عصمت

ویکی شیعہ سے
شیعہ عقائد
‌خداشناسی
توحیدتوحید ذاتیتوحید صفاتیتوحید افعالیتوحید عبادیصفات ذات و صفات فعل
فروعتوسلشفاعتتبرک
عدل (افعال الہی)
حُسن و قُبحبداءامر بین الامرین
نبوت
خاتمیتپیامبر اسلام اعجازعدم تحریف قرآن
امامت
اعتقاداتعصمت ولایت تكوینیعلم غیبخلیفۃ اللہ غیبتمہدویتانتظار فرجظہور رجعت
ائمہ معصومینؑ
معاد
برزخمعاد جسمانی حشرصراطتطایر کتبمیزان
اہم موضوعات
اہل بیت چودہ معصومینتقیہ مرجعیت


عصمت کا مطلب معصوم انسان کا گناہ اور خطا سے محفوظ ہونا ہے۔ شیعہ اور معتزلہ متکلمین عصمت کو لطفِ الہی اور اسلامی حکما اسے نفسانی ملَکَہ سمجھتے ہیں جو معصوم کو گناہ اور خطا سے محفوظ ہونے کا باعث بنتی ہے۔

معصوم کا گناہ اور خطا سے مبرا ہونے کے منشاء کے بارے میں مختلف آراء پیش ہوئے ہیں جن میں لطف الہی، مخصوص علم، ارادہ اور انتخاب اور فطری تمام عوامل انسانی ہو یا الہی شامل ہیں۔ حکما عصمت کو اختیار سے سازگار سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ معصوم گناہ میں مرتکب ہونے کی قدرت رکھتا ہے لیکن گناہ انجام نہیں دیتا ہے اور اسی وجہ سے وہ اجر کا مستحق ہوتا ہے۔

انبیاء کی عصمت کے بارے میں تمام اسلامی دانشوروں کا اتفاق ہے۔ البتہ اس کے حدود کے بارے میں اختلاف نظر پایی جاتی ہے۔ البتہ انبیاءؑ کا شرک اور کفر سے معصوم ہونا، وحی کو دریافت کرنے اور لوگوں تک پہنچانے میں معصوم ہونا اور نبوت کے بعد جان بوجھ کر گناہ کبیرہ کا مرتکب نہ ہونے کے بارے میں تمام علما کا اجماع ہے۔

شیعہ امامیہ علماء شیعہ ائمہؑ کو بھی ہر طرح کے گناہ کبیرہ و صغیرہ اور ہر طرح کی غلطیوں اور اشتباہ سے معصوم سمجھتے ہیں۔ علامہ مجلسی کے مطابق، شیعوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ تمام فرشتے ہر طرح کے صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے پاک اور معصوم ہیں۔

عصمت کے بارے میں کچھ اشکال کئے گئے ہیں؛ بعض نے اسے انسانی فطرت کے مخالف قرار دیا ہے کیونکہ انسان میں قوت شہوانی اور نفسانی موجود ہیں جو عصمت سے سازگار نہیں ہیں۔ اس کے جواب میں کہا گیا ہے کہ شہوانی اور نفسانی خواہشات کا وجود صرف گناہ سے آلودہ ہونے کے لئے راہ ہموار تو کرتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ گناہ انجام بھی دیتا ہے؛ کیونکہ ممکن ہے کہ علم اور ارادہ جیسی رکاوٹیں ان خواہشات کے اثر کو روک سکتی ہیں۔

اہمیت اور مقام

شیعہ ماہر الہیات اور کلامی کتابوں کے مؤلف سید علی حسینی میلانی کے مطابق، عصمت کا مسئلہ ان اہم عقیدتی اور کلامی مسائل میں سے ایک ہے جسے ہر اسلامی فرقے نے اپنے اپنے نقطہ نظر سے بیان کیا ہے۔ عصمت کا معصوم کے قول اور فعل کی حجیت کے ساتھ تعلق نے اس بحث کی اہمیت اور حساسیت کو بڑھا دیا ہے۔ ان کے بقول، اہل سنت چونکہ وہ مسلم حکمرانوں کی عصمت پر عقیدہ نہیں رکھتے ہیں اس لیے وہ عصمت کے مسئلے پر نبوت کے عنوان کے ذیل میں بحث کرتے ہیں؛ لیکن شیعہ تمام انبیاء اور شیعہ ائمہ کو معصوم سمجھتے ہیں اسی لیے وہ نبوت اور امامت کے ذیل میں اس پر گفتگو کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عصمت مسلمانوں کے مشترک موضوعات میں سے ایک ہے؛ اگرچہ مصداق اور تفصیلات میں باہم بہت کچھ فرق بھی پایا جاتا ہے۔[1]

کلام اسلامی کی کتابوں میں عصمت پر بحث عصمت انبیاء، عصمت ائمہ اور فرشتوں کے ذیل میں ہوتی ہے۔[2] تفسیر کی بعض کتابوں میں بھی آیہ تطہیر کے ذیل میں عصمت پر بحث ہوئی ہے۔[3] علم اصول فقہ میں اہل سنت کے علمائے علم اصول نے اجماع کی حجیت کو امت کی عصمت سے جوڑا ہے؛ کیونکہ ان کی نظر میں امتِ اسلامی پیغمبر اکرمؐ کی جانشین ہے اور دینی امور میں ہر قسم کے خطا، سہو اور جھوٹ سے مبرا ہے۔ ان کے مقابلے میں شیعہ علما اجماع کی حجیت کا معیار امام کی عصمت سمجھتے ہیں؛ کیونکہ ان کی نظر میں امام پیغمبر کا جانشین ہوتا ہے اور ان کی طرح سے معصوم ہوتا ہے اور اجماع اس لئے حجت ہے کہ وہ معصوم کے قول کو کشف کرتا ہے۔[4]

عصمت کے بارے میں مسیحیت اور یہودیت جیسے ادیان میں بھی بحث ہوتی ہے اور عیسائی حضرت عیسیؑ کے علاوہ کتاب مقدس لکھنے والے اور کیتھولیک کلیسا کے پاپ کو بھی معصوم سمجھتے ہیں؛ البتہ پاپ کی عصمت پر صرف کیتھولیک آئین کا عقیدہ ہے۔[5]

تعریف اور معنی

مسلمان مفکرین اور حکما نے عصمت کی مختلف تعریفیں کی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • تعریف متکلمان: امامیہ[6] اور معتزلہ[7]) عصمت کو قاعدہ لطف کے ذریعے تفسیر کرتے ہیں۔[8] اس قاعدے کی بنا پر خداوندعالم بعض انسانوں کو عصمت عطا کرتا ہے جس کے سائے میں صاحبِ عصمت گناہ اور برے کام انجام نہیں دیتا ہے۔[9] علامہ حلّی عصمت کو خدا کی جانب سے بندے کے حق میں لطف خفی سمجھتے ہیں اس طرح کہ اس کے ہوتے ہوئے پھر انسان میں گناہ کے انجام دہی یا اطاعت کے ترک کرنے کا رجحان ہی پیدا نہیں ہوتا ہے اگر چہ اس پر قدرت اور توانائی رکھتا ہے۔[10]

اشاعرہ عصمت کی تعریف میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالی معصوم کے اندر گناہ ایجاد نہیں کرتا ہے۔[11] اشاعرہ کی اس تعریف کا مبنی یہ ہے کہ ان کے مطابق ہر چیز بغیر واسطہ کے اللہ کی طرف منسوب ہوتی ہے۔[12]

  • فیلسوف کی تعریف: مسلم حکما عصمت کو ایک نفسانی ملَکَہ[یادداشت 1] سے تعریف کرتے ہیں جس کے ہوتے ہوئے صاحبِ عصمت سے گناہ سرزد نہیں ہوتا ہے۔[13]

شیعہ معاصر مفسر اور متکلم آیت اللہ سبحانی عصمت کی تعریف میں گناہ سے عصمت اور خطا سے عصمت میں فرق کے قائل ہیں اور ایک طرح سے عدلیہ اور حکما کی تعریف کو ملایا ہے۔ اور وہ گناہ سے عصمت کو تقوی الہی کا اعلی ترین درجہ اور ملکہ نفسانی اور درونی طاقت سمجھتے ہیں جس کی وجہ معصوم شخص گناہ سے اجتناب بلکہ اس کے بارے میں سوچنے سے بھی اجتناب کرتا ہے۔[14] آپ خطا اور سہو سے عصمت کو غفلت سے عاری علم سمجھتا ہے جو اللہ کے لطف کے زیر سایہ ہے جس کی وجہ سے چیزوں کی حقیقی تصویر معصوم کے فکر و ذہن میں آجاتی ہے اور اس وجہ سے وہ خطا اور اشتباہ سے محفوظ رہتا ہے۔[15]

لغوی اعتبار سے عصمت "ع ص م" کے مادے سے اسم مصدر ہے جس کے معنی مصونیت اور محفوظ رہنا۔.[16]

عصمت کا سرچشمہ

عصمت کا سرچشمہ اور معصوم کو گناہ اور خطا سے بچانے کے عامل کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں جن میں معصوم پر اللہ کا لطف، گناہ کے آثار کے بارے میں معصوم کا مخصوص علم اور معصوم کا ارادہ اور انتخاب شامل ہیں۔ البتہ بعض معاصر محققین کا خیال ہے کہ عصمت کسی ایک عامل کا مرہون منت نہی ہے بلکہ بعض فطری عوامل جیسے، وراثت، سماج اور خاندان، اور بعض انسانی عوامل جیسے شعور اور آگاہی، ارادہ اور انتخاب، عقل اور نفسانی ملکہ، اور خداوند متعال کے خاص لطف و کرم کا نتیجہ ہے۔[17]

لطف الہی

شیخ مفید اور سیدِ مرتضی عصمت کو معصومین کے حق میں اللہ کا لطف سمجھتے ہیں۔[18] علامہ حلی چار اسباب اور عوامل کو اس لطف کا منشا قرار دیتے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:

  1. معصوم شخص جسمانی یا روحانی اعتبار سے کچھ ایسی خصوصیات کا حامل ہے جو باعث بنتا ہے کہ اس میں گناہ سے اجتناب کا ملکہ ایجاد ہوتا ہے؛
  2. معصوم شخص کیلئے گناہوں کے برے اثرات اور خداوند متعال کی اطاعت اور بندگی کی قدروقیمت سے مکمل آگاہی حاصل ہونا؛
  3. وحی یا الہام کے ذریعے گناہ کی حقیقت اور اطاعت کے بارے میں بینش اور آگاہی میں وسعت آجاتی ہے (وحی یا الہام کے ذریعے علم کی تائید اور اس پر تاکید)؛
  4. معصوم شخص نہ فقط واجبات بلکہ ترک اولی پر بھی مورد مؤاخذہ قرار پاتا ہے ۔[19]

مخصوص علم

بعض علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ عصمت کا سرچشمہ یہ ہے کہ معصوم شخص گناہ کے اثرات اور اطاعت کے پاداش کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں۔[20] علامہ طباطبائی کہتے ہیں کہ معصومین خدا داد علم کے مالک ہیں اس لئے مضبوط ارادے کے مالک ہیں جس کے ہوتے ہوئے گناہ کی طرف نہیں جاتے ہیں۔[21] یہ علم باقی علوم کی طرح سیکھنے سے حاصل نہیں ہوتا اور خواہشات اور دیگر طاقتوں سے شکست بھی نہیں کھاتا ہے۔[22]

علم و ارادہ

محمدتقی مصباح یزدی عصمت کے راز کو دو چیزوں میں قرار دیتے ہیں جن میں سے ایک کمالات اور حقایق سے آگاہی اور دوسرا اس تک پہنچنے کا پکا اور مستحکم ارادہ ہے؛ کیونکہ انسان جہالت کی صورت میں حقیقی اور واقعی کمال کو نہیں پہچان سکتا اور ایک خیالی اور ذہنی کمال کو حقیقی اور واقعی کمال قرار دیتا ہے اسی طرح اگر مستحکم ارادہ کا مالک نہ ہو تو نفسانی خواہشات کے ہاتھوں اسیر ہو کر مطلوبہ ہدف تک پہچنے میں ناکام رہتا ہے۔[23] ان کا کہنا ہے کہ معصوم انسان کے پاس ایک خاص علم اور محکم ارادہ ہوتا ہے جس کے سبب کبھی اپنی اختیار کے ساتھ گناہ کا مرتکب نہیں ہوتا ہے اور ہر حال میں اللہ کا فرمانبردار رہتا ہے۔[24]

عصمت اور اختیار

لبنانی شیعہ مرجع تقلید سید محمد حسین فضل اللہ کا ماننا ہے کہ عصمت ایک جبری حقیقت ہے[25] لیکن معاصر ماہر الہیات علی ربانی گلپایگانی کے مطابق متکلمین اور حکما اس بات پر متفق ہیں کہ عصمت معصوم کے اختیار اور مرضی کے ساتھ سازگار ہے اور معصوم گناہ کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔[26] عقل کی رو سے اگر عصمت معصوم کا مجبور ہونے کے معنی میں ہو تو اس صورت میں معصوم شخص کی بندگی اور گناہ کا ترک کرنا تعریف و تمجید کے مستحق نہیں ہوگا اور ان کو امر یا نہی کرنا اور جزا و سزا دینا غیر معقول ہوگا۔[27]

معاصر فلسفی اور مفسر قرآن عبداللہ جوادی آملی کا بھی خیال ہے کہ جبری عصمت، معصوم کا لوگوں پر حجت ہونے اور اللہ کی طرف سے ان کی پیروی واجب ہونے کے ساتھ متصادم ہے اور اگر گناہ کا ارتکاب فطری طور پر ناممکن ہے تو اطاعت فطری طور پر ضروری ہے، اور ایسی صورت میں اس کی اطاعت پر شرعی حکم نہیں آسکتا ہے اور پھر ڈرانے یا بشارت دینے اور جزا و سزا کے وعدوں کے لئے بھی گنجائش نہیں رہتی ہے۔[28]

علامہ طباطبایی عصمت کا اختیار کے ساتھ سازگار ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ «عصمت کا منبع ایک خاص علم ہے جو اللہ نے معصوم کو عطا کی ہے۔ علم خود ہی اختیار کے مبانی اور بنیاد میں سے ہے۔ لہذا معصومین اعمال کے مفاسد اور مصالح کو جاننے کی وجہ سے گناہ کا مرتکب نہیں ہوتے ہیں؛ جیسا کہ جس شخص کو زہرا ہلاہل کا پتہ ہو تو کبھی اسے نہیں پیے گا۔»[29]

شیعہ فلسفی محمد تقی مصباح یزدی کا کہنا ہے کہ عصمت صرف ایک علمی ملکہ ہی نہیں بلکہ علمی اور عملی ملکہ ہے جو معصوم کے بااختیار عمل کا اللہ تعالی کے لطف سے مطابقت ہونے سے حاصل ہوا ہے۔[30] وہ اپنی رائے کو یوں بیان کرتے ہیں کہ جو بھی ایک استعداد اور اللہ کے لطف کے ساتھ اس دنیا میں آیا ہے اس کو فعال کرنا اس کے اپنے اختیار میں ہے۔ جو علم معصومین کی عصمت کا زینہ بنتا ہے وہ بھی اللہ کی عنایت ہے لیکن اس سے کوئی چیز ان پر تحمیل نہیں ہوتی ہے۔ پس اس استعداد کو برائے کار لانا اور اس کے مطابق عمل کرنا خود معصوم کی اپنی کوشش ہے۔[31]

عصمت انبیا

وحی کے دریافت اور ابلاغ میں انبیا کی عصمت تمام ادیان الہی کے متفقہ مشترک اصولوں میں سے سمجھی جاتی ہے؛[32] اگرچہ اس کی ماہیت اور مرتبوں کے بارے میں مختلف ادیان کے پیروکار اور مذاہب اسلامی کے دانشوروں کے مابین اختلاف رائے پائی جاتی ہے۔[33]

مسلمان متکلمین عصمت کے بارے میں تین چیزوں پر سب متفق ہیں: 1_ نبوت سے پہلے اور اس کے بعد شرک اور کفر سے معصوم ہونا؛ 2_ وحی کی دریافت اس کی حفاظت اور اس کو لوگوں تک پہنچانے میں معصوم ہیں؛ 3_ نبوت کے بعد عمدی گناہ سے معصوم ہونا۔ البتہ تین چیزوں کے بارے میں اختلاف بھی ہے: نبوت کے بعد سہوی اور خطائی گناہ سے معصوم ہونا، 2_ نبوت سے پہلے عمدی اور سہوی گناہ سے معصوم ہونا؛ 3_ اجتماعی اور فردی زندگی میں انبیاء کی عصمت۔

جس شیعہ اور سنی مشہور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ انبیا وحی کے وصول، حفظ اور ابلاغ میں کسی قسم کے گناہ یا خطا کا عمدی[34] اور سہوی [35] ارتکاب نہیں کرتے ہیں۔ عصمت کے اس درجے میں انبیا کے جو چیز خداوند متعال سے وحی کی شکل میں دریافت کرتے ہیں بغیر کسی کمی اور زیادتی کے لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور خدا کی حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ خدا اپنی رسالت کیلئے ایسے فرد کا انتخاب کرے جس کے بارے میں یقین ہو کہ وہ کسی قسم کے خیانت کا ارتکاب نہیں کریں گے۔[36]

شیعہ امامیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ انبیاء الہی مذکورہ تمام مراتب میں عصمت پر فائز ہیں؛ بلکہ انبیاء ہر اس کام سے بھی دور ہیں جو لوگوں کا ان سے دوری کا باعث بنتا ہے۔[37] لوگوں کو نبوت کی طرف جلب کرنا انبیا کی عصمت واجب ہونے کی عقلی دلیلوں میں سے ایک ہے؛[38] اسی طرح بعض آیات[39] اور روایات[40] سے استناد ہوا ہے۔[41]

انبیاء کی عصمت کے مخالفین نے دو طرح کی آیتوں سے استناد کیا ہے جن میں سے بعض آیتیں تمام انبیاء کی عصمت سے سازگار نہیں ہیں اور بعض آیات بعض پیغمبروں کی عصمت کے ساتھ سازگار نہیں ہیں۔[42] ان کے جواب میں کہا گیا ہے کہ تمام آیات متشابہ کو آیات محکم کے ذریعے تاویل اور تفسیر ہونی چاہئے[43] اور جو آیتیں تمام انبیاء کی عصمت سے سازگار نہیں ان آیتوں کو ترک اولی پر حمل کیا جاتا ہے۔[44]

عصمت ائمہ

ائمہؑ کی عصمت شیعیان اثنا عشری کے عقیدے کے مطابق امامت کی شرائط میں سے ہے۔[45] علامہ مجلسی کے مطابق تمام امامیہ اس بات پر متفق ہیں کہ ائمہ ہر قسم کے گناہ کبیرہ اور صغیرہ خواہ عمدی ہو یا سہوی یا اشتباہ سب سے پاک ہیں۔[46] کہا گیا ہے کہ اسماعیلیہ بھی عصمت کو امامت کی شرط مانتے ہیں۔[47] جبکہ اہل سنت عصمت کو امامت کی شرط نہیں مانتے ہیں؛[48] کیونکہ ان کا اجماع ہے کہ خلفائے ثلاثہ امام تھے؛ لیکن معصوم نہیں تھے۔[49] وہابی بھی شیعہ ائمہ کی عصمت کو نہیں مانتے ہیں اور عصمت کو انبیاءؑ سے مختص سمجھتے ہیں۔[50]

جعفر سبحانی کا کہنا ہے کہ عصمت پیغمبر پر جو عقلی دلائل قائم کی گئی ہیں، جیسے بعثت کے اہداف کا متحقق ہونا، لوگوں کی توجہ جلب کرنا وغیرہ امام کی عصمت میں بھی یہ سب ذکر ہوتی ہیں۔[51] شیعہ متکلمین نے ائمہؑ کی عصمت ثابت کرنے کے لئے متعدد آیات اور روایات کا حوالہ دیا ہے جن میں آیت ابتلائے ابراہیم،[52] آیہ اولی‌الامر،[53] آیہ تطہیر،[54] اور آیہ صادقین[55] حدیث ثقلین[56] اور حدیث سفینہ.[57] شامل ہیں۔

شیعوں کی نظر میں حضرت فاطمہؑ بھی عصمت کے مقام پر فائز ہیں۔[58] ان کی عصمت کے لئے آیہ تطہیر اور حدیث بَضْعَہ سے استناد کیا جاتا ہے۔[59]

فرشتوں کی عصمت

عَلَیها مَلائِکۃٌ غِلاظٌ شِدادٌ لا یعْصُونَ اللَّهَ ما أَمَرَهُمْ وَ یفْعَلُونَ ما یؤْمَرُونَ ترجمہ:اس پر ایسے فرشتے مقرر ہیں جو تُندخو اور درشت مزا ج ہیں انہیں جس بات کا حکم دیا گیا ہے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہ وہی کام کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا گیا ہے۔

علامہ مجلسی کا کہنا ہے کہ شیعوں کا اجماع ہے کہ تمام فرشتے ہر قسم کے گناہ کبیرہ اور صغیرہ سے معصوم ہیں۔ اکثر اہل سنت کا بھی یہی نظریہ ہے۔[60] فرشتوں کی عصمت کے بارے میں بعض دیگر نظریات بھی پائے جاتے ہیں: بعض فرشتوں کو معصوم نہیں سمجھتے ہیں۔ بعض نے نفی یا اثبات میں کچھ نہیں کہا ہے کیونکہ ان کی نظر میں عصمت یا غیر معصوم ہونے پر قائم کی جانے والی دلائل کافی نہیں ہیں۔ بعض نے صرف وحی کے حامل، مقرب اور بعض آسمانی فرشتوں کو معصوم سمجھتے ہیں۔[61] عصمت کے موافقین کا کہنا ہے کہ سورہ انبیا کی آیت نمبر 27 [62] اور سورہ تحریم کی آیت نمبر 6[63] اور متعدد احادیث[64] فرشتوں کی عصمت پر دلالت کرتی ہیں۔[65]کہا گیا ہے کہ مسلمان فرقوں میں صرف فرقہ حَشْویہ فرشتوں کی عصمت کے مخالف ہے۔[66]

آیت‌اللہ مکارم شیرازی نے ملائکہ میں عصمت کے حوالے سے کہا ہے کہ اگرچہ فرشتوں میں گناہ، شہوت اور غصہ جیسی چیزوں کے محرکات نہیں ہیں یا بہت ہی کمزور ہیں لیکن وہ بھی فاعلِ مختار ہیں اور مخالفت کی قدرت رکھتے ہیں۔ لہذا گناہ کی قدرت رکھنے کے باوجود معصوم اور پاک ہیں۔ بعض روایات میں بعض فرشتوں کی طرف سے اللہ کی اطاعت میں سستی یا ان کی تنبیہ کرنے کو ترک اولی پر حمل کیا گیا ہے۔[67]

اعتراضات اور ان کے جواب

  • انسانی فطرت کے ساتھ معصومیت کی عدم مطابقت

ایک مصری مصنف، احمد امین کا خیال ہے کہ معصومیت انسانی فطرت سے مطابقت نہیں رکھتی ہے؛ کیونکہ انسان میں مختلف شہوانی اور نفسانی قوتیں ہیں جو اچھی چیزوں کی بھی خواہش رکھتی ہیں اور بری چیزوں کی بھی۔ اگر یہ خواہشات اس سے چھین لی جائیں تو گویا اس سے اس کی انسانیت چھین لی گئی ہے۔ لہٰذا، کوئی بھی انسان معصیت سے محفوظ نہیں، یہاں تک کہ انبیاء کرامؑ۔[68]

آیت اللہ جوادی آملی اس شبہ کے جواب میں انسان کے نفس جو کہ اس کا گوہر ہے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انسان کے گوہر (نفس) اس طرح بنایا گیا ہے کہ اس میں عصمت کی چوٹی پر چڑھنے کی صلاحیت موجود ہے؛ کیونکہ انسانی روح اپنے عروج کے سفر میں غلطی، بھولپن، غفلت اور جہالت سے محفوظ رہنے کی صلاحیت پا لیتی ہے۔ ان کی نظر میں، اگر کسی کا نفس روح خالص عقل اور صحیح اور کامل کشف و شہود کی وادی میں داخل ہوجائے تو وہ صرف حق اور سچ کو سمجھے گا اور کسی شک، غلطی، بھول چوک اور کوتاہی سے بچ جائے گا۔ لہذا ایسا شخص جس نے مادہ، وہم اور تخیل کی دنیا سے نکل کر حقائق کے منبع تک پہنچ گیا ہو، اس کا معصوم ہونا ممکن ہے۔[69]

  • عصمت کے نظرئے کا آغاز

ایک گروہ کے مطابق، ابتدائی اسلامی مآخذ میں عصمت کا تصور موجود نہیں تھا اور یہ ایک بدعت ہے جو اہل کتاب، قدیم ایران، تصوف یا زرتشت کی آکر اسلامی تعلیمات مین شامل ہوگئی ہے۔[70]
جواب میں کہا گیا ہے کہ انبیاء کی عصمت کا نظریہ صدر اسلام سے ہی مسلمانوں کے مابین رائج تھا اور اس کی جڑیں قرآن اور حضرت محمدؐ کی تعلیمات میں موجود ہیں۔[71] اہل کتاب عصمت کے نظریہ کے موجود نہیں ہوسکتے ہیں کیونکہ تورات میں پیغمبروںؑ کی طرف بدترین گناہ کی نسبت دی گئی ہے۔[72] ابھی تصوف ایجاد نہیں ہوا تھا اس وقت سے شیعوں کے درمیان عصمت کا نظریہ رائج تھا اسی لئے عصمت کا سرچمشہ تصوف نہیں ہوسکتا ہے۔[73] اگر فرض کریں کہ عصمت کا نظریہ اسلام اور زرتشت کا مشترک عقیدہ ہے تو بھی اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ایک نے دوسرے سے لیا ہو؛ بلکہ یہ اس وجہ سے ہے کہ تمام ادیانِ الہی حقیقت میں مشترک ہیں اور اصول میں ایک دوسرے سے مطابقت رکھتی ہیں۔[74]

  • مبینہ معصوموں کے رویے سے عدم مطابقت

بعض کا خیال ہے کہ عصمت ایک ایسا نظریہ ہے جو انبیاء اور ائمہ کے بارے میں ان کے طرز عمل سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔ بہت سے معاملات میں، وہ اپنے آپ کو گنہگار کے طور پر تعارف کرتے ہیں اور اللہ کی بارگاہ میں خود کو قصوروار ٹھہراتے ہیں۔ ان کو معصوم سمجھنا ایک ایسی چیز ہے جو ان کو ہی قبول نہیں تھی۔[75]

اس اشکال کے جواب میں امامیہ علما کی طرف سے متعدد جوابات دئے گئے ہیں:

  1. معصومین کا استغفار معصومین اللہ کی عظمت کی اعلی معرفت کی وجہ سے ہو۔[76]
  1. معصوم کا استغفار کسی گناہ کی وجہ سے نہیں بلکہ معصوم جس اعلی درجے پر فائز ہے اسے اپنے لئے گناہ سمجھتا ہے۔[77]
  1. معصومین سیر و سلوک کے ذریعے جس مرتبے پر پہنچتے ہیں اس سے نچلے مرتبے کی نسبت استغفار کرتے ہیں۔[78]
  1. ان کا استغفار گناہ کی وجہ سے نہیں بلکہ امت کے گناہ کی وجہ سے ہے اور پیغمبر و امام کی شفاعت کے پہلو سے۔[79]
  1. معصوم دوسروں کو گناہ کا اقرار اور توبہ کرنے کا طریقہ سکھاتا ہے۔[80]


کتاب شناسی

کتاب «عصمت از منظر فریقین‌»، بقلم سید علی حسینی میلانی.

عصمت کے بارے میں عربی اور فارسی زبان میں متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:

  • التَّنبیہ المعلوم؛ البرہان علی تَنزیہِ المعصوم عَنِ السَّہو و النِّسیان، بقلم شیخ حر عاملی؛
  • عصمت از منظر فریقین (شیعہ و اہل‌سنت)، بقلم سید علی حسینی میلانی؛
  • پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، تألیف احمدحسین شریفی و حسن یوسفیان.
  • عصمت از دیدگاہ شیعہ و اہل‌تسنن، بقلم فاطمہ محقق؛
  • عصمت، ضرورت و آثار، تالیف سید موسی ہاشمی تنکابنی؛
  • اندیشہ کلامی عصمت؛ پیامدہای فقہی و اصول فقہی، بقلم بہروز مینایی. اس کتاب میں فقہ اور اصول فقہ کے تناظر میں عقیدہ عصمت کے اثرات کو بیان کیا ہے۔[81]
  • منشأ عصمت از گناہ و خطا؛ نظریہ‌ہا و دیدگاہ‌ہا، بقلم عبدالحسین کافی.

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. حسینی میلانی، جَواہرُ الکلام فی معرفۃِ الامامۃِ و الامام، 1389شمسی، ج2، ص38-39۔
  2. ملاحظہ کریں:‌ طوسی، الاقتصاد فیما یَتَعَلَّق بالاعتقاد، 1496ھ، ص260، 350؛ علامہ حلی، کشفُ‌المراد، 1382شمسی، ص155، 184؛ فیاض لاہیجی، سرمایہ ایمان، 1372شمسی، ص90، 114۔
  3. ملاحظہ کریں: طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج2، ص13-134 و ج5،‌ ص78-80، ج11، ص162-164؛ سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج4، ص3-410؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج17، ص297-305.
  4. ضیائی‌فر، «تأثیر دیدگاہ‌ہای کلامی بر اصول فقہ»، ص323۔
  5. حسینی، «عصمت از دیدگاہ اہل کتاب (یہودیان و مسیحیان)»، وبگاہ آیندہ روشن۔
  6. مفید، تصحیحُ اعتقاداتِ الامامیہ، 1414ھ، ص128؛ سیدِ مرتضی، رسائلُ الشَّریف المرتضی، 1405ھ، ج3،‌ ص326؛ علامہ حلی، بابُ الحادی‌عشر، 1365شمسی، ص9۔
  7. قاضی عبدالجبار، شرحُ الاصولِ الخمسۃ، 1422ھ، ص529؛ تفتازانی، شرح‌المقاصد، 1409ھ، ج4، ص312-313۔
  8. فاضل مقداد، اللَّوامعُ الالہیہ، 1422ھ، ص242؛ ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، 1387شمسی، ص215۔
  9. سیدِ مرتضی، رسائلُ الشَّریف المرتضی، 1405ھ، ج3،‌ ص326؛ علامہ حلی، بابُ الحادی‌عشر، 1365شمسی، ص9؛ فاضل مقداد، اللَّوامعُ الاِلہیہ، 1422ھ، ص243۔
  10. علامہ حلی، البابُ الحادی‌عشر‏، 1365شمسی، ص9۔
  11. جرجانی، شرح‌المواقف، 1325ھ، ج8، ص280؛ تفتازانی، شرح‌المقاصد، 1409ھ، ج4، ص312-313۔
  12. جرجانی، شرح‌المواقف، 1325ھ، ج8، ص280۔
  13. طوسی، تلخیص‌المحصل، 1405ھ، ص369؛ جرجانی، شرح‌المواقف، 1325ھ، ج8، ص281؛ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج11، ص162؛ جوادی آملی، وحی و نبوت در قرآن، 1392شمسی، ص197؛ مصباح یزدی، راہ و راہنما شناسی، 1395شمسی، ص285-286۔
  14. سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج4، ص12-14؛ سبحانی، الالہیات، 1412ھ، ج3، ص158-159۔
  15. سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج4، ص20۔
  16. ملاحظہ کریں: ابن‌فارس، مُعجَمُ مَقاییسِ اللّغۃ، مکتب الاعلامِ الاسلامی، ج4، ص331؛ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، دار قلم، ص569؛ جوہری،‌ الصِّحاح، 1407ھ، ج5، ص1986؛‌ ابن‌منظور، لسان‌العرب، دار صادر، ج12، ص403-404.
  17. قدردان قراملکی، کلام فلسفی، 1383شمسی، ص388-390۔
  18. مفید، تصحیحُ الاعتقاداتِ الامامیہ، 1414ھ، ص128؛ سیدِ مرتضی، الذخیرہ، 1411ھ، ص189۔
  19. علامہ حلی، کشف‌المراد، 1382شمسی، ص186۔
  20. فاضل مقداد، اللَّوامع الاِلہیہ، 1422ھ، ص224؛ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج5، ص79، ج11، ص162-163، ج17، ص291؛ سبحانی، الالہیات، 1412ھ، ج4، ص159-161۔
  21. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج11، ص163۔
  22. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج5، ص79۔
  23. مصباح یزدی، راہ و راہنما شناسی، 1395شمسی، ص302۔
  24. مصباح یزدی، راہ و راہنما شناسی، 1395شمسی، ص303-304۔
  25. ر. ک. فضل‌اللہ، تفسیر من وحی القرآن، بیروت، 1419 ھ، ج‏4، ص 155–156۔
  26. ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، 1387شمسی، ص217۔
  27. علامہ حلی، کشف‌المراد، 1382شمسی، ص186؛ فاضل مقداد، اللَّوامع الاِلہیّہ، 1422ھ، ص243؛ جرجانی، شرح‌المواقف، 1325ھ، ج8، ص281۔
  28. جوادی آملی، سیرہ پیامبر اکرم ص در قرآن (ج9)، 1385شمسی، ص24۔
  29. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج11، ص162–163۔
  30. مصباح یزدی، در پرتو ولایت، 1383شمسی، ص53–63۔
  31. مصباح یزدی، در پرتو ولایت، 1383شمسی، ص57–58۔
  32. انواری، نور عصمت بر سیمای نبوت، 1397شمسی، ص52۔
  33. صادقی اردکانی، عصمت، 1388شمسی، ص19۔
  34. جرجانی، شرح المواقف، ص263
  35. تفتازانی، شرح المقاصد، ج5، ص50
  36. مصباح یزدی، راہ و راہنما شناسی، ص153و154
  37. ربانی گلپایگانی، کلام تطبیقی، 1385شمسی، ص94-98۔
  38. علامہ حلی، کشف‌المراد، 1382شمسی، ص155۔
  39. ملاحظہ کریں: آیہ ہفتم سورہ حشر۔
  40. ملاحظہ ہو: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص202-203؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ،‌ ج14، ص103؛ ج12، ص348، ج4، ص45؛ صدوق، عیونُ اخبارِ الرضا، 1378ھ، ج1، ص192-204۔
  41. کریمی، نبوت (پژوہشی در نبوت عامہ و خاصہ)، 1383شمسی، ص134؛ اشرفی و رضایی، «عصمت پیامبران در قرآن و عہدین»، ص87۔
  42. سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج5، ص51، 52؛ سبحانی، عصمۃ الانبیاء فی القرآن الکریم، 1420ھ، ص69، 70، 91-229؛ جوادی آملی، وحی و نبوت در قرآن، 1392شمسی، ص246-286؛ مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386شمسی، ج7، ص101-160۔
  43. میلانی، عصمت از منظر فریقین،‌ 1394شمسی، ص102و103۔
  44. میلانی، عصمت از منظر فریقین،‌ 1394شمسی، ص101-102۔
  45. ملاحظہ کریں: طوسی، الاقتصاد فیما یَتَعَلَّقُ بِالاعتقاد، 1496ھ، ص305؛ علامہ حلی، کشف‌المراد، 1382شمسی، ص184؛ فیاض لاہیجی، سرمایہ ایمان، 1372شمسی، ص114، سبحانی، الالہیات، 1412ھ، ج4، ص116۔
  46. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج25، ص209، 350، 351۔
  47. علامہ حلی، کشف‌المراد، 1382شمسی، ص184؛ جرجانی، شرح‌المواقف، 1325ھ، ج8، ص351۔
  48. قاضی عبدالجبار، المغنی، 1962-1965م، ج15، ص251، 255، 256، ج20، بخش اول، ص26، 84، 95، 98، 215، 323؛ جرجانی، شرح‌المواقف، 1325ھ، ج8، ص351؛ تفتازانی، شرح‌المقاصد، 1409ھ، ج5، ص249۔
  49. جرجانی، شرح‌المواقف، 1325ھ، ج8، ص351؛ تفتازانی، شرح‌المقاصد، 1409ھ، ج5، ص249۔
  50. ملاحظہ کریں: ابن‌تیمیہ، مِنہاجُ السُّنۃِ النَّبَویۃ، 1406ھ، ج2، ص429، ج3، ص381؛ ابن‌عبدالوہاب، رسالۃٌ فی الرَّدِ علی الرّافضۃ، ریاض، ص28؛‌ قفاری، اصولُ مذہبِ الشّیعۃِ الامامیہ، 1431ھ، ج2، ص775۔
  51. سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج4،‌ ص251۔
  52. فاضل مقداد،‌ اللَّوامع الاِلہیّہ، 1422ھ، ص332؛ مظفر، دلائلُ‌الصّدق، 1422ھ، ج4، ص220.
  53. ملاحظہ کریں: طوسی،‌ التِّبیان فی تفسیر القرآن، دار احیاء‌التراث العربی، ج3،‌ص236؛ طبرسی، مَجمع‌البیان، 1372شمسی، ج3،‌ ص100؛ بحرانی، منارالہدی، 1405ھ، ص113-114؛ مظفر،‌ دلائلُ‌الصّدق، 1422ھ، ج4، ص221.
  54. سید مرتضی، الشّافی فی الامامۃ، 1410ھ، ج3، ص134-135؛ بحرانی، منارالہدی، 1405ھ، ص646-647؛ سبحانی، الالہیات، 1412ھ، ج4، ص125.
  55. ملاحظہ کریں: علامہ حلی، کشف المراد، 1382شمسی، ص196؛ ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، 1387شمسی، ص274-280.
  56. ملاحظہ کریں: مفید،‌ المسائل الجارودیہ، 1413ھ، ص42؛ ابن عطیہ، ابہی المداد، 1423ھ، ج1، ص131؛‌ بحرانی، منار الہدی، 1405ھ، ص671۔
  57. میرحامد حسین، عَبَقات‌الانوار، ج23، ص655-656.
  58. سید مرتضی، الشافی فی الامامۃ، 1410ھ، ج4، ص95۔
  59. سید مرتضی، الشافی فی الامامۃ، 1410ھ، ج4، ص95۔
  60. مجلسی، بِحارالانوار، 1403ھ، ج11، ص124۔
  61. ملاحظہ ہو: محقق، عصمت از دیدگاہ شیعہ و اہل تسنن، 1391شمسی، ص130-132۔
  62. فیاض لاہیجی، گوہر مراد، 1383شمسی، ص425؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج22،‌ ص136۔
  63. ملاحظہ کریں: طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، دارُ احیاء‌ِ التُّراث العربی، ج10، ص50؛ طبرسی، مَجمع‌البیان، 1372شمسی، ج10، ص477۔
  64. ملاحظہ کریں: فیاض لاہیجی، گوہر مراد، 1383شمسی، ص426۔
  65. فرشتوں کی عصمت کے بارے میں ملاحظہ کریں: راستین و کہنسال، «عصمت فرشتگان، شواہد موافق و مخالف»، ص117-121۔
  66. ملاحظہ کریں: مجلسی، بِحارالانوار، 1403ھ، ج11، ص124؛ راستین و کہنسال، «عصمت فرشتگان، شواہد موافق و مخالف»، ص121۔
  67. مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)،1386شمسی، ج1،‌ ص167-168۔
  68. امین، ضُحَی‌الاسلام،‌ 2003م، ج3، ص229-230۔
  69. جوادی آملی، وحی و نبوت در قرآن، 1392شمسی، ص201-203۔
  70. ملاحظہ ہو: شریفی و یوسفیان، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، 1388، ص79-85۔
  71. شریفی و یوسفیان، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، 1388، ص80-82۔
  72. شریفی و یوسفیان، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، 1388، ص80-81۔
  73. شریفی و یوسفیان، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، 1388، ص83۔
  74. شریفی و یوسفیان، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، 1388، ص86۔
  75. فخر رازی، عصمۃ الانبیاء، 1409ھ، ص136؛ آلوسی، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، 1414ھ، ج12، ص26؛ قفاری، اصول مذہب الشیعۃ الامامیۃ، 1431ھ، ج2، ص794-796؛ دہلوی، تحفہ اثنی عشریہ، مکتبۃ الحقیقۃ، ص463۔
  76. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج25، ص210؛ کبیر مدنی شیرازی، رياض السالكين في شرح صحيفۃ سيد الساجدين، ج‏2، ص472؛ خمینی، شرح چہل حدیث، 1380شمسی، ص70؛ خمینی، جہاد اکبر، 1378شمسی، ص57؛ جوادی آملی، تفسیر موضوعی قرآن،1378شمسی، ج3، ص267۔
  77. اربلی، کشف الغمۃ، 1381ھ، ج2، ص253-255؛ خواجہ نصیرالدین طوسی، اوصاف الاشراف، 1373شمسی، ص26؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج25، ص210؛ خمینی، صحیفہ امام، ج20، ص269؛ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج6، ص367؛ سبحانی، الفکر الخالد، 1425ھ، ج1، صص432-437؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج20، ص134؛ مصباح یزدی، «چرایی اعتراف معصومان بہ قصور و کوتاہی»، ص8-10۔
  78. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج25، ص210؛ مجلسی، مرآۃ العقول، 1404ھ، ج12، ص113؛ خمینی، شرح چہل حدیث، 1380شمسی، ص343؛ مصباح یزدی، «چرایی اعتراف معصومان بہ قصور و کوتاہی»، ص11-14؛ ناییجی، آداب راز و نياز بہ درگاہ بى نياز، 1381شمسی، ص347۔
  79. کبیر مدنی شیرازی، رياض السالكين في شرح صحيفۃ سيد الساجدين، ج‏2، ص472؛ شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، دار احیاء التراث العربی، ج9، ص87۔
  80. مجلسی، مرآۃ العقول، 1404ھ، ج11، ص308؛‌ کبیر مدنی شیرازی، رياض السالكين في شرح صحيفۃ سيد الساجدين، ج‏2، ص472۔
  81. «اندیشہ کلامی عصمت‌ (پیامدہای فقہی و اصول فقہی)»، وبگاہ پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی؛ پژوہشکدہ فق و حقوق۔

نوٹ

  1. نفسانی ایک حالت کا نام ہے جو انسان کی روح میں داخل ہوتی ہے اور پھر ختم نہیں ہوتی ہے۔(جرجانی، التعریفات، 1412ھ، ص101)

مآخذ

  • ابن‌تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، مِنہاجُ السَّنۃِ النَّبویۃ فی نقضِ کلامِ الشّیعۃِ القَدَریّۃ، تحقیق محمد رشاد سالم، جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ، چاپ اول، 1406ھ/1986ء۔
  • ابن‌عبدالوہاب، محمد بن عبدالوہاب بن سلیمان، رسالۃٌ فی الرَّدِ علی الرّافضۃ، تحقیق ناصر بن سعد الرشید، ریاض، جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ، بی‌تا. (یہ رسالہ مؤلفات محمد بن عبد الوہاب کی بارہویں جلد میں چھپ گیا ہے)
  • ابن‌عطیہ، مَقاتِل، اَبہی المداد فی شرح مؤتمر علماء بغداد، شرح و تحقیق محمدجمیل حمود، بیروت، مؤسسۃ‌الاعلمی، چاپ اول، 1423ھ۔
  • ابن‌منظور، محمد بن مکرم، لسان‌العرب، دار صادر، چاپ سوم، بی‌تا.
  • اشرفی، عباس و ام‌البنین رضایی، «عصمت پیامبران در قرآن و عہدین»، در فصلنامہ پژوہشنامہ معارف قرآنی، شمارہ 12، 1392ہجری شمسی۔
  • اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ، تبریز، بنی‌ہاشمی، 1381ھ۔
  • آلوسی، سید محمود، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، بیروت، دارالفکر، 1414ھ۔
  • امین، احمد، ضُحَی‌الاسلام،‌ قاہرہ ، مکتبۃالاسرہ، 2003ء۔
  • انواری، جعفر، نور عصمت بر سیمای نبوت؛ پاسخ بہ شبہات قرآنی، قم، مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، چاپ اول، 1397ہجری شمسی۔
  • بحرانی، شیخ علی، منار الہُدیٰ فی النَّصِ علیٰ امامۃِ الائمۃِ الاِثنیٰ عشر، تحقیق عبدالزہرا خطیب، بیروت، دارالمنتظر، 1405ھ۔
  • ‌ تفتازانی، سعدالدین، شرح‌المقاصد، تحقیق و تعلیق عبدالرحمن عمیرہ، قم، شریف رضی، چاپ اول، 1409ھ۔
  • جرجانی، میرسید شریف، شرح‌المَواقف، تحقیق بدرالدین نعسانی، قم، شریف رضی، چاپ اول، 1325ھ۔
  • جوادی آملی، عبداللہ، تفسیر موضوعی، قم، نشر اسراء، 1376ہجری شمسی۔
  • جوادی آملی، عبداللہ، سیرہ پیامبر اکرم ص در قرآن (ج9)، قم، مرکز نشر اسراء، 1385ہجری شمسی۔
  • جوادی آملی، عبداللہ، وحی و نبوت در قرآن (تفسیر موضوعی قرآن کریم، ج3)، تحقیق و تنظیم علی زمانی قمشہ‌ای، قم،‌ نشر اِسراء، چاپ ششم، 1392ہجری شمسی۔
  • حسینی، «عصمت از دیدگاه اهل‌کتاب (یهودیان و مسیحیان)»، وبگاہ آیندہ روشن، تاریخ اشاعت: 1 اردیبہشت 1388شمسی، تاریخ مشاہدہ: 12 اردیبہشت 1402ہجری شمسی۔
  • حسینی میلانی، سید علی، جواہر الکلام فی معرفۃِ الامامۃِ و الامام، قم، مرکز الحقایق الاسلامیہ، 1389ہجری شمسی۔
  • حسینی میلانی، سیدعلی، عصمت از منظر فریقین (شیعہ و اہل‌سنت)،‌ قم، مرکز الحقایق الاسلامیہ، 1394ہجری شمسی۔
  • خمینی، روح اللہ، جہاد اکبر، تہران، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1378ہجری شمسی۔
  • خمینی، روح اللہ، شرح چہل حدیث، تہران، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1380ہجری شمسی۔
  • خمینی، روح اللہ، صحیفہ امام، تہران، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1385ہجری شمسی۔
  • خواجہ نصیرالدین طوسی، محمد بن محمد، اوصاف الاشراف، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامي سازمان چاپ و انتشار، 1373ہجری شمسی۔
  • راستین، امیر و علیرضا کہنسال، «عصمت فرشتگان؛ شواہد موافق و مخالف»، فصلنامہ اندیشہ نوین دینی، شمارہ 38، پاییز 1393ہجری شمسی۔
  • دہلوی، عبدالعزیز، تحفہ اثنی عشری، استانبول، مکتبۃ الحقیقۃ، بی‌تا.
  • ربانی گلپایگانی، علی، امامت در بینش اسلامی، قم، بوستان کتاب، چاپ دوم، 1387ہجری شمسی۔
  • ربانی گلپایگانی، علی، کلام تطبیقی، قم، انتشارات مرکز جہانی علوم اسلامی، 1385ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، الالہیاتُ علیٰ ہُدَی الکتابِ و السّنۃِ و العقل، قم، المرکز العالمی للدراسات الاسلامیۃ، چاپ اول، 1412ھ۔
  • سبحانی، جعفر، عصمۃُ الانبیاء فی القرآن الکریم، قم، موسسہ امام صادق(ع)، 1420ھ۔
  • سبحانی، جعفر، الفكر الخالد في بيان العقائد، قم، موسسۃ الامام الصادق (ع)، 1425ھ۔
  • سبحانی، جعفر، منشور جاوید، قم، موسسہ امام صادق(ع)، 1383ہجری شمسی۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، الذخیرۃُ فی العلم الکلام، قم، نشر اسلامی، 1411ھ۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، الشّافی فی الامامۃ، تحقیق و تعلیق سید عبد الزہرا حسینی، تہران، مؤسسہ الصادق(ع)، چاپ دوم، 1410ھ۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، رَسائلُ الشَّریفِ المرتضی، قم، دارالکتب، 1405ھ۔
  • شریفی، احمدحسین و حسن یوسفیان، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، تہران، پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، 1388ہجری شمسی۔
  • صادقی اردکانی، محمدامین، عصمت، قم، انتشارات حوزہ علمیہ، 1388ہجری شمسی۔
  • صدوق،‌ محمد بن علی بن بابویہ، عیونُ اخبارِ الرّضا(ع)، تحقیق مہدی لاجوردی، تہران،‌ نشر جہان، چاپ اول، 1378ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، نشر اسلامی، 1417ھ۔
  • طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، اعلمی، 1390ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مَجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران،‌ ناصرخسرو، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
  • طوسی، نصیرالدین، تلخیصُ المُحَصّل المعروف بنقدِ المحصّل، بیروت، دارالضواء، چاپ دوم، 1405ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، الاقتصاد فیما یَتَعَلَّق بالاعتقاد، بیروت، دارالاضواء، چاپ دوم، 1406ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، التِّبیان فی تفسیرِ القرآن، بیروت، دار احیاء‌التراث العربی، چاپ اول، بی‌تا.
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، الباب الحادی عشر، تہران، موسسہ مطالعات اسلامی، 1365ہجری شمسی۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد قسم الالہیات، بہ کوشش جعفر سبحانی، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، چاپ دوم، 1382ہجری شمسی۔
  • فاضل مقداد،‌ مقداد بن عبداللہ، اللَّوامعَ الالہیَّہ فی المباحثِ الکلامیۃ، تحقیق و تعلیق شہید قاضی طباطبایی، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، چاپ دوم، 1422ھ۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التَّفسیرُ الکبیر (مَفاتیح‌الغیب)، بیروت، دار احیاء‌التراث العربی، چاپ سوم، 1420ھ۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، عصمۃ الانبیاء، بیروت، دارالکتب العلمیۃ،‌ 1409ھ۔
  • فضل‌اللہ، سید محمدحسین، تفسیر من وحی القرآن، بیروت، دار الملاک للطباعۃ و النشر، 1419ھ۔
  • فیاض لاہیجی، عبدالرزاق، سرمایہ ایمان در اصول اعتقادات، تصحیح صادق لاریجانی، تہران، انتشارات الزہراء، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
  • فیاض لاہیجی، عبدالرزاق، گوہر مراد، تہران، نشر سایہ، چاپ اول، 1383ہجری شمسی۔
  • قاضی عبدالجبار، عبدالجبار بن احمد، المُغنی فی اَبوابِ التّوحید و العدل، تحقیق جورج قنواتی، قاہرہ، الدار المصریہ، 1962-1965ء۔
  • قدردان قراملکی، محمدحسن، کلام فلسفی، قم، وثوق، 1383ہجری شمسی۔
  • قفاری، ناصر عبداللہ علی، اصولُ مذہبِ الشّیعۃِ الامامیہ؛ عرض و نقد، جیزہ، دارالرضا، چاپ چہارم، 1431ھ/2010ء۔
  • کبیر مدنی شیرازی، سيد على خان بن احمد، رياض السالكين في شرح صحيفۃ سيد الساجدين، قم، دفتر انتشارات اسلامی،‌ 1409ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بِحار الاَنوارِ الجامعۃُ لِدُرَرِ اخبارِ الائمۃِ الاطہار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، مرآۃ العقول فی شرح اخبار آل الرسول، قم، دار الكتب الإسلاميّۃ، 1404ھ۔
  • ‌‌ محقق، فاطمہ، عصمت از دیدگاہ شیعہ و اہل‌تسنن، قم، آشیانہ مہر، چاپ اول، 1391ہجری شمسی۔
  • مصباح یزدی، محمدتقی، در پرتو ولایت، محمدمہدی نادری، قم، مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی (رہ)، 1383ہجری شمسی۔
  • مصباح یزدی، محمدتقی، راہ و راہنمایی شناسی، قم، انتشارات مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی(رہ)، 1395ہجری شمسی۔
  • مصباح یزدی، محمد تقی، «چرایی اعتراف معصومان بہ قصور و کوتاہی»، مجلہ معرفت، شمارہ 147، اسفند 1388ہجری شمسی۔
  • مفید، محمد بن نعمان، تصحیحُ الاعتقاداتِ الامامیہ، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ دوم، 1414ھ۔
  • مفید،‌ محمد بن محمد، المسائلُ الجارودیہ، قم، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، چاپ اول، 1413ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ اول، 1386ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1374ہجری شمسی۔
  • ‌مظفر، محمدحسین، دلائل‌الصِّدق، قم، مؤسسہ آل‌البیت(ع)، چاپ اول، 1422ھ۔
  • ناییجی، محمد حسین، آداب راز و نياز بہ درگاہ بى نياز (ترجمہ عدۃ الداعی ابن فہد حلی)، تہران، نشر کیا، 1381ہجری شمسی۔