جنگ جمل
جنگ جَمَل امام علیؑ کے دور خلافت کی پہلی جنگ ہے جو حضرت عایشہ، طلحہ اور زبیر کی سرکردگی میں مسلمانوں کے ایک گروہ نے حضرت علیؑ کے خلاف لڑی۔ یہ جنگ سنہ 36 ہجری میں بصرہ کے قریب واقع ہوئی۔ حضرت عایشہ اور ان کے ساتھیوں نے یہ جنگ مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ حضرت عثمان کے خون کا بدلہ لینے کی غرض سے شروع کی۔ حضرت عایشہ اس جنگ میں خود شریک ہوئیں اور ایک سرخ اونٹ پر سوار تھیں اور اس جنگ کا جمل نام رکھنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ عربی میں نر اونٹ کو جمل کہا جاتا ہے۔ یہ جنگ جسے مسلمانوں کی پہلی داخلی جنگ شمار کیا جاتا تھا، امام علیؑ کی فتح اور طلحہ و زبیر کی ہلاکت پر اختتام پذیر ہوئی۔ اس جنگ میں حضرت عایشہ گرفتار ہوئیں اور جنگ کے آخر میں امام علیؑ نے انہیں ان کے بھائی محمد بن ابی بکر کے ذریعے مدینہ پہنچایا۔
ناکثین کے ساتھ لڑائی | |
---|---|
تاریخ | بروز جمعرات جمادی الاول یا جمادی الثانی 36ھ |
مقام | خریبہ |
علل و اسباب | ناکثین کا عثمان کے خون کا بدلہ لینے کا بہانے |
نتیجہ | امام علیؑ فاتح قرار پائے |
فریق 1 | لشکر امام علیؑ |
فریق 2 | لشکر جمل (ناکثین) |
سپہ سالار 1 | امیرالمؤمنین علیؑ |
سپہ سالار 2 | عایشہ، طلحہ اور زبیر |
نقصان 1 | 400 سے 500 افراد قتل |
نقصان 2 | 2500 افراد قتل |
چونکہ اس جنگ کے سرکردگان نے امام علیؑ کی بعنوان خلیفہ بیعت کی تھی پھر بعد میں بیعت توڑتے ہوئے آپ کے ساتھ جنگ شروع کی اس وجہ سے یہ گروہ ناکثین (عہد و پیمان توڑنے والے) کے نام سے مشہور ہوا اور یہ جنگ بھی اسی سبب سے جنگ ناکثین کہلانے لگی۔
جنگ جمل اسلامی دار الخلافہ کے مدینہ سے کوفہ منتقل ہونے، اصحاب اور خلیفہ کے درمیان براہ راست جنگ چھڑنے کی وجہ سے اسلامی مذاہب کے درمیان سیاست کے حوالے سے بہت سارے جدید کلامی اور فقہی مسائل کے وجود میں آنے کا سبب بنی۔
وجہ تسمیہ
جَمَل عربی میں نر اونٹ کو کہا جاتا ہے۔ چونکہ اس جنگ میں عایشہ عسکر نامی ایک نر اونٹ پر سوار تھیں [1] اس لئے اس جنگ کو جنگ جمل کہا جاتا ہے۔
جنگ جمل کے علل و اسباب
حضرت علیؑ کی نگاہ میں
امام علیؑ کے دور حکومت کی جنگیں | مد مقابل لشکر | تاریخ وقوع |
---|---|---|
جنگ جمل | طلحہ و زبیر کا لشکر | 15 جمادی الثانی سنہ 36 ہجری |
جنگ صفین | معاویہ کا لشکر | صفر سنہ 37 ہجری |
جنگ نہروان | خوارج کا لشکر | صفر سنہ 38 ہجری |
جنگ جمل کے حوالے سے امام علیؑ کے ارشادات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس جنگ کے علل و اسباب کو دو علتوں میں خلاصہ کر سکتے ہیں:
حضرت علیؑ نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر 148 میں یوں فرماتے ہیں: طلحہ و زبیر اپنے لئے خلافت کے امیدوار ہیں۔ خلافت کی کرسی پر یوں نظریں جمائے ہوئے ہیں کہ اپنے ساتھی کو انسان ہی نہیں سمجھتے ہیں۔
- دوسری دلیل: بغض و حسد
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حضرت علیؑ کے بارے میں بعض لوگوں کے دل میں بغض اور کینہ تھا۔ اس سے پہلے خود حضرت امیرالمؤمنینؑ اس بارے میں کئی بار اشارہ کرتے آئے ہیں بطور نمونہ یہ جملہ پیش خدمت ہے:
- چونکہ پیغمبرؐ نے مجھے عایشہ کے والد (ابوبکر) پر برتری دی تھی۔
- چونکہ پیغمبرؐ نے مجھے میثاق اخوت میں اپنا بھائی بنایا تھا۔
- چونکہ خداوند عالم نے حکم صادر فرمایا تھا کہ مسجد نبوی میں کھلنے والے تمام دروازے حتی عایشہ کے والد کے گہر کا دروازہ بند کر دیئے جائیں سوائے میرے گھر کے دروازے کے۔
- چونکہ جنگ خیبر میں پیغمبر اکرمؐ نے دوسروں کی ناکامی کے بعد پرچم میرے حوالے کیا اور میں نے قلعہ خیبر کو فتح کیا تھا۔ یہ امر ان کی ناراضگی کا باعث بنا تھا۔[2]
اس کے علاوہ طلحہ اور زبیر اس خام خیالی میں تھے کہ حضرت علیؑ خلافت کے امور میں ان دونوں سے مشورے طلب کریں گے کیونکہ یہ دونوں خود کو امام علیؑ کے ہم رتبہ اور ہم مقام جانتے تھے۔ یہ دونوں امیدوار تھے کہ عثمان کی رحلت کے بعد حکومت میں ان کو بھی حصہ ملے گا۔ لیکن مذکورہ امور میں سے کوئی ایک بھی متحقق نہیں ہوا۔ یہ باعث بنا کہ ان دونوں کی امیر المؤمنینؑ کی نسبت دلی خصومت اور ناراضگی آشکار ہوئی اور باقاعدہ امام کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور جنگ کرنے پر اتر آئے۔
ناکثین کی نگاہ میں
- طلحہ نے بصرہ کے لوگوں کے سامنے جو خطبہ دیا اس میں امام علیؑ کے ساتھ جنگ کرنے کی علت کو امت پیغمبرؐ کی اصلاح اور اطاعت خدا کی ترویج بیان کی۔[3]
- ناکثین معتقد تھے کہ امام علیؑ نے عثمان کو قتل کیا ہے اور عثمان کے قاتلوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ناکثین خود کو عثمان کے خون کا بدلہ لینے والے معرفی کرتے تھے۔ اس کے رد عمل کے طور پر امام علیؑ نے خود انہیں عثمان کا اصل قاتل قرار دیتے ہوئے فرمایا:[4] یہ خون کا بدلہ لینے کا دعوا اس لئے ہے تاکہ کوئی ان سے عثمان کے خون کا بدلہ لینے کا دعوا نہ کرے۔[5]
اس نقطہ نگاہ پر تنقید
- امیرالمؤمنینؑ حضرت علیؑ کی جانب سے ناکثین کی جو سرزنش کی گئی ہے اس میں اکثر طلحہ و زبیر آپ کا مخاطب تھے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپؑ اس جنگ کا مسبب اصلی طلحہ و زبیر کو قرار دیتے تھے اور اس جنگ میں عایشہ ایک ضمنی کرار ادا کر رہی تھیں دوسرے لفظوں میں طلحہ اور زبیر کی طرف سے ان کو غلط پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔
- اصحاب جمل نے جنتے دلائل ذکر کئے ہیں ان میں سے ایک کی بھی کوئی عقلی توجیہ نہیں ہے۔ کیونکہ سب جانتے ہیں کہ عثمان کے خون کا بدلہ صرف اور صرف ایک بہانے سے زیادہ نہیں تھا۔ کیونکہ جب تک عثمان زندہ تھے خود عایشہ کے ان سے اچھے تعلقات نہیں تھے۔ کہا جاتا ہے کہ عایشہ پیغمبر اکرمؐ کا کرتا عثمان کے ہاں لے جاکر بطور احتجاج کہتی تھیں: ابھی تک رسول خداؐ کے کفن بھی خشک نہیں ہوا ہے جبکہ تم ان کے لائے ہوئے احکام میں اس طرح سے تغییر ایجاد کر رہے ہو اور ان میں تحریف کر رہے ہو۔[6]
معتزلہ کی نگاہ میں
معتزلہ کے بعض علماء معتقد ہیں کہ عایشہ اور ان کے ہمراہ افراد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ارادہ رکھتے تھے۔[7]
حالانکہ ابن ابی الحدید جو خود بھی معتزلہ مذہب کے پیروکار ہیں جنگ جمل کے مسببین کے بارے میں کہتے ہیں: ہم معتزلیوں کی نگاہ میں یہ سب کے سب ظلم پر اصرار کرنے کی وجہ سے دوزخی ہیں سوائے عایشہ، طلحہ اور زبیر کے کیونکہ ان تینوں نے توبہ کی تھی اور توبہ کے بغیر ان تینوں کا حشر بھی یہی ہے۔[8]
طلحہ اور زبیر کی پیمان شکنی
امام علیؑ نے ذی الحجہ سنہ 35 ہجری کو مدینہ کے مہاجرین اور انصار کے اصرار پر اپنی باطنی رغبت کے نہ ہوتے ہوئے زمام خلافت کی باگ ڈور سنبھالی۔ طلحہ اور زبیر جو ابتداء میں خلافت پر نظریں جمائے ہوئے تھے؛[9] جب کامیاب نہ ہوئے اور خلافت امام علیؑ تک پہنچی تو اس امید میں تھے کہ آپؑ خلافت کے امور میں انہیں بھی شریک کریں گے اور کم از کم کسی صوبے کی گورنری انہیں بھی ملے گی۔
اپنی اسی خام خیالی کو عملی جامہ پہنانے کیلئے انہوں نے حضرت علیؑ سے بصرہ اور کوفہ (یا عراق اور یمن) ان کے سپرد کرنے کو کہا لیکن امامؑ انہیں اس کام کیلئے شایستہ نہیں سمجھتے تھے۔[10]
امام علیؑ کی خلافت کے چار ماہ گزرنے کے بعد جب طلحہ اور زبیر اس نتیجے پر پہنچے کہ امام علیؑ کی خلافت اور طرز حکمرانی کی وجہ سے لوگ ان دونوں سے دور ہوگئے ہیں اور اب مدینہ میں ان کیلئے کوئی مقام نہیں ہے تو انہوں نے امامؑ سے عمرہ کیلئے مکہ جانے کی اجازت مانگ لی۔ اس وقت امام سمجھ گئے تھے کہ یہ دونوں عمرہ کیلئے نہیں بلکہ بغاوت اور بیعت شکنی کیلئے جا رہے ہیں۔ [11]
طلحہ اور زبیر نے اپنی پیمان شکنی کی توجیہ کیلئے یہ دعوی کیا کہ انہوں نے خوف اور اکراہ کی وجہ سے بیعت کی تھی اور دل سے بیعت نہیں کی تھی لہذا حضرت علیؑ کی اطاعت میں باقی رہنا کوئی ضروری نہیں ہے۔[12]
ناکثین کا عایشہ کے ساتھ عہد و پیمان
طلحہ اور زبیر نے اپنے اہداف کی پایہ تکمیل کی خاطر عایشہ جو عثمان کی قتل سے پہلے عمرہ کی غرض سے مکہ گئی تھی، سے عثمان کے قاتلوں سے جو اس وقت امام علیؑ کے قریبی دوستوں اور آپ کے لشکر کے سپہ سالاروں میں سے ہیں، سے عثمان کے خون کا بدلہ لینے کیلئے ان کا ساتھ دینے کی درخواست کی۔ کجھ مدت کے بعد آخر کار عایشہ نے ان کی درخواست کو قبول کر لی۔[13]
امیرالمؤمنین حضرت علیؑ نہج البلاغہ کی خطبہ نمبر 172 میں اس بات کی طرف یوں اشارہ فرماتے ہیں: "یہ (طلحہ و زبیر) میری بیعت سے خارج ہو گئے اور حرمِ رسول خداؐ کو اپنے ساتھ ادھر سے ادھر لے جاتے تھے جس ایک کنیز کو خریتے وقت اسے اپنی مرضی سے ادھر ادھر لے جاتے ہیں"۔[14]
زبیر پیغمبرؐ اور امام علی کے خالہ زاد اور عایشہ کی بہن کے شوہر تھے۔ زبیر کا بیٹا عبداللّہ نے عایشہ کو طلحہ اور زبیر کے ساتھ رکھنے اور جنگ کو اور شعلہ ور کرنے میں عمدہ کردار ادا کیا۔ [15] عایشہ بھی حضرت علیؑ سے کینہ رکھتی تھی۔[16] اور یہ چیز خود عایشہ کا طلحہ اور زبیر کے ساتھ ملحق ہونے میں مؤثر ثابت ہوئی۔
یوں طلحہ، زبیر اور دوسرے جداییطلبان جو جانتے تھے کہ عایشہ ہمسر رسول خداؐ کے بغیر کہ جو لوگوں کی توجہ کا مرکز تھی، ان کا کام کسی نتیجے تک پہنچنے والا نہیں ہے، عایشہ کی اجازت سے ایک لشکر تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے۔[17]
عبداللّہ بن عامر بن کُرَیز اور یعلی بن امیہ بھی اپنی بے پناہ دولت اور بہت سارے اونٹوں (بعض روایات کے مطابق ۶۰۰ اونٹ اور 6 لاکھ درہم یا دینار) کے ساتھ یمن میں ان کے ساتھ ملحق ہو گئے اور سب عایشہ کے گھر میں جمع ہوگئے۔
مخالفین کی بصرہ کی جانب حرکت
عبداللّہ بن عامر نے بصرہ کی طرف حرکت کرنے جبکہ عایشہ نے مدینہ جانے کی تجویز پیش کی لیکن اصحاب جمل عبداللہ بن عامر کی تجویز سے توافق اور عایشہ کی تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے بصرہ کی جانب روانہ ہوگئے۔ کیونکہ وہ مدینہ والوں سے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ بصرہ کے لوگ طلحہ و زبیر کے حامی تھے اور خود عبداللّہ بن عامر کے بھی وہاں کجھ یار و مددگار رہتے تھے۔ یوں 3000 سپاہیوں پر مشتمل لشکر روانہ ہونے کیلئے آمادہ ہوئے جن میں سے 900 کے قریب مکہ و مدینہ والے تھے۔[18]
راستے میں جہاں کہیں بھی رکتے عایشہ اس سرزمین کا نام پوچھتی تھی یہاں تک کہ حواب نامی جگہ پر پہنچے۔ جب عایشہ کو اس منطقے کے نام کا پتہ چلا تو لشکر سے جدا ہو کر واپس مکہ جانا چاہا۔[19] کیونکہ پیغمبرؑ نے اس سے کہا تھا کہ جب بھی حواب کے کتے تم پر بونکے تو سمجھ لینا تم باطل پر ہو۔[20] عبد اللہ بن زبیر پچاس آدمیوں کو جمع کیا اور انہوں نے قسم کھایا کہ یہ جگہ حواب نہیں ہے۔[21] اس طرح اس نے عایشہ کو واپس جانے سے روک دیا۔ یہ بات اہل سنت کی بہت سارے منابع میں موجود ہے۔[22] اور بعض نے اسے صحیح بھی قرار دیا ہے۔[23]
عایشہ کے کہنے پر عبداللّہ بن عامر بصرہ کے سرداروں کے نام عایشہ کا خط لے کر مخفی طور پر شہر میں داخل ہو گیا جبکہ عایشہ اپنے ہمراہان کے سانھ حُفَیر یا حَفر ابی موسی تک پیش قدمی کی۔[24]
جب بصرہ والوں کو ان کی آمد کا پتہ چلا تو عثمان بن حُنَیف (بصرہ میں حضرت علیؑ کا گورنر) نے عِمران بن حُصَین اور ابوالاسود دُؤَلی کو عایشہ کے ہاں بھیجا اور اس سے یہاں آنے اور امام علیؑ سے انکی اختلاف کا سبب پوچھا۔
عایشہ نے کہا: اوباشوں نے پیغمبرؐ کے حرم پر حملہ کیا اور مسلمانوں کے پیشوا (عثمان) کو ظلم و ستم کے ساتھ قتل کیا اور اس کے اموال کو غارت کیا اور خدا کے حرمت والے مہینوں کی حرمت پال کیا گیا۔ میں آئی ہوں تاکہ مسلمانوں کو ان کے کرتوت سے آگاہ کروں اور ان حالات کی اصلاح کیلئے جو کچھ انجام دینا چاہئے انہیں بتادوں۔
انہوں نے عایشہ سے دوسری زوجات نبی کی طرح خدا کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے گھر میں بیٹھنے کی تلقین کی۔ دوسری طرف سے طلحہ اور زبیر نے بھی عثمان کے خون کی انتقام کی خاطر آنے کا کہا اور یہ کہ انہوں مجبورا بعیت کی تھی لہذا بعت شکنی کی بات معقول نہیں ہے۔[25]
امامؑ کے لشکر کا روانہ ہونا
ربیع الثانی (یا ماہ جمادی الاول) سنہ 36 ہجری کی 24 اور 25 تاریخ تھی [26] جب امام علیؑ کو عایشہ اور طلحہ و زبیر کی بصرہ کی طرف حرکت کی کی خبر دی گئی تو امامؑ نے مدینہ میں جنگ کیلئے تیار ہونے کی دعوت دی اور لوگوں نے بھی اس دعوت پر لبیک کہا۔[27]
اس کے بعد امامؑ نے سہل بن حنیف انصاری کو مدینے میں اپنا جانشین مقرر فرمایا اور خود 700 افراد پر مشتمل سپاہیوں کے ساتھ مدینہ سے باہر تشریف لے گئے تاکہ مخالفین کو دوبارہ واپس لا سکیں لیکن جب مدینہ سے 3 میل کے فاصلے پر ربذہ کے مقام پر پہنچے[28] تو پتہ چلا کہ مخالفین کافی دور ہو گئے ہیں۔ امامؑ نے چند روز وہاں توقف فرمایا اور یہاں قبیلہ طی کے مومنین آپ کے ساتھ ملحق ہوئے اور مدینے سے آپ کیلئے مرکب اور اسلحہ وغیرہ لایا گیا۔[29]
امام علیؑ کے سپاہی مختلف قبائل کے سات گروہ پر مشتمل تھے۔ بعض قبائل جیسے بنی قَیس، بنی اَزد، بنی حَنْظَلہ، بنی عِمران، بنی تَمیم، بنی ضَبّہ اور بنی رِبابذ اصحاب جمل کے ساتھ ملحق ہو گئے تھے۔ جبکہ بعض نے دونوں گروہ کا ساتھ نہ دیا مانند اَحْنَف بن قیس، اس نے امامؑ سے کہا اگر آپ کہتے ہیں تو آپ کے ساتھ ملحق ہوتا ہوں ورنہ اپنے قبیلہ بنی سعد کو لے کر کنارہ کشی کرتا ہوں اور دس ہزار یا چار ہزار تلوار کو آپ سے دور کرتا ہوں، امامؑ نے اسے دور رکھنے کو ترجیح دی اور اسے ملحق ہونے کو نہیں کہا۔[30]
ایک اور روایت کے مطابق امامؑ کے سپاہیوں کی تعداد 19 یا 20 ہزار جبکہ مخالفین کی تعداد 30 ہزار یا اس سے زیادہ تھی۔[31]
امام علیؑ کی صلح کیلئے کوششیں
جب امام علیؑ طَفّ کے راستے بصرہ کی طرف روانہ ہوئے اور زاویہ نامی جگہ پر چند روز قیام کے بعد اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے بصرہ میں داخل ہوئے تو دوسری طرف سے طلحہ، زبیر اور عایشہ بھی فرضہ(بندر) کے راستے بصرہ پہنچے یوں دونوں گروہ بصرہ میں ایک دوسرے کے روبرو ہوئے۔[32] عایشہ بھی اپنی اقامت گاہ قبیلہ ازد کے محلے میں واقع مسجد حُدّان منتقل ہوئی جو میدان جنگ کے نزدیک تھی۔[33]
امام علیؑ جنگ کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے اسی لئے بصرہ میں داخل ہونے کے تین دن تک اس کوشش میں رہے کہ کسی طرح مخالفین کو جنگ سے باز رکھیں اور انہیں اپنے ساتھ ملحق ہونے کی دعوت دیتے رہے۔[34] جنگ کے دن بھی امام علیؑ صبح سی ظہر تک اصحاب جمل کو واپس آنے کی دعوت دیتے رہے۔[35]
امامؑ نے طلحہ و زبیر کے نام ایک خط لکھا جس میں اپنی خلافت کی مشروعیت، لوگوں کی آزادانہ بیعت، عثمان کے قتل میں اپنی بے گناہی، عثمان کے انتقام لینے میں طلحہ اور زبیر کے حق بہ جانب نہ ہونے اور طلحہ اور زبیر کا قرآن کی سراسر مخالفت کرتے ہوئے زوجہ پیغمبر اکرمؐ کو اپنے گھر اور منزل سے باہر لانے جیسے مسائل کی طرف انہیں آگاہ کیا۔
امامؑ نے عایشہ کو بھی ایک خط کے ذریعے آگاہ کیا کہ وہ قرآن کی حکم عدولی کرتے ہوئے اپنے گھر سے باہر نکلی ہیں اور لوگوں کی اصلاح اور عثمان کے انتقام کے بہانے لشکر کشی کرکے خود کو ایک عظیم گناہ میں مبتلا کیا ہے۔
طلحہ اور زبیر نے جواب میں اپنی نافرمانی پر اصرار کیا جبکہ عایشہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔
دوسری طرف عبد اللہ بن زبیر لوگوں کو امامؑ کے خلاف اکسانے میں مصروف تھے جن کا امام حسنؑ نے جواب دیا۔[36]
آخر میں امام علیؑ نے صَعْصَعہ بن صوحان پھر عبداللہ بن عباس کو طلحہ و زبیر اور عایشہ کے ساتھ مذاکرات کے لئے بھیجا لیکن ان مذاکرات کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا اس درمیان عایشہ سب سے زیادہ سر سخت نکلیں۔[37]
امامؑ کی مخالفین سے براہ راست گفتگو
امام علیؑ نے طلحہ اور زبیر سے ملاقات اور گفتگو کی اور زبیر جسے آپ زیادہ نصیحت پذیر مانتے تھے، پیغمبر اکرمؐ کی ایک حدیث یاد دلادی جس پر زبیر نے اقرار کیا کہ اگر یہ حدیث انہیں یاد رہتی تو ہرگز جنگ کیلئے نہیں آتے اور امام کے ساتھ جنگ نہ کرنے کی قسم کھائی۔
اس وقت زبیر نے عایشہ سے کہا کہ وہ جنگ سے کنارہ کشی اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ اس موقع پر ان کے بیٹے عبداللّہ بن زبیر نے کہا کہ یہ تم ہی تھے جس نے ان دو لشکروں کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے لا کھڑا کر دیا ہے اور اب یہ ایک دوسرے کے اوپر تلواریں نکال رہے ہیں اب تم چاہتے ہو کہ ان کو چھوڑ کر چلے جاو؟ تم علی ابن ابی طالب کے دلیر اور شجاع جوانوں کے ہاتھوں میں موجود پرچموں کو دیکھ کر خوفزدہ ہو گئے۔
طبری کے نقل کے مطابق زبیر نے اپنے بیٹے عبداللّہ کی اصرار پر قسم توڑنے کے کفارہ کے طور پر ایک غلام آزاد کیا پھر جنگ کیلئے آمادہ ہو گئے[38]
جنگ کا آغاز
15 جمادی الثانی سنہ 36 ہجری[39] یا 10 جمادی الثانی 36 ہجری[40] یا 10 جمادی الاول 36 ہجری[41] کو بصرہ کے نواح میں خُرَیبَہ کے مقام پر چنگ کا آغاز ہوا۔[42]
امامؑ نے جنگ کے آغاز سے پہلے اپنے ایک سپاہی کے ہاتھوں میں قرآن دے کر اسے بلند کروا کر مخالفین کو ایک بار پھر اس کتاب کے قوانین پر عمل پیرا ہونے اور تفرقہ سے بار رہتے ہوئے اتحاد اور اتفاق کی دعوت دی۔ لیکن مخالفین نے اسے شہید کردیا امام کے کئی دوسرے ساتھیوں کے اوپر پر تیر چلایا۔ اس کے بعد امامؑ نے فرمایا اب جنگ کرنا جائز ہے اب جنگ کی باری ہے۔[43] امامؑ نے اپنے سپاہیوں کو جنگ کی ابتداء کرنے سے منع کیا ہوا تھا اور انہیں یہ حکم دیا تھا کہ زخمیوں کو نہ مارا جائے، کسی کو مثلہ نہ کیا جائے، اجازت کے بغیر کسی کے گھر میں داخل نہ ہو، کسی کو برابلا نہ کہا جائے، کسی عورت پر حملہ آور نہ ہو اور سوائے جو چیز مخالفین کے مورچوں میں ہیں کسی چیز کو ہاتھ نہ لگایا جائے۔[44]
لشکر امام علیؑ کے دائیں بازوں کی کمانڈ مالک اشتر اور بائیں طرف کی کمانڈ عمار بن یاسر جبکہ فوج کا پرچم محمد بن حنفیہ کے ہاتھ میں تھا۔[45] اس جنگ امام حسنؑ لشکر کے دائیں طرف اور امام حسینؑ بائیں طرف سے جنگ فرما رہے تھے۔[46]
اصحاب جمل نے بھی اپنی سپاہیوں کو مرتب کیا[47] در حالی کہ عایشہ ایک اونٹ پر سوار تھیں جسے زرہ سے چھپایا گیا تھا اور لشکر کے آگے آگے چل رہی تھی۔[48]
جنگ کا نتیجہ
اصحاب جمل اس چند گھنٹوں کی جنگ میں کافی سارے سپاہیوں کی ہلاکت کے بعد رات تک مغلوب ہوگئے۔[49] جب اصحاب جمل کا لشکر فرار ہونے لگے تو مروان بن حَکَم نے طلحہ کے ٹانگوں میں ایک تیر پیوست کیا جس سے وہ زخمی ہوگیا۔ طلحہ کو بصرہ میں ایک گھر میں منتقل کیا گیا اور وہ وہیں پر شدید خونریزی کی وجہ سے ہلاک ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس موقع پر مروان بن حکم نے عثمان کے بیٹے ابان سے کہا کہ تمہار باپ کے ایک قاتل کو میں نے ہلاک کردیا ہے۔[50]
بعض تاریخی منابع کے مطابق زبیر جو اپنے کئے پر شرمندہ تھے جنگ سے پہلے ہی اصحاب جمل سے جدا ہو کر میدان جنگ سے باہر چلے گئے تھے۔[51] ایک اور قول کی بنا پر جنگ میں شکست کھانے کے بعد زبیر میدان جنگ سے فرار ہو گئے اور مدینہ چلے گئے۔[52]
بہر حال جب زبیر نے میدان جنگ ترک کیا تو عَمرو بن جُرموز نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ اس کا پیچھا کیا اور وادیالسِّباع نامی جگہ پر اسے غافلگیر کیا اور اسے ہلاک کر ڈالا۔[53]
امامؑ نے زبیر کی ہلاکت پر افسوس اور دکھ کا اظہار کیا اور جب اس کی تلوار پر نظر پڑی تو فرمایا کہ صدر اسلام میں اس تلوار نے کئی بار پیغمبر اکرم کے چہرے سے غم اندوہ کو دور کیا تھا۔[54]
عایشہ کا انجام
جنگ کے بعد عایشہ کو کجاوہ سے باہر لایا گیا اور ان کے لئے ایک الگ خیمہ نصب کیا گیا۔ امامؑ نے جنگ کو شعلہ ور کرنے کی بنا پر ان کی سرزنش کی ان کے بعد ان کے بھائی محمد بن ابی بکر کے ذریعے انہیں بصرہ روانہ کیا۔
عایشہ کا وہاں چند روز قیام کے بعد مدینہ جانا قرار پایا تھا لیکن مہلت تمام ہونے کے بعد بھی انہوں نے مدینہ جانے سے تعلل کیا تو امامؑ نے عبداللہ بن عباس کو ان کے پاس بھیجا اور انہیں معاملے سے آگاہ کیا۔
اس کے بعد انہیں بصرہ کی کئی عورتوں کے ساتھ جنہیں امامؑ کے حکم پر مردوں کے لباس میں ملبوس کیا گیا تھا اپنے سپاہیوں کی ایک تعداد کے ساتھ محمد بن ابی بکر یا عبد الرحمان کے ہمراہ با احترام مدینہ روانہ کیا گیا۔[55]
اس واقعے کے بعد عایشہ کو جب بھی جنگ جمل کی یاد آتی، وہ یہ آرزو کرتی تھیں کہ اے کاش اس سے پہلے وہ مر چکی ہوتیں اور اس حادثے میں وہ شریک نہ ہوتیں۔ عایشہ جب بھی آیت "و قَرْنَ فی بُیوتِکُنَّ" [56] کی تلاوت کرتی اس قدر گریہ کرتی کہ ان کا چہرہ آنسوں میں بھیگ جاتا تھا۔[57]
ہلاکتوں کی تعداد
جنگ جمل میں ہلاکتوں کی اصل تعداد کے بارے میں تاریخ میں کوئی خاطر خواہ اور اطمینان بخش حقائق ثبت نیہں ہیں لیکن ابو خَیثَمَہ کی روایت کے مطابق جو انہوں نے وَہب بن جَریر سے نقل کیا ہے، جنگ جمل میں بصرہ والوں کے ۲۵۰۰ افراد مارے گئے۔[58] دیگر روایتوں میں اصحاب جمل کے جنگ میں ہلاک ہونے والے سپاہیوں کی تعداد ۶۰۰۰ سے ۲۵۰۰۰ افراد تک مذکور ہیں۔[59] اسی طرح بعض نی امامؑ کے لشکر میں سے بھی ۴۰۰ سے ۵۰۰۰ افراد کی شہادت کا ذکر کرتے ہیں۔[60]
حوالہ جات
- ↑ طبری، ج ۴، ص ۴۵۲، ۴۵۶ و ۵۰۷
- ↑ مفید، ص ۴۰۹
- ↑ مفید، ص ۳۰۴
- ↑ مجلسی، ج ۳۲، ص ۱۲۱؛نہج البلاغہ، خطبہ۱۳۷
- ↑ نہج البلاغہ، ص ۲۵۰
- ↑ ابن ابی الحدید، ج ۶، ص ۲۱۵
- ↑ مفید، ص ۶۴
- ↑ ابن ابی الحدید، عبد الحمید، شرح نہج البلاغۃ، بہ کوشش محمد ابو الفضل ابراہیم، قاہرہ، ۱۳۷۸-۱۳۸۴ق/۱۹۵۹-۱۹۶۴م، ج ۱، ص ۹.
- ↑ نہجالبلاغہ، خطبہ۱۴۸ ؛ طبری، ج۴، ص۴۵۳، ۴۵۵
- ↑ ابن قتیبہ، ج۱، ص۵۱۵۲ ؛ طبری، ج۴، ص۴۲۹، ۴۳۸
- ↑ بلاذری، ج۲، ص۱۵۸ ؛ طبری، ج۴، ص۴۲۹ ؛ مفید، ج۱، ص۲۲۶
- ↑ بلاذری، ج۲، ص۱۵۸ ؛ طبری، ج۴، ص۴۳۵
- ↑ بلاذری،ج۲، ص۱۵۹ ؛ دینوری، ص۱۴۴ ؛ ابن اعثم کوفی، ج۲، ص۴۵۲
- ↑ نہج البلاغۃ، خطبہ ۱۷۲
- ↑ ابن اثیر، ج۲، ص۲۴۹-۲۵۰ و ج۳، ص۲۴۲-۲۴۳
- ↑ نہجالبلاغہ،خطبہ۱۵۶ ؛ طبری، ج۴، ص۵۴۴ ؛ مفید، ج۱، ص ۴۲۵-۴۳۴
- ↑ طبری، ج۴، ص۴۵۰۴۵۱ ؛ مفید، ج۱، ص۲۲۶-۲۲۷
- ↑ بلاذری، ج۲، ص۱۵۷۱۵۹ ؛ طبری، ج۴، ص۴۵۴ ؛ ابن اعثم کوفی، ج۲، ص۴۵۳ ؛ مسعودی، ج۳، ص۱۰۲
- ↑ مسند أحمد بن حنبل، ج 6، ص52، ح24299
- ↑ البيہقي، المحاسن والمساوئ، ج 1، ص43
- ↑ البيہقي، المحاسن والمساوئ، ج 1، ص43
- ↑ إبن أبي شيبۃ، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج 7، ص536، ح37771؛ مسند إسحاق بن راہويہ، ج 3، ص891، ح1569؛ المستدرك علي الصحيحين، ج 3، ص129، ح4613؛ دلائل النبوۃ، ج 6، ص129؛ مسند أبي يعلي، ج 8، ص282، ح4868؛صحيح ابن حبان، ج 15، ص126، ح6732
- ↑ الذہبي ، سير أعلام النبلاء، ج 2، ص178؛ البدايۃ والنہايۃ، ج 6، ص212؛ الہيثمي، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، ج 7، ص234؛ فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 13، ص55
- ↑ بلاذری، ج۲، ص۱۶۰ ؛ طبری، ج۴، ص۴۶۱
- ↑ بلاذری، ج۲، ص۱۶۰ ؛ طبری، ج۴، ص۴۶۱
- ↑ بلاذری، ج۲، ص۱۶۳-۱۶۴ ؛ طبری، ج۴، ص۴۶۸
- ↑ بلاذری، ج۲، ص۱۶۵؛ ابن اعثم کوفی، ج۲، ص۴۵۷
- ↑ یاقوت حموی، ذیل کلمہ ربَذَة
- ↑ بلاذری، ج۲، ص۱۵۸ ؛ طبری، ج۴، ص۴۷۷-۴۷۹ ؛ مسعودی، ج۳، ص۱۰۳-۱۰۵ ؛ خلیفۃ بن خیاط، ج۱، ص۱۱۰
- ↑ بلاذری، ج۲، ص۱۸۶ ؛ طبری، ج۴، ص۵۰۰-۵۰۵ ؛ دینوری، ص۱۴۵-۱۴۶ ؛ ابن اعثم کوفی، ج۲، ص۴۶۳ ؛ مسعودی، ج۳، ص۱۱۷
- ↑ طبری، ج۴، ص۵۰۵-۵۰۶ ؛ ابن اعثم کوفی، ج۲، ص۴۶۱
- ↑ خلیفۃ بن خیاط، ج۱، ص۱۱۱ ؛ طبری، ج۴، ص۵۰۰ ۵۰۱ ؛ مسعودی، ج۳، ص۱۰۴۱۰۶
- ↑ طبری، ج۴، ص ۵۰۳
- ↑ دینوری، ص۱۴۷ ؛ طبری، ج۴، ص۵۰۱ ؛ مسعودی، ج۳، ص۱۰۶ ؛ مفید، ج۱، ص۳۳۴
- ↑ دینوری، ص۱۴۷
- ↑ ابن قتیبہ، ج۱، ص۷۰۷۱؛ ابن اعثم کوفی، ج۲، ص۴۶۵۴۶۷.
- ↑ مفید، ج۱، ص۳۱۳۳۱۷؛ ابن اعثم کوفی، ج۲، ص۴۶۷.
- ↑ ج ۳، ص ۵۱۳
- ↑ طبری، ج۴، ص۵۰۱
- ↑ مسعودی، ج۳، ص ۱۱۳
- ↑ یعقوبی، ج۲، ص۱۸۲
- ↑ بلاذری، ج۲، ص۱۷۴ ؛ یاقوت حموی، ذیل کلمہ خُرَیبَۃ
- ↑ بلاذری، ج۲، ص۱۷۰۱۷۱ ؛ یعقوبی، ج۲، ص۱۸۲ ؛ طبری، ج۴، ص۵۰۹
- ↑ بلاذری، ج۲، ص۱۷۰
- ↑ المفید، الجمل، قم: مکتبۃ الداوری، بیتا، ص ۱۷۹ (نسخہ موجود در لوح فشردہ مکتبۃ اہل البیتؑ، نسخہ دوم، ۱۳۹۱ش).
- ↑ المفید، الجمل، قم: مکتبۃ الداوری، بیتا، ص ۱۸۶(نسخہ موجود در لوح فشردہ مکتبۃ اہل البیتؑ، نسخہ دوم، ۱۳۹۱ش).
- ↑ بلاذری، ج۲، ص۱۶۹ ؛ ابن قتیبہ، ج۱، ص۷۶ ؛ مفید، ص ۳۱۹ ۳۲۵
- ↑ بلاذری، ج۲، ص۱۷۰ ؛ دینوری، ص۱۴۹ ؛ طبری، ج۴، ص۵۰۷
- ↑ بلاذری، ج۲، ص۱۷۱
- ↑ دینوری، ص۱۴۸
- ↑ ابن اعثم کوفی، ج۲، ص۴۷۰۴۷۱
- ↑ بلاذری، ج۲، ص۱۸۱
- ↑ طبری، ج۴، ص۵۱۱
- ↑ ابن اعثم کوفی، ج۲، ص۴۷۱۴۷۲
- ↑ مسعودی، ج۳، ص۱۱۳۱۱۴
- ↑ احزاب/۳۳/۳۳
- ↑ ابن اعثم کوفی، ج۲، ص ۴۸۷
- ↑ بلاذری، ج۲، ص۱۸۷
- ↑ خلیفۃ بن خیاط، ج۱، ص۱۱۲ ؛ طبری، ج۴، ص۵۳۹ ؛ ابن اعثم کوفی، ج۲، ص۴۸۷۴۸۸ ؛ مسعودی، ج۳، ص۹۵۹۶
- ↑ خلیفۃ بن خیاط، ج۱، ص۱۱۲ ؛ ابن اعثم کوفی، ج۲، ص۴۸۷ ؛ مسعودی، ج۳، ص۹۶
مآخذ
- قرآن کریم
- ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، چاپ محمد ابو الفضل ابراہیم، قاہرہ.
- إبن أبي شيبۃ، عبد اللہ بن محمد (235 ھ)، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، تحقيق كمال يوسف الحوت، مكتبۃ الرشد، رياض، الطبعۃ الأولي، 1409 ھ.
- ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، چاپ محمد ابراہیم بنا و محمد احمد عاشور، قاہرہ.
- ابن اعثم کوفی، کتاب الفتوح، چاپ علی شیری، بیروت.
- ابن حجز عسقلانی، أحمد بن علي (852 ھ)، فتح الباري شرح صحيح البخاري، تحقيق محب الدين الخطيب، دار المعرفۃ، بيروت.
- ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، المعروف بتاریخ الخلفاء، قاہرہ.
- أبو يعلي الموصلي التميمي، أحمد بن علي بن المثني (307 ھ)، مسند أبي يعلي، حسين سليم أسد، دار المأمون للتراث، دمشق، الطبعۃ الأولي، 1404 ھ.
- أحمد بن حنبل (241 ھ)، مسند أحمد بن حنبل، ، مؤسسۃ قرطبۃ، مصر.
- بلاذری، انساب الاشراف، چاپ محمود فردوس العظم، دمشق.
- بيہقي، إبراہيم بن محمد (320 ھ)، المحاسن والمساوئ، تحقيق عدنان علي، ناشر دار الكتب العلميۃ، بيروت، لبنان، الطبعۃالأولي، 1420 ھ.
- تميمي بستي، محمد بن حبان (354 ھ)، صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان، تحقيق شعيب الأرنؤوط، مؤسسۃ الرسالۃ، بيروت، الطبعۃالثانيۃ، 1414 ھ.
- حاكم نيشابوري، محمد بن عبداللہ (405 ھ)، المستدرك علي الصحيحين، تحقيق مصطفي عبد القادر عطا، دار الكتب العلميۃ، بيروت الطبعۃ الأولي، 1411 ھ.
- حنظلي، إسحاق بن إبراہيم (238 ھ)، مسند إسحاق بن راہويہ، تحقيق د. عبد الغفور بن عبد الحق البلوشي، مكتبۃ الإيمان، المدينۃ المنورۃ، الطبعۃالأولي، 1412 ھ.
- خلیفہ بن خیاط، تاریخ خلیفۃ بن خیاط، چاپ مصطفی نجیب فوّاز و حکمت کشلی فوّاز، بیروت.
- دینوری، الاخبار الطوال، چاپ عبد المنعم عامر، مصر.
- طبری، تاریخ طبری، موسسہ اعلمی للمطبوعات، بیروت.
- مجلسی، بحار الانوار، موسسہ الوفاء، بیروت.
- مسعودی، مروج الذہب و معادن الجواہر، ترجمہ ابو القاسم پایندہ، انتشارات علمی و فرہنگی، تہران.
- مفید، الجمل و النصرۃ لسیدالعترۃ فی حرب البصرۃ، چاپ علی میر شریفی، قم.
- نہج البلاغہ، ترجمہ جعفر شہیدی، تہران: شرکت انتشارات علمی و فرہنگی، بہار ۱۳۸۶.
- ہيثمي، علي بن أبي بكر (807 ھ)، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، دار الريان للتراث، دار الكتاب العربي،القاہرۃ، بيروت، 1407 ھ.
- یاقوت حموی، معجم البلدان.
- یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ترجمہ ابراہیم آیتی، بنگاہ ترجمہ و نشر کتاب، تہران.