کوفہ

فاقد تصویر
تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے
کوفہ
عمومی معلومات
ملکعراق
صوبہنجف
آبادی3 لاکھ سے زیادہ
نامکوفہ
زبانعربی
قومیتعرب
ادیاناسلام
مذہبشیعہ اثنا عشری
تاریخی خصوصیات
اہم واقعاتمسجد کوفہ میں شہادت امام علی
اماکن
زیارتگاہیںبیت امام علی، مرقد میثم تمار، روضہ مسلم بن عقیل و ہانی بن عروہ و مختار ثقفی
مساجدمسجد کوفہ، مسجد سہلہ


کوفہ عراق کے جنوبی شہروں میں سے ایک ہے جو نجف کے شمال میں 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ کوفہ دوسرا بڑا شہر ہے جس کی بنیاد مسلمانوں نے رکھی۔ پہلی بار امام علیؑ نے اس شہر کو اپنی حکومت کا دارالخلافہ قرار دیا اور اسی شہر میں جام شہادت نوش کیا۔ پہلی صدی ہجری میں زیادہ تر شیعہ اسی شہر میں آباد تھے۔ امام صادقؑ نے دو سال تک اسی شہر میں قیام کیا۔ اس شہر کے اہم آثار میں مسجد کوفہ اور مسجد سہلہ شامل ہیں۔

کوفہ کے معنی

ریت سے بنے دائرہ نما مقام کو کوفانی کہا جاتا ہے؛ اور بعض لوگ اس زمین کو کوفہ کہتے ہیں جو سرخ مٹی (چکنی مٹی) کے ریت اور بجری سے مخلوط ہوکر تشکیل پائی ہو۔ بلاذری کہتے ہیں کہ لفظ کوفہ لفظ تَکَوُّف سے مشتق ہے جس کے معنی جمع ہونے کے ہیں۔[1]

کتاب یاقوت البلدان میں بھی لفظ کوفہ کے معنی کے حوالے سے بلاذری کی رائے کو اختیار کیا گیا ہے اور لفظ کوفان کی ذیلی وضاحتوں میں کہا ہے: کوفان وہی سرزمین ہے جس کو کوفہ کہا جاتا ہے اور یہ دونوں الفاظ (کوفہ و کوفان) ایک ہی ہیں۔[2]

کوفہ کی تاسیس

بعض روایات کے مطابق مسجد کوفہ بہت سے انبیاء کی عبادتگاہ اور ماضی کے بہت سے واقعات کا سرچشمہ رہی ہے جس میں نماز کی بہت زیادہ فضیلت بیان ہوئی ہے۔ اس شہر کی تعمیر نو کا کام سنہ 17 ہجری میں قادسیہ اور مدائن کی فتح کے بعد خلیفۂ ثانی کے حکم پر سعد بن ابی وقاص کے ہاتھوں انجام پایا۔ رسول خدا(ص) نے سورہ تین کے نزول کے بعد فرمایا: "واختار من البلدان أربعة فقال عزوجل وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ ٭ وَطُورِ سِينِينَ ٭ وَہَذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ" فالتين المدينة والزيتون بيت المقدس وطور سينين الكوفة وہذا البلد الامين مكة".

ترجمہ: خداوند متعال نے شہروں میں سے چار شہروں کو برگزیدہ شہر قرار دیا اور فرمایا "قسم ہے انجیر اور زیتون کی ٭ اور طور سینین ٭ اور امن وامان والے شہر مکہ کی"،[3] پس تین، مدینہ ہے، زیتون بیت المقدس، طور سینین کوفہ اور بلد الامین مکہ ہے۔[4].[5] اس حدیث شریف اور دوسری احادیث کا مفہوم یہ ہے کہ نزول قرآن کے وقت یہ شہر موجود تھا گوکہ اس کو رونق اس وقت ملی جب یہ دار الہجرہ میں بدل گیا اور ہزاروں مسلمانان حجاز نے اس شہر کا رخ کیا۔

کوفہ آباد شہر تھا

کوفہ قبل از اسلام بھی آباد شہر اور لوگوں کا مسکن تھا۔ امام صادقؑ سے منقولہ حدیث کے مطابق قوم نوحؑ سے تعلق رکھنے والے کفار نے اپنے بت اسی شہر میں نصب کئے تھے۔[6] ذیل میں آنے والی بعض روایات سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ یہ شہر بہت پرانا ہے گوکہ اس کی شکل و ہیئت ہمیشہ ایک شہر کی مانند نہ تھی۔

کوفہ کی بنیاد طلوع اسلام کے بعد رکھی گئی

اسلامی دور میں بصرہ کے بعد کوفہ کی بنیاد سعد بن ابی وقاص نے رکھی اور سنہ 15، 17 اور 19 ہجری میں اس کی تعمیر کا کام سرانجام دیا ہے۔ خلیفہ ثانی نے ایران کے خلاف لڑنے والے سپاہیوں کا حال دیکھا جن کی رنگت پیلی پڑ گئی تھی تو سعد کو حکم دیا کہ مسلمانوں کے قیام و رہائش کے لئے ایسی سرزمین کا انتخاب کریں جو ان کے مزاج کے ساتھ سازگار ہو۔ سعد نے فرات کے کنارے ایک سرزمین کا انتخاب کیا جو حیرہ کے قریب واقع ہوئی تھی۔[7] سعد نے سب سے پہلے مسجد اور دارالامارہ کی تعمیر کا اہتمام کیا۔ یہ دونوں مقامات اونچی زمین پر واقع تھے۔[8]

کوفہ کی تاسیس ایک جنگی ضرورت اور خلیفہ ثانی کے زمانے کی فتوحات کا تقاضا تھی۔ سعد بن ابی وقاص کی سرکردگی میں مسلمانوں کی فوج ایران پہنچی تو اسلامی خلافت کے مرکز مدینہ اور میدان جنگ کے درمیان رابط خطوط کی ضرورت محسوس ہوئی اور لازم تھا کہ مسلمانوں کی جنگی قوت کو ایک پشت پناہ اور ایک ثابت فوجی چھاؤنی کا انتظام ہو جو میدان جنگ کے قریب واقع ہو؛ چنانچہ عمر نے سعد بن ابی وقاص کو مسلمانوں کے لئے ایک دارالہجرہ اور فوجی چھاؤنی بنانے کے لئے ایک مقام منتخب کرنے کے احکامات جاری کئے۔[9]

جب سب نے ولایتِ اہل بیتؑ کو رد کیا، شیعیان کوفہ نے ان کی ولایت کو قبول اور ان کی دوستی کو اختیار کیا اور اسی بنا پر بعض روایات کو مطابق کوفہ میں سکونت کو مکہ و مدینہ میں سکونت پر ترجیح دی گئی ہے اور کوفہ تشیع کی نشو و نما اور لوگوں میں اس مذہب کے فروغ کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔[10]

ایک روایت اور

کوفہ، موجودہ شہر کی تعمیر سے صدیوں قبل بہت سے لوگوں کا مسکن رہا ہے۔ یہاں تک کہ روایات میں ہے کہ طوفان نوح کا آغاز اسی سرزمین سے ہوا۔ اس سرزمین کو سورستان کہا جاتا تھا اور سنہ 17 ہجری میں یہاں شہر کوفہ کی بنیاد رکھی گئی۔ ابتداء میں یہ مختلف محلوں میں تقسیم ہوا تھا اور ہر محلہ کسی ایک قبیلے سے منسوب تھا۔ حتی کہ یہاں ایک بڑی آتش زدگی ہوئی اور پرانے گھروں کا خاتمہ ہوا اور اینٹوں والے گھر پرانے گھروں کے جانشین ہوئے۔ یہ شہر بہت جلد عالم اسلام کے اہم شہروں میں شمار ہونے لگا۔ اس شہر کی بڑی مسجد، جو امیرالمؤمنین علیہ السلام کا مقام شہادت بھی ہے، اسی دور میں تعمیر ہوئی. اس مسجد کا رقبہ اس قدر زیادہ تھا کہ شہر میں رہنے والے تمام جنگجؤوں کی گنجائش تھی۔ بعض روایات کے مطابق مسجد کوفہ بہت سے انبیاء کی عبادتگاہ تھی اور ایام ماضیہ کے بہت واقعات کا سرچشمہ تھی اور اس میں نماز کی فضیلت بہت زیادہ ہے۔ یہ شہر امیرالمؤمنینؑ اور امام حسنؑ کے زمانے میں مسلمانوں کا دارالخلافہ تھا تا ہم اس کے بعد بھی اہم شہر سمجھا جاتا رہا اور برسوں تک علم، فن،بالخصوص فقہ و ادب کا شہر تھا۔ تاہم نجف اشرف کی تعمیر و ترقی اور شہرت کے بعد اس کی اہمیت میں کمی آئی. آج کوفہ شہر نجف کے قریب ایک چھوٹا شہر ہے اور قدیمی شہرت و کشش و رونق کا کوئی نشان دیکھنے کو نہیں ملتا۔[11]

آبادی

کوفہ کی تاسیس کے بعد ابتدائی برسوں میں دور افتادہ علاقوں اور شہروں سے اس شہر میں آکر بسنے والوں کی تعداد 15 سے 20 ہزار افراد تک تھی۔ سعد بن ابی وقاص نے کوفہ کی آبادی کو سات گروہوں میں تقسیم کیا:

  1. کنانہ اور ان کے حلیف؛
  2. قضاعہ، غسان بجیلہ، خثعم، کِندہ، اور یمنی قبائل میں سے حضرموت اور ازد
  3. مِذحَج، حِمْیَر، ہَمدان اور ان کے یمنی حلیف قبائل؛
  4. تمیم رہاب اور ہوازن؛
  5. اسد غطفان، محارب، نمر، ضبیعہ اور تغلب؛
  6. ایاد، عک، عبد القیس، اہل الحجر اور حمراء
  7. یمنی قبیلہ طیّ

ان قبائل کے درمیان قبیلۂ ہمدان راسخ العقیدہ شیعہ تھے اور کوفہ میں ان کی سماجی حیثیت بھی اچھی خاصی تھی۔

یہ سماجی تقسیم اور معاشرتی ڈھانچہ امیرالمؤمنینؑ کے دور حکومت تک قائم رہی اور آپؑ نے اس کو نیا سماجی ڈھانچہ دیا اور آخری بار کوفہ میں سماجی تبدیلیاں سنہ 50 ہجری میں زیاد بن ابیہ کے دور میں انجام پائیں؛ جب وہ معاویہ کی طرف سے بھائی کا عنوان پانے کے بعد کوفہ کا گورنر تھا۔

اسلامی حدود کے پھیلاؤ کے دوران کوفہ میں آ بسنے والے بیشتر قبائل کا تعلق یمن سے تھا، اور زیادہ تر یمنی قبائل بطور خاص قبیلۂ ہمدان شیعیان امام علیؑ میں سے تھے۔ فرانسیسی مؤرخ و مستشرق لوئی ماسینیون (Louis Massignon) کا کہنا ہے: قبیلہ ہمدان ایک بڑا، اہم، طاقتور اور با اثر قبیلہ تھا اور اس کے افراد امام علی کے راسخ العقیدہ شیعہ تھے۔[12] نیز طی نامی قبیلہ جو جنگ جمل اور جنگ صفین میں امیرالمؤمنین علیہ السلام کے طاقتور ترین حامی قبائل میں شمار ہوتا تھا، کوفہ کی تاسیس کے آغاز سے ہی اس شہر میں موجود تھا۔[13]

اشعریون جو در اصل یمنی تھے اور شیعیان امام علی میں شمار ہوتے تھے۔ انھوں نے یمن سے کوفہ ہجرت کی اور امویوں کے ایک گورنر حجاج بن یوسف کی شدت پسندی کی بنا پر کوفہ چھوڑ کر قم میں آباد ہوئے اور اس شہر کو مسکن اور ایران میں تشیع کے فروغ کے لئے اپنا مرکز قرار دیا۔[14]

کوفہ کے بارے میں مختلف آراء

  • کوفہ ابتدائے تاسیس سے ہیں مکہ، مدینہ اور حتی کہ دمشق کی طرح خالص عربی شہر نہ تھا؛ بلکہ قبائلی حوالے سے اس کا ڈھانچہ غیر معمولی طور پر غیر ہم آہنگ تھا۔[15]
  • ابتداء میں کوفہ میں آ کر بسنے والے مہاجر، عرب و فارس حقیقت فوجی دستوں کے اراکین تھے جن میں بہت سارے اپنے اہل خانہ کے بغیر اس شہر میں آئے تھے اور ایک مضبوط فوج کی شکل میں ہر وقت جنگ و دفاع کے لئے تیار رہتے تھے۔[16]
  • شہر کوفہ عرب اور فارس کے دو مختلف عناصر سے تشکیل پایا؛ کہا جا سکتا ہے کہ عرب عنصر مؤسس تھا اور فارس عنصر شہر کا دوسرا اہم جزء ترکیبی تھا۔[17]
  • کوفہ کی اپنی کوئی رسم و روایت نہ تھی جو لوگوں کو اپنی جانب جذب کرے یا ان میں اثر و نفوذ کرے۔[18]

مسجد کوفہ

تاریخی روایات کے مطابق سعد بن ابی وقاص کے ہاتھوں تعمیر ہونے والے اولین مقامات میں مسجد کوفہ شامل تھی؛ یہی مسجد بعد میں حضرت علی علیہ السلام کے خطبوں اور قضاوتوں [فیصلوں] کا مرکز سمجھی جاتی تھی؛ اور آج بھی حضرت امیرالمؤمنینؑ کے فیصلوں کا مقام دکۃ القضاء کے نام سے مشہور ہے؛ اور آنجنابؑ اسی مقام پر خارجی ابن ملجم کے ہاتھوں زخمی ہوئے۔ فزت برب الکعبہ کا نعرہ لگایا۔ آپ کی شہادت بھی اسی واقعے کے نتیجے میں ہوئی۔

مسجد کوفہ، مسجد الحرام اور مسجد النبی (ص) کے بعد دنیا کی دیگر مساجد پر فضیلت رکھتی ہے،[19] اور امام زمانہ (عج) کے فیصلوں کا مرکز بھی مسجد کوفہ ہی ہوگی۔[20] مسافر کو اختیار ہے کہ (مسجد الحرام و مسجد النبی کی طرح) مسجد کوفہ میں بھی نماز پوری یا قصر، ادا کرے۔[21]

کوفہ کا دار الامارہ

جب سعد بن ابی وقاص کے حکم پر شہر کوفہ کو بنایا جارہا تھا، ایک محل بھی ان کے لئے مسجد کے جنوب مشرق میں تعمیر کیا گیا اور اس محل کو طمار (اونچا مقام) کا نام دیا گیا اور یہ مقام سعد کے بعد خلفاء، امراء اور بادشاہوں کا مقام رہائش تھا۔[22] مسلم بن عقیل کو عبیداللہ بن زیاد کے حکم پر اسی محل کے اوپر سے گرا کر شہید کیا گیا۔[23]

کربلا سے خاندان رسول (ص) کو اسیر کرکے امام حسینؑ اور دیگر شہداء کے سرہائے مبارک کے ہمراہ دار الامارہ میں عبیداللہ بن زیاد کے پاس لے جایا گیا اور امام سجادؑ اور حضرت زینب (س) نے اسی مقام پر ابن زیاد کے ساتھ گفتگو کی تھی۔[24]

دارالامارہ کچھ عرصے تک مختار بن ابی عبیدہ ثقفی کا مسکن رہا اور واقعۂ عاشورا کے قاتلین کے سروں کو اسی مقام پر ان کے پاس لایا گیا۔

یہ قصر یا محل سنہ 71 ہجری کو عبدالملک بن مروان کے حکم پر منہدم کیا گیا۔

مساجد کوفہ

مسجد کوفہ کے علاوہ دوسری مساجد بھی کوفہ میں تعمیر کی گئیں جن میں بیشتر مساجد کا تعلق مختلف قبائل سے تھا اور شیعہ روایات کے مطابق ان مساجد کی تین قسمیں تھیں:

  1. وہ مساجد جن کو نیک افراد نے نیک مقاصد کے لئے تعمیر کیا؛
  2. مساجد ملعونہ، جو پست افراد کی طرف سے پست مقاصد کی بنا پر تعمیر کی گئیں؛
  3. وہ مساجد جن کی طرف شیعہ روایات میں کوئی اشارہ نہیں ہوا اور انہیں کوئی عنوان نہیں دیا گیا ہے۔

کوفہ کی مبارک مسجدیں

  1. مسجد سہلہ؛
  2. مسجد بنی کاہل؛
  3. مسجد صعصعہ بن صوحان؛
  4. مسجد زید بن صوحان؛
  5. مسجد غنی؛
  6. مسجد جعفی؛
  7. مسجد الحمراء.

کوفہ کی لعنت شدہ مسجدیں

یہ وہ مساجد تھیں جو حضرت علیؑ کے خلاف سازشیں کرنے کی غرض سے مسجد ضرار کی صورت میں تعمیر کی گئی تھیں. ان میں سے اول الذکر چار مسجدوں کی ـ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد لشکر کوفہ کی ظاہری فتح کے شکرانے کے طور پر ـ تعمیر نو کی گئی؛ اسی بنا پر یہ مسجدیں دوہری لعنت کی حامل ہیں. ان مساجد ملعونہ کا کوئی نام و نشان باقی نہيں ہے:[25]

  1. مسجد اشعث بن قیس کندی؛
  2. مسجد جریر بن عبداللہ بجلی؛
  3. مسجد سماک بن مخزومہ؛
  4. مسجد شبث بن ربعی؛
  5. مسجد تیم؛
  6. مسجد ثقیف؛
  7. ایک مسجد الحمراء کے مقام پر.

کوفہ کے حکام (تاسیس سے قیام مختار تک)

  1. سعد بن ابی وقاص:
    تاسیس کوفہ کے بعد عمر بن خطاب نے سعد کو اس شہر کا حاکم مقرر کیا؛ عثمان بن عفان نے بھی کچھ عرصے تک انہیں کوفہ کا حاکم رہنے دیا اور کچھ عرصہ بعد انہيں معزول کیا؛
  2. مغیرہ بن شعبہ:
    عمر بن خطاب نے اس کو حاکم کوفہ قرار دیا اور عثمان نے اس کو معزول کیا اور معاویہ نے اپنی بادشاہت کی داغ بیل ڈالی تو مغیرہ کو کوفہ کا حاکم قرار دیا. وہ بدستور کوفہ کا حاکم تھا حتی کہ سنہ 50 ہجری میں چل بسا؛
  3. عمار بن یاسر:
    عمر بن خطاب نے کچھ عرصے تک انہیں کوفہ کا حاکم مقرر کیا؛
  4. ولید بن عقبہ:
    عثمان بن عفان نے سنہ 25 ہجری میں سعد بن ابی وقاص کو معزول کرکے ولید کو حاکم کوفہ قرار دیا؛
  5. سعید بن العاص:
    عثمان نے اہل کوفہ کے اعتراض و احتجاج کے بعد ولید بن عقبہ کو معزول کرکے سعید کو کوفہ کا حاکم مقرر کیا جس کو کوفیوں نے سنہ 34 ہجری میں شہر سے نکال باہر کیا اور مطالبہ کیا کہ ابو موسی اشعری کو حاکم مقرر کیا جائے۔ انھوں نے عثمان کو خط لکھا اور عثمان نے ابو موسی کو حاکم مقرر کیا؛
  6. عقبہ بن عمرو:
    حضرت علیؑ نے اس کو کوفہ میں اپنا جانشین مقرر کیا اور جنگ صفین کے لئے عزیمت کرنے کے بعد اس کو معزول کیا؛
  7. عمارة بن شہاب:
    سنہ 36 ہجری میں کوفہ میں حضرت علیؑ کے کارگزار تھے؛
  8. ابو موسی اشعری:
    سنہ 17 ہجری میں عمر بن خطاب، نے اس کو بصرہ کا والی بنا کر بھیجا اور جب ‏عثمان خلیفہ بنے تو ابتداء میں اس کو اپنے عہدے پر بحال رکھا اور بعد میں اس کو معزول کیا. ابو موسی اشعری کوفہ چلا گیا۔ کوفیوں نے عثمان بن عفان کے والی سعید بن عاص کو نکال باہر کیا اور عثمان سے درخواست کی کہ کوفہ کی ولایت ابو موسی کے سپرد کریں تو عثمان نے اسے کوفہ کا حاکم بنایا۔ ابو موسی قتل عثمان تک کوفہ کا والی تھا اور امیرالمؤمنینؑ نے خلافت کا عہدہ سنبھال کر اس کو اس عہدے پر بحال رکھا اور کچھ عرصہ بعد جب جنگ جمل کا فتنہ بپا ہوا تو امیرالمؤمنینؑ نے اپنا نمائندہ کوفہ روانہ کیا تا کہ وہ لوگوں سے آپؑ کو دعوت دے کہ جنگ جمل میں آپؑ کی مدد کریں مگر ابو موسی نے ان سے کہا کہ جنگ سے پرہیز کریں؛ چنانچہ آپؑ نے اس کو اس منصب سے معزول کر دیا؛
  9. زیاد ابن ابیہ: (اپنے باپ کا بیٹا)
    معاویہ نے اس کو بصرہ اور کوفہ کا حاکم مقرر کیا. وہ بدستور ان دو شہروں کا حاکم تھا حتی کہ سنہ 53 ہجری میں چل بسا؛
  10. ضحاک بن قیس:
    امیرالمؤمنینؑ کی شہادت کے بعد معاویہ نے عراق جاتے ہوئے ضحاک بن قیس فہری کو شام میں اپنا جانشیں قرار دیا؛[26] اور اس نے سنہ 53 اور 54 ہجری میں زیاد بن ابیہ کے انتقال کے بعد کوفہ کا حاکم قرار دیا اور سنہ 57 میں اس کو معزول کیا۔[27].[28].[29].[30]؛
  11. عبد اللہ بن خالد:
    معاویہ نے اس کو کچھ عرصے تک کوفہ کا حاکم قرار دیا؛
  12. سعد بن زید:
    وہ قبیلہ خزاعہ سے تھا؛ معاویہ نے اس کو حاکم مقرر کیا؛
  13. عبد الرحمن بن عبداللہ:
    وہ معاویہ کی بہن ام حکم کا بیٹا یعنی معاویہ کا بھتیجا تھا اور ماموں معاویہ نے سنہ 57 ہجری میں کوفہ کی حکومت اس کو سونپ دی؛
  14. نعمان بن بشیر:
    وہ آخری شخص تھا جو معاویہ کی طرف سے کوفہ کا حاکم بنا۔ وہ سنہ 65 ہجری میں قتل ہوا؛
  15. عبید اللہ بن زیاد:
    یزید بن معاویہ نے اس وقت اس کو کوفہ کا حاکم مقرر کیا جب سنہ 60 ہجری میں مسلم بن عقیل امام حسین علیہ السلام کو مدد پہنچانے کی غرض سے کوفی عوام کی دعوت پر، کوفہ آئے۔ یزید نے قبل ازیں ابن زیاد کو [[بصرہ کا حاکم قرار دیا تھا اور اس کے بعد کوفہ کی حکومت بھی اس کے سپرد کردی؛
  16. عمرو بن حریث:
    وہ زیاد بن ابیہ کی طرف سے حکومت کوفہ کا عہدیدار ہوا اور جب بھی وہ کوفہ چھوڑ کر چلا جاتا تھا اس کو کوفہ میں اپنا جانشین قرار دیتا تھا، وہ عبید اللہ بن زياد کے زمانے میں بھی وہ شہر کوفہ سے باہر جاتے وقت بن حریث کو جانشین قرار دیتا تھا؛
  17. عامر بن مسعود:
    عامر بن مسعود نے مرگ یزید کے بعد کوفی عوام کے انتخاب پر کوفہ کی باگ ڈور سنبھالی حتی کہ عبداللہ بن زبیر نے حجاز میں خلافت کا اعلان کیا اور عامر بن مسعود کو اپنی طرف سے کوفہ کا حاکم قرار دیا؛
  18. عبد اللہ بن یزید:
    وہ ابن زبیر مکہ کا حاکم مقرر ہوا اور اس کے بعد اس کو کوفہ کا حاکم قرار دیا. عبداللہ بن یزید سنہ 70 ہجری کے لگ بھگ دنیا سے رخصت ہوا؛
  19. عبداللہ بن مطیع:
    عبداللہ بن زبیر نے اس کو کوفہ کا حاکم مقرر کیا اور مختار نے اسے کوفہ سے نکال باہر کیا اور وہ مکہ واپس چلا گیا اور وہیں رہائش پذیر ہوا حتی کہ حجاج نے مکہ کا محاصرہ کرلیا اور وہ بھی عبداللہ بن زبیر کے ساتھ حجاج کے ہاتھوں قتل ہوا؛
  20. مختار بن ابی‌عبید ثقفی:
    مختار نے زبیری گورنر عبداللہ بن مطیع کو شکست دے کر کوفہ کی حکومت سنبھالی؛
  21. صائب بن مالک اشعری:
    ہر گاہ مختار مدائن چلے جاتے تھے، کوفہ کی حکومت اس کو سونپ دیتے تھے؛
  22. مصعب بن زبیر:
    سنہ 67 ہجری میں عبداللہ بن زبیر نے اس کو بصرہ کا گورنر قرار دیا اور ایک سال بعد اس کو معزول کیا اور سنہ 68 ہجری کے آخر میں اس کو دوبار مقرر کیا اور کوفہ میں مختار کی شکست کے بعد کوفہ کی حکمرانی بھی اس کو سونپ دی۔[31]

کوفہ روایات کے آئینے میں

کوفہ کے بارے میں وارد ہونے والی روایات مختلف ہیں:

  1. وہ روایات جو کوفہ قبۃ الاسلام کے قرار دیتی ہیں؛
  2. وہ روایات جو کوفہ کی مساجد بالخصوص مسجد کوفہ کی فضیلت پر تاکید کرتی ہیں؛
  3. وہ روایات جو مکہ اور مدینہ کی نسبت کوفہ میں سکونت کی فضیلت کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں؛
  4. وہ روایات جو کوفہ کی مٹی اور اہل کوفہ کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں؛
  5. وہ روایات جو کہتی ہیں کہ کوفہ ہر بلا اور آفت سے محفوظ ہے؛
  6. وہ روایات جو کہتی ہیں کہ: "ظالم و ستمگر شخص بری نیت سے کوفہ میں داخل نہیں ہوتا مگر یہ کہ خداوند متعال اس سے انتقال لیتا ہے؛
  7. وہ روایات جو کوفہ کو حضرت علیؑ کا حرم قرار دیتی ہیں؛
  8. وہ روایات جو کہتی ہیں: شیعیان عالم کی مٹی کوفہ سے لکھی گئی ہے اور کوفہ شیعیان اہل بیتؑ کی قیام گاہ ہے؛
  9. وہ روایات جو کوفہ کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ قرار دیتی ہیں؛
  10. وہ روایات جو کہتی ہیں کہ "ہم کوفہ سے محبت کرتے ہیں اور کوفہ ہم سے محبت کرتا ہے"۔

امام صادقؑ:

"وعقد نوح في وسط المسجد قبة فأدخل اليہا اہلہ وولدہ والمؤمنين الی أن مصر الأمصار وأسكن ولدہ البلدان فسميت الكوفة قبة الإسلام بسبب تلك القبة".
ترجمہ: نوحؑ نے مسجد کوفہ میں ایک قبہ تعمیر کیا اور اپنے اہل خاندان اور مؤمنین کو اس میں داخل کیا حتی کہ انھوں نے شہر اور قصبے بنا دیئے اور اپنے فرزندوں کو ان میں بسا دیا؛ پس کوفہ کو اسی قبے کی مناسبت سے "قبۃ الاسلام" کا نام دیا گیا۔[32] اس حدیث سے وہی بات ثابت ہوتی ہے کہ کوفہ ایک نیا شہر نہ تھا اور اس کی مسجد کے بانی سعد بن ابی وقاص نہ تھے بلکہ یہ تو انبیائے سلف کا شہر تھا...

اسحق بن یزداد سے روایت ہے کہ ایک شخص امام صادقؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا میں مکہ یا مدینہ میں سکونت اختیار کرنا چاہتا ہوں تو آپؑ نے فرمایا:

"عليك بالعراق الكوفة فان البركة منہا على اثني عشر ميلا، ہكذا وہكذا، والى جانبہا قبر ما اتاہ مكروب قط ولا ملہوف الا فرج اللہ عنہ".
ترجمہ: تم پر لازم ہے کہ عراق کوفہ میں سکونت اختیار کرو کیونکہ برکت اس سے بارے میل کے فاصلے تک ہے اس طرح (یعنی اس کے چاروں طرف) اور اس کے قریب ایک قبر ہے جہاں کوئی بھی مصیبت زدہ اور مغموم و محزون نہیں آتا مگر یہ کہ خداوند متعال اس کو فراخی اور آسائش عطا کرتا ہے۔[33]

امام صادقؑ:

"الكوفة روضة من رياض الجنة".
ترجمہ: کوفہ ایک باغ ہے جنت کے باغوں میں سے.[34]

امام محمد باقرؑ:

"قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: طينة امتي من مدينتي وطينة شيعتنا من الكوفة".
ترجمہ: رسول خدا(ص) نے فرمایا: میری امت کی مٹی میرے شہر مدینہ سے اور ہمارے شیعوں کی مٹی کوفہ سے لی گئی ہے.[35]

امام حسن عسکریؑ:

"لموضع الرجل في الكوفة أحب إلي من دار بالمدينة".
ترجمہ: کوفہ میں ایک قدم رکھنے کی جگہ میرے نزدیک مدینہ میں ایک گھر سے زيادہ پسندیدہ ہے.[36]

امام صادقؑ:

"من كان لہ دار في الكوفة فليتمسك بہا".
ترجمہ: جس کا کوفہ میں گھر ہو اس کو لازمی طور پر محفوظ رکھے.[37]

امام صادقؑ:

"إن اللہ احتج بالكوفة على سائر البلاد وبالمؤمنين من أہلہا على غيرہم من أہل البلاد".
ترجمہ: خداوند متعال نے کوفہ کے ذریعے دوسرے شہروں پر اتمام حجت کیا اور اس کے باشندوں میں سے مؤمنین کے ذریعے دوسروں پر اتمام حجت کیا (یا کوفہ اور اس کے مؤمنین کو دوسرے شہروں اور لوگوں کے لئے حجت قرار دیا).[38]

امام رضاؑ:

"قال اميرالمؤمنين عليہ السلام: يدفع البلاء عنہا كما يدفع عن أخبية النبي صلى اللہ عليہ وآلہ".
ترجمہ:

امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا: کوفہ سے بلائیں ٹال دی جاتیں ہیں جس طرح کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے خیموں سے بلائیں ٹال دی جاتی ہیں.[39].[40]

امام صادقؑ:

"إذا عمت البلايا فالأمن في كوفة ونواحيہا".
ترجمہ: جب بلائیں عام ہوجائیں تو امن کوفہ اور اس کے نواح میں میسر ہوگا.[41]

امیرالمؤمنین علی علیہ السلام:

"ہذہ مدينتنا ومحلنا ومقر شيعتنا".
ترجمہ: یہ ہمارا شہر، ہمار مقام و محلہ اور ہمارے پیروکاروں کی قرارگاہ اور قیام گاہ ہے.[42]

امام صادقؑ:

"تربة تحبنا ونحبہا".
ترجمہ: "کوفہ وہ مٹی ہے جو ہم سے محبت کرتی ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں.[43]

امام صادقؑ:

"قال اميرالمؤمنين عليہ السلام: مكة حرم اللہ والمدينة حرم رسول اللہ (صلى اللہ عليہ وآلہ) والكوفة حرمي لا يريدہا جبار بحادثة إلا قصمہ اللہ".
ترجمہ: امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا: مکہ خدا کا حرم، مدینہ رسول خدا(ص) کا حرم اور کوفہ میرا حرم ہے؛ کوئی بھی ظالم و ستمگر اس پر جارحیت کا ارادہ نہیں کرتا مگر یہ کہ خداوند متعال اس کی جڑیں اکھاڑ پھینکتا ہے.[44]

امام صادقؑ نے شہر "رے" کے باشندوں سے مخاطب ہوکر فرمایا:

"إن للہ حرما وہو مكة، وإن للرسول حرما وہو المدينة، وإن لامير المؤمنين حرما وہو الكوفة وإن لنا حرما وہو بلدة قم".
ترجمہ: بے شک اللہ کا ایک حرم ہے اور وہ مکہ ہے اور بے شک رسول خدا (ص) کا ایک حرم ہے اور وہ مدینہ ہے اور بے شک امیرالمؤمنینؑ کا ایک حرم ہے اور وہ کوفہ ہے اور بے شک ہمارا ایک حرم ہے اور وہ شہر قم ہے.[45]

عصر امام علی علیہ السلام میں

کوفہ کے عوام نے سب سے پہلے مالک اشتر نخعی کی راہنمائی میں امیرالمؤمنینؑ کے ہاتھ پر بیعت کی[46] اور امیرالمؤمنینؑ سنہ 36 ہجری میں اہل مدینہ کے ایک ہزار کے لشکر کے ہمراہ کوفہ روانہ ہوئے اور کوفہ میں 12 ہزار جنگجو آپؑ سے آ ملے اور[47] جنگ جمل میں اکثر کوفیوں نے امیرالمؤمنینؑ کی حمایت کی اور [48] امامؑ نے اس شہر کو دار الخلافہ قرار دیا۔

کوفہ کو دارالخلافہ قرار دینے کے اسباب

  • معاشی لحاظ سے مدینہ اور حجاز کا علاقہ عراق یا شام کا سامنا کرنے کی قوت سے عاری تھا؛ کیونکہ مدینہ صحرائی علاقے میں واقع تھا جہاں کاشت و زراعت و فعال تجارتی سرگرمیوں کا فقدان تھا؛ جبکہ عراق علاقے کی آمدنی کا اہم ترین ذریعہ تھا۔
  • مدینہ انسانی قوت کے لحاظ سے شام کے ساتھ ایک ہمہ جہت جنگ لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا جبکہ کوفہ خود بھی گنجان آباد شہر تھا اور اور بڑی آبادی والے شہروں کے قریب واقع ہوا تھا چنانچہ یہ شہر ہر قسم کی جارحیت کا سد باب کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔
  • مدینہ کے لوگ بالخصوص بعض صحابہ امیرالمؤمنینؑ سے ذرہ بار تعلق خاطر نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ تو اپنے آپ کو آپؑ سے بڑے مجتہدین سمجھتے تھے! چنانچہ وہ آپؑ کی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے؛ جبکہ امیرالمؤمنینؑ اور اہل کوفہ کے درمیان دو طرفہ تعلق خاطر موجود تھا۔
  • سابقہ خلفاء کے دور میں اہل مدینہ انتہای آسائش طلبی اور راحت پسندی میں مبتلا ہو چکے تھے. اس صورت حال نے ان سے جنگ اور دفاع یا جارحیت کا مقابلہ کرنے کی اہلیت چھین لی تھی۔ لوگ رسول خدا (ص) کے وصال کے پچیس سال گذرنے کے بعد، آپ (ص) کی تعلیمات کے اثر معنوی، الہی تحول اور روحانی تبدیلیوں سے کوسوں دور ہو چکے تھے۔
  • کوفہ وہ شہر تھا جہاں مدینہ سے منتقل ہوکر آباد ہونے والے صحابۂ رسول (ص) کی تعداد عالم اسلام کے دوسرے تمام شہروں سے کئی گنا زیادہ تھی۔
  • کوفہ جغرافیائی لحاظ سے، تقریبا اس زمانے کے عالم اسلام کے مرکز میں واقع ہوا تھا جہاں سے ایران، حجاز، شام اور مصر پر نظر رکھی جا سکتی تھی۔[49]

امیرالمؤمنینؑ کے کوفہ آنے پر یہاں کے عوام دو گروہوں میں بٹے ہوئے تھے:

  1. مالک اشتر جیسے راہنما جو آپ (ص) کو معاویہ کے خلاف جنگ کرنے کا مشورہ دے رہے تھے اور اپنے آپ کو غیر مشروط طور پر آپؑ کے اہداف و مقاصد کے لئے وقف کئے ہوئے تھے؛
  2. وہ راہنما جو جنگ سے کسی قسم کی دلچسپی نہ رکھتے تھے لیکن اپنی سماجی منزلت کو تحفظ کے لئے جنگ میں آپ کا ساتھ دے رہے تھے۔

مفصل مضمون: امام علی علیہ السلام

علاوہ ازیں عوام میں ایسے لوگوں کی بھی کوئی کمی نہ تھی جو بظاہر امیرالمؤمنینؑ کی طرف مائل تھے لیکن ہر خطرے کا سامنا کرنے سے گریزاں تھے؛ نہج البلاغہ[50] معاویہ کے ساتھ جنگ میں کوفیوں کی کوتاہیوں اور کام چوریوں کی وجہ سے ان کے حق میں امیرالمؤمنینؑ کی نفرینوں اور ملامتوں سے بھرپور ہے۔[51]

حضرت علی نے کوفی عوام کو [[جنگ صفین کے لئے مسجد میں اکٹھا کیا اور ان سے فرمایا: معاویہ شامیوں کو لے کر بڑی تیز رفتاری سے عراق کی جانب آرہا ہے، تو اس سلسلے میں تمہاری رائے کیا ہے؟ لوگ پریشان ہوئے اور کچھ بولتے رہے لیکن ان کی بات امیرالمؤمنینؑ کو سمجھ میں نہ آئی اور اس کے بعد فرمایا: "إنا للہ وإنا اليہ راجعون؛ خلافت کو ہند جگر خوار کا بیٹا لے گیا" اور منبر سے اتر آئے۔

جنگ صفین میں عین فتح کے وقت معاویہ اور عمرو بن عاص نے قرآن نیزوں پر اٹھائے اور عراقی فوج دھوکا کھاگئی اور امیرالمؤمنینؑ کو حَکَمِیَت قبول کرنے پر مجبور کیا گیا تو آپؑ نے افواج کو منظم کرنے اور معاویہ کا کام تمام کرنے کا فیصلہ کیا لیکن کوفیوں نے رغبت نہ دکھائی اور دوسری طرف سے خوارج سرگرم ہوئے اور انھوں نے دوسرے اقدامات کے علاوہ عبداللہ بن خباب، ان کی زوجہ اور ان کے پیٹ میں بچے کو قتل کیا چنانچہ آپؑ خوارج کی سرکوبی کے لئے چلے گئے۔ خوارج کی جنگ کے بعد آپؑ نے کوفیوں سے کہا کہ اپنے اہل شام میں سے اپنے اصل دشمن کے خلاف جنگ کے لئے تیار ہوجاؤ؛ لیکن بہت کوفی زعماء کے ساتھ زیادہ بحث و تمحیص کے بعد، کوفہ واپس آئے اور کوفیوں کے بعض عمائدین کوفہ سے بھاگ کر معاویہ سے جا ملے۔

اور امیرالمؤمنینؑ کی عملداری میں بہت سے علاقوں پر معاویہ بن ابی سفیان کا قبضہ ہو چکا تھا یا اس کی سپاہ کے خونی اور دہشت آفریں حملوں نے بہت سے علاقوں کے عوام میں خوف و ہراس پھیلا دیا تھا۔[52]

کوفہ امام حسنؑ کے دور میں

مفصل مضمون: امام حسن مجتبی علیہ السلام

امیرالمؤمنینؑ کی شہادت و تدفین کے بعد 21 رمضان سنہ 40 ہجری کو کوفہ کے عوام، شیعیان امیرالمؤمنینؑ عزاداری میں مصروف اور بے چینی سے فرزندان علیؑ کے مسجد میں آنے کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ مسلمانوں کے خلیفہ کا تعین کرنا چاہتے تھے۔ امام حسنؑ، امام حسینؑ، محمد حنفیہ اور ان کے اصحاب اور شیعہ امیرالمؤمنینؑ کے گھر سے باہر آئے۔ لوگوں نے سلام و صلوات کے ساتھ ان کا خیر مقدم کیا۔ امام حسنؑ منبر پر رونق افروز ہوئے اور نہایت اہم اور عمدہ و فصیح وبلیغ خطبہ دیا اور خطبے آخر میں فرمایا:

"أنا من اہل بيت فرض اللہ مودّتہم في كتابہ، فقال تعالي: قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْہِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى وَمَن يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَہُ فِيہَا حُسْناً [53] فالحسنہ مودّتنا اہل البيت".
ترجمہ: میں اہل بیت سے ہوں جن کی مودت خداوند متعال نے کتاب میں واجب قرار دی ہے اور ارشاد فرمایا ہے: کہئے کہ میں تم سے اس پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا سوا صاحبان قرابت کی محبت کے اور جو کوئی نیک کام کرے گا ہم اسے اس میں بھلائی اور زیادہ عطا کریں گے، اور حسنہ ہم اہل بیت کی مودت ہے۔

اس کے بعد عبداللہ بن عباس اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا: "معاشر الناس! ہذا ابن نبيّكم ووصيّ امامكم فبايعوہ".؛
ترجمہ: اے لوگو! یہ آپ کے پیغمبر (ص) کے فرزند اور تمہارے امامؑ کے وصی اور جانشین ہیں؛ پس ان کے ہاتھ پر بیعت کرو۔

کوفی عوام نے وجد کی کیفیت کہا:"ما أحبّہ الينا و أوجب حقّہ علينا".؛
ترجمہ: کس قدر وہ ہمارے لئے محبوب اور عزیز ہیں اور کس قدر ان کا حق ہم پر لازم تر و واجب ہے! اور اس کے بعد عوام نے رغبت و اشتیاق کے ساتھ آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔[54].[55].[56].[57] شیخ مفید لکھتے ہیں کہ امام حسن مجتبیؑ کی بیعت روز جمعہ 21 رمضان سنہ 40 ہجری کو انجام پائی۔[58].[59]

امام حسن مجتیؑ نے خلافت کا عہدہ بہت نامساعد حالات میں سنبھالا اور روز بروز حالت بگڑتے چلے گئے اور معاویہ بن ابی سفیان بعد کے ایام میں معاویہ نے کوفہ کے چار سرکردہ افراد کو جاسوسوں کے طور استعمال کیا اور بعض سرکردہ کوفیوں نے معاویہ کی خاطر امام حسن کو قتل کرنے تک کی کوشش کی.

بعض کوفی اشراف اور قبائل کے عمائدین نے خفیہ طور پر معاویہ کو خطوط اور مراسلے روانہ کئے؛ اس کو اپنی اطاعت کا یقین دلایا اور اس کو کوفہ آنے کی ترغیب دلائی۔ ان لوگوں نے اس کو یقین دلایا تھا کہ وہ کوفہ کے قریب پہنچے گا تو وہ سب جاکر اس کے لشکر میں شامل ہو جائیں گے؛ اور امام حسن مجتبی ان مراسلات کے مضمون سے باخبر ہوئے۔[60]

معاویہ اپنے ایلچی امام حسن کے پاس بھجوائے جو مدائن میں آپؑ کے خیمے سے نکلتے ہوئے [طے شدہ سازش کے تحت] آپس میں کہہ رہے تھے "خدا رسول خدا (ص) کے بیٹے پر رحمت نازل فرمائے جنہوں نے صلح کی تجویز قبول کرکے مسلمانوں کے خون کا تحفظ کیا اور فتنے کی آگ بجھا دی"۔ کوفیوں نے یہ باتیں سن کر آپؑ پر حملہ کیا، آپ کے خیموں اور ان میں موجود ساز و سامان کو لوٹ لیا۔[61]

انعقاد صلح کے بعد کوفیوں کا موقف

مفصل مضمون: صلح امام حسن علیہ السلام

معاویہ نے مسجد کوفہ میں خطاب کیا اور کہا: "میں تمہارے دین کی خاطر نہیں بلکہ اپنی دنیا کے لئے تم سے لڑا" اور اسی وقت صلح نامے کے نکات کی عدم پابندی کا اعلان کیا اور کوفی، جو چھوٹے چھوٹے مسائل پر بھی امام علی اور امام حسن مجتبی کے ساتھ بحث کر لیا کرتے تھے اور ان کے اوامر کی اطاعت نہیں کرتے تھے معاویہ کی گستاخی پر خآموش ہوگئے۔

کوفہ کے اشراف اور عافیت طلب باشندوں نے معاہدہ صلح سے اپنی ذمہ داریوں کے اختتام کا مطلب لیا؛ اور اپنی دنیاوی زندگی اور معاویہ کی بے چون و چرا اطاعت میں مصروف ہوئے۔ جبکہ کوفہ میں امام علی اور امام حسن مجتبی کے اصحاب کی حالت بہت المناک تھی۔

معاویہ نے عراق اور شام سمیت تمام علاقوں میں لوگوں کو امام علی پر سب و لعن پر مجبور کیا اور یہ بدعت عمر بن عبد العزیز کی خلافت کے دور تک جاری رہی۔[62]

امام حسینؑ کا زمانہ

مفصل مضامین: امام حسین علیہ السلام، مسلم بن عقیل و عاشورا

معاویہ کے انتقال کے بعد سلیمان بن صرد خزاعی، مسیب بن نجبہ، رفاعہ بن شداد، حبیب بن مظاہر، عبداللہ بن وائل سمیت 12 ہزار افراد نے خطوط لکھ کر امام حسین علیہ السلام کو کوفہ آنے اور یزید بن معاویہ کے خلاف قیام کرنے کی دعوت دی۔ امام حسین نے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو حالات کا جائزہ لینے کے لئے کوفہ روانہ کیا۔شیعیان کوفہ مختار ثقفی کے گھر میں مسلم سے ملنے جاتے تھے اور 18000 کوفیوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ مسلم نے یہ دیکھ کر امام حسین کو خط لکھا اور آپؑ کو کوفی عوام کی مکمل تیاری کی اطلاع دی؛ مگر دوسری طرف سے یزید نے کوفہ کی ولایت بھی بصرہ کے والی عبیداللہ بن زیاد کے سپرد کردی۔ جس نے رشوت دے کر اور خوف و ہراس پھیلا کر کوفہ کے دائمی طور پر بدلتے حالات کو یزید کے حق میں بدل دیا؛ چنانچہ مسلم بن عقیل کو مختار ثقفی کا گھر چھوڑ کر ہانی بن عروہ کے گھر میں پناہ لینی پڑی۔ ابن زیاد کو اپنے جاسوسوں کے واسطے سے معلوم ہوا کہ ہانی نے مسلم کو اپنے گھر میں پناہ دی ہے تو انہیں دار الامارہ بلوایا اور زد و کوب کرنے کے بعد قیدخانے میں ڈال دیا۔ مسلم کو معلوم ہوا تو وہ اپنے ساتھ بیعت کرنے والے تمام افراد کے ساتھ دار الامارہ پہنچے لیکن اسی روز شام تک تمام افراد مسلم کا ساتھ چھوڑ کر ان کے اطراف سے منتشر ہوگئے۔ مسلم بن عقیل نے رات طوعہ نامی خاتون کے گھر میں بسر کی تاہم طوعہ کے بیٹے نے عبیداللہ بن زیاد کو اس قضیئے سے باخبر کیا۔ محمد بن اشعث کو مسلم کی گرفتاری کا ہدف دیا گیا۔ مسلم جو لڑ لڑ کر زخمی ہوئے تھے، محمد بن اشعث بن قیس نے انہیں پناہ کی ضمانت دی اور یوں وہ گرفتار ہوئے مگر ابن زیاد نے ابن اشعث کے وعدے کو وقعت دیئے بغیر مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ کے قتل کا حکم دیا اور ان دونوں کو شہید کیا گیا۔[63]

کوفہ کے اشراف نے جب یزید اور اس کے والی ابن زياد کی ظاہری طاقت اور برتری کا مشاہدہ کیا تو انہیں یقین ہوگیا کہ حکومت امویوں کے ہاتھ میں رہے گی، تو نہ صرف انھوں نے اپنے چہرے بدل دیئے اور امام حسین کو لکھے ہوئے خطوط بھول گئے بلکہ ابن زياد کی قربت حاصل کرنے کی پوری پوری کوشش بھی کی۔[64] ابن زياد نے عمر بن سعد کو چار ہزار افراد کا لشکر دے کر امام حسین کے خلاف لڑنے کے لئے کربلا روانہ کیا اور اس کے بعد پے درپے لشکر بھجوا دیئے حتی کہ 6 محرم الحرام کو کربلا میں یزیدی لشکر کی تعداد 6 ہزار افراد تک پہچ گئے۔[65] اور بہت سی روایات میں ہے کہ کربلا میں یزیدی فوج کی تعداد 30000 افراد سے تجاوز کر گئی تھی۔[66].[67].[68]

قیام امام حسین کے وقت کوفہ میں موجود گروہ

  1. بنو امیہ کے بہی خواہ: بنو امیہ کی جماعت کے قیادت کوفہ میں عمرو بن حجاج، یزید بن حرث، عمرو بن حریث، عبداللہ بن مسلم، عمر بن سعد وغیرہ کے ہاتھ میں تھی۔ کوفہ میں 20 سال تک اموی حکومت کے دوران ان افراد اور ان کے دھڑے نے مالی اور سماجی طور پر دوسرے دھڑوں پر برتری رکھتے تھے۔
  2. شکاکین: یہ وہ افراد تھے جو خوارج کی تشہیری مہم سے متاثر ہوئے تھے اور اگرچہ خود خوارج کے زمرے میں نہيں آتے تھے لیکن ہر وقت شک و تردد سے دوچار تھے؛ گویا یہ لوگ اصولی طور پر دین اسلام میں تردد اور تزلزل کا شکار تھے.
  3. الحمراء: طبری کے بقول کوفہ میں 20 ہزار افراد وہ تھے جو موالی تھے یا مختلف اقوام اور غلاموں کی مختلف نسلوں سے تعلق رکھتے تھے. یہ لوگ امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے زمانے میں مسلح تھے اور جنگجو افراد سمجھے جاتے تھے جو اجرت لے کر ہر قسم کے جرائم کا ارتکاب کرتے تھے اور ظالموں اور جابروں کے ہاتھ میں کاٹتی ہوئی شمشمیر تھے۔ یہ لوگ ہر قسم کے فتنوں اور بلؤوں کا خیر مقدم کرتے تھے اور یوں یہ لوگ اس قدر طاقتور ہوگئے تھے کہ حتی کوفہ کو ان سے نسبت دی جاتی تھی اور اور اس کو "کوفۃالحمراء" کہا جاتا تھا۔
  4. غیر جانبدار افراد: کربلا میں امام حسین کے خلاف سب سے بڑا کردار ان افراد نے ادا کیا؛ ان افراد کا مقصد دنیا پرستی کے سوا کچھ نہ تھا؛ اگرچہ انھوں نے امام حسین کو دعوت دی تھی لیکن جب وہ اس یقین تک نہ پہنچ سکے کہ امام کا ساتھ دینے کی صورت میں کامیاب ہو سکتے ہیں؛ چنانچہ عبید اللہ بن زياد کے وعدے وعید قبول کرگئے اور یزید کی فوج میں شامل ہوگئے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کا تعارف مشہور شاعر فرزدق نے امام حسین کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے یوں کرایا ہے:
"قلوب الناس معك وأسيافہم عليك".؛
ترجمہ: ان کے دل آپ کے ساتھ ہیں اور ان کی تلواریں آپ کے خلاف کھنچی ہوئی ہیں.[69].[70]

کوفہ میں شیعہ تحریکیں

مفصل مضامین: تحریک توابین، قیام مختار

ویسے تو اسیران کربلا کے کوفہ آتے ہیں اس شہر میں بنو امیہ کے خلاف تحریکوں کا آغاز ہوا لیکن یہاں صرف بڑی اور اہم تحریکوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:

  1. تحریک توابین (65 ہجری):
    شیعیان کوفہ حسین بن علیؑ کی شہادت کے بعد آپؑ کا ساتھ نہ دینے پر نادم و پیشیمان ہوئے چنانچہ انھوں نے آپؑ کے فاتلوں سے انتقام لینے اور اس راہ میں جانبازی کرکے اپنی کوتاہیوں کا ازالہ کرنے کا فیصلہ کیا اور صحابی رسول(ص) سلیمان بن صرد خزاعی اور دوسرے شیعہ زعماء و عمائدین منجلمہ مسیب نَجَبہ فزاری، عبداللہ بن سعد ازدی، عبداللہ بن وال تیمی اور رفاعہ بن شداد بَجَلی نے لشکر جرار تیار کرنے کی کوششیں شروع کردیں اور آخر کار سنہ 65 ہجری میں سلیمان بن صرد خزاعی اپنے 4000 ساتھیوں کے ساتھ یا لثارات الحسین کے شعار کے ساتھ کربلا میں قبر امام حسین پر حاضر ہوئے اور عزا و ماتم اور گریہ و بکاء کے بعد امامؑ کے ساتھ عہد کیا اور وہیں سے شام کی طرف عزیمت کی. ان کے درمیان عین الوردہ کے مقام پر جنگ چھڑ گئی کہ نفری اور عسکری ساز و سامان کے لحاظ سے برابر نہ تھے۔ توابین نے ابتداء میں ابن زیاد کی سرکردگی میں مقابلے کے لئے آئے ہوئے اموی لشکر کو شدید جانی نقصان پہنچایا لیکن سلیمان اور ان کے بہت سے ساتھیوں کی شہادت کے بعد، جنگ ابن زیاد کے حق میں اختتام پذیر ہوئی اور توابین کے باقیماندہ افراد کوفہ پلٹ کر چلے گئے۔ ابن سعد لکھتا ہے کہ شہادت کے وقت سلیمان کی عمر 93 سال تھی۔[71]
  2. قیام مختار (66ہجری):
    تحریک توابین کی شکست کے بعد باقیماندہ توابین کوفہ لوٹ آئے۔ مختار ثقفی جو اس وقت زبیریوں کے قیدخانے میں بند تھے، نے خفیہ طور پر باقیماندہ توابین منجملہ رفاعہ بن شداد و دیگر کو خط لکھا۔ انھوں نے جواب میں پیغام دیا کہ ایک بار پھر، قیام کے لئے تیار ہیں۔[72] مختار [ایک بار پھر] اپنے بہنوئی عبداللہ بن عمر کی وساطت سے رہا ہوئے اور اپنی دعوت کو آشکار کر دیا۔ عبدالرحمن بن شریح، سعید بن منقذ، سعر بن ابی سعر، اسود بن جراد کندی اور قدامہ بن مالک سمیت کوفہ کے شیعہ زعماء نے ان کی حمایت کا اعلان کیا۔ مختار نے یا لثارات الحسین اور [جنگ بدر میں مسلمانوں کا مشہور نعرہ] یا منصور امت (یعنی اے نصرت یافتہ! مار دے) کا نعرہ لگا کر کوفہ کے حکومتی مرکز دارالامارہ پر ہلہ بول دیا، ابن زبیر کے عامل عبداللہ بن مطیع کو نکال باہر کیا اور شیعہ حکومت تشکیل دی۔[73] مختار کے اہم اقدامات میں سے امام حسین کے قاتلوں کی بڑی تعداد کو ہلاک کر ڈالا، اشرافیہ میں سے اپنے خلاف بغاوت کرنے والوں کو یا تو قتل کرڈالا یا ان پر اس قدر عرصۂ حیات تنگ کردیا کہ وہ کوفہ چھوڑ کے فرار ہوئے اور بصرہ میں مصعب بن زبیر سے جا ملے۔[74]
  3. زید بن علی کا قیام سنہ (121 یا 122 ہجری):
    زید امام سجادؑ کے فرزند تھے جو ایک عابد و زاہد اور پرہیزگار اور ایک صاحب جود و سخا اور شجاع و دلیر فقیہ تھے۔ انھوں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے احیاء اور امام حسین کی خونخواہی کی غرص سے [جنگ بدر میں مسلمانوں کا مشہور نعرہ] یا منصور اَمِت (یعنی اے نصرت یافتہ! مار دے) کے شعار کے ساتھ، قیام کیا.[75] انھوں نے ہشام بن عبدالملک (مدت حکومت:105 ـ 125ق) کے ساتھ زبانی کلامی جھگڑے کے بعد اس کے خلاف قیام کرنے کا فیصلہ کیا۔ کوفہ لوٹ کر آنے کے بعد شیعیان کوفہ میں سے تقریبا 15000 افراد نے ان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا اور انہیں بنو امیہ کے خلاف قیام کی ترغیب دلائی؛[76] لیکن جنگ کے دوران ایک تیر ان کی پیشانی پر آ لگا اور یوں ان کا قیام ناکامی سے دوچار ہوا اور وہ جام شہادت نوش کرگئے۔[77]
  4. ابن طباطبا کا قیام:
    ابن طباطبا حسنی سادات میں سے تھے جنہوں نے دوسری صدی ہجری کے آخر (سنہ 199 ہجری) میں بنو عباس کے خلاف اپنے قیام کا آغاز کیا اور ان کا قیام تیسری صدی ہجری کے آغاز پر ناکامی سے دوچار ہوا۔ اس قیام کے عسکری سالار کا نام ابو السرایا تھا۔[78]

ائمہؑ اور شیعیان کوفہ بنی عباس دور میں

کوفہ میں ابو العباس سفاح کی طرف سے عباسی خلافت کی باضابطہ تاسیس کا اعلان کیا گیا اور لوگوں سے بیعت لی گئی تو اس نے کوفہ کو اپنا دار الحکومت قرار دیا لیکن کچھ عرصہ بعد اس نے دیکھا کہ وہاں کے عوام اس کو بدگمانی سے دیکھ رہے ہیں چنانچہ اس نے حکومت کا مرکز بدل دیا[79] اور جب عباسی خلفاء کمزور ہوگئے اور ادھر ادھر خود مختار حکومتیں تشکیل پائیں تو انھوں نے اہل تشیع کا تعاقب ترک کر دیا اور شیعہ کوفہ میں باقاعدہ طور پر شیعہ کہلوانے لگے۔[80]

ائمہ کے پیروکاروں کی سب سے بڑی تعداد، سب سے زیادہ کوفہ میں مجتمع تھی[81] اور ان کی آبادی بہت زیادہ تھی یہاں تک کہ شیعہ شہر کے عنوان سے پہچانا جاتا تھا۔[82]ائمہ سے لوگوں کی محبت کا حال یہ تھا کہ مثال کے طور پر بعض لوگ امام باقرؑ کو پیامبر کوفہ اور[83] عراقی باشندوں کا امام[84] کہتے تھے اور عراقی عوام کو امام باقر کے شیدائیوں کے نام سے یاد کرتے تھے۔[85]

امام صادقؑ ابو العباس سفاح کے دور میں دو سال تک کوفہ میں مقیم رہے اور یہاں متعدد شاگردوں کی تربیت کی؛ حتی کہ مدتوں بعد کوفہ کے سفر پر آنے والے امام رضاؑ کے شاگرد اور نامور محدث حسن بن علی بن زیاد وشاء کہتے ہیں: میں نے مسجد کوفہ میں 900 اساتذہ حدیث کو دیکھا جو امام صادق سے روایت کر رہے تھے۔[86] یوں کہا جا سکتا ہے کہ کوفہ علوم آل محمد(ص) کا مرکز بن چکا تھا۔

کوفہ میں امام رضا اور بعد میں امام جوادؑ کے نمائندے صفوان بن یحیی تھے۔ امام رضا کے زمانے میں کوفہ بغداد کے برابر میں علی بن ابی حمزہ البطائنی کی سرکردگی میں واقفہ نامی گروہ کا دوسرا مرکز تھا۔ امام رضا کو مامون عباسی نے مرو بلوایا اور عہدہ ولیعہدی آپؑ پر مسلط کیا تو شیعیان کوفہ کو، |امامؑ کے بھائی عباس بن موسی اور ابو السرایا (سنہ 202 ہجری) کا سامنا کرنا پڑا جو مامون عباسی کی خلافت اور امام رضا کی ولیعہدی کی ترویج کر رہے تھے اور انہیں حسن بن سہل کی حمایت حاصل تھی تاہم اہل کوفہ نے حسن بن سہل اور عباس بن موسی کے ساتھ تعاون نہیں کیا۔

امام محمد تقی کے زمانے میں شیعہ کوفہ میں فطحیہ کے ساتھ حالت نزاع میں رہتے تھے؛ فطحیہ امام صادق کے فرزند عبداللہ الافطح کی امامت کے قائل تھے۔

کوفہ کے مشہور شیعہ علمی گھرانے

کوفہ میں متعدد شیعہ علمی خاندان تھے جن میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں:[87]

آل ابی شعبہ، آل اعین، آل ابی صفیہ، آل ابی اراکہ، آل ابی جعد، آل ابی الجہم، آل ابی سارہ، آل نعیم ازدی، آل حیان تغلبی، بنی حر جعفی، بنی الیاس بجلی کوفی، بنی عبد ربہ، بنی ابی سبرہ، بنی سوقہ، بنی نعیم صحاف، بنی عطیہ، بنی رباط، بنی فرقد، بنی دراج، بنی عمار بجلی.

بعض فرقوں کی پیدائش میں کوفہ کا کردار

خوارج، کیسانیہ اور زیدیہ جیسے فرقوں کی بنیاد اسی شہر میں پڑی.[88]

کوفہ اور ظہور امام زمانہ(عج)

متعدد روایات کے مطابق کوفہ آخر الزمان میں امام زمانہ(عج) کی عالمی حکومت کا مرکز ہوگا اور پوری دنیا کے لوگ اس شہر کا رخ کریں گے. مفضل نے امام صادقؑ سے سوال کیا کہ ظہور اے وقت حضرت مہدیؑ کا گھر اور مؤمنین کا اجتماع کہاں ہوگا تو آپؑ نے فرمایا:

"دار ملكہ الكوفة، ومجلس حكمہ جامعہا، وبيت مالہ ومقسم غنائم المسلمين مسجد السہلة، وموضع خلواتہ الذكوات البيض من الغريين ...لا يبقى مؤمن إلا كان بہا أو حواليہا".
ترجمہ: ان کی حکومت کا مرکز کوفہ، ان کے فیصلوں اور قضاوتوں کا مرکز مسجد کوفہ، بیت المال اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم غنائم کا مرکز مسجد سہلہ جبکہ خدا کے ساتھ راز و نیاز اور خلوت و مناجات کا مقام غربین (نجف اشرف) کے سفید ٹیلے ہونگے... کوئی مؤمن نہ رہے گا مگر یہ کہ اس کا گھر کوفہ میں یا کوفہ کے نواح میں ہوگا.[89]

امام باقرؑ نے فرمایا:

"يدخل الكوفة وبہا ثلاث رايات قد اضطربت فتصغو لہ، ويدخل حتى يأتي المنبر فيخطب فلا يدري الناس ما يقول من البكاء".
ترجمہ: امام زمانہ(عج) ایسے حال میں کوفہ میں داخل ہونگے جب تین پرچم آپس میں شدت سے لڑ جھگڑ رہے ہونگے؛ پس کوفہ ان کے لئے مسخر ہوگا اور وہ کوفہ میں داخل ہوکر مسجد کے منبر پر رونق افروز ہونگے اور خطبہ دیں گے لوگ اس قدر اشتیاق کے آنسو بہائیں گے کہ کوئی یہ نہ سمجھ سکے گا کہ کیا کہہ رہے ہیں![90].[91]
امیرالمؤمنین علیؑ فرماتے ہیں: اور وہ کوفہ کی طرف رخ کریں گے اور اپنی رہائش گاہ یہی قرار دیں گے[92] امیرالمؤمنینؑ مزید فرماتے ہیں: امام زمانہؑ اور ان کے اہل خانہ "رحبہ" کے مقام پر رہائش اختیار کریں گے... رحبہ نوحؑ کی قیام گاہ تھی. یہ ایک پاکیزہ سرزمین ہے اور آل محمدؑ بغیر کسی مقدس سرزمین کے، کسی سرزمین میں سکونت اختیار نہیں کرتے اور ایک پاک اور مقدس سرزمین کے بغیر کسی سرزمین میں جام شہادت نوش نہیں کرتے.[93]

کوفہ کے حدود بعد از ظہور

حضرت مہدی (عج) عدل اور آزادی کی بنیاد پر واحد عالمی حکومت کی بنیاد رکھیں گے اور کوفہ کو حکومت کریمہ کا دارالحکومت قرار دیں گے تو اس شہر کا قطر 54 میل (تقریبا 110 کلومیٹر) تک پہنچ جائے گا۔[94]

امام صادقؑ نے اس سلسلے میں فرمایا: "جب قائم آل محمد (عج) قیام کریں گے، کوفہ کی پشت پر (یعنی نجف اشرف میں) ایک مسجد تعمیر کریں گے جس کے ایک ہزار دروازے ہونگے اور کوفہ کے باشندوں کے گھر کربلا کی دو نہروں سے متصل ہو جائیں گے۔[95]

جب کوفہ دولت کریمہ کے دار الحکومت کی حیثیت اختیار کرے گا، تمام مؤمنین کوفہ میں مجتمع ہوجائیں گے؛ جیسا کہ بہت سی حدیثوں میں تصریح ہوئی ہے:

لوگوں پر وہ دن آئے گا جب کوئی بھی مؤمن نہ ہوگا مگر یہ کہ وہ کوفہ میں ہو یا اس کا دل کوفہ کی طرف مائل ہو"؛ قیامت برپا نہ ہوگی مگر یہ کہ مؤمنین سب کوفہ میں اکٹھے ہوجائیں۔[96]

رجعت کی روایات و احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ خاندان وحی کی دولت کریمہ کا دارالحکومت رجعت کے زمانے میں بھی کوفہ ہی ہوگا؛ مفضل بن عمر ایک مفصل حدیث کے ضمن میں امام حسین علیہ السلام کی رجعت کے بارے میں امام صادقؑ سے نقل کرتے ہیں کہ آپؑ نے فرمایا:

"فيقبل الحسين عليہ السلام فيہم وجہہ كدائرة القمر، يروع الناس جمالا ...ثم يسير بتلك الرايات كلہا حتى يرد الكوفة، وقد جمع بہا أكثر أہل الأرض يجعلہا لہ معقلا".
ترجمہ: امام حسین علیہ السلام ان [لشکروں اور پرچموں] کے درمیان آگے بڑھیں گے جبکہ ان کا چہرہ چاند کے دائرے کی مانند ہوگا اور لوگوں کے اپنے جمال سے مرعوب کررہے ہونگے ... پھر ان لشکروں اور پرچموں کے ہمراہ روانہ ہونگے حتی کہ کوفہ میں داخل ہونگے جبکہ روئے زمین پر بسنے والوں میں سے اکثر لوگ یہاں جمع ہونگے، پس آپ کوفہ کو اپنا دفاعی قلعہ اور عسکری مرکز (Headquarters) قیادت کا مرکز قرار دیں گے۔[97].[98]

ایک حدیث میں بالخصوص امام حسینؑ کے عہد فرمانروائی میں امیرالمؤمنینؑ کی متعدد رجعتوں اور مقام صفین کے مقام پر اصحاب صفین کے ساتھ ملاقات اور ایک لاکھ اصحاب جن میں سے 30000 افراد اہل کوفہ ہیں، کی حاضری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔[99] ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ امیرالمؤمنینؑ رجعت کریں گے تو نجف اشرف کو اپنا دارالحکومت قرار دیں گے۔[100]

ائمۂ معصومینؑ کی پیشین گوئیوں کے ضمن میں ظہور مہدی کے وقت شہر کوفہ کے حالات و کیفیات کے بارے میں متعدد حدیثیں وارد ہوئی ہیں:

  • جب فرات میں شگاف پڑے گا اور آب فرات کوفہ کی گلیوں میں جاری ہوگا؛ شیعیان عالم ظہور کے لئے تیاری کریں۔[101]
  • جابر (جعفی) کہتے ہیں:
    "قلت لابي جعفر عليہ السلام: متى يكون ہذا الامر؟ فقال: "أنى يكون ذلك - يا جابر - ولما يكثر القتل بين الحيرة والكوفة".
    ترجمہ: میں نے ابو جعفرؑ سے پوچھا: امر ظہور کب ہوگا؟ فرمایا: اے جابر! یہ کیسے ممکن ہے جب تک حیرہ اور کوفہ کے درمیان وسیع قتل عام نہ واقع ہوا ہو؟[102]
  • امیرالمؤمنینؑ نے فرمایا:
    "و يدخل جيش السفياني إلى الكوفة فلا يدعون أحدا إلا قتلوہ".
    ترجمہ: اور سفیانی کی فوج کوفہ میں داخل ہوگی اور کسی کو قتل کئے بغیر نہ چھوڑے گی.[103]
    "و يظہر السفياني ومن معہ حتى لا يكون لہ ہمة إلا آل محمد صلى اللہ عليہ وآلہ وشيعتہم فيبعث بعثا إلى الكوفة، فيصاب باناس من شيعة آل محمد بالكوفة قتلا وصلبا".
    ترجمہ: سفیانی اور اس کے ساتھی خروح کریں گے تو ان کا کوئی مقصد نہ ہوگا سوائے آل محمد(ص) اور ان کے پیروکاروں کو قتل کرنے کے! پس وہ لشکر کوفہ کی جانب روانہ کریں گے، وہ شیعیان اہل بیتؑ میں سے ایک گروہ کو قتل کریں گے اور سولی پر چڑھائیں گے۔[104]

اسلامی علوم کی تشکیل میں کوفہ کا کردار

اسلامی علوم کی تاسیس و ترویج میں بھی کوفہ کا کردار ناقابل انکار ہے.

کوفہ میں علم نحو

علم صرف اور علم نحو میں دو اہم اور بنیادی مکاتب پائے جاتے ہیں (1) مکتب کوفہ اور (2) مکتب بصرہ؛ اور ان دو مکاتب کے وجود میں آنے کے آغاز ہی سے ان کے اکابرین کے درمیان شدید اختلافات ظاہر ہوئے۔ سید محسن امین اپنی مشہور تالیف اعیان الشیعہ کی پہلی جلد میں لکھتے ہیں: "بصرہ اور کوفہ میں علم نحو کے ابتدائی اکابرین شیعہ علماء تھے جنہوں نے ان دو سرزمینوں میں اس علم کو فروغ دیا۔

بصرہ وہ پہلا شہر ہے جہاں نحو کے قوانین وضع اور تدوین کئے گئے اور ایک صدی بعد کوفہ نے بھی ایک خاص مکتب کی بنیاد رکھی اور یہ مکتب بصری مکتب کے ساتھ اختلاف اور نزاع کرنے لگے۔

بصرہ میں علم نحو کے مشہور ترین عالم جو بصرہ میں اس علم کو امام سمجھے جاتے ہیں ـ کتاب "العین" کے مصنف خلیل‏ بن احمد فراہیدی ہیں اور جس نے اس علم کو مہذب کیا اور اس کو فروغ دیا اور اس کے اسباب و علل بیان کرنے کا اہتمام کیا وہ مکتب کوفہ کے پیشوائے نحو و لغت "کسائی" ہیں۔ کسائی "سیبویہ" کے استاد ہیں، جو اس علم میں کوفہ کے آگاہ ترین استاد سمجھے جاتے ہیں۔[105]

چونکہ کوفیوں نے بنو امیہ کے خلاف بنو عباس کے قیام کی حمایت کی تھی، عباسیوں نے بصریوں کے مقابلے میں کوفیوں کی حمایت کی اور کوفی علماء کو اپنے فرزندوں کی تعلیم و تربیت کی دعوت دی۔[106]

کوفہ میں علم فقہ

امام جعفر صادق کے ایام حیات کے آخری برسوں میں شیعہ فقہی مکتب مدینہ سے کوفہ منتقل ہوا اور کوفہ میں ایک نئی فقہی حیات کا آغاز ہوا. براقی لکھتے ہیں: "148 صحابی مدینہ سے کوفہ ہجرت کرکے اس شہر میں سکونت پذیر ہوئے اور اس شہر میں ہجرت کرکے آنے والے تابعین اور فقہاء کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے.[107] ان ایام میں جبکہ اموی سلطنت کا خاتمہ ہو چکا تھا اور ابو العباس سفاح نے عباسی سلطنت کی بنیاد رکھی، امام صادقؑ کوفہ آئے اور دو سال تک یہاں قیام کیا۔[108] ان دنوں امویوں کے زوال اور عباسیوں کے آغاز سلطنت کے ایام ہونے کی وجہ سے امام صادقؑ کو مناسب موقع فراہم ہوا تھا کہ آپ حکومت کی مزاحمتوں سے فارغ البال ہوکر شیعہ فقہ اور مذہب کی ترویج و فروغ کا اہتمام کرتے۔ حسن وشاء جو امام رضاؑ کے شاگرد ہیں اور عرصہ بعد گذرے ہیں، کہتے ہیں کہ "میں نے مسجد کوفہ کو قریب سے دیکھا؛ وہاں 900 شیوخ حدیث تھے اور ہر ایک کہہ رہا تھا: "حدثنی جعفر بن محمد"، (میں نے جعفر بن محمدؑ کو فرماتے ہوئے سنا..."۔[109]

امام صادقؑ کے شاگردوں ابان بن تغلب ہیں جنہوں نے آپؑ سے 30000 حدیثیں نقل کی ہیں؛ محمد بن مسلم نے امام صادقؑ امام باقرؑ سے 40000 حدیثیں نقل کی ہیں اور جابر بن یزید جعفی نے امام باقرؑ اور امام صادقؑ سے 90000 حدیثیں نقل کی ہیں۔[110]

حافظ ابو العباس کوفی (متوفیٰ 332 ہجری) نے رجال کے موضوع پر ایک کتاب تالیف کی ہے جس میں انھوں نے 4000 راویان حدیث کے نام درج کئے ہیں ابن شہر آشوب نے مناقب آل ابی طالب میں، فضل بن حسن طبرسی نے اعلام الوری میں اور شیخ مفید نے الارشاد میں کہا ہے کہ یہ افراد سب امام صادقؑ سے حدیث نقل کرتے تھے۔[111].[112].[113] اس تمام علمی فعالیت کا محور و مرکز امام صادقؑ تھے اور عوام اور فقہاء سب آپؑ کی طرف مائل تھے اور اس حقیقت نے منصور دوانیقی کو ہراساں کر دیا تھا چنانچہ اس نے امامؑ کو بغداد بلوایا۔

کوفی فقہی مکتب کی خصوصیات

  1. اس زمانے میں حدیث کی تدوین و کتابت[114] کو خاص اہمیت دی جاتی تھی. حدیث کی باضابطہ تدوین و کتابت کا آغاز امام باقرؑ کے زمانے سے ہوا اور امام صادق میں تدوین حدیث کا یہ سلسلہ عروج کو پہنچا۔ امام صادقؑ شدت کے ساتھ اپنے اصحاب کو حدیث لکھنے اور ضبط کرنے کی ترغیب دلاتے تھے۔ ابو بصیر کہتے ہیں: امام صادقؑ نے فرمایا:
     :"اكتبوا فانكم لا تحفظون حتى تكتبوا".
    ترجمہ: (حدیث اور علم) کو لکھ دیا کرو کیونکہ تم اس حافظے میں محفوظ نہیں رکھ سکتے؛ مگر یہ کہ اس کو مکتوب کردو۔[115]
  2. اس زمانے میں نئے اور مستحدثہ مسائل بکثرت پیش آئے اور لوگ ان مسائل کا جواب قرآن کریم میں نہیں پا سکتے تھے اور فقہائے اہل سنت کے ہاں دستیاب احادیث و روایات بھی اس مسئلے کا جواب نہیں دی سکتی ہیں اور معاشرے کی صورت حال بھی ایسی نہ تھی کہ لوگ اہل بیت علیہم السلام کی طرف رجوع کرتے چنانچہ اہل سنت کے فقہاء نے قیاس، استحسان، رأی اور طن کی طرف رجوع کرنا شروع کیا؛
  3. اس دور میں راویوں کی نقل میں اختلاف رونما ہوا۔ بہت سی روایات ائمہ اہل بیتؑ سے نقل ہوئی۔کبھی ایک ہی موضوع پر دو متعارض (Conflicting) روایات نقل ہوئی۔ اسی بنا پر بعض راویوں نے ائمۂ اطہارؑ سے ایسی راہ و روش کی درخواست کی جس کے ذریعے صحیح حدیث کی غیر صحیح حدیث سے تمیز و تشخیص ممکن ہوجائے۔ وہ روایات و احادیث جو اخبار علاجیہ کے عنوان سے نقل ہوئی اسی تعارض و تضاد کے حل کے لئے صادر ہوئی ہیں؛
  4. حنبلی، مالکی، شافعی اور حنفی سمیت متعدد فقہی مذاہب معرض وجود میں آئے۔ ان کے مقابلے میں اہل بیت کا فقہی مذہب اقلیت میں تھا اور ائمہؑ بعض مواقع پر اپنی [اور اپنے پیروکاروں] کی جان یا سماجی منزلت کے تحفظ کی غرض سے دو ٹوک موقف اختیار نہیں کرتے تھے یا تقیہ پر مبنی موقف اپناتے تھے؛
  5. اسی دور میں اجتہاد و استنباطِ احکامِ شرعیہ، کے معیارات ـ منجملہ استصحاب، برائت، احتیاط، تخییر، قاعدہ طہارت، قاعدہ ید، اباحہ، حِلّیت وغیرہ ائمہؑ کی طرف سے بیان ہوئے۔ بہت سے مسائل و موضوعات میں راویان حدیث دور افتادہ علاقوں کا سفر اختیار کرتے تھے اور ائمہ تک رسائی ممکن نہیں ہوتی تھی چنانچہ انھوں نے فقہی قواعد اور اصولوں کے مطابق احکام شرعیہ کا استنباط اور اجتہاد کا راستہ اپنایا۔[116]

علم حدیث کوفہ میں

کوفہ میں اہل سنت کا مدرسہ فتوحات کے دور اور شہر کی تاسیس یا تجدید کے وقت، یعنی خلیفۂ ثانی کے زمانے میں جنم لے چکا تھا۔ تاسیس یا تجدید کے بعد رسول اللہ(ص) کے بعض صحابہ حدیث نبوی کو اس شہر میں فروغ ملا اور تفسیر کے دروس کا آغاز ہوا گوکہ حدیث کی تدوین و کتابت کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ حدیث کا کوفی مکتب مکتب مدینہ کے مقابل میں لایا جاتا ہے۔

کوفہ کے مکتب حديث کی خصوصیات

  • تحرک اور عقلیت (Dynamism and Rationalism):
    اس علاقے میں مخالفین کے ساتھ ساتھ شیعہ اکابرین کی موجودگی کی وجہ سے فقہی اور کلامی تنازعات فطری طور پر سامنے آئے جس کی وجہ سے یہ مکتب حدیث ـ ایک قسم کے تحرک اور نشاط ـ سے ہمکنار ہوا؛
  • کوفی محدثین کی کثرت اور ائمۂ معصومینؑ کا کردار:
    کوفہ میں شیعہ محدثین کی تعداد کے بارے میں، ایسی روایات وارد ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس شہر میں تشیع کے استقرار کے بعد شیعہ محدثین کی کی بہت بڑی تعداد موجود تھی. ہم دیکھتے ہیں کہ امام محمد باقر کے شاگردوں کے پہلے گروہ میں متعدد افراد کا تعلق کوفہ سے تھا جن کی چوٹی پر خاندانِ اعین نظر آتا ہے. اعین برادران (عبدالملک بن اعین، اور ان کے بھائی زرارة بن اعین) کوفہ میں تعلیمات |اہل بیتؑ کی اشاعت، ترویج و تبلیغ کا سبب تھے۔ ادھر مدینہ میں بھی شیعیانِ کوفہ کا آنا جانا رہتا تھا جو امام صادق کی خدمت میں حاضر ہوکر کسب فیض کیا کرتے تھے جبکہ شیعہ مشائخ حدیث انفرادی یا پھر اجتماعی طور پر رخت سفر باندھ کر مدینہ جاتے اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے براہ راست حدیث سنتے تھے. اگر شیخ طوسی کی رجالی تالیف اختیار معرفۃ الرجال میں اصحاب امام صادقؑ کے اصحاب کی فہرست کا ایک جائزہ لیں تو اس سے بھی اس امر کی بخوبی تائید ہوگی کہ آپؑ سے روایت کرنے والے درجۂ اول کے راویوں کا تعلق بھی کوفہ سے تھا اور کبھی آپ (س) سے روایت کرنے والے 10 راویوں کا مشترکہ وصف یہی ہوتا ہے کہ وہ سب کوفی ہیں؛
  • کوفہ میں امام جعفر صادق اور ائمہؑ کے وکلاء کی موجودگی:
    ابو العباس سفاح نے اموی سلطنت کو ختم کرکے عباسی سلطنت کی بنیاد رکھی تو عباسیوں کا مطمع نظر اپنی سلطنت کا استحکام تھا چنانچہ امام صادقؑ اور آپؑ کی علمی سرگرمیوں سمیت بہت سے دیگر امور ابھی ان کی آنکھوں نے اوجھل تھے۔ اس دور میں امام صادق نے مدینہ سے ہجرت کرکے کوفہ میں دو سال تک قیام کیا اور اس شہر میں شاگردوں کی تربیت کا اہتمام کیا۔ یہ دور نہ صرف شیعہ فقہاء اور محدثین کے لئے بلکہ دوسرے اسلامی فرقوں اور مکاتب کے اکابرین فقہ و حدیث کے لئے نہایت پر ثمر دور سمجھا جاتا ہے۔ ان ہی دو سالوں کے بارے فقہ حنفی کے امام ابو حنیفہ کا یہ قول مشہور ہے کہ لولا السَّنَتان لہلك النعمان (اگر وہ دو سال نہ ہوتے تو نعمان [ابو حنیفہ] ہلاک ہو جاتے)۔ [کوفہ میں امام جعفر صادق کا دو سالہ قیام اس شبہ کا جواب بھی ہے کہ [[امام جعفر صادق نے اپنی پوری عمر مدینہ میں گذاری تھی اور ابوحنیفہ کبھی بھی کوفہ سے نہیں نکلے تھے تو پھر یہ کیسے ممکن ہو کہ ابو حنیفہ [[امام جعفر صادق کے شاگر رہے ہوں!؟]۔ شیعیان کوفہ کا تعلق ائمۂ معصومین کے ساتھ ہمیشہ قائم تھا چنانچہ گنے چنے افراد ہی کبھی انحراف کا شکار ہوجاتے تھے اور باقی عوام گمراہی سے محفوظ رہتے تھے. علاوہ ازیں بیشتر شیعہ علاقوں میں ائمۂ معصومین کے نمائندے اور وکلاء بھی تبلیغ و ترویج احکام و عقائد میں فعال کردار ادا کر رہے تھے؛ چنانچہ کوفہ بڑی شیعہ آبادی کا مسکن ہونے کے ناطے [[امام جعفر صادق کے دور سے آخر تک کبھی بھی وکلائے ائمہؑ سے خالی نہيں رہتا تھا۔ مثال کے طور پر امام صادقؑ نے اپنے نامی گرامی شاگرد اور صحابی جناب مفضّل بن عمر جعفی کو اپنے نمائندے اور وکیل کی حیثیت سے کوفہ میں متعین فرمایا تھا۔ ان سے قبل ابوالخطّاب، محمد بن مقلاص اسدی کو یہ کردار سونپ دیا گیا تھا لیکن وہ فکری انحراف کا شکار ہوا اور غالیانہ طرز فکر اختیار کرگیا چنانچہ امام صادق نے اس کو مسترد و مردود قرار دے کر شیعیان کوفہ کے انتخاب اور اصرار پر مفضل بن عمر کو کوفہ میں اپنا جانشین قرار دیا۔ امام صادق کے بعد دوسرے ائمۂ معصومینؑ کے ادوار میں عصر غیبت تک شیعیان عالم ایک طرف سے ائمۂ معصومین سے رابطے میں تھے اور دوسری طرف سے ان کے وکلاء سے فیضیاب ہوا کرتے تھے؛ اور وکلاء کی ایک اہم ذمہ داری یہ تھی کہ وہ اپنے علاقے کے لوگوں کے خطوط و مراسلات وصول کرکے انہيں اپنے دور کے امامؑ کے پاس بھجواتے تھے اور ان کے جوابات وصول کرکے سائلین کو ان کے جوابات پہنچا دیتے تھے. یہ مراسلات و مکاتیب بذات خود شیعہ حدیث کی ترویج اور رأی اور قیاس و استحسان کا دامن تھامنے سے چھٹکارا دلانے میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں؛
  • اصول و کتب حدیث کی تدوین:
    کوفہ کے مکتب حدیث کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس مکتب سے وابستہ علماء و محدثین نے حدیث کی تدوین و کتابت کا خصوصی اہتمام کیا جس کے نتیجے میں کیفیت و معیار اور کمیت و مقدار کے لحاظ سے بہت اہم اور عمدہ کتب معرض وجود میں آئیں شیخ حر عاملی نے اپنی کتاب وسائل الشیعہ میں {الفائدۃالرابعہ} کے آخر میں 6600 کتب کا حوالہ دیا ہے جو ان کے بقول قدمائے شیعہ نے تالیف کئے ہیں؛ ان کا کہنا ہے کہ ان کتب کے بڑے حصے کی تالیف و تدوین کا کام کوفہ کے علماء نے سرانجام دیا ہے؛ اور ان ہی مدون شیعہ کتب ہی کی برکت سے اصول اربعمأۃ معرض وجود میں آئے۔ تاہم یہ مدون مجموعے ابتداء میں علماء و محدثین اور ائمہؑ کے شاگردوں کے ذاتی مجموعہ ہائے حدیث تھے جن میں انھوں نے اپنی مسموعہ احادیث تحریر کی تھیں اور بعد میں ان کی تبویب کی گئی اور انہيں مرتب کیا گیا اور زيادہ منظم اور متشکل مجموعے مرتب ہوئے۔
  • انحرافی افکار کی موجودگی:
    کوفہ کے مکتب حدیث کو، امام صادقؑ کے بعد اپنے ارتقائی سفر میں نشیب و فراز کا سامنا کرنا پڑا؛ ایک طرف سے یہ علاقہ تشیع سے منحرف ہوکر غُلُو کا شکار ہونے والے گروہوں کی سرگرمیوں کا مرکز تھا اور دوسری طرف سے بعض کوفی محدثین میں ظاہر ہونے والا انحراف واقفیہ فرقے کا ظہور تھا جو بطور خاص کوفہ میں علی بن حمزہ بطائنی اور اس کے بعض ہمفکر ساتھیوں کے توسط سے معرض وجود میں آیا تھا. یہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اپنے مذہب باطل کی تائید کے لئے احادیث کو جعل و تحریف کیا؛ تاہم حضرت امام رضاؑ اور یونس بن عبدالرحمن سمیت ان کے بعض اصحاب خاص کی کوششوں اور راہنمائیوں کی برکت سے واقفیہ یا واقفہ کی طرف ابتداء میں مائل ہونے والے افراد بھی توبہ کرکے اس تفکر سے پلٹ کر ہدایت یافتہ ہوئے۔[117]

کوفی رسم الخط

خط کوفی ایک زاویوں والے مسطح و ہموار خط کا نام ہے جس کے زاویے تربیع (چار ضلعی اشکال) اور اس کے مسطحات سیدھے زاویوں کے حامل ہیں. یہ خط متعدد عشروں تک عرب دنیا کا غالب رسم الخط شمار کیا جاتا تھا اور قرآنی نسخے اسی خط میں لکھے جاتے تھے اور درہم و دینار کے سکوں پر درج و ضرب کرنے کے لئے اسی رسم الخط سے استفادہ کیا جاتا تھا۔ کوفی رسم الخط ابتداء میں نقطوں اور اعرابی حرکات کے بغیر تھا، تاہم اس میں غلطی کا احتمال کم ہوتا تھا کیونکہ بے شمار قاریوں اور حافظوں نے قرآن کو براہ راست حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ سے اخذ کیا تھا تاہم پہلی صدی کے نصف اول کے گذرنے کے بعد ـ جب عرب اقوام دوسری اقوام کے ساتھ مخلوط ہو چکے تھے، قرآن مجید کی تلاوت میں غلطیاں اور خطائیں ظاہر ہونا شروع ہوئیں چنانچہ ابوالاسود دوئلی جو امام علی علیہ السلام سے عربی ادب کے اصول سیکھ چکے تھے، نے قرائت میں سہولت کی خاطر فتحہ (زبر)، ضمہ (پیش) اور کسرہ (زیر) جیسی حرکات ایجاد کردیں۔[118]

وابستہ موضوعات

بیرونی روابط

حوالہ جات

  1. بلاذری، فتوح البلدان، ص275.
  2. حموی، معجم البلدان، ج4، ص490.
  3. سورہ تین آیات 1 تا 3.
  4. مجلسی، بحار الانوار، ج100، ص394.
  5. شیخ صدوق، الخصال، قم المشرفہ. 18 ذو القعدة الحرام 1403 ہجری ص225.
  6. روضہ کافی ج2، ص155.
  7. زیدان،تاریخ تمدنی جرجی زیدان ج2 ،ص178.
  8. براقی، تاریخ الکوفہ، ص115.
  9. دینوری، اخبار الطوال، ص124.
  10. فیاض، پیدایش و گسترش شیعہ، ص80 .
  11. محمد حسين الأعلمي، دائرة المعارف الشيعيۃ العامة، ج15 ص393 ؛ عبداللہ یاقوت حموی، معجم البلدان ج4 ص557؛ معین و محمد، فرہنگ معین (اعلام)؛ دہخدا، لغت نامہ، ج 46.
  12. فیاض، پیدایش و گسترش شیعہ، ص80 .
  13. جعفری، تشیع در مسیر تاریخ ،ص130.
  14. براقی، تاریخ کوفہ، ص205.
  15. جعفری، تشیع در مسیر تاریخ ،ص127.
  16. جعفری، تشیع در مسیر تاریخ ،ص142.
  17. جعفری، تشیع در مسیر تاریخ ،ص138.
  18. جعفری، تشیع در مسیر تاریخ ،ص142.
  19. طباطبایی یزدی، عروة الوثقی، ص201.
  20. مجلسی، بحار الانوار، ج53، ص11.
  21. یزدی، العروہ الوثقی، ص 347.
  22. سید جوادی، دایرة المعارف تشیع، ج14، ص245.
  23. سید جوادی، دایرة المعارف تشیع، ج14، ص245 .
  24. سید بن طاووس، لہوف، ص190 تا 193.
  25. صفری، کوفہ از پیدایش تا عاشورا، صص 144ـ137.
  26. ابن‌اعثم كوفى، كتاب الفتوح، ج4، ص286.
  27. خلیفہ‌ بن خیاط، تاریخ، ص165.
  28. خلیفہ بن خیاط، تاریخ، ص169170.
  29. ابن‌ عبدالبر قرطبى، الاستيعاب فى معرفة الاصحاب، ج2، ص745.
  30. طبری، تاریخ، ج4، ص223.
  31. براقی، تاریخ الکوفہ،صص249 ـ 249.
  32. مسعودی، إثبات الوصیة، مؤسسہ انصاريان، قم، طبعة الثالثة 2006 عیسوی، ص 32.
  33. ابن قولویہ، كامل الزیارات،1417 مؤسسة (نشر الفقاہة) ص315.
  34. مجلسی،بحار ج 97 ص 405.
  35. خصیبی،الہدایة الكبری، ص: 427.
  36. مجلسی،بحار، ج‏97، ص 385.
  37. مجلسی،بحار، ج‏97، ص 385.
  38. مجلسی،بحار، ج‏57، ص 213.
  39. مجلسی،بحار، ج‏97، ص 392.
  40. عيون اخبار الرضا ج 2 ص 65.
  41. مجلسی،بحار، ج‏57، ص 214.
  42. مجلسی،بحار، ج‏57، ص 210.
  43. مجلسی، بحار، ج‏57، ص 210.
  44. کلینی،كافی، ج‏4، ص 563.
  45. مجلسی، بحار، ج‏57، ص: 216.
  46. الامامہ و السیاسہ ج1 ص 47.
  47. جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ص 107.
  48. جعفری، تشیع در مسیر تاریخ ص 135.
  49. تبیان، فارسی مقالہ: امیرالمؤمنینؑ کی جانب سے کوفہ کو دار الخلافہ قرار دینے کی وجوہات.
  50. خطبہ 34، 69، 97، 27.
  51. رفتارشناسی مردم کوفہ در نہضت حسینی، علی شیخان، حکومت اسلامی، زمستان 1381، شمارہ 26 .
  52. رجبی، کوفہ و نقش آن در قرون نخستین اسلامی، ص 203 تا 273.
  53. سورہ شوراء، آيت 23.
  54. مفید، الارشاد، ص 347.
  55. مفید، الارشاد، ص 347.
  56. شیخ عباس قمی، منتہي الآمال، ج1، ص 224.
  57. طبرسی، زندگاني چہاردہ معصومؑ (ترجمہ فارسی اعلام الوري)، ص 300.
  58. شیخ مفید، الارشاد، ص 349.
  59. آغاز خلافت امام حسن مجتبيؑ
  60. رجبی، کوفہ و نقش آن در قرون نخستین اسلامی، صص 284 تا 290.
  61. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ص 142.
  62. رجبی، کوفہ و نقش آن در قرون نخستین اسلامی، صص 292 تا300.
  63. سید بن طاوس، صص 51 تا 67.
  64. رجبی، کوفہ و نقش آن در قرون نخستین اسلامی، ص 342.
  65. سید بن طاوس، اللہوف، ص 100.
  66. بھائی شرف علی، علی، عمدة المطالب، ط بمبئی، ص 181.
  67. زین العابدین راہنما، زندگاني امام حسين عليہ‌السلام، ص185.
  68. أسد حيدر، مع الحسين في نہضتہ، ص 174
  69. بحار الانوار، 44 ص365.
  70. رفتار شناسی مردم کوفہ در نہضت حسینی، حکومت اسلامی، زمستان 1381 - شمارہ 26.
  71. ابن‌ سعد، الطبقات الکبری ج6، ص2526، ط بیروت.
  72. طبری، تاریخ طبری، ج3، ص433.
  73. طبری، تاریخ طبری، ج3، ص449 ـ 448.
  74. دینوری، اخبار الطوال، ص 298 تا 303.
  75. مفید، الارشاد، ج2، ص171.
  76. اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص158.
  77. حوزہ ڈاٹ نیٹ، ائمہؑ اور شیعہ تحریکیں (زبان=فارسی).
  78. اصفہانی، مقاتل الطالبین ج2 ص175.
  79. رجبی، کوفہ و نقش آن در قرون نخستین، ص409.
  80. رجبی، کوفہ و نقش آن در قرون نخستین، ص 475.
  81. براقی،تاریخ الکوفہ، ص 269.
  82. مقدسی، البدء والتاریخ.
  83. بحار الانوار ج46 ص 355 بحوالہ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج3 ص329.
  84. مجلسی، بحارالانوار ج46 ص355.
  85. طوسی، رجال.
  86. نجاشی، فہرست مصنفی الشیعہ، تحقیق: سید موسی شبیری زنجانی، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین، ص40ـ 39.
  87. رجبی، کوفہ و نقش آن در قرون نخستین، صص475 تا 486.
  88. رجبی، کوفہ و نقش آن در قرون نخستین، ص 497.
  89. مجلسی، بحارالانوار، ج 53، ص 11.
  90. مفید، ارشاد، ج 2، ص 380.
  91. طوسی، الغیبة ص 469.
  92. عیاشی، تفسیر عیاشی، ج 1، ص 165.
  93. وہی ماخذ، ج 1، ص 165.
  94. مجلسی، بحارالانوار، ج 53، ص 12.
  95. مفید، الارشاد، ج 2، ص 380.
  96. طوسی، الغیبة، ص 451.
  97. عزالدین حسن بن سلیمان حلی، مختصر البصائر، ص 165 اور بعد کے صفحات۔
  98. مجلسی، بحارالانوار، ج 53، ص 35.
  99. مجلسی، بحارالانوار، ج 53، ص 74.
  100. مختصر البصائر، ص 190.
  101. الصراط المستقیم، ج 2، ص 258.
  102. مفید، الارشاد، ج 2، ص 374.
  103. مجلسی، بحار الانوار، ج 52، ص 219.
  104. بحار الانوار، ج 52، ص 222.
  105. حوزہ ڈاٹ نیٹ، تاریخ صرف و نحو.
  106. سيد حسين بن أحمد حسنی نجفی معروف بہ براقي، تاريخ الكوفة، سنة الطبع: ١٤٢٤ہجری، ص 488.
  107. سید البراقی، وہی ماخذ، ص429.
  108. سید البراقی، وہی ماخذ، ص466.
  109. سید البراقی، تاریخ الکوفہ، ص466.
  110. سید البراقی، تاریخ الکوفہ، ص467.
  111. ابن شہر آشوب، مناقب آل ابي طالب، محفوظة 1375 ہ‍ 1956 عـ طبع في المطبعة الحيدرية في النجف ج3 ص372.
  112. طبرسي، فضل بن حسن، اعلام الوری، مؤسسة ال البيتؑ قم؛ 1417 ہجری. ج1 ص535.
  113. شیخ مفید، الارشاد في معرفة حجج اللہ على العباد، ج2 ص179.
  114. تدوین حدیث: صحیفہ امام علیؑ صدر اول سے اہل سنت اور اہل تشیع اس قدر مشہور تھا کہ صحیح بخاری نے الجامع الصحیح (رجوع کریں: بخاری، كتابة العلم، ط 1314 ہجری، قاہرہ) باب كتابة العلم کے ضمن میں اور دوسرے محدثین نے اپنی کتب میں نقل کیا ہے۔
    ہم شیعہ نقطۂ نظر سے اس کتاب کو اسلام میں کتابت حدیث کا سر آغاز سمجھتے ہیں۔ جلال الدین سیوطی (متوفی سنہ 911 ہجری) لکھتے ہیں: صحابہ اور تابعین کے درمیان تدوین و کتابت حدیث کے سلسلے میں اختلاف تھا؛ ان میں سے بعض اس کو ناجائز اور بعض دوسرے نائز سمجھتے تھے؛ تاہم مؤخر الذکر افراد میں علی علیہ السلام اور ان کے بیٹے حسن علیہ السلام نے کتابت و تدوین کو عملی جامہ پہنایا ہے۔ (رجوع کریں: جلال الدین سیوطی، تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي، كتاب‏"تدريب الراوي‏"،ج1،ص69، ط قاہرہ، سنہ 1383 ہجری) صحیفہ علی علیہ السلام کے بعد ائمۂ شیعہ نے بعض کتب اور رسائل تدوین فرمائے ہیں جن میں سے بعض کچھ یوں ہیں:
    1. "الصحيفة السجادية" اور "رسالة الحقوق‏" جو امام سجاد علیہ السلام نے املاء کرکے لکھوائے۔
    2-"تفسير القرآن‏"، امام محمد باقر علیہ السلام؛
    3. "رسالة الى الشيعة‏" و "التوحید" امام جعفر صادق علیہ السلام؛ اور ان بزرگواروں کے خطبات و اقوال و مکاتیب.
    نیز اکابرین شیعہ نے اس اہم کام میں شرکت کی ہے اور ذیل کی کتب تالیف کی ہے:
    1. کتاب "السنن و الاحكام و القضايا" از صحابی رسول (ص)، ابو رافع قبطى المصرى، (متوفی 30ہجری).
    2- كتاب‏ "منسك فى الحج"، از صحابی رسول (ص) جابر بن عبد اللہ انصارى، (متوفی 78 ہجری).
    3-كتاب "السقيفة"، از سليم بن قيس الہلالى العامرى، نیز دیگر کتب و رسائل. (رجوع کریں: صدر، حسن، کتاب "تاسيس الشيعة‏" ص279؛ امین العاملی، سید محسن، ج1،ص147).
  115. حر عاملی، وسائل الشیعة، باب وجوب العمل بأحاديث النبي (صلى اللہ عليہ وآلہ)، ج27 ص81.
  116. كريمي نيا, محمد مہدي، مقالہ تاريخ فقہ و حقوق، ماہنامہ معرفت، ش93، ص43-59.
  117. کوفہ کا مکتب حدیث ابتدائی صدیوں کے دوران(مقالہ فارسی) سہ ماہی شیعہ شناسی، شمارہ 3 و 4 .
  118. صفری، کوفہ از پیدایش تا عاشورا، ص 330ـ327.

مآخذ

  • براقی، سید حسین براقی، تاریخ الکوفہ، بیروت، دارالاضواء 1987 ء.
  • جعفری، سید حسین محمد جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ترحمہ محمد تقی آیت اللہی، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی،1386.
  • فیاض، عبداللہ فیاض، پیدایش و گسترش تشیع، مترجم جواد خاتمی، سبزوار، نشر ابن ایمن، 1382
  • سید جوادی،احمد صدر حاج سید جوادی، دایرة المعارف تشیع، تہران، حکمت 1390.
  • طبری، محمد بن جریر طبری، تاریخ الامم و الملوک (تاریخ طبری) ، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، بی تا
  • راضی یاسین، صلح الحسن، ترجمہ سید علی خامنہ‌ای، انتشارات گلشن چاپ سیزدہم 1378
  • یعقوبی، تاریخ یعقوبی ترجمہ محمد ابراہیم آیتی انتشارات علمی و فرہنگی 1362.
  • سید بن طاووس، علی بن موسی بن جعفر بن طاووس، ترجمہ بخشایشی، قم، نوید اسلام، 1377
  • طباطبایی یزدی، سید محمد کاظم طباطبائی یزدی، العروة الوثقی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، بی تا
  • حموی، شہاب الدین ابو عبداللہ یاقوت بن عبداللہ بن حموی، معجم البلدان، بیروت، احیاء التراث العربی، 1979ء.
  • دینوری، احمد بن داود دینوری، اخبار الطوال، قم، منشورات شریف رضی، 1370.
  • رجبی، محمد حسین رجبی، کوفہ و نقش آن در قرون نخستین اسلامی، تہران، دانشگاہ امام حسینؑ 1378.
  • ابن قولویہ، جعفر بن محمد ابن قولویہ، کامل الزیارات، تہران، پیام حق، 1377.
  • مسعودی، علی بن حسین مسعودی، اثبات الوصیہ، ترجمہ نجفی، تہران اسلامیہ، 1362.
  • خصیبی، حسین بن حمدان، الہدایة الکبری، بیروت، بلاغ، 1419.
  • کلینی، محمد بن یعقوب بن اسحاق، اصول کافی، قم، دار الحدیث، 1429.
  • محمد باقر مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوار، بیروت ، دار احیاء التراث العربی، 1403.
  • نعمت اللہ صفری، کوفہ از پیدایش تا عاشورا، تہران، نشر مشعر، 1391.