مندرجات کا رخ کریں

ضریح امام رضاؑ

ویکی شیعہ سے
سیمین و زرین ضریح، تاریخ تنصیب سنہ 1379ہجری شمسی

ضریح امام رضاؑ، وہ جالی دار ڈھانچہ ہے جو امام رضاؑ کی قبر پر نصب ہے اور زائرین تبرک کی خاطر اس تک پہنچنے اور اسے چھونے کی کوشش کرتے ہیں۔

امام رضاؑ کے حرم میں ضریح نصب کرنا کب سے شروع ہوا اس بارے میں کوئی حتمی رائے قام نہیں ہے، لیکن موجودہ دستاویزات کے مطابق ایران میں صفویہ دور حکومت سے لے کر اب تک (سنہ 2025ء) امام رضاؑ کی قبر پر پانچ ضریحیں نصب کی جا چکی ہیں۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ صفویہ دور سے پہلے بھی امام رضاؑ کی قبر پر ایک تابوت موجود تھا۔

شاہ طہماسب کی نصب کردہ ضریح کو سب سے پرانی ضریح سمجھا جاتا ہے، جو صفویہ دور کی تھی اور یہ 1350ھ تک قائم رہی۔ اس کے بعد ضریح شاہ عباسی المعروف ضریح فولادی فتح علی شاہی نے اس کی جگہ لے لی اور یہ 1378ھ تک قائم رہی۔ اس کے بعد ضریح مرصع نادری جسے نادر شاہ افشار نے ابتداء میں اپنی قبر کے لیے بنوایا تھا، حرم امام رضا کے لیے وقف کردیا اور یہ ضریح سنہ 1420ھ تک حرم میں رہی، پھر اسے بقعہ حرم امام رضا سرداب میں نصب کردیا گیا۔

اس کے بعد شیر و شکر ضریح، جو سونے اور چاندی سے بنی تھی، سنہ 1378 سے 1420ھ تک قبر پر رہی اور پھر اسے آستان قدس رضوی کے میوزیم میں منتقل کردیا گیا۔ سیمین و زرین ضریح جو سنہ 1420ھ سے امام رضاؑ کی قبر پر نصب ہے، محمود فرشچیان کی ڈیزائن پر بنائی گئی ہے۔ اس ضریح میں چودہ معصومین کی تعداد کے مطابق 14 جالی دار کھڑکیاں ہیں جو قرآنی کتبوں سے مزین ہیں، اسی طرح یہ ضریح آٹھویں امام اور پنجتن پاک کی مناسبت سے آٹھ اور پانچ پنکھڑیوں والے نقوش نیز نفیس خاتم کاری جیسی خصوصیات کے حامل ہیں۔

زائرین امام رضاؑ ضریح تک پہنچنے میں کوشاں

ماہیت اور اہمیت

امام رضاؑ کی ضریح لکڑی، دھات یا دونوں سے مرکب ایک جالی دار ڈھانچہ ہے جو امام رضاؑ کی قبر پر نصب ہے[1] اور زائرین تبرک کی خاطر اسے چھونے اور لمس کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔[2] کہا جاتا ہے کہ عوامی عقیدے کے مطابق وہ زائرین جن کا ہاتھ ضریح تک نہیں پہنچتا شرمندگی محسوس کرتے ہیں، گویا ان کی زیارت قبول نہیں ہوئی۔[3]

امام رضاؑ کی زیارت کے آداب سے متعلق منابع میں ضریح سے متعلق بعض آداب بیان ہوئے ہیں؛ جن میں ضریح کے سامنے کھڑا ہونا (اس طرح کہ زائر ضریح سے چمٹ جائے)،[4] ضریح کا بوسہ لینا،[5] ضریح پر اپنا رخسار رکھنا،[6] دعائیں[7]، زیارت نامہ[8] اور قرآن پڑھنا شامل ہیں۔[9]

ضریح عام طور پر سونے اور چاندی کے ٹکڑوں سے مزین ہوتی ہے اور اس پر قرآن کی آیات اور احادیث کے کتبے نمایاں ہیں۔[10] بعض منابع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ امام رضاؑ کی ضریح میں مصوری، خطاطی، قلم کاری، منبت کاری، طلاکاری اور خاتم کاری جیسے مختلف فنون کا امتزاج نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔[11]

سیمین و زرین ضریح میں ایرانی طرز تعمیر کے محرابی جالی دار کھڑکیاں

تاریخی پس منظر

کہا جاتا ہے کہ امام رضاؑ کی قبر پر ضریح نصب کرنے کی تاریخی قدمت کے بارے میں کوئی حتمی رائے موجود نہیں ہے،[12] لیکن مشہور یہ ہے کہ ضریح نصب کرنے کا آغاز صفویہ دور سے ہوا تھا[13] اور صفویہ دور سے پہلے قبر پر ایک تابوت موجود تھا۔[14]

حرم امام رضاؑ میں ضریح نصب کرنے کی پہلی تاریخ سنہ 915 ہجری سے متعلق ہے:[15] شیبک خان ازبک (شیبانی خاندان کے بانی) کے نام شاہ اسماعیل اول صفوی کے ایک خط میں شاہ اسماعیل نے امام رضاؑ کی قبر کے لیے ستر(70) من وزنی جواہری ضریح نصب کرنے کا اظہار خیال کیا ہے۔[16]تاہم امامؑ کی قبر پر اس ضریح کے نصب ہونے کی کوئی معلومات دستیاب نہیں ہے۔[17]

آستان قدس رضوی میوزیم میں شاہ طہماسبی ضریح کے باقی ماندہ سونے کے کتبے

دورصفویہ سے لے کر اسلامی جمہوریہ ایران تک، امام رضاؑ کی قبر پر پانچ ضریحیں نصب ہوئی ہیں:[18] شاہ طہماسبی ضریح، شاہ عباسی فولادی ضریح، مرصع نادری ضریح (نگین نشان)، شیر و شکر ضریح، اور سیمین و زرین ضریح۔[19]

سب سے پرانی ضریح (شاہ طہماسبی ضریح)

امام رضا کی قبر پر پہلی مرتبہ ضریح نصب کرنے کا سہرا شاہ طہماسب اول صفوی (حکومت: 930-984ھ) کے سر جاتا ہے اور اسی وجہ سے اسے شاہ طہماسبی ضریح کہا جاتا ہے۔[20] کتاب تاریخ عالم آرای عباسی میں مشہد پر ازبکوں کے حملے اور امام رضاؑ کے حرم کی لوٹ مار سے متعلق واقعات (997ھ) کے ضمن میں، ایک ضریح کا ذکر ملتا ہے جس میں سونے کی جالیاں اور جنگلے لگے ہوئے تھے۔[21] دوسری جگہ آیا ہے کہ جب شاہ عباس اول ازبکوں کے ذریعے حرم کی لوٹ مار کے بعد مشہد گیا، تو حرم کی قیمتی اشیاء میں سے سونے کی جالیوں اور جنگلوں کے سوا کچھ باقی نہیں بچا تھا۔[22]

شاہ طہماسبی کی ضریح لکڑی کی بنی ہوئی تھی،[23] جس کا دروازہ جواہرات سے مزین تھا[24] اور اس پر سونے سے مزین کتبے نصب تھے۔[25] ان کتبوں میں سے ایک جالی دار کتبے پر خط ثلث میں سورہ ہل اتی تحریرتھا،[26] ضریح کے دروازے پر سونے کا ایک کتبہ تھا جس پر ضریح نصب کرنے کی ہجری تاریخ یوں درج تھی: "در عہد سلطنت بندہ شاہ ولایت، شاہ طہماسب صفوی، این محجر مبارک در این مکان مقدس نصب گردید. سنہ 957" (شاہ ولایت کے غلام شاہ طہماسب صفوی کے دور حکومت میں یہ مقدس کتبہ اس مقدس مکان پر نصب ہوا سنہ 957ھ)۔[27] ایک دوسرے کتبے پر اس ضریح کی تنصیب کی تاریخ 947 ہجری درج ہے۔[28] بعض مورخین یہ احتمال دیتے ہیں کہ یہ دو مختلف تاریخیں ضریح کی تعمیر اور تنصیب کے درمیان وقفے کی وجہ سے ہیں؛ یہ وقفہ خراسان پر ازبکوں کے حملوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی بدامنی کی وجہ سے تھا۔[29]

آستان قدس رضوی کے میوزیم میں ضریح فولادی شاہ‌ عباسی

کہا جاتا ہے کہ حرم کی دوسری اور تیسری ضریحیں، تہہ در تہہ، اس ضریح کے اوپر نصب کی گئی تھیں،[30] اسی وجہ سے یہ ضریح سنہ 1372ھ میں اس کی لکڑیوں کے سڑنے کی وجہ سے ہٹانے تک، امام رضاؑ کی قبر پر موجود رہی۔[31] اس ضریح کے ہٹائے جانے پر، اس کی سونے کی تزئینات اور کتبے آستان قدس رضوی کے میوزیم میں منتقل کر دیے گئے[32] اور اس کا جواہرات سے مزین دروازہ بقعہ امام رضاؑ کی مغربی دیوار کے اوپر لگا دیا گیا ہے۔[33]

شاہ عباسی فولادی ضریح

دستیاب منابع کے مطابق حرم امام رضاؑ کی دوسری ضریح، شاہ عباسی ضریح ہے جو فتح علی شاہی ضریح کے نام سے مشہور ہے۔[34] یہ ضریح فولاد سے بنی تھی اور یہ ہر کسی قسم کے نقش و نگار سے عاری تھی۔[35] صفویہ دور کے بعض منابع میں کہا گیا ہے کہ یہ ضریح شاہ عباس اول صفوی کی باقیات میں سے ہے۔[36]

فتح علی شاہ قاجار (حکومت: 1212-1250ھ)، قاجار خاندان کے دوسرے بادشاہ، نے 1332ھ میں حرم امام رضاؑ کے لیے جواہرات سے مزین ایک دروازہ پیش کیا جسے اس ضریح کے پائینتی حصے میں نصب کر دیا گیا۔[37] کہا جاتا ہے کہ اسی واقعے کی وجہ سے غلطی سے اس ضریح کو فتح علی شاہ کے دور سے منسوب کئے جانے لگا۔[38]

رضا شاہ کے دور میں مرصع نادری ضریح کی مرمت اور دوبارہ تنصیب (1310 شمسی)

اس ضریح کی خصوصیات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی لمبائی تقریباً پانچ میٹر، چوڑائی تین میٹر اور اونچائی دو میٹر تھی؛ اس کی چھت شیروانی نما اور لکڑی کی بنی ہوئی تھی اور سونے کے ورقوں سے مزین تھی، اس کے درمیان میں جواہرات سے مزین سونے کا ایک طوق اور اس کے دونوں طرف جواہرات سے مزین دو گنبد تھے۔[39] قاجار دور میں اس پر کچھ اضافی تزئینات کے بھی شواہد ملتے ہیں۔[40] اسی طرح خراسان کے ایک باغی قاجاری گورنر کے ذریعے اس کی تزئینات کو لوٹے جانے کا بھی ذکر ملتا ہے۔[41] یہ ضریح شعبان سنہ 1379ھ میں آستان قدس رضوی کے میوزیم میں منتقل کر دی گئی۔[42]

مرصع نادری ضریح

کہا جاتا ہے کہ حرم امام رضاؑ کی تیسری ضریح، فولادی مرصع ضریح تھی جو نگین‌ نشاں ضریح کے نام سے مشہور ہے۔[43] افشاریہ دور کی تصنیف کتاب زبور آل داوود کے مطابق یہ ضریح دراصل نادر شاہ افشار (حکومت: 1148-1160ھ) – سلسلہ افشاریہ کے بانی – نے اپنی قبر کے لئے تیار کرائی تھی، لیکن اس کے جانشینوں نے اسے حرم امام رضاؑ کے لئے وقف کردیا۔[44] اس بنا پر یہ ضریح علی‌ شاہ افشار، سلسلہ افشاریہ کے دوسرے بادشاہ کے دور میں حرم امام رضاؑ کے لئے وقف ہوئی، لیکن نصب نہ ہوسکی۔[45] بعد میں، جب 5 صفر سنہ 1163ھ کو شاہ سلیمان دوم صفوی تخت نشین ہوئے،[46] تو نادری ضریح کو چھوٹا کر کے شاہ عباسی ضریح کے اندر نصب کیا گیا۔[47]

مرصع نادری ضریح کی تزئینات کے کچھ حصے

اس ضریح کے اصلی دروازے پر کندہ کتبے میں، اس کے وقف اور نصیب کو نادر شاہ کے پوتے شاہرخ افشار اور شاہ سلطان حسین صفوی کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔[48] لیکن چونکہ شاہرخ 1161ھ میں تخت نشین ہوا جبکہ کتبے پر درج تاریخ 1160ھ ہے، اس عدم یکسانیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتبہ شاہرخ کے دورِ حکومت میں اس ضریح سے ملحق کیا گیا تھا۔[49]

نشریہ "نامہ آستان قدس" کے مطابق سنہ 1379ھ میں اس ضریح میں فولادی جالی کے جوڑوں پر 3260 گنبد موجود تھے جن میں سے ہر ایک پر یاقوت اور زمرد کے نگینے جڑے ہوئے تھے۔[50] وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں سے بہت سے نگینے گم ہوگئے۔[51]

سنہ 1371ھ میں شاہ طہماسبی ضریح کو ہٹائے جانے کے بعد نادری ضریح کی مرمت کر کے اسے دوبارہ قبر مطہر پر نصب کیا گیا۔[52] اور جب سنہ 1379ھ میں اگلی ضریح (شیر و شکر) نصب ہوئی تو چونکہ نادری ضریح وقف خاص تھی، اس لئے وہ اپنی جگہ پر ہی باقی رہی۔[53] نشریہ "نامہ آستان قدس" کے مطابق شیر و شکر ضریح چونکہ نادری ضریح سے بڑی تھی، لہذا نادری ضریح کو لکڑی کے ستونوں پر رکھا گیا تاکہ نذرانے اور عریضے دونوں ضریحوں کے درمیان سے آسانی سے نیچے جاسکیں اور صفائی بھی آسانی ہو۔[54]

شیر و شکر ضریح، تبدیلی سے پہلے

سنہ 1420ھ میں جب شیر و شکر ضریح کی جگہ نئی ضریح (سیمین و زرین) نصب کی گئی، تو نادری ضریح کو وقف خاص ہونے کی بنا پر حرم امام رضاؑ کے سرداب میں بقعہ حرم امام رضاؑ میں منتقل کردیا گیا۔[55]

شیر و شکر ضریح

موجودہ منابع کے مطابق چوتھی ضریح، جو سونے اور چاندی کی بنی ہوئی تھی اور شیر و شکر ضریح کے نام سے مشہور تھی، سنہ 1378ھ میں نادری ضریح کے اوپر نصب ہوئی۔[56] کہا جاتا ہے کہ سنہ 1370ھ میں، پہلوی دوم کے زمانے میں حرم امام رضاؑ کے اس وقت کے نائب متولی سید جلال‌ الدین تہرانی نے نئی ضریح کا نقشہ بنانے کا حکم دیا۔[57] اس ضریح کی تعمیر اور تنصیب کا عمل ذی الحجہ سنہ 1386ھ سے جمادی الثانی سنہ 1378ھ تک جاری رہا اور سید فخر الدین شادمان اور محمد مہران کے دورِ تولیت میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔[58] محمد مہران نے نشریہ "نامہ آستان قدس" میں اپنے مضمون ’’نئی ضریح‘‘ میں اس کے تمام مراحل کی تفصیل بیان کی ہے۔[59]

دائیں طرف سے دوسرے اور تیسرے شخص : سید ابو الحسن حافظیان اور محمد تقی ذوفَن شیر و شکر ضریح کے تعمیری مراحل کے آخری ایام میں ضریح کا معائنہ کرتے ہوئے

سنہ 1386ھ میں اس ضریح کی تعمیر کا معاہدہ سید فخرالدین شادمان (متوفی ۱۳۶۰ھ ش) اور سید ابوالحسن حافظیان دو شیعہ عالم دین تعمیراتی امور اور کتبہ‌ نگاری کے لئے متون کے انتخاب میں ناظر کی حیثیت سے اور محمدتقی ذوفن (متوفی 1357ھ ش) استاد قلم‌ زن اصفہانی کے درمیان منعقد ہوا۔[60] اس معاہدے کے تحت 33848 مثقال چاندی، 7052 مثقال سونا، ایک ٹن مفرغ اور تین ٹن خشک اخروٹ کی لکڑی (واقف: ارمغان حسین ملک) فراہم کی گئی۔[61]

یہ ضریح چہاردہ معصومین کے نام پر بنائے گئے 14 دہانوں پر مشتمل تھی، اس کے چاندی کے ستونوں، کتبوں اور جالیوں پر مختلف نقوش کندہ کئے گئے تھے۔[62] ضریح کے اوپر لگے چاندی کے کتبے پر سورۂ ہل أتی احمد نجفی زنجانی کے قلم سے اور نچلے حاشیہ پر سورۂ یس حبیب‌ اللہ فضائلی کے قلم سے کندہ کی گئی تھی۔[63]

ضریح شیر و شکر تبدیلی اور تنصیب کے مراحل انجام پانے کے 17 دن بعد 14 شعبان سنہ 1379ھ کو شام کے وقت یوم ولادت امام زمانہ(عج) کے موقع پر عوام کی زیارت کے لئے کھول دی گئی۔[64] ضریح شیرو شکر کو 41 برس بعد، سنہ 1420ھ کو قبر مطہر سے ہٹا کر آستان قدس رضوی کے میوزیم میں منتقل کردیا گیا۔[65]

شیر و شکر ضریح، آستان قدس رضوی کے میوزیم میں

سیمین و زرین ضریح

حرم امام رضاؑ میں نصب کی جانے والی آخری ضریح، سیمین و زرین ضریح نام سے مشھور ہے[66]، کہا جاتا ہے اس کی تعمیر اسلامی جمھوریہ ایران کے دورہ حکومت میں آستان قدس رضوی کے نمایاں کارناموں میں سے ہے۔[67]

شیر و شکر ضریح کی تنصیب کے چار دہائیوں بعد اس کے استحکام میں کمی آنے نیز سنہ 1414ھ ق کے بم دھماکے سے آنے والے نقصانات کی وجہ سے اسے تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔[68] کہا جاتا ہے کہ مختلف ڈیزائنوں میں سے ایران کے مشہور مصوّر محمود فرشچیان کی ڈیزائن کو ایرانی اور اسلامی معیاروں کے مطابق ہونے کی بنا پر منتخب کیا گیا۔[69]

سیمین و زرین ضریح کا ایک حصہ امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے ناموں اور اٹھ پروں والے پھول کے کتبے کے ساتھ

سیمین و زرین ضریح کی کندہ کاری اور سنارگری کا کام استاد مصطفی خدادادزادہ اصفہانی کی نگرانی میں انجام پایا، کتبوں کی خطاطی سید محمد حسینی موحد کے قلم سے جبکہ اندرونی خاتم‌ کاری کا کام استادان محمد مہدی کشتی‌ آرای شیرازی، غلام رضا روزی‌ طلب اور عباس صفری نے انجام دیا۔[70]

شیر و شکر ضریح کی تبدیلی اور سیمین و زرین ضریح کی تنصیب کا آغاز 15 شوال 1421ھ ق کو ہوا،[71] اور 55 دن بعد، 9 ذی الحجہ 1421ھ ق (عید قربان 1421ھ) کے روز نئی ضریح کا افتتاح ہوا۔[72]

خصوصیات

سیمین و زرین ضریح کا وزن تقریباً 12 ٹن ہے، جس پر سونے اور چاندی کی ملمع کاری کی گئی ہے اور اس کے مختلف حصوں کو پیچوں کے بغیر ایک دوسرے سے جوڑا گیا ہے۔[73] اس ضریح کی لمبائی 4.78 میٹر، چوڑائی 3.73 میٹر اور چبوترہ سمیت اس کی بلندی 3.96 میٹر ہے۔[74] اسی طرح اس میں چہاردہ معصومینؑ کی تعداد کے برابر 14 جالیاں ہیں۔[75]

سیمین و زرین ضریح کے اندرونی حصے میں خاتم کاری کی خوبصورت ڈیزائن

ضریح کے چاروں اضلاع میں امام رضاؑ کے لقب شمس الشموس کی مناسبت سے سورج مکھی کا ایک بڑا پھول بنایا کیا گیا ہے جس کے دونوں طرف دو چھوٹے پھول بھی بنائے گئے ہیں۔[76] ان پھولوں پر سنہرے پس منظر میں خط ثلث میں اسمائے الٰہی تحریر کئے گئے ہیں۔[77] ضریح پر بنائے گئے پھولوں کو آٹھویں امامؑ اور پنج‌ تن پاک سے منسوب کرتے ہوئے آٹھ اور پانچھ پروں کے ساتھ بنائے گئے ہیں۔ ضریح کے اطراف میں سورہ ہل اتی اور سورہ یس کندہ کیا گیا ہے۔[78] اسی طرح ضریح کے بالائی حصوں پر اسمائے الٰہی اور پیغمبر اکرمؐ و ائمہ طاہرینؑ کے اسما تحریر کئے گئے ہیں۔[79]

معلومات کے مطابق ضریح کا اندرونی حصہ نفیس خاتم‌ کاری سے مزین ہے۔[80] اندرونی چھت پر نہایت دلکش انداز میں خاتم‌ کاری کا ایک بڑا فریم بنایا گیا ہے اور اس کے بیچ میں افتاب کی کرن کا ایک خوبصورت اور پرتعیش مننظر پیش کیا گیا ہے۔[81]

حوالہ جات

  1. سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401ش، ص12۔
  2. مجتہدی سیستانی، صحیفہ رضویہ، 1389ش، ص46؛ «دلچسب زیارت یا ضریح‌ سے چمٹنا؛ مسئلہ یہ ہے!»، دانشجو نیوز ایجنسی۔
  3. مجتہدی سیستانی، صحیفہ رضویہ، 1389ش، ص46؛ «دلچسب زیارت یا ضریح‌ سے چمٹنا؛ مسئلہ یہ ہے!»، دانشجو نیوز ایجنسی۔
  4. مجتہدی سیستانی، صحیفہ رضویہ، 1389ش، ص477۔
  5. مجتہدی سیستانی، صحیفہ رضویہ، 1389ش، ص536۔
  6. مجتہدی سیستانی، صحیفہ رضویہ، 1389ش، ص552۔
  7. مجتہدی سیستانی، صحیفہ رضویہ، 1389ش، ص601۔
  8. مجتہدی سیستانی، صحیفہ رضویہ، 1389ش، ص645۔
  9. مجتہدی سیستانی، صحیفہ رضویہ، 1389ش، ص479۔
  10. عالم‌زادہ، حرم رضوی تاریخ کے آئینے میں، مشہد، 1395ش، ص88۔
  11. عمرانی، اسلام و ہنرہای زیبا، 1390ش، ص157۔
  12. عطاردی، تاریخ آستان قدس رضوی، 1371ش، ج1، ص74؛ عالم‌زادہ، حرم رضوی تاریخ کے آئینے میں، مشہد، 1395ش، ص88۔
  13. عطاردی، تاریخ آستان قدس رضوی، 1371ش، ج1، ص74؛ عالم‌زادہ، حرم رضوی تاریخ کے آئینے میں، مشہد، 1395ش، ص88۔
  14. عطاردی، تاریخ آستان قدس رضوی، 1371ش، ج1، ص74؛ سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401ش، ص12۔
  15. سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401ش، ص12۔
  16. نوایی، شاہ اسماعیل صفوی، 1368ش، ص73۔
  17. سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401ش، ص12۔
  18. سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401ش، ص12؛ عالم‌زادہ، حرم رضوی تاریخ کے آئینے میں، مشہد، 1395ش، ص88؛ در این قطعہ از بہشت، 1397ش، ص90۔
  19. سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401ش، ص13-24۔
  20. خجستہ مبشری، تاریخ مشہد، 1353ش، ص115-116؛ سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401ش، ص13۔
  21. اسکندربیک منشی، تاریخ عالم آرای عباسی، 1314ھ، ج2، ص276.، اسکندربیک منشی، تاریخ عالم آرای عباسی، 1314ھ، ج2، ص385۔
  22. اسکندربیک منشی، تاریخ عالم‌آرای عباسی، 1314ھ، ج2، ص391۔
  23. سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401ش، ص13۔
  24. در این قطعہ از بہشت، 1397ش، ص90۔
  25. عالم‌زادہ، حرم رضوی تاریخ کے آئینے میں، مشہد، 1395ش، ص89۔
  26. عالم‌زادہ، حرم رضوی تاریخ کے آئینے میں، مشہد، 1395ش، ص89۔
  27. احتشام کاویانیان، شمس الشموس، 1354ش، ص39۔
  28. صمدی، راہنمای موزہ آستان قدس رضوی، مشہد، ص19۔
  29. سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401ش، ص13۔
  30. خجستہ مبشری، تاریخ مشہد، 1353ش، ص116۔
  31. سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401ش، ص13۔
  32. صمدی، راہنمای موزہ آستان قدس رضوی، مشہد، ص19 و 22؛ عطاردی، تاریخ آستان قدس رضوی، 1371ش، ج1، ص77؛ سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401ش، ص13۔
  33. در این قطعہ از بہشت، 1397ش، ص90۔
  34. سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401ش، ص13 و 14۔
  35. سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401ش، ص13۔
  36. مستوفی، زبدۃ التواریخ، 1375ش، ص102۔
  37. اعتماد السلطنہ، مطلع الشمس، 1362ش، ج2، ص412۔
  38. سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401ش، ص14۔
  39. خجستہ مبشری، تاریخ مشہد، 1353ش، ص117؛ سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401ش، ص14۔
  40. سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401ش، ص14-15۔
  41. خجستہ مبشری، تاریخ مشہد، 1353ش، ص118-119۔
  42. خجستہ مبشری، تاریخ مشہد، 1353ش، ص120؛ سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401ش، ص15۔
  43. سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401ش، ص15۔
  44. سلطان ہاشم‌میرزا، زبور آل‌داود، 1379ش، ص114۔
  45. سلطان ہاشم‌میرزا، زبور آل‌داود، 1379ش، ص114۔
  46. سلطان ہاشم‌میرزا، زبور آل‌داود، 1379ش، ص111۔
  47. سلطان ہاشم‌میرزا، زبور آل‌داود، 1379ش، ص114۔
  48. اعتماد السلطنہ، مطلع الشمس، 1362ش، ج2، ص413۔
  49. سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401ش، ص17۔
  50. مہران، «ضریح جدید»، ص13۔
  51. مہران، «ضریح جدید»، ص14۔
  52. سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401ش، ص17۔
  53. سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401ش، ص17۔
  54. مہران، «ضریح جدید»، ص14۔
  55. سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401ش، ص18؛ در این قطعہ از بہشت، 1397ش، ص90۔
  56. عالم‌زادہ، حرم رضوی تاریخ کے آئینے میں، مشہد، 1395ش، ص91۔
  57. احتشام کاویانیان، شمس‌الشموس، 1354ش، ص42۔
  58. احتشام کاویانیان، شمس‌الشموس، 1354ش، ص42؛ عالم‌زادہ، حرم رضوی تاریخ کے آئینے میں، مشہد، 1395ش، ص92۔
  59. مہران، «ضریح جدید»، ص3-19۔
  60. مہران، «ضریح جدید»، ص3-4؛ صالحی و دیگران،‌ «کتیبہ‌ہای ضریح شیر و شکر امام رضا(ع) از منظر مبانی اعتقادی شیعہ»، ص17۔
  61. مہران، «ضریح جدید»، ص8۔
  62. مہران، «ضریح جدید»، ص9۔
  63. مہران، «ضریح جدید»، ص9-10۔
  64. مہران، «ضریح جدید»، ص5-6۔
  65. عالم‌زادہ، حرم رضوی تاریخ کے آئینے میں، مشہد، 1395ش، ص92۔
  66. عالم‌زادہ، حرم رضوی تاریخ کے آئینے میں، مشہد، 1395ش، ص92۔
  67. عالم‌زادہ، حرم رضوی تاریخ کے آئینے میں، مشہد، 1395ش، ص92۔
  68. سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401ش، ص22؛ عالم‌زادہ، حرم رضوی تاریخ کے آئینے میں، مشہد، 1395ش، ص92؛ در این قطعہ از بہشت، 1397ش، ص92.
  69. سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401ش، ص22۔
  70. سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401ش، ص22-23؛ عالم‌زادہ، حرم رضوی تاریخ کے آئینے میں، مشہد، 1395ش، ص93-94؛ در این قطعہ از بہشت، 1397ش، ص92۔
  71. سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401ش، ص23؛ عالم‌زادہ، حرم رضوی تاریخ کے آئینے میں، مشہد، 1395ش، ص94-95۔
  72. سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401ش، ص23؛ عالم‌زادہ، حرم رضوی تاریخ کے آئینے میں، مشہد، 1395ش، ص94-95۔
  73. سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401ش، ص23؛ عالم‌زادہ، حرم رضوی تاریخ کے آئینے میں، مشہد، 1395ش، ص93۔
  74. سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401ش، ص23؛ عالم‌زادہ، حرم رضوی تاریخ کے آئینے میں، مشہد، 1395ش، ص93۔
  75. سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401ش، ص23۔
  76. سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401ش، ص23۔
  77. سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401ش، ص23-24۔
  78. سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401ش، ص24۔
  79. سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401ش، ص24۔
  80. سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401ش، ص24۔
  81. سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401ش، ص24۔

مآخذ

  • احتشام کاویانیان، محمد، شمس الشموس یا انیس النفوس (تاریخ آستان قدس)، مشہد، بی‌نا، 1975-1976ء۔
  • اسکندربیک منشی، تاریخ عالم آرای عباسی، تہران، دار الطباعہ آقا سيد مرتضی، 1935-1936ء۔
  • اعتماد السلطنہ، محمدحسن، مطلع الشمس، تحقیق تیمور برہان لیمودہی، تہران، انتشارات فرہنگ‌سرا، 1983-1984ء۔
  • خجستہ مبشری، محمدحسین، تاریخ مشہد، مشہد، چاپخانہ خراسان، 1974-1975ء۔
  • در این قطعہ از بہشت (راہنمای خادمان و زائران امام رضا)، مشہد، مؤسسہ چاپ و انتشارات آستان قدس رضوی، 2018-2019ء۔
  • «دلچسب زیارت یا ضریح‌ سے چمٹنا؛ مسئلہ یہ ہے!»، در ایسنا آفیشل ویب سائٹ، درج: 13 دسمبر 2014 ء، اخذ: 6 اپریل 2025ء۔
  • سلطان ہاشم‌میرزا، محمدہاشم بن محمد، زبور آل داود (مرعشی سادات کا سلاطین صفویہ سے ارتباطات)، تحقیق عبدالحسین نوایی، تہران، مرکز پژوہشی میراث مکتوب، 2000-2001ء۔
  • سوہانیان حقیقی، محمد، نفایس حرم رضوی، مشہد، آستان قدس رضوی کا تحقیقاتی مرکز، 2022-2023ء۔
  • صالحی، اسراء، و ابوالقاسم دادور و مہدی مکی‌نژاد، «کتیبہ‌ہای ضریح شیر و شکر امام رضا(ع) از منظر مبانی اعتقادی شیعہ»، در فصلنامہ علمی-پژوہشی نگرہ، شمارہ 40، زمستان 2016-2017ء۔
  • صمدی، حبیب‌اللہ، راہنمای موزہ آستان قدس رضوی، مشہد، بی‌تا۔
  • عالم‌زادہ، بزرگ، حرم رضوی تاریخ کے آئینے میں، مشہد، بہ‌نشر (انتشارات آستان قدس رضوی)، 2016-2017ء۔
  • عطاردی، عزیزاللہ، تاریخ آستان قدس رضوی، تہران، سازمان چاپ و انتشارات وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی و انتشارات عطارد، 1992-1993ء۔
  • عمرانی، سید ابوالحسن، اسلام و ہنرہای زیبا، قم، بوستان کتاب، 2011-2012ء۔
  • مجتہدی سیستانی، مرتضی، صحیفہ رضویہ، ترجمہ محمد ظریف، قم، انتشارات الماس، 2010-2011ء۔
  • مستوفی، محمدمحسن بن محمدکریم، زبدۃ التواریخ، تحقیق بہروز گودرزی، تہران، بنياد موقوفات دکتر محمود افشار، 1996-1997ء۔
  • مہران، محمد، «ضریح جدید»، نشریہ نامہ آستان قدس میں، شمارہ 1، جون-جولائی 1960ء۔
  • نوایی، عبدالحسین، شاہ اسماعیل صفوی (تفصیلی یادداشتوں کے ہمراہ تاریخی اسناد و مکاتبات کا مجموعہ)، تہران، انتشارات ارغوان، 1989-1990ء۔