مندرجات کا رخ کریں

عقیدہ موعود

ویکی شیعہ سے
(موعود کا عقیدہ سے رجوع مکرر)

عقیدہ موعود کا مطلب ایک نجات دہندہ پر یقین رکھنا ہے جو انسانوں کو بچانے، انہیں آزاد کرنے اور عدل و انصاف قائم کرنے کے لیے آخری زمانے میں آئے گا۔ منجی موعود اور جات دہندہ کا تصور مختلف اقوام اور ملتوں میں موجود مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے تحت مختلف اور متنوع شکلوں میں بیان ہوا ہے؛ لیکن تقریباً سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ ایک نجات دہندہ آئے گا اور انہیں ظلم و جبر اور جابر حکمرانوں کی غلامی کی زنجیر سے آزاد کرے گا اور عدل و انصاف سے سرشار معاشرے کو تشکیل دے گا۔ ہندو، وشنو کی دسویں تجلی یا کالکی کا انتظار کر رہے ہیں۔ بدھ مت کے ماننے والے پانچویں بدھ کے ظہور کے منتظر ہیں؛ یہودی، مسیح (ماشیح) کو منجی مانتے ہیں؛ عیسائی فارقلیط کی تلاش میں ہیں، جس کے آنے کی خوشخبری حضرت عیسی مسیح نے دی ہے اور مسلمان حضرت مہدیؑ کے ظہور پر یقین رکھتے ہیں۔

مفہوم شناسی

عقیدہ موعود کا مطلب ایک نجات دہندہ پر یقین رکھنا ہے جو انسانوں کو بچانے، آزاد کرنے اور امن و انصاف کے قیام کے لیے آئے گا۔[1] منجی موعود اور جات دہندہ مختلف اقوام اور ملتوں کے درمیان مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے ساتھ مختلف اور متنوع شکلوں میں بیان ہوا ہے؛ لیکن سب اس بات پر متفق ہیں کہ ایک نجات دہندہ آئے گا اور انہیں ظلم اور جابر حکمرانوں سے نجات دلائے گا اور عدل و انصاف سے بھرا معاشرہ تشکیل دے گا۔[2]

عقیدہ موعود دینی مکاتب میں

عقیدہ موعود مختلف ادیان میں مختلف شکلوں میں پیش کیا گیا ہے اور اسے ان کے بنیادی عقائد میں سے ایک سمجھا گیا ہے۔ بعض محققین کے مطابق، شاذ و نادر ہی کوئی مذہب یا قوم ایسی ہو جو ایک منجی موعود پر یقین نہ رکھتی ہو۔[3]

مشرقی مذاہب میں عقیدہ موعود

  • ہندومت: ہندومت میں، منجی موعود، کالکی کے نام سے جانا جاتا ہے جو چار عالَمی دوروں کے آخری کالی یوگا[4] کے آخر میں ظہور کرے گا۔ ہندو فکر کے مطابق دنیا چار زوال پذیر ادوار پر مشتمل ہے۔ چوتھے دور میں یعنی کالی دور میں کرپشن اور تباہی پوری دنیا میں پھیل جائے گی۔ سماجی اور روحانی زندگی اپنی نچلی ترین سطح پر اتر جائے گی، جو حتمی زوال کا باعث بنے گی۔[5]

اس دور میں (کالی یوگ یا زوال کا زمانہ) جو ہندو عقائد کے مطابق 17 اور 18 فروری 3102 قبل مسیح کی درمیانی رات کو شروع ہوا تھا اور ہم اب اس میں رہ رہے ہیں، صرف ایک چوتھائی دَرمَہ (مذہب یا کائناتی ترتیب) پر عمل کیا جاتا ہے اور اس کا تین چوتھائی حصہ بھلا دیا گیا ہے۔ اس دور کے لوگ گنہگار، جنگجو اور بھکاریوں کی طرح بدقسمت اور خوش نصیبی کے لائق نہیں ہیں۔ وہ فضول چیزوں کی قدر کرتے ہیں، لالچ سے کھاتے ہیں، اور چوروں سے بھرے شہروں میں رہتے ہیں۔[6]

ہندوستانی مذاہب اور فلسفیانہ مکاتب کے مطابق،[7] ایسے تاریک دور کے اختتام پر، وشنو کا آخری اور دسویں اوتار (اوتار)، جسے کالکی کہا جاتا ہے، سفید گھوڑے پر سوار اور انسانی شکل میں ظہور کرے گا۔ وہ برائی اور بدعنوانی کو نیست و نابود کرنے کے لیے چمکتی ہوئی ننگی تلوار لئے پوری دنیا کو طے کرے گا۔ دنیا کو تباہ کر کے ایک نئی تخلیق کے لیے حالات سازگار کرے گا۔[8]

  • بدھ مت: بدھ مت میں منجی موعود کا عقیدہ، میتْرِیہ (ایک سنسکرت لفظ جس کے معنی ہے مہربان) کے تصور سے بیان کیا گیا ہے۔ بدھ مت کے الہیات میں، اسے زمینی بدھوں میں پانچواں اور آخری بدھا سمجھا جاتا ہے[9] جو ابھی تک نہیں آیا ہے، لیکن تمام انسانوں کو بچانے کے لیے آئے گا۔ بدھ مت کی تصویر نگاری میں اسے ایک بیٹھے ہوئے آدمی کے طور پر دکھایا گیا ہے جو اٹھنے کے لیے تیار ہے، تاکہ اسے قیام کے لئے تیار ہونے کی علامت قرار دیا جائے!

آخری مہاتما بدھ یا منجی موعود کی شخصیت کے بارے میں بدھ مت روایات سب ایک جیسی نہیں ہیں۔ منجی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ آئے گا اور سب کو آزادی کی خوشخبری دے گا اور دنیا میں مسلسل واپسی کے آہنی چکر سے بچائے گا. بدھ مت کے دو اصلی فرقوں میں سے مہایان فرقہ کی سنت میں میتریہ کی شخصیت پر زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ مہایان مکتب فکر کے ہاں شاکیہ مونی جو بدھ مت گُوتم بدھ سے مشہور ہے، چوتھا بدھ اور میتریہ جو اس کے بعد آئے گا کو پانچواں بدھ کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔ جبکہ بدھ مت روایات میں گُوتم ساتواں اور بودھی ستو (Bodhesattava) مستقبل میں آخری بدھ کے طور پر ابھریں گے۔ آخری بدھ کے طور پر میتریہ کی زندگی اور تقدیر کے بارے میں بھی اختلاف رائے ہے۔ اسے پالی کینن (ابتدائی بدھ مت کے بارے میں معلومات کا ہمارا بنیادی ذریعہ) میں زیادہ اہمیت نہیں دی گئی ہے۔ اس مجموعے میں سے صرف ایک سورہ (سورہ چکے وتی سیہ ندا) میں ان کا نام مذکور ہے۔ تاہم، غیر کینن (غیر مقدس) آثار میں سے دو اثر ان تعلیمات سے مختص ہوئی ہیں۔

مہاونش جو سری لنکا کی تاریخ سے متعلق ہے، میں میتریہ بغاوت سے متعلق واقعات کی تاریخ واضح طور پر یوں کہی گئی ہے:

"دھرماکی، پری نروان تک پہنچنے کے بعد دنیا نے سماجی اور کائناتی زوال کا آغاز کیا۔ آخری بدھ کے پانچ ہزار سال بعد بدھ مت کی تعلیمات کا سورج غروب ہوتا ہے اور انسانوں کی عمر کم ہوکر دس سال رہ جاتی ہے۔ اس وقت، چکر الٹا شروع ہو جاتا ہے: زندگی بدل جاتی ہے اور لوگوں کی اوسط عمر اسی ہزار سال تک پہنچ جاتی ہے۔[10] ان طولانی عمروں اور بدھ مت کی تعلیمات کے لئے مناسب موقعے کی وجہ سے ایک چکرہ ورتین یا رہنما آئے گا۔ وہ لوگوں کے لیے خوشحالی اور بہبود لاتا ہے اور بدھ کی تعلیمات کو فروغ دیتا ہے۔ جب ایسا آسمانی ماحول بنتا ہے، تو میتریہ توشیتا آسمان سے اترتا ہے، اپنے بدھ مت کو مکمل کرتا ہے، اور اہل علم کو دھرم سکھاتا ہے۔ "مہا کشیپا، بدھ کے ممتاز شاگردوں میں سے ایک، اپنے استاد کے پری نروان کے مکمل ہونے کے بعد جس ٹرانس میں گرا تھا، ایک بار پھر بدھ کی خدمت کرنے اور روشن خیال کی تعلیمات کو سننے کے لیے ابھرتا ہے۔"[11]
  • کنفیوشس ازم: کنفیوشس نے قدیم بادشاہوں کے دانشمندانہ دور میں واپسی کے نعرے کو اپنے اصلاحی نظریات کا سنگ بنیاد بنایا تھا اور اس مذہب کے حامیوں کے نظریات بادشاہوں کی حکمت سے جڑے ہوئے ہیں۔[12]
  • تاؤ ازم: چینی لوگوں کے ثقافتی اور مذہبی میدان میں، تاؤ ازم نے کنفیوشس ازم اور دیگر مکاتب فکر کے ساتھ اپنا کردار ادا کیا ہے، لیکن تاؤ ازم میں منجی کا عقیدہ اور موعود کے انتظار کے نشانات کچھ زیادہ واضح ہیں۔ کہا گیا ہے کہ جن چن کے ایک سال میں، ساٹھ سالہ دور کے انتیسویں سال، جو کہ غالباً 392 ہے، لی ہانگ ظہور کرے گا اور ایک نئی دنیا قائم کرے گا۔[13]
  • شنٹو: چین کی طرح، جاپان میں بھی متنوع ثقافت اور مذہب ہے، اور اسی لیے شنٹو اور بدھ مت نے آپس میں گھل مل کر قوم کے نظریات، خوف اور امیدوں کا موضوع بنایا ہے، اس طرح کہ وہاں بہت سے منجی پر عقیدہ رکھنے والے مذاہب ابھرے ہیں۔ جن میں سے سب سے اہم ہیں: کورزو میکو، جس کی بنیاد کاوتے بنجیرو (1814-1883) نامی شخص نے رکھی تھی، اور ٹینریکیو تحریک، جس کا علمبردار نکایاما مکی (1798-1878) ہے۔[14]

ابراہیمی ادیان میں عقیدہ موعود

زرتشت

دوسرے مذاہب کے برعکس، جو عام طور پر ایک منجی موعود کا انتظار کرتے ہیں، زرتشتی تین موعود کا انتظار کرتے ہیں، جن میں سے ہر ایک، ہزار سال کے فاصلے پر ظاہر ہوگا۔[15]

زرتشتی روایات اور 19ویں یشت کے مطابق آخر الزمان میں زرتشت کے ہاں تین بیٹے پیدا ہوں گے جنہیں عرف عام میں سوشیانٹ کہا جاتا ہے۔ یہ نام خاص طور پر آخری موعود کو نامزد کرنے کے لیے دیا گیا تھا، اور وہ اہورا مزدا کی آخری تخلیق ہوگی۔[16]

بارہویں صدی کے اختتام پر، بہروز خاندان کی ایک کنواری لڑکی، ہامون کے پانی میں نہا کر حاملہ ہوتی ہے، جس سے سوشیانٹ کو جنم دیتی ہے، جو اہورا مزدا کی آخری تخلیق تھی۔ تیس سال کی عمر میں مزدسینا اسے رسالت سونپ دیتا ہے۔ آسمان کے وسط میں سورج کے رکنے کے اشارے کے ذریعے دنیا کو سوشیانٹ کے ظہور اور دنیا کی تجدید کی خوشخبری دی جائے گی۔ اُس کے ظہور کے بعد، اہریمن اور جھوٹے دیو کا وجود باقی نیست و نابود ہوگا۔ اس موعود کے ساتھی جو لافانی میں ہیں، وہ اٹھیں گے اور اس کے ساتھ رہیں گے جب تک کہ مردے زندہ نہ ہو جائیں اور روحانی دنیا وجود میں آجائے۔[17]

یہودیت

یہودی تورات (عہد نامہ قدیم) میں، آخری وقت کے نجات دہندہ کے بارے میں بار بار تذکر ہوا ہے۔[18] ایک ایسا شخص جو مطلوبہ دنیا کو دوبارہ بنانے کے لیے آتا ہے جس کی ہر کوئی خواہش اور خواب دیکھتا ہے۔ ایک ایسی دنیا جو روشن ہے اور گندگی سے پاک، جہاں انسان اپنی تمام خالص انسانی خواہشات اور آرزوؤں کو حاصل کر سکتا ہے اور کامیاب ہوتا ہے۔

زبور کے تقریباً تمام حصوں میں، آخر الزمان کے منجی کے ظہور، شریر لوگوں پر صالح لوگوں کی فتح، ایک واحد عالمی حکومت کے قیام اور مختلف مذاہب اور فرقوں کے ایک واحد، عالمگیر مذہب میں تبدیل ہونے کی نوید ملتی ہے۔[19]

یہودیوں کا ماننا ہے کہ آخر الزمان کا منجی مسیح (=ماشیح) ہے، یعنی خدا کا مسح شدہ، جو مستقبل کی مطلوبہ اور روشن دنیا تخلیق کرے گا۔ زیادہ تر یہودی علماء کا خیال ہے کہ مسیح کا ظہور اور ان کی فعالیت دنیا کو بہتر بنانے، تمام اقوام کے درمیان امن و سکون قائم کرنے اور انسانی ضروریات اور خواہشات کو پورا کرنے کے لیے ہے جو تخلیق کے آغاز میں خدا کے منصوبوں کا حصہ تھے۔ اس عقیدے کے مطابق، ایک نجات دہندہ کے وجود کی ضرورت، جو مسیح کے سوا کوئی نہیں، کائنات کی تخلیق سے پہلے خدا کے ذہن میں آیا ہے۔[20]

تمام یہودیوں کے عقیدے کے مطابق، منجی (مسیح) باقی سب کی طرح ایک انسان ہے۔ لیکن اس کے پاس خدا کی شان اور قدرت ہے۔ وہ اپنے نور سے دنیا کو منور کرے گا جو خدا کے نور کا مظہر ہے۔ بعض ماشیح کو داؤد ہی سمجھتے ہیں۔[21] دوسرے اسے داؤد کے خاندان سے سمجھتے ہیں۔[22] کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ خدا دنیا کے آخر میں لوگوں کو بچانے کے لیے ایک اور داؤد کو بھیجے گا۔[23]

عیسائیت

عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق، منجی، فارقلیط (Paraclete) ہے جس کے معنی تسلی دینے والا، شفاعت کرنے والا اور مددگار ہے؛ تاہم، عہد نامہ جدید میں، آخری نجات دہندہ وہی عیسی مسیح ہے، جو دوبارہ جی اٹھے گا[24] اور دنیا کو فساد اور بربادی سے بچائے گا۔[25]

البتہ یہاں اس اہم نکتے کا تذکرہ ضروری ہے: نئے عہد نامے میں عیسی مسیح کے علاوہ ایک اور منجی موعود کی طرف بھی اشارہ ہوا ہے جس کے آنے کا وعدہ عیسی مسیح نے دیا ہے۔ وہ ایک اور "تسلی دینے والا" ہے جو مسیح اپنے لوگوں کے لیے خُدا (باپ) سے مانگتا ہے، اور خُدا اُسے ہمیشہ اُسے دیتا ہے تاکہ ہمیشہ اس کے ساتھ رہے۔ دنیا نہ اسے دیکھتی ہے اور نہ اسے جانتی ہے، لیکن جو لوگ مسیح پر ایمان رکھتے ہیں وہ اسے پہچانتے ہیں۔[26]

اسلام

تمام اسلامی فرقے بھی آخر الزمان میں منجی موعود کے ظہور پر ایمان رکھتے ہیں، اگرچہ اس کی ذاتی نوعیت اور خصوصیات میں اختلاف ہے۔ اہل سنت پیغمبر اکرمؐ کی نسل سے مہدی موعودؑ کے ظہور پر یقین رکھتے ہیں، جو مستقبل میں آئے گا، تاہم، ایک زندہ اور موجود امام پر ایمان شیعہ اور بعض اہل سنت علماء کے بنیادی عقائد میں سے ایک ہے، لہذا، شیعہ اور اہل سنت، پیغمبر اکرمؐ کی متواتر احادیث کی وجہ سے، منجی موعود کے آنے پر راسخ عقیدہ رکھتے ہیں جو آکر دنیا سے ظلم و جور کو ختم اور عدل انصاف سے پر کر دے گا۔

اسلام میں منجی موعود کے تصور کو قرآنی آیات سے سمجھا جاسکتا ہے جن میں سورہ توبہ آیت 33، سورہ فتح آیت 28، سورہ صف آیت 9، سورہ انبیاء آیت نمبر 105، سورہ نور آیت 55 اور سورہ قصص آیت نمبر 6 شامل ہیں۔

اس کے علاوہ احادیث نبوی میں منجی موعود کا نام اور خصوصیات بیان ہوئی ہیں۔ نیز ان کے ظہور سے پہلے رونما ہونے والے واقعات، ظہور کے ثمرات اور نتائج بھی ذکر ہوئے ہیں۔[27]

نیز شیعہ روایات میں بھی آخر الزمان کے منجی موعود کی خصوصیات صراحت کے ساتھ بیان ہوئی ہیں۔[28]

حوالہ جات

  1. ملاحظہ کریں: تونہ‌ای،‌ موعودنامہ، 1387شمسی، ص706.
  2. ملاحظہ کریں: تونہ‌ای،‌ موعودنامہ، 1387شمسی، ص707 و 708؛ جمعی از نویسندگان، گونہ‌شناسی اندیشہ منجی موعود در ادیان، 1389شمسی، ص19.
  3. جمعی از نویسندگان، گونہ‌شناسی اندیشہ منجی موعود در ادیان، 1389شمسی، ص19.
  4. شایگان، داریوش، ادیان و مکتب‌ہای فلسفی ہند، 1: 281-284؛ جلالی نائینی، مہابہارت، ج1، ص20-22، 139، 353 بہ بعد؛ ج3، ص55، 126-127، 257، 305؛ ایونس، ورنیکا، اساطیر ہند، ترجمہ باجلان فرخی، ص39-43.
  5. شایگان، داریوش، ادیان و مکتب‌ہای فلسفی ہند، ج1، ص282.
  6. ایونس، ورنیکا، اساطیر ہند، ص41.
  7. ایونس، ورنیکا، اساطیر ہند، ج1، ص274.
  8. ایونس، ورنیکا، اساطیر ہند، ص125-126.
  9. ولفگانگ شومان، ہانس، آیین بودا، ترجمہ ع. پاشایی، ص121.
  10. الیادہ، میرچا، اسطورہ بازگشت جاودانہ، ص124.
  11. موحدیان عطار، گونہ‌شناسی اندیشہ موعود در ادیان مختلف»، ص118.
  12. موحدیان عطار، گونہ‌شناسی اندیشہ موعود در ادیان مختلف»، ص116.
  13. موحدیان عطار، گونہ‌شناسی اندیشہ موعود در ادیان مختلف»، ص124-125.
  14. موحدیان عطار، گونہ‌شناسی اندیشہ موعود در ادیان مختلف»، ص126.
  15. مری بویس، تاریخ کیش زرتشت، ترجمہ صنعتی زادہ، ص391.
  16. پورداود، رسالہ سوشیانس، ص8؛ فرہنگ نام‌ہای اوستا، ج 2، ص769. در فروردین یشت، بند 129،
  17. یشتہا، 101:2؛ وندیداد، ج 4، ص1757-1758.
  18. رجوع کنید بہ: اشعیا، 1:11-10 و 65: 9-13 و 18-20؛ دانیال، 12: 1-5 و 10-13؛ حبقوق، 2: 3-5.
  19. مزامیر 72: 2-18؛ و رجوع کنید بہ: مزامیر 37: 9-12، 17-18 و 96: 10-13.
  20. کہن، آبراہام، گنجینہ‌ای از تلمود، ص352.
  21. ہوشع 3: 5
  22. مزامیر 18: 49-50؛ گرینستون، جولیوس، انتظار مسیحا در آیین یہود، ص65 و 66؛ برای آگاہی بیشتر رجوع کنید بہ: کہن، آبراہام، گنجینہ‌ای از تلمود، ص3-352.
  23. ارمیا، 9:30
  24. اعمال رسولان، 2: 31 و 32.
  25. رسالہ بہ عبرانیان، 28:9.
  26. انجیل یوحنا، 17:14.
  27. جمعی از نویسندگان، گونہ‌شناسی اندیشہ منجی موعود در ادیان، 1389شمسی، ص227.
  28. بورونی، علی، ماشیح، مسیحا، مہدی در ادیان ابراہیمی، انتشارات مرغ سلیمان، چاپ اول، سال 89، ص72.

مآخذ

  • الیادہ، میرچا، اسطورہ بازگشت جاودانہ، ترجمہ بہمن سرکاراتی، نشر قطرہ، 1378ہجری شمسی۔
  • اوشیدری، جہانگیر، دانشنامہ مزدیسنا، نشر مرکز، 1371ہجری شمسی۔
  • اش.ونس، ورونیکا، اساطیر ہند، ترجمہ باجلان فرخی، انتشارات اساطیر، 1373ہجری شمسی۔
  • بورونی، علی، ماشیح، مسیحا، مہدی در ادیان ابراہیمی، انتشارت مرغ سلیمان، چاپ اول، 1389ہجری شمسی۔
  • تونہ‌ای،‌ مجتبی، موعودنامہ: فرہنگ الفبایی مہدویت، قم، میراث ماندگار، چاپ دہم، 1388ہجری شمسی۔
  • جلالی نائینی، مہابہارت، ناشر کتابخانہ طہوری، 1359ہجری شمسی۔
  • جمعی از نویسندگان، گونہ‌شناسی اندیشہ منجی موعود در ادیان، قم، انتشارات دانشگاہ ادیان و مذاہب، چاپ اول، 1389ہجری شمسی۔
  • شایگان، داریوش، ادیان و مکتبہای فلسفی ہند، انتشارات امیرکبیر، 1356ہجری شمسی۔
  • کتاب مقدس
  • کہن، آبراہام، گنجینہ‌ای از تلمود، ترجمة امیر فریدون گرگانی، چاپ زیبا، 1350ہجری شمسی۔
  • گرینستون، جولیوس، انتظار مسیحا در آیین یہود ترجمہ حسین توفیقی، انتشارات دانشگاہ ادیان و مذاہب، چاپ دوم، 1387ہجری شمسی۔
  • مقالات تقی زادہ، زیر نظر ایرج افشار، ج 9 (مانی و دین او)، انتشارات شکوفان، 1356ہجری شمسی۔
  • موحدیان عطار، علی، «گونہ‌شناسی اندیشہ موعود در ادیان مختلف»، فصلنامہ ہفت آسمان، ش 12، زمستان 1380ہجری شمسی۔
  • ولفگانگ شومان، ہانس، آیین بودا، ترجمہ ع. پاشایی.