حديث ثقلین
حدیث ثقلین | |
---|---|
[[ملف:|250px ]] | |
حدیث کے کوائف | |
موضوع: | منزلت قرآن و اہل بیتؑ |
صادر از: | رسول خداؐ |
راویان: | امام علی ؑ، ابوذر، ابو ہریره، زید بن ارقم، زید بن ثابت، جابر بن عبدالله انصاری |
اعتبارِ سند: | متواتر |
شیعہ مآخذ: | الکافی، کمال الدین، امالی صدوق، امالی مفید، امالی طوسی، عیون اخبار الرضا، الغیبہ نعمانی، بصائر الدرجات |
سنی مآخذ: | سنن نسائی، المعجم الکبیر طبرانی، سنن ترمذی، مستدرک حاکم، مسند احمد |
مشہور احادیث | |
حدیث سلسلۃ الذہب.حدیث ثقلین.حدیث کساء.مقبولہ عمر بن حنظلہ.حدیث قرب نوافل.حدیث معراج. حدیث ولایت.حدیث وصایت.حدیث جنود عقل و جہل |
حدیث ثقلین رسول خداؐ کی مشہور اور متواتر حدیث ہے جس میں آپ نے فرمایا: "میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں اللہ کی کتاب (قرآن کریم) اور عترت یا اہل بیت چھوڑے جا رہا ہوں۔ اگر ان دونوں سے متمسک رہوں گے تو ہرگز گمراہ نہیں ہوگے۔ قرآن اور اہل بیت قیامت تک ایک دوسرے سے الگ نہیں ہونگے" یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوں گے۔
یہ حدیث تمام مسلمانوں کے یہاں متفق علیہ ہے اور شیعہ و سنی کتب حدیث میں نقل ہوئی ہے۔ شیعہ اس حدیث کے سہارے لزوم امامت اور ائمہؑ کی عصمت اور تمام زمانوں میں امامت کے دوام اور تسلسل کا ثبوت دیتے ہیں۔
متن حدیث
رسول اللہ(ص) نے فرمایا:
إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا كِتَابَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَأَهْلَ بَيْتِى عِتْرَتِى أَيُّهَا النَّاسُ اسْمَعُوا وَقَدْ بَلَّغْتُ إِنَّكُمْ سَتَرِدُونَ عَلَيَّ الْحَوْضَ فَأَسْأَلُكُمْ عَمَّا فَعَلْتُمْ فِى الثَّقَلَيْنِ وَالثَّقَلَانِ كِتَابُ اللَّهِ جَلَّ ذِكْرُهُ وَأَهْلُ بَيْتِى فَلَا تَسْبِقُوهُمْ فَتَهْلِكُوا وَلَا تُعَلِّمُوهُمْ فَإِنَّهُمْ أَعْلَمُ مِنْكُمْ۔
ترجمہ: بے شک میں دو امانتیں تمہارے درمیان چھوڑے جا رہا ہوں، اگر انہیں قبول کرو تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ 1۔ خدائے عز و جل کی کتاب (قرآن) اور 2۔ میرے اہل بیت اور میری عترت، اے لوگو! سنو! میں تمہیں یہ حقیقت پہنچا چکا کہ تمہیں میرے پاس حوض کے کنارے لوٹا دیا جائے گا اور میں ان دو بھاری اور گران بہاء امانتوں کے ساتھ تمہارے برتاؤ کے بارے میں تم سے بازخواست کروں گا اور یہ دو بھاری امانتیں کتاب خدا اور میرے اہل بیت ہیں۔ پس ان سے آگے بڑھنے کی کوشش مت کرو اور انہیں کچھ سکھانے کی کوشش نہ کرو کیونکہ وہ تم سے زیادہ عالم و دانا ہیں۔
یہ حدیث مختلف روایات میں مختلف عبارتوں کے ساتھ وارد ہوئی ہے گوکہ اس کا مضمون ایک ہی ہے۔
اہل تشیع کی بنیادی چار کتابوں میں شامل اصول کافی میں یہ حدیث اس صورت میں وارد ہوئی ہے:
"...إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا، كِتَابَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَأَهْلَ بَيْتِى عِتْرَتِى أَيُّهَا النَّاسُ اِسْمَعُوا وَقَدْ بَلَّغْتُ إِنَّكُمْ سَتَرِدُونَ عَلَيَّ الْحَوْضَ فَأَسْأَلُكُمْ عَمَّا فَعَلْتُمْ فِى الثَّقَلَيْنِ وَالثَّقَلَانِ كِتَابُ اللَّهِ جَلَّ ذِكْرُهُ وَأَهْلُ بَيْتِى..."۔[1]
- ترجمہ: میں تمہارے درمیان دو امانتیں چھوڑے جارہا ہوں، تم ان کا دامن تھامے رکھوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے: کتاب خدا اور میری عترت جو اہل بیت علیہم السلام اور میرے خاندان والے ہیں۔ اے لوگو! سنو، میں نے تمہیں یہ پیغام پہنچا دیا کہ تمہیں حوض کے کنارے میرے سامنے لایا جائے گا؛ چنانچہ میں تم سے پوچھوں گا کہ تم نے ان دو امانتوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا؛ یعنی کتاب خدا اور میرے اہل بیت۔
احمد بن شعیب نسائی نے اپنی کتاب سنن نسائی ـ جو اہل سنت کی صحاح ستہ میں سے ایک ہے ـ میں اس حدیث کو اس صورت میں نقل کرتے ہیں:
- "...كَأَنِّي قَدْ دُعِيتُ فَأَجَبْتُ، إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ: أَحَدُهُمَا أَكْبَرُ مِنَ الآخَرِ، كِتَابُ اللَّهِ تَعَالَى، وَعِتْرَتِي، فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيهِمَا، فَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ..."
- ترجمہ: گویا مجھے خالق یکتا نے بلایا ہے اور میں نے بھی یہ دعوت قبول کرلی ہے (اور میرا وقت وصال آن پہنچا ہے) میں تمہارے درمیان دو گراں بہاء امانتیں چھوڑے جارہا ہوں جن میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے: کتاب خدا اور میری عترت ـ جو میرے اہل بیت ہی ہیں ـ پس دیکھو کہ ان کے ساتھ کیا رویہ روا رکھتے ہو کیونکہ وہ کبھی جدا جدا نہیں ہوتیں حتی کہ حوض کے کنارے مجھ سے آ ملیں۔[2]
حدیث کے مآخذ اور سند
یہ حدیث ان روایات میں سے ہے جو شیعہ اور اہل سنت کے علماء کے نزدیک مقبول ہے اور سند کے لحاظ سے اس کے صدور میں پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔[3]
سنی مآخذ
کتاب حدیث الثقلین و مقامات اہل البیت کتاب حدیث الثقلین و مقامات اہل البیت[4] کے مطابق اصحاب رسول(ص) میں سے 25 افراد نے یہ حدیث نقل کی ہے۔ ان میں سے بعض صحابیوں کے نام کچھ یوں ہیں:
- زید بن ارقم یہ حدیث نسائی کی سنن الکبری،[5] طبرانی کی المعجم الکبیر،[6] ترمذي کی سنن،[7] حاکم نیشابوری کی مستندرک علی الصحیحین،[8] احمد بن حنبل کی مسند [9] اور دیگر کتب میں چھ واسطوں سے، زید بن ارقم کے حوالے سے نقل ہوئی ہے۔
- زید بن ثابت سے مسند احمد[10] اور طبرانی کی المعجم الکبیر میں۔[11]
- جابر بن عبدالله سے سنن (الجامع الصحيح) ترمذی،[12] اور طبرانی کی المعجم الکبیر[13] اور المعجم الاوسط[14] میں۔
- حذیفة بن أسید سے طبرانی کی المعجم الکبیر میں۔[15]
- ابو سعید خدری سے مسند احمد میں چار مقامات پر[16] اور العقیلی کی ضعفاء الکبیر[17] میں۔
- امام علیؑ کے حوالے سے دو واسطوں سے البحر الزخار (یا مسند البزاز[18] اور متقی ہندی کی کنز العمال[19] میں۔
- ابوذر غفاری سے دارقطنی کی المؤتلف والمختلف[20] میں۔
- ابو ہریرہ سے کشف الاستار عن زوائد البزار[21] میں۔
- عبداللہ بن حنطب سے ابن اثیر کی اسد الغابہ[22] میں۔
- جبیر بن مطعم سے ظلال الجنہ[23] میں۔
- بعض صحابہ اور انصار ـ منجملہ: خزیمہ بن ثابت، سہل بن سعد، عدی بن حاتم، عقبہ بن عامر، ابو ایوب انصاری، ابو سعید الخدری، ابو شریح الخزاعی، ابو قدامہ انصاری، ابو لیلی، ابو الہیثم بن التیہان، اور بعض قریشی جنہوں نے امام علیؑ کی درخواست پر اٹھ کر اس حدیث کو نقل کیا۔خطا در حوالہ: Closing
</ref>
missing for<ref>
tag۔[24]۔[25]
کتاب غایة المرام و حجة الخصام جناب بحرانی نے یہ حدیث 39 واسطوں سے کتب اہل سنت سے نقل کی ہے۔
مذکورہ کتاب کے مطابق یہ حدیث اہل سنت کی مشہور اور معتبر کتب ـ مسند احمد، صحیح مسلم، مناقب ابن المغازلی، سنن ترمذی، ثعلبی کی کتاب العمدہ، مسند ابی یعلی، طبرانی کی المعجم الاوسط ابن البطریق کی العمدہ، قندوزی کی کتاب ینابیع المودہ، ابن المعازلی کی کتباب الطرائف حموینی جوینی کی فرائد السمطين في سيرة المرتضي والبتول والسبطين اور ابن ابی الحدید کی شرح نہج البلاغہ ـ میں نقل ہوئی ہے۔[26]
شیعہ مآخذ
غایة المرام و حجة الخصام کے مطابق شیعہ مآخذ میں منقولہ 82 احادیث "حدیث ثقلین کے مضمون و مفہوم کی حامل ہیں جو کلینی کی الکافی، شیخ صدوق کی کمال الدین، ان ہی کی الامالی اور عیون اخبار الرضا، شیخ مفید کی الامالی، شیخ طوسی کی الامالی، نعمانی کی الغیبۃ نعمانی، محمد بن حسن صفار کی بصائر الدرجات اور متعدد دیگر علماء کی کتب میں نقل ہوئی ہیں۔[27]
یک موضوعی کاوشیں
علمائے شیعہ نے اپنی کتب اور مکتوبات میں حدیث ثقلین نقل کرنے کے علاوہ اس موضوع پر مستقل کتب بھی تالیف کی ہیں جن میں سے بعض حسب ذیل ہیں:
- حدیث الثقلین مؤلف: قوام الدین محمد وشنوی قمی؛ (زبان: عربی)؛
- سعادة الدارین فی شرح حدیث الثقلین مؤلف: عبد العزیز دہلوی (زبان: فارسی)؛
- حدیث الثقلین مؤلف: نجم الدین عسکری (زبان: عربی)؛
- حديث الثقلين تواتره و فقهہ مؤلف: سید علی میلانی (زبان: عربی)؛
- حدیث الثقلین و مقامات اهل البیت مؤلف: احمد الماحوزی، (زبان: عربی) وغیرہ ۔
درایۃ الثقلین اسمارٹ سافٹ ویئر
اس سافٹ ویئر میں حدیث ثقلین پر تحقیق کی گئی ہے۔ اس کی تیاری اور اشاعت کا کارنامہ عالمی اہل بیتؑ اسمبلی کی نظامت عامۂ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے سرانجام دیا ہے۔
حدیث ثقلین کے بیان کا سبب اور وقت
پیغمبر اسلام نے حدیث ثقلین کب اور کہاں بیان کی ہے؟ اس میں اختلاف ہے۔ ابن حجر ہیتمی کہتے ہیں:[28] رسول اکرمؐ نے یہ حدیث فتح مکہ سے واپسی کے وقت طائف کے راستے میں بیان فرمائی ہے؛ جبکہ دوسروں نے کہا ہے:
- ترمذی کے مطابق پیغمبر اسلام نے روز عرفہ اونٹ کی پیٹ پر بیٹھ کر یہ حدیث بیان فرمائی؛[29] جبکہ امین الاسلام طبرسی کا کہنا ہے کہ آپؐ نے یہ حدیث حجۃ الوداع[30] کے موقع پر بیان کی ہے۔
- احمد بن حنبل اور مسلم بن حجاج نیشابوری کا کہنا ہے کہ رسول اکرمؐ نے اس حدیث کو غدیر خم (تالاب خم) کے کنارے، حجاج کے منتشر ہونے سے پہلے بیان فرمایا ہے[31]۔[32] اور حدیث غدیر اس کے تسلسل میں بیان ہوئی ہے۔[33]۔[34]۔[35]
- عیاشی کا کہنا ہے کہ آپؐ نے مذکورہ حدیث جمعہ کے روز حدیث غدیر کے ساتھ ہی بیان فرمائی۔[36]
- صفار قمی نے لکھا ہے کہ رسول اللہؐ نے ایام تشریق (اور قیام مِنٰی) کے دوران مسجد خَیف میں نماز جماعت کے موقع پر یہ حدیث بیان کی۔[37]
- شیخ صدوق اور جوینی خراسانی کا کہنا ہے کہ آپؐ نے یہ حدیث منبر کے اوپر سے بیان فرمائی۔[38]۔[39]
- عیاشی نے دوسری روایت میں نیز طبرسی نے کہا ہے کہ آپؐ نے یہ حدیث مسلمانوں سے اپنے آخری خطبے میں بیان فرمائی۔[40]۔[41]
- دیلمی کی روایت کے مطابق آپؐ نے اس حدیث کو اپنی آخری نماز جماعت کے بعد لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے بیان فرمایا۔[42]
- ہیتمی کا کہنا ہے کہ رسول اللہؐ نے بیماری کے بستر پر اس حدیث کو اس وقت بیان کیا جب اصحاب آپ کی بالین پر حاضر تھے۔[43]
ان روایات کے متن میں غور کرکے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض روایات کا تعلق ایک ہی واقعے سے ہے لیکن تمام کا تعلق ایک واقعے سے قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ان سے صراحت کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے کہ رسول خداؐ نے اس حدیث کو مختلف مواقع اور مختلف مقامات پر متعدد بار یہ حدیث بیان فرمائی ہے؛ اور بطور خاص اپنی حیات طیبہ کے آخری ایام میں ان دو الہی امانتوں (یعنی قرآن اور اہل بیتؑ) کو خاص طور پر توجہ دی ہے۔[44]۔[45]۔[46]
سنت یا عترت
اہل سنت کے بعض مصادر حدیث میں حدیث ثقلین میں "عترتی" کے بجائے لفظ "سنتی" بیان ہوا ہے[47] تاہم اس طرح کی حدیثیں بہت شاذ و نادر ہیں اور اہل سنت کے علماء نے بھی ان کو لائق اعتنا نہیں سمجھا ہے؛ کیونکہ یہ حدیث اس عبارت کے ساتھ مصادر اولیہ میں نقل نہیں ہوئی ہے اور اہل سنت کے متکلمین نے مذاہب کے درمیان کلامی تنازعے کے حوالے سے اس کو توجہ نہیں دی ہے۔ اور پھر اس عبارت کے ساتھ منقولہ چار واسطے ضعیف اور ناقابل اعتناء اور ان کی سند میں آنے والے افراد اہل سنت کے علمائے رجال کے نزدیک، ضعیف، جھوٹے اور ناقابل اعتماد ہیں۔[48]
عترت کا تعارف
حدیث کی عبارت میں لفظ "اہل بیت" "عترت" کی تشریح کے عنوان سے آیا ہے لیکن بعض روایات میں صرف لفظ "عترت" آیا ہے[49]۔[50] اور بعض روایات میں صرف لفظ "اہل بیت"[51]۔[52] آیا ہے اور بعض عبارتوں میں اہل بیت کی سفارش دہرائی گئی ہے۔[53]۔[54]۔[55]۔[56]
حدیث ثقلین کے سلسلے میں بعض شیعہ شیعہ روایات میں لفظ اہل بیتؑ کی وضاحت کرتے ہوئے ائمۂ اثنا عشر کو مصداق اہل بیتؑ قرار دیا گیا ہے۔[57]۔[58]۔[59]
حدیث ثقلین کی اہمیت و دلالت
علمائے شیعہ نے حدیث ثقلین کو اپنی بہت سی کتب میں نقل کیا ہے اور اس سے استفادہ کرتے ہوئے شیعہ عقائد کی تقویت کا اہتمام کیا ہے۔ میر حامد حسین موسوی (متوفٰی 1306 ھ) نے اپنی مشہور زمانہ کاوش عبقات الانوار میں ایک جامع فصل کو اس حدیث اور اس کی نقل کے واسطوں کے لئے مختص کر رکھی ہے جو پہلے جلد سے تیسری جلد تک کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور اہل سنت کے مآخذ و مصادر سے استناد کرتے ہوئے اس حدیث کی اہمیت بیان کی ہے۔ انھوں نے امامت کی بحث میں حدیث ثقلین کو دوسری احادیث پر مقدم رکھا ہے۔
اس حدیث سے چند اہم نکات ثابت کئے جاسکتے ہیں جو درحقیقت شیعہ اعتقادات میں شمار ہوتے ہیں:
اہل بیت کی پیروی کا لازم ہونا
اس حدیث میں اہل بیتؑ کو قرآن کے برابر اور عِدل و معادل قرار دیا گیا ہے چنانچہ جس طرح کہ مسلمانوں پر قرآن کی پیروی لازمی قرار دی گئی ہے، اہل بیتؑ کی پیروی بھی لازمی اور ضروری قرار دی گئی ہے۔
عصمت اہل بیت
حدیث میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ قرآن اور اہل بیتؑ ہمیشہ ساتھ رہیں گے اور ان میں سے ایک چھوڑ کر دوسرے کی پیروی کرنا نجات و فلاح و سعالت کی ضمانت فراہم نہیں کرتا۔ چنانچہ اس میں دو نکتے اہل بیتؑ کی عصمت کی دلیل ہیں:
- حدیث میں اس بات پر حدیث کی تاکید فرمائی گئی ہے کہ قرآن اور اہل بیت کی پیروی کروگے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے؛ اور یہ اس نکتے کا ثبوت ہے کہ جس طرح کہ قرآن میں کوئی خطا نہیں ہے اہل بیت کی تعلیمات میں بھی کسی خطا کا احتمال نہیں دیا جا سکتا۔
- حدیث میں اہل بیتؑ کو قرآن کے ہمراہ اور معادل قرار دیا گیا ہے؛ اور مسلمانوں کا اجماع عام ہے کہ قرآن میں کسی اشتباہ کی گنجایش نہیں ہے چنانچہ ثقل ثانی (یعنیاہل بیت) میں بھی کسی قسم کے اشتباہ کی گنجائش نہیں ہے۔
بعض سنی محققین نے بھی اس حقیقت کی تصدیق کی ہے کہ حدیث ثقلین اہل بیت کی آلودگی اور طہارت پر دلالت کرتی ہے۔[60]۔[61]۔[62]
سلسلہ امامت کا دوام اور ضرورت
حدیث کے متن میں بعض نکات پائے جاتے ہیں جن کی رو سے یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ سلسلۂ امامت کا جاری اور دائم ہونا ضروری ہے:
- پہلا نکتہ اہل بیت کی قرآن کے ساتھ معیت و ہمراہی ہے، اور امر مسلم ہے کہ قرآن اسلام میں دائمی اور ابدی منبع ہدایت ہے اور قرآن و اہل بیت کو روز قیامت تک ساتھ رہنا ہے، چنانچہ قیامت تک اہل بیتؑ کا ایک فرد قرآن کی معیت میں ہوگا جس کی طرف رجوع کیا جاتا رہے گا۔
- دوسرا نکتہ یہ ہے کہ یہ دونوں حوض کوثر تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہونگے۔
- تیسرا نکتہ یہ کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا ہے کہ ان دو بھاری ورثوں کو سہارا قرار دو گے تو ابد تک گمراہی سے محفوظ رہو گے۔
علمائے اہل سنت میں سے امام زرقانی المالکی اپنی کتاب شرح المواہب میں،[63] علامہ سمہودی سے نقل کرتے ہیں کہ "اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ عترت میں سے کوئی ایک فرد ـ جو تمسک اور رجوع کا اہل ہوگا ـ قیام قیامت تک موجود ہوگا، تا کہ اس حدیث میں موجودہ ترغیب اس پر دلالت کرے، جیسا کہ کتاب (یعنی قرآن کا حال بھی یہی ہے؛ چنانچہ یہ (یعنی عترت و اہل بیت) زمین والوں کی امان ہیں اور جب یہ چلے جائیں گے زمین والوں کو بھی جانا پڑے گا۔[64]
اہل بیت کی دینی مرجعیت
چونکہ قرآن تمام مسلمانوں کے عقائد اور عملی احکام کا اصل اور بنیادی ماخذ ہے اور یہ حدیث بھی تاکید کرتی ہے کہ اہل بیتؑ قرآن کے دائمی اور جداناپذیر ہم نشین ہیں لہذا بآسانی نتیجہ لیا جا سکتا ہے کہ اہل بیتؑ بھی تمام اسلامی علوم میں خطا ناپذیر علمی مرجع و منبع ہیں۔
سید عبدالحسین شرف الدین نے اپنی کتاب المراجعات میں شیخ سلیم بُشری کے ساتھ بحث و مناظرہ کرتے ہوئے اہل بیتؑ کی علمی مرجعیت کو بخوبی ثابت کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ ان کا اتباع واجب و لازم ہے۔[65]
حدیث ثقلین اور اتحاد مسلمین
جیسا کہ اوپر کہا گیا حدیث ثقلین شیعہ اور سنی کے ہاں متفق علیہ ہے۔ آج تک اس حدیث کے موضوع پر ایسے مذاکرے اور مباحثے ہوئے ہیں جو اتحاد مسلمین اور تقریب مذاہب اسلامیہ کا باعث ہوئے ہیں۔ المراجعات میں سید عبدالحسین شرف الدین اور اہل سنت کے عالم دین شیخ سلیم بُشری کے درمیان ہونے والی گفتگو اس اتحاد اور مفاہمت کا نمونہ ہے۔ اس حدیث شریف کی طرف آیت اللہ بروجردی کی خاص توجہ بھی درحقیقت اسی سلسلے کا تسلسل تھی جس کا آغاز شرف الدین نے کیا تھا۔[66]
متعلقہ مآخذ
حوالہ جات
- ↑ کلینی، الکافی، ج1، ص294۔
- ↑ نسائی، السنن الكبری، ح8148۔
- ↑ حدیث ثقلین کی سند - حدیث ثقلین اہل سنت کی کتابوں میں - اھل بیت کی محبت کا تقاضا: حدیث ثقلین - حدیث ثقلین پر ایک نظر-
- ↑ تالیف احمد ماحوزی۔
- ↑ نسائی، السنن الکبری، ح8148۔
- ↑ طبرانی، المعجم الکبیر، ج5، ص186۔
- ↑ ترمذی، سنن الترمذی، ح3876۔
- ↑ حاکم نیشابوری، المستدرک، ج3، ص110۔
- ↑ احمد بن حنبل، مسند احمد، ج4، ص371۔
- ↑ احمد بن حنبل، مسند احمد، ج5، صص183 و 189۔
- ↑ طبرانی، المعجم الکبیر، ج5، ص166۔
- ↑ ترمذی، صحیح ترمذی، ج5، ص328۔
- ↑ طبرانی، المعجم الکبیر، ج3، ص66۔
- ↑ طبرانی، المعجم الاوسط’، ج5، ص89۔
- ↑ طبرانی، المعجم الکبیر، ج3، ص180۔
- ↑ احمد بن حنبل، مسند احمد، ج3، صص13، 17، 26 و 59۔
- ↑ العقیلی، ضعفاء الکبیر، ج4، ص362۔
- ↑ البزاز، البحر الزخار، ص88، ح864۔
- ↑ متقی هندی، کنز العمال، ج14، ص77، ح37981۔
- ↑ دارقطنی، المؤتلف و المختلف، 1406ھ، ج2، ص1046۔
- ↑ الهیثمی، کشف الاستار، ج3، ص223، ح2617۔
- ↑ ابناثیر، اسد الغابة، ج3، ص219، ش2907۔
- ↑ البانی، ظلال الجنة، ح1465۔
- ↑ قندوزی حنفی، ینابیع الموده، ج1، صص106-107۔
- ↑ ابن حجر عسقلانی، الاصابہ، ج7، صص274-245۔
- ↑ بحرانی، غایة المرام و حجة الخصام، ج2، ص304-320۔
- ↑ بحرانی، غایة المرام و حجة الخصام، ج2، ص320-367۔
- ↑ الهیتمی، الصواعق المحرقة، ص150۔
- ↑ ترمذی، سنن الترمذی، ج5، ص662، ح3786۔
- ↑ احمد بن علی طَبْرِسی، الاحتجاج، ج1، ص391۔
- ↑ احمد ابن حنبل، مسند احمد، ج4، ص371۔
- ↑ نیشابوری (قشیری)، صحیح مسلم، ج2، ص1873۔
- ↑ صدوق، کمال الدین و تمام النعمة، ج1، ص234، ح45 و ص238، ح55۔
- ↑ حاکم نیشابوری، المستدرک، ج3، ص109۔
- ↑ سَمْهودی، جواهر العقدین، ص236۔
- ↑ عیاشی، کتاب التفسیر، ج1، ص4، ح3۔
- ↑ صفارقمی، بصائر الدرجات، ص412ـ414۔
- ↑ صدوق، الامالی، ص62۔
- ↑ جوینی خراسانی، فرائد السمطین، ج2، ص268۔
- ↑ عیاشی، کتاب التفسیر، ج1، ص5، ح9۔
- ↑ احمد بنعلی طبرسی، الاحتجاج، ج1، ص216۔
- ↑ دیلمی، ارشاد القلوب، ج2، ص340
- ↑ هیتمی، الصواعق المحرقہ، ص150۔
- ↑ مفید، الارشاد، ج1، ص180۔
- ↑ هیتمی، الصواعق المحرقه، ص150۔
- ↑ شرف الدین، المراجعات، ص74۔
- ↑ رجوع کریں: متقی هندی، کنز العمال، ج1، ص187، ح948۔
- ↑ حدیث ثقلین میں "عترتی" صحیح ہے یا "سنتی" -
- ↑ رجوع کریں: صدوق، عیون اخبار الرضا، ج2، ص62، ح259۔
- ↑ حاکم نیشابوری، المستدرک، ج3، ص109۔
- ↑ رجوع کریں: جوینی خراسانی، فرائد السمطین، ج2، ص268۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ج23، ص131، ح64۔
- ↑ رجوع کریں: احمد بن حنبل، مسند احمد، ج4، ص367۔
- ↑ دارمی، سنن الدارمی، 1412ھ، ص828۔
- ↑ نیسابوری، صحیح مسلم، ج2، ص1873، ح36۔
- ↑ جوینی خراسانی، فرائد السمطین، ج2، ص250، 268۔
- ↑ ملاحظہ کریں: صدوق، کمال الدین، ج1، ص278، ح25۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ج36، ص317۔
- ↑ اہل بیتؑ کتاب و سنت کی روشنی میں ۔۔ مفہوم اہل البیتؑ
- ↑ مناوی، فیض القدیر، ج3، ص18ـ19۔
- ↑ زرقانی، شرح المواهب اللدنیة، ج8، ص2۔
- ↑ سندی، دراسات اللبیب، ص233، بحوالۂ حسینی میلانی، نفحات الأزهار، ج2، ص266ـ269۔
- ↑ ج8، ص7
- ↑ بہ نقل: امینی، الغدیر، ج3، ص118۔
- ↑ رجوع کریں: شرف الدین، المراجعات، ص71ـ76۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ "مذہب اہل بیت" کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔
- ↑ رجوع کریں: واعظ زاده خراسانی، حدیث الثقلین، ص39ـ40؛ وہی طبع 1370 ہجری شمسی، ص222ـ223۔
مآخذ
- ابن اثیر، علی بن ابی الکرم، اسد الغابة فی معرفة الصحابة، بیروت: دار الکتب العلمیة، 1415ق.
- احمد بن حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، قاهره [ 1313، چاپ افست بیروت ] بیتا.
- امینی (علامہ)، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب و السنة و الادب، قم: مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیة، 1416ق.
- البانی، ناصر الدین، ظلال الجنة، حدیث 1465.
- بحرانی، سید هاشم بن سلیمان، غایة المرام و حجة الخصام، ج2 ص320-367
- البزاز، احمد بن عمرو، البحر الزخار (معروف به مسند بزاز). مکتبہ العلوم و الحکم.
- ترمذی، محمد بن عیسی، سنن الترمذی، استانبول 1401/1981؛
- جوینی خراسانی، ابراهیم بن محمد، فرائدالسمطین فی فضائل المرتضی و البتول و السبطین و الائمة من ذریتهم علیهم السلام، چاپ محمد باقر محمودی، بیروت 1398ـ1400/ 1978ـ1980 ء؛
- حاکم نیشابوری، محمدبن عبداللّه، المستدرک علی الصحیحین، بیروت: دارالمعرفه] بیتا. [؛
- حسینی میلانی، سید علی، نفحات الأزهار فی خلاصة عبقات الأنوار، تهران 1405؛
- دارقطنی، علی بن عمر، المؤتلف و المختلف،بیروت دار الغرب الاسلامی، چاپ اول، ۱۴۰۶ھ۔
- دارمی، عبداللّه بن عبدالرحمان، سنن الدارمی، تحقیق: حسین سلیم اسد الدارانی، عربستان، دار المغنی للنشر و التوزیع، چاپ اول، ۱۴۱۲ھ۔
- دیلمی، حسن بن محمد، ارشاد القلوب، قم 1368ش؛
- الزرقانی، محمد بن عبدالباقی، شرح المواهب اللدنیہ، دار الکتب العلمیہ، بیروت.
- سخاوی، شمس الدین، استجلاب ارتقاء الغرف، قم، بنیاد معارف اسلامی، 1421ق.
- سمهودی، علی بن عبداللّه، جواهرالعقدین فی فضل الشرفین، چاپ مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت 1415/1995؛
- شرف الدین، سید عبدالحسین، المراجعات، چاپ حسین راضی، بیروت 1402/1982؛
- صدوق، محمد بن علی، الامالی، بیروت، 1400.
- صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، قم: چاپ مهدی لاجوردی، 1363ش.
- صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمة، قم: چاپ علی اکبر غفاری، 1363ش.
- صفار قمی، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد «ص»، چاپ محسن کوچہ باغی تبریزی، قم 1404؛
- طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، چاپ حمدی عبدالمجید سلفی، چاپ افست بیروت 1404.
- طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الاوسط’، دار الحرمین، 1415 ه.ش.
- طبرسی، احمدبن علی، الاحتجاج، چاپ محمد باقر موسوی خرسان، نجف 1386/1966؛
- عسقلانی، ابن حجر، الاصابہ، ج7، ص274-245 نیز بہ آن اشاره شده است
- العقیلی، محمد بن عمرو، الضعفاء الکبیر. دار الکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1418 ه.ق.
- عیاشی، محمد بن مسعود، کتاب التفسیر، چاپ هاشم رسولی محلاتی، قم 1380ـ1381، چاپ افست تهران ] بیتا. [؛
- قندوزی، سلیمان بن ابراهیم، ینابیع الموَدَّةِ لِذَوی القُربی، چاپ علی جمال اشرف حسینی، قم 1416؛
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، دار الکتب الاسلامیہ، تهران.
- متقی هندی، علی بن حسام الدین، کنزالعمال فی سنن الاقوال و الافعال، چاپ بکری حیانی و صفوة السقّا، بیروت 1409/1989؛
- مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار. موسسه الوفاء، بیروت.
- معین، محمد بن محمد، دراسات اللبیب، بجنہ احیاء الادب السندی، کراچی، 1957 ء
- مفید، محم بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج اللّه علی العباد، قم 1413؛
- مناوی، محمد عبدالرووف بن تاج العارفین، فیض القدیر: شرح الجامع الصغیر] بیروت [ 1391/1972؛
- نسائی، أحمد بن شعيب بن على بن بحر النسائي، السنن الکبری، دار الکتب العلمیہ، بیروت، 1411 ه.ق.
- النیسابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، استانبول 1401/1981؛
- واعظ زاده خراسانی، محمد، حدیث الثقلین، در قوام الدین محمد وشنوی، حدیث الثقلین] تهران [1416/1995؛
- الهیتمی، ابن حجر، الصواعق المحرقة فی الرد علی اهل البدع و الزندقة، چاپ عبدالوهاب عبداللطیف، قاهره 1385/1965؛
- الهیثمی، علی بن ابی بکر، کشف الاستار عن زوائد البزار، موسسه الرسالة، بیروت، 1979 ء
- حدیث الثقلین و مقامات اهل البیت ؑ، ط مدینة العلم بستانی (14 بهمن، 1385 هجری شمسی۔
|
|