سوریہ

ویکی شیعہ سے
(شام سے رجوع مکرر)
سوریہ
عام معلومات
کل آبادی18.028.000 نفوس
رقبہ185.180 مربع کلومیٹر
حکومتجمہوری
دار الحکومتدمشق
اہم شہرحلب
ادیاناسلام و عیسائیت
سرکاری زبانعربی
اسلام
اسلامی پس منظرصدر اسلام
مسلم آبادی15.500.000 نفوس
شیعوں کی تعداد
ملکی آبادی کے تناسب سے فیصد
مسلم آبادی کے تناسب سے فیصد86٪
پارٹیاں اور شیعہ گروہ
فرقےاثنا عشریہ، علویون، اسماعیلیہ


سوریہ مشرق وسطیٰ میں واقع ایک ملک ہے جس کا دارالخلافہ تاریخی شہر دمشق ہے۔ اس ملک میں شیعوں کے تین فرقوں امامیہ، علویون اور اسماعیلیہ کے پیروکار بستے ہیں۔ سوریہ تاریخی سرزمین شام کا ایک حصہ ہے جو سنہ 2011ء سے لیکر ایک عشرہ تک خانہ جنگی کا شکار رہا ہے۔

محل وقوع

سوریہ براعظم ایشیا کے جنوب مغرب میں بحیرہ روم کے کنارے پر واقع ہے۔ اس ملک کے شمال میں ہمسایہ ملک ترکی، مشرق اور جنوب مشرق میں عراق، جنوب میں اردن، جنوب مغرب میں فلسطین اور مغرب میں لبنان واقع ہے۔ اس ملک کی آب و ہوا اطراف اور جنوب مغربی علاقوں میں معتدل اور مرطوب جبکہ دیگر حصوں میں گرم اور خشک ہے۔

تاریخچہ

موجودہ سوریہ ماضی میں شام کا ایک بڑا حصہ ہوا کرتا تھا۔ سرزمین شام موجودہ سوریہ، لبنان، فلسطین اور اردن جیسے ممالک پر مشتمل تھی۔ درحقیقت اس سرزمین کا نام (الشام والشام) تھا جسے عرب جغرافیہ دانوں نے بحیرہ روم اور صحرائے روم تک پھیلے ہوئے منطقے- ایلہ سے فرات تک - اور دوسری طرف - فرات سے روم کی سرحد تک - کے منطقہ جات کا نام رکھا تھا۔[حوالہ درکار]

13ویں یا 16ویں صدی ہجری میں اسلامی لشکر کا شام پر غلبہ حاصل کرنے کے بعد یہاں کئی صدیوں سے جاری قبائلی تہذیبوں پر اسلامی ثقافت چھا گئی۔ پانچویں اور چھٹی صدی ہجری یعنی صلیبی جنگوں کے دوران اس ملک میں بہت طاقتور اور مذہبی حکمران تخت حکومت پر براجمان تھے اور صلیبیوں اور رومیوں کے خلاف علمِ جہاد بلند کر رکھا تھا۔[حوالہ درکار]

نورالدین محمود زنگی، سلطان صلاح الدین ایوبی، ملک عادل ایوبی، ملک ظاہر بیبرس البندقداری اور سیف الدولہ حمدانی وغیرہ جنہوں نے نہ صرف جنگی اور عسکری امور کو سرفہرست رکھا بلکہ یہاں فوجی اڈے اور قلعہ جات بنانے کے علاوہ متعدد خںدق بھی کھودے۔ ان کے مذکورہ نوعیت کے سینکڑوں تاریخی کام آج بھی اس مدعا پر دلیل کے طور پر پیش کرسکتے ہیں۔ بعد والی صدیوں میں مملکوں اور آخر کار عثمانی ترکوں نے اس سرزمین کو فتح کرنے کے گذشتہ حکمرانوں کی حکمت عملیوں کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ اسلامی آثار کی حفاظت کی اور ان میں مزید عمارتیں بھی تعمیر کیں۔[حوالہ درکار]

فرانسیسیوں نے سلطنت عثمانیہ کے خاتمے اور اس ملک کو نو آبادیات کرنے کے بعد دنیا کے اس حصے کی قدیم تاریخ اور قدیم آشوریوں کی بنیاد پر سوریہ کا موجودہ نام رکھا ہے۔[حوالہ درکار]


خانہ جنگی

شمال میں واقع شہر ادلب کی حالت، 2017ء

مارچ 2011ء کے بعد سے سوریہ متشدد صورت حال سے سامنا کررہا ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں خانہ جنگی ہوئی۔ اس جنگ میں بیرونی حریف طاقتوں کی مداخلت رہی اور 12 سال تک جنگ اور عدم استحکام جاری رہا۔ اس ملک کے باغی گروہوں بشمول داعش اور دیگر دہشت گرد اور شدت پسند اسلامی تنظیموں نے بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوششیں کیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق 60 لاکھ سے زائد سوریہ کے باشندے ملک چھوڑ کر فرار ہوگئے اور 60 لاکھ سے زائد دیگر لوگ یہاں بے گھر ہو چکے ہیں۔[1] بتایا جاتا ہے کہ اس جنگ کے دوران 306,000 عام شہری مارے گئے اور ہلاکتوں کی کل تعداد 600,000 سے زیادہ ہے۔[2] سوریہ پر مسلط کردہ جنگ میں دو قسم کے لوگ شامل ہیں، پہلا گروہ سلفی دہشت گرد گروہ اور دوسرا گروہ غیر سلفی گروہ جس میں سیریئن نیشنل آرمی ہے۔ سلفی گروہوں میں، القاعدہ اور داعشی افکار کے لوگ تھے جن کے مختلف ذیلی گروہیں تھے۔ زیادہ تر سلفی تکفیری اور غیر سلفی گروہوں کو سعودی عرب، ترکی، امریکہ، متحدہ عرب امارات اور قطر جیسی بیرونی طاقتوں کی حمایت حاصل تھی۔[3] دوسری طرف اسلامی جمہوریہ ایران، روس، لبنان کی حزب اللہ اور فاطمیون اور زینبیون کی فوجیں حکومت سوریہ کی حمایت میں اس جنگ میں شریک تھیں۔[4] جن عرب ممالک نے سوریہ کی جنگ کے آغاز میں سوریہ حکومت کو عرب لیگ سے نکال دیا تھا، ایک دہائی کے بعد انہیں عرب لیگ کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی اور بشار الاسد نے ملک سوریہ کے بطور صدر اس اجلاس میں شرکت کی۔ [5]

ادیان و مذاہب

سوریہ میں 86 فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے اور عیسائیوں کی آبادی 13/5 فیصد کے ساتھ ملک کی ایک قابل توجہ اقلیت ان کی شمار ہوتی ہے جبکہ سوریہ کے دار الخلافہ دمشق اور اس کی مختلف نواحی میں 5000 یہودی بھی بستے ہیں۔

سوریہ میں شیعیان

سوریہ میں شیعہ اثنا عشریہ، علویون اور اسماعیلیہ کےنام سے شیعوں کے تین فرقے آباد ہیں۔

شیعیان اثناعشری

سوریہ میں قدیم زمانے سے ہی شیعیان اثناعشری قیام پذیر ہیں اور آج بھی سوریہ کے بکثرت مقامات پر اثنا عشری شیعہ موجود ہیں۔ جن علاقوں میں شیعہ رہتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:

نمبر شمار صوبہ شیعہ نشین علاقہ جات
1 دمشق زین العابدین(الصالحیہ) غوطہ شرقی میں، جوره و الامین
2 ریف دمشق ملیحہ، کسوہ، سیدہ زینب
3 حلب حلب کے کئی علاقے، نبل، الزہراء
4 حِمْص بیاضہ و عباسیہ در شہر حمص، ام العمد، الربوۃ(دلبوز)، کرم الزیتون
5 ادلب فوعہ،کفریا و معرتمصرین
6 رقہ طبقہ و مناطق اطراف مزار عمار یاسر
7 درعا بصری الشام، نوی و الشیخ مسکین، مزیریب، الکسوہ، الحراک
8 لاذقیہ شہر لاذقیہ کے کئی منطقے
9 حماہ
10 دیر الزور حطلہ

سید عبد الله نظام، زہیر قوصان، ادہم الخطیب اور نبیل حلباوی(رکن سپریم کونسل مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام) سوریہ میں مقیم علمائے شیعہ ہیں۔

اسماعیلی شیعہ

اسماعیلی شیعوں کا اصلی مرکز صوبہ حماہ کا شہر سلمیہ ہے۔

علویون

سوریہ میں علویون ایک شیعہ گروہ میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کو نصیریہ بھی کہتے ہیں۔ نصیریہ کی تاریخ تیسری صدی ہجری سے جاملتی ہے۔ علویون کے اپنے متعدد گروہ ہیں۔ تاریخ میں بعض علوی گروہ غلو آمیز افکار کے حامل رہے ہیں اور ان کے بعض گروہ طریقت و تصوف کی طرف مائل ہوئے ہیں۔ 14ویں اور 15ویں صدی ہجری میں ایران، عراق اور لبنان سے شیعہ علماء کے سوریہ کی طرف سفر اور یہاں مکتب اہل بیتؑ کی اشاعت کے بعد بعض علوی گروہوں نے اعتدال پسند شیعیت کی روش اختیار کی۔ سوریہ میں علویوں کا مرکز لاذقیہ، حمص، حماہ اور طرطوس کے صوبوں میں ہے۔

حوالہ جات

  1. Muslim Hands, Twelve Years of War in Syria: A Timeline of Events, Muslim Hands website.
  2. Al-Jazeera, Twelve years on from the beginning of Syria’s war, Aljazeera website
  3. پژوهشکده تحقیقات راهبردی، «جریان شناسی گروه‌های تروریستی فعال در سوریه (1)»، وبگاه پژوهکشده تحقیقات راهبردی.
  4. Al-Jazeera, Twelve years on from the beginning of Syria’s war, Aljazeera website
  5. یورونیوز، «آغوش باز عربی برای بشار؛ بازگشت سوریه به «محیط عربی» چگونه رقم خورد؟»، وبگاه یوروز نیوز فارسی

مآخذ