ابو الجارود

ویکی شیعہ سے

زیاد بن مُنْذر جو اَبُوالجارود کے نام سے جانا جاتا ہے اور جارودیہ فرقہ کا بانی جسے امام باقر علیہ السلام نے اس کے بعض عقائد اور تقیہ کو نہ ماننے کی وجہ سے اسے رد کر دیا تھا۔ اکثر مآخذ میں ان کا نام زیاد بن منذر لکھا گیا ہے۔ ان کا نام زیاد بن ابی زیاد بھی ذکر کیا ہے[1] لیکن یہ یزید بن ابی زیاد سے اشتباہ کر گئے ہیں جو مشہور مدحثین میں سے تھے اور قیام زید میں حصہ لیا تھا۔[2]

مآخذ میں انہیں دوسری کنیت "ابو النجم"[3] "عبدی" [4] اور "ثقفی" کی نسبت بھی دی گئی ہے جن میں سے آخری لقب رجال کی کتابوں میں کئی بار تکرار ہوا ہے۔[5]

بعض اوقات انہیں "حمدان" قبیلے سے منسوب کیا جاتا ہے اور خاص طور پر اس کی شاخ "خریف" سے۔[6]

شجرہ

ابو الجارود کے بارے میں ایسی مختلف معلومات بھی ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ابو الجارود ایرانی نژاد تھے لیکن اس حوالے سے احتیاط کرنے کی ضرورت ہے:

شیخ طوسی نے رجال طوسی میں ان کے آباؤ اجداد کے سلسلہ نسب کا حوالہ دیے بغیر انہیں "مولا" کہا ہے۔ سعد اشعری[7] نے انہیں "عجمی" کہا ہے لیکن ان کی یہ بات زیاد عجم(متوفی 100 ہجری تقریبا) نامی شاعر[8] کے نام کے ساتھ شباہت کی وجہ سے ہونا ممکن ہے؛ بعض نے جارودیہ فرقہ کے سربراہ کو "خراسانی" سمجھا ہے۔[9]

ابو الجارود نے ابو الطفیل عامر بن واثلہ (متوفی 110ھ) سے روایت کی ہے، ان کی تاریخ پیدائش کی تازہ ترین تاریخ پہلی صدی ہجری کے آخری سال ہیں، لیکن وہ روایت جس میں انہوں نے امام باقرؑ سے مخاطب ہوکر اپنے آپ کو "کبیر السّن" کہا ہے وہ اس اندازے سے مطابقت نہیں رکھتی ہے۔[10] بہرحال ابو الجارود کا امام سجادؑ کے دور کو پانے میں تردید کی گنجائش نہیں ہے خاص طور پر اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ وہ امام سجادؑ سے ان کے بیٹے عبداللہ کے ذریعے روایت نقل کرتے ہیں[11] اور ایک مورد میں امام سجادؑ سے براہ راست روایت کرتے ہیں[12] لیکن اس میں روای کا نام غلطی سے رہ جانے کا امکان زیادہ ہے۔[13]

امام باقرؑ کا صحابی

ابو الجارود امام باقرؑ کے اصحاب میں سے تھے اور اس نے امام سے جو بہت سی روایات نقل کی ہیں جس سے ان کا امام کے ساتھ قریبی تعلق ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

ابو الجارود کو ان کے مخصوص افکار اور اس دور میں شیعہ جو تقیہ کرنے کا پابند تھے کی عدم پابندی کی وجہ سے امامؑ نے اس کو خود سے دور کیا اور کہا گیا ہے کہ امامؑ نے اسے "سُرحُوب" (پانی میں رہنے والا اندھا شیطان) کا لقب دیا تھا۔[14] لیکن آیت‎ اللہ خویی اس نام کے بہت زیادہ منکر تھے۔[15] کشی کی معرفہ الرجال کی بعض روایات کے مطابق،[16] ابو الجارود امام صادقؑ کی امامت کے دور میں بھی اپنے عقائد کی وجہ سے امام کی سرزنش اور تنقید کا مستحق ٹھہرا۔

زید بن علی کی طرف رجحان

امامت کے معاملے میں ابو الجارود کا رویہ اور تقیہ کی عدم پابندی نے اسے امام باقرؑ اور امام صادقؑ سے دور کردیا جس کے سبب زید بن علی کی طرف جھکاؤ پیدا کیا۔ ابو الجارود نے زید بن علی کا قیام کے دوران دیا ہوا خطبہ[17] نیز ان سے فقہ اور تفسیر کے سوالات بھی نقل کیا ہے۔[18] انہوں نے یحیی بن زید سے بھی حدیث سنی ہے۔[19]

زید بن علی (122ھ/740ء) کے قیام کے بعد ابو الجارود بھی ان کے ساتھ مل گیا[20] لیکن ان کی زید کے قیام کے دوران کی سرگرمیوں کے بارے میں موجود بعض روایات زیادہ معتبر نہیں ہیں، جن میں یہ روایت بھی شامل ہے کہ اس نے فضیل بن زبیر رسّان کے ساتھ مل کر ابو حنیفہ کو زید کے قیام کی حمایت جلب کرنے کی کوشش کی۔[21]

وفات

بعض نے اسے 122 ہجری میں زید کے قیام کے مقتولین میں شمار کیا ہے، لیکن اس کے برعکس بعض شواہد موجود ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ دوسری صدی کے دوسرے نصف تک زندہ تھے۔ اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ ابوالجارود کے راویوں میں حسن بن محبوب (سنہ 149 ہجری|149ھ میں زندہ]])[22] اور عبداللہ بن حمّاد انصاری (زندہ 229ھ)[23] کے نام دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ محمد بن سنان،[24] محمد بن بکر ارحبی،[25] ابو مِخنف[26] اور نصر بن مزاحم[27] جیسے لوگوں نے ان کی باتیں سنی ہیں۔ ابن حجر نے بھی ابو الجارود کی وفات کو 150 اور 160 ہجری کے درمیان قرار دیا ہے۔[28]

علمائے علم رجال کی نظر میں

اہل سنت کی نظر میں

اہل سنت علما کی کتابوں میں ابوالجارود پر سخت تنقید کی گئی ہے، یہاں تک کہ انہوں نے ان سے روایت کی گئی حدیث کو صحیح تسلیم نہیں کیا ہے۔[29]

امامیہ کی نظر میں

  • امامیہ علمائے رجال کی کتابوں کی عبارتوں میں ان کے بارے میں ائمہ کی طرف سے ان پر لعن اور مذمت کے الفاظ ملتے ہیں۔[30]
  • ابن غضائری[31] کا خیال ہے کہ ابو الجارود کی احادیث، امامیہ میں زیدیہ کی نسبت زیادہ ہیں۔[32] لیکن ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ امامیہ ان کی احادیث کو مکروہ سمجھتے ہیں لیکن محمد بن بکر ارحبی نے ان سے جو روایات نقل کی ہیں ان پر محمد بن سنان کی منقول روایات سے زیاہ اعتماد کرتے ہیں؛[33] یوں اس کراہت میں کمی آگئی ہے۔
  • دوسری طرف بعض شیعہ علماء جیسے شیخ مفید نے ان سے روایت نقل کرنے کو جائز سمجھا ہے اور اسے ان رجالیوں کے زمرے میں درج کیا ہے جن سے فقہی احادیث روایت کی گئی ہیں۔[34] اسی طرح ابن قولویہ نے کامل الزیارات میں ان سے روایت نقل کر کے[35] ابو الجارود سے روایت نقل کرنے کے علمی جواز کو صادر کیا ہے۔[36]

لہٰذا یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ امامیہ معتبر کتابیں جیسے کلینی کی اصول کافی، تفسیر فرات کوفی اور تفسیر علی بن ابراہیم قمی میں ان سے بہت ساری روایات نقل ہوئی ہیں۔[37] اسی طرح ان سے منقول فقہی متعدد روایات جن میں سے اکثر محمد بن بکر ارحبی سے احمد بن عیسی کی امالی[38] اور دیگر زیدی مصادر[39] میں ملتی ہیں۔

تالیفات

منابع میں ان کی طرف دو تصانیف منسوب کی گئی ہیں، ایک اصل ہے اور دوسری التفسیر، جن کے بارے میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے امام باقرؑ سے ان کے مواد کو سنا ہے۔

  1. ابو الجارود سے منسوب اصل کو کثیر بن عیاش نے روایت کی ہے اور کہا ہے کہ ابو السرایا کے 200 ہجری کے قیام میں شریک تھا۔[40]
  1. ان کی تفسیر سے جو امام باقرؑ کی تفسیر کے طور پر مشہور تھی،[41] اس کے بعض حصے علی بن ابراہیم قمی سے منسوب تفسیر میں نقل ہوئے ہیں۔[42] نیز اس تفسیر سے [فرات کوفی]][43] اور عیاشی[44] جیسے لوگوں نے استفادہ کیا ہے،[45] جبکہ اہل سنت نے اس تفسیر کی سخت مخالفت کی ہے۔[46] اور دارقطنی نے ابن شاہین جیسے مشہور محدث کو تفسیر ابو الجارود سے استفادہ کرنے پر سخت تنقید کی ہے۔[47]

اعتقادات

ابو الجارود کے عقیدے کے مطابق حسنینؑ کے بعد نص منقطع ہوا ہے لیکن امامت حضرت فاطمہ کی اولاد سے خارج نہیں ہوسکتی ہے۔ اس کا خیال تھا کہ اولاد فاطمہؑ میں سے کوئی بھی لوگوں کو اپنی طرف بلائے تو وہ امامِ مفترض الطاعہ (واجب الاطاعہ امام) ہے اور لوگوں کو اسے امام ماننا چاہئے۔[48] اسی لئے ابوبکر اور عمر سے بیزاری کا اعلان کیا اور انہیں خلافت کے غصب قرار دیا۔[49] ابوالجارود کی رائے کے مطابق، جو اس حصے میں دوسرے زیدیوں کی رائے کے ساتھ مشترک ہے کہ حضرت فاطمہؑ کی اولاد کی کثیر تعداد کی وجہ سے امام افضل کی صحیح شناخت کرنا مشکل ہے، اس لیے امامت کی شرط "قیام کرنا" ہے۔ "

  • اس کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ واقعات رونما ہونے پر امام کو کیا کرنا چاہئے اس بارے میں امام کو الہام ہوجاتا ہے۔[50] یہ توقع بعید نہیں ہے کہ جارودی فرقہ سے منسوب عقائد، فرقہ کے بانی ابوالجارود کے عقائد فرقہ شناسی کے مصادر میں ایک دوسرے الگ ہوں۔

حوالہ جات

  1. ملاحظہ کریں: خوارزمی، مفاتیح العلوم، ص 29؛ شہرستانی، الملل و النحل، ج1، ص 140
  2. ملاحظہ کریں: ابوالفرج، مقاتل الطالبیین، ص 145؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج6، ص 132-133
  3. ابن ندیم، 226
  4. مسعودی، مروج الذہب، ج3، ص 208
  5. ملاحظہ کریں: بخاری، التاریخ الکبیر، ج 2(1)، ص 371؛ مسلم بن حجاج نیشابوری، الکنی والاسماء، ص 96؛ ابن حبان، المجروحین، ج1، ص 306
  6. ملاحظہ کریں: يحيى بن الحسين، تیسیر المطالب في امالی ابی‌طالب، ص 10؛ نجاشی، رجال، ص 170؛ طوسی، رجال، ص 122، 197
  7. اشعری، المقالات والفرق، ص 18
  8. ملاحظہ کریں: ابن شاکر، فوات الوفیات، ج2، ص 29-30
  9. ملاحظہ کریں: حمیری، شمس العلوم و دواء کلام العرب من الکلوم، ج1، ص 308
  10. ملاحظہ کریں: راوندی، الدعوات، ص 135
  11. ملاحظہ کریں: احمد بن عیسی، امالی (رأب الصدع)، ج 1، ص 649، و ج2، ص 711
  12. کلینی، الکافی، ج1، ص 221
  13. ملاحظہ کریں: خوئی، معجم رجال الحدیث، ج7، ص 163
  14. ملاحظہ کریں: نوبختی، فرق الشیعہ، ص 48-49؛ کشی، معرفہ الرجال، ص 229
  15. زیدیہ تاریخ و عقاید، ص48.
  16. کشی، معرفہ الرجال، ص 230-231
  17. ابوطالب، تیسیر، 195-196؛ سیاغی، الروض النضیر، ج1، ص 129
  18. ملاحظہ کریں: فرات، تفسیر، ص 127-128؛ المرشدباللہ، الامالی، ج2، ص 42، ص 75؛ قاسم بن محمد، الاعتصام بحبل اللہ المتین، ج3، ص 221؛ احمدبن عیسی، امالی (رأب الصدع)، ج2، ص 901
  19. ملاحظہ کریں: ابوطالب، تیسیر، ص 312؛ مادلونگ، ص 44؛ قس: احمد بن عیسی، امالی (رأب الصدع)، ج1، ص 197
  20. نجاشی، رجال، ص 170
  21. بہرامیان، ابو الجارود، در دانشنامہ بزرگ اسلامی، 1372شمسی، ج4، ص290.
  22. ملاحظہ کریں: کشی، اختیار طوسی، ص584؛ ابن بابویہ، فقیہ من لایحضرہ الفقیہ، ج4، ص132
  23. ملاحظہ کریں: ابن ابی زینب، الغیبہ، ص101
  24. کلینی، الکافی، ج1، ص304 و ج8، ص263۔
  25. ابوعبداللہ علوی، الاذان بحی علی خیرالعمل، صص 16، 17، 87
  26. طبری، تاریخ، ج2، ص676
  27. خطیب، تاریخ بغداد، ج13، ص282؛ ابو عبداللہ علوی، الاذان بحی علی خیرالعمل، ص75؛ احمد بن عیسی، امالی (رأب الصدع)، ج1، ص197
  28. ابن حجر، تہذیب التہذیب، ج3، ص387، بخاری سے منقول.
  29. ملاحظہ کریں:یحیی بن معین، التاریخ، ج3، ص 456؛ احمدبن حنبل، الملل و معرفہ الرجال، ج3، ص 382؛ ابن عدی، الکامل فی الضعفاء، ج3، ص 1046-1048
  30. کشی، معرفۃ الرجال، ص 229-230؛ علامۀ حلی، رجال، ص223
  31. غضائری، تیسیر المطالب من امالی الامام ابی‌طالب، ص 10-11
  32. فرمانیان / موسوی نژاد،زیدیہ تاریخ و عقاید، ص49.
  33. خویی،معجم رجال الحدیث، ج7، ص 321 326.
  34. مفید، الرسالہ العددیہ، ص 129
  35. ابن قولویہ، کامل الزیارات، ص 47
  36. فرمانیان / موسوی نژاد، ص49.
  37. ملاحظہ کریں:خوئی، معجم رجال الحدیث، ج21، ص 349-351
  38. ملاحظہ کریں:احمد بن عیسی،امالی، ج1، ص 49، 55، ص 107-108، و ج2، صص 901، 936۔
  39. ملاحظہ کریں:ابوطالب، تیسیر، ص 32، 34؛ المرشد باللہ، یحیی بن حسین، الامالی، ج1، ص 17، 149۔
  40. طوسی، فہرست، ص 72-73
  41. ابن ندیم، ص 36
  42. ملاحظہ کریں:آقابزرگ، الذریعہ، ج4، ص 302-310
  43. فرات کوفی، تفسیر، صص 101، 120، 147۔
  44. عیاشی، تفسیر، ج1، ص17، 86، 333
  45. ابن طاووس، سعد السعود، ص 121-122
  46. ابن ابی حاتم، الجرح و التعدیل، ج 1(2)، ص546
  47. خطیب، تاریخ بغداد، ج11، ص 267
  48. ناشیء اکبر، مسائل الامامہ، ص 42
  49. حمیری، شمس العلوم و دواء کلام العرب من الکلوم، ج1، ص 308
  50. ناشیء اکبر، مسائل الامامہ، ص 43

مآخذ

  • آقابزرگ، الذریعہ.
  • ابن ابی حاتم، عبدالرحمن بن محمد، الجرح و التعدیل، حیدرآباد دکن، 1371ھ/1952ء۔
  • ابن ابی زینب، محمدبن ابراہیم، الغیبہ، بیروت، 1403ھ/1983ء۔
  • ابن بابویہ، محمدبن علی، فقیہ من لایحضرہ الفقیہ، بہ کوشش حسن موسوی خرسان، بیروت، 1401ھ/1981ء۔
  • ابن حبان، محمد، المجروحین، بہ کوشش محمود ابراہیم زاید، بیروت، 1396ھ۔
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، تہذیب التہذیب، حیدرآباد دکن، 1325ھ۔
  • ابن شاکر کتبی، محمد، فوات الوفیات، بہ کوشش احسان عباس، بیروت، 1973ء۔
  • ابن طاووس، علی بن موسی، سعدالسعود، نجف، 1369ھ/1950ء۔
  • ابن عدی، عبداللہ، الکامل فی الضعفاء، بیروت، 1405ھ/1985ء۔
  • ابن غضائری، احمدبن حسین، الافادہ، نسخہ خطی کتابخانہ واتیکان، شم 1159.
  • ابن غضائری، تیسیر المطالب من امالی الامام ابی‌طالب، بہ کوشش یحیی عبدالکریم فضیل، بیروت، 1395ھ/1975ء۔
  • ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، بہ کوشش احمد صقر، قاہرہ، 1368ق/1949ء۔
  • ابوعبداللہ علوی، محمدبن علی، الاذان بحی علی خیرالعمل، بہ کوشش یحیی عبدالکریم فضیل؛ دمشھ۔
  • احمد بن عیسی، امالی (رأب الصدع)، تدوین محمد بن منصور، بہ کوشش علی بن اسماعیل صنعانی، بیروت، 1410ھ/1990ء۔
  • احمدبن حنبل، الملل و معرفہ الرجال، بہ کوشش وصی اللہ عباس، بیروت، 1408ھ/1988ء۔
  • اشعری، سعدبن عبداللہ، المقالات والفرق، بہ کوشش محمد جواد مشکور، تہران، 1963ء۔
  • اشعری، علی بن اسماعیل، مقالات الاسلامیین، بہ کوشش محمد محیی‌الدین عبدالحمید، قاہرہ، 1369ھ/1950ء۔
  • المرشد باللہ، یحیی بن حسین، الامالی، بیروت، 1403ھ/1983ء۔
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، التاریخ الکبیر، حیدرآباد دکن، 1383ھ/1963ء۔
  • بلاذری، احمدبن یحیی، انساب الاشراف، بخش مربوط بہ امام حسن و امام حسین(ع)، بہ کوشش محمد باقر محمودی، بیروت، 1397ھ/1977ء۔
  • بہرامیان، علی، ابوالجارود، در دائرة المعارف بزرگ اسلامی، تہران، مرکز دائرة المعارف بزرگ اسلامی، 1372ہجری شمسی۔
  • حسکانی، عبیداللہ بن عبداللہ، شواہد التنزیل، بہ کوشش محمد باقر محمودی، بیروت، 1393ھ/1974ء۔
  • حمیری، نشوان بن سعید، شمس العلوم و دواء کلام العرب من الکلوم، بہ کوشش عبداللہ جرافی، بیروت، عالم الکتب.
  • خطیب بغدادی، احمدبن علی، تاریخ بغداد، قاہرہ، 1349ھ۔
  • خوئی، ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، بیروت، 1403ھ/1983ء۔
  • خوارزمی، مفاتیح العلوم، بہ کوشش فان فلوتن، لیدن، 1895ء۔
  • ذہبی، محمدبن احمد، سیر اعلام النبلاء، بہ کوشش شعیب ارنؤوط و حسین اسد، بیروت، 1401ھ/1981ء۔
  • راوندی، سعید بن ہبہ اللہ، الدعوات، قم، 1407ھ۔
  • سیاغی، حسین بن احمد، الروض النضیر، طائف، 1388ھ/1968ء۔
  • شہرستانی، عبدالکریم بن احمد، الملل و النحل، بہ کوشش محمد فتح اللہ بدران، قاہرہ، 1375ھ/1956ء۔
  • طبری، تاریخ، بہ کوشش دخویہ، لیدن، 1879-1881ء۔
  • طبری، تفسیر.
  • طوسی، فہرست، بہ کوشش محمد صادق آل بحرالعلوم، نجف، کتابخانہ مرتضویہ.
  • طوسی، محمدبن حسن، رجال، بہ کوشش محمد صادق آل بحرالعلوم، نجف، 1380ق/1961ء۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، رجال، نجف، 1381ق/1961ء۔
  • عیاشی، محمدبن مسعود، تفسیر، بہ کوشش ہاشم رسولی محلاتی، تہران، 1380ھ۔
  • فرات بن ابراہیم کوفی، تفسیر، نجف، 1354ھ۔
  • فرمانیان، مہدی/ موسوی نژاد، سید علی، زیدیہ «تاریخ و عقاید»، قم، 1386ہجری شمسی۔
  • قاسم بن محمد، الاعتصام بحبل اللہ المتین، بہ کوشش احمد زبارہ، صنعا، 1403-1408ھ۔
  • کشی، محمد، معرفہ الرجال، اختیار طوسی، بہ کوشش حسن مصطفوی، مشہد، 1348ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمدبن یعقوب، الکافی، تہران، 1348ہجری شمسی۔
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب، بیروت، 1385ھ/1966ء۔
  • مسلم بن حجاج نیشابوری، الکنی والاسماء، بہ کوشش مطاع رابیشی، دمشق، 1404ھ/1984ء۔
  • مفید، محمد بن محمد، «الرسالہ العددیہ»، ضمن الدر المنثور، قم، 1398ھ۔
  • ناشیء اکبر، عبداللہ بن محمد، مسائل الامامہ، بہ کوشش یوزف فان اس، بیروت، 1971ء۔
  • نجاشی، احمدبن علی، رجال، بہ کوشش موسی شبیری زنجانی، قم، 1407ھ۔
  • نوبختی، حسن بن موسی، فرق الشیعہ، بہ کوشش ہلموت ریتر، استانبول، 1931ء۔
  • یحیی بن معین، التاریخ، بہ کوشش احمد محمد نورسیف، ریاض، 1399ھ/1979ء۔
  • Madelung, W., Der Imam al-Qāsim ibn Ibrāhīm und die Glaubenslehre der Zaiditen, Berlin, 1965.
  • Van Arendonk, C., Les Debuts de l'imāmat zaidite au Yemen, tr. J. Ryckmans, Leiden, 1960.