مسلمان

ویکی شیعہ سے

مُسلمان یا مُسلِم اس شخص کو کہا جاتا ہے جو دین اسلام کے تعلیمات پر عقیدہ رکھنے کے ساتھ ان پر عمل پیرا ہو۔ شیعہ فقہاء کے مطابق کسی شخص پر مسلمان کا عنوان صدق آنے کے لئے صرف زبان پر شہادتین یعنی خدا کی وحدانیت اور پیغمبر اسلامؐ کی نبوت کا اقرار کافی ہے جس کے بعد اس شخص پر بہ عنوان مسلمان مختلف احکام لاگو ہوتے ہیں من جملہ یہ کہ اس کا بدن پاک ہو جاتا ہے، اس کی جان، مال اور عزت و آبرو قابل احترام اور اس کی عبادتیں صحیح شمار کی جاتی ہیں۔ توحید، نبوت اور معاد پر اعتقاد رکھنا مسلمانوں کے مشترک اعتقادات اور نماز، روزہ اور حج وغیرہ ان کے مشترک عبادی اعمال میں سے ہیں۔ مورخین کے مطابق حضرت علیؑ اور حضرت خدیجہ(س) سب سے پہلے مسلمان تھے۔

پیو (PEW) ریسرچ سنٹر کے مطابق مسلمانوں کی کل آبادی سنہ 2015ء تک تقریبا 1 ارب 75 کروڑ 26 لاکھ 20 ہزار نفوس پر مشتمل ہے اور عیسائیت کے بعد دنیا کا سب سے زیادہ پیروکاروں والا مذہب ہے۔ اس تحقیقاتی ادارے کے مطابق مسلمان آبادی کا تقریبا دو تہائی حصہ ایشیاء اور اقیانوسیہ میں زندگی بسر کرتے ہیں۔

مسلمان خدا کے اوامر پر سر تسلیم خم کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، قرآن میں لفظ مسلم اور اس کے مشتقات زیادہ تر اسی معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔

اہمیت اور تاریخچہ

سنہ 610ء میں سعوی عرب کے شہر مکہ میں حضرت محمدؐ کے مبعوث برسالت ہونے کے ساتھ دین اسلام کا آغاز ہوا جس کے ماننے والوں کو مسلمان کہا جاتا ہے۔[1] کہا جاتا ہے کہ شیعوں کے پہلے امام حضرت علیؑ اور حضرت خدیجہ(س) (زوجہ پیغمبر اسلام) وہ پہلے اشخاص تھے جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کئے۔[2] کتاب السیرۃ النبویۃ میں ابن‌ہشام کے مطابق امام علیؑ اور حضرت خدیجہ(س) کے بعد زید بن حارثہ، ابوبکر بن ابی‌قحافہ، عثمان بن عفان، سعد بن ابی وقاص، زبیر بن عوام، عبدالرحمان بن عوف اور طلحہ بن عبید اللہ کا شمار اسلام قبول کرنے والے پہلے اشخاص میں ہوتے ہیں۔[3]

بعض فقہی روایات [4] اور فقہ کے اکثر ابواب جیسے طہارت، نماز، زکات، صوم، حج، جہاد، تجارت، وکالت، وصیت، نکاح، صید و ذباحہ، احیاء موات، حدود اور قصاص میں اسلام یا مسلمان کا عنوان ذکر ہوا ہے۔[5]

پیغمبر اکرمؐ کی حدیث: «المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ»،
خط ثلث میں حسن کنعان کے قلم سے

مفہوم شناسی

اسلام اور ایمان

«قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَٰكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ؛ اعراب (صحرائی عرب) کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں ان سے کہئے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ایمان تو ابھی تمہارے دلوں میں داخل ہوا ہی نہیں ہے۔

سورہ حجرات، آیہ 14

مسلمان یا مُسلِم اس شخص یا اشخاص کو کہا جاتا ہے جو دین اسلام کی تعلیمات پر عقیدہ رکھنے کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہو۔[6] بعض علماء صرف دین اسلام میں داخل ہونے اور پیغمبر اسلامؐ کے فرامین کے آگے پر سر تسلیم خم کرنے والے کو مسلمان سمجھتے ہیں۔[7]
مسلمان کا لفظ اس کے مشتقات کے ساتھ 40 سے زیادہ مرتبہ قرآن میں آیا ہے اور عام و خاص دو معانی میں استعمال ہوا ہے۔[8] قرآن کی اکثر آیات میں مسلمان کا لفظ اس کے عمومی معنی میں استعمال ہوا ہے جس سے مراد ہر وہ شخص ہے جو خدا کے احکام کو مانتا ہو اور ہر قسم کی شرک و بت‌ پرستی سے دور رہتے ہوئے توحید پر کامل عقیدہ رکھتا ہو ۔[9][یادداشت 1] اور خاص معنا میں مسلمان اس شخص کو کہا جاتا ہے جو حضرت محمدؐ کے دین کی پیروی کرنے والا ہو۔[10]

مؤمن اور مسلمان میں فرق

فقہاء بعض قرآنی آیات[11] اور روایات[12] کو مد نظر رکھتے ہوئے "مسلمان" اور "مؤمن" میں فرق کے قائل ہیں؛ اس بنا پر عمومی اور وسیع معنا میں مؤمن سے مراد وہ شخص یا اشخاص ہیں جو پیغمبر اسلامؐ کے لائے ہوئے تمام تعلیمات پر نہ فقط عقیدہ رکھتا ہو بلکہ ان پر من و عن عمل بھی کرتا ہو؛[13] جبکہ مسلمان ہونے کے لئے صرف زبان پر شہادتین کا اقرار کرنا کافی ہے۔[14] شیعہ فقہاء کی نظر میں خاص معنی میں مؤمن صرف اس شخص کو کہا جاتا ہے جو شیعہ ائمہ کی امامت پر اعتقاد رکھتا ہو۔[15]

احادیث میں مسلمان کی خصوصیات

بعض اخلاقی احادیث میں حقیقی مسلمان کی کچھ صفات اور خصوصیات کا ذکر آیا ہے۔[16] مثال کے طور پر پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک حدیث میں حقیقی مسلمان اس شخص کو قرار دیا گیا ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے لوگ محفوظ رہے۔[17] امام علیؑ ایک حدیث میں حکمت و دانائی، صداقت و راستگوئی، تدبر کے ساتھ قرآن کی تلاوت، خدا کی راہ میں دوستی اور دشمنی، اہل بیتؑ کی ولایت، دوسروں کے حقوق کی رعایت اور لوگوں کے ساتھ حُسنِ معاشرت کو حقیقی مسلمان کی علامت قرار دیتے ہیں۔[18]


مسلمان شخص کا عقل اس وقت تک کامل نہیں جبتک اس میں دس خصوصیات نہ پائی جائیں:
1-اس سے خیر کی امید رکھی جاتی ہو۔
2- لوگ اس کے شر سے محفوظ ہوں۔
3ـ دوسروں کے قلیل نیکی کو زیادہ شمار کرتا ہو۔
4ـ اپنی کثیر نیکی کو کم شمار کرتا ہو۔
5ـ اس سے جتنا طلب کرے تنگ نہ آتا ہو۔
6- اپنی زندگی میں کسب علم سے نہ تھکتا ہو۔
7ـ خدا کی راہ میں فقر و تنگ دستی اس کے نزدیک توانگرى سے زیادہ محبوب‌ ہو۔
8ـ خدا کی راہ میں ذلت و رسوائی دشمن خدا کے ساتھ عزت سے زیادہ محبوب‌ ہو۔
9ـ گمنامى کو شہرت سے زیادہ پسند کرتا ہو۔
اس کے بعد فرمایا: دسویں اور تم کیا جانے کہ دسویں کیا ہے؟ پوچھا گیا کہ: دسویں خصوصیت کیا ہے؟ فرمایا: جس کسی پر بھی نظر پڑے اسے اپنے سے زیادہ بہتر اور با تقوا جانتا ہو۔

ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ص443

اصول دین

مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کی ایک تصویر
تفصیلی مضمون: اصول دین

تمام مسلمانوں کے بعض مشترک اعتقادی اصول درج ذیل ہیں:

  • توحید: مسلمانوں کا سب سے بنیادی اصول توحید ہے۔[19] تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ خدا واحد ہستی ہے جس نے کائنات کو خلق فرمایا اور اس کا کوئی شریک نہیں۔[20]
  • معاد: قیامت کے دن روح کا بدن میں دوبارہ پلٹ آنا اور انسان کا دوبارہ زندہ ہونے پر عقیدہ رکھنا تاکہ وه دنیا میں اپنے کئے کا حساب و کتاب دے؛ نیک انسان کو بہشت اور اس کی جاودانی نعمات عطا کرے جبکہ بدکاروں کو جہنم کے دردناک عذاب کے ذریعے ان کے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔[21]
  • نبوت: حضرت محمدؐ کی نبوت پر اعتقاد رکھنا یعنی: اولا یہ کہ حضرت محمدؐ خدا کی طرف سے پیغمبری کے لئے مبعوث ہوا ہے۔[22] ثانیا یہ کہ قرآن خدا کی طرف سے آپؐ پر وحی ہوا ہے[23] اور ثالثا یہ کہ آپ اللہ کے آخری نبی ہیں آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔[24]

فروع دین

تفصیلی مضمون: فروع دین

تمام مسلمانوں کے مشترک اہم عبادی اعمال درج ذیل ہیں:

مسجد الحرام میں مناسک حج کی ادائیگی کا منظر
  • روزہ: ہر مسلمان پر ماہ رمضان میں ایک مہینہ روزہ رکھنا یعنی صبح کی اذان سے مغرب کی اذان تک مبطلات روزہ سے پرہیز کرنا واجب ہے۔[28]
  • حج: ہر صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک مرتبہ حج واجب ہے۔[29] حج کے مراسم ہر سال ذی الحجہ کے مہینے میں سعودی عرب کے شہر مکہ میں منعقد ہوتے ہیں جس میں دنیا کے مختلف ملکوں سے لاکھوں مسلمان جمع ہو کر حج کے اعمال بجا لاتے ہیں۔[30]

فقہی احکام

شیعہ فقہاء کے مطابق شہادتین یا اس کا ترجمہ زبان پر جاری کرنے سے مسلمان کا عنوان صدق آتا ہے۔[31] اسلام میں مسلمان صدق آنے والے انسان پر کچھ احکام کا اطلاق ہوتا ہے جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

«الْإِسْلَامُ يُحْقَنُ بِہِ الدَّمُ وَ تُؤَدَّى بِہِ الْأَمَانَۃُ وَ تُسْتَحَلُّ بِہِ الْفُرُوجُ وَ الثَّوَابُ عَلَى الْإِيمَانِ؛
اسلام کے ذریعے جان محفوظ ہو جاتی ہے، امانت ادا کی جاتی ہے اور ناموس حلال ہو جاتی ہے، لیکن آخرت کا ثواب ایمان پر موقوف ہے۔»

کلینی، الکافی، 1387ہجری شمسی، ج3، ص69

  • مسلمان کا بدن اور اس کی رطوبت پاک ہے۔[32]
  • مسلمان کی جان، مال اور عزت قابل احترام ہے۔[33]
  • ہر مسلمان پر ختنہ کرنا واجب ہے یہاں تک کہ بڑھاپے کی حد تک کیوں نہ پہنچ گیا ہو۔[34]
  • جن عبادات اور اعمال کا صحیح ہونا قصد قربت پر موقوف ہے ان میں ان کے انجام دینے والے کا مسلمان ہونا شرط ہے۔[35]
  • مسلمان کا کسی کافر کے ساتھ شادی اور نکاح صحیح نہیں ہے۔[36] مسلمان عورت کا اہل کتاب کے ساتھ بھی نکاح صحیح نہیں ہے۔[37]
  • کسی کافر کو کسی مسلمان پر ولایت و تسلط کا حق نہیں ہے؛ یعنی قاعدہ نفی سبیل کے مطابق خدا نے کوئی ایسا حکم صادر نہیں فرمایا جس کے سبب کسی کافر کو کسی مسلمان پر تسلط حاصل ہو۔[38]
  • شیعہ فقہاء کے مطابق کسی بھی مسلمان کا صراحتاً دین اسلام سے روگردانی اختیار کرنا اور یہ کہنا کہ آج کے بعد میں مسلمان نہیں ہوں یا ضروریات دین اسلام یا مسلمانوں کے مورد اجماع کسی مسئلے را انکار کرے تو وہ مرتد ہو جاتا ہے اور ارتداد کے احکام اس شخص پر لاگو ہوجاتے ہیں۔[39]

مسلمانوں کے مقدس مقامات

وہ مقامات جو مسلمانوں کے یہاں مقدس شمار کئے جاتے ہیں ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • کعبہ اسلام میں سب سے مقدس‌ مذہبی مقام ہے جو شہر مکہ میں واقع ہے اور تمام مسلمانوں کا قبلہ ہے۔[40] اسی طرح مسجد الحرام مسلمانوں کے سب سے اہم اور مشہور مساجد میں سے ہے جو کعبہ کے ارد گرد واقع ہے۔[41]
  • مسجدالنبی خانہ کعبہ کے بعد مسلمانوں کے یہاں مقدس ترین مذہبی مقامات میں سے ہے جو شہر مدینہ میں واقع ہے۔[42]یہ مسجد پیغمبر اسلامؐ کا مدینہ پہچنے کے ابتدائی ایام میں آپ کے ہی دست مبارک سے تعمیر کی گئی ہے۔[43]
  • مسجد الاقصی، مسلمانوں کا پہلا قبلہ اور ان کے مقدس مذہبی مقامات میں سے ہے۔[44]یہ مسجد بیت‌المقدس کے جنوب مشرقی حصے میں واقع ہے۔[45]
  • غار حراء، پیغمبر اسلام پر نزول وحی کا پہلا مقام ہے ۔[46]

آبادی

پیو (PEW) ریسرچ سنٹر کے اعلان کے مطابق سنہ 2015ء تک مسلمانوں کی کل آبادی تقریبا 1 ارب 75 کروڑ 26 لاکھ 20 ہزار نفوس پر مشتمل ہے[47] اور مسیحیت کے بعد دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا مذہب ہے۔[48] اس تحقیقاتی ادارے کے مطابق مسلمانوں کی مذکورہ آبادی کا دو تہائی حصہ یعنی تقریبا 62 فیصد ایشیا اور اقیانوسیہ میں زندگی بسر کرتے ہیں۔[49] پیو ریسرچ سنٹر کی 2015ء میں تیار شدہ رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی والے 10 ممالک بالترتیب درج ذیل ہیں:[50]

نمبر شمار ملک آبادی کل آبادی کا نمبر شمار ملک آبادی کل آبادی کا
1 انڈنوشیا 219/960/000 نفر 87/1 فیصد 2 ہندوستان 194/810/000 نفر 14/9 فیصد
3 پاکستان 184/000/000 نفر 96/4 فیصد 4 بنگلادیش 144/020/000 نفر 90/6 فیصد
5 نیجریہ 90/020/000 نفر 50 فیصد 6 مصر 83/870/000 نفر 95/1 فیصد
7 ایران 77/650/000 نفر 99/5 فیصد 8 ترکی 75/460/000 نفر 98 فیصد
9 الجزایر 37/210/000 نفر 97/9 فیصد 10 عراق 36/200/000 نفر 99 فیصد

اسی طرح اس تحقیقاتی ادارے کے رپورٹ کے مطابق سنہ 2017ء میں امریکہ میں مسلمانوں کی آبادی تقریبا 34 لاکھ 50 ہزار ہے جو اس ملک کی کل آبادی کا 1.1 فیصد ہے۔[51] اور یورپ میں مسلمانوں کی تعداد سنہ 2010ء سے 2016ء تک 1 کروڑ 95 لاکھ سے کروڑ 58 لاکھ یعنی وہاں کی آبادی کا 3.8 فیصد سے 4.9 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔[52]

فرقے

شیعہ اور سنی مسلمانوں کے دو بڑے فرقے ہیں۔ "پیو سوسائٹی آف ریلیجن اینڈ پبلک لائف" کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی کل آبادی کا 10 سے 13 فیصد شیعہ جبکہ 87 سے 90 فیصد سنی‌ ہیں۔[53] ایک اور رپورٹ کے مطابق شیعوں کی آبادی (امامیہ، اسماعیلیہ اور زیدیہ) اس وقت 300 میلین تک پہنچ گئی ہے جو کل مسلم آبادی کا 19.1 فیصد اور دنیا کی کل آبادی کا 4.1 فیصد بنتی ہے۔[54]

فوٹوگیلری

حوالہ جات

  1. بہرامیان، «اسلام»، ص395۔
  2. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی،‌ دار صادر، ج2، ص23۔
  3. مراجعہ کریں: ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار احیاء التراث العربی، ج1، ص262-273۔
  4. مراجعہ کریں: کلینی، الکافی، 1387ہجری شمسی، ج3، ص68-76۔
  5. مؤسسہ دایرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، 1385ہجری شمسی، ج1، ص511۔
  6. ویکس، دانشنامہ اقوام مسلمان، 1383ہجری شمسی، مقدمہ، ص2۔
  7. سید شرف الدین، آیین ہمزیستی مسلمانان، 1393ہجری شمسی، ص34۔
  8. طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج18، ص328-329۔
  9. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج2، ص703؛ مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن، 1368ہجری شمسی، ج2، ص294-295۔
  10. طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج18، ص328-329۔
  11. سورہ حجرات، آیہ 14۔
  12. مراجعہ کریں: کلینی، الکافی، 1387ہجری شمسی، ج3، ص68-76۔
  13. شہید ثانی، مسالک الافہام، 1423ھ، ج5، ص337۔
  14. علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج65، ص315۔
  15. شہید ثانی، مسالک الافہام، 1423ھ، ج5، ص338۔
  16. علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج71، ص158-159؛ ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، 1404ھ، ص196-197۔
  17. بخاری، صحیح بخاری، 1422ھ، ج1، ص11؛ کلینی، الکافی، 1387ہجری شمسی، ج3، ص592۔
  18. ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، 1404ھ، ص196-197۔
  19. یحیی، «سیر مسألہ توحید در عالم اسلام تا قرن ہفتم ہجری»، ص196؛ صافی، تجلی توحید در نظام امامت، 1392ہجری شمسی، ص21۔
  20. کریمی، توحید از دیدگاہ آیات و روایات، 1379ہجری شمسی، ص19-20۔
  21. علامہ مجلسی، حق الیقین، انتشارات اسلامیہ، ج2، ص369۔
  22. مراجعہ کریں: حلی، کشف المراد، 1430ھ، ص480-485؛ ایجی، شرح المواقف، 1325ھ، ج8، ص243-244۔
  23. مطہری، مجموعہ آثار، 1388ش، ج26، ص127۔
  24. اسکویی، نبوت، 1390ہجری شمسی، ص202-203۔
  25. نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج7، ص12۔
  26. محقق حلی، شرایع الاسلام، 1409ھ، ج1، ص46۔
  27. محقق حلی، شرایع الاسلام، 1409ھ، ج1، ص46۔
  28. محقق حلی، شرایع الاسلام، 1409ھ، ج1، ص139۔
  29. محقق حلی، شرایع الاسلام، 1409ھ، ج1، ص163؛ شیخ انصاری، کتاب الحج، نشر تراث الشیخ الاعظم انصاری، ص6۔
  30. محقق حلی، شرایع الاسلام، 1409ھ، ج1، ص174۔
  31. علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج65، ص315؛ نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج41، ص630۔
  32. دایرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، 1385ہجری شمسی، ج1، ص513
  33. محقق داماد، قواعد فقہ، 1406ھ، ج1، ص213-214۔
  34. نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج31، ص263۔
  35. نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج17، ص161۔
  36. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، 1427ھ، ج2، ص412۔
  37. نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج30، ص92۔
  38. حسینی، العناوین الفقہیۃ، 1417ھ، ج2، ص350۔
  39. ہاشمی، در باب تکفیر و ارتداد، 1400ہجری شمسی، ص85۔
  40. کردی مکی، کعبہ و مسجدالحرام در گذر تاریخ، 1378ہجری شمسی، ص11، مقدمہ کتاب۔
  41. تونہ‌ای، فرہنگنامہ حج، 1390ہجری شمسی، ص885-886۔
  42. مؤسسہ فرہنگی ہنری مشعر، مسجد النبی(ص)، نشر مشعر، ص3۔
  43. مؤسسہ فرہنگی ہنری مشعر، مسجد النبی(ص)، نشر مشعر، ص3۔
  44. موسی غوشہ، تاریخ مجموعہ مسجد الاقصی، 1390ہجری شمسی، ص7۔
  45. حمیدی، تاریخ اورشلیم، 1381ہجری شمسی، ص183۔
  46. تونہ‌ای، فرہنگنامہ حج، 1390ہجری شمسی، ص710-711۔
  47. Diamant, «The countries with the 10 largest Christian populations and the 10 largest Muslim populations»، Pew Research Center
  48. [.org/fact-tank/2017/01/31/worlds-muslim-population-more-widespread-than-you-might-think/ Desilver, «World’s Muslim population more widespread than you might think»، Pew Research Center]
  49. Desilver, «World’s Muslim population more widespread than you might think»، Pew Research Center
  50. Desilver, «World’s Muslim population more widespread than you might think»، Pew Research Center
  51. Mohamed, New estimates show U.S. Muslim population continues to grow، Pew Research Center
  52. Hachett, «5facts about the Muslim population in Europe»، Pew Research Center
  53. انجمن دین و زندگی عمومی پیو، نقشہ جمعیت جہان، 1393ہجری شمسی، ص11۔
  54. انجمن دین و زندگی عمومی پیو، نقشہ جمعیت جہان، 1393ہجری شمسی، ص11۔

نوٹ

  1. مثال کے طور پر قرآن میں حضرت ابراہیم(ع) کی شریعت کو اسلام «مِلَّۃَ أَبِيكُمْ إِبْرَاہِيمَ ہُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَبْلُ۔۔۔» (آیہ 78سورہ حج) اور خود حضرت ابراہیم کو مسلمان کے عنوان سے معرفی کی ہیں۔ «مَاكَانَ إِبْرَاہِيمُ يَہُودِيًّا وَ لَا نَصْرَانِيًّا وَلَٰكِنْ كَانَ حَنِيفًا مُسْلِمًا وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ۔» (آیہ 67 سورہ آل عمران)۔

مآخذ

  • ابن شعبہ حرانی، ابومحمد حسن بن علی، تحف العقول، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1404ھ۔
  • ابن ہشام، عبدالملک بن ہشام، السیرۃ النبویۃ، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • انجمن دین و زندگی عمومی پیو، نقشہ جمعیت جہان، ترجمہ محمود تقی زادہ داوری، قم، شیعہ‌شناسی، 1393ہجری شمسی۔
  • ایجی، عضد الدین، شرح المواقف، قم، چاپ اول، 1325ھ۔
  • بیابانی اسکویی، محمد، نبوت، تہران، انتشارات نبأ، 1390ہجری شمسی۔
  • تونہ‌ای، مجتبی، فرہنگنامہ حج، قم، انتشارات مشہور، 1390ہجری شمسی۔
  • بہرامیان، علی، «اسلام»، دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، جلد 8، تہران، مرکز دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، 1381ہجری شمسی۔
  • حسینی، سید میر عبد الفتاح، العناوین الفقہیۃ، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، چاپ دوم، 1417ھ۔
  • سید شرف الدین، عبدالحسین، آیین ہمزیستی مسلمانان، قم، نشر حبیب، 1393ہجری شمسی۔
  • شہید ثانی، زین الدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، قم، دار التفسیر، چاپ ہفتم، 1427ھ۔
  • شہید ثانی، زین الدین بن علی، مسالک الافہام، قم، مؤسسہ المعارف الاسلامیہ، 1423ھ۔
  • شیخ انصاری، مرتضی، کتاب الحج، قم، تراث الشیخ الاعظم انصاری، بی‌تا۔
  • صافی، لطف اللہ، تجلی توحید در نظام امامت، قم، دفتر تنظیم و نشر آثار حضرت آیت اللہ العظمی صافی گلپایگانی، 1392ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، چاپ سوم، 1393ھ۔
  • علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، دار احیاء تراث العربی، 1403ھ۔
  • علامہ مجلسی، محمدباقر، حق الیقین، قم، انتشارات اسلامیہ، بی‌تا۔
  • علامہ حلی، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، مؤسسہ النشر الاسلامی، 1430ھ۔
  • کردی مکی، محمدطاہر، کعبہ و مسجد الحرام در گذر تاریخ، تہران، نشر مشعر، چاپ دوم، 1378ہجری شمسی۔
  • کریمی، جعفر، توحید از دیدگاہ آیات و روایات (2)، تہران، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی، 1379ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، قم، دار الحدیث، چاپ اول، 1387ہجری شمسی۔
  • محقق داماد، سیدمصطفی، قواعد فقہ، مرکز نشر علوم اسلامی، چاپ دوازدہم، 1406ھ۔
  • محقق حلی، جعفر بن الحسن، شرایع الاسلام، تہران، انتشارات استقلال، چاپ دوم، 1409ھ۔
  • مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، چاپ اول، 1368ہجری شمسی۔
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، قم، انتشارات صدرا، 1388ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، 1374ہجری شمسی۔
  • مؤسسہ دایرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، قم، مؤسسہ دایرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، 1385ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام، بیروت، دار احیاء تراث العربی، چاپ ہفتم، 1362ہجری شمسی۔
  • ویکس، ریچارد، دانشنامہ اقوام مسلمان، ترجمہ معصومہ ابراہیمی و پیمان متین، تہران، مؤسسہ انتشارات امیر کبیر، 1383ہجری شمسی۔
  • ہاشمی، سید صدرا، در باب تکفیر و ارتداد، تہران، نشر نگاہ معاصر، چاپ اول، 1400ہجری شمسی۔
  • یحیی، عثمان بن اسماعیل، «سیر مسآلہ توحید در عالم اسلام تا قرن ہفتم ہجری»، ترجمہ علی‌رضا ذکاوتی قراگزلو، در مجلہ معارف، شمارہ 16 و 17، فروردین و آبان 1368ہجری شمسی۔
  • یعقوبی، احمد بن ابی‌یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دارصادر، چاپ اول، بی‌تا۔

Center: 3 January 2018, seen at: 5 February 2022.