جہاد
یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
جہاد، اسلامی تعلیمات میں اللہ تعالی کی راہ میں اپنی جان اور تمام موجود انسانی توانائیوں سے کوشش کرنے کو کہا جاتا ہے جو فداکاری کے ساتھ ہمراہ ہو. اصطلاح میں اسلام کو مزید پھیلانے یا اس سے دفاع کرنے کے لئے کی گئی جنگ اور اقدامات کو جہاد کہا جاتا ہے. قرآن کریم کی آیات کے مطابق جو لوگ اللہ تعالی کی راہ میں اپنی جان اور مال کو فدا کرتے ہیں، ان کا مقام اللہ تعالی کے ہاں دوسرے مسلمانوں کی نسبت اونچا ہے اور اللہ تعالی نے ان کو جنت اور شہادت کے مخصوص مقام کی بشارت دی ہے. فقہ کی کتابوں میں باب جہاد کو بہت خاص اور اہم مقام حاصل ہے. اور شیعی ثقافت میں جہاد و شہادت کا حضرت امام حسین علیہ السلام کے قیام سے گہرا تعلق پایا جاتا ہے. گذشتہ کئی دہائیوں میں اسلام سے خوف پھیلانے والی سیاست اور ساتھ میں کچھ تشدد پسند گروہوں کی دہشت گردی کی وجہ سے اسلامی جہاد کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے.
"رباط" یا "مرابطہ" (سرحدوں کی پاسبانی) کا موضوع بھی جہاد سے ہی مرتبط ہے اور بعض موارد میں -کچھ احادیث کی بنا پر- اس کے مصادیق میں سے ہے.
لغوی اور اصطلاحی معنی
جہاد، عربی زبان کا لفظ ہے جو اصل میں "ج ہ د" سے لیا گیا ہے اور اس کا معنی کوشش، تلاش، کام میں جدت، کسی چیز کی انتہا تک پہنچنا اور طاقت و توانائی ہے. [1] اصطلاحی معانی میں سے اہم ترین معنی دینی متون میں استعمال کے لحاظ سے وہی اس کا عام استعمال ہونے والا معنی یعنی خاص قسم کی کوشش جو اللہ تعالی کی راہ میں اپنی جان، مال اور اپنی تمام دارائی کو صرف کر کے اسلام کو پھیلانے یا اس سے دفاع کرنے کے لئے مبارزہ اور مقابلہ کرنا.[2]
دینی متون میں، لفظ جہاد اس خاص اور اصطلاحی معنی کے علاوہ، دوسرے عام اور لغوی معنی میں بھی بہت استعمال ہوا ہے، جیسا کہ "جہاد اکبر" کو شیطان اور ہوائے نفس کے خلاف اپنے نفس کی مجاہدت اور تلاش کے لئے استعمال کیا گیا ہے.[3] احادیث میں بعض کاموں کو جہاد کے طور پر شمار کیا گیا ہے جو ظاہراً ان کاموں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے ایسا فرمایا گیا ہے، جیسا کہ امر بالمعرف اور نہی عن المنکر، ظالم حاکم کے سامنے عدالت کی بات کرنا، کسی نیک سنت اور سیرت کو معاشرے میں جاری کرنے کے لئے کوشش اور تلاش کرنا، کسی بیوی کا اپنے خاوند کی اچھی خاطر داری کرنا اور مرد کا اپنے اہل و عیال کے لئے رزق حلال کمانا.[4]
جہاد کا شرعی حکم
جہاد کا حکم مدینہ میں نازل ہوا تھا، لہذا اس سے پہلے جہاں پر بھی جہاد یا اس کے مشتقات کو مکی آیات میں استعمال کیا گیا ہے، ان سے جہاد کا لغوی اور وہی عام معنی لیا جائے گا.[5] جہاد کے سلسلے میں سب پہلی آیت دفاعی جہاد سے متعلق تھی جو ہجرت کے پہلے سال میں نازل ہوئی جس میں مسلمانون کو اجازت دی گئی کہ وہ مشرکین کے مقابلے میں اپنا دفاع کر سکیں.[6] جہاد اور اس کے متعلق مباحث کے بارے میں مدنی سورتوں میں خاص طور پر سورت بقرہ، سورت انفال، سورت آل عمران، سورت توبہ اور سورت احزاب میں آیات موجود ہیں. [7] ان آیات کی تحلیل و تفسیر کرتے وقت ان کی شان نزول اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بنیادی مقاصد، خاص طور پر جنگ اور صلح کے فلسفے کو مد نظر رکھنا ضروری ہے. سنہ آٹھ ہجری میں فتح مکہ کے بعد، ایسی آیات نازل ہوئی جو ظاہر میں تمام مشرکین کے ساتھ جہاں پر اور کسی وقت میں بھی جنگ کرنے پر دلالت کرتی ہیں.[8] بعض فقہاء اور مفسرین کی نظر میں یہ آیات، بالخصوص سورہ توبہ کی آیت نمبر ٥ جو کہ سیف کے نام سے مشہور ہے[9] دوسری آیتیں جو کہ کسی لحاظ سے مشرکین کے ساتھ سمجھوتا کرنے پر دلالت کرتی ہیں[10] نسخ کرتیں ہیں.[11] بعض مستشرقان نے حکم کو قبول کرتے ہوئے نسخ کہا ہے اور فقط وہ آیات جو ظاہری طور پر مسلمانوں کو مشرکین کے خلاف، بالجملہ اہل کتاب، جس زمانے میں اور جس جگہ پر جہاد کی دعوت کرتے ہیں، وہی اپنی قوت پر باقی ہیں اور دوسری آیات نے دشمن کے ساتھ جہاد کو خاص شرایط کو مدنظر رکھتے ہوئے جیسے فتنہ کے تحت منسوخ قرار دیا ہے. [12] اس کے مقابل، نسخ کے مخالفین اس لئے ہیں کہ قرآن کی نسخ آیات، تاریخ، اور آیات کی شان نزول کو مدنظر رکھتے ہوئے، انکا نسخ ہونا ممکن نہیں ہے. [13]
جہاد کی فضیلت
آیات اور احادیث میں جہاد کے بعض دینوی اور اخروی فضائل بیان ہوئے ہیں:
قرآنی آیات
قرآن کی آیات کے مطابق،[14] جو لوگ اپنی مال اور جان کو خدا کی راہ میں پیش کرتے ہیں درگاہ خداوندی میں دوسرے مسلمانوں کی نسبت برتر ہیں اور خداوند نے انکو جنت کی خوشخبری اور شہادت کا مرتبہ دیا ہے.[15] قرآن کریم نے [16] انسان کو جہاد پر نہ جانے کی سب سے اہم وجہ اس کی اپنے مال اولاد اور خاندان سے محبت کو قرار دیا ہے. اور اسی طرح جو جہاد پر جانے سے کتراتے ہیں انکو فاسق کہا ہے اور انکو عذاب الہی کا وعدہ دیا ہے. قرآن کے مطابق، کامیابی فقط اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے. [17] اور خداوند اور پیغمبر اکرم(ص) کے فرمان کی پیروی، نزاع اور تفرقہ سے دوری، صبر و استقامت اور دشمن سے ڈر کر نہ بھاگنا، جہاد کے اہم ترین احکام میں سے ہیں. [18] قرآنی آیات کو مدنظر رکھتے ہوئے،[19] مجاہدین اپنے صبر و استقامت کی وجہ سے غیبی امداد سے مواجہ ہوتے ہیں. [20] اور یہ غیبی امداد کچھ یوں ہیں، مجاہدین کو سکون اور آرامش کا احساس ہونا اور انکے دلوں سے کافروں کی وحشت اور ڈر کا دور ہونا.[21]
احادیث
احادیث کے مطابق راہ خدا میں جہاد کرنا برترین کاموں میں سے ہیں اور ایک شہید مجاہد کا اخروی صلہ یوں ہے کہ وہ جہاد اور شہادت کی آرزو اور تمنا دوبارہ کرتا ہے. [22] امام علی(ع): کہ جہاد بہشت کا ایک دروازہ ہے کہ جس کو خداوند نے اپنے خاص اولیاء کے لئے کھول رکھا ہے. جہاد تقوا کا لباس اور خداوند کی محکم زرہ ہے. [23] پیغمبر اکرم(ص): خداوند کی راہ میں ایک رات چوکیداری کرنا ان ہزار راتوں سے بہتر ہے جو کہ پوری رات عبادت اور پورا دن روزے میں گزرا ہو. [24]
جہاد کے بارے تالیفات اور آثار
جہاد کی اہمیت اور منزلت کے سبب، اسلام میں اس کے بہت سے آثار بیان ہوئے ہیں. [25] اسی طرح جامع حدیثی منابعوں میں جہاد یا سییر کے بارے میں جہاد کا خاص ذکر ہوا ہے. اس بحث کی اہم ترین موضوعات درج ذیل ہیں.
- ١.مجاہدین کی رزمی آمادگی کا مقام
- ٢.مومنین پر وجوب جہاد کے شرائط
- ٣.جہاد کی اقسام
- ٤.میدان جنگ کے متعلق احکام جیسے:
جہاد کا فتوا
سنہ تیرہ ہجری کو جب ایران اور روس کی جنگ ہوئی تھی تو اسلامی سرزمین کے دفاع کی خاطر شیعہ علماء نے جہاد کا حکم دیا تھا.[27] تاریخی کتابوں میں اہل سنت کے علماء کا بھی ذکر آیا ہے جنہوں نے جہاد کا حکم دیا جیسے ابن عساکر(م٥٧١) کو صلیبی جنگوں میں تشویق کرنا، اور اس بارے میں چالیس حدیث کی جمع آوری کرنا. [28]
ابتدائی اور دفاعی جہاد
مجتہدین نے اپنی کتابوں میں جہاد کو ابتدائی اور دفاعی حصوں میں تقسیم کیا ہے.[29] یہ تقسیم بندی فقہ کی پرانی کتابوں میں صریح طور ذکر نہیں کی گئی اور انہوں نے عام طور پر ابتدائی جہاد کے احکام کو مبسوط اور تدافعی جہاد کے احکام کو ضمنی طور پر بیان کیا ہے.[30] ابتدائی جہاد، مشرکین اور کفار کے ساتھ جنگ اور انکو اسلام اور توحید کی دعوت دینا اور عدالت کو برقرار کرنا کے معنی میں ہے. اور اس جہاد میں جس کے آغاز گر مسلمان ہیں ان کا مقصد کفر کا خاتمہ اور دین الہی کو گسترش دینا ہے. [31] دفاعی جہاد، مسلمانوں اور اسلامی سرزمین کی حفاظت کی خاطر ہے. [32]
ابتدائی جہاد کے واجب ہونے کے شرائط
• اہل سنت کے علماء کے مطابق ابتدائی جہاد یعنی اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کی خاطر، اگرچہ اس کی تشخیص دینے والا رہبرعادل ہو یا فاسق، واجب ہے.[33] ان کی نظر میں جہاد کے بارے میں رہبر کا حکم اس طرح واجب ہے جیسے کہ پانچ نمازین واجب ہیں. [34] • اکثر امامی مجتہدین کی نظر میں ابتدائی جہاد کی اجازت امام معصوم یا امام کے نائبین کے اختیار میں ہے.[35] اور انکی نظر میں نائب یعنی خاص نائب اور امام زمان(ع) کے غیبت کے زمانے میں عام نائب اس میں شامل نہیں ہیں.[36] لیکن بعض مجتہدین کی نظر میں جہاد کی اجازت صرف امام معصوم یا آپ کے خاص نائب کے اختیار میں نہیں بلکہ عام نائب بھی توحید اور عدل کی حفاظت اور ظلم کو روکنے اور مظلوموں کی حمایت کی خاطر ابتدائی جہاد کی اجازت دے سکتا ہے. [37] ان مجتہدین کی نظر میں اجماع کی رائے مورد قبول ہے اورجہاد کی حدیث میں عادل امام سے مراد امام معصوم نہیں ہے. [38]
ابتدائی جہاد تین گروہ کے مقابلے میں
ابتدائی جہاد تین گروہ کے مقابلے میں واجب ہے:
١.غیر ذمی کافر چاہے اہل کتاب ہو یا غیر اہل کتاب. ٢.ذمی کفار جنہوں نے ذمہ کے شرائط کی رعایت نہ کی ہو. ۳.باغیان. [39] غیر کتابی کے ساتھ جہاد اس کو اسلام کی دعوت کی خاطر ہے. وہ دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کر سکتے ہیں: آئین اسلام کو قبول کرنا یا جنگ کے لئے تیار ہونا. کفار کتابی غیر ذمی یا ذمی جس نے ذمہ کے پیمان کو توڑا ہو اس کے ساتھ جہاد، اسلام کو قبول کرنا یا پیمان ذمہ کو قبول کرنا اور جزیہ دینا ہے. جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان تین راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں: اسلام کو قبول کر لیں، اپنے دین پر قائم رئیں اور جزیہ دیں یا جنگ کے لئے حاضر ہوں. باغیان کے ساتھ جہاد انکے پیمان میں نقض یا امام علیہ السلام سے بیعت توڑنے اور انکو دوبارہ بیعت کی لئے دعوت دینا ہے. [40]
جہاد، آخری راہ حل
بعض مسلمان مولفین کی نگاہ میں، ہمیشہ مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان اختلاف کا راہ حل جہاد نہیں، بلکہ جہاد اسلام اور مسلمانوں کی مصالح کی خاطر آخری راہ حل ہے. [41] جہاد شروع کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ مد مقابل کو اسلام کی دعوت، کفر و عصیان چھوڑنے اور اور انسانی حقوق کو پایمال نہ کرنے کی دعوت دی جائے اور اس کی ابتداء ایسے علاقہ جات سے کی جائے جو اسلامی سرزمین کے نزدیک ہیں. [42] بعض مجتہدین کی نظر میں پیغمبر اکرم(ص) کی سیرت کے مطابق، اگر شرائط مناسب ہوں اور سپاہ اسلام بھی جہاد کے لئے تیار ہوں، تو کم از کم سال میں ایک بار واجب ہے. [43] جنگ کے میدان سے فرار جائز نہیں ہے مگر مجبوری کی حالت میں. [44]
جہاد واجب کفائی
فقہ اسلامی میں مشہور قول کے مطابق، ابتدائی جہاد واجب کفائی ہے. یعنی اگر مجاہدین کی کچھ تعداد جو جہاد کے لئے تیار ہو، کافی ہو، تو جہاد دوسرے افراد سے ساقط ہے، لیکن اگر خاص دلائل کی وجہ سے بعض افراد کا جنگ شرکت کرنا ضروری سمجھا جائے تو ان کے لئے جہاد واجب عینی ہو گا. اور جنگ میں حاضر ہونا اور دشمن کے ساتھ مقابلہ کرتے وقت جہاد واجب عینی ہے اور اس وقت منصرف ہونا حرام ہے. [45]
مجاہدین کے شرائط
مجاہدین کے لئے فقہی منابع میں کچھ شرائط مذکور ہیں جو درج ذیل ہیں: ١.مرد ہو، ٢.عاقل ہو، ٣.آزاد ہو (غلام نہ ہو) ٤. جہاد کے لئے مالی اور جسمی توانائی رکھتا ہو. ٥.جہاد کو ترک کرنے کے لئے کوئی شرعی عذر نہ رکھتا ہو. اس لئے جہاد غلاموں، عورتوں، بچوں، دیوانوں، بوڑھوں، نابینا یا شدید بیماری کی حالت، یا جسم کے کسی عضو میں نقص ہو، واجب نہیں ہے. [46] ٦.اسی طرح اگر والدین اپنے فرزند کو جہاد کی اجازت نہ دین تو بھی جہاد ساقط ہے مگر یہ کہ جہاد اس کے لئے واجب عینی ہو. اور اس صورت میں اگر والدین مشرک ہوں، اور اپنے دادا سے اور اگر کسی کا مقروض ہو تو اس سے اجازت ان تمام موارد میں مجتہدین کی نظرات مختلف ہیں.[47] اسی طرح کسی کو جہاد کے لئے اجیر کرنا یا جہاد کے لئے جعالہ قرار دینے کے بارے میں بھی مجتہدین کے فتوے میں اختلاف پایا جاتا ہے. [48] دفاعی جہاد کے لئے بہت سے مذکورہ شرائط ضروری نہیں جیسے امام کی اجازت، کیونکہ مسلمانوں کی جان اور مال کی حفاظت ہر مسلمان جو کہ اس کا توان رکھتا ہو، ہر شرائط میں واجب ہے. [49]
احکام اور آداب
حرام مہینوں (رجب، ذیقعد، ذوالحجہ، محرم) میں اسلام سے پہلے عرب قبائل میں جنگ حرام تھی اسلام نے بھی اس کی تصدیق کی ہے اور مجتہدین نے آیات قرآن کو مستند قرار دیا ہےجیسے سورہ بقرہ کی آیت ٢١٧ اور توبہ کی آیت ٥، جو کہ ان مہینوں میں جنگ کی حرمت کو بیان کرتی ہیں. [50] مگر یہ کہ دشمن ماہ حرام کی حرمت کا خیال نہ رکھے اور جنگ کا آغاز کرے اس صورت میں دفاع ضروری ہے.[51] البتہ اہل سنت کے بعض علماء کی نظر میں جنگ کی حرمت حرام مہینوں میں نسخ کی گئی ہے اور جہاد ہر جگہ اور ہر وقت جائز ہے.[52] جنگ سے فرار کرنا حرام، بلکہ گناہ کبیرہ سے ہے، [53]مگر یہ کہ مسلمانوں کی تعداد دشمن کی نصف تعداد سے بھی کم ہوں، اس صورت میں ان سے مقابلہ واجب نہیں ہے. [54] امام علیہ السلام یا آپ(ع) کے نائب پر واجب ہے کہ جنگ شروع کرنے سے پہلے کفار کو اسلام (توحید، پیغمبر(ص) اور دوسرے لوازم جیسے اصول دین و فروع دین) کی دعوت دی جائے اگرچہ اس سے پہلے انکو دعوت دی جا چکی ہو لیکن پھر بھی اس دعوت کو دہرانا مستحب ہے.[55] مستحب ہے کہ جنگ کا آغاز ظہر اور عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد کیا جائے اور زوال سے پہلے جنگ کا آغاز مکروہ ہے مگر ضرورت کی حالت میں. [56] جنگ کی ابتداء امام(ع) کی اجازت کے بغیر بعض قول کے مطابق مکروہ اور بعض نے حرام کہا ہے، لیکن امام(ع) کے منع کرنے پر اس کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں ہے. اگر امام(ع) جنگ کی دعوت دیں تو شرکت کرنا مستحب ہے لیکن اگر لازمی قرار دیں تو شرکت واجب ہے. [57] دشمن پر سبقت حاصل کرنے کے لئے جس وسیلے کو استعمال کرنے کی ضرورت پڑھے جائز ہے، لیکن درختوں کو کاٹنا، آگ پھینکنا یا دشمن کی جانب پانی گرانا ضرورت کے علاوہ مکروہ ہے. اور اسی طرح ضرورت کے علاوہ دشمن پر زہر پھینکنا یا اس سے کراہت کرنے میں بھی نظرات مختلف ہیں.[58] بعض درختوں کے کاٹ کر گلیل بنانا اگر ضرورت کے تحت ہو تو جائز کہتے ہیں. [59] عورتوں، بچوں، دیوانوں اور جنگ سے ناتوان لوگوں، جیسے بوڑھے، نابینا اور محتاج اگر جنگ میں مشورہ یا کسی طرح کی دخالت نہ رکھتے ہوں تو انکو قتل کرنا حرام ہے مگر مجبوری کی حالت میں جیسے کہ اگر کافر خود کو نجات دینے کے لئے انکو اپنے آگے کھڑا کر لیں یا یہ کہ انکو قتل کر کے دشمن تک پہنچنے کا امکان ہو.[60] دشمنوں کی کاں، ناک یا دوسرے اعضاء کاٹنا حرام ہے. [61] جنگ میں چال، بجز یہ کہ دشمن محفوظ ہو کسی دوسری صورت میں، جائز ہے. [62] مسلمان کی سواری کا پیچھا کرنا مکروہ ہے، لیکن کافر کی سواری کا پیچھا کرنا بعض قول کے مطابق کراہت نہیں رکھتا. [63] کسی مصلحت کی بناء پر اگر کفار سے مدد مانگنی پڑھے جب کہ اطمینان ہو کہ خیانت نہیں کرے گا اس صورت میں مدد طلب کرنا جائز ہے. [64] حرم کی حدود میں جیسے ایک خاص جگہ جہاں مکہ واقع ہے وہاں جنگ کرنا حرام ہے مگر ایسی صورت میں کہ جب دشمن ایسی جگہ پر جنگ میں پہل کر دے. [65] فقہ کی کتب میں، معتبر احادیث سے، جہاد میں بعض کاموں کو مستحب کہا گیا ہے جیسے: فوجی مجاہدوں کے حوصلے بلند کرنا اور انکے درمیان نظم برقرار کرنا ہر گروہ کے لئے ایک خاص پرچم یا نشانی رکھنا اور تکبیر پڑھنا یا کوئی خاص دعا وغیرہ پڑھنا. [66]
جہاد کا اختتام
ممکن ہے جہاد ان میں سے کسی ایک وجہ سے اختتام کو پہنچے: دشمن اگر اسلام قبول کر لے اس صورت میں کہ جنگ کا آغاز اس کی ہدایت کی خاطر ہوا ہو، [67] اگر دشمن کے افراد مسلمانوں کو پناہ دیں، موقت قرار داد کو ختم کرنا مخاصمہ یا مصالحہ دائمی.
حوالہ جات
- ↑ خلیل بن احمد؛ ابن سکیت ؛ جوہری ؛ ابن اثیر، ذیل «جہد»
- ↑ دیکھئے:ابن عابدین، ج ۳، ص۲۱۷؛ ہیکل، ج ۱، ص۴۴
- ↑ دیکھئے: حر عاملی، ج ۱۵، ص۱۶۱؛ نجفی، ج ۲۱، ص۳۵۰
- ↑ دیکھئے: کلینی، ج ۴، ص۲۵۹، ج ۵، ص۹ـ۱۰، ۱۲، ۶۰، ۸۸؛ مناوی، ج ۳، ص۳۶۶؛ حر عاملی، ج ۱۶، ص۳۴؛ ہیکل، ج ۱، ص۴۶ـ۴۷، ۱۰۹ـ۱۱۰
- ↑ دیکھئے: عنکبوت : ۶، ۸، ۶۹؛ لقمان : ۱۵
- ↑ حج:۳۹، ۴۰؛ اور دیکھئے: واحدی نیشابوری، ص۲۰۸؛ طباطبائی، متعلقہ آیات
- ↑ محمد فؤاد عبدالباقی، ذیل «جہد»، «قتل»
- ↑ توبہ : ۵، ۳۶، ۴۱
- ↑ یا شمشیر؛ قس خوئی، ۱۳۹۵، ص۳۰۵، کہ آیہ ۳۶ توبہ را آیہ سیف دانستہ است
- ↑ اعراف : ۱۹۹؛ بقرہ : ۱۰۹؛ انعام : ۱۱۲؛ حجر: ۸۵؛ زخرف : ۸۹
- ↑ الناسخ و المنسوخ، ص۳۰، ۳۴ـ۳۵؛ طوسی، التبیان، ذیل بقرہ : ۸۳؛ طبرسی، ذیل انعام : ۱۵۹؛ سجدہ : ۳۰؛ ابن جوزی، ص۲۴۲؛ ابن کثیر، ج ۲، ص۳۵۰
- ↑ اسلام، چاپ دوم، ذیل «جہاد»
- ↑ سیوطی، ج ۲، ص۲۹؛ رشیدرضا، ج ۲، ص۲۱۵؛ خوئی، ۱۳۹۵، ص۳۰۵، ۳۵۳؛ طباطبائی، ذیل بقرہ : ۲۵۶؛ حجر: ۸۵؛ زحیلی، ص۱۱۴ـ۱۲۰
- ↑ نساء: ۹۵؛ عنکبوت : ۶۹؛ توبہ : ۲۰
- ↑ توبہ : ۲۱؛ آل عمران : ۱۶۹
- ↑ توبہ : ۲۴
- ↑ آل عمران : ۱۲۶؛ انفال : ۱۰
- ↑ نفال : ۱۵ـ۱۶، ۴۴ـ۴۶
- ↑ نفال : ۶۵ـ ۶۶؛ آل عمران : ۱۲۳ـ۱۲۵
- ↑ احزاب : ۹ـ۱۰؛ توبہ : ۲۶
- ↑ آل عمران : ۱۲۶؛ انفال : ۱۲؛ احزاب : ۲۶
- ↑ بن حنبل، ج ۱، ص۱۴، ج ۳، ص۱۲۶؛ بخاری، ج ۱، ص۱۲، ج ۶، ص۱۵؛ مسلم بن حجاج، ج ۱، ص۸۸؛ نیز ر.ک: مالک بن انس، ج ۲، ص۴۴۳ـ ۴۴۵؛ کلینی، ج ۵، ص۲، ۴، ۵۳
- ↑ نہج البلاغة، الخطبة ۲۷
- ↑ کنزالعمال، ج۴، ص۳۲۶
- ↑ حاجی خلیفہ، ج ۱، ستون ۵۶؛ بغدادی، ایضاح المکنون، ج ۱، ستون ۲۵۱، ۲۸۲، و جاہای دیگر، ج ۲، ستون ۱۹۶، ۷۰۷، و جاہای دیگر؛ ہمو، ہدیہ العارفین، ج ۱، ستون ۱۹۲، ۲۶۴، و جاہای دیگر، ج ۲، ستون ۱۲۳، و جاہای دیگر
- ↑ زیدبن علی، ص۳۴۹ـ ۳۶۲؛ شافعی، ج ۴، ص۱۶۷ـ۳۱۳؛ سحنون، ج ۲، ص۲ـ ۵۰؛ مسلم بن حجاج، ج ۲، ص۱۳۵۶ـ ۱۴۵۰؛ کلینی، ج ۵، ص۲ـ ۵۵؛ طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۲ـ۷۵؛ ابن حزم، المحلّی، ج ۷، ص۲۹۱ـ ۳۵۴؛ شمس الائمہ سرخسی، ۱۴۰۳، ج ۱۰، ص۲ـ ۱۴۴؛ ابن قدامہ، ج ۱۰، ص۳۶۴ ـ۶۳۵
- ↑ میرزابزرگ قائم مقام، مقدمہ زرگری نژاد، ص۶۲، ۷۴، ۷۶؛ رسایل و فتاوای جہادی، ص۲۰ـ۳۵۱
- ↑ حلوانی، ص۱۱ـ۱۳
- ↑ منتظری، ج ۱، ص۱۱۵
- ↑ شافعی، ج ۴، ص۱۷۰؛ کلینی، ج ۵
- ↑ بقرہ : ۱۹۳؛ انفال :۳۹؛ جصاص، ج ۳، ص۶۵؛ قرطبی ؛ طباطبائی، ذیل بقرہ : ۱۹۳
- ↑ منتظری، ج ۱، ص۱۱۵
- ↑ جصاص، ج ۳، ص۱۵۴؛ شمس الائمہ سرخسی، ۱۹۷۱، ج ۱، ص۱۵۶ـ ۱۵۷؛ ابن قدامہ، ج ۱۰، ص۳۷۱؛ شوکانی، ج ۷، ص۲۴۲ـ ۲۴۳
- ↑ مطیعی، ج ۱۹، ص۲۶۹؛ شروانی، ج ۹، ص۲۳۷، ۲۷۷
- ↑ کلینی، ج ۵، ص۲۳؛ طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۸؛ ہمو، ۱۴۰۰، ص۲۹۰؛ شہیدثانی، ج ۳، ص۹؛ نجفی، ج ۲۱، ص۱۱
- ↑ شہیدثانی ؛ نجفی،
- ↑ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۶۴؛ منتظری، ج ۱، ص۱۱۵؛ خامنہای، ج ۱، ص۳۳۱؛ ر.ک: میرزابزرگ قائم مقام، ص۶۶
- ↑ منتظری، ج ۱، ص۱۱۸
- ↑ جواہر الکلام، ج ۲۱، ص۴۶
- ↑ کشف الرموز، ج۱، ص۴۱۸ ـ ۴۲۲؛ المہذّب البارع، ج ۲، ص۳۰۰ ـ ۳۱۰
- ↑ زحیلی، ص۹۰، ۹۷
- ↑ شافعی، ج ۴، ص۱۷۷؛ مطیعی، ج ۱۹، ص۲۸۵ـ ۲۸۷؛ فخرالمحققین، ج ۱، ص۳۵۴؛ نجفی، ج ۲۱، ص۵۱؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۶۹
- ↑ طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۱۰؛ ابن قدامہ، ج ۱۰، ص۳۶۷ـ۳۶۸؛ مطیعی، ج ۱۹، ص۲۶۶؛ علامہ حلّی، ۱۴۱۳ـ۱۴۱۹، ج ۱، ص۴۷۷؛ نجفی، ج ۲۱، ص۴۹
- ↑ نجفی، ج ۲۱، ص۷۳؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۷۱
- ↑ طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۲؛ مطیعی، ج ۱۹، ص۲۶۷، ۲۷۷؛ علامہ حلّی، ۱۴۱۴، ج ۹، ص۸؛ قس ابن قدامہ، ج ۱۰، ص۳۶۴
- ↑ طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۲، ۴ـ۵؛ ابن قدامہ، ج ۱۰، ص۳۶۶ـ۳۶۷؛ مطیعی، ج ۱۹، ص۲۷۰ـ۲۷۲؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۶۲ـ ۳۶۳
- ↑ مطیعی، ج ۱۹، ص۲۷۴ـ۲۷۶؛ علامہ حلّی، ۱۴۱۴، ج ۹، ص۲۷ـ ۳۳؛ نجفی، ج ۲۱، ص۲۱ـ۲۶؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۶۶ـ ۳۶۷
- ↑ مطیعی،ج ۱۹، ص۲۸۰؛ علامہ حلّی، ۱۴۱۴، ج ۹، ص۵۴ـ۵۷
- ↑ مطیعی، ج ۱۹، ص۲۶۹؛ علامہ حلّی، ۱۴۱۴، ج ۹، ص۳۷؛ نجفی، ج ۲۱، ص۱۵ـ۱۶، ج ۴۱، ص۶۵۰ـ۶۵۱؛ برای دیگر تفاوتہای جہاد ابتدایی با جہاد دفاعی ر.ک: نجفی، ج ۲۱، ص۱۵ـ ۱۶
- ↑ طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۳؛ قرطبی، ذیل بقرہ : ۹۰؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۶۸ـ ۳۶۹
- ↑ جواہر الکلام، ج ۲۱، ص۳۲ ـ ۳۴
- ↑ جصاص، ج ۱، ص۳۹۰؛ قرطبی
- ↑ جواہر الکلام، ج ۲۱، ص۵۶
- ↑ جواہر الکلام، ج ۲۱، ص۶۱
- ↑ جواہر الکلام، ج ۲۱، ص۵۴ ـ ۵۱
- ↑ جواہر الکلام، ج ۲۱، ص۸۲ ـ ۸۱
- ↑ جواہر الکلام، ج ۲۱، ص۸۸ ـ ۸۵
- ↑ جواہر الکلام، ج ۲۱، ص۶۶ ـ ۶۸؛اشارة السبق، ص۱۴۳؛ إصباح الشیعة، ص۱۸۹
- ↑ الروضة البہیة، ج۲، ص۳۹۲
- ↑ جواہر الکلام، ج ۲۱، ص۶۸ و ۷۳ ـ ۷۷
- ↑ جواہر الکلام، ج ۲۱، ص۷۸ ـ ۷۷
- ↑ جواہر الکلام، ج ۲۱، ص۷۹ ـ ۷۸
- ↑ جواہر الکلام، ج ۲۱، ص۸۵ ـ ۸۲
- ↑ جواہر الکلام، ج ۲۱، ص۱۹۴ ـ ۱۹۳
- ↑ ابن جوزی، ص۷۲ـ۷۴؛ علامہ حلّی، ۱۴۱۴، ج ۹، ص۹؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۶۹
- ↑ معزی ملایری، ج ۱۶، ص۱۹۰ـ ۱۹۹
- ↑ بخاری، ج ۱، ص۳۹؛ طبری، ذیل فتح : ۱۶
مآخذ
- ابن اثیر، النہایہ فی غریب الحدیث و الاثر، چاپ محمود محمد طناحی و طاہر احمد زاوی، بیروت ۱۳۸۳/۱۹۶۳، چاپ افست قم ۱۳۶۴ش.
- ابن جوزی، نواسخ القرآن، بیروت : دارالکتب العلمیہ، بیتا.
- ابن حزم، المحلّی، چاپ احمد محمدشاکر، بیروت: دارالا´فاق الجدیدہ، بی تا.
- ہمو، الناسخ و المنسوخ فی القرآن الکریم، چاپ عبدالغفار سلیمان بنداری، بیروت ۱۴۰۶/۱۹۸۶.
- ابن حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، بیروت :دارصادر، بیتا.
- ابن سکیت، ترتیب اصلاح المنطق، چاپ محمدحسن بکائی، مشہد ۱۴۱۲.
- ابن عابدین، ردّ المحتار علی الدّر المختار، چاپ سنگی مصر ۱۲۷۱ـ۱۲۷۲، چاپ افست بیروت ۱۴۰۷/ ۱۹۸۷.
- ابن قدامہ، المغنی، بیروت: دارالکتاب العربی، بیتا.
- ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، بیروت ۱۴۱۲.
- محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، [چاپ محمد ذہنی افندی]، استانبول ۱۴۰۱/۱۹۸۱.
- اسماعیل بغدادی، ایضاح المکنون، ج ۱-۲، در حاجی خلیفہ، ج ۳-۴.
- ہمو، ہدیہ العارفین، ج ۱ـ۲، در ہمان، ج ۵-۶؛ منصوربن یونس بہوتی حنبلی، کشاف القناع عن متن الاقناع، چاپ محمدحسن شافعی، بیروت ۱۴۱۸/۱۹۹۷.
- احمد بن حسین بیہقی، السنن الکبری، بیروت ۱۴۲۴/۲۰۰۳.
- احمدبن علی جصاص، احکام القرآن، چاپ عبدالسلام محمدعلی شاہین، بیروت ۱۴۱۵/۱۹۹۴.
- اسماعیل بن حماد جوہری، الصحاح: تاج اللغہ و صحاح العربیہ، چاپ احمد عبدالغفور عطار، بیروت، بیتا.، چاپ افست تہران ۱۳۶۸ ش.
- حاجی خلیفہ؛ حرّ عاملی؛ احمد عبدالکریم حلوانی، ابن عساکر و دورہ فی الجہاد ضدالصلیبیین فی عہد الدولتین النوریہ و الایوبیہ، دمشق، ۱۹۹۱.
- علی خامنہای، رہبر جمہوری اسلامی ایران، اجوبہ الاستفتاءات، ج ۱، کویت ۱۴۱۵/۱۹۹۹.
- خلیل بن احمد، کتاب العین، چاپ مہدی مخزومی و ابراہیم سامرائی، قم ۱۴۰۵.
- ابوالقاسم خوئی، البیان فی تفسیر القرآن، بیروت ۱۳۹۵/۱۹۷۵.
- ابوالقاسم خوئی، منہاج الصالحین، قم ۱۴۱۰.
- رسایل و فتاوای جہادی، تدوین، تحقیق و تحشیہ از محمدحسن رجبی، تہران : وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی،معاونت پژوہشی و آموزشی، ۱۳۷۸ش.
- محمد رشید رضا، تفسیر القرآن الحکیم المشتہر باسم تفسیر المنار،[تقریرات درس ] شیخ محمد عبدہ، مصر، ج ۲، ۱۳۶۷.
- وہبہ مصطفی زحیلی، آثار الحرب فی الفقہ الاسلامی، [دمشق ] ۱۴۰۱/۱۹۸۱.
- زیدبن علی(ع)، مسند الامام زید، بیروت: دارمکتبہ الحیاہ، بیتا.
- عبدالسلام بن سعید سحنون، المدونہ الکبری، التی رواہا سحنون بن سعید تنوخی عن عبدالرحمان بن قاسم عتقی عن مالک بن انس، قاہرہ ۱۳۲۳، چاپ افست بیروت، بیتا.
- عبدالرحمان بن ابی بکر سیوطی، الاتقان فی علوم القرآن، بیروت: دارالمعرفہ، بیتا.
- محمدبن ادریس شافعی، الاُمّ، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳.
- عبدالحمید شروانی، حاشیہ العلامہ الشیخ عبدالحمید الشروانی، در حواشی الشروانی و ابن قاسم العابدی علی تحفہ المحتاج بشرح المنہاج، چاپ سنگی مصر ۱۳۱۵، چاپ افست بیروت: داراحیاء التراث العربی، بیتا.
- محمدبن احمد شمس الائمہ سرخسی، شرح کتاب السیر الکبیر، چاپ صلاح الدین منجد، قاہرہ، ۱۹۷۱.
- ہمو، کتاب المبسوط، قاہرہ ۱۳۲۴ـ۱۳۳۱، چاپ افست استانبول ۱۴۰۳/۱۹۸۳.
- محمد شوکانی، نیل الاوطار: شرح منتقی الاخبار من احادیث سیدالاخیار، مصر: شرکہ مکتبہ و مطبعہ مصطفی البابی الحلبی، [بی تا.]، چاپ افست بیروت، بیتا.
- زین الدین بن علی شہیدثانی، مسالک الافہام الی تنقیح شرائع الاسلام، قم ۱۴۱۳ـ۱۴۱۹.
- طباطبائی، محمدحسين، الميزان فى تفسيرالقرآن، بيروت ۱۳۹۰ـ۱۳۹۴/ ۱۹۷۱ـ۱۹۷۴.
- طبرسی، فضلبن حسن، مجمعالبيان فى تفسيرالقرآن، چاپ ہاشم رسولى محلاتى و فضلاللہ يزدى طباطبائى، بيروت ۱۴۰۸/۱۹۸۸.
- طبری، محمدبن جرير، تاريخالطبرى: تاريخالامم والملوك، چاپ محمد ابوالفضل ابراہيم، بيروت ۱۳۸۲ـ۱۳۸۷/۱۹۶۲-۱۹۶۷.
- محمدبن حسن طوسی، الاقتصاد الہادی الی طریق الرشاد، تہران ۱۴۰۰.
- محمدبن حسن طوسی، التبیان فی تفسیرالقرآن، چاپ احمد حبیب قصیر عاملی، بیروت، بیتا.
- محمدبن حسن طوسی، المبسوط فی فقہ الامامیہ، ج ۲، چاپ محمدتقی کشفی، تہران ۱۳۸۷.
- حسن بن یوسف علامہ حلّی، تذکرہ الفقہاء، قم ۱۴۱۴.
- حسن بن یوسف علامہ حلّی، قواعد الاحکام، قم ۱۴۱۳-۱۴۱۹.
- محمدبن حسن فخرالمحققین، ایضاح الفوائد فی شرح اشکالات القواعد، چاپ حسین موسوی کرمانی، علی پناہ اشتہاردی، و * عبدالرحیم بروجردی، قم ۱۳۸۷-۱۳۸۹، چاپ افست ۱۳۶۳ش.
- محمدبن احمد قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، بیروت ۱۴۰۵/۱۹۸۵.
- کلینی، محمدبن يعقوب، الكافى، چاپ علىاكبر غفارى، بيروت ۱۴۰۱.
- مالک بن انس، المُوَطّأ، استانبول ۱۴۰۱/۱۹۸۱.
- محمدفؤاد عبدالباقی، المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم، بیروت: داراحیاء التراث العربی، بیتا.
- مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، چاپ محمد فؤاد عبدالباقی، استانبول ۱۴۰۱/۱۹۸۱.
- محمد نجیب مطیعی، التکملہ الثانیہ، المجموع : شرح المہذّب، در یحیی بن شرف نووی، المجموع: شرح المہذّب،ج ۱۳ـ۲۰، بیروت: دارالفکر، بیتا.
- اسماعیل معزی ملایری، جامع احادیث الشیعہ فی احکام الشریعہ، قم ۱۳۷۱-۱۳۸۳ ش.
- محمدبن محمد مفید، المقنعہ، قم ۱۴۱۰.
- محمد عبدالرووف بن تاج العارفین مناوی، فیض القدیر: شرح الجامع الصغیر، بیروت، ۱۳۹۱/۱۹۷۲.
- حسینعلی منتظری، دراسات فی ولایہ الفقیہ و فقہ الدولہ الاسلامیہ، قم ۱۴۰۹-۱۴۱۱.
- عیسی بن حسن میرزا بزرگ قائم مقام، احکام الجہاد و اسباب الرشاد، چاپ غلامحسین زرگری نژاد، تہران ۱۳۸۰ش.
- احمدبن علی نجاشی، فہرست اسماء مصنفّی الشیعہ المشتہر ب رجال النجاشی، چاپ موسی شبیری زنجانی، قم ۱۴۰۷.
- محمدحسن بن باقر نجفی، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، بیروت ۱۹۸۱.
- علی بن احمد واحدی نیشابوری، اسباب النزول الا´یات، قاہرہ ۱۳۸۸ / ۱۹۶۸.
- محمد خیر ہیکل، الجہاد و القتال فی السیاسہ الشرعیہ، بیروت ۱۴۱۷/۱۹۹۶.
- حلبی، علی بن حسن، اشارۃ السبق الی معرفۃ الحق، جامعہ مدرسین، قم، ۱۴۱۴ق.
- کیدری، محمد بن حسن، اصباح الشریعہ بمصباح الشریعہ، موسسہ امام صادق(ع)، قم، ۱۴۱۶ق.
- عاملی، زین الدین بن علی، الروضہ البہیہ فی شرح اللمعہ الدمشقیہ(المحشی کلانتر)، کتابفروشی داوری، قم، ۱۴۱۰ق.
- آبی، حسن بن ابی طالب، کشف الرموز فی شرح مختصر النافع، محقق: علی پناہ اشتہاردی ـ آقا حسین یزدی، قم، ۱۴۱۷ق.
- علی بن حسام، کنز العمّال فی سنن الاقوال و الافعال، موسسہ الرسالہ، بیروت، ۱۴۱۳ ق، ۱۹۹۳م.
- حلی، احمد بن محمد اسدی، المہذب البارع فی شرح مختصرالنافع، مصحح: مجتبی عراقی، جامعہ مدرسین، قم، ۱۴۱۷ق.