خلفائے ثلاثہ
خلفائے ثلاثہ یا تین خلفاء، سے مراد ابوبکر، عمر اور عثمان ہیں، جنہیں پیغمبر اسلامؐ کے بعد بالترتیب مسلمانوں کے خلیفہ مقرر کئے گئے۔ شیعہ ان تین خلفاء کی خلافت کو پیغمبر اکرمؐ کی ہدایات اور وصیتوں کے خلاف اور غاصبانہ سمجھتے ہوئے حضرت فاطمہ کی شہادت جیسے واقعات کے لئے پیش خیمہ قرار دیتے ہیں۔ خلفائے سہگانہ کی خلافت کو حکومت کے بارے میں اہل سنت کی سیاسی فکر کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔
امام علیؑ خلفائے ثلاثہ کی خلافت کو غیر مشروع اور اپنے حق پر غاصبانہ قبضہ قرار دیتے تھے، لیکن باوجود اس کے اسلامی معاشرے کی مصلحتوں کی خاطر ان کے ساتھ تعاون کرتے رہے۔
خلفائے سہگانہ کی خلافت کی مشروعیت کو ثابت کرنے کے لئے مختلف دلائل پیش کئے گئے ہیں، جیسے اہل حل و عقد کا اجماع، سابقہ خلیفہ کی طرف سے نامزدگی اور منتخب کمیٹی کا فیصلہ۔ اسی طرح عوام کی تائید حاصل کرنے کے لئے یہ اوصاف بھی بیان کئے گئے ہیں کہ خلیفہ زیادہ عمر رسیدہ ہو، قریشی ہو، مہاجر ہو، اور یہ کہ خلافت اور نبوت ایک ہی خاندان میں جمع نہیں ہونی چاہیئے۔
تعریف اور اہمیت
| خلفائے ثلاثہ | ||||
|
نام |
دورہ خلافت
|
انتخاب کا طریقہ
|
اہم واقعات
|
|
"خلفائے ثلاثہ" وہ اصطلاح ہے جو بعض شیعہ کتابوں میں پہلے تین خلفا، یعنی ابوبکر بن ابی قحافہ، عمر بن خطاب اور عثمان بن عفان کے لئے استعمال کی جاتی ہے، جنہوں نے پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد خلافت سنبھالی۔[1]
شیعہ ان تینوں خلفاء کی خلافت کو پیغمبر اکرمؐ کی ہدایات اور وصیتوں کے خلاف قرار دیتے ہیں، وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ نے اپنی رحلت سے پہلے امام علیؑ کو اپنا جانشین اور خلیفہ مقرر کیا تھا،[2] لیکن ان تین افراد نے خلافت پر غاصبانہ قبضہ کر لیا۔[3]
شیعہ اپنے مدعا پر دلیل کے طور پر پیغمبر اکرمؐ کی زندگی کے آخری ایام میں کی جانے والی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں منجملہ ان میں واقعہ غدیر میں حضرت علی کی ولایت اور امامت کا اعلان،[4] حدیث ثقلین کی بار بار تکرار[5] اور سپاہ اسامہ کو مدینہ سے باہر بھیجنا شامل ہیں۔[6]
شیعہ ان خلفاء کی خلافت کو پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد رونما ہونے والے تلخ واقعات جیسے رسول کی اکلوتی بیٹی حضرت فاطمہ کی شہادت،[7] غصب فدک کا واقعہ[8] اور واقعہ کربلا کے لئے پیش خیمہ قرار دیتے ہیں۔[9] فدک کی زمین کا غصب، اور آخرکار واقعۂ کربلا۔
خلفائے سہگانہ کی خلافت اور ان کے سیاسی و سماجی اقدامات کو حکومت اور سیاسی نظام سے متعلق اہل سنت کی سیاسی فکر کی بینیاد قرار دی گئی ہے۔ اہل سنت منابع میں اس نظریے کو اہل سنت کا نظریہ خلافت یا امامت سے تعبیر کی جاتی ہے۔ اس نظریے کے مطابق خلافت پہلے پہل صرف دینی و شرعی معاملات کی نگرانی تھی، لیکن رفتہ رفتہ حکومتی و انتظامی امور بھی خلیفہ کے دائرے اختیار میں شامل ہو گئے اور خلافت کو حکومت کے مساوی یا مترادف سمجھا جانے لگا۔[10]
امام علیؑ کا موقف
کہا جاتا ہے کہ امام علیؑ نے کبھی بھی خلفائے ثلاثہ کی خلافت کو جائز قرار نہیں دیا اور ہمیشہ اسے اپنے حق پر غاصبانہ قبضہ قرار دیا ہے،[11] جیسا کہ خطبہ شقشقیہ میں اس پر زور دیا ہے۔[12]
خلفائے ثلاثہ کی خلافت سے متعلق امام علی کی ناراضگی کے کچھ شواہد بیان کئے گئے ہیں ان میں: سقیفہ میں ہونے والے انتخاب کی مخالفت،[13] ابوبکر کی خلافت کے ابتدائی ایام یا مہینوں تک ان کی بیعت نہ کرنا یا نہ چاہتے ہوئے مجبوری کے تحت بیعت کرنا،[14] اور عثمان کے انتخاب کے لئے بنائی گئی چھ رکنی شوریٰ پر ناراضگی کا اظہار۔[15]
امام علی کی زندگی کا ایک بڑا حصہ ان خلفا کے دور میں 25 سالہ گوشہ نشینی کی حالت میں گزرا۔[16] یہ زمانہ امام علیہ السلام پر سختیوں اور تلخیوں سے بھرپور تھا اور اسے "تقیۂ مداراتی" بھی کہا جاتا ہے۔[17] باوجود اس کے، امام علیؑ نے مسلمانوں کے اتحاد اور اسلام کی مصلحت کی خاطر خلفاء سے تعاون کیا[18] اور جہاں ضرورت پیش آئی،[19] نظامی[20] اور فقہی[21] میدان میں خلفاء کی مدد اور ان کے ساتھ تعاون کیا۔[22]
اہل سنت کے یہاں خلافت کی مشروعیت
خلفائے ثلاثہ اپنی خلافت کی مشروعیت کو انتخاب کی نوعیت اور خلیفہ کے اوصاف نیز نبوت اور خلافت کا ایک خاندان میں جمع نہ ہونے کے فرضیے کی بنیاد پر ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
انتخاب کی نوعیت
"خلفائے ثلاثہ کے انتخاب میں بنیادی طور پر تین طریقے اختیار کیے گئے: پہلا یہ کہ بعض لوگوں کے ذریعے انتخاب کیا جائے جسے اجماع اہل حل و عقد کہا جاتا ہے؛ دوسرا یہ کہ پچھلا خلیفہ اپنے بعد کے خلیفہ کو نامزد کرے؛ اور تیسرا یہ کہ ایک شورا یا کمیٹی کے ذریعے انتخاب ہو۔"[23]
دینوری اپنی کتاب الامامۃ والسیاسۃ میں نقل کرتے ہیں کہ سقیفہ بنی ساعدہ کے واقعے کے بعد ابوبکر نے لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے عباس بن عبد المطلب سے کہا کہ رسول اللہؐ نے لوگوں کے معاملات خود انہی کے سپرد کیے تھے اور انہوں نے مجھے اپنا پہلا خلیفہ منتخب کیا ہے، لہٰذا کسی کو مخالفت کا حق نہیں۔ در حقیقت ابوبکر نے اس استدال کے ذریعے عباس سے اپنی بیعت کا مطالبہ کیا۔[24] اہلِ سنت ابوبکر کی اسی بات کو بنیاد بنا پر یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے اپنے بعد کوئی جانشین مقرر نہیں کیا تھا اور امت نے اجماع کے ذریعے خلیفہ کا انتخاب کیا تھا۔[25]
پچھلے خلیفہ کے ذریعے خلیفہ کی نامزدگی، خلیفہ کے انتخاب کا یہ دوسرا اصول اور طریقہ تھا جسے خلیفہ دوم کی خلافت کی مشروعیت کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ تاریخی منابع کے مطابق ابوبکر نے اپنی وفات کے وقت وصیت لکھ کر خلافت کو عمر کے سپرد کر دیا، وہ اپنے بعد خلیفہ کے انتخاب کو اپنا وظیفہ سمجتھتے تھے تاکہ امت بے سرپرست نہ رہ جائے۔[26] شیعہ محققین کے نزدیک یہ طریقہ خود اس اصول کی نفی کرتا ہے جس پر خلیفہ اول کے انتخاب کا دارومدار تھا اور جس پر خود ابوبکر نے زور دیا تھا۔[27]
خلیفہ کے انتخاب کے لیے چھ رکنی کمیٹی کی تشکیل، خلیفہ کے انتخاب کا یہ تیسرا اور آخری طریقہ ہے جسے خلیفہ دوم نے خلیفہ سوم کی تعین کے لیے اختیار کیا۔ عمر نے اپنی وفات کے وقت جب لوگوں نے اس سے خلیفہ مقرر کرنے کی درخواست کی، کہا: اگر میں کسی کو نامزد نہ کروں تو میں سب سے بہترین ہستی یعنی رسول اللہؐ کے طریقے پر ہوں، اور اگر مقرر کروں تو پھر بھی بہترین یعنی ابوبکر کے طریقے پر ہوں۔[28] یوں عمر نے خلیفہ کے انتخاب کے لئے ایک نیا طریقہ وضع کیا اور اس کام کی ذمہ داری صحابہ میں سے چھ اشخاص کے سپرد کیا، اس چھ رکنی کمیٹی کی تشکیل کے نتیجہ میں عثمان بن عفان مسلمانوں کا تیسرا خلیفہ منتخب ہوا۔[29]
خلیفہ کے اوصاف
"خلفائے ثلاثہ کی خلافت کی مشروعیت کو ثابت کرنے کے لیے بعض اوصاف کو دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جن میں قریشی ہونا، مہاجرین میں سے ہونا اور عمر میں بڑا ہونا شامل ہیں۔"[30]
تاریخی احادیث کے مطابق سقیفہ کے واقعے میں انصار اور مہاجرین کے درمیان خلافت کے حصول پر اختلاف پیدا ہوا تو ابوبکر نے ایک روایت کے حوالے سے یہ جملہ کہا: «الائمّۃ من قریش» (یعنی پیشوا قریش میں سے ہوں گے) اور قریش میں سے خلیفہ منتخب کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ جب عمر نے بھی اس بات کی تائید کی تو یہ مناقشہ ختم ہوگیا۔[31]
اسی طرح عمر میں بڑے ہونے کو بھی خلافت کے جواز کی ایک دلیل قرار دیا گیا۔ خلفائے ثلاثہ اور بعض قریبی صحابہ نے امام علیؑ کی خلافت کی مخالفت میں اس استدلال کو پیش کیا۔ کہا گیا ہے کہ ابوعبیدہ جراح نے امام علیؑ سے کہا کہ آپ عمر میں کم سن ہیں، لہٰذا خلافت کا معاملہ بڑوں کے سپرد کیجیے اور ابوبکر کی بیعت کر لیجیے۔[32] یہی استدلال عمر اور عثمان سے بھی نقل ہوا ہے۔[33]
نبوت و خلافت کا ایک خاندان میں جمع نہ ہونا
رسول اکرمؐ کی رحلت کے بعد امام علیؑ اور ابوبکر کے درمیان ایک مناظرہ ہوا جس میں خلیفہ اول نے اگرچہ علی بن ابی طالبؑ کی خلافت کے لیے شایستگی کو تسلیم کیا، لیکن امام علیؑ کو خلافت سے دور رکھنے کے لئے یہ دلیل پیش کی کہ میں نے رسول اللہؐ سے سنا ہے کہ خدا نے خلافت اور نبوت دونوں کو اہل بیتؑ میں یکجا نہیں رکھا ہے۔ اس بات کے اثبات کے لیے اس نے عمر، ابوعبیدہ جراح، سالم (جو حذیفہ کے منہ بولے بیٹے تھے) اور معاذ بن جبل سے بھی تائید لی۔[34] بیان کیا گیا ہے کہ امام علیؑ نے ان کے اس دعوے کے جواب میں کہا کہ تم لوگ دراصل اس پیمان پر عمل کر رہے ہو جو تم لوگوں نے خانۂ کعبہ کے پاس کیا تھا اور وہ خلافت کو اہل بیتؑ تک نہیں پہنچنے دینا تھا۔[35]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج28، ص318؛ ج29، ص541؛ امینی، الغدیر، 1416ھ، ج9، ص515؛ بحرانی، الانصاف فی النص علی الائمۃ الاثنی عشر، 1378ش، ج2، ص539.
- ↑ مادلونگ، جانشین حضرت محمدؐ، 1377ش، ص13۔
- ↑ مظفر، دلائل الصدق، 1422ھ، ج6، ص244؛ رستمیان، حاکمیت سیاسی معصومان، 1381ش، ص31۔
- ↑ ابناثیر، أُسد الغابۃ، دار الشعب، ج5، ص253؛ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج8، ص27۔
- ↑ شیخ مفید، الأمالی، 1413ھ، ص135؛ ابنحجر ہیتمی، الصواعق المحرقہ، 1417ھ، ج2، ص438 و 440۔
- ↑ واقدی، المغازی للواقدی، 1409ھ، ج3، ص1117؛ شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص180۔
- ↑ عاملی، رنجہای حضرت زہرا(س)، 1382ش، ص115۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص543؛ شیخ مفید، المقنعۃ، 1410ھ، ص289 و 290۔
- ↑ مریجی، «عاشورا پیامد تغییر ارزشہا»، ص17؛ عبدالمحمدی، «ریشہہاى فرہنگى، سیاسى و اجتماعى قیام امام حسین(علیہ السلام)»، ص45۔
- ↑ حاجیبابایی، «رویکردی تاریخی بہ تحول مفہوم خلافت در عصر خلفای سہگانہ»، ص23-25۔
- ↑ ابنمیثم بحرانی، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج1، ص251۔
- ↑ جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، 1380ش، ص80۔
- ↑ سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس، 1420ھ، ج1، ص153-155؛ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص124؛ عسکری، سقیفہ: بررسی نحوہ شکلگیری حکومت پس از پیامبر، 1387ش، ص99؛ طبری، تاریخ طبری، 1387ھ، ج3، ص202۔
- ↑ عسکری، نقش عایشہ در تاریخ اسلام، 1390ش، ج1، ص105؛ عاملی، الصحیح من سیرۃ الإمام علی علیہالسلام، 1430ھ، ج9، ص308؛ بیضون، رفتارشناسی امام علی در آیینہ تاریخ، 1379ش، ص34۔
- ↑ طبری، تاریخ طبری، 1387ھ، ج3، ص296-302؛ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص162۔
- ↑ رفیعی، زندگی ائمہ(ع)، پژوہشکدہ تحقیقات اسلامی، ص34-35۔
- ↑ موسوی، مبانی فقہی تقیہ مداراتی، 1392ش، ص120۔
- ↑ سبحانی، فروغ ولایت، 1376ش، ص166۔
- ↑ مادلونگ، جانشین حضرت محمد(ص)، 1377ش، ص21۔
- ↑ مسعودی، مروج الذہب، 1425ھ، ج2، ص242-244۔
- ↑ بیہقی، السنن الکبری، 1424ھ، ج7، ص727۔
- ↑ دانش، «تعامل امام علی(ع) با خلفا در جہت وحدت اسلامی»، ص96-111۔
- ↑ اسلامی علیآبادی و توران، «آراء و مبانی خلفای سہگانہ در مشروعیتبخشی بہ خلافت خود و یکدیگر»، ص41-46۔
- ↑ دینوری، الامامۃ والسیاسۃ، 1410ھ، ج1، ص33۔
- ↑ ابنتیمیہ، منہاج السنۃ النبویۃ، 1406ھ، ج1، ص126۔
- ↑ طبری، تاریخ طبری، 1387ھ، ج3، ص433؛ دینوری، الامامۃ والسیاسۃ، 1410ھ، ج1، ص19۔
- ↑ اسلامی علیآبادی و توران، «آراء و مبانی خلفای سہگانہ در مشروعیتبخشی بہ خلافت خود و یکدیگر»، ص45۔
- ↑ ابنسعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج3، ض261۔
- ↑ اسلامی علیآبادی و توران، «آراء و مبانی خلفای سہگانہ در مشروعیتبخشی بہ خلافت خود و یکدیگر»، ص46۔
- ↑ اسلامی علیآبادی و توران، «آراء و مبانی خلفای سہگانہ در مشروعیتبخشی بہ خلافت خود و یکدیگر»، ص46۔
- ↑ دینوری، الامامۃ والسیاسۃ، 1410ھ، ج1، ص25؛ طبری، تاریخ طبری، 1387ھ، ج3، ص219-220؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1959م، ج5، ص584۔
- ↑ دینوری، الامامۃ والسیاسۃ، 1410ھ، ج1، ص19۔
- ↑ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج2، ص158؛ طبری، تاریخ طبری، 1387ھ، ج3، ص231۔
- ↑ طبری، تاریخ طبری، 1387ھ، ج3، ص229۔
- ↑ بحرانی، غایۃ المرام، 1422ھ، ج5، ص336۔
مآخذ
- ابناثیر، اسد الغابہ، تحقیق محمد ابراہیم بنا، بیروت، دار الشعب، بیتا۔
- ابنتیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، منہاج السنۃ النبویۃ، تحقیق محمد رشاد سالم، مصر، موسسۃ قرطبۃ، 1406ھ۔
- ابنحجر ہیتمی، احمد بن محمد، الصواعق المحرقۃ علی اہل الرفض والضلال والزندقہ، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، چاپ اول، 1417ھ۔
- ابنسعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1410ھ۔
- ابنمیثم بحرانی، میثم بن علی، شرح نہج البلاغہ، تہران، دفتر نشر کتاب، چاپ دوم، 1404ھ۔
- اسلامی علیآبادی، طاہرہ، و امداد توران، «آراء و مبانی خلفای سہگانہ در مشروعیتبخشی بہ خلافت خود و یکدیگر»، در فصلنامہ پژوہشنامہ تاریخ، شمارہ 51، 1397ہجری شمسی۔
- امینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب والسنۃ والأدب، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیۃ، 1416ھ۔
- بحرانی، سید ہاشم، الانصاف فی النص علی الائمۃ الاثنی عشر(ع)، ترجمہ سید ہاشم رسولی محلاتی، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، 1378ہجری شمسی۔
- بحرانی، سید ہاشم، غايۃ المرام وحجۃ الخصام في تعيين الإمام من طريق الخاص والعام، بیروت، مؤسسۃ التاریخ العربی، 1422ھ۔
- بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الأشراف، تحقیق محمد حمید اللہ، قاہرہ (مصر)، دار المعارف، 1959ء۔
- بیضون، ابراہیم، رفتارشناسی امام علی در آیینہ تاریخ، ترجمہ علیاصغر محمدی سیجانی، قم، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، 1379ہجری شمسی۔
- بیہقی، احمد بن الحسین، السنن الکبری، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1424ھ۔
- جعفری، سید حسین محمد، تشیع در مسیر تاریخ، ترجمہ سید محمدتقی آیتاللہی، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، 1380ہجری شمسی۔
- حاجیبابایی، مجید، «رویکردی تاریخی بہ تحول مفہوم خلافت در عصر خلفای سہگانہ»، در فصلنامہ پژوہشنامہ تاریخ اسلام، شمارہ 8، 1391ہجری شمسی۔
- دانش، اسماعیل، «تعامل امام علی(ع) با خلفا در جہت وحدت اسلامی»، در فصلنامہ اندیشہ تقریب، شمارہ 4، 1384ہجری شمسی۔
- دینوری، ابنقتیبہ، الامامۃ والسیاسۃ، تحقیق علی شیری، بیروت، دار الاضواء، 1410ھ۔
- رستمیان، محمدعلی، حاکمیت سیاسی معصومان، قم، دبیرخانہ مجلس خبرگان رہبری، 1381ہجری شمسی۔
- رفیعی، علی، زندگی ائمہ(ع)، تہران، پژوہشکدہ تحقیقات اسلامی، بیتا۔
- سبحانی، جعفر، فروغ ولایت، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1376ہجری شمسی۔
- سلیم بن قیس ہلالی، کتاب سلیم بن قیس الہلالی، قم، نشر الہادی، 1420ھ۔
- شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الأمالی، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1413ھ۔
- شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الإرشاد فی حجج اللہ علی العباد، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1413ھ۔
- شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، المقنعۃ، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، چاپ دوم، 1410ھ۔
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری: تاریخ الامم والملوک، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، دار التراث، 1387ھ۔
- عاملی، سید جعفر مرتضی، الصحیح من سیرۃ الإمام علی علیہ السلام، بیروت، المرکز الإسلامی للدراسات، 1430ھ۔
- عاملی، سید جعفر مرتضی، رنجہای حضرت زہرا(س)، ترجمہ محمد سپہری، قم، تہذیب، 1382ہجری شمسی۔
- عبدالمحمدی، حسین، «ریشہہاى فرہنگى، سیاسى و اجتماعى قیام امام حسین(علیہ السلام)»، در ماہنامہ معرفت، شمارہ 67، تیر 1382ہجری شمسی۔
- عسکری، مرتضی، سقیفہ: بررسی نحوہ شکلگیری حکومت پس از رحلت پیامبر اکرم، قم، دانشکدہ اصول الدین، 1387ہجری شمسی۔
- عسکری، مرتضی، نقش عایشہ در تاریخ اسلام، قم، مؤسسہ علمی فرہنگی علامہ عسکری، 1390ہجری شمسی۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق و تصحیح علیاکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
- مادلونگ، ویلفرد، جانشینی حضرت محمد(ص)، ترجمہ احمد نمایی و دیگران، مشہد، بنیاد پژوہشہای اسلامی آستان قدس رضوی، 1377ہجری شمسی۔
- مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر أخبار الأئمۃ الأطہار، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1403ھ۔
- مریجی، شمساللہ، «عاشورا پیامد تغییر ارزشہا»، در ماہنامہ معرفت، شمارہ 56، مرداد 1381ہجری شمسی۔
- مسعودی، ابوالحسن بن علی، مروج الذہب ومعادن الجوہر، بیروت، المکتبۃ العصریۃ، 1425ھ۔
- مظفر، محمدحسن، دلائل الصدق لنہج الحق، قم، موسسۃ آل البیت علیہم السلام لإحیاء التراث، 1422ھ۔
- موسوی، سید محمدیعقوب، مبانی فقہی تقیہ مداراتی، قم، مرکز فقہی ائمہ اطہار(ع)، 1392ہجری شمسی۔
- واقدی، محمد، المغازی، بہ کوشش مارسدن جونز، لبنان، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1409ھ۔
- یعقوبی، احمد بن اسحاھ، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، بیتا۔