشہور قول کی بنا پر ذات باری تعالی کا اسم خاص خدا ہے،اسکے علاوہ ۱۴۳ [6]اسمائے الہی وارد ہوئے ہیں جن میں سے ہر ایک اسم ایک وصف کا بیان گر ہے اور وہ خدا کے کمال سے حکایت ہے۔

خدا کے واضح اسما

قرآن پاک میں واضح طور پر ذات باری کو بیان کرنے والے اسما حروف تہجی کی ترتیب کے ساتھ ذکر کئے جاتے ہیں:[7]

  • اللّه، الاله، الاحد، الاوّل، الآخر، الاعلی، الاکرم، الاعلم، ارحم الراحمین، احکم الحاکمین، احسن الخالقین، اسرع الحاسبین، اهل التقوی، اهل المغفرة، الاقرب، الابقی.
  • الباری، الباطن، البدیع، البَرّ، البصیر.
  • التوّاب.
  • الجبار و الجامع.
  • الحکیم، الحلیم، الحی، الحقّ، الحمید، الحسیب، الحفیظ، الحفی.
  • الخبیر، الخیر، الخالق، خلاّق، خیر الماکرین، خیرالرازقین، خیرالفاصلین، خیرالحاکمین، خیرالفاتحین، خیرالغافرین، خیرالوارثین، خیرالراحمین، خیرالناصرین، خیرالمنزلین.
  • ذوالعرش، ذوالطول، ذوالانتقام، ذوالفضل العظیم، ذوالرحمة، ذوالقوة المتین، ذوالجلال و الاکرام، ذوالمعارج.
  • الرحمن، الرحیم، الرئوف، الرّب، ربّ العرش، رفیع الدرجات، الرزّاق، الرقیب.
  • السمیع، السلام، سریع الحساب و سریع العقاب.
  • الشهید، الشاکر، الشکور، شدید العذاب، شدیدالعقاب و شدید المحال.
  • الصمد.
  • الظاهر.
  • العلیم، العزیز، العَفُوّ، العلی، العظیم، علام الغیوب و عالم الغیب و الشهادة.
  • الغنی، الغفور، الغالب، غافر الذنب و الغفّار.
  • فالق الاصباح، فالق الحبّ والنوی، الفاطر و الفتّاح.
  • القوی، القدّوس، القیوم، القاهر، القهّار، القریب، القادر، القدیر، قابل التوب، قائم علی کل نفس بما کسبت و القائم.
  • الکبیر، الکریم، الکافی.
  • اللطیف.
  • الملک، المؤمن، المهیمن، المتکبّر، المصوّر، المجید، المجیب، المبین، المولی، المحیط، المقیت، المتعال، المحیی، المتین، المقتدر، المستعان، المبدئ، مالک الملک و المعید.
  • النصیر و النور.
  • الوهّاب، الواحد، الولی، الوالی، الواسع، الوکیل و الودود.
  • الهادی.

قرآن پاک کی ۸ آیات سوره طہ، ۲۴ سورہ حشر، ۱۸۰ سورہ اعراف و ۱۱۰ سورہ اسراء کلی طور پر تصریح کرتی ہیں کہ خدا کے اسمائے حسنی ہیں۔:ولِلّهِ الاَسماءُالحُسنی

غیر واضح اسمائے الہی

حافظ و وارث: ...وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ﴿٩﴾حجر اور ...نَحْنُ الْوَارِثُونَ ﴿٢٣﴾سورہ حجرآیت ٢٣۔

فعال لما یرید:إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ ﴿١٠٧﴾ہود۔

کاتب اور فاعل: وَإِنَّا لَهُ كَاتِبُونَ ﴿٩٤﴾انبیاء اور إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ ﴿١٠٤﴾

ممیت: وَهُوَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ...﴿٨٠﴾ مؤمنون|

کاشف الضرّ و شفیع: وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّـهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ...﴿١٧﴾ انعام اور ...لَيْسَ لَهَا مِن دُونِ اللَّـهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ...﴿٧٠﴾

قائم بالقسط: ... قَائِمًا بِالْقِسْطِ ۚ...﴿١٨﴾ آل عمران

منتقم: ... إِنَّا مُنتَقِمُونَ ﴿١٦﴾ دخان[8]

خدا اور قرآن کریم

قرآن کریم میں خدا کے متعلق مختلف عناوین سے بہت زیادہ گفتگو کی ہے،جیسے:

  • اسما اور اچھی صفات کا ہونا:ولِلّهِ الاَسماءُ الحُسنی[9]
  • احدیت اور بساطت: قُل هُوَ اللّهُ اَحَد[10]
  • توحید ذات ، صفات اور افعال میں توحید: اَللّهُ لا اِلهَ اِلاّ هُو[11]، ... لا اِلهَ اِلاَّ اللّه...[12]، فَلَم تَقتُلوهُم ولکنَّ اللّهَ قَتَلَهُم وما رَمَیتَ اِذ رَمَیتَ ولکنَّ اللّهَ رَمی[13]
  • صمدیت: الله الصّمد[14]
  • باپ اور بیٹے کی نفی: لَم یلِد و لَم یولَد[15]
  • بی‌ ہمتائی: ولَم یکن لَهُ کفُوًا اَحَد[16]
  • مِثْل کا نہ ہونا: لَیسَ کمِثلِهِ شَیءٌ[17]
  • ظاہری آنکھوں سے نہ دیکھا جانا: لا تُدرِکهُ الاَبصرُ...[18]
  • اونگھ اور نیند کا نہ آنا: لاتَأخُذُهُ سِنَةٌ ولا نَومٌ[19]
  • جمع بین تشبیہ اور تنزیہ: لَیسَ کمِثلِهِ شَیءٌ وهُوَ السَّمیعُ البَصیر[20]
  • خالقیت اور ابتدائیت: اَللّهُ خلِقُ کلِّ شَیء[21]اَللّهُ یبدَؤُا الخَلقَ... [22]
  • مالکیت حقیقی: ولِلّهِ ما فِی‌السَّموتِ وما فِی الاَرضِ [23]
  • ربوبیت: اِنَّ اللّهَ رَبّی ورَبُّکم[24]
  • موجودات کے نہایت قریب ہونا اور ان کے ساتھ قیومیت : واعلَموا اَنَّ اللّهَ یحولُ بَینَ المَرءِ وقَلبِهِ[25]
  • تمام خوبیوں اور اچھائیوں کا منشا ہونا: بِیدِک الخَیرُ[26]
  • غایت و منتہا ہونا: ... و اِلَی اللّهِ تُرجَعُ الاُمور[27]، واَنَّ اِلی رَبِّک المُنتَهی[28]
  • آسمانوں اور زمین کی نسبت اس کی کرسی کا وسیع ہونا : وسِعَ کرسِیهُ السَّموتِ والاَرضَ[29]
  • برترین مَثَل کا ہونا: ولِلّهِ المَثَلُ الاَعلی[30]
  • لوگوں کے درمیان سے رسولانی کا انتخاب کرنا : اَللّهُ یصطَفی مِنَ المَلئِکةِ رُسُلاً ومِنَ النّاسِ[31]
  • امام بنانا: قالَ اِنّی جاعِلُک لِلنّاسِ اِماما[32]
  • وجوب عبادت اور عبادت کا خدا سے مخصوص ہونا : واعبُدوا اللّهَ ولا تُشرِکوا بِهِ شیا...[33]، اَلاّتَعبُدوا اِلاَّ اللّه...[34]
  • اس سے ڈرنا: فَلیتَّقوا اللّهَ...[35]

شناخت خدا کے مختلف ذریعے

مسلمان مفکرین کلی طور پر خدا کے متعلق تین دستوں میں تقسیم ہوئے ہیں: کلامی تفکر، فلسفی تفکر، عرفانی تفکر۔ البتہ ان تین دستوں میں کوئی مشخص حد بندی نہیں بلکہ گاہی بہت مشکل سے ان کے درمیان تفکیک کی جاتی ہے،جیسا کہ معتزلہ تفکر اور فیلسوفان مشائی یا اہل عرفان اور اشراقی فلاسفہ اس قدر باہمی قربت ہوتی ہے کہ ان کے درمیان تفکیک اور تمیز کرنا بہت سخت ہو جاتا ہے۔

علم کلام

مجموعی طور پر علم کلام میں خدا کے متعلق ہونے والی ابحاث کو درج ذیل صورتوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

فلسفہ

شاید خدا کے بارے میں فلسفی ابحاث کا رواج گذشتہ ابحاث کا تسلسل اور نئے جوابات کی تلاش تھا۔قطعی طور پر خدا کے متعلق بحث قدیمی ابحاث میں سے ہے۔ ہند اور ایران کی فرہنگ میں اس کے بارے میں عمیق تفکر کو پایا جا سکتا ہے۔لیکن خدا کے بارے میں متعارف ترین فلسفی بحث کی بازگشت قدیم یونان کی طرف لوٹتی ہے۔ان فلسفی ابحاث میں افلاطون اور ارسطو کے تفکرات اس کا نقطۂ عروج ہیں۔فلسفۂ یونان کا خدا ایک بے اعتنا عالم بے۔

یونان کے فلسفی آثار کے مطابق خدا عالم کا منشائے فیض اور دیگر موجودات (عقل اول اور اسکے بعد) کے صدور کا سر چشمہ ہے۔ اسے صرف علت اولی، واجب الوجود،تنزیہی صورت، وجود مطلق، ایسی چیز کی کوئی ضد اور ند جیسے اوٖصاف سے بیان کیا جا سکتا ہے۔اسی فکر کی بنا پر وہ وجود خدا کے اثبات کیلئے مفاہیم حدوث اور قدم کا باہم مقائسہ کرتے ہیں اور پھر وجوب اور امکان کی طرف توجہ کرتے ہیں تو اس سے برہان صدیقین جیسی برہان قائم کرتے ہیں۔

فلسفۂ اسلامی میں خدا قابل تعریف نہیں ہے کیونکہ اسکی ماہیت نہیں ہے کہ اسے حد و رسم کے ذریعے تعریف کر سکیں یعنی خدا کو دیکھا نہیں جا سکتا اور نہ ہی اس کی صفت بیان کی جا سکتی ہے۔ دین اسلام میں خدا یک و تنہا ہے اور اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔زمین اور آسمانوں کا مالک ہے اور اسی نے انسان کو خلق کیا اور اسے عقل سے نوازا وہ ہی تمام ہستی اور مخلوق کا خالق ہے۔ اس کا کوئی بیٹا نہیں اور نہ وہ کسی کا بیٹا ہے۔وہ بے نیاز ہے اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا خدا موجود نہیں ہے۔[36]

عرفان

اہل عرفان خدا کو دیگر علوم کی نسبت مختلف نگاہ سے دیکھتے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہئے ان کے ہاح خدا کا تصور فلسفیوں کے خدا کے تصور کے مقابل ہے۔ یہ تصور اوائل اسلام سے ہی محل توجہ تھا اور مانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے اس نظریے میں آہستہ آہستہ اس میں پختگی آتی رہی اور پہلے کی نسبت زیباتر تعبیریں استعمال ہوتی رہیں۔علم عرفان میں ابتدا میں خدا کے متعلق ابحاث عقلانی اور استدلالی مورد توجہ نہ تھی بلکہ خدا اور انسان کے درمیان دو جانبہ رابطے کی تاکید کی گئی ہے۔ اس میں مفہوم عشق کا رابطہ زیادہ ہے۔


اہل عرفان کی نگاہ سے خدا کی حقیقی معرفت معرفت نظری اور استدلالی نہیں ہے بلکہ ایسی معرفت ہے جو سلوک عملی پر مبتنی ہے۔ اہل عرفان کی نہایت شہود،اشراق، حجاب کا برطرف ہونا،اپنی ذات اور ہوئے نفسانی دوری،عقل جزئی سے بالا تر، کسی واسطے کے بغیر شناخت خدا اور وصال ہے۔ [37]

اہل عرفان کے مبنا کے مطابق ہر انسان میں خداپرستی ہے اور اسکی فطرت عشق الہی سے ملی ہوئی ہے بس اسے چاہئے کہ وہ اپنے اس جنبے کو زندہ کرے اور خدا کی سطحی شناخت ( ممکن ہے اہل عرفان کی نگاہ میں کلامی اور فلسفی شناخت خدا سطحی ہو) سے بالاتر مرتبے کی شناخت تک پہنچے۔

البتہ یہی تفکر عرفانی میں جنبہ استدلالی بھی پایا جاتا ہے چنانچہ مثلا عشق، محبت حادث و قدیم سے اس میں بحث ہوئی یا وحدت شہود اور وحدت وجود۔اس تفکر کا اوج ابن عربی کا عرفان ہے کہ جس میں نئی ابحاث ہیں اور اس میں نظریۂ صدور یا فیض محل بحث قرار پایا ہے اور اس میں علم الہی، مراحل خلقت، مفاہیم اعیان ثابتہ، فیض اقدس، فیض مقدس اور وحدت وجود کے بارے میں بحث ہوئی ہے۔ [38].

یہودیت اور مسیحیت

مسیحیت کے عہد جدید (چار انجیلیں) میں اسی طرح خدا کو ازلی، معبود اور لاشریک پائیں گے جس طرح عیسی نے خدا کو واحد حقیقی کہا تھا۔ [39] لیکن کتاب مقدس کی بعض مغالطہ آمیز عبارتوں اور غلط استفادے کی وجہ سے یہ توحید کی تعلیم تثلیث کے مشرکانہ عقیدے کے ساتھ مخلوط اور تناقض کا شکار ہو گئی ہے۔جیسا کہ یہ عبارتیں: انہیں اسم اب، ابن اور روح القدس سے غسل دو۔ [40]

اسی بنیاد پر آج کی مسیحیت میں خدا کی توحید کا اعتقاد اقانیم ثلاثہ کے ضمن میں پیدا ہو گیا ہے کہ جو منطقی لحاظ سے قابل قبول نہیں اور توحید کی الوہیت کے خاتمے کا موجب ہے۔

یہودیت میں بھی مسئلہ اسی نوعیت کا ہے۔

یہودیوں کی مقدس کتاب کے سفر تورات کے بعض حصے واضح طور پر خدائے واحد، ازلی اور اس کی بے نیازی کو یہودیت کے اصلی عقائد شمار کرتی ہے:

‌اے اسرائیل سنو! یهوِه ہمارا خدا ہے اور ہمارا خدا واحد ہے [41] لیکن اسی تورات میں خدا کی صفات کے بارے میں اس طرح گفتگو ہوئی ہے کہ وہ توحید کی اساس اولیہ کو ہی ختم کر دیتی ہیں۔ جیسے حضرت یعقوب کی طرف ایک داستان کی نسبت دی گئی ہے کہ جس میں اس نے خدا سے کشتی کی ہے۔ [42]

مختلف زبانوں میں خدا کے نام

فارسی عربی انگلیسی انگریزی فرانسیسی عِبری قدیمی مصر جرمن یونانی سنسکرت سریانی اینکا کلدانی ہسپانوی
خدا،ایزد الله God رئوس دی یو یَهُوِه آتون گوت تِئوس دیوا ایلو یایا نابو دِیوس

حوالہ جات

  1. رجوع کریں: بورکہارت، ہنر مقدس
  2. قولوا لااله الااللّه تفلحوا» مجلسی، بحارالانوار، ج ۱۸، ص۲۰۲
  3. سوره اعراف، آیت ۱۸۰؛ سوره اسراء، آیت ۱۱۰؛ سوره طہ، آیت ۸؛ سوره حشر، آیت ۲۴.
  4. سوره بقره، آیت ۱۳۳؛ سوره آل عمران، آیت ۸۴؛ سوره نساء، آیت ۱۶۳.
  5. سوره اعراف، آیت ۱۷۲.
  6. سبحانی، مفاہیم القرآن، ج۶، ص۱۰۵
  7. دائرة المعارف قرآن کریم، ج۳، ص۲۹۵-۲۹۷
  8. الرسائل التوحیدیہ، ص۳۶ ـ ۳۷؛ بحارالانوار، ج ۴، ص۱۸۶
  9. اعراف، آیت۱۸۰
  10. سوره اخلاص، آیت۱
  11. سوره آل‌عمران، آیت2
  12. سوره محمّد، آیت۱۹
  13. سوره انفال، آیت۱۷
  14. سوره اخلاص، آیت۲
  15. سوره اخلاص، آیت۳
  16. سوره اخلاص، آیت۴
  17. سوره شورا، آیت۱۱
  18. سوره انعام، آیت۱۰۳
  19. سوره بقره، آیت۲۵۵
  20. سوره شوری، آیت۱۱
  21. سوره زمر، آیت۶۲
  22. سوره روم، آیت۱۱
  23. سوره آل‌عمران، آیت۱۰۹
  24. سوره آل‌عمران، آیت۵۱)
  25. سوره انفال، آیت۲۴
  26. سوره آل‌عمران، آیت۲۶
  27. سوره حدید، آیت۵
  28. سوره نجم، آیت۴۲
  29. سوره بقره، آیت۲۵۵
  30. سوره نحل، آیت۶۰
  31. سورہ حج، آیت۷۵)
  32. سوره بقره، آیت۱۲۴
  33. سوره نساء، آیت۳۶
  34. سورہ ہود، آیت۲
  35. سوره نساء، آیت۹
  36. قرآن مجید، سوره توحید
  37. رک: عین القضات، زبدة الحقایق، ۱۳۷۹ش، ص۲۹ـ۳۰.
  38. رجوع کنید به ابن عربی، ج۱، ص۴۸ـ۵۶
  39. کتاب مقدس، کتاب یوحنّا، باب ۱۷، آیت ۳.
  40. انجیل متی کا آخری حصہ
  41. تثنیہ ، ۴:۶
  42. سفر پیدایش ۳۲: ۲۴-۳۲

مآخذ

  • قرآن کریم.
  • ‌پاول ہرن، اساس اشتقاق فارسی، [با توضیحات یوہان ہاینریش ہوبشمان]، ترجمہ جلال خالقی مطلق، تہران، ۱۳۵۶ش.
  • ‌تیتوس بورکهارت، ہنر مقدس: اصول و روشہا، ترجمہ جلال ستاری، تہران، ۱۳۶۹ش.
  • دانشنامہ جہان اسلام، مدخل «خدا».
  • ‌سبحانی، جعفر، مفاہیم القرآن، قم، مؤسسة الامام الصادق، ۱۴۱۲ق، چاپ اول.
  • ‌عبداللّه بن محمد عین القضاة، زبدةالحقایق، متن عربی به تصحیح عفیف عُسیران، ترجمہ فارسی مہدی تدین، تہران، ۱۳۷۹ش.
  • ‌علامہ طباطبائی، سید محمد حسین، الرسائل التوحیدیہ، بیروت، مؤسسہ النعمان، ۱۴۱۹ق.
  • ‌مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، ۱۴۰۳ق ۸۳م.
  • ‌محسن ابوالقاسمی، ریشه شناسی (اتیمولوژی)، تہران، ۱۳۷۴ش.
  • ‌محمدحسین بن خلف برهان، برهان قاطع، چاپ محمدمعین، تہران، ۱۳۶۱ش.
  • ایزدپناه، مهرداد، آشنایی با دین زرتشت، چاپ دوم: انتشارات محور، ۱۳۸۵.