ابو الجارود
| فرقہ جارودیہ کے بانی | |
|---|---|
| کوائف | |
| نام: | زیاد بن مُنْذر |
| مشہور اقارب | منذر بن زیاد (والد)، زیاد بن جارود (دادا) |
| وفات | 150 سے 160ھ کے درمیان |
| اصحاب | امام باقرؑ اور امام صادقؑ |
| سماجی خدمات | تقیہ سے روگردانی • زید بن علی کی طرف مائل |
| مشائخ | زید بن علی، یحیی بن زید |
| شاگرد | حسن بن محبوب • محمد بن سنان • نصر بن مزاحم |
| تالیفات | تفسیر ابو الجارود |
زیاد بن مُنْذر جو اَبُوالجارود کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دوسری صدی ہجری کے مفسرین میں شمار ہوتے ہیں اور امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے اصحاب میں سے تھے۔ بعض مصادر میں ان کو امام سجادؑ کے اصحاب میں سے بھی شمار کیا گیا۔ وہ علمِ کلام اور مناظروں میں مہارت رکھتے تھے۔
ابو الجارود زید بن علی اور فرقۂ زیدیہ کی طرف مائل تھے، اس لیے قیام زید میں شریک ہوئے۔ انہوں نے زید بن علی کے خطبات اور ان سے احادیث نقل کی ہیں۔ سید ابوالقاسم خوئی کے مطابق ابو الجارود نے اپنی زندگی کے آخری حصے میں مکتب تشیع کی طرف رجوع کیا تھا۔ زیاد بن منذر کو زیدیہ میں فرقہ جارودیہ کا بانی قرار دیا گیا ہے۔
ابو الجارود سے منقول احادیث کتاب کافی اور کامل الزیارات جیسی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں۔ ان کی وثاقت کے بارے میں اختلافِ رائے پایا جاتا ہے؛ بعض نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے جبکہ بعض نے ان کی مذمت کی ہے۔
ابو الجارود کی تفسیر، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ امام محمد باقرؑ نے ان کے لیے بیان کی تھی، شیعہ ائمہؑ کی طرف منسوب پہلی تفسیر ہے۔ اس تفسیر کو امام محمدباقرؑ کی طرف نسبت میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ یہ تفسیر، ان کے زیدیہ کی طرف مائل ہونے سے پہلے لکھی گئی تھی؛ اسی لیے اس کے مطالب دیگر تفاسیر جیسے تفسیر علی بن ابراہیم قمی میں بھی مورد استفادہ قرار پائے ہیں۔
اجمالی تعارف
زیاد بن منذر، جو ابو الجارود یا ابو النجم[1] کے نام سے جانا جاتا تھا، دوسری صدی ہجری کے مفسرین میں شمار ہوتے ہیں۔[2] وہ امام باقرؑ کے اصحاب میں سے تھے اور امام صادقؑ سے بھی انہوں نے احادیث نقل کی ہیں۔[3] تاہم رجال نجاشی اور دیگر آثار میں انہیں تین ائمہ یعنی امام سجادؑ، امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے اصحاب میں شمار کیا گیا ہے۔[4] ابو الجارود علم کلام اور مناظرے میں مہارت رکھتے تھے۔[5]
زیاد بن منذر کو اعمی، [6] ثقفی کوفی،[7] اور تابعی[8] جیسے القابات سے یاد کیا گیا ہے۔ متقدم ماہرین علم علم رجال جیسے نجاشی[9] کے مطابق وہ ہمدان یمن کے خارف[10] یا حرقۂ قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔[11] تاہم انہیں مولا[12] یا خراسانی[13] کہے جانے کی بنیاد پر ان کے ایرانی ہونے کا بھی ذکر ملتا ہے۔
ابو الجارود پیدائشی نابینا تھے۔[14] ان کی پیدائش کا زمانہ، ان سے منقولہ احادیث کی بنیاد پر، پہلی صدی ہجری کے اواخر میں مانا جاتا ہے۔[15] کہا گیا ہے کہ ان کا انتقال سنہ 150 [16] سے 160ھ [17] کے درمیان ہوا؛ اگرچہ 118ھ کو بھی ان کے سال وفات کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔[18] ابن ندیم کے مطابق ابو الجارود نے وفات سے پہلے مسکرات (نشہ آور مشروبات) پینا شروع کر دیا تھا اور کفار کی ولایت کو قبول کر لیا تھا۔[19]
مشہور اقارب
ابو الجارود کے والد، منذر بن زیاد، امام علیؑ کی حکومت میں ازَدشیرخُرّہ کے حاکم مقرر ہوئے،[20] لیکن بیت المال میں خیانت کے الزام میں حضرت علیؑ نے انہیں صفائی پیش کرنے کے لیے طلب کیا۔[21] امام علیؑ کا ان کے نام خط نہج البلاغہ میں ذکر ہوا ہے۔[22]
ان کے دادا، زیاد بن جارود، جو اپنے زمانے کے عابدوں میں شمار ہوتے تھے، جنگ جمل سے متعلق واقعات میں امام علیؑ کے ساتھ رہے؛ جب عائشہ طلحہ اور زبیر کے ساتھ بصرہ گئیں اور جنگِ جمل کی تیاری ہوئی، تو زیاد نے اپنے قبیلے ربیعہ کے افراد اور عثمان بن حنیف انصاری، جو امام علیؑ کے نمائندہ تھے، کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا۔[23] دونوں فریقین کے درمیان جھڑپ امام علیؑ کے پہنچنے سے پہلے اور جنگِ جمل کے واقع ہونے سے پہلے ہوئی، اور اس جنگ میں زیاد اور ان کے ساتھی مارے گئے۔[24]
زید بن علی کی پیروی
شیعہ مشہور فقہاء میں سے شیخ طوسی (متوفی: 460ھ) اور علامہ حلی (متوفی: 726ھ) کے مطابق ابو الجارود زیدی المذہب تھے۔[25] بلکہ انہیں زیدیہ کے علماء میں شمار کیا گیا ہے۔[26]
کہا گیا ہے کہ وہ زیدیہ مذہب کے غالیوں میں سے تھے[27] اور شیعہ ائمہ اور مکتب اہل بیت سے دور ہو گئے۔[28] تاریخی قرائن و شواہد کی بنا پر ابو الجارود نے زید بن علی کے قیام کے دوران عقیدہ تبدیل کر کے زیدیہ کی طرف مائل ہوئے[29] اور کہا جاتا ہے کہ وہ قیامِ زید بن علی میں شریک بھی ہوئے تھے۔[30] امامت کے مسئلے میں ابو الجارود کا نظریہ اور تقیہ پر عمل نہ کرنا امام باقرؑ اور امام صادقؑ سے ان کی دوری اور زید بن علی کی طرف میلان کی وجوہات میں شمار کیا گیا ہے۔[31]
ابو الجارود نے زید بن علی کے قیام کے دوران ان کا خطبہ[32] اور ان سے اور ان کے بیٹے یحییٰ بن زید سے احادیث نقل کی ہیں۔[33] شیعہ فقیہ اور رجالی سید ابوالقاسم خوئی نے احتمال ظاہر کیا ہے کہ ابو الجارود نے زندگی کے آخر میں مکتب امامیہ کی طرف رجوع کیا تھا۔[34]
فرقہ جارودیہ کی تأسیس
کہا گیا ہے کہ ابو الجارود نے اپنے بعض عقائد زید بن علی کے ابتدائی حامیوں کے سامنے بیان کیے[35] اور امامت کے مسئلے میں خاص نظریات پیش کرنے کے ذریعے زیدیہ مذہب کے ایک گروہ کو اپنے گرد جمع کیا۔[36] فرقہ نگاروں اور رجالیوں کے مطابق جارودیہ[37] اور سُرحوبیہ – جو زیدیہ مذہب کی شاخیں ہیں – کو ابو الجارود کی طرف نسبت دی جاتی ہے اور اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ فرقے ابو الجارود کے عقائد سے متاثر تھے۔[38]
جارودیہ کے پیروکار ابو الجارود کی پیروی کرتے ہوئے عقیدہ رکھتے تھے کہ امام علیؑ تمام صحابہ پر فوقیت اور لوگوں کی قیادت اور رہبری کے لئے سب سے زیادہ سزاوار تھے۔[39] ان کے مطابق رسول اللہؐ نے حضرت علیؑ کی امامت کی طرف صراحتا آپ کا نام لے کر اشارہ کرنے کی بجائے آپؑ کی توصیف کرنے کے ذریعے رہنمائی کی تھی۔[40]
نقل حدیث
ابو الجارود کا نام بہت سی احادیث کے اسناد میں آیا ہے، جن کی تعداد 92 تک پہنچتی ہیں۔[41] انہوں نے امام سجادؑ، امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے علاوہ بہت سے تابعین[42] جیسے زید بن علی،[43] یحیی بن زید،[44] اصبغ بن نباتہ، حسن بصری، عبداللہ بن حسن مثنی، عطیۃ بن سعد عوفی،[45] اور ابوسعید عقیصا التیمی سے حدیث نقل کی ہے۔[46]
اسی طرح بہت سے افراد نے ابو الجارود سے حدیث نقل کی ہے؛ منجملہ ان میں مروان بن معاویہ، علی بن ہاشم بن برید[47] ابومالک حضرمی، ابنمسکان، ابان بن عثمان، ابراہیم الشیبانی، ثعلبۃ بن میمون، حسن بن محبوب، ربعی بن عبداللہ، عبداللہ بن سنان، عبداللہ بن مغیرہ، عثمان بن عیسی، عمر بن اذینہ، محمد بن ابیحمزہ، محمد بن سلمان ازدی، محمد بن سنان، منصور بن یونس،[48] إسماعیل بن أبان الوراق، عمرو بن أبیالمقدام اور نصر بن مزاحم منقری کا نام لیا جا سکتا ہے۔[49]
ابو الجارود کی احادیث شیعہ معتبر کتابوں جیسے الکافی،[50] کامل الزیارات،[51] تفسیر فرات کوفی[52] اور تفسیر علی بن ابراہیم قمی میں نقل ہوئی ہیں۔[53]
ابو الجارود کی احادیث مختلف اخلاقی،[54] تفسیری،[55] فقہی[56] اور اعتقادی موضوعات جیسے امامت،[57] نصوصِ ائمہ[58] اور مہدویت[59] میں مشاہدہ کی جا سکتی ہیں۔ کہا گیا ہے کہ زیدیہ علماء کی بنسبت امامیہ علماء نے ان سے احادیث نقل کی ہیں؛ [60] اگرچہ زیدی مصادر میں بھی ان کی کثیر احادیث ملتی ہیں۔[61]
ابو الجارود کی توثیق میں اختلاف
ابو الجارود کی توثیق میں علمائے رجال کے درمیان اختلاف رائے پایا جاتا ہے[62] اور رجالی کتابوں میں ان کے بارے میں جرح و تعدیل کی متعدد عبارتیں ملتی ہیں۔[63] شیخ طوسی نے اپنی رجالی کتاب میں ان کا ذکر کیا ہے، لیکن ان کی توثیق میں کوئی اظہار نظر نہیں کیا ہے۔[64]
عدم وثاقت
کہا گیا ہے کہ رجالی منابع میں ابو الجارود کی توثیق میں نہ صرف کوئی وثاقت موجود نہیں ہے بلکہ ان میں ان کی سخت مذمت کی گئی ہے۔[65] محمد بن عمر کشی (درگذشتۂ حدود 340ق) اور علامہ حلی (درگذشتہ 726ھ) نے ان کی مذمت صادر ہونے والے شیعہ ائمہ کے اقوال کو نقل کیا ہے۔[66] چوتھی صدی ہجری کے شیعہ متکلم حسن بن موسیٰ نوبختی اور کشی نے امام باقرؑ کی ایک حدیث کے مطابق انہیں "سُرحوب" (یعنی سمندر کا اندھا شیطان) کا لقب دیا ہے۔[67] امام صادقؑ کی احادیث میں بھی ابو الجارود کو کافر اور جھوٹا قرار دیتے ہوئے[68] ان پر لعنت کی گئی ہے۔[69]
اسی تناظر میں اہل سنت علماء نے بھی ان کی توثیق نہیں کی ہے اور ان سے حدیث نقل کرنے کو جائز نہیں سمجھا۔[70] اسی طرح کہا گیا ہے کہ ابو الجارود کوفہ کے غالیوں میں سے تھے اور وہ ایسی جھوٹی احادیث گھڑتے تھے جو اصحاب پیامبرؐ کی مذمت پر مشتمل ہوتی تھیں اور اہل بیتؑ کے فضائل میں بے بنیاد باتیں نقل کرتے تھے۔[71]
وثاقت
شیعہ فقیہ اور متکلم شیخ مفید (متوفی 413ھ)، نے "الرد علی اصحاب العدد" نامی فقہی رسالے میں ابو الجارود کی ایک حدیث نقل کی ہے، لیکن ان کی وثاقت یا عدم وثاقت پر کوئی بات نہیں کی۔[72] آیت اللہ خوئی نے اپنی کتاب "معجم رجال الحدیث" میں ابو الجارود کی مذمت میں وارد چند احادیث کی سند اور تاریخی حیثیت پر شک کا اظہار کیا ہے۔[73] آیت اللہ خوئی کے مطابق امام باقرؑ کی طرف سے ابو الجارود کو "سُرحوب" کہلانے کا واقعہ ایک مرسل اور ناقابلِ اعتماد حدیث پر مبنی ہے؛ علاوہ بر این اس وقت تک ابو الجارود نے اپنا عقیدہ تبدیل نہیں کیا تھا، کیونکہ ابو الجارود کے تغییر عقیدہ کا واقعہ امام باقرؑ کی وفات کے سات سال بعد کا ہے، لہٰذا امام باقرؑ کی طرف یہ نسبت درست نہیں ہے۔[74]
اسی طرح آیت اللہ خوئی نے "کامل الزیارات" کی اسناد میں ابو الجارود کا نام آنے،[یادداشت 1]شیخ صدوق کی جانب سے ابو الجارود سے "حدیث لوح" نقل کرنے اور علی بن ابراہیم قمی کی جانب سے اپنی تفسیر کے تمام راویوں کی وثاقت کی گواہی دینے کی بنا پر ابو الجاردو کو ثقہ قرار دیا ہے اور ان کی روایت کردہ احادیث اور ان کی کتابوں کو معتبر مانا ہے۔[75]
سید محسن امین نے ابو الجارود کو زیدی ہونے سے پہلے شیعہ کے ثقہ افراد میں شمار کیا ہے۔[76] شیخ عباس قمی نے ابو الجارود کی توثیق میں مختلف اقوال ذکر کرنے کے بعد صرف نقل حدیث میں انہیں ثقہ مانا ہے۔[77]
تفسیر ابوالجارود
تفسیر ابی الجارود جو کتاب الباقرؑ یا تفسیر الباقرؑ کے نام سے بھی مشہور ہے،[78]کو امام باقرؑ کی طرف منسوب کی جاتی ہے جو ابو الجارود کے ذریعے نقل ہوئی ہے۔[79] یہ تفسیر شیعہ ائمہؑ کی طرف منسوب ہونے والی پہلی تفسیر ہے۔[80]
اس کتاب کے اصل وجود میں کوئی اختلاف نہیں، لیکن امام باقرؑ سے اس کی نسبت پر مختلف دلائل کی بنیاد پر اختلافِ رائے پایا جاتا ہے۔[81] احمد بن علی نجاشی[82] اور شیخ طوسی[83] نے اس تفسیر کے موجود ہونے کی خبر دی ہے اور اس کی سند بھی ذکر کی ہے۔[84]
اس کتاب کے مطالب دیگر مفسرین کی کتابوں خاص طور پر تفسیر علی بن ابراہیم قمی میں کثرت سے استعمال ہوئے ہیں۔[85] بعض کا عقیدہ ہے کہ ابو الجارود نے یہ تفسیر زیدیہ کی طرف مائل ہونے سے پہلے لکھی تھی اور امام باقرؑ کے زمانے میں وہ شیعہ امامیہ کے عقائد پر قائم تھے۔[86] اسی بنیاد پر ان کے عقیدے کی تبدیلی سے ان کے تفسیری نظریات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔[87]
اس تفسیر کے علاوہ ابو الجارود کی طرف ایک اور قلمی اثر کی بھی نسبت دی جاتی ہے اور انہیں شیعہ مذہب کے چار سو بینادی منابع میں سے ایک کے مصنف کے طور پر بھی پیش کیا گیا ہے۔[88]
نوٹ
- ↑ جعفر بن محمد بن قولویہ نے کتاب کامل الزیارات کے تمام راویوں کی توثیق کی ہے اور علمائے رجال کے درمیان راویوں کی عمومی توثیق کے معیارات میں سے ایک ہے(ایروانی، دروس تمہیدیہ فی القواعد الرجالیہ، 1431ق، ص33-38).
حوالہ جات
- ↑ ابنندیم، الفہرست، بیروت، ص253؛ امین، أعیان الشیعۃ، 1403ق، ج7، ص83؛ مامقانی، تنقیح المقال، 1431ق، ج29، ص55۔
- ↑ عقیقی بخشایشی، طبقات مفسران شیعہ، 1387ش، ص246۔
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، 1365ش، ص170؛ ابنغضائری، الرجال، 1422ق، ص61؛ حلی، خلاصۃ الاقوال، 1411ق، ص223۔
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، 1365ش، ص170؛ آقابزرگ تہرانی، الذریعۃ، 1408ق، ج4، ص251؛ بحرانی، عوالم العلوم، 1413ق، ص248؛ بحرانی، البرہان فی تفسیر القرآن، 1415ق، ج1، ص16۔
- ↑ سیاغی، الروض النضیر، بیروت، ج1، ص364۔
- ↑ برقی، رجال برقی، 1342ش، ص13۔
- ↑ خفاجی، الامام الباقر(ع) وأثرہ فی التفسیر، 1426ق، ص155۔
- ↑ شیخ طوسی، رجال الطوسی، 1373ش، ص135؛ حلی، خلاصۃ الاقوال، 1411ق، ص223۔
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، 1365ش، ص170؛ ابنغضائری، الرجال، 1422ق، ص61۔
- ↑ لجنۃ العلمیۃ فی موسسۃ الامام الصادق(ع)، معجم طبقات المتکلمین، 1424ق، ج1، ص304۔
- ↑ امین، أعیان الشیعۃ، 1403ق، ج7، ص83
- ↑ شیخ طوسی، رجال الطوسی، 1373ش، ص208۔
- ↑ مامقانی، تنقیح المقال، 1431ق، ج29، ص57؛ امین، أعیان الشیعۃ، 1403ق، ج7، ص83۔
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، 1365ش، ص170؛ عقیقی بخشایشی، طبقات مفسران شیعہ، 1387ش، ص246؛ خویی، معجم رجال الحدیث، 1372ش، ج8، ص335-336۔
- ↑ بہرامیان، «ابوالجارود»، دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی۔
- ↑ گروہ علمی موسسہ امام صادق(ع)، موسوعۃ طبقات الفقہاء، 1418ق، ج2، ص220؛ عقیقی بخشایشی، طبقات مفسران شیعہ، 1387ش، ص246؛ خویی، معجم رجال الحدیث، 1372ش، ج8، ص335-336۔
- ↑ ابنحجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، 1325ق، ج3، ص387۔
- ↑ شوشتری، قاموس الرجال، 1410ق، ج11، ص249۔
- ↑ ابنندیم، الفہرست، بیروت، ص253۔
- ↑ صنعانی، نسمۃ السحر، 1999م، ج1، ص528۔
- ↑ ثقفی، الغارات، 1395ق، ج2، ص897۔
- ↑ شریف الرضی، نہجالبلاغہ، 1414ق، ص461-462۔
- ↑ صنعانی، نسمۃ السحر، 1999م، ج1، ص528۔
- ↑ صنعانی، نسمۃ السحر، 1999م، ج1، ص528۔
- ↑ شیخ طوسی، الفہرست، 1420ق، ص72؛ حلی، خلاصۃ الاقوال، 1411ق، ص223۔
- ↑ ابنندیم، الفہرست، بیروت، ص253؛ لجنۃ العلمیۃ فی موسسۃ الامام الصادق(ع)، معجم طبقات المتکلمین، 1424ق، ج1، ص304۔
- ↑ ابنقانع بغدادی، معجم الصحابہ، 1424ق، ج5، ص1816؛ معرفت، تاریخ قرآن، 1382ش، ص175۔
- ↑ معرفت، صیانۃ القرآن من التحریف، 1386ش، ص89۔
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، 1365ش، ص170۔
- ↑ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، 1419ق، ص133؛ حلی، خلاصۃ الاقوال، 1411ق، ص223؛ نوبختی، فرق الشیعہ، بیروت، ص55۔
- ↑ بہرامیان، «ابوالجارود»، دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی۔
- ↑ ابنہارون، تیسیر المطالب، 1422ق، ص277۔
- ↑ فرات کوفی، تفسیر، 1410ق، ص151۔، سیاغی، الروض النضیر، بیروت، ج1، ص364، ج2، ص171؛ احمد بن عیسی، رأب الصدع، 1428ق، ج1، ص197۔
- ↑ خویی، معجم رجال الحدیث، 1372ش، ج8، ص335-336۔
- ↑ تقیزادہ داوری، تصویر امامان شیعۃ در دایرۃ المعارف اسلام، 1385ش، ص246۔
- ↑ آقانوری، خاستگاہ تشیع و پیدایش فرقہہای شیعہ در عصر امامان، 1385ش، ص270۔
- ↑ اشعری، مقالات الإسلامیین، 1400ق، ص66؛ شہرستانی، الملل و النحل، 1364ش، ج1، ص183؛ شیخ طوسی، رجال طوسی، 1373ش، ص135؛ ابنداود، رجال ابنداود، 1342ش، ص455؛ حلی، خلاصۃ الاقوال، 1411ق، ص223؛
- ↑ کشی، رجال الکشی، 1409ق، ج1، ص229؛ تفرشی، نقد الرجال، 1377ش، ج2، ص279؛ عقیقی بخشایشی، طبقات مفسران شیعہ، 1387ش، ص246۔
- ↑ نوبختی، فرق الشیعہ، بیروت، ص55؛ لجنۃ العلمیۃ فی موسسۃ الامام الصادق(ع)، معجم طبقات المتکلمین، 1424ق، ج1، ص305۔
- ↑ سمعانی، الأنساب، 1382ق، ج3، ص168؛ لجنۃ العلمیۃ فی موسسۃ الامام الصادق(ع)، معجم طبقات المتکلمین، 1424ق، ج1، ص305؛ سیاغی، الروض النضیر، بیروت، ج1، ص364۔
- ↑ خویی، معجم رجال الحدیث، 1372ش، ج22، ص81۔
- ↑ معرفت، تفسیر و مفسران، 1379ش، ج2، ص160۔
- ↑ علامہ حلی، رجال العلامۃ الحلی، 1411ق، ص223؛ فرات کوفی، تفسیر، 1410ق، ص151۔
- ↑ سیاغی، الروض النضیر، بیروت، ج1، ص364، ج2، ص171؛ احمد بن عیسی، رأب الصدع، 1428ق، ج1، ص197۔
- ↑ لجنۃ العلمیۃ فی موسسۃ الامام الصادقؑ، معجم طبقات المتکلمین، 1424ق، ج1، ص304۔
- ↑ خویی، معجم رجال الحدیث، 1372ش، ج22، ص81۔
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، 1365ش، ص170۔
- ↑ خویی، معجم رجال الحدیث، 1372ش، ج22، ص81۔
- ↑ لجنۃ العلمیۃ فی موسسۃ الامام الصادقؑ، معجم طبقات المتکلمین، 1424ق، ج1، ص305۔
- ↑ کلینی، الكافی، 1407ق، ج1، ص11۔
- ↑ ابنقولویہ، کامل الزیارات، 1356ش، ص47۔
- ↑ فرات کوفی، تفسیر، 1410ق، ص187۔
- ↑ قمی، تفسیر القمی، 1363ش، ج1، ص102۔
- ↑ کلینی، الكافی، 1407ق، ج1، ص41؛ ج2، ص90؛ شیخ مفید، الاختصاص، 1413ق، ص226۔
- ↑ قمی، تفسیر القمی، 1363ش، ج1، ص102۔
- ↑ کلینی، الكافی، 1407ق، ج4، ص362، ج6، ص477۔
- ↑ مسعودی، اثبات الوصیہ، 1426ق، ص179؛ ابنبابویہ، الإمامۃ و التبصرۃ، 1404ق، ص137؛ شیخ مفید، الاختصاص، 1413ق، ص269؛ طبرسی، الإحتجاج، 1403ق، ج2، ص324۔
- ↑ کلینی، الكافی، 1407ق، ج1، ص298، 303، 532۔
- ↑ مسعودی، اثبات الوصیہ، 1426ق، ص262۔
- ↑ ابنغضائری، الرجال، 1422ق، ص61؛ تفرشی، نقد الرجال، 1377ش، ج2، ص279۔
- ↑ ابنہارون، تیسیر المطالب، 1422ق، ص64، 156۔
- ↑ قمی، الکنی و الألقاب، 1368ش، ج1، ص34۔
- ↑ خفاجی، الامام الباقر علیہالسلام واثرہ فی التفسیر، 1426ق، ص155-158۔
- ↑ شیخ طوسی، رجال الطوسی، 1373ش، ص208۔
- ↑ مامقانی، تنقیح المقال، 1431ق، ج29، ص64، بہ نقل از تلخیص المقال۔
- ↑ کشی، رجال الکشی، 1409ق، ج1، ص229-230؛ علامہ حلی، رجال العلامۃ الحلی، 1411ق، ص223۔
- ↑ کشی، رجال الکشی، 1409ق، ج1، ص229؛ نوبختی، فرق الشیعہ، بیروت، ص55۔
- ↑ کشی، رجال الکشی، 1409ق، ج1، ص230۔
- ↑ ابنندیم، الفہرست، بیروت، ص267۔
- ↑ ابنقانع بغدادی، معجم الصحابہ، 1424ق، ج5، ص1815-1816۔
- ↑ ابنقانع بغدادی، معجم الصحابہ، 1424ق، ج5، ص1816۔
- ↑ شیخ مفید، الرد علی أصحاب العدد، 1413ق، ص30۔
- ↑ خویی، معجم رجال الحدیث، 1372ش، ج8، ص332-334۔
- ↑ خویی، معجم رجال الحدیث، 1372ش، ج8، ص334۔
- ↑ خویی، معجم جال حدیث، 1372ش، ج8، ص332-336۔
- ↑ امین، أعیان الشیعۃ، 1403ق، ج1، ص125۔
- ↑ قمی، الکنی و الألقاب، 1368ش، ج1، ص34۔
- ↑ ابنندیم، الفہرست، بیروت، ص37۔
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، 1365ش، ص170۔
- ↑ ابنندیم، الفہرست، بیروت، ص50؛ شبر، الجوہر الثمین، 1407ق، ج1، ص10۔
- ↑ بابایی، مکاتب تفسیری، 1381ش، ج1، ص101-102۔
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، 1365ش، ص170۔
- ↑ شیخ طوسی، الفہرست، 1420ق، ص72۔
- ↑ حسینزادہ، «بررسی تفسیر ابوالجارود»۔
- ↑ عسکری، القرآن الکریم و روایات المدرستین، 1374ش، ج3، ص63۔
- ↑ آقابزرگ تہرانی، الذریعۃ، 1408ش، ج4، ص251۔
- ↑ خویی، معجم رجال الحدیث، 1372ش، ج8، ص334؛ عقیقی بخشایشی، طبقات مفسران شیعہ، 1387ش، ص246۔
- ↑ شیخ طوسی، الفہرست، 1420ق، ص72؛ ابنشہرآشوب، معالم العلماء، 1380ق، ص52؛ امین، أعیان الشیعۃ، 1403ق، ج7، ص84۔
مآخذ
- آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعۃ الی تصانیف الشیعہ، قم، اسماعیلیان، 1408ھ۔
- آقانوری، علی، خاستگاہ تشیع و پیدایش فرقہہای شیعہ در عصر امامان، قم، پژوہشگاہ علوم و معارف فرہنگ اسلامی، چاپ دوم، 1385ہجری شمسی۔
- ابوالفرج اصفہانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، چاپ سوم، 1419ھ۔
- ابنبابویہ، علی بن حسین، الإمامۃ و التبصرۃ، قم، مدرسۃ الامام المہدی(عج)، 1404ھ۔
- ابنحجر عسقلانی، احمد بن علی، تہذیب التہذیب، بیروت، دار صادر، 1325ھ۔
- ابنداود، حسن بن علی بن داود، رجال ابنداود، تہران، دانشگاہ تہران، 1342ھ۔
- ابنشہرآشوب، محمد بن علی، معالم العلماء في فہرست کتب الشیعۃ وأسماء المصنفین منہم قدیما وحدیثا، نجف، المطبعۃ الحیدریۃ، 1380ھ۔
- ابنغضائری، احمد بن حسین، الرجال، قم، موسسہ علمی فرہنگی دارالحدیث، 1422ھ۔
- ابنقانع بغدادی، عبد الباقی، معجم الصحابۃ، بیروت، دارالفکر، 1424ھ۔
- ابنقولویہ، جعفر بن محمد، کامل الزیارات، نجف، دارالمرتضویۃ، 1356ہجری شمسی۔
- ابنندیم، محمدبن اسحاق، الفہرست، بیروت، دارالمعرفہ، بیتا.
- ابنہارون، یحیی بن حسین، تیسیر المطالب فی أمالي ابیطالب، صنعا، موسسۃ الامام زید بن علی الثقافیہ، 1422ھ۔
- احمد بن عیسی، رأب الصدع، بہ کوشش علی بن اسماعیل صنعانی، بیروت، دارالمحجۃ البیضاء، 1428ھ۔
- اشعری، ابوالحسن، مقالات الإسلامیین و اختلاف المصلین، ویسبادن، فرانس شتاینر، 1400ھ۔
- امین، محسن، أعیان الشیعۃ، بیروت، دارالتعارف للمطبوعات، 1403ھ۔
- ایروانی، محمدباقر، دروس تمہیدیہ فی القواعد الرجالیہ، قم، انتشارات مدین، 1431ھ۔
- بابایی، علیاکبر، مکاتب تفسیری، قم، مرکز تحقیق و توسعہ علوم انسانی، 1381ہجری شمسی۔
- بحرانی اصفہانی، عبداللہ بن نوراللہ، عوالم العلوم و المعارف والأحوال من الآیات و الأخبار و الأقوال، تحقیق محمدباقر موحد، قم، موسسہ امام مہدی(عج)، 1413ھ۔
- بحرانی، ہاشم بن سلیمان، البرہان فی تفسیر القرآن، قم، مؤسسۃ البعثہ، 1415ھ۔
- برقی، احمد بن محمد، رجال برقی، تہران، دانشگاہ تہران، 1342ہجری شمسی۔
- بہرامیان، علی، «ابوالجارود»، دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، تاریخ درج مطلب: 21 خرداد 1399ش، تاریخ بازدید: 31 تیر 1404ہجری شمسی۔
- تفرشی، مصطفی بن حسین، نقد الرجال، قم، مؤسسۃ آل البیت(ع) لإحیاء التراث، 1377ہجری شمسی۔
- تقیزادہ داوری، محمود، تصویر امامان شیعہ در دایرۃ المعارف اسلام، قم، مؤسسہ شیعہشناسی، 1385ہجری شمسی۔
- ثقفی، ابراہیم بن محمد بن سعید بن ہلال، الغارات أو الإستنفار والغارات، تہران، انجمن آثار ملی، 1395ھ۔
- حسینزادہ، علی، «بررسی تفسیر ابیالجارود»، در مجلہ پژوہشہای قرآنی، شمارہ 5و6، مرداد 1375ہجری شمسی۔
- خفاجی، حکمت عبید، الامام الباقر(ع) وأثرہ فی التفسیر، بیروت، مؤسسۃ البلاغ، 1426ھ۔
- خویی، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث وتفصیل طبقات الرواۃ، قم، مرکز نشر الثقافۃ الإسلامیۃ، چاپ پنجم، 1372ہجری شمسی۔
- سمعانی، عبد الکریم بن محمد، الأنساب، حیدرآباد ہند، مطبعۃ مجلس و دائرۃ المعارف العثمانیۃ، 1382ھ۔
- سیاغی، حسین، الروض النضیر شرح مجموع فقہ الکبیر، بیروت، دارالجیل، بیتا.
- شبر، عبداللہ، الجوہر الثمین فی تفسیر الکتاب المبین، کویت، شرکۃ مکتبۃ الالفین، 1407ھ۔
- شریف الرضی، محمد بن حسین، نہجالبلاغہ (للصبحی صالح)، قم، ہجرت، 1414ھ۔
- شوشتری، محمدتقی، قاموس الرجال، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، چاپ دوم، 1410ھ۔
- شہرستانی، محمد بن عبدالکریم، الملل و النحل، تحقیق محمد بدران، قم، شریف رضی، چاپ سوم، 1364ہجری شمسی۔
- شیخ طوسی، محمد بن الحسن، رجال طوسی، تحقیق جواد قیومی اصفہانی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1373ہجری شمسی۔
- شیخ طوسی، محمد بن الحسن، فہرست کتب الشیعۃ وأصولہم وأسماء المصنّفین وأصحاب الأصول، تحقیق عبدالعزیز طباطبائی، قم، مکتبۃ المحقق الطباطبائی، 1420ھ۔
- شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الاختصاص، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1413ھ۔
- شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الرد علی أصحاب العدد: جوابات أہل الموصل في العدد والرؤيۃ، قم، کنگرہ جہانی ہزارہ شیخ مفید، 1413ھ۔
- صنعانی، یوسف بن یحیی، نسمۃ السحر بذکر مَن تشیع و شعر، بیروت، دارالمؤرخ، 1999ء۔
- طبرسی، احمد بن علی، الإحتجاج، مشہد، نشر مرتضی، 1403ھ۔
- عسکری، مرتضی، القرآن الکریم و روایات المدرستین، قم، کلیۃ اصول الدین، 1374ہجری شمسی۔
- عقیقی بخشایشی، عبدالرحیم، طبقات مفسران شیعہ، قم، دفتر نشر نوید اسلام، چاپ چہارم، 1387ہجری شمسی۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، رجال العلامۃ الحلی، تحقیق محمد صادق بحرالعلوم، نجف،دار الذخائر، 1411ھ۔
- فرات کوفی، فرات بن ابراہیم، تفسیر فرات الکوفی، تحقیق محمدکاظم محمودی، تہران، سازمان چاپ و انتشارات وزارت ارشاد اسلامی، 1410ق.
- قمی، عباس، الکنی والألقاب، تہران، مکتبۃ الصدر، چاپ پنجم، 1368ہجری شمسی۔
- قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، قم، دارالکتاب، 1363ہجری شمسی۔
- کشی، محمد بن عمر، رجال الکشی، تحقیق حسن مصطفوی، مشہد، مؤسسہ نشر دانشگاہ مشہد، 1409ھ۔
- كلينى، محمد بن یعقوب بن اسحاق، الكافی، تہران، دارالكتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
- گروہ علمی مؤسسہ امام صادق(ع)، موسوعۃ طبقات الفقہاء، قم، مؤسسۃ الإمام الصادق(ع)، 1418ھ۔
- لجنۃ العلمیۃ فی مؤسسۃ الامام الصادق(ع)، معجم طبقات المتکلمین، قم، مؤسسۃ الإمام الصادق(ع)، 1424ھ۔
- مامقانی، عبداللہ، تنقیح المقال فی علم الرجال، قم، مؤسسۃ آل البیت(ع) لإحیاء التراث، 1431ھ۔
- مسعودی، علی بن حسین، اثبات الوصیہ، قم، انصاریان، 1426ھ۔
- معرفت، محمدہادی، تاریخ قرآن، تہران، سمت، چاپ پنجم، 1382ہجری شمسی۔
- معرفت، محمدہادی، تفسیر و مفسران، قم، التمہید، 1379ہجری شمسی۔
- معرفت، محمدہادی، صیانۃ القرآن من التحریف، قم، التمہید، 1386ہجری شمسی۔
- نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1365ہجری شمسی۔
- نوبختی، حسن بن موسی، فرق الشیعہ، بیروت، دارالاضواء، بیتا.