خطبہ شِقشِقیّہ یا مُقَمِّصہنہج البلاغہ کے مشہور خطبوں میں سے ایک ہے۔ امام علیؑ نے اس خطبے میں خلفائے ثلاثہ کے طرز عمل پر تنقید کرتے ہوئے ان کی اصل خلافت پر سوال اٹھایا ہے۔

خطبہ شقشقیہ
حدیث کے کوائف
دوسرے اسامیمُقَمِّصہ
موضوعخلفائے ثلاثہ کے طرز عمل پر تنقید، ناکثین، قاسطین اور مارقین کی طرف اشارہ
صادر ازامام علیؑ
اصلی راویابن عباس
اعتبارِ سندمعتبر
شیعہ مآخذنہج البلاغہ، علل الشرائع، معانی الاخبار
مشہور احادیث
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل

اس خطبے کے اہم اور بنیادی موضوعات یہ ہیں: پہلے تین خلفاء کے دور کی سیاسی صورتحال، امام کی 25 سالہ خاموشی کی وجوہات، خلافت کو قبول کرنے کے محرکات، امام علیؑ کے دور کے سیاسی گروہ اور ان کے دین سے انحراف کے اسباب۔

پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی اور خلافت کے مسئلہ پر امام علیؑ کا واضح موقف بعض اہل سنت کی نہ صرف اس خطبہ بلکہ کل نہج البلاغہ کے صحیح ہونے میں تردید کا باعث بنا ہے۔ اس کے مقابلے میں شیعہ علماء نے جواب دیا ہے کہ خطبہ شقشقیہ مختلف احادیث کی کتابوں میں بھی نقل ہوا ہے اور اس کا مضمون تواتر معنوی کا حامل ہے۔

نہج البلاغہ کے مکمل تراجم اور شرحوں میں اس خطبے کی شرح کے علاوہ فارسی اور عربی زبان میں خطبہ شقشقیہ کی خصوصی شرحیں بھی موجود ہیں، ان میں محمدرضا حکیمی کی کتاب شرحُ الْخُطبۃ الشِّقشِقیہ اور علی اصغر رضوانی کی کتاب "آہی سوزان" کا نام لیا جا سکتا ہے۔

اہمیت اور تعارف

خطبہ شِقشِقیّہ نہج البلاغہ کے مشہور خطبوں میں سے ایک ہے[1] جسے شیعہ اور اہل سنت دونوں منابع میں نقل کیا گیا ہے۔[2] اس خطبے کو نہج البلاغہ کے اہم ترین خطبوں میں شمار کیا گیا ہے؛ چونکہ اس میں پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی جیسے اہم مسئلے پر صراحت کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے۔[3] چونکہ امام علی‌ؑ نے اس خطبے میں خلفائے ثلاثہ کی خلافت پر سوال اٹھایا ہے اس بنا پر اس خطبے کو نہج‌ البلاغہ کے غور طلب خطبوں میں شمار کیا گیا ہے؛[4] کیونکہ پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی اور خلافت کے مسئلے پر امام علیؑ کا واضح موقف اس خطبے کے بارے میں اہل‌ سنت کے اندر شکوک و شبہات پیدا ہونے کا باعث بنا ہے[5] یہاں تک کہ بعض اہل سنت نے نہ صرف اس خطبے کا بلکہ خود نہج‌ البلاغہ کے معتبر ہونے کا انکار کیا ہے۔[6]

اس خطبے میں امام علیؑ کی زبانی خلفائے ثلاثہ کی خلافت کی تاریخ بیان ہوئی ہے۔ اس خطبے کے اہم اور بنیادی موضوعات میں مسئلہ خلافت، خلفائے ثلاثہ کے دور کی سیاسی حالات، امام کی 25 سالہ خاموشی کی وجوہات، خلافت کو قبول کرنے کے محرکات، امام کے دور کے سیاسی گروہ اور ان کے دین سے انحراف کے اسباب۔[7] اس خطبہ کو اس کے (تِلْکَ شِقْشِقَۃٌ ہَدَرَتْ ثُمَّ قَرَّتْ) والے جملے کے اعتبار سے خطبہ شِقشِقیہ (شِقشِقہ یعنی آگ کا وہ شعلہ جو دل سے بلند ہوتا ہے)[8] اور اس خطبے کے پہلے جملے (واللّہِ لَقَدْ تَقَمَّصَہا فلان) کی مناسبت سے «مُقَمِّصہ» (تَقَمُّص یعنی کپڑا پہننا) کہا جاتا ہے۔[9]

ابن‌عباس کی روایت کے مطابق امام علیؑ نے اس خطبے کو ایک چٹھی موصول ہونے پر ختم کیا پھر اسے جاری نہیں رکھا۔ اس روایت کے مطابق ابن‌ عباس کو اس خطبے کے ادھورے رہنے پر جتنا افسوس ہوا اتنا افسوس ان کی پوری زندگی میں کسی اور چیز کے ختم ہونے پر نہیں ہوا تھا۔[10] مصادر نہج البلاغۃ و اسانیدہ کے مصنف سید عبد الزہراء الحسینی الخطیب اس بات کے معتقد ہیں کہ جس شخص نے امام علیؑ کے کلام کو قطع کیا وہ ایک جاہل یا منافق شخص تھا جس نے امام علیؑ کو اپنا مقصود بیان کرنے نہیں دیا۔[11]

نسخہ کا نام خطبہ نمبر [12]
نسخہ صبحی صالح، فیض الاسلام، ابن‌ میثم، فی ظِلال، خوئی، ابن ابی الحدید، عبدہ، ملّاصالح اور المعجم المفہرس 3
ملافتح اللہ 4
اردو نسخے، نسخہ مفتی جعفر حسین اور ذیشان حیدر جوادی۔ 3
خطبہ شقشقیہ کے عمدہ نکات
  1. خلافت کے حوالے سے ابوبکر کا اپنے اوپر امام علی(ع) کی برتری کا اعتراف۔
  2. خلیفہ اوّل کا خلافت کو غصب کرنا۔
  3. خلفائے ثلاثہ کے دشوار دور میں امام(ع) کا طاقت فرسا صبر۔
  4. ابوبکر کی جانب سے خود کو خلافت کیلئے پیش کرنے پر امام کا تعجب۔
  5. ابوبکر کی جانشینی کیلئے عمر جیسے پرتشدد شخص کی تعیینی پر امام کا اعتراض۔
  6. عمر کا جارہانہ انداز اور اس کے زمانے میں لوگوں کی گرفتاریاں۔
  7. چھ رکنی شوریٰ کے ارکان کا امام(ع) کے ساتھ قابل قیاس نہ ہونے کی وجہ سے اس کی تشکل پر امام(ع) کا اعتراض۔
  8. چھ رکنی شوریٰ کے ارکان کی ترتیب پر اعتراض جس کا نتیجہ شروع سے ہی مشخص تھا۔
  9. عثمان کے دور میں بیت المال کی لوٹ مار جو عثمان کی قتل کا سبب بنی، پر اعتراض۔
  10. حضرت علی(ع) کی بیعت کیلئے لوگوں کا ہجوم لانا
  11. ناکثین، مارقین اور قاسطین اور ان کی دنیا طلبی کی طرف اشارہ جو ان کا امام کے ساتھ اختلاف کا باعث بنا۔
  12. امام کی طرف سے حکومت قبول کرنے کے علل و اسبا

سند

خطبہ شقشقیہ مختلف حدیثی کتابوں میں ذکر ہوا ہے۔[13] اس خطبے کے متعدد اسناد کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض محققین نے اسے قابل اعتماد[14] اور بعض نے متواتر قرار دیا ہے۔[15] ان تمام باتوں کے باوجود ابن‌ میثم بَحرانی (نہج‌ البلاغہ کے شارح) کے مطابق اگرچہ خلفائے ثلاثہ پر امام علیؑ کی شکایت تواتر معنوی کے ذریعے ثابت شدہ ہے، لیکن اس کے باوجود اس خطبے کے الفاظ کی تواتر لفظی کا ادعا نہیں کیا جا سکتا ہے۔[16]

اس کے مقابلے میں بعض اہل سنت حضرات نے امام علیؑ کی طرف اس خطبے کی نسبت کے صحیح ہونے کا انکار کرتے ہوئے[17] اسے سیدِ رضی یا سیدِ مرتضی کی طرف سے جعلی خطبہ قرار دیا ہے۔[18] ابن‌ میثم کے مطابق اہل سنت کی طرف سے اس خطبے کے صحیح ہونے کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ ان کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی خلافت کے بارے میں صحابہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں تھا جبکہ اس خطبے میں امام علیؑ کا گذشتہ تین خلفاء کے ساتھ اختلاف کی تصریح کی گئی ہے جس کا انکار کیا جانا ضروری ہے تاکہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا ہونے سے روکا جا سکے۔[19]

اہل‌ سنت کے اس گروہ کے جواب میں کہا گیا ہے کہ ابوبکر اور عُمَر کے توسط سے غصب خلافت کے موضوع پر امام علیؑ نے متعدد بار اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے اور یہ چیز مستفیض احادیث کے ذریعے ثابت شدہ ہے۔[20] اس کے علاوہ یہ خطبہ نہج‌ البلاغہ کی تدوین(400ھ[21]) سے پہلے بھی مختلف منابع میں نقل ہوا ہے؛[22] چنانچہ شیخ صدوق (متوفی 381ھ) نے علل الشرائع [23]اور معانی الاخبار میں اس خطبے کو نقل کیا ہے۔[24]

زمان و مکان

محققین کے مطابق امام علیؑ نے اس خطبے کو اپنی زندگی کے آخری ایام (سنہ 38ھ کے اواخر یا سنہ 39ھ کے اوائل) میں ارشاد فرمایا ہے۔[25] کیونکہ اس خطبے میں اپنے سے پہلے کے تینوں خلفاء کی کارکردگی پر تنقید اور ناکثین (ناکثین کے ساتھ جنگ سنہ 36ھ میں ہوئی تھی[26]قاسطین (قاسطین کے ساتھ جنگ سنہ 37ھ میں ہوئی تھی[27]) اور مارقین (مارقین کے ساتھ جنگ سنہ 38ھ میں ہوئی تھی[28]) کے ساتھ ہونے والی جنگوں کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔[29]

بعض مآخذ[30] کے مطابق امام علیؑ نے اس خطبے کو "رحبہ" (کوفہ کا ایک محلہ، یا کوفہ سے آٹھ فرسخ کے فاصلے پر ایک آبادی[31]) یا مسجد کوفہ کے ممبر پر ارشاد فرمایا ہے۔[32]بعض مآخذ میں صرف خطبے کو نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہوئے اس کے زمان و مکان کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں کیا گیا ہے۔[33]

تراجم اور شرحیں

نہج البلاغہ کے تراجم اور شروحات کے ضمن میں ہونے والے ترجموں اور شرحوں کے علاوہ اس خطبے کا مستقل طور پر بھی ترجمے اور شرحیں لکھی گئی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں۔

  1. ترجمہ خطبہ شقشقیہ۔ فارسی۔ مترجم علی انصاری۔ سن 1354ش 14 صفحات پر مشتمل۔[34]
  2. خطبہ شقشقیہ کا منظوم ترجمہ، مترجم سید محمد تقی بن امیرمحمد مؤمن حسینی قزوینی 1270۔[35]
  3. ترجمہ خطبہ شقشقیہ۔ فارسی۔ مترجم اور کتاب کا نام نامعلوم، اس کا نسخہ آستان قدس لائبریری میں موجود ہے۔[36]
  4. تفسیر الخطبۃ الشقشقیۃ، شرح الخطبۃ الشقشقیۃ۔ عربی۔ سید مرتضی وفات 436۔[37] مجموعہ رسائل الشریف المرتضی۔ ج2۔[38]
  5. الشقشقیۃ‬: دراسۃ موضوعیۃ لشخصیات تصدت للخلافۃ الاسلامیہ‬‫، عبدالرسول الغفاری۔[39]
  6. امیر مؤمنین حضرت علی(ع) کی ایک جلا دینے والی آہ (خطبہ شقشقیہ کی شرح)، علی اصغر رضوانی۔‬[40]
  7. سایبان سیاہ (شرح خطبہ شقشقیہ امیرمؤمنین علی علیہ‌السلام)، نادر فضلی۔[41]
  8. الشذرات العلویہ فی شرح الخطبہ الشقشقیہ للامام علی علیہ‌السلام، ابوذر الغفاری۔[42]
  9. شرح خطبہ شقشقیہ (نسخہ خطی)۔[43]
  10. شرح خطبہ شقشقیہ (نسخہ خطی)۔[44]
  11. شرح خطبہ شقشقیہ، مرتضی قاسمی کاشانی۔[45]
  12. شرح خطبہ شقشقیہ (نسخہ خطی)۔[46]
  13. خطبہ شقشقیہ، ترجمہ و شرح، محمدباقر رشاد زنجانی۔[47]
  14. خطبہ شقشقیہ میں شیعہ عقاید، محمد اسدی گرمارودی۔[48]
  15. ‫المسائل التطبیقیہ علی الخطبہ الشقشقیہ، علی التبریزی۔‬[49]
  16. التوضیحات التحقیقیۃ فی شرح الخطبۃ الشقشقیۃ۔ سید علی اکبر بن سید محمد بن سید دلدار علی، وفات 1326۔[50]
  17. شرح خطبہ شقشقیہ۔ ملا ابراہیم گیلانی گیارہویں صدی کے علماء میں سے تھے اس کا اصلی نسخہ قم میں موجود تھا۔[51]
  18. شرح خطبہ شقشقیہ۔ میرزا ابوالمعالی کلباسی وفات 1315۔[52]
  19. شرح خطبہ شقشقیہ۔ تاج العلماء لکہنوی متوفای 1312 ق۔[53]
  20. شرح خطبہ شقشقیہ۔ فارسی۔ خطبہ شقشقیہ کا منظوم ترجمہ، مترجم سیدمحمدتقی قزوینی وفات 1270۔ اس کا نسخہ کتابخانہ مدرسہ سپہسالار و دانشگاہ تہران میں موجود ہے۔[54]
  21. شرح الخطبۃ الشقشقیۃ۔ عربی۔ سید جعفر بن صادق العابد۔[55]
  22. شرح خطبہ شقشقیہ۔ سید علاء الدین گلستانہ مؤلف کتاب حدائق الحقائق اس کا نسخہ صاحب ذریعہ نے نجف میں سید محمد باقر یزدی کے یہاں دیکھا ہے۔[56]
  23. شرح الخطبۃ الشقشقیۃ۔ عربی۔ خطیب معروف سید علی ہاشمی۔[57]
  24. شرح خطبہ شقشقیہ۔ شیخ ہادی بنانی مؤلف شرح الخطبۃ الزینبیۃ معاصر شیخ انصاری۔[58]
  25. شرح خطبہ شقشقیہ۔ عربی۔ مؤلف نسخہ مورخ سدہ سیزدہم آن در کتابخانہ ملی موجود است۔[59]
  26. شرح خطبہ شقشقیہ۔ عربی۔ مؤلف نسخہ مورخ سدہ سیزدہم آن در کتابخانہ ملی موجود است۔[60]
  27. النقد السدید شرح الخطبۃ الشقشقیۃ لابن ابی الحدید۔ عربی۔ شیخ محسن کریم، دو جلد، پہلی جلد سن 1383 کو نجف میں منظر عام پر آیا ہے۔[61]
  28. کشف السحاب فی شرح الخطبۃ الشقشقیۃ۔ ملا حبیب إلہ کاشانی متوفای 1340ق۔[62]


متن اور ترجمہ

وَ مِنْ خُطْبَۃٍ لَہُ علیہ‌السلام وَ ہِی الْمَعْرُوفَۃُ بِالشِّقْشِقِیۃ (امام علیؑ کا ایک خطبہ جو شقشقیہ کے نام سے معروف ہے)
متن ترجمه
أَمَا وَ اللَّہِ لَقَدْ تَقَمَّصَہَا فُلَانٌ وَ إِنَّہُ لَيَعْلَمُ أَنَّ مَحَلِّي مِنْہَا مَحَلُّ الْقُطْبِ مِنَ الرَّحَى يَنْحَدِرُ عَنِّي السَّيْلُ وَ لَا يَرْقَى إِلَيَّ الطَّيْرُ خدا کی قسم ! فلان (ابوبکر) نے پیراہنِ خلافت پہن لیا حالانکہ وہ میرے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا کہ خلافت میں میرا وہی مقام ہے جو چکی کے اندر اس کی کیل کا ہوتا ہے میں وہ (کوہ ُ بلند ہوں ) جس پر سے سیلاب کا پانی گزر کر نیچے گر جاتا ہے اور مجھ تک پرندہ پر نہیں مار سکتا۔
فَسَدَلْتُ دُونَہَا ثَوْباً وَ طَوَيْتُ عَنْہَا كَشْحاً (اس کے باوجود) میں نے خلافت کے آگے پردہ لٹکا دیا اور اس سے پہلو تہی کرلی
وَ طَفِقْتُ أَرْتَئِي بَيْنَ أَنْ أَصُولَ بِيَدٍ جَذَّاءَ أَوْ أَصْبِرَ عَلَى طَخْيَۃٍ عَمْيَاءَ يَہْرَمُ فِيہَا الْكَبِيرُ وَ يَشِيبُ فِيہَا الصَّغِيرُ وَ يَكْدَحُ فِيہَا مُؤْمِنٌ حَتَّى يَلْقَى رَبَّہ۔ اور سوچنا شروع کیا کہ اپنے کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کروں یا اس سے بھیانک تیرگی پر صبر کرلوں جس میں سن رسیدہ بالکل ضعیف اور بچہ بوڑھا ہو جاتا ہے۔ اور مومن اس میں جدوجہد کرتا ہوا اپنے پروردگار کے پاس پہنچ جاتا ہے۔
فَرَأَيْتُ أَنَّ الصَّبْرَ عَلَى ہَاتَا أَحْجَى فَصَبَرْتُ وَ فِي الْعَيْنِ قَذًى وَ فِي الْحَلْقِ شَجًا مجھے اس اندھیر پر صبر ہی قرینِ عقل نظر آیا۔ لہذا میں نے صبر کیا۔ حالانکہ آنکھوں میں (غبار اندوہ کی )خلش تھی اور حلق میں (غم ورنج) كے پھندے لگے ہوئے تھے۔
أَرَى تُرَاثِي نَہْباً حَتَّى مَضَى الْأَوَّلُ لِسَبِيلِہِ فَأَدْلَى بِہَا إِلَى فُلَانٍ بَعْدَہُ ـ ثُمَّ تَمَثَّلَ بِقَوْلِ الْأَعْشَى-: میں اپنی میراث کو لٹتے دیکھ رہا تھا۔ یہاں تک کہ پہلے نے اپنی راہ لی اور اپنے بعد خلافت ابنِ خطاب کو دے گیا۔ (پھر حضرت نے بطورِ تمثیل اعشی کا یہ شعر پڑھا۔)
شَتَّانَ مَا يَوْمِي عَلَى كُورِہَا * وَ يَوْمُ حَيَّانَ أَخِي جَابِرِ " کہاں یہ دن جو ناقہ کے پالان پر کٹتا ہے اور کہاں وہ دن جو حیان برادر جابر کی صحبت میں گزرتا تھا۔"
فَيَا عَجَباً بَيْنَا ہُوَ يَسْتَقِيلُہَافِي حَيَاتِہِ إِذْ عَقَدَہَا لِآخَرَ بَعْدَ وَفَاتِہِ تعجب ہے کہ وہ زندگی میں تو خلافت سے سبکدوش ہونا چاہتا تھا۔ لیکن اپنے مرنے کے بعد اس کی بنیاد دوسرے کے لئے استوار کرتا گیا۔
لَشَدَّ مَا تَشَطَّرَا ضَرْعَيْہَا فَصَيَّرَہَا فِي حَوْزَۃٍ خَشْنَاءَ يَغْلُظُ كَلْمُہَا وَ يَخْشُنُ مَسُّہَا وَ يَكْثُرُ الْعِثَارُ فِيہَا وَ الِاعْتِذَارُ مِنْہَا بے شک ان دونوں نے سختی کے ساتھ خلافت کے تھنوں کو آپس میں بانٹ لیا۔ اس نے خلافت کو ایک سخت و درشت محل میں رکھ دیا۔ جس کے چرکے کاری تھے۔ جس کو چھو کر بھی درشتی محسوس ہوتی تھی۔ جہاں بات بات میں ٹھوکر کھانا اور پھر عذر کرنا تھا۔
فَصَاحِبُہَا كَرَاكِبِ الصَّعْبَۃِ إِنْ أَشْنَقَ لَہَا خَرَمَ وَ إِنْ أَسْلَسَ لَہَا تَقَحَّمَ جس کا اس سے سابقہ پڑے ہو ایسا ہے جیسے سرکش اونٹنی کو سوار کہ اگر مہار کھینچتا ہے تو (اس کی منہ زوری سے ) اس کی ناک کا درمیانی حصہ ہی شگافتہ ہوا جاتا ہے جس کے بعد مہار دینا ہی ناممکن ہو جائے گا) اور اگر باگ کو ڈھیلا چھوڑ دیتا ہے تو وہ اس کے ساتھ مہلکوں میں پڑ جائے گا۔
فَمُنِيَ النَّاسُ لَعَمْرُ اللَّہِ بِخَبْطٍ وَ شِمَاسٍ وَ تَلَوُّنٍ وَ اعْتِرَاضٍ اس کی وجہ سے بقائے ایزد کی قسم ! لوگ کجروی، سرکشی، متلون مزاجی اور بے راہ روی میں مبتلا ہو گئے
فَصَبَرْتُ عَلَى طُولِ الْمُدَّۃِ وَ شِدَّۃِ الْمِحْنَۃِ حَتَّى إِذَا مَضَى لِسَبِيلِہِ جَعَلَہَا فِي جَمَاعَۃٍ زَعَمَ أَنِّي أَحَدُہُمْ میں نے اس طویل مدت اور شدید مصیبت پر صبر کیا،یہاں تک کہ دوسرا بھی اپنی راہ لگا، اور خلافت کو ایک جماعت میں محدود کر گیا اور مجھے بھی اس جماعت کا ایک فرد خیال کیا۔
فَيَا لَلَّہِ وَ لِلشُّورَى مَتَى اعْتَرَضَ الرَّيْبُ فِيَّ مَعَ الْأَوَّلِ مِنْہُمْ حَتَّى صِرْتُ أُقْرَنُ إِلَى ہَذِہِ النَّظَائِرِ اے اللہ مجھے اس شوریٰ سے کیا لگاؤ؟ ان میں سب سے پہلے کے مقابلہ ہی میں میرے استحقاق و فضیلت میں کب شک تھا جو اب ان لوگوں میں میں بھی شامل کر لیا گیا ہوں۔
لَكِنِّي أَسْفَفْتُ إِذْ أَسَفُّوا وَ طِرْتُ إِذْ طَارُوا فَصَغَا رَجُلٌ مِنْہُمْ لِضِغْنِہِ وَ مَالَ الْآخَرُ لِصِہْرِہِ مَعَ ہَنٍ وَ ہَنٍ مگر میں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ جب وہ زمین کے نزدیک پرواز کرنے لگیں تو میں بھی ایسا ہی کرنے لگوں اور جب وہ اونچے ہو کر اڑنے لگیں تو میں بھی اسی طرح پرواز کروں (یعنی حتی الامکان کسی نہ کسی صورت سے نباہ کرتا رہوں۔) ان میں سے ایک شخص تو کینہ وعناد کی وجہ سے مجھ سے منحرف ہو گیا اور دوسرا مادی اور بعض ناگفتہ بہ باتوں کی وجہ سے ادھر جھک گیا۔
إِلَى أَنْ قَامَ ثَالِثُ الْقَوْمِ نَافِجاً حِضْنَيْہِ بَيْنَ نَثِيلِہِ وَ مُعْتَلَفِہِ وَ قَامَ مَعَہُ بَنُو أَبِيہِ يَخْضَمُونَ مَالَ اللَّہِ خِضْمَۃَ الْإِبِلِ نِبْتَۃَ الرَّبِيعِ یہاں تک کہ اس قوم کا تیسرا شخص پیٹ پھلائے سرگین اور چارے کے درمیان کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ اس کے بھائی بند اٹھ کھڑے ہوئے۔ جو اللہ کے مال کو اس طرح نگلتے تھے جس طرح اونٹ فصلِ ربیع کا چارہ چرتا ہے۔
إِلَى أَنِ انْتَكَثَ عَلَيْہِ فَتْلُہُ وَ أَجْہَزَ عَلَيْہِ عَمَلُہُ وَ كَبَتْ بِہِ بِطْنَتُہُ۔ یہاں تک کہ وہ وقت آگیا۔ جب اس کی بٹی ہوئی رسی کے بَل کھِل گئے اورا س کی بد اعمالیوں نے اسی کا کام تمام کر دیا۔ اور شکم پری نے اسے منہ کے بل گرا دیا۔
فَمَا رَاعَنِي إِلَّا وَ النَّاسُ كَعُرْفِ الضَّبُعِ إِلَيَّ يَنْثَالُونَ عَلَيَّ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ حَتَّى لَقَدْ وُطِئَ الْحَسَنَانِ وَ شُقَّ عِطْفَايَ مُجْتَمِعِينَ حَوْلِي كَرَبِيضَۃِ الْغَنَمِ اس وقت مجھے لوگوں کے ہجوم نے دہشت زدہ کر دیا جو میری جانب بچو کے ایال کی طرح ہر طرف سے لگاتار بڑھ رہا تھا یہاں تک کہ عالم یہ ہوا کہ حسن علیہ اور حسین علیہ کچلے جارہے تھے اور میری ردا کے دونوں کنارے پھٹ گئے تھے وہ سب میرے گرد بکریوں کے گلے کی طرح گھیرا ڈالے ہوئے تھے۔
فَلَمَّا نَہَضْتُ بِالْأَمْرِ نَكَثَتْ طَائِفَۃٌ وَ مَرَقَتْ أُخْرَى وَ قَسَطَ آخَرُونَ كَأَنَّہُمْ لَمْ يَسْمَعُوا اللَّہَ سُبْحَانَہُ يَقُولُ تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَۃُ نَجْعَلُہا لِلَّذِينَ لا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَ لا فَساداً وَ الْعاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِينَ مگر اس کے باوجود جب میں امر خلافت کو لے کر اٹھا تو ایک گروہ نے بیعت توڑ ڈالی اور دوسرا دین سے نکل گیا اور تیسرے گروہ نے فسق اختیار کر لیا۔ گویا انہوں نے اللہ کا یہ ارشاد سنا ہی نہ تھا کہ » یہ آخرت کا گھر ہم نے ان لوگوں کے لئے قرار دیا ہے جو دنیا میں نہ (بے جا) بلندی چاہتے ہیں نہ فساد پھیلاتے ہیں۔ اور اچھا انجام پرہیز گاروں کے لئے ہے۔
بَلَى وَ اللَّہِ لَقَدْ سَمِعُوہَا وَ وَعَوْہَا وَ لَكِنَّہُمْ حَلِيَتِ الدُّنْيَا فِي أَعْيُنِہِمْ وَ رَاقَہُمْ زِبْرِجُہَا ہاں ہاں خدا کی قسم! ان لوگوں نے اس کو سنا تھا اور یاد کیا تھا۔ لیکن ان کی نگاہوں میں دنیا کا جمال کھب گیا اور اس کی سج دھج نے انہیں لبھا دیا۔
أَمَا وَ الَّذِي فَلَقَ الْحَبَّۃَ وَ بَرَأَ النَّسَمَۃَ لَوْ لَا حُضُورُ الْحَاضِرِ وَ قِيَامُ الْحُجَّۃِ بِوُجُودِ النَّاصِرِ وَ مَا أَخَذَ اللَّہُ عَلَى الْعُلَمَاءِ أَلَّا يُقَارُّوا عَلَى كِظَّۃِ ظَالِمٍ وَ لَا سَغَبِ مَظْلُومٍ لَأَلْقَيْتُ حَبْلَہَا عَلَى غَارِبِہَا وَ لَسَقَيْتُ آخِرَہَا بِكَأْسِ أَوَّلِہَا دیکھو اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں۔ اگر بیعت کرنے والوں کی موجودگی اور مدد کرنے والوں کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اور وہ عہد نہ ہوتا جو اللہ نے علماء سے لے رکھا ہے۔ کہ وہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پر سکون و قرار سے نہ بیٹھیں تو میں خلافت کی باگ ڈور اسی کے کندھے پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو اسی پیالے سے سیراب کرتا جس پیالے سے اس کے اوّل کو سیراب کیا تھا
وَ لَأَلْفَيْتُمْ دُنْيَاكُمْ ہَذِہِ أَزْہَدَ عِنْدِي مِنْ عَفْطَۃِ عَنْزٍ ۔ اور تم ا س دنیا کو میری نظروں میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ ناقابلِ اعتنا پاتے۔
قَالُوا وَ قَامَ إِلَيْہِ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ السَّوَادِ عِنْدَ بُلُوغِہِ إِلَى ہَذَا الْمَوْضِعِ مِنْ خُطْبَتِہِ فَنَاوَلَہُ كِتَاباً قِيلَ إِنَّ فِيہِ مَسَائِلَ كَانَ يُرِيدُ الْإِجَابَۃَ عَنْہَا فَأَقْبَلَ يَنْظُرُ فِيہِ [فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَاءَتِہِ] قَالَ لَہُ ابْنُ عَبَّاسٍ : يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَوِ اطَّرَدَتْ خُطْبَتُكَ مِنْ حَيْثُ أَفْضَيْتَ ۔ فَقَالَ : ہَيْہَاتَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ جب بات یہاں تک پہنچی تو عراق کا ایک شخص کھڑا ہوا اور ایک خط امام تک پہنچا دیا اور آپ اس خط کو پڑھنے میں مصروف ہوگئے اس کے بعد ابن عباس نے کہا اے کاش یا امیر المؤمنین جہاں پر بات ختم ہوئی تھی وہیں سے دوبارہ شروع کرتے تو آپ نے فرمایا
تِلْكَ شِقْشِقَۃٌ ہَدَرَتْ ثُمَّ قَرَّتْ ۔ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : فَوَاللَّہِ مَا أَسَفْتُ عَلَى كَلَامٍ قَطُّ كَأَسَفِي عَلَى ہَذَا الْكَلَامِ أَلَّا يَكُونَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عليہ السلام) بَلَغَ مِنْہُ حَيْثُ أَرَادَ ۔ ہیہات اے ابن عباس، یہ اندرونی آگ تھی جو شعلہ ور ہوئی پھر خاموش ہو گئی! ابن عباس کہتا ہے: خدا کی قسم امیر المؤمنین کے اس نامکمل کلام کی طرح کسی بات پر مجھے افسوس نہیں ہوا کہ اس اعلی صفات کے مالک انسان کو اپنا درد دل یوں ختم کرنا پڑا ۔


حوالہ جات

  1. شیخ مفید، الجَمَل، 1371ش، ص126۔
  2. حکیمی، شرح الخطبۃ الشقشقیۃ، 1402ق، ص126۔
  3. مکارم شیرازی، پیام امام(ع)، 1386ہجری شمسی، ج1، ص318۔
  4. ابن‌میثم بحرانی، شرح نہج البلاغہ، 1404ق، ج1، ص251۔
  5. مکارم شیرازی، پیام امام(ع)، 1386ش، ج1، ص318۔
  6. حکیمی، شرح الخطبۃ الشقشقیۃ، 1402ق، ص126۔
  7. ملاحظہ کریں: نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، 1414ق، خطبہ 3، ص48-50۔
  8. مکارم شیرازی، پیام امام(ع)، 1386ش، ج1، ص318۔
  9. بیہقی، معارج نہج البلاغہ، 1409ق، بخش2، ص80۔
  10. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، 1414ق، خطبہ 3، ص50۔
  11. الحسینی الخطیب، مصادر نہج البلاغۃ و اسانیدہ، 1409ق، ج1، ص335۔
  12. بہ نقل: محمدی، المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ، جدول اختلاف نسخ، ص 235۔
  13. اس خطبے کے مآخذ سے آشنائی کے لئے ملاحظہ کریں: دشتی، اسناد و مدارک نہج البلاغہ، 1378ش، ص61-63۔
  14. ابن‌میثم بحرانی، شرح نہج البلاغہ، 1404ق، ج1، ص252۔
  15. ابن‌میثم بحرانی، شرح نہج البلاغہ، 1404ق، ج1، ص251۔
  16. ابن‌میثم بحرانی، شرح نہج البلاغہ، 1404ق، ج1، ص252۔
  17. ابن‌میثم بحرانی، شرح نہج البلاغہ، 1404ق، ج1، ص251۔
  18. دوانی، «سید رضی مؤلف نہج البلاغہ»، 1373ش، ص126۔
  19. ابن‌میثم بحرانی، شرح نہج البلاغہ، 1404ق، ج1، ص251۔
  20. غفاری، الشقشقیہ، 1432ھ، ص22۔
  21. سید رضی، نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، 1414ق، ص559۔
  22. ملاحظہ کریں: جعفری، پرتوی از نہج البلاغہ، 1380ش، ص124-125۔
  23. شیخ صدوق، علل الشرایع، 1385ہجری شمسی، ج1، ص150-151۔
  24. شیخ صدوق، معانی الاخبار، 1403ھ، ص361-362۔
  25. جعفری، پرتوی از نهج البلاغه، 1380ش، ج1، ص128.
  26. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص182.
  27. ابن‌مزاحم، وقعة صفین، 1382ق، ص202.
  28. بلاذری، انساب الاشراف، 1394ق، ج2، ص362.
  29. خویی، منهاج البراعه، 1400ق، ج3، ص32.
  30. مفید، ارشاد، ج1، ص287۔، الراوندی، منہاج البراعۃ فی شرح نہج البلاغۃ، ج1، ص133۔
  31. مکارم شیرازی، پیام امام(ع)، 1386ہجری شمسی، ج1، ص319.
  32. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج54، ص345.
  33. شیخ صدوق، معانی الاخبار، 1403ھ، ص361-362.
  34. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص13۔
  35. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص13۔
  36. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص13۔
  37. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص21۔
  38. http://opac۔nlai۔ir/opac-prod/bibliographic/531991
  39. http://opac۔nlai۔ir/opac-prod/bibliographic/28ff1ii099
  40. http://opac۔nlai۔ir/opac-prod/bibliographic/2000653
  41. http://opac۔nlai۔ir/opac-prod/bibliographic/593117
  42. http://opac۔nlai۔ir/opac-prod/bibliographic/2620809
  43. http://opac۔nlai۔ir/opac-prod/bibliographic/807165
  44. http://opac۔nlai۔ir/opac-prod/bibliographic/807300
  45. http://opac۔nlai۔ir/opac-prod/bibliographic/577339
  46. http://opac۔nlai۔ir/opac-prod/bibliographic/1804ff1ii2
  47. http://opac۔nlai۔ir/opac-prod/bibliographic/2994093
  48. http://opac۔nlai۔ir/opac-prod/bibliographic/771346
  49. http://opac۔nlai۔ir/opac-prod/bibliographic/2091715
  50. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، صص22-23۔
  51. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص32۔
  52. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص32۔
  53. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص32۔
  54. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص32۔
  55. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص32۔
  56. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، صص32-33۔
  57. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص33۔
  58. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص33۔
  59. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص33۔
  60. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص33۔
  61. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص38۔
  62. استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص55۔

مآخذ

  • نہج البلاغہ، ترجمہ سیدجعفر شہیدی، تہران: علمی و فرہنگی، 1377۔
  • الامینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب والسنۃ والادب، قم: مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیۃ، 1416ھ-1995ء۔
  • ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمد ابوالفضل ابراہیم، ج1،‌دار احیاء الکتب العربیۃ، 1378/1959ء۔ (نسخہ موجود در لوح فشردہ کتابخانہ اہل بیت(ع)، نسخہ دوم)۔
  • ابن عبد ربہ، احمد بن محمد، العقد الفرید، تحقیق: مفید محمد قمیحہ، بیروت:‌دار الکتب العلمیۃ، بی‌تا۔
  • استادی، رضا، کتابنامہ نہج البلاغہ، تہران: بنیاد نہج البلاغہ، 1359ہجری شمسی۔
  • الحسینی الخطیب، السید عبد الزہراء، مصادر نہج البلاغۃ وأسانیدہ، ج1، بیروت:‌دار الزہراء، 1409ھ۔-1988ء۔
  • الجاحظ، البیان والتبیین، مصر: المکتبۃ التجاریۃ الکبری لصاحبہا مصطفی محمد، 1345ھ۔/1926ء۔ (نسخہ موجود در لوح فشردہ کتابخانہ اہل بیت(ع)، نسخہ دوم)۔
  • الراوندی، قطب الدین، منہاج البراعۃ فی شرح نہج البلاغۃ، تحقیق: السید عبد اللطیف الکوہکمری، قم: مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی العامۃ، 1406۔ (نسخہ موجود در لوح فشردہ کتابخانہ اہل بیت(ع)، نسخہ دوم)۔
  • الصدوق، علل الشرائع، ج1، نجف: منشورات المکتبۃ الحیدریۃ و مطبعتہا، 1385/1966ء۔ نسخہ موجود در لوح فشردہ کتابخانہ اہل بیت(ع)، نسخہ دوم)۔
  • الصدوق، معانی الاخبار، تصحیح و تحقیق: علی اکبر الغفاری، قم: مؤسسۃ النشر الاسلامی التابعۃ لجماعۃ المدرسین، 1379/1338ہجری شمسی۔ (نسخہ موجود در لوح فشردہ کتابخانہ اہل بیت(ع)، نسخہ دوم)۔
  • طالقانی، محمود، پرتوی از نہج البلاغہ، مصحّح: سیدمحمدمہدی جعفری، تہران: سازمان چاپ و انتشارات وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1374۔
  • محمدی، سیدکاظم، دشتی، محمد، المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ، قم: نشر امام علی(ع)، 1369ہجری شمسی۔
  • المسعودی، مروج الذہب ومعادن الجوہر، قم: دارالہجرۃ، 1404ھ۔-1363ہجری شمسی۔-1984ء۔ (نسخہ موجود در لوح فشردہ کتابخانہ اہل بیت(ع)، نسخہ دوم)۔
  • مدنی، علی خان بن احمد، الطراز الأول، مشہد: مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام لاحیاء التراث، 1384 ہ۔ ہجری شمسی۔ (نسخہ موجود در لوح فشردہ قاموس النور (2۔
  • مطرزی، ناصر بن عبدالسید، المغرب، محقق/ مصحح: فاخوری، محمود/ مختار، عبدالحمید، حلب: مکتبہ اسامہ بن زید، 1979ء۔
  • المفید، الارشاد، قم: مؤسسۃ آل البیت لتحقیق التراث، 1414/1993ء۔ (نسخہ موجود در لوح فشردہ کتابخانہ اہل بیت(ع)، نسخہ دوم)۔
  • المفید، المسألتان فی النص علی علی(ع)، تحقیق: محمدرضا الانصاری، ج2، بیروت: 1414/1993ء۔ (نسخہ موجود در لوح فشردہ کتابخانہ اہل بیت(ع)، نسخہ دوم)۔
  • المفید، الجمل، قم: مکتبۃ الداوری، بی‌تا۔ (نسخہ موجود در لوح فشردہ کتابخانہ اہل بیت(ع)، نسخہ دوم)۔