جعدہ بنت اشعث

ویکی شیعہ سے

جَعده یا جُعده بنت اشعث بن قیس کندی (حیات: سنہ 50 ھ)، حضرت امام حسن علیہ السلام کی زوجہ تھی۔ اس نے معاویہ کے اکسانے پر امام حسن کو زہر دے کر شہید کیا۔ اس سے امام حسن کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔

منابع کے مطابق جعدہ اپنے باپ کے نیرنگ کی وجہ سے امام کی زوجیت میں آئی۔ اس نے معاویہ کی طرف سے ملنے والے مالی ہدیہ و یزید سے شادی کے وعدہ کے لالچ میں امام حسن (ع) کو زہر دے کر شہید کر دیا۔ لیکن معاویہ نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا اور اس نے امام کی شہادت کے بعد یعقوب بن طلحہ بن عبید اللہ سے شادی کر لی۔

نام‌ و نسب

تاریخ میں اس کی ولادت کے متعلق کچھ ذکر نہیں ہے البتہ اس کے نسب میں اس کے باپ کا نام اشعث بن قیس کِندی مذکور ہے جو اسلام کے ابتدائی سالوں میں ایک جانا پہچانا چہرہ تھا اور اس کی ماں کا نام ام فروة آیا ہے جو ابوبکر کی بہن تھی۔[1] امام جعفر صادق (ع) سے نقل ہوا ہے کہ اشعث بن قیس امام امیر المومنین (ع) کے قتل میں شریک تھا۔ اس کی بیٹی جعدہ نے امام حسن زہر دیا اور اس کا بیٹا محمد بن اشعث امام حسین (ع) کی شہادت میں شریک تھا۔[2]

منابع میں اس کی ولادت کے بارے میں کوئی بات ذکر نہیں ہے۔ ابوالفرج اصفہانی کے مطابق سکینہ، شعثاء و عائشہ بھی اس کے نام ذکر ہوئے ہیں۔ لیکن اس کا اصلی نام جُعده تھا۔[3]

امام حسن سے شادی

جعدہ شیعوں کے دوسرے امام، امام حسن کی زوجہ تھی۔ دوسری صدی ہجری کے مورخ احمد بن یحیی بلاذری کے مطابق، وہ اپنے باپ اشعث کے نیرنگ کی وجہ سے امام حسن کی زوجیت میں آئی۔ امام علی نے اشعث سے چاہا کہ وہ امام حسن کیلئے اپنے بھائی سعید بن قیس کی بیٹی ام عمران کا رشتہ طلب کرے۔ اشعث نے چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سعید کو بیٹے محمد کا رشتہ دے دیا اور حضرت علی کو امام حسن کیلئے اپنی بیٹی جعدہ کی تجویز دی۔[4] حالانکہ بعض منابع میں ذکر ہوا ہے کہ امام علی (ع) نے سعید بن قیس کی بیٹی ام عمران سے امام حسن کے لئے رشتہ بذات خود طلب کیا تو سعید نے اشعث سے مشورہ کیا تو اشعث نے اسے منع کر دیا اور اس کی بیٹی کا عقد اپنے بیٹے سے کر دیا۔[5]

تاریخی روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام حسن کی جعده کی شادی کوفہ میں امام علی (ع) کی حکومت (سنہ 36۔40 ہجری) کے دوران انجام پائی۔ کیونکہ بعض روایات کے مطابق اشعث حضرت علی کو امیر المومنین کہہ کر خطاب کرتا ہے۔[6]

مزید یہ کہ اشعث عثمان کے دور خلافت میں آذربایجان کا حاکم تھا اور جنگ جمل کے بعد اسے معزول کیا گیا اور وہ کوفہ میں آ گیا۔[7] تاریخ میں حضرت امام حسن کی کسی ایسی اولاد کا ذکر نہیں ہوا جن کی ماں جعدہ ہو۔ شیخ مفید نے حضرت امام کے 8 بیٹے اور 7 بیٹیوں کے نام ذکر کئے ہیں جن میں کسی ایک کی ماں کا نام جعدہ نہیں ہے۔[8]

امام حسن (ع) کو زہر دینا

تاریخی روایات کے مطابق جعدہ نے امام حسن مجتبی کو زہر دیا اور اسی زہر کی وجہ سے آپ کی شہادت ہوئی۔[9] شیخ مفید کے بقول معاویہ نے جب اپنے بیٹے یزید کو اپنا ولی عہد بنانے کا فیصلہ کیا تو اس نے جعدہ کو ایک لاکھ درھم بھیجا اور اس سے وعدہ کیا کہ اگر وہ اپن شوہر کو زہر دے دے تو وہ اس کی شادی یزید سے کر دے گا۔[10] بعض منابع میں نقل ہوا ہے کہ جعده نے اپنے سینے میں امام حسن کے خلاف موجود کینے کی وجہ سے آپ کو زہر دیا۔[11] حالانکہ مادلونگ (ولادت 1309 ش) جرمن نژاد اسلام شناس کا ماننا ہے کہ یزید کو ولی عہد بنانے کی معاویہ کی سعی اور معاویہ کے بہکاوے میں آ کر جعدہ کا امام حسن کو زہر دینا، روایات سے ثابت ہوتا ہے۔[12]

قطب راوندی نے روایت نقل کی ہے کہ زہر آلود شربت پینے کے بعد امام حسن نے جعدہ پر لعن و نفرین کیا۔[13] شیعہ شاعر قیس بن عمرو بن مالک معروف بہ نجاشی نے جعدہ کی مذمت میں قصیدہ کہا جس کی طرف تاریخی کتب میں اشارہ ملتا ہے۔[14] جعدہ کی اولاد کو بنی مسمۃ الازواج یعنی شوہر کو زیر دینے والی کی اولاد کہا جاتا تھا۔[15]

دیگر شادیاں

ابو الفرج لکھتا ہے: معاویہ نے اپنے وعدہ پر عمل نہیں کیا اور یزید بن معاویہ سے جعدہ کی شادی کرنے پر راضی نہیں ہوا۔ [16] وہ کہتا تھا: جس نے فرزند رسول کو زہر دینے سے دریغ نہیں کیا، میں ڈرتا ہوں کہ کہیں وہ یزید کیلئے بھی یہی کام نہ کرے۔[17]

تاریخی منابع کے مطابق حضرت امام حسن کی شہادت کے بعد جعدہ نے یعقوب بن طلحہ بن عبید اللہ سے شادی کی۔[18] اس سے اسماعیل، اسحاق اور ابوبکر نام کے بیٹے تھے جن میں سے اسماعیل اور اسحاق اپنے باپ کی زندگی میں ہی فوت ہو گئے۔[19] یعقوب بن طلحہ کے واقعہ حرہ سنہ 63 ہجری میں مارا گیا۔[20] جعدہ نے اس کے بعد عبد اللہ بن عباس کے بڑے بیٹے عباس بن عبدالله بن عباس سے شادی کی اور اس سے محمد اور قریبہ نام کی بیٹی کی ماں بنی۔ ان دونوں سے اس کی نسل ہوئی لیکن وہ بھی باقی نہ رہی۔[21]

متعلقہ مضامین

کتابیات

  1. ابن اعثم، کتاب الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۶۸.
  2. کلینی، الکافی، ۱۳۶۳ش، ج۸، ص۱۶۷.
  3. ابو الفرج اصفهانی، مقاتل الطالببین، ۱۳۸۵ق، ص۳۲.
  4. بلاذری ،انساب الاشراف، ج ۳، ص۱۴ و ۱۵
  5. قرشی، موسوعة سيرة أهل البيت (ع)، ۱۴۳۳ق، ج۱۱، ص۴۶۲-۴۶۳؛ ابن جوزی، اذکیاء، مکتبة الغزالی، ص۳۴.
  6. ابن جوزی، اذکیاء، مکتبة الغزالی، ص۳۴.
  7. ابن اعثم، کتاب الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۵۰۲ - ۵۰۴.
  8. شیخ مفید، الارشاد، ج ۲، ص۲۰.
  9. برای نمونہ نگاه کریں: ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۸۹؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۴۹۲.
  10. الارشاد، ج ۲، ص۱۶.
  11. التحفہ اللطیفہ، ج ۱، ص۲۸۳
  12. مادلونگ، جانشینی حضرت محمد، ۱۳۷۷ش، ص۴۵۳. (منبع اصلی: Madelung, The Succession T0 Muhamad, p.331)
  13. راوندی، الخرائج و الجرائح، ج ۱، ص۲۴۲.
  14. ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۳، ص۲۸۴. تہذیب الکمال، ج۶، ص۲۵۳
  15. مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۶؛ ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج البلاغہ، ۱۳۷۸ق، ج۱۶، ص۴۹.
  16. ابو الفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، ۱۳۸۵ق، ص۴۸.
  17. شرح نہج البلاغہ، ج ۱۶، ص۱۱.
  18. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۳۹۷ق، ج۳، ص۱۵.
  19. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۵، ص۱۲۶.
  20. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۵، ص۱۲۶.
  21. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۵، ص۲۴۱.

مصادر

  • ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ،‌ دار احیاء الکتب العربیہ، ۱۳۷۸ ھ
  • ابن اعثم، احمد، کتاب الفتوح، دار الاضواء، ۱۴۱۱ ھ
  • ابن حبان، محمد، الثقات، حیدر آباد ہند، مجلس دائرة المعارف العثمانیہ، ۱۳۹۳ ھ
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت،‌ دار صادر، بی‌تا.
  • ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینہ دمشق، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۵ ھ
  • اصفہانی، ابوالفرج، مقاتل الطالبیین، نجف، مکتبہ الحیدریہ، ۱۳۸۵ ھ
  • راوندی، قطب الدین، الخرائج و الجرائح، قم، مؤسسہ الامام المہدی، ۱۴۰۹ ھ
  • زرکلی، خیر الدین، الاعلام، بیروت،‌ دار العلم للملایین، ۱۹۸۰ء
  • سخاوی، محمد بن عبدالرحمن، التحفہ اللطیفہ فی تاریخ المدینہ الشریفہ، بیروت،‌ دار الکتب العلمیہ، بی‌تا.
  • طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، نجف،‌ دار النعمان، ۱۳۸۶ ھ
  • کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، تحقیق علی اکبر غفاری، تہران،‌ دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۶۳ ش.
  • مزی، یوسف، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال، بیروت، مؤسسہ الرسالہ، ۱۴۰۶ ھ
  • مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الارشاد فی معرفہ حجج الله علی العباد، بیروت،‌ دار المفید، ۱۴۱۴ ھ