جواد الائمہ (لقب)
جواد الائمہ شیعوں کے نویں امام، امام محمد تقی علیہ السلام کے القاب میں سے ہے[1] جس کے معنی سخی اور بخشندہ کے ہیں۔[2]
کہا جاتا ہے کہ امام محمد تقیؑ چونکہ جود و سخاوت میں معروف تھے اس بنا پر آپ کو "جواد" کا لقب دیا گیا ہے۔[3] کتاب حیاۃ الامام محمد الجوادؑ میں تاریخ تشیع کے محقق باقر شریف قرشی (متوفی 1433ھ) کے مطابق امام محمدِ تقیؑ کو لوگوں کے ساتھ زیادہ نیکی اور احسان کرنے کی بنا پر جواد کا لقب دیا گیا ہے۔[4] جود و سخاوت کی نمایاں خصوصیت نے امام محمد تقیؑ کو دوسروں سے ممتاز بنا دیا تھا۔[5]
کتاب کَشف الغُمَّہ (تألیف:ساتویں صدی ہجری) میں مذہب حنابلہ کے فقیہ، مورخ اور محدث حافظ عبد العزیز کے مطابق امام محمدِ تقی جواد کے لقب سے ملقب تھے۔[6] اسی طرح دعائے توسل میں بھی آپ کو جواد کے لقب سے مورد خطاب قرار دیا گیا ہے۔[7]
شیعہ شاعر اور فقیہ محمد حسین غروی اصفہانی (متوفی 1361ھ) امام جواد کی شان میں یوں گویا ہیں:
| ||||||||||||
آپ بہت زیادہ بخشنے والے تھے اور آپ کے جود و عطا کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ آپ کی وجہ سے بخشش اور جود و کرم ہر جگہ جاری ہے اور آپ کی بخشش خدا کے جود و عطا کا مظہر ہے۔ آپ کی بخشش اپنے کسی مقصد کے لئے نہیں تھی کیونکہ آپ خود کائنات کی ابتداء اور انتہاء ہے۔ دنیا میں جو کچھ بھی ہے آپ کے جود و کرم کی برکت سے ہے اور سخاوت آپ کی ذات میں رچی بسی ہے۔[8] |
حوالہ جات
- ↑ شوشتری، احقاق الحق، 1409ق، ج29، ص7۔
- ↑ فیروز آبادی، القاموس المحیط، ج4، ص341.
- ↑ ذہبی، تاریخ الاسلام، 1407ق، ج15، ص385۔
- ↑ قرشی، حیاۃ الإمام محمد الجواد(ع)، 1418ق، ص23۔
- ↑ خنجی اصفہانی، وسیلۃ الخادم، 1375ش، ص253۔
- ↑ اربلی، کشف الغمہ، دارالاضواء، ج3، ص137.
- ↑ قمی، مفاتیح الجنان، 1415ھ، 185۔
- ↑ غروی اصفہانی، الانوارالقدسیہ، مؤسسۃ المعارف الإسلامیّۃ، ص104۔
مآخذ
- اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمہ، بیروت، دارالاضواء۔
- خنجی، فضل اللہ روزبہان، وسیلۃ الخادم إلی المخدوم در شرح صلوات چہاردہ معصوم علیہم السلام، قم، انصاریان، 1375ش۔
- ذہبی، تاریخ الاسلام، تحقیق: عمر عبدالسلام تدمری، بیروت، دار الکتاب العربی، 1407ق۔
- غروی اصفہانی، محمدحسین، الانوار القدسیہ، مؤسسۃ المعارف الإسلاميّۃ، بیتا، بیجا۔
- فیروز آبادی، محمد بن یعقوب، القاموس المحیط، بینا، بیجا۔
- قرشی، باقر شریف، حیاۃ الإمام محمد الجواد (ع)، نشر امیر، 1418ق۔
- قمی، عباس، مفاتیح الجنان، بیروت، دار الملاک، 1415ق۔