ینبع

ویکی شیعہ سے
ینبع
جغرافیائی اعتبار سے شہر ینبع کا جائے وقوع
جغرافیائی اعتبار سے شہر ینبع کا جائے وقوع
عمومی معلومات
ملکسعودی عرب
صوبہمدینہ منورہ
تاریخی خصوصیات
تاریخ اسلامسنہ 2 ہجری میں مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوا
تاریخ تشیعصدر اسلام
تاریخی مقاماتکوہ رضوی


یَنبَع مدینہ منورہ کے مغرب میں واقع ایک ایسا شہر ہے جو اپنے چشموں اور جھرنوں کی وجہ سے بڑی شہرت رکھتا ہے اور اسی شہرمیں مشہور پہاڑ کوہ رضوی بھی ہے۔ سنہ 2 ہجری میں اس شہر پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا۔

پھر کچھ اتفاقات ایسے ہوئے جن کے سبب یہ شہر امام علی علیہ السلام کے اختیار میں آگیا آپ نے اس خطہ کو زراعت اور کاشت کے لائق بنایا پھر اسے آل علی کے لئے وقف کردیا اوراس طرح آل علی میں سے امام حسن علیہ السلام کی اولاد اس علاقہ میں آکر آباد ہوگئی۔ واقعہ حرہ میں امام سجاد علیہ السلام کا مروان بن حکم کو پناہ دینا اور نفس زکیہ کا آکر اسی خطہ میں مخفی ہو جانا اس علاقہ کے اہم اور تاریخی واقعات میں سے ہیں۔

جائے وقوع اور اس کا نام

ینبع دریائے سرخ کے ساحل پر واقع[1] حجاز کا ایک علاقہ ہے[2] جو مدینہ میں شامل ہے۔[3] یہ شہر، مدینہ کے مغربی سمت میں [4] 7 منزل [5] یا 9 منزل کے فاصلہ پر[6] واقع ہے جبکہ کچھ ماہرین جغرافیہ مدینہ اور اس شہر کے درمیان دوری کو چار دن کی مسافت قرار دیتے ہیں [7] اور آج کے اعتبار سے اس شہر کا مدینہ سے فاصلہ تقریباً 225 کلومیٹر ہے۔[8]

قدیم زمانے میں اس خطے کے اندر بہت سے کھجور کے باغ ، زرخیز زمینیں[9] اور پانی کے جوش مارتے ہوئے لا تعداد چشمے [10] موجود تھے لہذا پانی کے جوش مارتے لاتعداد چشموں کی وجہ سے ہی اس علاقہ کو ینبع کہا جاتا تھا۔[11] نفس زکیہ عباسی خلیفہ منصوردوانقی کے دور حکومت میں کچھ عرصہ کوہ رضوی پہاڑی کے دامن میں پوشیدہ رہے۔[12]

قدیم زمانے میں مصر [13] اورشام [14] سے حج کے لئے مدینہ کے راستے مکہ پہنچنے والے سارے قافلے اسی شہر سے گذر کر جایا کرتے تھے۔ اور شہر سے کوہ رضوی کا فاصلہ تقریباً ایک منزل کی مسافت پر ہے۔[15] نیز نفس زکیہ عباسی خلیفہ منصوردوانقی کے دور حکومت میں کچھ عرصہ تک اسی پہاڑی میں پوشیدہ رہے۔[16]

امام علی علیہ السلام کے اوقاف

یہ شہر پیغمبر اکرمؐ کے دوسرے غزوے غزوہ ذوالعشیرہ[17] کے وقت سنہ 2ہجری میں بغیر لڑائی کے مسلمانوں کے اختیار میں آیا تھا۔[18] اور خود پیغمبر اکرمؐ نے اس علاقہ کو کچھ مسلمانوں کے سپرد کردیا تھا [19] البتہ امام علی علیہ السلام نے اسے ان افراد سے خرید کر اسے کاشت کے قابل بنایا اور اس میں بہت سے کنویں کھود کر پانی کا بندوبست کیا۔[20] جبکہ بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ اس علاقہ کو خود پیغمبر اکرمؐ[21] یا خلیفہ ثانی ]][22] نے حضرت علی علیہ السلام کو ایک معینہ مدت کے لئے استعمال کرنے کے لئے ودیعت کردیا تھا۔

اسلامی مآخذ میں یہ تذکرہ موجود ہے کہ اس علاقہ میں حضرت علی علیہ السلام کے بہت سے اوقاف تھے۔[23] امام حسن علیہ السلام نے اس علاقہ سے حاصل ہونے والے فوائد کو عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب کو عنایات کردیا تھا لیکن انھوں نے بعد میں اسے معاویہ بن ابی سفیان کو دے دیا۔[24] البتہ صلح امام حسن علیہ السلام کے بعد بھی آل علی کے لئے اس علاقہ میں بہت سی زرخیز زمینیں باقی رہ گئیں تھیں چونکہ واقعہ حرہ کے وقت امام سجاد علیہ السلام شہر ینبع تشریف لے گئے تھے[25] اور ایک روایت کے مطابق مروان کے اہل و عیال کو بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ وہاں لے گئے تھے۔[26]

عبداللہ بن حسن مثنی نے عباسی خلیفہ سفاح کے دور حکومت میں ان اوقاف کو حاصل کرنے کے لئے بڑی جد و جہد کی۔[27] اور کئی مرتبہ حکومت اور فرزندان علیؑ کے درمیان ان اوقاف کے سلسلہ میں لفظی تکرار تک ہوئی[28] اور آخرکار مہدی عباسی نے یہاں کے سارے اوقاف آل علی کو واپش کر دیئے۔[29]

اس خطہ میں آباد لوگ

اکثر تاریخی کتب کے مطابق ینبع شہر کے زیادہ تر باشندے انصار،[30] اور امام حسن علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔[31] نیز زیدیہ[32] اور قبیلہ جہنیہ [33] بھی کچھ لوگ یہاں آکر آباد ہوگئےتھے۔ اس خطہ کا سب سے مشہور و معروف شخص حسن بن قاسم بن محمد ہے جو 664ھ میں ینبع سے مراکش چلے گئے تھے ۔[34] اور انھوں نے وہاں جاکر ایک حکومت کی بنیاد ڈالی تھی۔[35]

حوالہ جات

  1. زرکلی، الأعلام، ۱۹۸۹ء، ج۶، ص۲۸۳؛ احمد، حجاز در صدر اسلام، ۱۳۷۵ش، ص۹۷۔
  2. مقدسی، احسن التقاسیم، ۱۴۱۱ھ ، ص۲۹۔
  3. سمعانی، الأنساب، ۱۳۸۲ ھ ، ج۱۳، ص۵۲۸۔
  4. صبری پاشا، موسوعۃ مرآۃ الحرمین، ۱۴۲۴ ھ ، ج۵، ص۱۴۶۔
  5. سخاوی، البلدانیات، ۱۴۲۲ ھ ، ص۲۹۸؛ یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵ء، ج۵، ص۴۵۰۔
  6. مسعودی، التنبیہ و الإشراف، قاہرہ، ص۲۰۳۔
  7. سمہودی، وفاء الوفاء، ۲۰۰۶ء ، ج۴، ص۱۶۶۔
  8. صبری پاشا، موسوعۃ مرآۃ الحرمین، ۱۴۲۴ھ ، ج۵، ص۱۴۶۔
  9. حافظ ابرو، جغرافیا، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۲۱۸۔
  10. یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵ء ، ج۵، ص۴۵۰؛ سمہودی، وفاء الوفاء، ۲۰۰۶ء، ج۴، ص۱۶۶۔
  11. یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵ء، ج۵، ص۴۵۰؛ سمہودی، وفاء الوفاء، ۲۰۰۶ء ، ج۴، ص۱۶۶۔
  12. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ھ ، ج۷، ص۵۳۵۔
  13. سخاوی، البلدانیات، ۱۴۲۲ھ، ص۲۹۸۔
  14. یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵ء ، ج۵، ص۴۵۰۔
  15. ابن عبدالحق بغدادی، مراصد الإطلاع، ۱۴۱۲ھ ، ج۳، ص۱۴۸۵؛ یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵ء، ج۵، ص۴۵۰۔
  16. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ھ ، ج۷، ص۵۳۵۔
  17. مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۱۲ھ ، ج۲، ص۲۸۱۔
  18. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، بیروت، ج۲، ص۶۶؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ھ ، ج۲، ص۴۰۸۔
  19. واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ھ ، ج۱،ص۲۰۔
  20. سمہودی، وفاء الوفاء، ۲۰۰۶ء، ج۴، ص۱۶۶؛ احمد، حجاز در صدر اسلام، ۱۳۷۵ش، ص۹۸۔
  21. یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵ء ، ج۵، ص۴۵۰۔
  22. بلاذری، فتوح البلدان، ۱۹۸۸ھ ، ص۲۴؛ ابن عبدالحق بغدادی، مراصد الإطلاع، ۱۴۱۲ھ، ج۳، ص۱۴۸۵۔
  23. احمد، حجاز در صدر اسلام، ۱۳۷۵ش، ص۹۸، یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵ء، ج۵، ص۴۵۰۔
  24. احمد، حجاز در صدر اسلام، ۱۳۷۵ش، ص۹۹۔
  25. بلعمی، تاریخ نامہ طبری، ۱۳۷۳ش، ج۴، ص۷۱۸۔
  26. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ھ ، ج۵، ص۴۸۵۔
  27. احمد، حجاز در صدر اسلام، ۱۳۷۵ش، ص۹۹۔
  28. ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، بیروت، ص۱۸۹۔
  29. احمد، حجاز در صدر اسلام، ۱۳۷۵ش، ص۹۹۔
  30. ابن جوزی، المنتظم، بیروت، ج۱، ص۱۴۲۔
  31. یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵ء، ج۵، ص۴۵۰۔
  32. سخاوی، البلدانیات، ۱۴۲۲ھ ، ص۲۹۸۔
  33. ابن حبیب، المنمق، ۱۴۰۵ق، ص۱۳۳۔
  34. سلاوی، احمد، الاستقصاء، ۱۴۲۸ھ، ج۱، ص۴۲۷۔
  35. سلاوی، احمد، الاستقصاء، ۱۴۲۸ھ ، ج۱، ص۴۲۷۔


مآخذ

  • ابن جوزی، عبدالرحمن بن علی، المنتظم فی تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، بے ‌تا۔
  • ابن حبیب بغدادی، محمد، المنمق فی اخبار قریش، تحقیق خورشید احمد فاروق، بیروت، عالم الکتب، ۱۴۰۵ھ ۔
  • ابن عبدالحق بغدادی، صفی‌الدین عبد المومن، مراصد الإطلاع علی أسماء الأمکنۃ و البقاع، دارالجیل، بیروت، ۱۴۱۲ھ ۔
  • ابوالفرج اصفہانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، تحقیق سید احمد صقر، بیروت،‌ دار المعرفۃ، بے ‌تا۔
  • احمد، علی صالح، حجاز در صدر اسلام، ترجمہ عبدالمحمد آیتی، تہران، نشر مشعر، ۱۳۷۵ہجری شمسی۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، فتوح البلدان، بیروت،‌ دار و مکتبۃ الہلال، ۱۹۸۸ء۔
  • بلعمی، تاریخ نامہ طبری، تحقیق محمد روشن، تہران، البرز، چاپ سوم، ۱۳۷۳ہجری شمسی۔
  • حافظ ابرو، عبداللہ بن لطف‌اللہ، جغرافیای حافظ ابرو، تحقیق صادق سجادی، تہران، میراث مکتوب، ۱۳۷۵ہجری شمسی۔
  • زرکلی، خیرالدین، الأعلام قاموس تراجم لأشہر الرجال و النساء من العرب و المستعربین و المستشرقین، بیروت، دارالعلم للملایین، چاپ ہشتم، ۱۹۸۹ھ ۔
  • سخاوی، محمد بن عبدالرحمن، البلدانیات، تحقیق حسام بن محمد قطان، ریاض،‌ دار العطاء، ۱۴۲۲ھ ۔
  • سلاوی، احمد، الاستقصاء لاخبار الدول المغرب الاقصی، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۲۸ھ ۔
  • سمعانی، عبدالکریم بن محمد، الأنساب، تحقیق عبدالرحمن بن یحیی المعلمی، حیدرآباد، مجلس دائرۃ المعارف العثمانیۃ، ۱۳۸۲ھ ۔
  • سمہودی، علی بن احمد، وفاء الوفاء بأخبار دارالمصطفی، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، ۲۰۰۶ء ۔
  • صبری پاشا، ایوب، موسوعۃ مرآۃ الحرمین، ۱۴۲۴ھ ، قاہرہ، دارالافاق العربیہ، چاپ اول، ۱۴۲۴ ھ ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد أبو الفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، چاپ دوم، ۱۳۸۷ ھ ۔
  • مسعودی، علی بن حسین، التنبیہ و الإشراف، تصحیح عبداللہ اسماعیل الصاوی، قاہرۃ، دارالصاوی، بے ‌تا۔
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق اسعد داغر، قم، دارالہجرۃ، چاپ دوم، ۱۴۰۹ ھ ۔
  • مقدسی، محمد بن أحمد، أحسن التقاسیم فی معرفۃ الأقالیم، قاہرۃ، مکتبۃ مدبولی، چاپ سوم، ۱۴۱۱ ھ ۔
  • واقدی، محمد بن عمر، المغازی، تحقیق مارسدن جونس، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی، چاپ سوم، ۱۴۰۹ ھ ۔
  • حموی، یاقوت بن عبداللہ، معجم البلدان، بیروت،‌ دار صادر، چاپ دوم، ۱۹۹۵ء۔
  • یعقوبی، احمد بن ابی‌یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت،‌ دار صادر، بے ‌تا۔