عمرو بن عبدوُد یا عمرو بن عبدِوَد (سال قتل پانچ ہجریقریش کے برترین جنگجوؤں میں سے تھا کہ جو جنگ خندق میں امام علیؑ کے ہاتھوں قتل ہوا۔ بعض روایات کے مطابق، پیغمبرؐ نے اس جنگ میں علی بن ابی طالبؑ کی عمرو بن عبدود پر ضرب کو تمام جنوں اور انسانوں کی عبادت سے افضل قرار دیا ہے۔ سلفی تفکر کے بانی، اہل سنت عالم ابن تیمیہ نے عمرو بن عبدود کے وجود کا انکار کیا ہے۔ بعض محققین نے ابن تیمیہ کا ہدف امام علیؑ کے فضائل کا انکار قرار دیا ہے۔ مولوی کی مثنوی کے ایک شعر میں آیا ہے کہ امام علیؑ کیساتھ جنگ کے دوران جب عمرو بن عبدود نے آپؑ کے چہرے پر تھوکا تو آپؑ چند لمحات کیلئے اس سے الگ ہو گئے، اپنا غصہ ٹھنڈا کیا اور پھر عمرو کو قتل کیا۔ کچھ لوگوں نے اس روایت کو جعلی قرار دیا ہے اس کے باوجود، ابن شہر آشوب (588۔488ھ) نے اپنی کتاب مناقب آل ابی طالب میں مذکورہ روایت کو نقل کیا ہے۔

عمرو بن عبدود
کوائف
دینی معلومات
جنگوں میں شرکتجنگ بدر (ایک روایت کے مطابق)
وجہ شہرتامام کے ہاتھوں قتل

جنگ خندق میں قتل

عمرو بن عبدود کی ولادت اور زندگی نامے کے بارے میں تاریخی اور روائی منابع میں معلومات موجود نہیں ہیں سوائے اس بات کے کہ وہ قریش کی شاخ بنی عامر بن لؤی سے تھا۔[1] شیعہ سنی منابع کی نقل کے مطابق سنہ پانچ ہجری قمری، کی جنگ احزاب (خندق) میں اس نے عکرمۃ بن ابی جهل، هبیرة بن ابی وهب، نوفل بن عبدالله بن مغیرة اور ضرار بن خطاب کے ہمراہ مسلمانوں کی کھودی ہوئی خندق بمشکل پار کی۔[2] عمرو بن عبدود جو قریش کا تیسرا جنگجو[3] اور ہزار جنگجوؤں کے برابر سمجھا جاتا تھا۔[4] مقابلے کیلئے للکارتا رہا اور مسلمانوں کی توہین کرتا رہا یہاں تک کہ کہنے لگا: «و لقد بححت من النداء بجمعهم هل من مبارز»؛[5] یعنی میں نے انہیں مقابلے کیلئے اس قدر للکارا ہے کہ میری آواز بیٹھ گئی ہے۔[6] ایک نقل کے مطابق علی بن ابی طالبؑ عمرو بن عبدود کی ہر للکار پر کھڑے ہوتے تھے مگر پیغمبرؐ کے حکم پر بیٹھ جاتے تھے یہاں تک کہ پیغمبرؐ نے امام علیؑ کو مقابلے کی اجازت دی۔ اپنا عمامہ آپؑ کے سر پر رکھ دیا اور اپنی تلوار انہیں عطا کی تاکہ عمرو کے ساتھ جنگ کریں۔[7]

امام علیؑ کی ضربت

امام علیؑ نے پہلے عمرو بن عبدود کو دعوت دی کہ خدا کی وحدانیت اور محمدؐ کی رسالت کی گواہی دے اور جب اس نے قبول نہیں کیا تو اسے کہا کہ گھوڑے سے اتر آؤ اور مقابلہ کرو۔[8] جابر بن عبد اللہ انصاری کی نقل کے مطابق کہ جو امام علیؑ کے ہمراہ تھے، علی بن ابی طالب اور عمرو بن عبدود کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی کہ اتنے میں علیؑ کی صدائے تکبیر بلند ہوئی اور مسلمان سمجھ گئے کہ عمرو بن عبدود مارا گیا ہے۔[9] تاریخی منابع کی بنیاد پر عمرو بن عبدود کے علاوہ اس کا بیٹا حسل بھی امام علیؑ کے ہاتھوں مارا گیا۔[10] روائی منابع میں پیغمبرؐ سے نقل ہوا کہ علی ؑ کی جنگ خندق میں عمرو بن عبدود پر ضربت جن و انس کی عبادت سے زیادہ افضل ہے۔[11]

عمرو کے وجود میں تشکیک

اہل سنت عالم اور سلفی تفکر کے بانی ابن تیمیہ نے عمرو بن عبدود کے وجود میں تشکیک اور تردید ایجاد کی ہے ۔[12] اس کے خیال میں بدر اور احد اور اسی طرح دیگر غزووں اور سریوں میں عمرو بن عبدود کا کوئی نام و نشان نہیں ہے اور اس کے متعلق جنگ خندق میں جو کچھ نقل کیا گیا ہے، اس میں سے کچھ بھی صحیحین، یعنی صحیح مسلم اور صحیح بخاری میں نقل نہیں ہوا ہے ۔[13] اس کے باوجود عمرو بن عبدود کی غزوہ خندق میں موجودگی تاریخ طبری[14] اور ذہبی کی تاریخ الاسلام[15] جیسے تاریخی منابع میں ذکر کی گئی ہے اور اہل سنت عالم حاکم نیشاپوری نے کتاب المستدرک علی الصحیحین میں عمرو بن عبدود کی غزوہ بدر میں موجودگی اور زخمی ہونے کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے۔[16] اسی طرح تاریخی منابع میں صحابی پیغمبرؐ حسان بن ثابت کے امام علیؑ کے ہاتھوں عمرو کے قتل ہونے سے متعلق کچھ فخریہ اشعار[17] اور اسی طرح عمرو کے ہمراہ خندق پار کرنے والے اس کے ساتھیوں مسافع بن عبد مناف[18] اور ھبیرہ بن وھب[19] اور عمرو کی بہن[20] کے اس کے سوگ میں کچھ اشعار نقل کیے گئے ہیں۔ بعض محققین نے ابن تیمیہ کی تشکیک و تردید کا ہدف امام علیؑ کے فضائل کا انکار قرار دیا ہے ۔[21]

قتل عمرو سے پہلے امام علیؑ کی بردباری

مولوی (متوفی 672ھ) کی مثنوی کے دفتر اول میں 120 اشعار پر مشتمل ایک قصیدہ امام علیؑ کی شان میں آیا ہے کہ جس کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے : از علی آموز اخلاص عمل/ شیر حق را دان منزه از دغل»، انہوں نے عمرو بن عبدود کی جانب سے امام علیؑ کے چہرے پر لعاب ڈالنے کا ماجرا بیان کیا ہے کہ اس وجہ سے علی بن ابی طالب اسے ذاتی غصے میں قتل کرنے سے پرہیز کی خاطر چند لمحات کیلئے لڑائی سے علیٰحدہ ہو جاتے ہیں اور اپنا ذاتی غصہ ٹھنڈا ہونے کے بعد عمرو کو راہ خدا میں قتل کرتے ہیں ۔[22] مگر بدیع الزمان فروزانفر کا خیال ہے کہ یہ روایت جس صورت میں مثنوی میں وارد ہوئی ہے کسی اور منبع میں نہیں مل سکی۔[23] اس کے باوجود بعض محققین نے اس روایت کیلئے کچھ منابع کا ذکر کیا ہے منجملہ ابن شہر آشوب (متوفی 588ھ) کی کتاب مناقب آل ابی طالب کہ جس میں مذکورہ روایت نقل کی گئی ہے۔[24]

حوالہ جات

  1. بطور نمونہ ملاحظہ کیجئے: ابن هشام الحمیری، سیرة النبی، 1383شمسی، ج3، ص732؛ ابن عساکر، تاریخ مدینة دمشق، 1415ھ،ج42، ص78؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، 1385شمسی،ج2، ص181۔
  2. طبری، تاریخ الطبری، 1387 شمسی،ج2، ص573-574؛ شیخ مفید، الإرشاد، 1413ھ،ج1، ص100۔
  3. الحاکم النیسابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ،ج3، ص34، ح4329۔
  4. ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، 1375 شمسی،ج2، ص324۔
  5. شیخ مفید، الإرشاد، 1413ھ،ج1، ص100۔
  6. شیخ مفید، ترجمہ ارشاد شیخ مفید، 1388شمسی، ص92۔
  7. شیخ مفید، الإرشاد، 1413ھ،ج1، ص100۔
  8. شیخ مفید، الإرشاد، 1413ھ،ج1، ص100و101۔
  9. شیخ مفید، الإرشاد، 1413ھ،ج1، ص102۔
  10. عاملی، الصحیح من سیرة النبی الأعظم، 1426ھ،ج11، ص160۔
  11. علامہ حلی، نہج الحق و کشف الصدق، 1982م، ص234۔
  12. ابن تیمیہ، منهاج السنۃ النبویۃ، 1406ھ،ج8، ص105-110۔
  13. ابن تیمیہ، منهاج السنۃ النبویۃ، 1406ھ،ج8، ص109۔
  14. طبری، تاریخ الطبري، 1387 شمسی،ج2، ص573۔
  15. ذهبی، تاریخ الإسلام، 1410ھ،ج2، ص290۔
  16. الحاکم النیسابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ،ج3، ص34، ح4329۔
  17. ابن ہشام، السیرة النبویۃ، دار المعرفۃ، ص268-269۔
  18. ابن ہشام، السیرة النبویۃ، دار المعرفۃ، ج2، ص266-267۔
  19. ابن ہشام، السیرة النبویۃ، دار المعرفۃ، ج2، ص267-268۔
  20. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ،ج1، ص106-109۔
  21. جمعی از نویسندگان، امام علی(ع)، سازمان حج و زیارت، ج2، ص148۔
  22. مهدوی دامغانی، «مأخذ خدو انداختن خصم بر روی حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام...»، ص61-63۔
  23. فروزانفر، احادیث و قصص مثنوی، 1387شمسی، ص143۔
  24. مهدوی دامغانی، «مأخذ خدو انداختن خصم بر روی حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام...»، ص65؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، 1375 شمسی،ج1، ص381۔

مآخذ

  • ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر و دار بیروت، 1385شمسی/1965ء۔
  • ابن تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، منہاج السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعۃ القدریۃ، تحقیق محمد رشاد سالم، [ریاض]، جامعۃ الإمام محمد بن سعود الإسلامیۃ، 1406ھ/1986ء۔
  • ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، نجف، المطبعۃ الحیدریۃ، 1375شمسی/1956ء۔
  • ابن عساکر، علی بن الحسن، تاریخ مدینۃ دمشق، بیروت، دار الفکر، 1415ھ/1995ء۔
  • ابن ہشام الحمیری، عبدالملک، سیرۃ النبی، تحقیق محمد محیی الدین عبدالحمید، قاہرہ، مکتب محمدعلی صبیح، 1383شمسی/1963ء۔
  • ابن ہشام الحمیری، عبدالملک،السیرۃ النبویۃ، تحقیق مصطفی السقا و ابراہیم الابیاری و عبدالحفیظ شلبی، بیروت، دار المعرفۃ، بی‌تا۔
  • جمعی از نویسندگان، امام علی(ع)، قم، سازمان حج و زیارت، بی‌تا۔
  • الحاکم النیسابوری، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، تحقیق مصطفی عبد القادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1411ھ/1990ء۔
  • ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الإسلام ووفیات المشاہیر والأعلام، تحقیق عمر عبدالسلام تدمری، بیروت، دار الکتاب العربی، 1410ھ/1990ء۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الإرشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، تحقیق موسسۃ آل البیت علیہم السلام لإحیاء التراث، قم، المؤتمر العالمی لألفیۃ الشیخ المفید، 1413ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، ترجمہ ارشاد شیخ مفید، ترجمہ سید حسن موسوی مجاب، قم، سرور، 1388شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری: تاریخ الرسل والملوک: وصلۃ تاریخ الطبری، بیروت، دار التراث، 1387شمسی۔
  • عاملی، جعفر مرتضی، الصحیح من سیرۃ النبی الأعظم، قم، موسسہ علمی فرہنگی دار الحدیث، 1426ھ/1385شمسی۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، نہج الحق وکشف الصدق، با تعلیقہ فرج‌‎اللہ حسنی و مقدمہ سید رضا صدر، بیروت، دار الکتاب اللبنانی، 1982ء۔
  • فروزانفر، احادیث و قصص مثنوی: تلفیقی از دو کتاب احادیث مثنوی و مآخذ قصص و تمثیلات مثنوی، ترجمہ حسین داوودی، تہران، امیرکبیر، 1387شمسی۔
  • مہدوی دامغانی، محمود، مأخذ خدو انداختن خصم بر روی حضرت امیرالمومنین علی علیہ‌السلام در بیت "او خدو انداخت بر روی علی/ افتخار ہر نبی و ہر ولی"»، در فصلنامہ تخصصی ادبیات فارسی، ش1و2، بہار و تابستان 1383شمسی۔