حدیث وصیت
حدیث وصیت | |
---|---|
حدیث کے کوائف | |
موضوع | بارہ مہدی |
صادر از | پیغمبر اکرمؐ |
اعتبارِ سند | ضعیف |
شیعہ مآخذ | الغیبۃ شیخ طوسی |
مشہور احادیث | |
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل |
حدیث وصیت، پیغمبر اکرمؐ سے منسوب ایک حدیث ہے جس میں بارہ مہدی کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے جو امام مہدیؑ کے بعد ان کا جانشین ہو گا۔ یہ حدیث شیخ طوسی کی کتاب الغیبہ میں نقل ہوئی ہے۔ انصار المہدی نامی گروہ کے سربراہ احمد الحسن نے اسی حدیث سے استناد کرتے ہوئے اپنے آپ کو امام زمانہؑ کا بلواسطہ بیٹا اور بارہ مہدی میں سے پہلا مہدی قرار دیا تھا۔
شیعہ علماء اس حدیث سے احمد الحسن کی اس استنباط کو قبول نہیں کرتے اور اسے شیعوں کے دیگر صحیح السند احادیث سے ناسازگار قرار دیتے ہیں۔ بعض محققین اس حدیث کی سند اور مضمون کی چھان بین کے بعد اس پر مختلف اعتراضات اٹھاتے ہیں من جملہ میں سے ایک اعتراض اس حدیث کا ضعیف السند ہونا ہے۔ اسی طرح ایک اور اعتراض اس حدیث پر یہ ہے کہ یہ حدیث پیغمبر اکرمؐ کے جانشینوں کو بارہ عدد میں منحصر کرنے والی مشہور حدیث کے ساتھ بھی متصادم ہے۔
اجمالی تعارف اور مضمون
حدیث وصیت شیخ طوسی کی کتاب الغیبہ میں پیغمبر اسلامؐ سے نقل ہوئی ہے۔[1]
حدیث وصیت میں پیغمبر اسلامؐ نے امام علیؑ سے مخاطب ہو کر اپنے بعد بارہ ائمہ آنے کی بشارت دیتے ہوئے ان کا نام لیا ہے جو شیعوں کے بارہ امام ہیں۔ اس کے بعد پیغمبر اکرمؐ نے آخری امام، امام مہدی کی وفات کے بعد بارہ مہدی آنے کی خبر دی ہے جو امام زمانہ کے جانشین ہونگے۔[2] اس حدیث کا آخری حصہ جو اسی موضوع کے ساتھ مربوط ہے یوں ہے:
- "ان[بارہ ائمہ] کے بعد بارہ مہدی آئیں گے۔ جب بارہواں امام کی رحلت ہوگی تو میری جانشینی کو اپنے بیٹے کے سپرد کریں گے جو پہلا مقرب ہوگا۔ اس کے تین نام ہیں: ایک نام میرے نام کی طرح ہوگا؛ دوسرا نام میرے والد ماجد کے نام کی طرح ہوگا جوکہ عبداللہ اور احمد ہے؛ اور اس کا تیسرا نام مہدی ہے اور وہ پہلا مؤمن ہوگا۔"[3]
یہ حدیث بارہ امام کے بعد بارہ مہدی کو ثابت کرنے کے حوالے سے انصار المہدی نامی گروہ کے سربراہ احمد الحسن کا سب سے اہم دلیل ہے۔[4] اس نے اسی حدیث سے استناد کرتے ہوئے یہ دعوا کیا تھا کہ وہ خود امام زمانہؑ کے فرزندوں میں سے پہلا فرند ہے۔[5]
شیعہ علماء اولا اس حدیث کی سند کو یقینی نہیں مانتے اور ثانیا اس حدیث سے ان کی اس استنباط کو بھی قبول نہیں کرتے۔[6]
اس حدیث سے احمد الحسن کا استناد
احمد الحسن حدیث وصیت سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امام زمانہ کے بعد بارہ مہدی آئیں گے اور وہ خود ان میں سے پہلا مہدی ہے۔[7] اس کے علاوہ اس حدیث میں موجود لفظ "اِبنہ" (اس کا بیٹا) سے استناد کرتے ہوئے اپنے آپ کو امام زمانہؑ کا بالواسطہ بیٹا معرفی کرتا ہے۔[8]
اس بنا پر وہ امام زمانہؑ کے ظہور سے پہلے، امام کی حکومت کے دوران اور ان کے بعد کردار ادا کرنے کا دعوا کرتا ہے۔[9]
شیعہ علماء کا موقف
شیعہ علماء حدیث وصیت کو مشہور اور صحیح السند احادیث سے متصادم قرار دیتے ہیں۔ من جملہ ان میں پانچویں صدی ہجری کے مفسر طَبرِسی، ساتویں صدی ہجری کے محدث اِربِلی، گیارہویں صدی ہجری کے محدث علامہ مجلسی اور حر عاملی شامل ہیں۔[10]
طَبرِسی اور اِرِبلی کہتے ہیں کہ یہ حدیث ان صحیح السند احادیث کے بھی مخالف ہیں جن میں امام مہدی(عج) کی حکومت کے بعد کسی اور حکومت کی نفی کی گئ ہے۔[11]
اشکالات حدیث وصیت
برخی دیگر از اشکالاتی کہ پژوہشگران بہ این حدیث گرفتہاند بہ شرح زیر است:
- این روایت خبر واحد و خبر واحد ظنی است۔ بنابراین نمیتوان با آن، اعتقادات را اثبات کرد۔[12]
- طبق این روایت، جانشینان پیامبر 24 نفرند و این با انحصار اوصیا در 12 تن ناسازگار است۔[13]
- با روایاتی کہ امام زمان(ع) را خاتمالاوصیاء میدانند تعارض دارد۔ ہمچنین این روایت با روایات متعددی کہ خبر از رجعت میدہند، تعارض دارد۔[14]
- این حدیث ضعیفالسند است: راویانش ضعیف و مجہولاند۔ از این رو توان تعارض با روایات صحیح را ندارد۔[15]
حوالہ جات
- ↑ شیخ طوسی، الغیبۃ، 1411ھ، ص150-151۔
- ↑ شیخ طوسی، الغیبۃ، 1411ھ، ص150-151۔
- ↑ شیخ طوسی، الغیبۃ، 1411ھ، ص150۔
- ↑ مجتہد سیستانی، لوح و قلم، دار التفسیر، ص13۔
- ↑ محمدی ہوشیار، درسنامہ نقد و بررسی جریان احمد الحسن، 1396ہجری شمسی، ص37-39۔
- ↑ ملاحظہ کریں: علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج53، ص149-150؛ حر عاملی، الایقاظ من الہجعۃ، 1362ہجری شمسی، ص368۔
- ↑ احمد الحسن، الجواب المنیر، ج1، ص38۔
- ↑ محمدی ہوشیار، درسنامہ نقد و بررسی جریان احمد الحسن، 1396، ص37-39۔
- ↑ محمدی ہوشیار، درسنامہ نقد و بررسی جریان احمد الحسن، 1396، ص37-39۔
- ↑ طبرسی، اعلام الوری، 1417ھ، ج2، ص295؛ اربلی، کشف الغمۃ فيمعرفۃ الائمہ، 1381، ج2، ص467؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج53، ص150؛ حر عاملی، الایقاظ من الہجعۃ، 1362ہجری شمسی، ص368؛ حر عاملی، الفوائد الطوسیۃ، 1403ھ، ص115۔
- ↑ طبرسی، اعلام الوری، 1417ھ، ج2، ص295؛ اربلی، کشف الغمۃ فيمعرفۃ الائمہ، 1381، ج2، ص467؛ عاملی نباطی، الصراط المستقیم، ج2، 1384ھ، ص186۔
- ↑ آل محسن، الرد القاصم، 1434ھ، ص36۔
- ↑ آل محسن، الرد القاصم، 1434ھ، ص36؛ مجتہد سیستانی، لوح و قلم، دار التفسیر، ص129۔
- ↑ شہبازیان، محمد، رہ افسانہ، 1396ہجری شمسی، ص138؛ محمدی ہوشیار، درسنامہ نقد و بررسی جریان احمد الحسن، 1396ہجری شمسی، ص150۔
- ↑ مجتہد سیستانی، لوح و قلم، دار التفسیر، ص59۔
ماخذ
- آل محسن، علی، الرد القاصم، نجف، مرکز الدراسات التخصصیۃ للامام المہدی، 1434ھ۔
- احمد الحسن، الجواب المنیر عبر الاثیر، اصدارات انصار الامام المہدی۔
- اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ في معرفۃ الائمۃ، با مقدمۂ جعفر سبحانی و سید ہاشم رسولی محلاتی، تبریز، نشر بنیہاشمی، 1381ہجری شمسی۔
- حر عاملی، محمد بن حسن، الإیقاظ من الہجعۃ بالبرہان علی الرجعۃ، تصحیح سید ہاشم رسولی محلاتی، ترجمہ احمد جنتی، تہران، انتشارات نوید، 1362ہجری شمسی۔
- حر عاملی، محمد بن حسن، إثبات الہداۃ بالنصوص و المعجزات، تصحیح علاءالدین اعلمی، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1425ق/2004ء۔
- شہبازیان، محمد، رہ افسانہ، قم، انتشارات مرکز تخصصی مہدویت حوزہ علمیہ قم، 1396ہجری شمسی۔
- طبرسی، فضل بن حسن، إعلام الوری بأعلام الہدی، قم، مؤسسۃ آل البیت لاحیاء التراث، 1417ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، الغیبۃ، تحقیق عبداللہ طہرانی و علی احمد ناصح، قم، مؤسسہ معارف اسلامی، 1411ھ۔
- عاملی نباطی، علی بن یونس، الصراط المستقیم الی مستحقی التقدیم، تصحیح میخائیل رمضان، نجف، المکتبۃ الحیدریۃ، چاپ اول، 1384ھ۔
- علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1403ھ۔
- مجتہد سیستانی، مہدی، لوح و قلم: بررسی روایت موسوم بہ وصیت در کتاب الغیبۃ شیخ طوسی، قم، دار التفسیر، بیتا۔
- محمدی ہوشیار، علی، درسنامۂ نقد و بررسی جریان احمد الحسن البصری، قم، انتشارات تولی، 1396ہجری شمسی۔