امام علیؑ کا قاضی شریح کے نام خط

ویکی شیعہ سے
امام علیؑ کا قاضی شریح کے نام خط
امام علیؑ کا قاضی شریح کے نام خط
امام علیؑ کا شریح قاضی کے نام خط کے 5ویں ہجری کا خطی نسخہ
امام علیؑ کا شریح قاضی کے نام خط کے 5ویں ہجری کا خطی نسخہ
حدیث کے کوائف
موضوعحکومتی عمال کی نگرانی
صادر ازحضرت امام علیؑ
اعتبارِ سندمعتبر
شیعہ مآخذنہج البلاغہامالی صدوقاربعین شیخ بہائی
اہل سنت مآخذتذکرۃ الخواص • دستور معالم الحکم
مشہور احادیث
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل


امام علی کا قاضی شُرَیح کے نام خط سے مراد امام علیؑ (ع) کا وہ ملامت آمیز خط ہے جسے آپؑ نے کوفہ میں اس وقت کے قاضی شریح بن حارث کو ارسال کیا جس میں شریح کو ایک مہنگا مکان خریدنے پر اس کی ملامت کی گئی ہے۔ اس خط میں امام علیؑ نے دنیا کی بے وقعتی اور قیامت کے حساب و کتاب کے بارے میں وعظ و نصیحت کی ہے۔ اس کے علاوہ، ایک حکومتی عامل ہونے کے ناطے شریح سے توقع کی گئی ہے کہ وہ پُرتعیش زندگی گزارنے سے پرہیز کرے۔ اس خط کو حکمرانی کے اصولوں میں سے ایک شمار کیا گیا ہے جس کے مطابق حاکم کو حکومتی امور میں اپنے عمال کے ساتھ فیصلہ کن سلوک کرنا چاہیے۔

یہ خط نہج البلاغہ میں مذکور مکتوبات کا تیسرا خط ہے۔ یہ خط نہج البلاغہ کے علاوہ دیگر کتب جیسے امالی شیخ صدوق اور کتاب اربعین شیخ بہائی میں بھی آیا ہے۔ نیز بعض اہل سنت کی کتب جیسے قاضی قضاعی (متوفی: 454ھ) کی کتاب "دستور معالم الحکم" اور سبط بن جوزی (متوفی: 454ھ) کی کتاب "تذکرۃ الخواص" میں بھی ذکر ہوا ہے۔

اہمیت اور مقام

امام علیؑ کا قاضی شریح کے نام خط، حاکم کا حکومتی عُمال کے ساتھ فیصلہ کن برتاؤ روا رکھے جانے کے سلسلے میں ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔[1] چونکہ شریح قضاوت جیسے مورد الزام منصب ہر فائز تھا اس لیے امام علیؑ اس طرف سے مکان خریدے جانے کو پسند کی نظر سے نہیں دیکھا۔[2] شریح کوفہ کا قاضی تھا؛ انہیں عمر بن خطاب نے کوفہ کا قاضی مقرر کیا تھا۔[3] وہ عثمان اور کی خلافت اور امام علیؑ کے دور حکومت میں اسی عہدے پر برقرار رہا۔[4] کتاب الکافی میں منقول ایک روایت کے مطابق جب امام علیؑ نے شریح کو قاضی مقرر کیا تو آپؑ نے یہ شرط رکھی کہ وہ امامؑ کے ساتھ ہم آہنگی کیے بغیر کوئی حکم نافذ نہیں کرے گا۔[5]

شرح نہج‌ البلاغہ میں آیت اللہ مکارم شیرازی کی تصریح کےمطابق امام علیؑ کا دور حکومت حضرت عثمان کے دور حکومت کے بعد شروع ہوا؛ حضرت عثمان کی حکومت کے دوران بیت المال کی وسیع سطح پر تباہی عروج پرتھی۔ اسی دوران اس وقت کے اسلامی معاشرے کے مشہور لوگوں کا ایک گروہ پر تعیش، شان و شوکت اور طمطراق والی زندگی گزار رہا تھا۔[6] اس وجہ سے امام علیؑ کو یہ امید نہیں تھی کہ آپؑ کی طرف سے مقرر کیا گیا قاضی بھی شاہانہ زندگی گزارے گا۔[7] امام علیؑ اس قسم کے طرز زندگی کو روکنے کے لیے ہمیشہ اپنے خطبوں اور خطوط میں (جنہیں نہج البلاغہ میں میں جمع کیا گیا) مادی دنیا اور اس کے نمود و نمائش کے بارے میں خبردار کیا کرتے تھے۔[8]

خط کا سیاق و سباق اور اس کے مندرجات

قاضی شریح نے حضرت علیؑ کے دور امامت میں 80 دینار میں ایک مہنگا مکان خریدا۔[9] اس خبر کو سننے اور اس بات کی تصدیق کرنے کے بعد کہ شریح نے گھر ایسا خرید لیا ہے، امامؑ نے اسے بلایا اور اس کی سرزنش کی اور خبردار کیا کہ جلد ہی وہ موت کا شکار ہوگا اور اسے اس گھر میں قیام پذیر ہونا نصیب نہیں ہوگا۔[10] امام علیؑ نے شریح کو نصیحت کی کہ حرام مال سے گھر نہٰ خریدا جاتا ورنہ دنیا اور آخرت میں بہت نقصان اٹھانا پڑے گا۔[11]

امام علیؑ نے شریح کو دنیوی نمود و نمائش سے دور رہنے کے سلسلے میں ایک ایسی روحانی دستاویز لکھی اور فرمایا کہ اگر شریح کو اس دستاویز کے مندرجات کا علم ہوتا تو وہ مکان خریدنے پر ایک درہم بھی خرچ نہ کرتا۔ اس دستاویز کے مطابق یہ گھر روحانی حدود اربعہ پر مشتمل ہوگا، جو یہ ہیں: ایک طرف آفات و بلائیں، دوسری طرف مصائب و مشکلات، تیسری طرف تباہ کن خواہشات اور چوتھی طرف گمراہ کن شیطان۔ اس گھر کا دروازہ چوتھی طرف یعنی شیطان کی طرف کھولا جاتا ہے۔ یہ روحانی حدود اربعہ ان خطرات اور چیلنجوں کی طرف اشارہ ہے جو اس گھر کے خریدار کو سامنا کرنا ہوگا۔[12]

امام علیؑ نے شریح کو گذشتہ لوگوں اور ظالموں کی سرنوشت سے عبرت لینے کی ہدایت کرتے ہوئے اسے نصیحت کی کہ ان لوگوں کی لاشیں منوں مٹی تلے بوسیدہ ہوگئی ہیں، امامؑ نے شریح کو خبردار کیا کہ وہ قیامت کے دن حساب و کتاب کے لیے خود کو تیار کر لے۔[13] اس خط کے ذیل میں نہج البلاغہ کی بعض شروحات میں غفلت اور غرور سے اجتناب،[14] دنیا کی محبت سے ہوشیار رہنے، حرام مال حاصل کرنے اور شرعی احکام نافذ کرنے کے سلسلے میں رشوت[15] لینے جیسے نکات بیان کیے گئے ہیں۔

خط کے مآخذ اور اسناد

امام علیؑ کا قاضی شریح کے نام خط کا ذکر شیخ صدوق (متوفی: 381ھ) کی کتاب امالی شیخ صدوق[16] اور تھوڑے سے فرق کے ساتھ [17] نیزشیخ بہائی (متوفی: 1031ھ) نے اپنی کتاب "اربعین" میں[18] سبط بن جوزی (متوفی: 654ھ) نے اپنی کتاب تذکرۃ الخواص میں[19] اور قضاعی (متوفی: 454ھ) نے اپنی کتاب "دستور معالم الحکم"[20] میں اس خط کو مندرجات میں تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے۔[21] یہ خط نہج البلاغہ کے مختلف نسخوں میں تیسرا خط ہے۔[22]

حسن حسن زادہ آملی کے مطابق چونکہ شیخ بہائی نے یہ خط عظیم اساتذہ اور راویوں سے نقل کیا ہے اس لیے اس کی سند میں کوئی اشکال یا اعتراض نہیں ہے۔[23]

متن و ترجمہ

امام علیؑ کا قاضی شریح کے نام خط؛ مفتی جعفر حسین کے ترجمے کے مطابق
من کتاب لہ(ع) لشريح بن الحارث قاضيہ حضرت علیؑ کا قاضی شریح کے نام خط

رُوِيَ أَنَّ شُرَيْحَ بْنَ الْحَارِثِ قَاضِيَ أَمِيرِالْمُؤْمِنِينَ (علیہ السلام) اشْتَرَى عَلَى عَہْدِہِ دَاراً بِثَمَانِينَ دِينَاراً فَبَلَغَہُ ذَلِكَ، فَاسْتَدْعَى شُرَيْحاً،

روایت ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام کے قاضی شریح ابن حارث نے آپؑ کے دورِ خلافت میں ایک مکان اَسّی (80) دینار کو خرید کیا۔ حضرت کو اس کی خبر ہوئی تو انہیں بلوا بھیجا؛

وَ قَالَ لَہُ: بَلَغَنِي أَنَّكَ ابْتَعْتَ دَاراً بِثَمَانِينَ دِينَاراً وَ كَتَبْتَ لَہَا كِتَاباً وَ أَشْہَدْتَ فِيہِ شُہُوداً فَقَالَ لَہُ شُرَيْحٌ قَدْ كَانَ ذَلِكَ يَا أَمِيرَالْمُؤْمِنِينَ(ع)

مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم نے ایک مکان اَسّی (80) دینار کو خرید کیا ہے اور دستاویز بھی تحریر کی ہے اور اس پر گواہوں کی گواہی بھی ڈلوائی ہے؟ شریح نے کہا کہ جی ہاں یا امیر المومنینؑ ایسا ہوا تو ہے۔

قَالَ فَنَظَرَ إِلَيْہِ نَظَرَ الْمُغْضَبِ ثُمَّ قَالَ لَہُ: يَا شُرَيْحُ أَمَا إِنَّہُ سَيَأْتِيكَ مَنْ لَا يَنْظُرُ فِي كِتَابِكَ وَ لَا يَسْأَلُكَ عَنْ بَيِّنَتِكَ، حَتَّى يُخْرِجَكَ مِنْہَا شَاخِصاً وَ يُسْلِمَكَ إِلَى قَبْرِكَ خَالِصاً.

دیکھو!بہت جلد ہی وہ (ملک الموت) تمہارے پاس آجائے گا، جو نہ تمہاری دستاویز دیکھے گا اور نہ تم سے گواہوں کو پوچھے گا، اور وہ تمہارا بوریا بستر بندھوا کر یہاں سے نکال باہر کرے گا اور قبر میں اکیلا چھوڑ دے گا۔

فَانْظُرْ يَا شُرَيْحُ لَا تَكُونُ ابْتَعْتَ ہَذِہِ الدَّارَ مِنْ غَيْرِ مَالِكَ أَوْ نَقَدْتَ الثَّمَنَ مِنْ غَيْرِ حَلَالِكَ؛ فَإِذَا أَنْتَ قَدْ خَسِرْتَ دَارَ الدُّنْيَا وَ دَارَ الْآخِرَۃِ

اے شریح! دیکھو، ایسا تو نہیں کہ تم نے اس گھر کو دوسرے کے مال سے خریدا ہو، یا حرام کی کمائی سے قیمت ادا کی ہو۔ اگر ایسا ہوا تو سمجھ لو کہ تم نے دنیا بھی کھوئی اور آخرت بھی۔

أَمَا إِنَّكَ لَوْ كُنْتَ أَتَيْتَنِي عِنْدَ شِرَائِكَ مَا اشْتَرَيْتَ لَكَتَبْتُ لَكَ كِتَاباً عَلَى ہَذِہِ النُّسْخَۃِ، فَلَمْ تَرْغَبْ فِي شِرَاءِ ہَذِہِ الدَّارِ [بِالدِّرْہَمِ] بِدِرْہَمٍ فَمَا فَوْقُ.

دیکھو! اس کی خریداری کے وقت تم میرے پاس آئے ہوتے تو میں اسی وقت تمہارے لئے ایک ایسی دستاویز لکھ دیتا کہ تم ایک درہم بلکہ اس سے کم کو بھی اس گھر کے خریدنے کو تیار نہ ہوتے۔

وَ النُّسْخَۃُ ہَذِہِ ہَذَا مَا اشْتَرَى عَبْدٌ ذَلِيلٌ مِنْ مَيِّتٍ قَدْ أُزْعِجَ لِلرَّحِيلِ اشْتَرَى مِنْہُ دَاراً مِنْ دَارِ الْغُرُورِ مِنْ جَانِبِ الْفَانِينَ وَ خِطَّۃِ الْہَالِكِينَ

وہ دستاویز یہ ہے: یہ وہ ہے جو ایک ذلیل بندے نے ایک ایسے بندے سے کہ جو سفر آخرت کیلئے پا در رِکاب ہے خرید کیا ہے۔ایک ایسا گھر کہ جو دنیائے پر فریب میں مرنے والوں کے محلّے اور ہلاک ہونے والوں کے خطّہ میں واقع ہے،

وَ تَجْمَعُ ہَذِہِ الدَّارَ حُدُودٌ أَرْبَعَۃٌ الْحَدُّ الْأَوَّلُ يَنْتَہِي إِلَى دَوَاعِي الْآفَاتِ وَ الْحَدُّ الثَّانِي يَنْتَہِي إِلَى دَوَاعِي الْمُصِيبَاتِ وَ الْحَدُّ الثَّالِثُ يَنْتَہِي إِلَى الْہَوَى الْمُرْدِي وَ الْحَدُّ الرَّابِعُ يَنْتَہِي إِلَى الشَّيْطَانِ الْمُغْوِي وَ فِيہِ يُشْرَعُ بَابُ ہَذِہِ الدَّارِ

جس کے حدود اربعہ یہ ہیں: پہلی حد آفتوں کے اسباب سے متصل ہے، دوسری حد مصیبتوں کے اسباب سے ملی ہوئی ہے اور تیسری حد ہلاک کرنے والی نفسانی خواہشوں تک پہنچتی ہے اور چوتھی حد گمراہ کرنے والے شیطان سے تعلق رکھتی ہے۔ اور اسی حد میں اس کا دروازہ کھلتا ہے۔

اشْتَرَى ہَذَا الْمُغْتَرُّ بِالْأَمَلِ مِنْ ہَذَا الْمُزْعَجِ بِالْأَجَلِ ہَذِہِ الدَّارَ بِالْخُرُوجِ مِنْ عِزِّ الْقَنَاعَۃِ وَ الدُّخُولِ فِي ذُلِّ الطَّلَبِ وَ الضَّرَاعَۃِ فَمَا أَدْرَكَ ہَذَا الْمُشْتَرِي فِيمَا اشْتَرَى مِنْہُ مِنْ دَرَكٍ فَعَلَى مُبَلْبِلِ أَجْسَامِ الْمُلُوكِ وَ سَالِبِ نُفُوسِ الْجَبَابِرَۃِ وَ مُزِيلِ مُلْكِ الْفَرَاعِنَۃِ مِثْلِ كِسْرَى وَ قَيْصَرَ وَ تُبَّعٍ وَ حِمْيَرَ

اس فریب خوردۂ امید و آرزو نے اس شخص سے کہ جسے موت دھکیل رہی ہے اس گھر کو خریدا ہے، اس قیمت پر کہ اس نے قناعت کی عزت سے ہاتھ اٹھایا اور طلب و خواہش کی ذلت میں جا پڑا۔ اب اگر اس سودے میں خریدار کو کوئی نقصان پہنچے تو بادشاہوں کے جسم کو تہ و بالا کرنے والے، گردن کشوں کی جان لینے والے، اور کسریٰ، قیصر اور تبع و حمیر ایسے فرمانرواؤں کی سلطنتیں الٹ دینے والے

وَ مَنْ جَمَعَ الْمَالَ عَلَى الْمَالِ فَأَكْثَرَ وَ مَنْ بَنَى وَ شَيَّدَ وَ زَخْرَفَ وَ نَجَّدَ وَ ادَّخَرَ وَ اعْتَقَدَ وَ نَظَرَ بِزَعْمِہِ لِلْوَلَدِ إِشْخَاصُہُمْ جَمِيعاً إِلَى مَوْقِفِ الْعَرْضِ وَ الْحِسَابِ وَ مَوْضِعِ الثَّوَابِ وَ الْعِقَاب

اور مال سمیٹ سمیٹ کر اسے بڑھانے، اونچے اونچے محل بنانے سنوارنے، انہیں فرش فروش سے سجانے اور اولاد کے خیال سے ذخیرے فراہم کرنے اور جاگیریں بنانے والوں سے سب کچھ چھین لینے والے کے ذمہ ہے کہ وہ ان سب کو لے جا کر حساب و کتاب کے موقف اور عذاب و ثواب کے محل میں کھڑا کرے،

إِذَا وَقَعَ الْأَمْرُ بِفَصْلِ الْقَضَاءِ «وَ خَسِرَ ہُنالِكَ الْمُبْطِلُونَ»

اس وقت کہ جب «حق و باطل والے وہاں خسارے میں رہیں گے»

شَہِدَ عَلَى ذَلِكَ الْعَقْلُ إِذَا خَرَجَ مِنْ أَسْرِ الْہَوَى وَ سَلِمَ مِنْ عَلَائِقِ الدُّنْيَا

گواہ ہو اس پر عقل، جب خواہشوں کے بندھن سے الگ اور دنیا کی وابستگیوں سے آزاد ہو۔[24]

حوالہ جات

  1. محمدی ری شہری، دانش‌نامہ امیرالمؤمنین(ع) بر پایہ قرآن، حدیث و تاریخ، ۱۳۸۶شمسی، ج۴، ص۳۵۔
  2. مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)، ۱۳۸۶شمسی، ج۹، ص۵۴۔
  3. ذہبی، سير أعلام النبلاء، ۱۴۰۵ھ، ج۴، ص۱۰۲۔
  4. ابن‌ ابی‌ الحدید، شرح نہج البلاغہ، قم، ج۱۴، ص۲۹۔
  5. کلینی، کافی، ۱۴۰۷ھ، ج۷، ص۴۰۷۔
  6. مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)، ۱۳۸۶شمسی، ج۹، ص۵۴۔
  7. «شرح نامہ ۳»،محمد نصر اصفہانی۔
  8. مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)، ۱۳۸۶شمسی، ج۹، ص۵۴۔
  9. مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)، ۱۳۸۶شمسی، ج۹، ص۴۲؛ جمعی از نویسنگان، دانشنامہ امام علی(ع)ُ‌، ج۱، ص۱۸۳۔
  10. نہج‌ البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، نامہ۳، ص۵۴۹۔
  11. نہج‌ البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، نامہ۳، ص۵۴۹۔
  12. نہج‌ البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، نامہ۳، ص۵۴۹۔
  13. نہج‌ البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، نامہ۳، ص۵۴۹۔
  14. مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)، ۱۳۸۶شمسی، ج۹، ص۴۲۔
  15. ابن میثم، شرح نہج‌ البلاغہ، ۱۳۶۲شمسی، ج۴، ص۳۴۴۔
  16. شیخ صدوق، امالی، ۱۳۷۶شمسی، ص۳۱۱۔
  17. حسینی خطیب، مصادر نہج‌ البلاغہ و اسانیدہ، ۱۳۶۷شمسی، ج۳، ص۱۸۸۔
  18. شیخ بہایی، اربعین، ۱۴۳۱ھ، ص۲۲۶۔
  19. ابن‌ جوزی، تذكرۃ الخواص، ۱۳۷۶شمسی، ص۳۱۱۔
  20. قضاعی، دستور معالم الحکم، ۱۴۰۱ھ، ص۱۱۰۔
  21. حسینی خطیب، مصادر نہج‌ البلاغہ و اسانیدہ، ۱۳۶۷شمسی، ج۳، ص۱۸۸؛ مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)، ۱۳۸۶شمسی، ج۹، ص۴۱۔
  22. فیض الاسلام، ترجمہ و شرح نہج‌ البلاغہ، ۱۳۷۸شمسی، ص۸۳۳؛ دشتی، ترجمہ نہج‌ البلاغہ، ۱۳۷۹شمسی، ص٤۸۰؛ نہج‌ البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، نامہ۳، ص۵۴۹؛ عبدہ، شرح نہج‌البلاغہ، قاہرہ، ص۴؛ ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج‌ البلاغہ، قم، ج۱۴، ص۲۷۔
  23. حسن زادہ آملی، تکملہ شرح منہاج البراعۃ فی شرح نہج البلاغۃ، ۱۳۶۴شمسی، ج۱۷، ص۱۰۸۔
  24. انصاریان، ترجمہ نہج البلاغۃ، 1388شمسی، ص243 - 244۔

مآخذ

  • ابن‌ابی‌الحدید، عز الدین ابوحامد، شرح نہج‌البلاغہ، تحصحیح، محمد ابوالفضل ابراہیم، قم، کتابخانہ عمومی آیت اللہ مرعشی نجفی، بی‌تا۔
  • ابن‌جوزی، یوسف‌ بن‌ قزاوغلی، تذكرۃ الخواص، قم، الشریف الرضی، 1376ہجری شمسی۔
  • ابن‌مہذب، حسین بن حسن، نسخہ نہج البلاغہ، قم، آیۃ اللہ المرعشی النجفی، 1406ھ۔
  • ابن‌میثم، میثم بن علی، شرح نہج‌البلاغہ، بی‌جا، نشر الکتاب، چاپ دوم، 1362ہجری شمسی۔
  • انصاریان، حسین، ترجمہ نہج البلاغۃ‏، قم، دار العرفان، چاپ اول، 1388ہجری شمسی۔
  • جمعی از نویسنگان، دانشنامہ امام علی(ع)ُ، بی‌جا، بی‌نا، بی‌تا۔
  • حسن‌زادہ آملی، حسن، تکملہ شرح منہاج البراعۃ فی شرح نہج‌البلاغۃ، تصحیح، سید ابراہیم میانجی، تہران، مکتبۃ الاسلام، چاپ چہارم، 1364ہجری شمسی۔
  • حسینی خطیب، سید عبدالزہرا، مصادر نہج‌البلاغہ و اسانیدہ، بیروت، دار الزہرا، چاپ چہارم، 1367ہجری شمسی۔
  • خویی، ابراہیم بن حسین، الدرۃ النجفیۃ، بی‌جا، بی‌نا، بی‌تا۔
  • دشتی، محمد، ترجمہ نہج‌البلاغہ، قم، پارسیان، چاپ اول، 1379ہجری شمسی۔
  • ذہبی، شمس الدین، سير أعلام النبلاء، تحقیق گروہی از محققین، بی‌جا، مؤسسہ الرسالۃ، چاپ سوم، 1405ھ۔
  • «شرح نامہ 3»، محمد نصر اصفہانی، تاریخ درج مطلب: 27 بہمن 1391، تاریخ بازدید: 16 آبان1403ہجری شمسی۔
  • شیخ بہایی، اربعین، قم، جماعۃ العلماء و المدرسین فی الحوزۃ العلمیۃ بقم المقدسۃ، چاپ سوم، 1431ھ۔
  • شیخ صدوھ، محمد بن علی، الأمالی، تہران، کتابچی، چاپ ششم، 1376ہجری شمسی۔
  • صبحی، صالح، تصحیح نہج‌البلاغہ، قم، دارالحدیث، چاپ سوم، 1426ھ۔
  • عبدہ، محمد، شرح نہج‌البلاغہ، قاہرہ، مطبعۃ الاستقامۃ، بی‌تا۔
  • فیض‌الاسلام، سید علی‌نقی، ترجمہ و شرح نہج‌البلاغہ، تہران، فیض الاسلام، چاپ ہشتم، 1378ہجری شمسی۔
  • قضاعی، محمد بن سلامۃ، ‌دستور معالم الحکم و مأثور مکارم الشیم من کلام أمیرالمؤمنین علی بن أبی‌طالب(ع)، بیروت، دار الکتاب العربی، 1401ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح، علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • محمدی ری‌شہری، محمد، دانش‌نامہ امیرالمومنین(ع) بر پایہ قرآن، حدیث و تاریخ، قم، دارالحدیث، چاپ اول، 1386ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، چاپ اول، 1386ہجری شمسی۔