مندرجات کا رخ کریں

ابراہیم بن ہاشم قمی

ویکی شیعہ سے
ابراہیم بن ہاشم قمی
امام محمد تقیؑ کے صحابی اور راوی
ذاتی کوائف
نام:ابراہیم بن ہاشم کوفی قمی
کنیت:ابو اسحاق
محل زندگی:کوفہقم
مشہوراقارب:علی بن ابراہیم قمی (بیٹا)
مذہب:شیعہ
صحابی:امام محمد تقیؑ
حدیثی معلومات
مشایخ:احمد بن ابی نصر بزنطیحسن بن محبوبحماد بن عیسی جہنیحسین بن سعید اہوازی وغیرہ
ان کے راوی:سعد بن عبد اللہ اشعری قمیمحمد بن حسن صفار قمیعبد اللہ بن جعفر حمیری وغیرہ
احادیث کی تعداد:6414
تألیفات:النوادر • القضاء لامیرالمؤمنین علیہ‌السلام
متفرقات:سب سے پہلا شخص جس نے کوفیوں کی احادیث کو قم میں عام کیا


ابراہیم بن ہاشم قمی محدث اور امام محمد تقیؑ کے اصحاب میں سے تھے۔ علمائے رجال کے ہاں انہیں ثقہ کہا گیا ہے۔

ابراہیم بن ہاشم سے 6 ہزار سے زائد روایات منقول ہیں۔ جن افراد سے ابراہیم بن ہاشم نے روایتیں نقل کی ہیں؛ ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں: احمد بن ابی نصر بَزَنطی، حسن بن محبوب، حماد بن عیسی اور محمد بن ابی عمیر۔ وہ افراد جنہوں نے ابراہیم سے روایت نقل کی ہے، ان میں علی بن ابراہیم، احمد بن ادریس قمی اور محمد بن یحیی العطار شامل ہیں جو ان کے شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں۔

تعارف اور علمی مرتبہ

ابراہیم بن ہاشم قمی[1] کی کنیت ابواسحاق[2] اور وہ کوفہ کے رہنے والے تھے لیکن بعد میں قم میں سکونت اختیار کی۔[3] وہ علی بن ابراہیم (تفسیر قمی کےمصنف) کے والد تھے۔[4]

شیعہ رجال کے ماہر عبد اللہ مامقانی (1290-1351ھ) نے انہیں نقل حدیث کے اجازہ روایت دینے والے اساتذہ، بزرگ علما اور فقہاء میں شمار کیا ہے جن سے کثیر تعداد میں روایات نقل ہوئیں اور بڑے بڑے محدثین نے ان سے روایت نقل کی ہے۔[5]

نجاشی (372ھ-450ھ یا 463ھ) کے مطابق، ابراہیم بن ہاشم پہلے شخص تھے جنہوں نے کوفیوں کی احادیث کو قم میں عام کیا۔[6] سید ابوالقاسم خوئی (1899-1992ء) کے مطابق، ابراہیم امام محمد تقیؑ کے اصحاب میں سے تھے [7]اور امامؑ سے روایتیں بھی نقل کی ہیں۔[8] سید ابو القاسم خوئی کے مطابق، ابراہیم بن ہاشم کا نام 6414 احادیث کی اسناد میں آیا ہے اور کسی بھی راوی نے ان کی طرح اتنی زیادہ روایات نقل نہیں کیں ہیں۔[9]

رجال کی کتب میں ان کی دو تصانیف کا ذکر ملتا ہے: کتاب "النوادر" اور کتاب "قضاء امیرالمؤمنین(ع)"۔[10]

علامہ حلی کے مطابق، ابراہیم بن ہاشم امام رضاؑ سے ملاقات کرنے والوں میں شامل تھے[11] اور شیخ طوسی نے انہیں یونس بن عبد الرحمن کے شاگردوں میں شمار کیا ہے۔[12] تاہم، نجاشی نے ان دونوں باتوں (امام رضاؑ سے ملاقات اور یونس کی شاگردی) پر شک و تردید ظاہر کی ہے۔[13] اسی حوالے سے، علامہ حلی نے اپنی کتاب "خلاصۃ الاقوال فی معرفۃ الرجال" میں یہ نکتہ اٹھایا کہ اگر وہ واقعی امام رضاؑ کے اصحاب اور یونس بن عبد الرحمن کے شاگرد تھے تو انہوں نے ان دونوں سے کوئی روایت کیوں نقل نہیں کی؟ اس بنا پر، علامہ حلی نے نجاشی کے شک کو درست قرار دیا ہے۔[14]

وثاقت

کہا گیا ہے کہ ابراہیم بن ہاشم کے ثقہ (قابلِ اعتماد) ہونے اور ان کی احادیث کے صحیح ہونے میں کوئی شک نہیں ہے،[15] اور معتبر راویوں کا ان سے حدیث نقل کرنا بھی ان کی روایات کے قبول ہونے کی دلیلوں میں سے ہے۔[16]

علامہ حلی نے ابراہیم بن ہاشم کی کثرتِ روایات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ شیعہ علما نے صراحتاً ان کی عدالت کا ذکر نہیں کیا، لیکن انہوں نے ان کی مذمت بھی نہیں کی۔ لہٰذا اس بات کو ترجیح دی جائے گی کہ ابراہیم بن ہاشم کی روایات کو معتبر مانا جائے۔[17] اس کے علاوہ سید ابوالقاسم خوئی نے ان کی وثاقت پر درج ذیل دلائل بیان کیے ہیں:

  • علی بن ابراہیم نے اپنی کتاب تفسیر قمی میں اپنے والد (ابراہیم بن ہاشم) سے بہت سی روایات نقل کی ہیں اور کتاب کے مقدمے میں یہ کہا ہے کہ یہ سب روایات ثقہ راویوں سے لی گئی ہیں۔
  • سید بن طاووس نے فلاح السائل نامی کتاب میں دعویٰ کیا ہے کہ علما ابراہیم بن ہاشم کی وثاقت پر متفق ہیں۔
  • اگرچہ علمائے قم احادیث اخذ کرنے کے سلسلے میں سختی برتتے تھے، لیکن ابراہیم بن ہاشم کی روایات کو انہوں نے قابلِ اعتماد سمجھا ہے۔[18]

اساتذہ اور شاگردان

ابراہیم بن ہاشم نے جن اساتذہ سے روایت لی ہے، ان میں سے چند یہ ہیں:[19]

  1. ابراہیم بن ابی محمود خراسانی
  2. ابراہیم بن محمد وکیل ہمدانی
  3. احمد بن محمد بن ابی‌نَصر بَزَنطی
  4. جعفر بن محمد بن یونس
  5. حسن بن جَہم
  6. حسن بن علی وَشاء
  7. حسن بن محبوب
  8. حَماد بن عیسی
  9. حَنان بن سَدیر
  10. حسین بن سعید اہوازی
  11. صفوان بن یحیی
  12. محمد بن ابی‌ عمیر

جن راویوں نے ابراہیم بن ہاشم سے روایتیں نقل کی ہیں؛ ان میں یہ افراد شامل ہیں:[20]

  1. احمد بن ادریس قمی
  2. سعد بن عبد اللہ اشعری
  3. عبداللہ بن جعفر حمیری
  4. علی بن ابراہیم قمی (اپنا بیٹا)
  5. محمد بن احمد بن یحیی
  6. محمد بن حسن صفار
  7. محمد بن علی بن محبوب
  8. محمد بن یحیی العطار

حوالہ جات

  1. طوسی، الفہرست، 1420ھ، ص11۔
  2. ابن‌داود، الرجال، 1342شمسی، ص20۔
  3. نجاشی، رجال النجاشی، 1418ھ، ص16۔
  4. موسوی جزائری، «مقدمہ»، در تفسیر القمی، 1404ھ، ج1، ص8۔
  5. مامقانی، تنقیح المقال، مؤسسہ آل‌البیت(ع)، ج5، ص92۔
  6. نجاشی، رجال النجاشی، 1418ھ، ص16؛ طوسی، الفہرست، 1420ھ، ص12۔
  7. خویی، معجم رجال الحدیث، مؤسسۃ الخویی الإسلامیۃ، ج1، ص290؛ امین، اعیان الشیعۃ، 1403ھ، ج2، ص234۔
  8. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص548؛ اردبیلی، جامع الرواۃ، 1403ھ، ص38۔
  9. خویی، معجم رجال الحدیث، مؤسسۃ الخویی الإسلامیۃ، ج1، ص291۔
  10. نجاشی، رجال النجاشی، 1418ھ، ص16؛ طوسی، الفہرست، 1420ھ، ص12؛ مامقانی، تنقیح المقال، مؤسسہ آل البیت(ع)، ج5، ص73۔
  11. علامہ حلی، خلاصۃ الاقوال، 1417ق، ص49۔
  12. طوسی، رجال الطوسی، 1373شمسی، ص353۔
  13. نجاشی، رجال النجاشی، 1418ھ، ص16۔
  14. علامہ حلی، خلاصۃ الاقوال، 1417ھ، ص49۔
  15. امین، اعیان الشیعۃ، 1403ھ، ج2، ص234؛ خویی، معجم رجال الحدیث، مؤسسۃ الخویی الإسلامیۃ، ج1، ص291۔
  16. امین، اعیان الشیعۃ، 1403ھ، ج2، ص234۔
  17. علامہ حلی، خلاصۃ الاقوال، 1417ھ، ص49۔
  18. خویی، معجم رجال الحدیث، مؤسسۃ الخویی الإسلامیۃ، ج1، ص291۔
  19. امین، اعیان الشیعۃ، 1403ھ، ج2، ص236۔
  20. امین، اعیان الشیعۃ، 1403ھ، ج2، ص236۔

مآخذ

  • ابن‌داود، حسن بن علی بن داود، الرجال، تہران، دانشگاہ تہران، چاپ اول، 1342ہجری شمسی۔
  • اردبیلی، محمد بن علی، جامع الرواۃ وازاحۃ الاشتباہات عن الطرق والاسناد، بیروت، دار الاضواء، چاپ اول، 1403ھ۔
  • امین، سید محسن، اعیان الشیعۃ، بیروت، دار التعارف، 1403ھ۔
  • خویی، سید أبوالقاسم، معجم رجال الحدیث، بی‌جا، مؤسسۃ الخویی الإسلامیۃ، بی‌تا۔
  • شیخ طوسی، محمد بن الحسن، رجال الطوسی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامي التابعۃ لجامعۃ المدرسين، چاپ سوم، 1373ہجری شمسی۔
  • طوسی، محمد بن الحسن، فہرست کتب الشيعۃ وأصولہم وأسماء المصنّفين وأصحاب الأصول، تصحیح عبدالعزیز طباطبایی، قم، مکتبۃ المحقق الطباطبائی، چاپ اول، 1420ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، خلاصۃ الاقوال، بی‌جا، نشر الفقہاہۃ، تصحیح جواد قیومی اصفہانی، 1417ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، الإسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • مامقانی، عبداللہ، تنقیح المقال فی علم الرجال، قم، موسسۃ آل البیت(ع) لإحیاء التراث، بی‌تا۔
  • موسوی جزائری، طیب، «مقدمہ»، در تفسیر القمی، تألیف علی بن ابراہیم، قم، دار الکتاب، چاپ سوم، 1404ھ۔
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، تحقیق سید موسی شبیری زنجانی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1418ھ۔