اہل بیت خاندان پیغمبر اکرم حضرت محمدؐ کو کہا جاتا ہے جن کی طرف آیت تطہیر اور آیت مودت میں اشارہ کیا گیا ہے۔ اہل بیت میں امام علیؑ، فاطمہ زہراءؑ، امام حسنؑ، امام حسینؑ اور امام حسین کی اولاد میں سے نو ائمہ معصومینؑ شامل ہیں۔
شیعہ عقیدے کے مطابق اہل بیتؑ مقام عصمت کے مالک ہیں اور تمام اصحاب پر فوقیت رکھتے ہیں۔ ان کی محبت و مودت مسلمانوں پر واجب ہے اور اہل بیتؑ مسلمانوں کی ولایت اور امامت کے عہدیدار ہیں؛ نیز مسلمانوں پر فرض ہے کہ دینی مسائل میں اہل بیتؑ کو اپنا مرجع سمجھیں اور ان سے رجوع کریں۔
لغوی معنی
علمائے لغت کے مطابق [لفظ] "اہل" ایک انسان کے دوسرے انسان یا کسی چیز کے درمیان ایک قسم کے رابطے پر دلالت کرتا ہے؛ ایک مرد کی زوجہ اس کی اہل ہے جس طرح کہ اس کے قریب ترین افراد اس کے اہل ہیں، ایک پیغمبر کی امت کے تمام افراد اس کے اہل ہیں۔ ایک گھر یا شہر کے باشندے اس کے گھر اور اس شہر کے اہل [اہل خانہ یا اہلیان شہر] ہیں۔ ہر دین و مکتب کے پیروکار اس کے اہل ہیں۔ ایک فرد یا کئی افراد جو کسی خاص پیشے یا فن و ہنر سے منسلک ہیں اس کے دانش اور فن و ہنر کے اہل ہیں۔[1]
چنانچہ اہل بیت [یعنی اہل خانہ] کے معنی ایک گھر کے مکینوں کے ہیں۔ اور مسلمانوں کے اہل بیت کے خاص معنی ہیں جو بیان کئے جائیں گے۔[2].
[لفظ] "آل" بھی در اصل "اہل" ہی تھا، حرف "ہاء" "ہمزہ = ء" اور پھر "الف = ا" میں تبدیل ہوا ہے۔[3] لفظ "آل" کا استعمال "اہل" کی نسبت استعمال محدود ہے؛ کیونکہ آل کا اضافہ زمان و مکان اور فن و حرفت کی طرف نہیں ہوا ہے[4] اور اس کا تعلق انسان سے ہے اور انسانوں کے سلسلے میں بھی صرف ان انسانوں کے لئے مختص ہے جو کسی خاص ـ مثبت یا منفی ـ مرتبت کے حامل ہیں جیسے: آل ابراہیم، آل عمران، آل فرعون۔[5]
قرآن میں لفظ اہل بیت کا تذکرہ
لفظ اہل بیت قرآن میں تین مرتبہ استعمال ہوا ہے:
- سورہ ہود کی آیت 73 جس کا تعلق ابراہیمؑ اور ان کی زوجہ سے ہے: "قَالُواْ أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللّہِ رَحْمَتُ اللّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ"۔ (ترجمہ: فرشتوں نے کہا: کیا تم اللہ کے حکم پر تعجب کرتی ہو؟ تم پر اے گھر والو! اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں؛ یقیناً اے اس گھر والو! یقینا وہ قابل ستائش ہے، بزرگی والا۔)[؟–؟]
- سورہ قصص کی آیت 12، جس کا تعلق خاندان موسیؑ سے ہے: "وَحَرَّمْنَا عَلَيْهِ الْمَرَاضِعَ مِن قَبْلُ فَقَالَتْ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى أَهْلِ بَيْتٍ يَكْفُلُونَهُ لَكُمْ وَهُمْ لَهُ نَاصِحُونَ"۔ (ترجمہ: اور ہم نے اس (بچہ) پر دائیوں کو پہلے سے حرام کر دیا تھا تو اس (بچہ کی بہن) نے کہا کیا میں تم لوگوں کو ایک ایسے گھرانے کا پتہ بتاؤں جو تمہارے لئے اس کی پرورش کرے؟ اور وہ اس کے خیرخواہ بھی ہوں؟)[؟–؟]
- سورہ احزاب کی آیت نمبر 33 جو آیت تطہیر سے معروف ہے جس میں خداوند عالم پیغمبر اکرمؐ کے اہل خانہ سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں "إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً"۔ (ترجمہ: اللہ کا بس یہ ارادہ ہے کہ تم لوگوں سے ہر گناہ کو دور رکھے اے اس گھرکے رہنے والو! اللہ تمہیں پاک رکھے جو پاک رکھنے کا حق ہے۔)[؟–؟]
روایات کی روشنی میں
احادیث نبوی میں
لفظ "اہل بیت" چار قسم کے معانی میں استعمال ہوا ہے جیسے: اعمّ (یا بہت عام)، عامّ، خاصّ اور اخصّ (یعنی زيادہ خاص)۔
- ااہل بیت بمعنی اَعَمّ استعمال
یہ لفظ ان لوگوں پر بھی لاگو ہوتا ہے جن کی آنحضرتؐ کے ساتھ کوئی نَسَبی اور خاندانی قرابت داری نہیں ہے؛ اور یہ وہ لوگ ہیں جو آنحضرتؐ کی پیروی میں ثابت قدم اور استوار ہیں؛ جیسا کہ رسول اللہؐ نے سلمان فارسی[6] اور ابوذر غفاری[7] کو اہل بیتؑ میں شمار کیا ہے۔ بعض روایات میں بعض دیگر افراد کو بھی اہل بیت میں شمار کیا گیا ہے؛ ابن حجر کی روایت کے مطابق اسامہ بن زيد[8] اور طبری کے مطابق واثلۃ بن اسقع[9] کو بھی ان لوگوں میں شامل ہیں۔ - اہل بیت بمعنی عامّ
اہل بیت کے عام معنی میں پیغمبرؐ کے تمام نَسَبی اقرباء شامل ہیں جن پر صدقۂ واجبہ زکوٰۃ حرام قرار دیا گیا۔[10] ابن حجر کی منقولہ روایت میں پیغمبرؐ کے چچا عباس اور ان کی اولاد کو بھی اہل بیت میں شمار کیا گیا ہے۔[11]. - اہل بیت بمعنی خاصّ
اہل بیتؑ کے خاص معنی کا تعلق ازواج رسولؐ سے ہے؛ بے شک پیغمبرؐ کی زوجات ـ لغوی اور عرفی لحاظ سے ـ آپؐ کے اہل بیتؑ میں شامل ہیں۔ یہاں "بیت" سے مراد بیتِ سُکنی (یعنی مقام سکونت یا گھر) ہے جو بیتِ نَسَب یا نبوت کے معنی میں نہيں ہے۔ - اہل بیت بمعنی اَخَصّ اہل بیت کے اس معنی میں خاندان رسولؐ کے وہ افراد شامل ہیں جو عصمت کی امتیازی خصوصیت کے حامل ہیں۔ آیت تطہیر اور آیت مباہلہ کا مصداق اصحاب کساء (علی، فاطمہ، حسن اور حسین) ہیں۔ است [12] حدیث ثقلین، حدیث سفینہ اور ـ تمام زمانوں میں اہل بیتؑ کی موجودگی اور کردار پر تاکید کرنے والی ـ دوسری حدیثوں کے مطابق اصحاب کساء کے علاوہ امام حسینؑ کی نسل سے دوسرے ائمہ معصومینؑ بھی اہل بیتؑ بمعنی الاخص میں شمال ہیں۔
ائمۂ معصومینؑ کی احادیث
ائمۂ معصومینؑ کی حدیثوں میں لفظ "اہل بیت" تین معنوں میں استعمال ہوا ہے:
- اہل بیت بمعنی عام
اہل بیت کے عام معنی میں تمام سچے مؤمنین شامل ہیں جیسا کہ امام صادقؑ نے فرمایا ہے: "من اتقى منكم وأصلح فهو منا أهل البيت"۔ (ترجمہ: جو بھی صالح اور پرہیزگار ہو وہ ہم اہل بیت میں سے ہے)۔[13]امامؑ نے اپنے اس قول کے اثبات کے لئے قرآن کریم کی دو آیتوں سے استناد و استشہاد کیا ہے:
"وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ"۔(ترجمہ: تم میں سے جو ان سے دوستی [اور محبت] کرے وہ ان ہی میں سے ہے)۔ [14]
"فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي"۔ (ترجمہ: پس جو بھی میری پیروی کرے بے شک وہ مجھ سے ہے)۔ [15] - اہل بیت بمعنی خاصّ
اہل بیت کے اس معنی میں پیغمبرؐ کے اعزاء و اقارب شامل ہیں؛ جیسا کہ امیرالمؤمنینؑ نے فرمایا: "وَكَانَ رَسُولُ اَللَّهِ ص إِذَا اِحْمَرَّ الْبَأْسُ وَأَحْجَمَ اَلنَّاسُ قَدَّمَ أَهْلَ بَيْتِهِ فَوَقَى بِهِمْ أَصْحَابَهُ حَرَّ اَلسُّيُوفِ وَالْأَسِنَّۃِ فَقُتِلَ عُبَيْدَۃُ بْنُ الْحَارِثِ يَوْمَ بَدْرٍ وَقُتِلَ حَمْزَۃُ يَوْمَ أُحُدٍ وَقُتِلَ جَعْفَرٌ يَوْمَ مُؤْتَۃَ"۔ (ترجمہ: جب بھی دشمنوں کے ساتھ جنگ میں شدت آتی اور "دوسرے" پسپا ہونے لگتے تو آپؐ اپنے اہل بیت (اہل خاندان) کو آگے بڑھا دیتے تھے اور انہیں اپنے اصحاب پر پڑنے والی تلواروں اور نیزون کے سامنے ڈھال قرار دیتے تھے؛ چنانچہ عبيدہ بن حارث بدر میں شہید ہوئے، حمزہ بن عبدالمطلب احد میں اور جعفر طیار جنگ موتہ میں شہید ہوئے۔ [16]. - اہل بیت بمعنی اَخَصّ
اس معنی میں پیغمبرؐ کے وہ اعزاء و اقارب خاص شامل ہیں جو خاص مقام و منزلت اور (عصمت سمیت) ممتاز خصوصیات کے حامل ہیں اور ان کا کلام اور ان کی سیرت معیارِ حق اور راہنمائے حقیقت ہے؛ جیسا کہ امیرالمؤمنینؑ نے فرمایا: "أُنْظُرُوا أَهْلَ بَيْتِ نَبِيِّكُمْ فَالْزَمُوا سَمْتَهُمْ، وَاتَّبِعُوا أَثَرَهُمْ، فَلَنْ يُخرِجُوكُمْ مِنْ هُدًى، وَلَنْ يُعِيدُوكُمْ فِي رَدىً، فَإ نْ لَبَدُوا فَالْبُدُوا، وَإ نْ نَهَضُوا فَانْهَضُوا، وَلا تَسْبِقُوهُمْ فَتَضِلُّوا، وَلا تَتَأَخَرُوا عَنْهُمْ فَتَهْلِكُوا"۔ ترجمہ: اپنے نبیؐ کے خاندان کی طرف دیکھو اور اسی سمت چلو جس سمت وہ جا رہے ہیں اور ان کے نقش پا پر قدم رکھو کیونکہ وہ کبھی بھی تمہیں راہ حق سے منحرف نہیں کرتے اور تمہیں ہلاکت میں نہیں ڈآلتے۔ اگر وہ بیٹھیں تو بیٹھ جاؤ اور اگر اٹھ کھڑے ہوں تو اٹھو؛ ان سے سبقت نہ لو ورنہ گمراہ ہوجاؤگے اور ان سے پیچھے نہ رہو ورنہ ہلاک ہوجاؤگے)۔[17]. امام مجتبی علیہ السلام نے عراقی عوام سے مخاطب ہوکر فرمایا: إنا اهل البيت الذين قال الله فينا: "إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً"۔[18] (ترجمہ: ہم اہل بیت وہ خاندان ہیں کہ خداوند متعال نے ہماری شان میں ارشاد فرمایا: "اللہ کا بس یہ ارادہ ہے کہ تم لوگوں سے ہر گناہ کو دور رکھے اے اس گھر والو! اللہ تمہیں پاک رکھے جو پاک رکھنے کا حق ہے)۔[19] روایات و احادیث اس بارے میں زیادہ ہیں۔
شیعہ کتب میں مؤخر الذکر دو معانی میں سے دوسرے معنی زیادہ رائج ہیں اور جب بھی لفظ "اہل بیت" کسی قید اور قرینے کے بعد استعمال ہوجائے اس میں "اہل بیت بمعنی اخص" مد نظر ہوتے ہیں۔
مقام عصمت
اہل بیت بمعنی اخص کی نمایاں ترین خصوصیت عصمت ہے۔ یہ خصوصیت آیت تطہیر سے بخوبی قابل ادراک ہے؛ کیونکہ اس آیت کریمہ میں اہل بیت کو ایسے افراد کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے کہ خداوند متعال نے ارادہ فرمایا ہے کہ ہر قسم کی پلیدی کو ان سے دور رکھے۔ آیت کریمہ میں لفظ "إنّما" اور اس آیت کریمہ کی شان نزول میں منقولہ احادیث سے ثابت ہے کہ یہ عصمت اہل بیت کی خصوصیات میں شامل ہے اور ان ہی کے لئے مختص ہے۔
حدیث ثقلین بھی ـ متواتر احادیث ميں شامل ہے اور اس کی سند میں کسی قسم کا شک و تردد نہیں ہےـ [20] اہل بیت رسولؐ کی عصمت (بمعنی اخص) پر دلالت کرتی ہے؛ کیونکہ اس حدیث میں اہل بیت "ثقل اصغر" کے عنوان سے قرآن کے برابر میں قرار پائے ہیں جو کہ ثقل اکبر ہے؛ اور ان دونوں رسول اللہؐ کا ورثہ اور گرانبہا امانتیں قرار دیا گیا ہے جن میں کبھی جدائی نہيں آتی اور جو بھی ان کا دامن تھامے اور ان کی تعلیمات کی پابندی کرے وہ کبھی گمراہ نہیں ہوتا۔ بےشک قرآن کریم اللہ کی کتاب ہے اور اس میں کسی خطا یا انحراف کا امکان نہيں ہے؛ جیسا کہ ارشاد ہوا ہے: "لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ"۔ (ترجمہ: باطل کا اس کے پاس گذر نہیں، نہ اس کے سامنے سے اور نہ ا سکے پس پشت سے،اتارا ہوا ہے اس ذات کی طرف سے جو حکمت والی ہے، ہر تعریف کی حق دار)۔[21] چنانچہ اہل بیت رسولؐ بھی ـ جو قرآن کے ساتھ قرار پائے ہیں ـ قرآن کی طرح گمراہی اور انحراف کی راہ میں حائل ہیں اور انسان اگر ان کا دامن تھامے تو وہ کسی صورت گمراہی کا شکار نہ ہوگا۔
اہل سنت کے بعض علماء کی رائے کے مطابق اہل بیت ـ یعنی حضرت زہراؑ اور بارہ ائمۂ شیعہ کی اخلاقی اور عملی عصمت میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے اور کسی گمراہ انسان کے سوا ـ جو اسلام کا منکر ہو ـ کوئی بھی اس میں شک نہیں کرتا؛ جس چیز میں اختلاف ہے وہ اہل بیت رسولؐ کی علمی عصمت ہے۔[22]، تاہم چونکہ حدیث ثقلین کے مطابق دین میں اہل بیت سے تمسک ضلالت سے محفوظ رکھتا ہے چنانچہ اسی حدیث سے واضح طور پر اہل بیت کی علمی عصمت بھی ثابت ہوجاتی ہے۔
فضیلت و برتری
رسول اللہؐ نے فرمایا: اگر روئے زمین پر علی، فاطمہ، حسن اور حسین سے زیادہ عظیم اور بہتر افراد ہوتے تو خداوند متعال مجھے حکم دیتا کہ ان کی مدد سے مباہلہ کرو؛ یہ سب سے افضل ہیں۔[23]
حدیث ثقلین کی روشنی میں
حدیث ثقلین سے اہل بیت رسولؐ کی برتری کا ثبوت بھی ملتا ہے؛ کیونکہ رسول اللہؐ نے قرآن کے برابر قرار دیا ہے اور انہیں ثقل اصغر جبکہ قرآن کو ثقل اکبر قرار دیا ہے اور کسی اور کو قرآن کی صف میں قرار نہيں دیا ہے۔ چنانچہ جس طرح کہ قرآن کریم مسلمانوں پر برتری اور فوقیت رکھتا ہے اہل بیت بھی دوسروں سے برتر ہیں۔
سعد الدین تفتازانی نے کہا ہے: آیت تطہیر اور حدیث ثقلین کا مفہوم دوسروں پر اہل بیتؑ کی برتری اور فوقیت ظاہر کرتا ہے؛ اور ان کی اس برتری کا معیار محض رسول اللہؐ سے نَسَبی قرابتداری ہی نہیں ہے؛ کیونکہ قرآن، سنت اور اجماع کے مطابق برتری [اور افضلیت] کا معیار علم اور تقوی ہے اور یہ معیار اہل بیتؑ میں موجود ہے؛ یہ مفہوم انہیں قرآن کے برابر قرار دیئے جانے اور ان کا دامن تھامنے اور ان سے تمسک کی فرضیت و وجوب سے حاصل ہوتا ہے؛ کیونکہ قرآن سے تمسک اس کے علم و ہدایت پر عمل کرنے کے سوا، کچھ اور نہيں ہے۔ اور عترت سے تمسک کا بھی یہی مطلب ہے۔[24].
آیت مباہلہ میں
آیت مباہلہ بھی دوسرے صحابہ رسولؐ پر اصحاب کسا کی برتری کا ثبوت ہے؛ کیونکہ اس آیت میں رسول اللہؐ کو حکم دیا گیا ہے کہ مسلمان بچوں، مردوں اور خواتین میں سے بعض کو نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ کرنے کے لئے اپنے ساتھ لے جائیں اور رسول اللہؐ نے مردوں میں سے حضرت علیؑ، عورتوں میں سے حضرت زہراؑ کو اور بچوں میں سے حسنؑ اور حسینؑ کو منتخب کیا۔
اس میں شک نہیں ہے کہ مباہلہ کے لئے ایسے افراد منتخب کئے جاتے ہیں جو ایمان اور قرب الہی کے حوالے سے اعلی مرتبے پر فائز ہوں، اور جس مباہلے کا ایک رکن رکین رسول اللہ ؐ کی ذات ہو، ایسے افراد کو آپ کے ہمراہ جانا چاہئے جو یا تو مرتبے کے لحاظ سے آپؐ کے برابر ہوں یا دوسروں کی نسبت آپؐ کے رتبے سے قریب تر ہوں۔ اور پھر اگر مسلمانوں میں سے کوئی دوسرا فرد بھی ایمان و تقوی کے لحاظ سے اتنا بلند مرتبہ ہوتا، آپؐ اس کو بھی مباہلے میں شامل کرتے؛ کیونکہ رسول اللہؐ کی روش میں ذرہ برابر نا انصافی یا حکمت کے منافی اقدام کا امکان نہيں ہے۔[25].
حضرت ام سلمہ کے خادم ابو ریاح نے رسول اللہؐ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: اگر روئے زمین پر علی، فاطمہ، حسن اور حسین سے زیادہ عظیم اور بہتر افراد ہوتے تو خداوند متعال مجھے حکم دیتا کہ ان کی مدد سے مباہلہ کرو؛ یہ سب سے افضل ہیں۔[26]
دوسری آیات و روایات میں
اہل بیت علیہم السلام کی برتری دوسری آیات و روایات جیسا کہ آیت مودت (شوریٰ:23) حدیث سفینہ، حدیث باب الحطۃ، حدیث نجوم و غیرہ سے ثابت ہوتی ہے.
علمی مرجعیت
"علمی مرجعیت" ایک مشترکہ نقطہ ہے جس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے اور مسلمانوں کے اختلافی مسائل اسی کی طرف پلٹتے ہیں۔ علمی مرجعیت وہ مرجعیت ہے جو اعتقادی اور شرعی مسائل میں قرآن و سنت نبوی کے حقائق کی پردہ کشائی کرتی ہے۔ [27]
حدیث ثقلین
حدیث ثقلین اہل بیت کی علمی مرجعیت کو نمایاں کرتی ہے کیونکہ رسول اللہؐ نے مسلمانوں کو ہدایت کی ہے کہ قرآن و عترت سے تمسک کریں اور ان کا سہارا لیں اور دامن تھامیں۔
مسلمانوں کا پہلا علمی منبع و مرجع قرآن کریم ہے جس کے بعد دوسرے درجے پر سنت نبوی ہے؛ اور اس سلسلے میں اہل بیتؑ کا کردار یہ ہے کہ وہ ترجمانِ قرآن بھی ہیں اور سنت نبوی کے حافظ و راوی بھی ہیں۔ اس میں شک نہیں ہے کہ رسول اللہؐ نے قرآنی حقائق کا ایک بڑا حصہ لوگوں کے لئے بیان کیا؛ مگر ان حقائق کا دوسرا بڑا حصہ بیان نہیں کیا کیونکہ یا تو ان حقائق کے لئے حالات سازگار نہ تھے یا پھر مصلحت یہ تھی کہ انہیں بعد کے زمانوں میں بیان کیا جائے چنانچہ آپؐ نے باقیماندہ حقائق بعد کے ادوار میں بیان کرنے کا فریضہ اپنے بعد عترت (اہل بیت) کو سونپ دیا۔[28] نتیجہ یہ کہ: جو کچھ بھی رسول اللہؐ نے بیان کیا تھا ـ اس کی حفاظت کرنے ـ اور جو کچھ بیان نہیں کیا تھا، ـ اسے بیان کرنے ـ کی ذمہ داری اہل بیت کو سونپ دی گئی۔
اہل بیت کا دامن تھامنا اور ان سے تمسک کرنا قرآن و سنت کی صحیح شناخت کا حقیقی راستہ ہے چنانچہ اہل بیت رسولؐ اسلامی معارف و احکام دین میں مسلمانوں کا علمی مرجع قرار پائے ہیں۔
اہل سنت کے مشہور عالم ملا علی قاری رقمطراز ہے: "گھرانے والے عام طور پر گھرانے کے مالک کے احوال کی نسبت دوسروں سے زيادہ آگاہ ہوتے ہیں چنانچہ اہل بیت سے مراد اس خاندان کے علماء ہیں جو سیرت نبوی سے زیادہ آگاہ ہیں، آپؐ کی راہ و روش سے زیادہ واقف ہیں، آپؐ کے حکم و حکمت کا علم رکھتے ہیں چنانچہ وہ یہ اہلیت رکھتے ہیں کہ انہیں خدائے سبحان کی کتاب کے دوش بدوش ایک ہی صف میں کھڑا کیا جاتا ہے"۔[29]
ابن حجر کا کہنا ہے: "رسول اللہؐ نے قرآن و عترت کو اس لئے "ثقل" کا نام دیا ہے کہ ثقل ایسی چیز کو کہا جاتا ہے جو گرانبہا اور اہم ہو اور قرآن و عترت ایسے ہی ہیں، کیونکہ دونوں علم لدنی اور اسرار الہیہ اور اعلی حکمتوں اور احکام شرعیہ کا منبع ہیں؛ چنانچہ ان سے تمسک کرنے اور ان کے معرفت حاصل کرنے کی ترغیب و تاکید کا سبب یہی ہے۔ عترت کے بارے میں یہ ترغیب و تاکید ان افراد کے لئے ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسولؐ کی معرفت رکھتے ہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جو تاقیامت قرآن سے جدا نہ ہونگے"۔[30].
آیت تطہیر میں
قرآن کریم آیت تطہیر [31] میں اہل بیت رسولؐ کو ایسے افراد کی حیثیت سے متعارف کراتا ہے جن کو خداوند متعال نے ہر قسم کی پلیدی اور ناپاکی سے پاک رکھا ہے اور دوسری طرف سے فرمایا ہے کہ قرآن کے حقائق الہیہ اور معارف مکنونہ کا ادراک پلیدیوں سے پاک افراد کے سوا دوسروں کے لئے ممکن نہیں ہے۔ [32] جس طرح کہ شرعی طہارت قرآن کی ظاہری صورت کو چھونے کی شرط ہے، رذائل، پستیوں اور پلیدیوں سے روح و جان کی پاکیزگی قرآنی حقائق و معارف کے ادراک کی شرط ہے؛ اور معارف و حقائق جس قدر زیادہ گہرائی اور لطافت رکھتے ہوں ان کے ادراک کے لئے اتنی ہی اعلی اور گہری روحانی طہارت کی ضرورت ہے اور اس طہارت و پاکيزگی کا اعلی ترین رتبہ عصمت ہے۔[33] چنانچہ قرآن کے تمام معارف و حقائق اور لطائف و باریکیوں کا مکمل ادراک رسول اللہؐ اور آپؐ کے معصوم خاندان کے سوا کسی کے لئے ممکن نہيں؛ چنانچہ ان کے ادراک کے لئے اسی خاندان پاک کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔
امام صادقؑ نے فرمایا: "كتاب الله فيه نبأ ما قبلكم وخبر ما بعدكم وفصل ما بينكم ونحن نعلمه"۔ (ترجمہ: کتاب اللہ تمہارے ماضی کی خبریں اور تمہارے مستقبل کی خبریں موجود ہیں۔ یہ کتاب تمہاری زندگی سے متعلق حق و باطل کو الگ الگ کرنے والے احکام پر مشتمل ہے اور ہم انہیں [یعنی ان حقائق اور باریکیوں کو] جانتے ہیں)۔[34]، اس سلسلے میں ائمۂ اہل بیت متعدد احادیث نقل ہوئی ہیں۔
وجوب اطاعت
آیت اولوالامر میں
خداوند متعال نے آیت اولوا الامر میں اپنی، اپنے رسول اور اولو الامر کی اطاعت کو واجب کردیا ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ "۔ (ترجمہ: اے ایمان لانے والو! فرماں برداری کرو اللہ کی اور فرماں برداری کرو رسول کی اور ان کی جو تم میں صاحبان امر (فرماں روائی کے حق دار) ہیں)۔[35] چونکہ اس آیت کریمہ میں "اولی الامر" معطوف ہے "الرسول" پر جبکہ لفظ "اطیعوا" (اطاعت کرو) کو دہرایا نہیں گیا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ اولوا الامر کی اطاعت کا معیار، اطاعت رسول کا معیار ہی ہے، اور اطاعت رسول صرف اس لئے واجب کی گئی ہے کہ وہ ایک الہی راہنما ہے اور مقام عصمت کا مالک ہے اور اگر رسول معصوم نہ ہوتا تو اس کی اطاعت ـ بغیر کسی قید و شرط کے ـ واجب نہ ہوتی؛ یہ قاعدہ اولو الامر کے سلسلے میں جاری و نافذ ہے اور ان کی اطاعت بھی اس لئے واجب قرار دی گئی ہے کہ وہ عصمت کی صفت سے متصف ہیں اور اس آیت میں اسی بنا پر ان کی اطاعت مطلق طور پر واجب ہے اور یہ اطاعت مشروط و مقید نہیں ہے۔
چنانچہ آیت اولوا الامر نہ صرف رسول کے بعد اسلامی امت کی امامت کے حقدار افراد کی عصمت کی دلیل ہے بلکہ ان افراد کی اطاعت کے وجوب پر بھی دلالت کرتی ہے۔
ادھر آیت تطہیر اور اولو الامر کے مصادیق کے تعین سے متعلق روایات و احادیث کے مطابق وہ [مصادیق] ـ جیسا کہ مندرجہ بالا سطور میں بیان ہوا ـ اصحاب کساء ہی ہیں؛ ـ پس امت اسلامی کی ہدایت و امامت کے متولیوں کی حیثیت سے ـ پیغمبرؐ کے معصوم خاندان کی اطاعت، واجب ہے۔
حدیث ثقلین میں
حدیث ثقلین سے ثابت ہے کہ اہل بیت کی پیروی واجب ہے کیونکہ اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ امت صرف اسی صورت میں گمراہی سے چھٹکارا پاسکے گی کہ کتاب خدا اور اہل بیت سے تمسک کرے۔ "تمسک" کسی چیز سے لٹکنے کے معنی میں آیا ہے اور قرآن سے لٹکنے کے معنی یہ ہیں کہ اس کے احکامات کو پہچان لیا جائے اور ان کی تعمیل کی جائے اور اہل بیتؑ سے لٹکنے کے معنی بھی یہ ہیں کہ ابتداء میں ان کے احکامات کی معرفت حاصل کی جائے اور پھر ان پر عمل کیا جائے۔
حدیث سفینہ میں
اہل بیتؑ کے بارے میں پیغمبرؐ کی ایک مشہور حدیث حدیث سفینہ کے عنوان سے مشہور اور شیعہ اور سنی منابع میں بکثرت نقل ہوئی ہے۔ اس حدیث میں اہل بیتؑ کو حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی سے تشبیہ دی گئی ہے۔ شیخ طوسی نے اپنی کتاب الامالی میں یہ حدیث ابوذر غفاری سے نقل کی ہے: "إِنَّمَا مَثَلُ أَهْلِ بَيْتِي فِيكُمْ كَمَثَلِ سَفِينَۃِ نُوحٍ (عَلَيْهِ السَّلَامُ)، مَنْ دَخَلَهَا نَجَا، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غَرِقَ"۔ (ترجمہ: میرے اہل بیت کی مثال سفینۂ نوح کی مثال ہے، جو اس میں داخل ہوا نجات پا گیا اور جس نے سوار ہونے کی مخالفت کی وہ ڈوب گیا [اور نابود ہوگیا])۔[36]یہ حدیث حاکم نیشابوری اور اہل سنت کے کئی مشہور محدثین نے بھی نقل کی ہے: [37]
حدیث سفینہ بھی اہل بیتؑ کی پیروی کے وجوب پر دلالت کرتی ہے؛ کیونکہ اس حدیث میں رسول اللہؐ نے اپنے اہل بیت کو سفینۂ نوح سے تشبیہ فرمایا ہے اور فرمایا ہے کہ جو بھی اس میں داخل اور سوار ہوجائے وہ غرق ہونے سے بچ گیا اور جس نے سوار ہونے سے روگردانی کی وہ ہلاک ہوگیا۔
ابن حجر مکی کا کہنا ہے: "کشتی نوح سے ان کی تشبیہ کا سبب یہ ہے کہ جس شخصیت (حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اس کو یہ شرافت (اسلام) عطا کی ہے اس کا شکریہ کرتے ہوئے[38] ان (اہل بیت) کو دوست رکھے اور ان کی تعظيم و تکریم کرے اور ان کے علماء سے ہدایت و راہنمائی حاصل کرے اور ان کے نقش قدم پر چلے وہ نجات یافتہ ہے اور جو بھی ان کی مخالفت کرے وہ کفران نعمت (اور ناشکری) کے بھنور میں ڈوب جائے گا اور طغیان کی کھائی میں گر کر ہلاک ہوجائے گا۔[39] ابن حجر کا کہنا ہے کہ یہ حدیث مختلف راستوں اور روشوں سے نقل ہوئی ہے جن میں سے بعض بعض دوسروں کو تقویت پہنچاتی ہے۔[40].
اہل بیت کی مودّت و محبّت
اہل بیتؑ رسولؐ کی محبت کا وجوب ناقابل انکار ہے جس میں شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
آیت مودّت " قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِي الْقُرْبَى"۔ (ترجمہ: میں تم سے اس (تبلیغِ رسالت) پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا سوا صاحبان قرابت کی محبت کے)۔ [41] میں رسولؐ کے اعزاء و اقارب کی محبت کو اجر رسالت قرار دیا گیا ہے۔ آیت کریمہ میں قربیٰ سے مراد رسول اللہؐ کے اقرباء ہیں اور یہ وہی شخصیات ہیں جن کی شان میں آیت تطہیر نازل ہوئی ہے، (یعنی اصحاب کساء)۔
ابن حجر مکی حب اہل بیتؑ کے وجوب سے متعلق احادیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: "مذکورہ احادیث سے حب اہل بیت کا وجوب اور بغض اہل بیت کی شدید حرمت ثابت ہوئی۔ بیہقی، بغوی اور دیگر نے حبِّ اہل بیت رسولؐ کے وجوب پر تصریح کی ہے۔ اور شافعی نے اپنے اشعار میں اس پر تصریح و تاکید کی ہے جیسا کہ انھوں نے کہا ہے:[42]
يا أهلَ بيتِ رسولِ اللّهِ حُبُّکُم | فَرضٌ مِنَ اللّهِ فِی القرآنِ أنزَلَهُ | |
كفاكم من عظیم القدر أنكم | من لم یُصَلِّ علیكم لا صلاۃ له |
اے اہل بیت محمدؐ آپ کی محبت | واجب ہے جس کو خدا نے قرآن میں نازل کیا ہے | |
اور آپ کی عظمت کے لئے یہی کافی ہے کہ | جو آپ پر درود و سلام نہ بھیجے اس کی نماز، نماز نہیں ہے |
فخرالدین رازی نے حب اہل بیتؑ کے وجوب پر یوں استدلال کیا ہے:
"اس میں شک نہیں ہے کہ نبی اکرمؐ علی، فاطمہ، حسنؑ اورحسین (علیہم السلام) سے محبت کرتے تھے اسی بنیاد پر یہ عمل پوری امت پر واجب ہے کیونکہ خداوند متعال نے ارشاد فرمایا ہے: " وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ"۔ (ترجمہ: اور اور تم انہی کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پا سکو)۔[43] نیز خداوند عزّ و جلّ نے فرمایا: "قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ"۔ (ترجمہ: کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کرے گا)۔[44] نیز فرمایا ہے کہ: "لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ"۔(ترجمہ: تمہارے لیے پیغمبر خدا کی ذات میں اچھا نمونہ پیروی کے لیے موجود ہے اس کے لیے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو)۔[45]
اجر رسالت سے متعلق آیات کریمہ سے من حیث المجموع یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ آنحضرتؐ نے تبلیغ و ابلاغ کے عوض لوگوں سے کسی مادی اور غیر مادی اجرت نہیں مانگی ہے اور اگر آپؐ نے اہل قربی کی محبت کو اپنی اجرت قرار دیا ہے تو اس کا فائدہ بھی مسلمانوں ہی کو ملتا ہے؛ جیسا کہ خداوند حکیم نے ارشاد فرمایا ہے: "قُلْ مَا سَأَلْتُكُم مِّنْ أَجْرٍ فَهُوَ لَكُمْ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ"۔(ترجمہ: کہئے کہ میں نے تم سے جو اجر طلب کیا ہے، وہ تو تمہارے ہی لئے ہے۔ میرا اصل معاوضہ تو صرف اللہ ہی کے ذمے ہے اور وہ ہر چیز پر حاضر و ناظر ہے)۔[46]
اہل بیت کی رہبری اور ولایت
اہل بیت کی ولایت اور رہبری متعدد عقلی اور نقلی دلائل سے ثابت ہے۔
عقل کی رو سے ـ اور فلسفۂ امامت کو مد نظر رکھتے ہوئے ـ اس نتیجے پر پہنچـتے ہیں کہ عصمت امام کی اہم ترین شرطوں میں سے ایک ہے۔ آیات کریمہ بھی اس حقیقت کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ رجوع کریں:آیت اولوا الامر[47] اور آیت صادقین۔[48]
دوسری طرف سے اہل بیت علیہم السلام عصمت کی خصوصیت سے بہرہ مند ہیں چنانچہ اسلامی امت کی امامت و رہبری رسول اللہؐ کے بعد اہل بیت کے لئے مختص ہے۔
علاوہ ازیں ـ جیسا کہ اشارہ ہوا ـ اہل بیت کی اطاعت واجب ہے۔ اطاعت اہل بیت کے وجود کی دلائل مطلق [یعنی بلا قید و شرط] ہیں اور ان میں مسلمانوں کی روزمرہ زندگی کے تمام اوامر (Dos) و نواہی (Don'ts) شامل ہیں اور اس سلسلے میں عبادی، معاشی، سیاسی اور ثقافتی [تعلیمی و تہذیبی] مسائل میں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ مثال کے طور پر آیت اولوا الامر میں اولوا الامر کی اطاعت اتنی ہی وسیع اور ہمہ جہت ہے جتنی کہ رسول اللہؐ کی اطاعت وسیع ہے۔ جیسا کہ اشارہ ہوا، اولوا الامر عصمت کے مالک ہیں [یا یوں کہئے کہ اولوا الامر کو لازما اس صفت سے متصف ہونا چاہئے] اور یہ صفت صرف اہل بیت رسولؐ کے لئے مخصوص ہے۔
مودت اہل بیت سے متعلق موضوعات و مباحث سے معلوم ہوتا ہے کہ مودت در حقیقت طریقی (یا تمہیدی) امر ہے [جو بذات خود مقصود نہیں ہے] اور اصل مقصد یہ ہے کہ لوگ راہ حق کی معرفت حاصل کریں اور اس پر گامزن ہوکر سعادت اور فلاح تک پہنچیں۔ امر مسلّم ہے کہ راہ حق کی شناخت اور اس راہ پر گامزن ہونے کا عمل انفرادی اور معاشرتی اور عبادی اور سیاسی زندگی کے تمام شعبوں کا احاطہ کرتا ہے۔
اس سلسلے میں لائق توجہ نکتہ یہ ہے کہ حدیث ثقلین کی بہت سی نقلوں اور نسخوں میں اہل بیت سے تمسک کے ساتھ ساتھ ولایت امیرالمؤمنینؑ بھی بیان ہوئی ہے۔ بالفاظ دیگر واقعۂ غدیر خم میں رسول اللہؐ نے اپنی عترت اور اہل بیت اور ان کی ولایت کے بارے میں بھی بہت سے حقائق بیان کئے اور مسلمانوں کو ان کی پیروی اور اطاعت کا حکم دیا؛ اور ولایت امیرالمؤمنینؑ کا اعلان بھی کیا اور امیرالمؤمنینؑ کو امت اسلامیہ کے ولی و رہبر کے عنوان سے پہچنوایا ہے۔[49] رسول خداؐ نے ثابت کرکے دکھایا کہ امیرالمؤمنینؑ کی ولایت و رہبری کا اعلان حدیث ثقلین کے مضمون و مفہوم کو عملی جامہ پہنانے کا پہلا مرحلہ ہے۔
ایک نکتہ یہ ہے کہ حدیث ثقلین کی بعض نقلوں میں ثقلین کے بجائے لفظ "خلیفتین" استعمال ہوا ہے اور قرآن و اہل بیت کو "خلیفتین" (دو خلیفہ) قرار دیا گیا ہے: "إنّی تركت فيكم خليفتين: کتاب اللّه وأهل بيتي"۔ (ترجمہ: میں نے تمہارے درمیان دو خلیفہ چھوڑے ہیں: قرآن اور اہل بیت)۔ [50]، اس حدیث کے مطابق اہل بیت علیہم السلام رسول اللہؐ کے جانشین ہیں اور ان کی جانشینی ہمہ جہت اور وسیع ہے۔
غدیر خم کے مقام پر رسول اللہؐ نے اپنے خطبے کے ضمن میں قرآن اور عترت کو اپنی دو گرانقدر میراثوں سے تعبیر کیا ہے اور فرمایا ہے: "ولا تخلو الارض منهم، ولو خلت لانساخت بأهلها. ثم قال: اللهم إنك لا تخلي الارض من حجۃ على خلقك لئلا تبطل حجتك، ولا تضل أولياءك بعد إذ هديتهم، أولئك الاقلون عددا والاعظمون قدرا عند الله (عزوجل)"۔ (ترجمہ: زمین ہرگز ان (اہل بیت) سے خالی نہیں ہوگی کیونکہ اگر ایسا ہوا تو زمین اپنے باشندوں پر غضبناک ہوجائے گی۔ اور پھر فرمایا: خدایا! تو ہرگز زمین کو حجت سے خالی نہیں چھوڑتا اس لئے کہ تیری حجت و دلیل باطل نہ ہو اور تیرے دوست گمراہ نہ ہوں بعد اس کے کہ انہیں تو نے راہ ہدایت پر گامزن کیا ہے، وہ تعداد کے لحاظ سے بہت کم ہیں مگر اللہ عز وجل کے نزدیک نہایت بہت عظیم اور صاحبان قدر و منزلت ہیں)۔[51]. بنابراین، اهل بیت، حجتہای خداوند بر زمیناند، و امامت و رہبری متعلق بہ حجتہای خداوند است.
حدیث ثقلین اہل بیتؑ کی امامت و رہبری پر دلالت کرتی ہے اور اس حقیقت کاایک ثبوت یہ ہے کہ امیرالمؤمنینؑ نے بعض مواقع پر اس حدیث سے اپنی ولایت و امامت کے اثبات کے لئے استدلال و استناد کیا ہے۔ آپؑ کا شوری کے دن شوری کے اراکین کے ساتھ بحث کرتے ہوئے اس حدیث سے استناد اس کی ایک مثال ہے۔[52]
ایک موقع پر امیرالمؤمنینؑ نے طلحہ ، عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن ابی وقّاص سے بات چیت کرتے ہوئے ان کو اس حدیث کی صحت اور اپنی حقانیت پر گواہ بنایا۔[53]، اور ایک بار خلافت عثمان کے دور میں آپؑ مسجد النبیؐ میں صحابہ سے مخاطب ہوکر اس حدیث سے استناد کیا اور انہیں اس حدیث کی صحت اور اپنی فضیلت کا گواہ بنایا۔[54]
احمد ابن حنبل نے ابوہریرہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہؐ نے علی، فاطمہ، حسن، اور حسین علیہم السلام کی طرف دیکھا اور فرمایا: "انا حرب لمن حاربكم وسلم لمن سالمكم"۔ (ترجمہ: میں ان لوگوں کے خلاف حالت جنگ میں ہوں جن کے خلاف تم برسر پیکار ہو اور ان لوگوں کے ساتھ امن و آشتی کی حالت میں ہوں جن کے ساتھ تم امن و صلح کی حالت میں ہو)۔[55] اس روایت سے بھی ثابت ہے کہ ان افراد کی اطاعت واجب ہے۔
حوالہ جات
- ↑ معجم المقاییس فی اللغۃ، ج1، ص93; المصباح المنیر، ج1، ص37; لسان العرب، ج1، ص186; اقرب الموارد، ج1، ص23; المفردات فی غریب القرآن، ص29; المعجم الوسیط، ج1، ص31؛ اہل علم، اہل فن، اہل ادب، اہل صنعتع اہل تجارت وغیرہ۔
- ↑ المفردات فی غریب القرآن، ص29
- ↑ لسان العرب، ج1، ص186
- ↑ اور کسی کو آل مدینہ، آل مکہ، آل فن یا آل صنعت و تجارت نہیں کہا گیا ہے۔
- ↑ المفردات، ص30
- ↑ مناقب ابن شہرآشوب، ج1، ص85; الصواعق المحرقۃ، ص281
- ↑ مکارم الاخلاق، ص459
- ↑ الصواعق المحرقۃ، ص281
- ↑ تفسیر طبری، ج22، ص12
- ↑ صحیح مسلم، ج4، ص1873، باب فضائل علی بن ابی طالب، حدیث7
- ↑ الصواعق، ص281
- ↑ مشکل الآثار، ج1، ص332ـ 339; الصواعق المحرقہ، ص281
- ↑ القاضي النعمان المغربي، دعائم الإسلام، ج1، ص62
- ↑ سورہ مائدہ آیت 51۔
- ↑ سورہ ابراہیم آیت 36۔
- ↑ نهج البلاغہ،نامہ9
- ↑ نہج البلاغہ، خطبہ97
- ↑ سورہ احزاب آیت 33۔
- ↑ نور الدين علي بن أبي بكر الہيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد،ج9 ص172۔ تفسیر ابن کثیر، ج5، ص458
- ↑ اہل سنت نے بے شمار اصحاب رسولؐ سے یہ حدیث نقل کی ہے جن کی تعداد ایک قول کے مطابق 25 (عبداللّہ بن عبدالرحمان دارمی، سنن الدارمی، ط استنبول 1401/ 1981) اور دوسرے قول کے مطابق 35 ہے۔ (حسن بن محمد دیلمی، ارشاد القلوب، قم 1368 ہجری) جبکہ ایک قول کے مطابق یہ تعداد 37 ہے۔ راویوں کی یہی تعداد بعد کے طبقات میں بھی جاری رہی ہے اسی بنا پر اس کو متواتر کہا جاتا ہے۔ یہ حدیث اہل سنت کے معتبر ترین منابع میں نقل ہوئی منجملہ: صحیح مسلم بن حجاج ، (حسین راضی، سبیل النجاۃ فی تتمۃ المراجعات، در عبدالحسین شرف الدین، المراجعات، چاپ حسین راضی، بیروت،1402/1982) مسند ابن حنبل، (علی بن عبداللّہ سمہودی، جواہرالعقدین فی فضل الشرفین، چاپ مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت 1415/1995) (سیوطی، الدرّ المنثور) (عبدالحسین شرف الدین، المراجعات، چاپ حسین راضی، بیروت 1402/1982) (محمد بن حسن صفار قمی، بصائرالدرجات فی فضائل آل محمد «ص»، چاپ محسن کوچہ باغی تبریزی، قم 1404) (علامہ طباطبائی، تفسیر المیزان) (سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، چاپ حمدی عبدالمجید سلفی، چاپ افست بیروت 1404ـ 140) سنن دارِمی ، (احمد بن علی طبرسی، الاحتجاج، چاپ محمدباقر موسوی خرسان، نجف 1386/1966) سنن تِرْمِذی ، (فضل بن حسن طبرسی، مجمع البیان) (احمد بن عبداللّہ طبری، ذخائر العقبی ' فی مناقب ذوی القربی '، قاہرہ 1356، چاپ افست بیروت (بی تا)) المعجم الکبیر طبرانی ، (فخرالدین بن محمد طریحی، مجمع البحرین، چاپ احمد حسینی، تہران 1362ہجری شمسی) المستدرک علی الصحیحین حاکم نیشابوری ، (محمد بن حسن طوسی، الامالی، قم 1414) الدر المنثور سیوطی ، (محمد بن حسن طوسی، التبیان فی تفسیرالقرآن، چاپ احمد حبیب قصیر عاملی، بیروت (بی تا)) فرائدالسِّمْطَیْن جوینی خراسانی ، (محمد بن حسن طوسی، تلخیص الشافی، چاپ حسین بحرالعلوم، قم 1394/1974) (حسن بن یوسف علامہ حلّی، کشف الیقین فی فضائل امیرالمؤمنین، چاپ حسین درگاہی، تہران 1411/1991) (حسن بن یوسف علامہ حلّی، نہج الحق و کشف الصدق، بیروت 1982) ینابیع المودۃ قُندوزی ، (علی بن ابی طالب ؑ، امام اول، نہج البلاغہ، چاپ صبحی صالح، بیروت (1387)، چاپ افست قم (بی تا)) کنزالعُمّال متقی (محمد بن مسعود عیاشی، کتاب التفسیر، چاپ ہاشم رسولی محلاتی، قم 1380ـ1381، چاپ افست تہران (بی تا)) و نیز اسدالغابۃ ابن اثیر. (محمد بن عمر فخررازی، التفسیر الکبیر، قاہرہ (بی تا)، چاپ افست تہران (بی تا))۔ مجموغی طور پر علمائے اہل سنت میں سے 150 افراد نے حدیث ثقلین کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے۔ (خلیل بن احمد فراہیدی، کتاب العین، چاپ مہدی مخزومی و ابراہیم سامرائی، قم 1405)۔ نفحات الأزہار فی خلاصۃ عبقات الأنوار، جلد اوّل
- ↑ سورہ حم سجدہ/ (فصلت) آیت42۔
- ↑ النبراس، ص532، حاشیۃ بحرالعلوم
- ↑ قندوزی حنفی، ینابیع المودۃ، ص287
- ↑ شرح المقاصد، ج5، ص301ـ 303
- ↑ علامہ حلی، حسن بن یوسف، نہج الحق وکشف الصدق، ص179و 215 216؛ مقداد بن عبداللّہ السیوری الحـلـی الاسدی (فاضل مقداد)، اللوامع الإلہیۃ، ص515؛ دلائل الصدق، ج2، ص132ـ 133
- ↑ قندوزی حنفی، ینابیع المودۃ، ص287
- ↑ بی آزار شیرازی، مقالہ: مرجعيت علمي اہل بيت در ميان مسلمانان
- ↑ محمد حسين كاشف الغطاء، اصل الشیعۃ واصولہا، 162۔
- ↑ المرقاۃ، ج5، ص600
- ↑ الصواعق المحرقۃ، ص 189
- ↑ سورہ احزاب آیت 33۔
- ↑ سورہ واقعہ آیات 77ـ79۔ "إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ ٭ فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ ٭ لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ"۔ (ترجمہ: یقینا یہ ایک بڑے مرتبے والا قرآن ہے ٭ ایک نظروں سے پوشیدہ کتاب کے اندر ٭ اسے نہیں چھو سکتے [نیز اس کا ادراک نہیں کرسکتے] سوائے پاک افراد کے)۔
- ↑ محمد حسین طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ج19، ص137
- ↑ اصول كافی، ج 1، باب الراسخین فی العلم، حدیث1
- ↑ سورہ نساء آیت 59.
- ↑ الأمالی شیخ طوسی، ص 349.اسی طرح مراجعہ کریں: فضائل امیر المؤمنین ابن عقدہ کوفی ص 44، تحف العقول ابن شعبہ حرانی ص 113، عیون اخبار الرضا شیخ صدوق ج 2 ص 27، الأمالی شیخ مفید ص 145
- ↑ رجوع کریں: مستدرک علی الصحیحین حاکم نیشابوری، ج2 ص 343. نیز رجوع کریں: مجمع الزوائد ہیثمی ج9 ص 168، المعجم الاوسط طبرانی ج4 ص 10، المعجم الکبیر طبرانی ج 3 ص 46، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج1 ص 218،الجامع الصغیر سیوطی ج1 ص 373، کنزالعمال متقی ہندی ج12 ص94، الدر المنثور سیوطی ج3 ص 334۔
- ↑ سورہ شوری، آیت 23 کی طرف اشارہ جہاں ارشاد ہوتا ہے: "قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِي الْقُرْبَى"۔ (ترجمہ: کہئے کہ میں تم سے اس (رسالت و نبوت) کے عوض کوئی معاوضہ نہیں مانگتا سوائے قرابتداروں سے محبت کے)۔
- ↑ الصواعق المحرقۃ، ص191
- ↑ الصواعق المحرقۃ، ص191
- ↑ سورہ شوری آیت 23۔
- ↑ الصواعق المحرقہ، ص217
- ↑ سورہ اعراف آیت 158۔
- ↑ سورہ آل عمران آیت 31۔
- ↑ التفسیر الکبیر، ج27، ص166۔
- ↑ سورہ سبأ آیت 47۔
- ↑ سوره نساء آیت 59.
- ↑ سورہ توبہ آیت 119: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَكُونُواْ مَعَ الصَّادِقِينَ"۔ (ترجمہ: اے ایمان لانے والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو)۔
- ↑ ینابیع المودۃ، ص36ـ 40
- ↑ المسند، ج5، ص181؛ مجمع الزوائد، ج9، ص163؛ فیض القدیر، ج3، ص14؛ کنزالعمال، ج1، ص166؛ نفحات الأزہار، ج2، ص284ـ 285
- ↑ سليمان بن ابراہيم القندوزي الحنفي، ينابيع المودۃ لذوي القربى، (1220 - 1294ھ) تحقيق سيد علي جمال اشرف الحسيني، تاريخ النشر: 1416۔ ج3 ص74۔
- ↑ مناقب ابن مغازلی، ص112
- ↑ ینابیع المودۃ، ص43
- ↑ ینابیع المودۃ، ص137
- ↑ احمد ابن حنبل، فضائل الصحابۃ، ج 2، تحقیق: وصی اللہ بن محمدعباس، مکۃ: جامعۃ ام القری، 1403ق/1983م، ص 767۔
مآخذ
- قرآن مجید
- نہج البلاغہ، بیروت: صبحی صالح، 1387ش.
- اصل الشیعۃ وأصولہا، کاشف الغطاء، محمد حسین، المطبعۃ العربیۃ، القاہرۃ، 1377ش.
- اصول کافی، کلینی رازی، ابوجعفر محمد بن یعقوب، المکتبۃ الاسلامیہ، تہران، 1388ق.
- اقرب الموارد، شرتونی، سعید الخوری، مکتبۃ المرعشی، قم، 1403ق
- تفسیر ابن کثیر، ابن کثیر دمشقی، اسماعیل، دار الاندلس، بیروت، 1416ہـ.ق
- تفسیر طبری، طبری، محمد بن جریر، ضبط و تعلیق محمود شاکر، دار احیاء التراث العربی، بیروت، 1421ہـ.ق
- دعائم الاسلام، ابو حنیفۃ مغربی، نعمان بن محمد، قاہرہ، دار المعارف
- دلائل الصدق، المظفر، محمدحسن، مکتبۃ الذجاج، تہران
- شرح المقاصد، تفتازانی، سعدالدین، مسعود بن عمر، دارالمعارف العثمانیہ، پاکستان
- شواہد التنزیل، حاکم حسکانی، عبداللہ بن عبداللہ، تحقیق محمد باقر محمودی، مؤسسۃ الاعلمی، بیروت، 1393ہـ
- صحیح مسلم، نیشابوری، مسلم بن حجاج، تحقیق محمد فؤاد عبدالباقی، داراحیاء التراث الاسلامی، بیروت
- الصواعق المحرقۃ، ہیثمی مکی، ابن حجر، المکتبۃ العصریۃ، بیروت، 1425ق.
- فیض القدیر فی شرح الجامع الصغیر، مناوی، محمد عبدالرؤوف، دارالفکر، بیروت، 1416ہـ.ق.
- کفایۃ الطالب، گنجی شافعی، محمد بن یوسف، تہران، داراحیاء تراث اہل البیت (علیہم السلام).
- کنزالعمال، متقی ہندی، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، 1405ق.
- لسان العرب، ابن منظور، محمد بن مکرم، دار صادر، بیروت، 2000م.
- اللوامع الالہیہ، فاضل مقداد، جمال الدین مقداد بن عبداللہ، مکتبۃ المرعشی، قم، 1405ق.
- المستدرک علی الصحیحین، حاکم نیشابوری، محمد بن عبداللہ، دارالکتب العلمیہ، بیروت، 1978ء
- مجمع الزوائد، ہیثمی، علی بن ابی بکر، بیروت، دارالکتاب العربی.
- المسند، ابن حنبل، احمد بن محمد، دارالحدیث، قاہرہ، 1416ق.
- مشکل الآثار، طحاوی، ابوجعفر، دار صادر، بیروت.
- المصباح المنیر، فیولی، احمد بن محمد، قاہرہ، بی تا.
- المعجم الوسیط، ابراہیم مصطفی و دیگران، المکتبۃ الاسلامیہ، استانبول، بی تا.
- معجم مقاییس فی اللغۃ، ابن فارس، ابو الحسین احمد، دار الفکر، بیروت، 1418ہـ.ق
- المفردات فی غریب القرآن، راغب، حسین بن محمد، المکتبۃ المرتضویہ، تہران.
- مکارم الاخلاق، طبرسی، حسن بن فضل، مؤسسۃ الاعلمی، بیروت، 1392ق.
- مفاتیح الغیب (تفسیر کبیر، فخر الدین رازی، محمد بن عمر، بیروت، دار احیاء التراث العربی.
- مناقب، ابن المغازلی، علی بن محمد، دار الکتب العلمیہ، بیروت، بی تا.
- المیزان، علامہ طباطبایی، محمد حسین، مؤسسۃ الاعلمی، بیروت، 1393ق
- النبراس، الحافظ محمد، عبدالعزیز، مکتبۃ حقانیہ
- نفحات الازہار فی خلاصۃ عبقات الانوار، میلانی، سید علی، مرکز تبیین و ترجمہ و نشر آراء،قم، 1423ہـ.
- نہج الحق وکشف الصدق، حلّی، ابو منصور جمال الدینن حسن بن یوسف، دار الہجرۃ، قم، 1414ہـ.ق.
- ینابیع المودۃ، قندوزی حنفی، شیخ سلیمان، مؤسسۃ الاعلمی، بیروت، 1418ق.