سوسن
کوائف | |
---|---|
نام: | سوسن، حدیث، سلیل، حریبہ، عسفان، جدہ |
اولاد: | امام حسن عسکری، سید محمد، حسین، جعفر بن علی النقی و عایشہ |
مشہور اقارب: | امام حسن عسکری |
وجہ شہرت: | زوجہ امام علی نقی |
وفات: | سامرا |
مدفن: | روضہ امامین عسکریین |
سوسن، امام علی نقی علیہ السلام کی زوجہ اور امام حسن عسکری علیہ السلام کی والدہ ہیں۔ آپ امام حسن عسکری کی وصی (متولی اوقاف و صدقات) اور (غیبت صغری میں) امام زمانہ علیہ السلام اور عوام کے درمیان واسطہ تھیں۔ شیعہ مصادر میں آپ کو عفیف و کریم اور نہایت با درایت، متقی و پرہیزگار خاتون شمار کیا گیا ہے۔ چونکہ آپ امام زمانہ عج کی جدہ ہیں، اس لئے منابع تاریخی میں آپ جدہ مشہور ہیں۔ آپ روضہ امامین عسکریین سامرا میں مدفون ہیں۔
اسماء و کنیت
حُدَیث، سلیل، سوسن، حربیہ،[1] عسفان،[2] اور جدہ[3] آپ کے اسماء ذکر ہوئے ہیں۔ آپ کی کنیت ام الحسن ہے۔[4] آپ کو جدہ امام زمانہ علیہ السلام کی جدہ ہونے کے سبب کہا گیا ہے۔
مرتبہ و منزلت
وہ آفت، برائی، ناپاکی اور آلودگی سے دور ہیں ۔۔۔ اس کے بعد آپ نے ان کی نسل سے ایک فرزند کی ولادت کی بشارت دی جو بشریت کا نجات دہندہ ہوگا۔
طبری، تاریخ طبری، صفحہ 16
امام علی نقی ؑ سے سوسن کے بارے میں نقل ہوا ہے: سلیل آفات، نقصانات، پلیدیوں اور ناپاکیوں سے محفوظ ہیں۔ آپ نے سلیل سے مخاطب ہو کر فرمایا: عنقریب خداوند عالم اپنی حجت کو مخلوقات کے سامنے پیش کرے گا جو زمین کو عدل و انصاف سے پر کر دے گا۔ اسی طرح سے جیسے وہ ظلم و ستم سے پر ہو چکی ہوگی۔[5]
شیعہ مصادر میں سوسن کو بزرگی کے ساتھ یاد کیا گیا ہے[6] اور ان کی تعریف کی گئی ہے۔ علامہ مجلسی نے اپنی کتاب جلاء العیون میں انہیں ایک عفیف و کریم اور نہایت با درایت، متقی و پرہیزگار خاتون شمار کیا ہے۔[7] شیخ عباس قمی کتاب انوار البہیہ میں تحریر کرتے ہیں: امام حسن عسکری ؑ کی مادر گرامی اپنے زمانے کی پاک ترین، پارسا ترین، پاک دامن ترین، با عطمت ترین خاتون تھیں۔ روات احادیث نے ان کا شمار عارفہ و صالحہ خواتین میں کیا ہے۔[8]
اولاد
سوسن بھی بعض مادران ائمہ ؑ کی طرح کنیز تھیں۔[9] امام علی نقی ؑ سے ان کی اولاد میں امام حسن عسکری، سید محمد، حسین، جعفر بن علی النقی[10] و عایشہ کے نام ذکر ہوئے ہیں۔[11]
جعفر سے اختلاف
امام حسن عسکری نے اپنی شہادت سے کچھ مدت پہلے انہیں حج پر بھجوایا تھا۔[12] جب انہوں نے امام حسن عسکری کی شہادت کی خبر سنی تو مدینہ سے سامرا آگئیں اور دیکھا کہ جعفر کذاب نے امامت اور امام کی میراث کا دعوی کیا ہے تو انہوں نے جعفر اور اس بات سے مقابلہ کے لئے کہ بنی عباس امام حسن عسکری کے فرزند کے وجود سے آگاہ نہ ہوجائیں انہوں نے امام عسکری کی ایک کنیز کے حاملہ ہونے کا احتمال دیا۔[13] لیکن جعفر نے امام کی میراث حاصل کرنے کے لئے حاکم وقت سے شکایت کی۔[14] آخرکار سات سال کے بعد امام عسکری کی میراث ان کی والدہ اور جعفر کے درمیان تقسیم کی گئی۔[15] کچھ مدت گزرنے کے بعد جعفر کذاب فقر سے دوچار ہوئے تو جدہ نے جعفر، ان اہل خانہ اور ان کے حیوانات کے روزانہ کے خرچ و مخارج برداشت کئے۔[16]
وصی امام حسن عسکری ؑ
امام حسن عسکری نے اپنی والدہ سوسن کو اپنا وصی (متولی اوقاف و صدقات) بنایا۔ منابع تاریخی میں احمد بن ابراہیم سے اس طرح نقل ہوا ہے وہ کہتے ہیں: میں سنہ 262 ھ میں مدینہ گیا۔ وہاں میں حکیمہ بنت امام محمد تقی ؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پشت پردہ ان سے گفتگو کی اور ان کے دین کے بارے میں سوال کیا کہ وہ کسے امام مانتی ہیں۔ حکیمہ نے جواب دیا: فلاں بن حسن اور امام زمانہ ؑ کا نام لیا۔ میں نے کہا: میں آپ پر قربان، کیا آپ نے انہیں دیکھا ہے یا فقط ان کے بارے میں سنا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے ان کی خبر ابو محمد (امام حسن عسکری) سے حاصل کی ہے ان کے اس خط سے جو انہوں نے اپنی والدہ کو لکھا ہے، میں نے ان سے پوچھا وہ فرزند کہاں ہیں؟ جواب دیا: وہ مخفی ہیں۔ تو میں نے کہا تو پھر شیعہ کس کی پناہ میں جائیں؟ انہوں نے کہا: ان کی جدہ، امام حسن عسکری کی والدہ کی پناہ میں۔ میں نے کہا: کیا کسی ایسے کی پیروی کروں جس نے ایک خاتون کو اپنا وصی بنایا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: امام حسن عسکری نے اس مسئلہ میں امام حسین ؑ کی پیروی کی ہے جنہوں ظاہری طور ہر زینب بنت علی ؑ سے وصیت کی تا کہ امام سجاد ؑ کی جان کی حفاظت کر سکیں۔ پھر فرمایا: آپ حضرات تو روایات سے باخبر ہے کیا روایات میں یہ ذکر نہیں ہوا ہے کہ امام حسین کے نویں فرزند زندہ ہیں اور ان کی میراث تقسیم ہو رہی ہے؟[17]
شیخ طوسی نے بھی کتاب الغیبہ میں تحریر کیا ہے کہ امام حسن عسکری ؑ نے اپنی والدہ سوسن کو اپنا وصی قرار دیا تھا تا کہ ان کے فرزند کی ولادت مخفی رہے۔ شیخ طوسی آگے تحریر کرتے ہیں کہ اس کی نظیر امام جعفر صادق ؑ کا عمل ہے جنہوں نے اپنے فرزند امام موسی بن جعفر ؑ کی جان کی حفاظت کے لئے پانج افراد کو اپنا وصی مقرر فرمایا جن میں سے ایک حمیدہ بربریہ بھی تھیں۔[18]
مدفن
جدہ نے اپنے گھر میں دفن ہونے کی وصیت کی تھی۔[19] آپ کا مدفن سامرا میں حرم عسکریین میں ہے۔[20]
حوالہ جات
- ↑ بحار الانوار، ج۵۰، ص۲۳۷-۲۳۸
- ↑ نوبختی، فرق الشیعہ، ص۱۰۵.
- ↑ منتہی الآمال، ج۲، ص۶۴۹
- ↑ ریاحین الشریعہ، ج۳، ص۲۴
- ↑ مسعودی، اثبات الوصیہ، ص۲۴۴.
- ↑ منتهی الآمال، ج۲، ص۶۴۹؛ اکمال الدین صدوق
- ↑ مظفری، مادران چهارده معصومؑ، ص۲۱۰. مجلسی، جلاء العیون، ص۹۸۹.
- ↑ مظفری، مادران چهارده معصومؑ، ص۲۱۰. قمی، انوار البهیه، ص۴۷۳.
- ↑ الارشاد، ج۲، ص۳۱۳؛ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۰، ص۲۳۷-۲۳۸
- ↑ الهدایة الکبری، ص۳۱۳؛ الارشاد، ج۲، ص۳۱۲
- ↑ الارشاد، ج۲، ص۳۱۲
- ↑ مسعودی، اثبات الوصیہ، ص۲۷۱، به نقل از پاکتچی، حسن عسکری، دایره المعارف بزرگ اسلامی، ج۲۰، ص۶۱۸
- ↑ مدرسی طباطبایی، مکتب در فرآیند تکامل، ۱۳۷۴ش، ص۱۱۰.
- ↑ مآثر الکبراء فی تاریخ سامراء، ج۱، ص۳۱۱ بہ نقل از اکمال الدین صدوق
- ↑ ابن حزم، الفصل فی الملل، ۱۴۱۶ق، ج۳، ص۱۲.
- ↑ مآثر الکبراء فی تاریخ سامراء، ج۱، ص۳۱۱ به نقل از اکمال الدین صدوق
- ↑ صدوق، کمال الدین، ج۲، ۵۰۱.
- ↑ طوسی، کتاب الغیبہ، النص، ص۱۰۸
- ↑ کمال الدین، ج۲، ص۴۴۲
- ↑ اصول کافی، ج۲، ص۱۵۹
مآخذ
- ابن بابویہ، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمة، تصحیح علی اکبر غفاری، دار الکتب الاسلامیہ، تهران، ۱۳۵۹ ش.
- ابن حزم اندلسی، علی بن احمد، الفصل فی الملل و الاهواء و النحل، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۶ق.
- خصیبی، حسین بن همدان، الهدایة الکبری، مؤسسہ البلاغ، بیروت، ۱۳۷۷ ش.
- صدوق، کمال الدین، محقق علی اکبر غفاری، تهران، اسلامیہ، ۱۳۹۵ق.
- طوسی، محمد بن حسن، بہ تحقیق عباد الله تهرانی و علی احمد ناصح، قم، دار المعارف الاسلامیہ، ۱۴۱۱ق.
- کلینی، اصول کافی، ترجمہ محمد باقر کمره ای، انتشارات اسلامیہ، ۱۳۷۹ ش.
- قمی، عباس، منتهی الآمال فی تواریخ النبی و الآل ؐ، تعریب هاشم میلانی، جامعہ مدرسین حوزه علمیہ قم، قم.
- مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار الجامعہ لدرر اخبار الائمه الاطهار ؑ، تصحیح جمعی از نویسندگان، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق.
- مجلسی، محمد باقر، جلاء العیون: تاریخ چهارده معصوم ؑ، تحقیق علی امامیان، سرور، قم، ۱۳۸۲ ش.
- محلاتی، ذبیح الله، ریاحین الشریعہ در ترجمہ بانوان دانشمند شیعہ، دار الکتب الاسلامیہ، تهران.
- محلاتی، ذبیح الله، مآثر الکبراء فی تاریخ سامراء، المکتبہ الحیدریہ، قم، ۱۳۸۴ ش.
- مدرسی طباطبایی، سید حسین، مکتب در فرآیند تکامل، نیوجرسی، موسسہ انتشاراتی داروین، ۱۳۷۴ش.
- مسعودی، علی بن حسین، اثبات الوصیہ للامام علی بن ابی طالب، انصاریان، قم، ۱۴۲۶ق.
- مظفری (ورسی)، حیدر، مادران چهارده معصومؑ، قم، انتشارات مرکز جهانی علوم اسلامی، ۱۳۸۲ش.
- مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفہ حجج الله علی العباد، تحقیق مؤسسہ آل البیت لاحیاء التراث، الموتمر العالمی لالفیہ الشیخ المفید، قم، ۱۳۷۲ ش.