دعائے اللَّہُمَ‏ عَرِّفْنِی نَفْسَک یا دعائے معرفت، امام صادق علیہ السلام کی ایک دعا ہے جسے غیبت کے زمانے کی مشکلات اور شکوک و شبہات میں دین اور ایمان کی حفاظت کے لیے پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ شیعہ علماء نے نماز کے بعد اس دعا کو پڑھنے پر زور دیا ہے. دعائے اللہم عرفنی نفسک کے مضمون کے مطابق رسول اللہؐ کی شناخت، اللہ کی معرفت پر مبتنی ہے اور ائمہؑ کی پہچان اور معرفت رسول اللہ کی معرفت پر مبتنی ہے اور صحیح دین کی معرفت صرف اور صرف امام کی معرفت سے ہی ممکن ہے۔

دعائے اللہم عرفنی نفسک
دعائے معرفت
کوائف
موضوع:اللہ، رسول اور امام کی معرفت سے مربوط
مأثور/غیرمأثور:مأثور
صادرہ از:امام صادقؑ
راوی:زراره بن اعین
شیعہ منابع:الکافی، کتاب الغیبة (نعمانی)، کمال الدین و تمام النعمة و کتاب الغیبة (شیخ طوسی)
مونوگرافی:معرفت حجت خدا؛‌ شرح دعای اللهم عرفنی نفسک» تألیف لطف اللہ صافی گلپایگانی.
مشہور دعائیں اور زیارات
دعائے توسلدعائے کمیلدعائے ندبہدعائے سماتدعائے فرجدعائے عہددعائے ابوحمزہ ثمالیزیارت عاشورازیارت جامعہ کبیرہزیارت وارثزیارت امین‌اللہزیارت اربعین


یہ دعا شیعہ منابع میں سے کلینی کی کتاب الکافی، نعمانی کی الغیبۃ، شیخ صدوق کی کمال الدین و تمام النعمۃ اور شیخ طوسی کی کتاب الغیبۃ میں معتبر سند کے ساتھ ذکر ہوئی ہے۔

دعائے معرفت، امام زمان علیہ السلام کے نائبوں میں سے ایک سے تفصیل کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔ سید بن طاووس نے جمعہ کے عصر کو اس مفصل دعا کو پڑھنے پر زور دیا ہے۔

امام مہدی انسائیکلو پیڈیا میں لکھا ہے کہ امام صادقؑ کی بیان کردہ مختصر دعا، نائب امام الزمانؑ کی بیان کردہ مفصل دعا کا ابتدائی حصہ ہے، جو مختصر اور مشہور ہونے کے سبب روایات میں مستقل طور پر نقل ہوا ہے۔ امام مہدی انسائیکلوپیڈیا کے مصنفین کے مطابق دعائے معرفت، امام صادقؑ سے منقول ہے لیکن محمد بن عثمان عمری کے دور میں یہ شیعوں کو ملی۔ امام زمانہ کے نائب کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے شیخ صدوق نے اپنی کتاب کمال الدین میں توقیعات امام زمانہ کے ذیل میں اور کفعمی نے کتاب البلد الامین میں امام زمانہ سے نقل کیا ہے۔

اس دعا میں نبی اور رسول سے مراد رسول اللہؐ کو اور حجت سے مراد امام زمانہ لیا گیا ہے؛ کیونکہ یہ دعا عصرِ غیبت سے مربوط ہے۔

معرفی اور اہمیت

دعائے اللہم عرفنی نفسک، ایک دعا ہے جس زرارہ نے امام صادقؑ سے نقل کیا ہے۔[1] جسے عصرِ غیبت کی سختیوں میں ایمان کو مضبوط رکھنے کے لیے پڑھنے کی تاکید ہوئی ہے۔[2] یہ دعا، جسے دعائے معرفت کہا جاتا ہے،[3] عصرِ غیبت سے مخصوص دعاوں[4] میں سے ایک اہم دعا ہے اور غیبت کے دوران دین کو برقرار رکھنے کے لیے پڑھنے کی تاکید ہوئی ہے۔[5]

امام صادقؑ نے اس دعا کو اسمترار کے ساتھ پڑھنے پر زور دیا ہے۔[6] آیت اللہ بہجت[7] اور مرزا جواد ملکی تبریزی[8] نے بھی نماز کے بعد اسے پڑھنے کی تاکید کی ہے۔

دعائے معرفت ان مشہور دعاؤں میں سے ایک ہے جسے عصرِ غیبت میں شیعہ پڑھتے ہیں[9] اور مختلف مساجد میں یومیہ نمازوں کے بعد پڑھتے ہیں۔[حوالہ درکار]


آیت اللہ جوادی آملی نے اس دعا کو ایک علمی اور تحقیقی دعا قرار دیا ہے جو خواندگی و علم اور اجر دونوں کا باعث بنتا ہے۔[10]

سید بن طاووس نے جمعہ کی عصر کے لئے چند دعائیں ذکر کرنے کے بعد کہا ہے کہ اگر تم کسی عذر کی وجہ سے وہ دعائیں نہیں پڑھ سکے تو اس بات کا خیال رکھو کہ دعائے "اللہم عرفنی نفسک" پڑھنا نہ چھوڑیں۔[11]

منابع و سند دعا

دعائے اللہم عرفنی نفسک، امام صادقؑ سے مختصر اور امام زمانہ کے دوسرے نائب سے مروی دعا ہے۔[12] مختصر دعا، شیعہ ابتدائی مصادر میں سے کلینی (متوفی: 329ھ) کی کتاب الکافی،[13] نعمانی (متوفی: 360ھ) کی الغیبۃ،[14] شیخ صدوق (متوفی: 381ھ) کی کمال الدین و تمام النعمۃ[15] اور شیخ طوسی (متوفی: 460ھ) کی کتاب الغیبۃ [16] میں زرارہ سے مختلف سند کے ساتھ نقل ہوئی ہے جنہوں نے امام صادقؑ سے روایت کی ہے۔ مفصل دعا بھی کمال الدین و تمام النعمۃ[17] اور شیخ طوسی کی مصباح المتہجد میں[18] ابن ہَمّام اِسْکافی سے نقل ہوئی ہے۔ ابن ہمام کا کہنا ہے کہ یہ دعا انہیں عَمْری [یادداشت 1] نے سکھائی اور اسے پڑھنے کی تاکید بھی کی ہے۔[19] شیخ عباس قمی نے بھی مفاتیح الجنان میں مفصل دعا کو سید بن طاووس سے نقل کیا ہے۔[20]

امام مہدیؑ کے انسائیکلو پیڈیا میں لکھا ہے کہ یہ مختصر دعا اس مفصل دعا کا پہلا حصہ ہے، جو مختصر اور مشہور ہونے کے سبب احادیث کی کتابوں میں مستقل طور پر نقل ہوا ہے۔ امام مہدی انسائیکلوپیڈیا کے مصنفین کے مطابق دعائے معرفت، امام صادقؑ سے منقول ہے جو ائمہؑ اور بعض اصحاب کے پاس تھی لیکن محمد بن عثمان عمری کے دور میں شیعوں پر غیبت کا ذہنی اور روحانی دباؤ شدید تھا اس دوران یہ دعا شیعوں کو دی گئی۔[21]

آیت اللہ صافی گلپایگانی کا کہنا ہے کہ اس دعا کو شیخ کلینی نے دو سند کے ساتھ، شیخ صدوق نے تین مختلف سند اور نعمانی نے بھی ایک مختلف سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔[22] شیخ طوسی[23] اور سید بن طاووس[24] نے بھی مفصل دعا کو دو مختلف سندوں کے ساتھ نقل کیا ہے۔[25]

امام صادقؑ سے منقول دعا کے تمام اسناد معتبر قرار دئے گئے ہیں؛[26] لیکن علامہ مجلسی نے مرآۃ العقول میں کتاب کافی کے اسناد میں سے ایک کو مجہول[27] اور دوسری سند کو ضعیف[28] قرار دیا ہے۔ آیت اللہ صافی گلپایگانی کی نظر میں یہ دعا معتبر ہے، اور اگر اس کی سند ضعیف بھی ہو تو قاعدہ تسامح در ادلہ سنن (احکام مستحب میں مستندات کو ہلکا لینا) کے تحت اسے پڑھ سکتے ہیں۔[29]

کہا جاتا ہے کہ شیخ صدوق کا اس دعا کو اپنی کتاب کمال الدین میں توقیعات امام زمانہ میں شامل کرنے[30] کفعمی کا کتاب البلد الامین میں امام زمانہ سے منسوب کرنے کی وجہ،[31] اس دعا کا امام زمانہ کے نائب محمد بن عثمان سے نقل کرنا ہے۔[32]

مضامین

کہا جاتا ہے کہ دعائے اللہم عرفنی نفسک میں دو اہم چیزیں بیان ہوئی ہیں:

  • خدا، پیغمبرؐ اور ائمہؑ کی حقیقی معرفت صرف خدا کی مدد اور توفیق سے ہی ممکن ہے۔
  • خدا کی معرفت سے پیغمبر کی حقیقی معرفت، پیغمبر کی معرفت سے ائمہ کی معرفت اور حقیقی دین کی معرفت امام کی معرفت سے ہی ممکن ہے۔[33]

آیت اللہ جوادی آملی کا کہنا ہے کہ دعاؤں میں عام طور پر اللہ سے ایک درخواست ہوتی ہے لیکن یہ دعا دوسری دعاؤں کے برخلاف ایک علمی اور برہانی دعا ہے جس میں ایک کلامی برہان اور دلیل پائی جاتی ہے جو الوہیت، رسالت و امامت اور ہدایت کے درمیان ارتباط کو بیان کرتی ہے۔[34] وہ برہان کچھ یوں ہے: رسول اکرمؐ، اللہ کے خلیفہ ہیں اور انسان جب تک اللہ کو نہ پہچانے اس کے خلیفے کو بھی نہیں پہچان سکتا ہے اسی طرح معاشرے کا سرپرست (امام معصوم) لوگوں کا منتخب شدہ نہیں ہے بلکہ وہ رسول اکرمؐ کا خلیفہ اور جانشین ہے؛ لہٰذا جب تک پیغمبر کی شناخت نہ ہو اس کے جانشین کی معرفت بھی حاصل نہیں ہوسکتی ہے۔ لہذا پیغمبر اکرمؐ کی بعثت کی شناخت اور معرفت، توحید کی شناخت پر اور غدیر کی شناخت بعثت کی شناخت پر منحصر ہے۔[35]

اس دعا کے مطابق نبوت، امامت اور ولایت کی شناخت کے بغیر دین کی شناخت ممکن نہیں ہے۔[36] لہذا انسان امام کی معرفت اور ان پر ایمان کے بغیر گمراہ ہوجاتا ہے۔ اس گمراہی سے نجات صرف امام سے تمسک کرنے میں ہے جس کے بارے میں حدیث ثقلین اور دیگر احادیث میں اشارہ ہوا ہے۔[37]

کہا گیا ہے کہ دعائے معرفت میں دعا کرنے والا، خدا، پیغمبر اور حجت سے غافل نہیں ہے؛ لہٰذا خدا سے معرفت کی درخواست کا مطلب یا اس کی حفاظت اور برقرار رکھنے کی درخواست ہے یا معرفت کے اعلیٰ درجات کی درخواست، یا خدا، پیغمبر اور حجت کی شناخت میں خصوصی لطف و احسان کی درخواست ہے۔[38]

آیت اللہ صافی گلپایگانی کا کہنا ہے کہ اس دعا میں نبی اور رسول سے مراد رسول اکرمؐ[39] اور حجت سے مراد امام زمان(عج) ہیں؛ کیونکہ یہ دعا عصرِ غیبت سے مربوط ہے۔[40] لہذا دعا کرنے والا اللہ سے، یا زیادہ معرفت اور غیبی امداد کی درخواست کرتا ہے یا ولایتِ امام مہدی پر ثابت قدم اور باقی رہنے کو طلب کرتا ہے؛ کیونکہ عصرِ غیبت میں فکری طور پر ڈگمگانے اور عقیدے کے اعتبار سے انحراف کا خوف اور خطرہ بہت زیادہ رہتا ہے۔[41]

دعا کا متن

حدیث کے منابع کے مطابق زرارہ نے امام صادقؑ سے روایت کی ہے کہ اس نوجوان (قائم) کے لیے قیامت سے پہلے ایک غیبت ہے۔ میں نے کہا کیوں؟ آپ نے فرمایا: اپنی جان کے خوف سے۔ پھر فرمایا: اے زرارہ! وہی ہے جس کا انتظار کیا جاتا ہے اور وہی ہے جس کی پیدائش میں شک و تردید کی جاتی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ان کے والد بغیر جانشین کے انتقال کر گئے۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ ابھی تک اپنی ماں کے پیٹ میں ہیں، اور بعض کہتے ہیں کہ وہ اپنے والد کی وفات سے دو سال پہلے پیدا ہوا ہے، اور وہ وہی ہے جس کی انتظار کی جاتی ہے، سوائے اس کے کہ خدا شیعہ کو آزمانا چاہتا ہے۔ یہ تب ہوتا ہے جب منفی سوچ رکھنے والے شک کرتے ہیں۔ زرارہ کہتا ہے: میں نے امام سے کہا: میری جان آپ پر قربان! اگر میں اس وقت تک رہوں تو میں کیا کروں؟ فرمایا: اے زرارہ! جب اس وقت کو پا سکو تو یہ دعا پڑھ لیا کرو: "اللَّہُمَّ عَرِّفْنِی نَفْسَکَ فَإِنَّکَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِی نَفْسَکَ لَمْ أَعْرِفْ نَبِيَّکَ اللَّہُمَّ عَرِّفْنِی رَسُولَکَ فَإِنَّکَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِی رَسُولَکَ لَمْ أَعْرِفْ حُجَّتَکَ اللَّہُمَّ عَرِّفْنِی حُجَّتَکَ فَإِنَّکَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِی حُجَّتَکَ ضَلَلْتُ عَنْ دِینِی (ترجمہ: بارالٰہا؛ تو مجھے اپنی معرفت(شناخت) عطا کر اس لئے کہ اگر تونے مجھے اپنی معرفت نہیں عطا کی تو مجھے تیرے نبی کی معرفت حاصل نہ ہوگی .خدایا ! تو مجھے اپنے رسول کی معرفت عطا کر اس لئے کہ اگر تونے مجھے اپنے رسول کی معرفت نہیں عطا کی تو مجھے تیرے حجت کی معرفت حاصل نہ ہوگی۔ میرے اللہ! تومجھے اپنی حجت کی معرفت عطا کر کیونکہ اگر تو نے مجھے اپنی حجت کی معرفت نہیں عطا کی تو میں اپنے دین ہی سے گمراہ ہوجاؤں گا۔ [42]

مختصر اختلاف کے ساتھ دوسرا متن کچھ یوں نقل ہوا ہے: اللَّہُمَّ عَرِّفْنِی نَفْسَکَ فَإِنَّکَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِی نَفْسَکَ لَمْ أَعْرِفْکَ اللَّہُمَّ عَرِّفْنِی نَبِيَّکَ فَإِنَّکَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِی نَبِيَّکَ لَمْ أَعْرِفْہُ قَطُّ ... (ترجمہ: بارالٰہا؛ تو مجھے اپنی معرفت(شناخت) عطا کر اس لئے کہ اگر تو نے مجھے اپنی معرفت نہیں عطا کی تو مجھے تیری معرفت حاصل نہ ہوگی .خدایا ! تو مجھے اپنے رسول کی معرفت عطا کر اس لئے کہ اگر تو نے مجھے اپنے رسول کی معرفت نہیں عطا کی تو مجھے پھر کبھی بھی ان کی معرف حاصل نہیں ہوگی۔[43])

مونوگراف

دعائے معرفت کی شرح کے علاوہ مختلف تقاریر اور خطابات میں بھی اس دعا کا ذکر ہوا ہے اور مستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • «معرفت حجت خدا؛ شرح دعای اللہم عرفنی نفسک» تألیف لطف اللہ صافی گلپایگانی، اس شیعہ مرجع تقلید نے مختصر دعا کی شرح لکھی ہے۔ اس کتاب میں سندی تحقیق کے بعد دعا کے الفاظ اور اس کی تفسیر کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔[44] یہ کتاب جمکران پبلشرز اور دفتر تنظیم و نشر آثار آیت اللہ صافی سے منتشر ہوئی ہے۔
  • «فرہنگ انتظار؛ شرح دعای مشہور غیبت حضرت مہدی(عج)»، بقلم سید عبد اللہ فاطمی نیا۔ مؤلف نے ابتدائی مباحث دعا کے مفہوم اور فوائد کے بارے میں لکھنے کے بعد دعا کی سند کی تحقیق کے بعد آیات اور احادیث کی روشنی میں اس کی تشریح کی ہے۔ یہ کتاب تفصیلی دعا کی تفسیر ہے جس دعا کے ابتدا میں دعائے اللہم عرفنی نفسک ذکر ہوا ہے۔

حوالہ جات

  1. کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص337۔
  2. محمدی ری شہری، شرح زیارت جامعہ کبیرہ، 1390ش، ص304۔
  3. محمدی ری شہری، دانشنامہ امام مہدی، 1393ش، ج5، ص414 و 415 و ج6، ص260؛ صافی گلپایگانی، معرفت حجت خدا، 1392ش، ص63؛ محمدی ری شہری، شرح زیارت جامعہ کبیرہ، 1390ش، ص304۔
  4. «انتظار فرج از بہترین عبادت ہاست»، دفتر مرجعیت۔
  5. «اللہم عرفنی حجتک»، پایگاہ اطلاع رسانی دفتر آیت اللہ شبیری زنجانی۔
  6. شیخ صدوق، کمال الدین، 1395ق، ج2، ص342۔
  7. «عکس نوشت معرفت بہ نورانیت اہل بیت(ع)»، مرکز تنظیم و نشر آثار آیت اللہ بہجت۔
  8. محمدی ری شہری، شرح زیارت جامعہ کبیرہ، 1390ش، ص305۔
  9. صافی گلپایگانی، معرفت حجت خدا، 1392ش، ص20۔
  10. «جلسہ درس اخلاق (1394/7/9)»، دفتر مرجعیت۔
  11. سید بن طاووس، جمال الأسبوع، 1330ق، ص521۔
  12. محمدی ری شہری، دانشنامہ امام مہدی(عج)، 1393ش، ج6، ص270۔
  13. کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص337، حدیث 5 و 342، حدیث 29۔
  14. نعمانی، کتاب الغیبۃ، 1397ق، ص116۔
  15. شیخ صدوق، کمال الدین، 1395ق، ج2، ص342 و 343۔
  16. شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ق، ص334۔
  17. شیخ صدوق، کمال الدین، 1395ق، ج2، ص512-515۔
  18. شیخ طوسی، مصباح المتہجد، 1411ق، ج1، ص411-416۔
  19. شیخ صدوق، کمال الدین، 1395ق، ج2، ص512؛ شیخ طوسی، مصباح المتہجد، 1411ق، ج1، ص411۔
  20. قمی، مفاتیح الجنان، نشر اسوہ، دعای ہفتم از بخش ملحقات، ص588۔
  21. محمدی ری شہری، دانشنامہ امام مہدی(عج)، 1393ش، ج6، ص270 و 271۔
  22. صافی گلپایگانی، معرفت حجت خدا، 1392ش، ص21۔
  23. شیخ طوسی، مصباح المتہجد، 1411ق، ج1، ص411۔
  24. سید بن طاووس، جمال الأسبوع، 1330ق، ص521۔
  25. فاطمی نیا، فرہنگ انتظار، 1375ش، ص8-10۔
  26. صافی گلپایگانی، معرفت حجت خدا، 1392ش، ص23و24؛ محمدی ری شہری، دانشنامہ امام مہدی(عج)، 1393ش، ج5، ص415 و 417۔
  27. مجلسی، مرآۃ العقول، 1404ق، ج4، ص39۔
  28. مجلسی، مرآۃ العقول، 1404ق، ج4، ص59۔
  29. صافی گلپایگانی، معرفت حجت خدا، 1392ش، ص24۔
  30. شیخ صدوق، کمال الدین، 1395ق، ج2، ص512۔
  31. کفعمی، البلد الامین، 1418ق، ص306۔
  32. محمدی ری شہری، دانشنامہ امام مہدی(عج)، 1393ش، ج6، ص270 و 271۔
  33. «اللہم عرفنی حجتک»، پایگاہ اطلاع رسانی دفتر آیت اللہ شبیری زنجانی۔
  34. «انتظار فرج از بہترین عبادت ہاست»، دفتر مرجعیت؛ «دعای اللہم عرفنی نفسک کمک می کند کہ بفہمیم بین غدیر و سقیفہ چہ فرقی است»، دفتر مرجعیت۔
  35. «جلسہ درس اخلاق (1394/7/9)»، دفتر مرجعیت؛ «انتظار فرج از بہترین عبادت ہاست»، دفتر مرجعیت۔
  36. «دعای اللہم عرفنی نفسک کمک می کند کہ بفہمیم بین غدیر و سقیفہ چہ فرقی است»، دفتر مرجعیت۔
  37. صافی گلپایگانی، معرفت حجت خدا، 1392ش، ص125۔
  38. صافی گلپایگانی، معرفت حجت خدا، 1392ش، ص95و96 و 102 و 103و 108۔
  39. صافی گلپایگانی، معرفت حجت خدا، 1392ش، ص108۔
  40. صافی گلپایگانی، معرفت حجت خدا، 1392ش، ص108و124۔
  41. صافی گلپایگانی، معرفت حجت خدا، 1392ش، ص124۔
  42. کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص337، حدیث 5؛ شیخ صدوق، کمال الدین، 1395ق، ج2، ص342 و 343۔
  43. کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص342، ح29۔
  44. صافی گلپایگانی، معرفت حجت خدا، 1392ش، ص24و45۔

نوٹ

  1. عَمْری سے مراد بعض نے امام زمانہ کے پہلے نائب عثمان بن سعید عَمْری،(صافی گلپایگانی، معرفت حجت خدا، 1392ش، ص23؛ فاطمی نیا، فرہنگ انتظار، 1375ش، ص9و 10.) اور بعض نے دوسرا نائب محمد بن عثمان عمری،(محمدی ری شہری، دانشنامہ امام مہدی(عج)، 1393ش، ج6، ص270.) لیا ہے۔

مآخذ

  • «اللہم عرفنی حجتک»، پایگاہ اطلاع رسانی دفتر آیت اللہ شبیری زنجانی، تاریخ اخذ: 3 تیر 1403ہجری شمسی۔
  • «انتظار فرج از بهترین عبادت‌هاست»، دفتر مرجعیت علمی و دینی آیت اللہ جوادی آملی، تاریخ اشاعت: 29 اردیبہشت 1395ش، تاریخ اخذ: 3 تیر 1403ہجری شمسی۔
  • «جلسہ درس اخلاق (1394/7/9)»، دفتر مرجعیت علمی و دینی آیت اللہ جوادی آملی، تاریخ اخذ: 3 تیر 1403ہجری شمسی۔
  • «دعای اللہم عرفنی نفسک کمک می کند کہ بفہمیم بین غدیر و سقیفہ چہ فرقی است»، دفتر مرجعیت علمی و دینی آیت اللہ جوادی آملی، تاریخ اشاعت: 22 اردیبہشت 1396ش، تاریخ اخذ: 3 تیر 1403ہجری شمسی۔
  • سید بن طاووس، علی بن موسی، جمال الأسبوع بکمال العمل المشروع‏، قم، دار الرضی، چاپ اول، 1330ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، کمال الدین و تمام النعمۃ، تحقیق و تصحیح علی اکبر غفاری، تہران، اسلامیہ، چاپ دوم، 1395ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجّد و سلاح المتعبّد، بیروت، مؤسسۃ فقہ الشيعۃ، چاپ اول، 1411ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الغیبۃ، تحقیق و تصحیح عباداللہ تہرانى و على احمد ناصح، قم، دار المعارف الإسلامیۃ، چاپ اول، 1411ھ۔
  • صافی گلپایگانی، لطف اللہ، معرفت حجت خدا (شرح دعای اللہم عرفنی نفسک)، قم، دفتر تنظیم و نشر آثار آیت اللہ صافی گلپایگانی، 1392ش/1435ھ۔
  • «عکس نوشت معرفت بہ نورانیت اہل بیت(ع)»، مرکز تنظیم و نشر آثار آیت اللہ بہجت، تاریخ اشاعت: 10 اسفند 1401ش، تاریخ اخذ: 3 تیر 1403ہجری شمسی۔
  • فاطمی نیا، سید عبداللہ، فرہنگ انتظار؛ شرح دعای مشہور غیبت حضرت مہدی(عج)، تہران، مؤسسہ رسائل، چاپ اول، 1375ہجری شمسی۔
  • قمی، شیخ عباس، کلیات مفاتیح الجنان، قم، نشر اسوہ، بی تا.
  • کفعمی، ابراہیم بن علی عاملی، البلد الامین و الدرع الحصین‏، بیروت، مؤسسہ الاعلمی، چاپ اول، 1418ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق و تصحیح علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، مرآۃ العقول فی شرح اخبار آل الرسول، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ دوم، 1404ھ۔
  • محمدی ری شہری، محمد، دانشنامہ امام مہدی(عج) بر پایہ قرآن، حدیث و تاریخ، با ہمکاری سید محمدکاظم طباطبایی، ترجمہ عبدالہادی مسعودی، قم، دار الحدیث، چاپ اول، 1393ہجری شمسی۔
  • محمدی ری شہری، محمد، شرح زیارت جامعہ کبیرہ یا تفسیر قرآن ناطق، قم، دار الحدیث، چاپ سوم، 1390ہجری شمسی۔
  • نعمانی، محمد بن ابراہیم، کتاب الغیبۃ، تحقیق و تصحیح علی اکبر غفاری، تہران، نشر صدوق، چاپ اول، 1397ھ۔