"ائمہ معصومین علیہم السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 84: | سطر 84: | ||
=== امام حسینؑ === | === امام حسینؑ === | ||
{{اصلی|امام حسین علیہ السلام | {{اصلی|امام حسین علیہ السلام}} | ||
حسین بن علیؑ جو [[ابا عبد اللہ (کنیت)|ابا عبداللہ]] سے مشہور ہیں شیعوں کے تیسرے امام، [[امیر المؤمنین|امام علیؑ]] اور حضرت فاطمہؑ کے دوسرے بیٹے ہیں۔ آپؑ [[سنہ 4 ہجری]] کو [[مدینہ]] میں پیدا ہوئے۔ آپؑ اپنے بھائی [[امام حسن مجتبی]]ؑ کی شہادت کے بعد پیغمبر اکرم اور امام علیؑ کی تصریح اور [[امام حسن مجتبی|امام حسنؑ]] کی وصیت کے مطابق، منصب [[امامت]] پر فائز ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۷.</ref> | حسین بن علیؑ جو [[ابا عبد اللہ (کنیت)|ابا عبداللہ]] سے مشہور ہیں شیعوں کے تیسرے امام، [[امیر المؤمنین|امام علیؑ]] اور حضرت فاطمہؑ کے دوسرے بیٹے ہیں۔ آپؑ [[سنہ 4 ہجری]] کو [[مدینہ]] میں پیدا ہوئے۔ آپؑ اپنے بھائی [[امام حسن مجتبی]]ؑ کی شہادت کے بعد پیغمبر اکرم اور امام علیؑ کی تصریح اور [[امام حسن مجتبی|امام حسنؑ]] کی وصیت کے مطابق، منصب [[امامت]] پر فائز ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۷.</ref> | ||
سطر 104: | سطر 104: | ||
امام سجاد نے صحیفہ میں اخلاقی اصول، سیاسی اور اجتماعی طرز زندگی کو دعا اور مناجات کے قالب میں بیان کیا ہے۔<ref>سبحانی، فرهنگ عقاید و مذاهب اسلامی، ۱۳۹۵ش، ج۶، ص۴۰۶.</ref> صحیفہ سجادیہ کو نہج البلاغہ کے بعد شیعوں کی اہم ترین کتاب<ref>پیشوایی، سیره پیشوایان، ۱۳۹۷ش، ص۲۸۱.</ref> جو جہان بینی پر ایک عمیق اور کامل دورہ سمجھا جاتا ہے۔<ref>سبحانی، فرهنگ عقاید و مذاهب اسلامی، ۱۳۹۵ش، ج۶، ص۴۰۶.</ref> | امام سجاد نے صحیفہ میں اخلاقی اصول، سیاسی اور اجتماعی طرز زندگی کو دعا اور مناجات کے قالب میں بیان کیا ہے۔<ref>سبحانی، فرهنگ عقاید و مذاهب اسلامی، ۱۳۹۵ش، ج۶، ص۴۰۶.</ref> صحیفہ سجادیہ کو نہج البلاغہ کے بعد شیعوں کی اہم ترین کتاب<ref>پیشوایی، سیره پیشوایان، ۱۳۹۷ش، ص۲۸۱.</ref> جو جہان بینی پر ایک عمیق اور کامل دورہ سمجھا جاتا ہے۔<ref>سبحانی، فرهنگ عقاید و مذاهب اسلامی، ۱۳۹۵ش، ج۶، ص۴۰۶.</ref> | ||
=== | === امام باقرؑ === | ||
{{اصلی|امام محمد باقر علیہ السلام}} | {{اصلی|امام محمد باقر علیہ السلام}} | ||
[[امام محمد باقر علیہ السلام|امام محمد | محمد بن علی المعروف [[امام محمد باقر علیہ السلام|امام محمد باقرؑ]]، جو شیعوں کا پانچواں امام اور امام سجادؑ اور فاطمہ بنت امام حسنؑ کے بیٹے<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۵۵.</ref> ہیں جو سنہ 57 ہجری کو مدینہ میں پیدا ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۵۷ و ۱۵۸؛ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابیطالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۲۱۰.</ref> آپ اپنے والد امام سجادؑ کے بعد اللہ کے حکم، پیغمبر اکرم اور اپنے سے پہلے والے ائمہ کی معرفی سے آپ منصب [[امامت]] پر فائز ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۵۸و۱۵۹.</ref> اور سنہ 114 ہجری<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۵۷ و ۱۵۸؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۶۴.</ref> کو [[ہشام بن عبد الملک|اموی خلیفہ ہشام]] کے بھتیجے ابراہیم بن ولید بن عبد الملک کے ہاتھوں مسموم اور شہید ہوئے<ref>ابن شهرآشوب، مناقب آل ابیطالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۲۱۰.</ref> اور جنت البقیع میں اپنے والد گرامی کے جواب میں سپرد خاک ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۵۷ و ۱۵۸؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۶۴.</ref> امام باقرؑ سنہ 61 ہجری کو [[واقعہ کربلا]] میں موجود تھے اور اس وقت آپ کی عمر 4 سال تھی۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۳۲۰.</ref> | ||
امام باقر کی امات 18 یا 19 سال پر محیط تھی،<ref>طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۶۵؛ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابیطالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۲۱۰.</ref> دوسری طرف [[بنو امیہ]] کے مظالم کی وجہ سے اسلامی ممالک کے کسی علاقے میں انقلاب بپا ہوتا تھا اور جنگیں چھڑ جاتی تھیں اور ان مسائل نے اموی خلافت کو مصروف کر رکھا تھا جس کی وجہ سے [[اہل بیت]]ؑ کے خلاف کوئی اقدام کرنے سے قاصر رہے۔<ref>طباطبائی، شیعہ در اسلام، ص217۔</ref> اور دوسری طرف سے [[واقعۂ عاشورا]] اور [[اہل بیت]]ؑ کی مظلومیت نے مسلمانوں کو [[اہل بیت]]ؑ کی طرف مائل کر رکھا تھا جس کی وجہ سے امامؑ کو تعلیمات اہل بیت کی ترویج کا موقع مل گیا اور ایسا موقعہ کسی بھی امام کو نہیں ملا تھا۔ اسی وجہ سے آپ سے بہت ساری احادیث نقل ہوئی ہیں۔<ref>طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۱۷-۲۱۸.</ref> | |||
شیخ مفید کا کہنا ہے کہ آپؑ سے اتنی احادیث نقل ہوئی ہیں جتنی امام حسن اور امام حسینؑ کی نسل میں سے کسی سے بھی نقل نہیں ہوئی ہیں۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۵۷.</ref> | |||
=== | === امام صادقؑ=== | ||
{{اصلی|امام جعفر صادق علیہ السلام}} | {{اصلی|امام جعفر صادق علیہ السلام}} | ||
[[امام جعفر صادق علیہ السلام|مام جعفر | جعفر بن محمد جو [[امام جعفر صادق علیہ السلام|مام جعفر صادقؑ]] اور چھٹے امام سے مشہور ہیں۔ آپ [[امام باقرؑ]] اور [[ام فروہ|ام فروہ]] بنت [[قاسم بن محمد بن ابوبکر]] کے بیٹے ہیں۔ آپ [[۱۷ ربیع الاول]] [[سنہ ۸۳ هجری|۸۳ھ]] کو مدینہ میں پیدا ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۷۹و۱۸۰؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۷۱.</ref> آپ [[سنہ ۱۴۸ هجری|۱۴۸ھ]]<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۸۰؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۷۱.</ref> کو خلیفہ عباسی [[منصور عباسی|منصور]] کے ہاتھوں مسموم اور شہید ہوئے<ref>ابن شهرآشوب، مناقب آل ابیطالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۲۸۰؛ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۳۲۶.</ref> اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۸۰؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۷۲.</ref> | ||
[[امام صادقؑ|چھٹے امام | [[امام صادقؑ|چھٹے امام]] کی 34 سالہ امامت<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۸۰؛ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابیطالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۲۸۰.</ref> کے دوران اموی حکومت کمزور ہوگئی تھی جس کی وجہ سے [[امام جعفر صادق علیہ السلام|امام صادق]]ؑ کو دینی تعلیمات کی نشر و اشاعت اور مختلف علوم میں افراد کی علمی تربیت کے لئے زیادہ مناسب ماحول اور بیشتر امکانات ملے۔<ref>طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۱۸و۲۱۹.</ref> آپ کے شاگردوں کی تعداد 4000 افراد تک بیان ہوئی ہے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۷۹؛ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابیطالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۲۴۷.</ref>جن میں [[زرارہ بن اعین|زرارہ]]، [[محمد بن مسلم]]، [[مؤمن طاق]]، [[ہشام بن حکم]]، [[ابان بن تغلب]]، [[ہشام بن سالم]]، [[جابر بن حیان]]<ref>طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۱۹.</ref> اور اہل سنت میں | ||
[[سفیان ثوری]]، [[ابوحنیفه]] (مذہبِ حنفیہ کے امام)، [[مالک بن انس]]، مالکی مذهب کے پیشوا شامل ہیں۔<ref>ابن شهرآشوب، مناقب آل ابیطالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۲۴۷و۲۴۸؛ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۳۲۷-۳۲۹.</ref> | |||
شیخ مفید کا کہنا ہے کہ اہل بیتؑ میں سب سے زیادہ روایات [[امام جعفر صادق علیہ السلام|امام صادقؑ]] سے نقل ہوئی ہیں۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۷۹.</ref> کہا جاتا ہے کہ اسی سبب شیعہ مذہب کو مذہب جعفری نام دیا گیا ہے۔<ref>شهیدی، زندگانی امام صادق، ۱۳۷۷ش، ص۶۱.</ref> | |||
===ساتویں امام=== | ===ساتویں امام=== |
نسخہ بمطابق 22:45، 12 فروری 2024ء
ائمہ معصومین، خاندان رسالت کے ان 12 ہستیوں کو کہا جاتا ہے جو احادیث کی رو سے پیغمبر اکرمؐ کے جانشین اور آپؐ کے بعد اسلامی معاشرے کے امام اور سرپرست ہیں۔ پہلے امام حضرت علی علیہ السلام ہیں اور باقی ائمہ آپؑ اور حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی نسل سے ہیں۔
شیعہ کے مطابق ائمہ معصومین اللہ تعالی کی جانب سے معین اور مقرر ہوتے ہیں جو علم غیب، عصمت، افضلیت اور حق شفاعت جیسی خصوصیات کے حامل ہیں۔ اسی یہ ہستیاں دریافت وحی اور تشریع شریعت کے علاوہ پیغمبر اکرمؐ کی تمام ذمہ داریوں کے حامل ہیں۔
اہل سنت شیعہ ائمہ کی امامت کو تو نہیں مانتے؛ لیکن ان کی دینی اور علمی مرجعیت کو مانتے ہوئے ان سے اظہار محبت کرتے ہیں۔
ائمہ معصومینؑ کا نام قرآن میں نہیں آیا لیکن پیغمبر اسلامؐ کی احادیث من جملہ خطبہ غدیر، حدیث جابر اور حدیث بارہ خلیفہ میں ائمہؑ کے نام اور تعداد ذکر ہوئی ہے۔ ان احادیث کے مطابق ائمہ کی تعداد 12 اور سب کے سب قریش اور پیغمبرؐ کی ذریت یعنی اہل بیت میں سے ہیں۔
شیعہ اثنا عشریہ کے مطابق ان کے پہلے امام حضرت علیؑ رسول اللہؑ کی صریح روایت کے مطابق امامت پر فائز ہوئے۔ اس کے بعد ہر امام نے اپنے بعد آنے والے امام اور اپنے جانشین کو صریح اور نص کے ساتھ معین اور معرفی کئے ہیں۔ لہذا ان نصوص کی بنیاد پر رسول اللہؑ کے بعد بارہ ائمۂ اور ان کے نام بالترتیب حسب ذیل ہیں:
على بن ابىطالب، حسن بن علی، حسین بن على، على بن حسین، محمد بن على، جعفر بن محمد، موسى بن جعفر، على بن موسى، محمد بن على، على بن محمد، حسن بن على و مہدى(عليہمالسلام)۔ مشہور قول کے مطابق شیعوں کے 11 امام شہید ہوچکے ہیں اور آخری امام، مہدی موعود غیبت میں ہیں اور وہ ظہور کر کے زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔
ائمہ معصومینؑ کی حالات زندگی اور ان کے فضائل کے بارے میں متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں الارشاد اور دلائل الامامۃ شیعہ کتب اور ینابیع المودۃ اور تذکرۃ الخواص اہل سنت کتب قابل ذکر ہیں۔
مقام و منزلت اور خصوصیات
بِنا يُسْتَعْطَى الْهُدَى، وَيُسْتَجْلَى الْعَمَى، إِنَّ الْأَئِمَّةَ مِنْ قُرَيْشٍ غُرِسُوا فِى هَذا الْبَطْنِ مِنْ هاشِمٍ، لا تَصْلُحُ عَلَى سِواهُمْ، وَلا تَصْلُحُ الْوُلاةُ مِنْ غَيْرِهِمْ
ترجمہ: لوگ ہماری راہنمائی سے راہ ہدایت پر گامزن ہوتے ہیں، اور اندھے دلوں کی بصارت کو ہمارے ہاں تلاش کرتے ہیں؛ بے شک ائمہ قریش سے ہیں وہی جن کا درخت خاندان ہاشم میں لگایا گیا ہے، دوسرے اس کے اہل نہیں ہیں اور ولایت و امامت کا عہدہ ہاشمیوں کے سوا کسی اور کے نام نہیں لکھا گیا۔
نہج البلاغہ، خطبہ 144۔
بارہ اماموں کی امامت کا عقیدہ شیعہ اثنا عشریہ کے بنیادی اعتقادات یعنی اصول دین میں شمار ہوتا ہے۔ [1] اہل تشیع کے مطابق امام، اللہ تعالی کی طرف سے رسول اکرمؐ کے ذریعے معین ہوتا ہے۔[2]
شیعہ مفسرین اور متکلمین کے مطابق اگرچہ قرآن میں ائمہ کا نام نہیں آیا لیکن آیہ اولی الامر، آیہ تطہیر، آیہ ولایت، آیہ اکمال، آیہ تبلیغ اور آیہ صادقین میں ائمہ کی امامت کی طرف اشارہ ہوا ہے۔[3] البتہ روایات میں ائمہ کی تعداد اور نام ذکر ہوئے ہیں۔[4]
شیعہ عقیدے کے مطابق ائمہؑ، رسول اکرمؑ کی تمام خصوصیات اور ذمہ داریوں کا حامل ہوتے ہیں منجملہ ان میں قرآنی آیات کی وضاحت، شرعی احکام کا بیان، لوگوں کی تربیت، دینی سوالات کے جوابات، عدل انصاف کا قیام اور اسلامی سرحدوں کی حفاظت جیسی ذمہ داریوں کا نام لیا جا سکتا ہے۔ صرف فرق اتنا ہے کہ ائمہ پر وحی نہیں آتی اور صاحب شریعت نہیں ہیں۔[5]
خصوصیات
شیعہ عقیدے کے مطابق ائمہ معصومینؑ کی خصوصیات میں سے بعض درج ذیل ہیں:
- عصمت: رسول اللہؐ کی طرح ائمہ معصومین بھی ہر قسم کے گناہ اور خطا سے پاک اور معصوم ہیں۔[6]
- افضلیت: شیعہ علما کے مطابق رسول اللہؐ کے بعد ائمہ معصومین دوسرے تمام انبیاء، ملائکہ اور عام لوگوں سے افضل ہیں۔[7] تمام مخلوقات پر ائمہ معصومینؑ کی فوقیت پر دلالت کرنے والی احادیث کو مستفیض بلکہ متواتر جانی گئی ہیں۔[8]
- علم غیب: ائمہ معصومینؑ کو خدا کی طرف سے علم غیب عطا کی گئی ہیں۔[9]
- ولایت تکوینی اور تشریعی: اکثر شیعہ علما ائمہ معصومین کے لئے ولایت تکوینی کے قائل ہیں۔[10] اسی طرح لوگوں کی جان و مال پر اولی بالتصرف ہونے کے معنی میں ولایت تشریعی رکھنے میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے۔[11]عقیدہ تفویض پر دلالت کرنے والی احادیث کے مطابق[12] ائمہ معصومینؑ کو تشریع اور قانون سازی کا اختیار بھی عطا کئے گئے ہیں۔[13]
- مزید معلومات کے لئے دیکھئے: تفویض
- مقام شفاعت: رسول اللہؐ کی طرح تمام ائمہ معصومین بھی خدا کے اذن سے قیامت کے دن شفاعت کا حق رکھتے ہیں۔[14]
- دینی اور علمی مرجعیت: حدیث ثقلین[15] اور حدیث سفینہ[16] جیسی روایات کے مطابق ائمہ معصومین دینی اور علمی مرجعیت پر فائز ہیں اور لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دینی مسائل میں ان کی طرف رجوع کریں۔[17]
- معاشرے کی قیادت: رسول اللہؐ کے بعد مسلم معاشرے کی قیادت اماموں کے ذمے ہے۔[18]
- وجوب اطاعت: آیہ اولی الامر کی بنا پر جس طرح سے اللہ اور رسول کی اطاعت واجب ہے اسی طرح ائمہ معصومین کی اطاعت بھی واجب ہے[19]
اکثر شیعہ علماء کے مطابق تمام ائمہ معصومینؑ شہادت کے درجے پر فائز ہو کر اس دنیا سے جائیں گے۔[20] اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے وہ مختلف احادیث[21] سے استدلال کرتے ہیں من جملہ ان میں سے ایک حدیث ہے: وَ اللَّهِ مَا مِنَّا إِلَّا مَقْتُولٌ شَهِيد[22] ان احادیث کے مطابق تمام ائمہ معصومین شہادت کے درجے پر فائز ہو کر اس دنیا سے رخصت ہونگے۔[23]
ائمہؑ کی امامت
شیعہ علما بارہ اماموں کی امامت کو ثابت کرنے کے لئے عصمت اور افضلیت جیسی عقلی دلائل کے ساتھ ساتھ حدیث جابر، حدیث لوح اور حدیث 12 خلیفہ سے استدلال کرتے ہیں۔[24]
حدیث جابر
جابر بن عبداللہ انصاری نے آیہ؛ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا الله وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ (ترجمہ: اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحبانِ امر ہیں (فرمان روائی کے حقدار ہیں))[نساء–59][25] کے نازل ہونے کے بعد اولو الامر کے بارے میں رسول خداؐ سے پوچھا تو آنحضرتؐ نے فرمایا: «وہ میرے جانشین اور میرے بعد مسلمانوں کے امام ہیں جن میں سب سے پہلا علی بن ابیطالب ہیں اور ان کے بعد بالترتیب حسنؑ، حسینؑ، علی بن حسینؑ، محمد بن علی، جعفر بن محمد، موسی بن جعفر، علی بن موسی، محمد بن علی، علی بن محمد، حسن بن علی اور ان کے بعد ان کے فرزند جو میرا ہم نام اور ہم کنیت ہیں۔۔۔»۔[26]
حدیث 12 خلیفے
اہل سنت حدیثی مآخذ میں پیغمبر اکرمؐ سے ایک حدیث نقل ہوئی ہے جس میں آپؐ کے جانشینوں اور خلفاء کی تعداد نیز ان کی بعض خصوصیات ذکر ہوئی ہیں:
جابر بن سمرہ رسول خداؐ سے نقل کرتے ہیں: «یہ دین قیامت تک قائم و دائم رہے گا جب تک تمہارے سر پر بارہ خلیفے ہونگے جو سب کے سب قریش میں سے ہونگے»۔[27]
اسی طرح ابن مسعود سے منقول ہے کہ رسول خداؐ کے بعد نقباء کی تعداد بنی اسرائیل کے نقبا کی طرح بارہ ہوگی۔[28] اہل سنت عالم دین سلیمان بن ابراہیم قُندوزی کے مطابق احادیث نبوی میں مذکور 12 خلیفے وہی شیعہ ائمہ ہیں؛ کیونکہ یہ احادیث ان کے علاوہ کسی اور ہستیوں پر تطبیق نہیں کر سکتے ہیں۔[29]
ائمہ کا تعارف
شیعہ اس بات کے قائل ہیں کہ مختلف عقلی[30] اور نقلی دلائل جیسے حدیث غدیر اور حدیث منزلت سے ثابت ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کے بعد برحق اور بلافصل خلیفہ حضرت علیؑ ہیں۔[31] اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ امام علیؑ کے بعد بالترتیب امام حسنؑ، امام حسینؑ، امام سجادؑ، امام باقرؑ، امام صادقؑ، امام موسی کاظمؑ، امام رضاؑ، امام جوادؑ، امام هادیؑ، امام حسن عسکریؑ و امام مهدی(عج) اسلامی معاشرے کی امامت اور رہبری کے عہدے پر فائز ہیں۔[32]
نام | القاب | کنیت | روز ولادت | سال ولادت | مولد | یوم شہادت | سال شہادت | مقام شہادت | قاتل | امامت | مدت امامت | والدہ کا نام |
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
علی بن ابی طالب | امیرالمؤمنین | ابو الحسن | 13 رجب | سنہ 30 عام الفیل | مکہ | 21 رمضان | 40ھ | کوفہ | ابن ملجم | 11-40ھ | 23 سال | فاطمہ بنت اسد |
حسن بن علی | مجتبی | ابو محمد | 15 رمضان | 2ھ | مدینہ | 28 صفر | 50ھ | مدینہ | جعدہ بنت اشعث بحکم معاویہ | 40-50ھ | 10 سال | فاطمہ بنت رسول اللہؐ |
حسین بن علی | سید الشہداء | ابوعبد اللہ | 3 شعبان | 3 ھ | مدینہ | 10 محرم | 61ھ | کربلا | شمر بن ذی الجوشن و لشکر عمر سعد بحکم یزید | 50-61ھ | 10 سال | فاطمہ بنت رسول اللہؐ |
علی بن الحسین | سجاد، زین العابدین | ابو الحسن | 5 شعبان | 38ھ | مدینہ | 25 محرم | 95ھ | مدینہ | ولید یا اس کا بھائی ہشام | 61-94ھ | 35 سال | شہربانو |
محمد بن علی | باقر العلوم | ابو جعفر | 1 رجب | 57 ھ | مدینہ | 7 ذوالحجہ | 114ھ | مدینہ | ابراہیم بن ولید بن عبدالملک بحکم ہشام | 94-115ھ | 19 سال | فاطمہ |
جعفر بن محمد | صادق | ابوعبداللہ | 17 ربیع الاول | 83 ھ | مدینہ | 25 شوال | 148ھ | مدینہ | منصور عباسی | 114-148ھ | 34 سال | ام فروہ |
موسی بن جعفر | کاظم | ابوالحسن | 7 صفر | 128ھ | مدینہ | 25 رجب | 183ھ | کاظمین | سندی بن شاہک بحکم ہارون عباسی | 148-183ھ | 35 سال | حمیدہ بربریہ |
علی بن موسی | رضا | ابوالحسن | 11 ذوالقعدہ | 148ھ | مدینہ | آخر صفر | 203ھ | مشہد | مامون عباسی | 183-203ھ | 20 سال | تکتم |
محمد بن علی | تقی، جواد | ابو جعفر | 10 رجب | 95 ھ | مدینہ | آخر ذو القعدہ | 220ھ | کاظمین | لبابہ بنت مامون بحکم معتصم | 203-220ھ | 17 سال | سبیکہ خاتون |
علی بن محمد | ہادی، نقی | ابوالحسن | 15 ذوالحجہ | 212 ھ | صریا | 3 رجب | 254ھ | سامرا | معتز عباسی کا بھائی معتمد | 220-254ھ | 34 سال | سمانہ مغربیہ |
حسن بن علی | زکی، عسکری | ابومحمد | 10 ربیع الثانی | 232 ھ | مدینہ | 8 ربیع الاول | 260 ھ | سامرا | معتمد | 254-260ھ | 6 سال | سوسن |
حجۃ بن الحسن | قائم | ابوالقاسم | 15 شعبان | 255ھ | سامرا | امام قائمؑ زندہ اور نظروں سے اوجھل ہیں | 1175 سال، اب تک | نرجس خاتون |
امام علیؑ
علی بن ابیطالب امام علیؑ اور امیرالمؤمنینؑ کے نام سے مشہور شیعوں کے پہلے امام ہیں۔ آپ ابوطالب اور فاطمہ بنت اسد کے فرزند ہیں۔ 13 رجب سنہ 30 عام الفیل کو کعبہ میں آپ کی ولادت ہوئی۔[33] آپ نے سب سے پہلے پیغمبر اکرمؐ پر ایمان لایا[34] اور پوری زندگی ہمیشہ آپؐ کے ساتھ رہے اور پیغمبر اکرمؐ کی اکلوتی بیٹی حضرت فاطمہ(س) سے آپ نے شادی کی۔[35]
باوجود اینکہ پیغمبر اکرمؐ نے اپنی زندگی میں کئی بار من جملہ غدیر کے دن آپ کو اپنا جانشین اور مسلمانوں کا بلا فصل خلیفہ مقرر کیا تھا،[36] لیکن پبغمبر اکرمؐ کی رحلت کے فورا بعد سقیفہ بنی ساعدہ کے واقعے میں ابوبکر بن ابی قحافہ کی بعنوان خلیفہ مسلمین بیعت کی گئی۔[37] خلفائے ثلاثہ کے دور میں آپ نے اسلام کی مصلحت اور اسلامی معاشرے میں اتحاد کو فروغ دینے کی خاطر 25 سال سکوت اختیار کی اور آخر کار 35ھ میں لوگوں نے آپ کی بیعت کر کے مسلمانوں کا چھوتھا خلیفہ منتخب کیا۔[38] آپ کی خلافت جو تقریبا 4 سال 9 مہینے قائم رہی 3 جنگیں؛ جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان رونما ہوئیں۔ جس کی بنا پر آپ کی خلافت کا اکثر حصہ مسلمانوں کے داخلی اختلافات میں گذر گئے۔[39]
امام علیؑ 19 رمضان 40ھ کو مسجد کوفہ کے محراب میں نماز کی حالت میں ابن ملجم مرادی کے ہاتھوں آپ زخمی ہوئے اور 21 رمضان کو آپ جام شہادت نوش کر گئے اور نجف میں آپ کو سپرد خاک کئے گئے۔[40] آپ بیشمار فضیلتوں کے حامل تھے۔[41] ابن عباس سے منقول ہے کہ آپ کی شان میں تقریبا 300 آیتیں نازل ہوئی ہیں۔[42] اسی طرح ان سے منقول ہے کہ خدا نے کسی آیت کو نازل نہیں کیا جس میں «یا أیہا الذین آمنوا»[؟–؟] ہو مگر یہ کہ آپؑ مومنین میں سر فہرست اور ان کے امیر ہیں۔[43]
امام حسنؑ
حسن بن علیؑ، امام حسن مجتبیؑ سے مشہور، امام علیؑ اور فاطمہ زہراؐ کے بیٹے 15 رمضان 3ھ کو مدینہ میں پیدا ہوئے۔[44] امام حسن مجتبیؑ والد کی شہادت کے بعد خدا کے فرمان اور والد کی وصیت کے مطابق امامت کے منصب پر فائز ہوئے اور تقریبا 6 مہینے ظاہری خلافت کا عہدہ بھی سنبھالے رکھا۔ تقریبا 6 مہینوں تک مسلمانوں کے امور کا انتظام و انصرام کیا۔[45] اس عرصے کے دوران معاویہ بن ابی سفیان نے آپؑ کی حکومت کے مرکز عراق پر لشکر کشی کی اور امامؑ کے لشکر کے امراء کو فریب دے کر انھیں امام کے خلاف ابھارا اور آخر کار حضرت امام حسن مجتبیؑ صلح پر مجبور ہوئے اور بعض شرائط پر ظاہری حکومت معاویہ کو بعض شرائط (من جملہ یہ کہ خلافت معاویہ کی موت کے بعد امامؑ کو ملے گی، معاویہ ولیعہد کا اعلان نہیں کرے گا اور شیعیان اہل بیتؑ کی جان و مال محفوظ ہوگی) پر، واگذار کردی۔[46] امام حسنؑ نے اپنی امامت کا 10 سال امامت کی[47] اور 28 صفر سنہ 50 ہجری میں معاویہ کی تحریک پر اپنی زوجہ (جعدہ بنت اشعث) کے ہاتھوں مسموم ہوئے اور جام شہادت نوش کرگئے اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔[48]
امام حسنؑ اصحاب کِساء میں شامل تھے[49] اور آپ نجران کے نصرانیوں سے ہونے والے مباہلے میں بھی شریک تھے۔[50] آپؑ پیغمبر اکرمؑ کی اہل بیتؑ میں سے ایک ہیں جن کی شان میں آیہ تطہیر نازل ہوئی۔[51]
امام حسینؑ
حسین بن علیؑ جو ابا عبداللہ سے مشہور ہیں شیعوں کے تیسرے امام، امام علیؑ اور حضرت فاطمہؑ کے دوسرے بیٹے ہیں۔ آپؑ سنہ 4 ہجری کو مدینہ میں پیدا ہوئے۔ آپؑ اپنے بھائی امام حسن مجتبیؑ کی شہادت کے بعد پیغمبر اکرم اور امام علیؑ کی تصریح اور امام حسنؑ کی وصیت کے مطابق، منصب امامت پر فائز ہوئے۔[52]
امام حسین علیہ السلام نے دس سال امامت کی۔[53] آپ کی امامت کے آخری چھ مہینوں کے علاوہ باقی عرصہ معاویہ کے دور خلافت میں گزرا۔[54] معاویہ سنہ 60 ہجری میں مرگیا اور اس کا بیٹا یزید اس کی جگہ تخت نشین ہوا۔ [55] یزید نے مدینہ کے گورنر کو امام حسینؑ سے بیعت لینے اور انکار کی صورت میں سر قلم کر کے شام بھیجنے کا حکم دیا۔ جب مدینہ کے حاکم نے یزید کا حکم آپ تک پہنچایا تو آپ اپنے خاندان کے ہمران رات کی تاریکی میں مدینہ سے مکہ کی جانب حرکت کر گئے۔[56] کچھ عرصہ بعد کوفہ کے لوگوں کی دعوت پر آپ خاندان اور اپنے اصحاب کے ایک گروہ کے ساتھ کوفہ کی جانب نکلے۔[57] امام اور ان کے ساتھیوں کو کربلا میں یزید کی لشکر نے محاصرہ کیا اور روز عاشورا امام اور عمر بن سعد کی فوج کے مابین جنگ ہوئی اور امام اور ان کے خاندان اور اصحاب شہید ہوئے نیز خواتین، بچے اور امام سجادؑ جو بیمار تھے، اسیر ہوئے۔[58]
امام حسینؑ اصحاب کِساء میں شامل تھے[59] اور آپ نجران کے نصرانیوں سے ہونے والے مباہلے میں بھی شریک تھے۔[60] آپؑ پیغمبر اکرمؑ کی اہل بیتؑ میں سے ایک ہیں جن کی شان میں آیہ تطہیر نازل ہوئی۔[61]
امام سجادؑ
علی بن حسین جن کا لقب زین العابدین اور سجاد ہے، شیعوں کے چوتھے امام اور تیسرے امام اور ایران کے بادشاہ یزدگرد سوئم کی بیٹی شاہ زنان شہربانو کے بیٹے ہیں۔ آپ سنہ 38 ہجری کو مدینہ میں پیدا ہوئے۔[62]
امام سجاد واقعہ کربلا میں اسیر ہوئے اور باقی اسراء کے ساتھ آپ کو کوفہ[63] اور شام[64] لے جایا گیا۔ آپ نے شام میں اپنا اور اپنے اجداد کا تعارف کراتے ہوئے ایک خطبہ دیا جسے لوگ بہت متاثر ہوئے۔[65] اسیری کے ایام گذارنے کے بعد آپ کو مدینہ بھیجا گیا اور مدینہ میں عبادت الہی میں مصروف ہوئے اور ابو حمزہ ثمالی اور ابو خالد کابلی سمیت خواصِ شیعہ کے سوا کسی کے ساتھ رابطہ نہیں کرتے تھے۔ البتہ خواص آپ سے اسلامی معارف اخذ کرکے شیعیان اہل بیت کے درمیان پھیلا دیتے تھے[66]
چوتھے امام نے 34 سال امامت کی[67] اور 57 سال کی عمر میں سنہ 95 ہجری[68] کو ولید بن عبد الملک کے ہاتھوں مسموم و شہید ہوئے[69] اور جنت البقیع میں اپنے چچا امام حسنؑ کے جوار میں دفن ہوئے۔[70]
چوتھے امام کے باقیماندہ آثار میں آپؑ کی دعائیں ہیں جو صحیفۂ سجادیہ کی شکل میں موجود ہیں۔[71] صحیفہ سجادیہ کی دعائیں اکثر توحیدی مضامین پر مشتمل ہیں اور اللہ کے حضور تضرع ہیں۔[72] امام سجاد نے صحیفہ میں اخلاقی اصول، سیاسی اور اجتماعی طرز زندگی کو دعا اور مناجات کے قالب میں بیان کیا ہے۔[73] صحیفہ سجادیہ کو نہج البلاغہ کے بعد شیعوں کی اہم ترین کتاب[74] جو جہان بینی پر ایک عمیق اور کامل دورہ سمجھا جاتا ہے۔[75]
امام باقرؑ
محمد بن علی المعروف امام محمد باقرؑ، جو شیعوں کا پانچواں امام اور امام سجادؑ اور فاطمہ بنت امام حسنؑ کے بیٹے[76] ہیں جو سنہ 57 ہجری کو مدینہ میں پیدا ہوئے۔[77] آپ اپنے والد امام سجادؑ کے بعد اللہ کے حکم، پیغمبر اکرم اور اپنے سے پہلے والے ائمہ کی معرفی سے آپ منصب امامت پر فائز ہوئے۔[78] اور سنہ 114 ہجری[79] کو اموی خلیفہ ہشام کے بھتیجے ابراہیم بن ولید بن عبد الملک کے ہاتھوں مسموم اور شہید ہوئے[80] اور جنت البقیع میں اپنے والد گرامی کے جواب میں سپرد خاک ہوئے۔[81] امام باقرؑ سنہ 61 ہجری کو واقعہ کربلا میں موجود تھے اور اس وقت آپ کی عمر 4 سال تھی۔[82]
امام باقر کی امات 18 یا 19 سال پر محیط تھی،[83] دوسری طرف بنو امیہ کے مظالم کی وجہ سے اسلامی ممالک کے کسی علاقے میں انقلاب بپا ہوتا تھا اور جنگیں چھڑ جاتی تھیں اور ان مسائل نے اموی خلافت کو مصروف کر رکھا تھا جس کی وجہ سے اہل بیتؑ کے خلاف کوئی اقدام کرنے سے قاصر رہے۔[84] اور دوسری طرف سے واقعۂ عاشورا اور اہل بیتؑ کی مظلومیت نے مسلمانوں کو اہل بیتؑ کی طرف مائل کر رکھا تھا جس کی وجہ سے امامؑ کو تعلیمات اہل بیت کی ترویج کا موقع مل گیا اور ایسا موقعہ کسی بھی امام کو نہیں ملا تھا۔ اسی وجہ سے آپ سے بہت ساری احادیث نقل ہوئی ہیں۔[85] شیخ مفید کا کہنا ہے کہ آپؑ سے اتنی احادیث نقل ہوئی ہیں جتنی امام حسن اور امام حسینؑ کی نسل میں سے کسی سے بھی نقل نہیں ہوئی ہیں۔[86]
امام صادقؑ
جعفر بن محمد جو مام جعفر صادقؑ اور چھٹے امام سے مشہور ہیں۔ آپ امام باقرؑ اور ام فروہ بنت قاسم بن محمد بن ابوبکر کے بیٹے ہیں۔ آپ ۱۷ ربیع الاول ۸۳ھ کو مدینہ میں پیدا ہوئے۔[87] آپ ۱۴۸ھ[88] کو خلیفہ عباسی منصور کے ہاتھوں مسموم اور شہید ہوئے[89] اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔[90]
چھٹے امام کی 34 سالہ امامت[91] کے دوران اموی حکومت کمزور ہوگئی تھی جس کی وجہ سے امام صادقؑ کو دینی تعلیمات کی نشر و اشاعت اور مختلف علوم میں افراد کی علمی تربیت کے لئے زیادہ مناسب ماحول اور بیشتر امکانات ملے۔[92] آپ کے شاگردوں کی تعداد 4000 افراد تک بیان ہوئی ہے۔[93]جن میں زرارہ، محمد بن مسلم، مؤمن طاق، ہشام بن حکم، ابان بن تغلب، ہشام بن سالم، جابر بن حیان[94] اور اہل سنت میں سفیان ثوری، ابوحنیفه (مذہبِ حنفیہ کے امام)، مالک بن انس، مالکی مذهب کے پیشوا شامل ہیں۔[95]
شیخ مفید کا کہنا ہے کہ اہل بیتؑ میں سب سے زیادہ روایات امام صادقؑ سے نقل ہوئی ہیں۔[96] کہا جاتا ہے کہ اسی سبب شیعہ مذہب کو مذہب جعفری نام دیا گیا ہے۔[97]
ساتویں امام

امام موسی بن جعفر (کاظم) چھٹے امامؑ کے فرزند ہیں جو سنہ 128 ہجری میں پیدا ہوئے اور سنہ 183 ہجری کو [ہارون عباسی کے حکم پر] قیدخانے میں مسموم اور شہید ہوئے۔ آپؑ [سابقہ ائمہؑ کی طرح] امر پرورگار اور والد کی وصیت سے عہدۂ امامت پر فائز ہوئے۔[98]
ساتویں امام عباسی خلفاء میں سے منصور، ہادی، مہدی اور ہارون کے ہم عصر تھے اور شدید ترین گھٹن اور تاریک دور میں سخت تقیے کی حالت میں زندگی گذارنے پر مجبور تھے۔ یہاں تک کہ بالآخر ہارون حج کے عنوان سے مدینہ چلا گیا اور اس کے حکم پر امام کاظمؑ کو ـ مسجد النبیؐ میں نماز بجا لارہے تھے ـ گرفتار کرکے زنجیروں میں جکڑ لیا اور قیدخانے میں مقید کرلیا۔ آپؑ کو مدینہ سے بصرہ اور بصرہ منتقل کیا گیا اور برسوں تک ایک قید خانے سے دوسرے اور دوسرے سے میں منتقل کیا جاتا رہا اور بالآخر آپؑ کو بغداد میں سندی بن شاہک کی زندان میں قید کیا گیا جہاں آپؑ کو مسموم اور شہید کیا گیا اور مقبرہ قریش میں سپرد خاک کیا گیا جو اس وقت شہر کاظمیہ کہلاتا ہے۔[99]
آٹھویں امام

امام علی بن موسی (رضا) ساتویں امام کے فرزند ہیں جو مشہور ترین تاریخ کے مطابق سنہ 148 ہجری میں پیدا ہوئے اور سنہ 203 کو [مامون کے ہاتھوں مسموم ہوکر] شہید ہوئے۔[100]
آٹھویں امام اپنے والد بزرگوار کی شہادت کے بعد اللہ کے امر اور اسلاف کی جانب سے متعارف کئے جانے کی بنا پر، عہدۂ امامت پر فائز ہوئے اور ہارون عباسی، امین عباسی اور مامون عباسی کے ہم عصر تھے۔[101]
باپ کے انتقال کے بعد بھائیوں "مامون اور امین" کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے جس کی وجہ سے خونریز جنگیں ہوئیں اور امین مارا گیا چنانچہ مامون سریر خلافت پر مسلط ہوا۔ اس دن تک علوی سادات کے خلافت بنو عباس کی روش تشدد پسندانہ اور کشت و خون پر مبنی تھی اور یہ روش مسلسل شدید سے شدید تر ہوتی رہی تھی؛ جس کی وجہ سے کچھ عرصہ خاموشی چھا جاتی تھی لیکن پھر بھی کوئی علوی عباسیوں کے خلاف قیام کرتا اور خونریز جنگ اور آشوب کا ماحول بن جاتا تھا اور یہ بجائے خود عباسی حکمرانوں کے لئے شدید اور ناخوشگوار آزمائش تھی جس سے انہیں گذرنا پڑتا تھا۔ اور اہل بیت میں شیعیان اہل بیت کے ائمہؑ اگرچہ قیام اور تحریک بپا کرنے والوں کے ساتھ تعاون نہیں کرتے تھے اور ان مسائل میں مداخلت سے دور رہتے تھے، لیکن ان دنوں شیعہ آبادی اچھی خاصی تھی اور وہ سب ائمۂ اہل بیت کو اپنے پیشوا اور مفترض الطاعہ امام، اور پیغمبر اکرمؐ کے حقیقی خلفاء اور جانشین سمجھتے تھے۔ وہ خلافت کے نظام کو ـ جو قیصر کسرٰی کے دربار کی صورت اختیار کرگیا تھا، اور بعض بےراہرو افراد کے زیر انتظام ہوتا تھا ـ ناپاک نظام سمجھتے تھے اور اس کو اپنے پاک پیشواؤں کے مقدس دامن سے دور دیکھتے تھے، چنانچہ اس صورت حال کا دوام و تسلسل عباسی نظام خلافت کے لئے خطرناک تھا اور اس کے وجود کو خطرے سے دوچار کرتا تھا۔[102]
مامون نے سوچا کہ ان آزمائشوں کو ـ جنہیں اس کے اسلاف کی ستر سالہ روش ختم نہیں کرسکی تھی ـ نئی روش اور نئی سیاست سے ختم کردے؛ اور وہ روش یہ تھی کہ آٹھویں امامؑ کو ولایت عہدی کا منصب سونپ دے اور یوں ہر مسئلے کا خاتمہ کرے؛ کیونکہ اس صورت میں علوی ایسی حکومت کے خلاف کوئی اقدام نہ کرتے جن میں ان کا اپنا بھی کردار ہوتا اور شیعہ بھی ـ جو خلافت اور اس کے کارگزاروں کو پلید و ناپاک سمجھتے تھے ـ جب اپنے امام کے ہاتھوں کو خلافت کی پلیدی سے آلودہ دیکھتے تو وہ ـ جو ائمۂ اہل بیت کے تئیں معنوی اعتقاد اور باطنی عقیدہ رکھتے تھے ـ اپنا عقیدہ کھوجائیں گے، ان کا مذہبی نظم و نسق ختم ہوجائے گا اور اس کے بعد ان کی طرف سے خلافت کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہوسکے گا۔[103]
نویں امام

امام محمد بن علی (تقی) (ابن الرضا)، آٹھویں امام کے فرزند ہیں جو سنہ 195 ہجری کو مدینہ میں پیدا ہوئے اور شیعہ احادیث کے مطابق سنہ 220 ہجری میں معتصم عباسی کے حکم پر اپنی زوجہ ام الفضل بنت مامون کے ہاتھوں مسموم اور شہید ہوئے ہیں اور کاظمین کے مقام پر اپنے جد امجد ساتویں امامؑ کے پہلو میں مدفون ہیں۔[104]
آپؑ اپنے والد بزرگوار کی شہادت کے بعد امر خدا اور اسلاف طاہرین کی وصیت کے مطابق، منصب امامت پر فائز ہوئے۔ امام جوادؑ والد کی شہادت کے وقت مدینہ میں تھے۔ مامون نے آپؑ کو بغداد طلب کیا ـ جو ان دار الخلافہ تھا ـ اور آپؑ کے ساتھ بظاہر محبت سے پیش آیا اور بڑی مہربانی برتی اور اپنی بیٹی کا آپؑ سے عقد کیا۔ اور آپؑ کو بغداد میں روکے رکھا۔ وہ درحقیقت اس واسطے سے آپؑ پر اندرون خانہ و بیرون خانہ کڑی نگرانی کا انتظام کیا۔ امامؑ کچھ عرصے تک بغداد میں روہے اور پھر مامون کی اجازت سے مدینہ گئے اور مامون کے عہد حکومت کے آخر تک مدینۃ الرسول میں رہے۔ مامون کا انتقال ہوا تو معتصم نے زمام خلافت سنبھال لی، امامؑ کو دوبارہ بغداد طلب کرکے زیر نگرانی رکھا اور آخرکار ـ جیسا کہ بتایا گیا ـ معتصم کی تحریک پر اپنی زوجہ ام فضل بنت مامون کے ہاتھوں مسموم اور شہید ہوئے۔[105]
دسویں امام

امام علی بن محمد (نقی)، نویں امامؑ کے فرزند سنہ 212 ہجری کو مدینہ میں پیدا ہوئے اور سنہ 254 ہجری کو (شیعہ روایات کے مطابق) عباسی خلیفہ معتز کے ہاتھوں ـ زہر کے ذریعے سے ـ شہید ہوئے[106] اور سامرا میں مدفون ہوئے۔
دسویں امام سات عباسی خلفاء ـ مامون، معتصم، واثق، متوکل، منتصر، مستعین اور معتز ـ کے ہم عصر تھے۔ سنہ 220 میں آپؑ کے والد بزرگوار بغداد میں مسموم ہوکر شہید ہوئے تو آپؑ اس وقت مدینہ میں تھے۔ بأمر خدا اور اسلاف طاہرین کی وصیت کے مطابق منصب امامت پر فائز ہوئے۔ آپؑ نے دینی معارف کی تبلیغ اور نشرواشاعت کا اہتمام کیا۔ یہاں تک کہ متوکل نے خلافت پر قبضہ کیا۔[107]
متوکل نے سنہ 243 ہجری کو [حاسدین کی] چغلیوں کے نتیجے میں اپنے ایک امیر کو حکم دیا کہ امامؑ کو مدینہ سے سامرا لے آئے اور آپؑ کے نام ایک محبت آمیز اور تعظیم و تکریم سے بھر پور خط لکھا اور سامرا کی طرف روانہ ہوکر ملاقات کے لئے آنے کی درخواست کی۔ امامؑ سامرا آئے تو بظاہر کوئی اقدام عمل میں نہیں لایا گیا لیکن متوکل نے آپؑ کے لئے آزار و اذیت اور ہتک حرمت کے تمام ممکنہ اسباب فراہم کئے اور کئی بار قتل اور توہین کی غرض سے آپؑ کو طلب کیا اور اس کے حکم سے آپؑ کے گھر کی تلاشی لی گئی۔[108]
خاندان رسالت کے ساتھ دشمنی میں عباسی خلفاء میں متوکل کی کوئی مثال نہ تھی اور بطور خاص علیؑ کی ساتھ شدید دشمنی برتتا تھا اور آشکارا دشنام طرازی کرتا تھا۔ اس نے ایک نقل اتارنے والے مسخرے کو حکم دیا تھا کہ بزم عیش میں امیرالمؤمنینؑ کا مذاق اڑاتا رہے اور یوں وہ دیکھ کر ہنستا تھا!! اس نے سنہ 237 ہجری میں کربلا میں ضریح امام حسینؑ کو منہدم کیا جائے چنانچہ حرم امام حسینؑ اور اطراف میں بنے ہوئے بے شمار گھروں کو منہدم کرکے زمین کے برابر کردیا گیا! اور حکم دیا کہ حرم امام حسینؑ پر پانی باندھا جائے اور متوکل نے حکم دیا کہ ہموار کی ہوئی زمین میں ہل چلایا جائے تا کہ حرم کا اسم و رسم تک مٹ جائے۔[109]
متوکل کے زمانے میں حجاز میں سکونت پذیر علوی سادات کی زندگی کے حالات افسوسناک حد تک خراب تھے جن کی خواتین کے پاس چہرہ چھپانے کے لئے کوئی ساتر نہیں ہوتا تھا اور اکثر خواتین کے پاس پھٹی پرانی چادر ہوتی تھی جس کو وہ نماز کے وقت باری باری استعمال کرتی تھیں۔ اسی طرح کے مظالم اس نے مصر میں مقیم علوی سادات کے ساتھ بھی روا رکھے۔ دسویں امامؑ متوکل کے تشدد اور آزار و اذیت پر صبر کرتے تھے حتی کہ متوکل چل بسا اور اس کے بعد منتصر، مستعین اور معتر یکے بعد دیگرے بر سر اقتدار آئے اور آپؑ معتز کی سازش کے نتیجے میں مسموم اور شہید ہوئے۔[110]
گیارہویں امام

امام حسن بن علی (عسکری) دسویں امام کے فرزند ہیں جو سنہ 232 ہجری قمری میں پیدا ہوئے اور سنہ 260 ہجری قمری کو (شیعہ روایات کے مطابق) عباسی خلیفہ معتمد کی سازش سے مسموم اور شہید ہوئے۔[111]
گیارہویں امام اپنے والد ماجد کی شہادت کے بعد بامر خدا اور گذشتہ معصوم پیشواؤں کے تعین کے نتیجے میں منصب امامت پر فائز ہوئے اور سات سال کے عرصے تک امام رہے۔ اس عرصے میں آپؑ کو عباسی خلافت کی ناقابل برداشت دباؤ اور نگرانی کے تحت نہایت تقیے کی حالت میں زندگی گذارنا پڑی اور آپ کی روش نہایت محتاطانہ تھی۔ آپؑ کے گھر کا دروازہ عوام ـ یہاں تک کہ شیعیان اہل بیت ـ کے لئے بند رہتا تھا اور صرف خواصّ شیعہ کو ملاقات کی اجازت دیتے تھے۔ بایں وجود آپ اکثر و بیشتر قید میں رہتے تھے اور اس قدر شدید دباؤ کا سبب یہ تھا کہ:
- اولاً: ان زمانوں میں شیعہ کی آبادی اور قوت میں قابل قدر اضافہ ہوا تھا؛ اور سب کو معلوم ہوچکا تھا کہ "شیعہ وہ ہیں جو امامت کے قائل ہیں" ائمۂ شیعہ پہچانے گئے تھے اور معروف و مشہور تھے؛ اسی بنا پر عباسی خلافت نے پہلے سے کہیں زیادہ، ائمہؑ کی نگرانی شروع کررکھی تھی اور ہر ممکنہ روش کو بروئے کار لاکر اسرار آمیز سازشوں کے ذریعے انہیں محو و نابود کرنے کے درپے تھی۔ ثانیا
- ثانیاً: عباسی خلافت جان چکی تھی کہ خواص شیعہ گیارہویں امام کے لئے ایک فرزند کے قائل ہیں اور وہ جو احادیث امامؑ اور آپؑ کے آباء و اجداد سے نقل کرتے ہیں ان کی رو سے آپؑ کے یہ فرزند وہی مہدی موعود(عج) ہیں جن کی خبر شیعہ اور سنی راویوں اور محدثین نے نقل کی ہے اور انہیں امام دوازدہم کہا جاتا ہے۔[112]
چنانچہ گیارہویں امام پر گذشتہ ائمہؑ کی نسبت زیادہ سخت نگرانی کی جاتی تھی اور خلیفۂ وقت نے قطعی فیصلہ کیا تھا کہ داستان امامت کا خاتمہ کردے اور اس گھر کا درواز ہمیشہ کے لئے بند کردے۔ چنانچہ جبب معتمد عباسی کو معلوم ہوا کہ امامؑ بیمار ہیں تو اس نے ایک طبیب آپؑ کے پاس روانہ کیا اور اپنے معتمدین اور قضات (= قاضیوں) میں سے چند افراد کو حکم دیا کہ آپؑ کے گھر کی نگرانی کریں اور گھر کے اندرونی حالات پر نظر رکھیں، اور امامؑ کی شہادت کے بعد گھر کی تلاشی لیں۔ خلیفہ کے گماشتوں نے دائیوں کے توسط سے امامؑ کی کنیزوں کا معائنہ کروایا اور دو سال تک اس کے جاسوس گیارہویں امام کا خلف ڈھونڈنے میں مصروف رہے حتی کہ مکمل طور پر مایوس اور ناامید ہوئے۔[113]
شہادت کے بعد گیارہویں امام کو سامرا میں اپنے گھر کے اندر آپؑ کے والد بزرگوار دسویں امام کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔[114]
بارہویں امام



حضرت مہدی موعود (جو امام عصر، صاحب الزمان [امام زمانہ] کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں) سنہ 256 ہجری کو سامرا میں پیدا ہوئے اور سنہ 260 ہجری میں اپنے والد ماجد کی شہادت تک آپؑ کے زیر تربیت رہے اور لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہتے تھے اور خواص شیعہ میں سے معدودے چند افراد کے سوا کسی کو آپ(عج) کی ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوتا تھا اور والد کی شہادت کے بعد آپ(عج) امامت کے منصب پر فائز ہوئے تو بامر خدا غائب ہوئے اور اپنے نُوّابِ خاص (= نائبین خاص) کے سوا کسی کے سامنے ظاہر نہیں ہوتے تھے سوائے خاص استثنائی حالات کے۔[115]
نوّاب خاص
بارہویں امام نے کچھ عرصے تک عثمان بن سعید عَمری کو ـ جو آپ(عج) کے والد اور جد امجد کے اصحاب میں سے تھے اور ان کے معتمد اور امین تھے ـ نائب خاص قرار دیا اور ان کے توسط سے شیعیان اہل بیت کے سوالات کا جواب دیتے تھے۔ عثمان بن سعید کی وفات کے بعد ان کے بیٹے محمد بن عثمان عَمری امام(عج) کے نائب مقرر ہوئے جن کی وفات کے بعد یہ منصب ابو القاسم حسین بن روح نوبختی کو سونپ دیا گیا۔ حسین بن روح کی وفات کے بعد علی بن محمد سمری ناحیۂ مقدسۂ امام عصر(عج) کے نائب خاص تھے۔[116]
سنہ 329 ہجری میں علی بن محمد سمری کی وفات کو ابھی چند روز باقی تھے کہ ناحیۂ مقدسہ کی جانب سے ایک توقیع صادر ہوئی جس میں علی بن محمد سمری کو ہدایت کی گئی تھی کہ "تم آج سے چھ دن بعد دنیا سے رخصت ہوجاؤگے اور اس کے بعد نیابت خاصہ کا دروازہ بند ہوچکا ہے اور اب غیبت کبری واقع ہوگی اور اس دن تک جاری رہے گی جب خداوند متعال اذن ظہور دے گا۔
چنانچہ اس توقیع کے مطابق بارہویں امام(عج) کی غیبت کے دو مرحلے ہیں:
- غیبت صغری: جس کا آغاز سنہ 260 ہجری اور اختتام سنہ 329 ہجری کو ہوا اور یہ غیبت تقریبا 70 سال تک جاری رہی۔
- غیبت کبری: جو سنہ 329 سے شروع ہوئی اور جب تک خدا چاہے گا جاری رہے گی۔ رسول اللہؐ شیعہ اور سنی کے ہاں متفق علیہ حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں:
آئمہؑ کے بارے میں اہل سنت کی کتابیں
سطور بالا کے علاوہ، اہل سنت کے حلقوں میں بھی ائمہؑ کی شخصیت کا ذکر نہایت عزت و احترام کے ساتھ کیا جاتا تھا اور یہی احترام کبھی ان کے فضائل میں کسی کتاب کی تالیف کے اسباب فراہم کرتا تھا۔
اہل سنت کے ہاں فضائل اہل بیتؑ میں تالیف ہونے والی کتب کی تعداد کم نہیں ہے۔ اس سلسلے میں مؤلفین کے لئے ایک الہام بخش اثر، "ابوالفضل یحیی بن سلامہ حصکفی (متوفٰی سنہ 551 یا 553 ہجری) کا قصیدہ ہے جس میں تمام ائمۂ طاہرین کے نام لے کر ان کی مدح کی گئی ہے۔[118]۔[119]
علمائے اہل سنت کے توسط سے بارہ اماموں کے فضائل میں لکھی جانی والی کتابوں کے بعض نمونے درج ذیل ہیں:
- مطالب السؤول فی مناقب آل الرسول، تالیف: کمال الدین ابن طلحہ شافعی (متوفٰی 562 ھ)، مطبوعہ نجف، دارالکتب التجاریہ؛
- تذکرۃ خواص الامۃ فی خصائص الائمۃ، تالیف: حنفی عالمی دین یوسف بن قزاوغلی، سبط ابن جوزی (متوفٰی 654 ہجری)، اشاعت مکرر، منجملہ نجف، 1369 ہجری قمری؛
- الفصول المہمۃ فی معرفۃ الائمہ، تالیف: ابن صباغ مالکی (متوفٰی 855 ہجری) جو بارہا، منجملہ نجف میں، دار الکتب التجاریہ کے توسط سے زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہے۔ اور اس کے متعدد اور مختلف النوع اور کثیر نسخے عالم اسلام کے قلمی کتب خانوں میں محفوظ ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کتاب مختلف صدیوں میں رائج اور دستیاب رہی ہے۔ [120]. ابن صباغ نے اپنی اس کاوش میں شیعہ کتب منجملہ شیخ مفید کی کتاب الارشاد سے بکثرت اقتباسات لئے ہیں۔ (ص 192، 213، جم)؛
- الشذرات الذہبیہ یا الائمۃ الاثنا عشر، تالیف: حنفی دمشقی عالم شمس الدین ابن طولون، (متوفٰی 953 ھ)، ط بیروت، 1958 عیسوی، باہتمام صلاح الدین المنجد؛
- الاتحاف بحب الاشراف، تالیف: مصر کے شافعی عالم عبداللہ بن عامر شبراوی، (متوفٰی 1172 ہجری)، ط قاہرہ، 1313 ہجری قمری؛
- نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار، تالیف: سید مؤمن شبلنجی (متوفٰی بعد از 1290 ہجری)، طبع مکرر منجملہ قاہرہ میں، سنہ 1346 ہجری؛
- ینابیع المودۃ، تالیف: حنفی عالم سلیمان بن ابراہیم قندوزی، (متوفٰی 1294 ہجری)، ط استنبول، 1302 ہجری۔[121]
مقام امامت کی اہمیت
الف: شریعت کے تحفظ کی ضرورت:
ہر معاشرے کو ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جس کی بات اور روش حجت قاطع اور میزان حق و باطل ہو، تا کہ اس معاشرے کے دین کے محتوا اور مندرجات و مضامین میں کوئی اختلاف نمودار ہونے کی صورت میں اختلاف حل ہو دین انحراف سے محفوظ رہے۔ دین اسلام میں بھی پیغمبرؐ کے بعد ایسے افراد کی ضرورت ہے ورنہ دین کے بارے میں لوگوں کے مختلف النوع تصورات اور نظریات کا ظہور دین کی منزلت کو مخدوش کرے گا۔ امام رضاؑ فرماتے ہیں:
" ... اگر خداوند متعال ایک استوار، امین اور (دین اور اسرار خداوندی کا) حافظ و پاسدار امام لوگوں کے لئے مقرر نہ کرے تو یقینی طور پر شریعت پوسیدگی اور فرسودگی کا شکار ہو جائے گی اور دین نیست و نابود ہوگا اور سنت نبوی اور احکام الہی میں تبدیلیاں آئیں گی، بدعت گذار اس میں اضافات کریں گے اور ملحدین اس میں سے کم کریں گے، اور صورت حال مسلمانوں کے لئے مشکوک ہوگی۔[122]
ب) معاشرے کو الہی راہنماؤں کی ضرورت:
انسان کی بہت سی ضروریات معاشرے کی تشکیل اور عمومی تعاون کے بغیر پوری نہیں ہوتیں اور ایک صالح معاشرہ الہی قوانین کے نفاذ کے بغیر تشکیل نہیں پاتا اور ان قوانین کے نفاذ کے لئے ایسے شخص کی ضرورت ہے جو اولا عالم ہو اور اپنے علم پر عمل کرتا ہو اور لغزش و خطا سے محفوظ ہو تا کہ قانون کا من و عن نفاذ کرے اور ہر صاحب حق کا حق ادا کرے ورنہ تو انسان کے وجود میں کمال تک پہنچنے کے لئے رکھی ہوئی قوتیں ظہور تک نہیں پہنچیں گی اور یہ لازم آئے گا کہ ان قوانین کا خداوند متعال کی صرف سے وضع ہونا ہی مہمل تھا جبکہ وہ حکیم ہے اور مہمل کام کا صدور اس کی ذات کے لئے محال ہے۔
ج) دین کی تفسیر و تشریح کی ضرورت:
انبیاء کا فریضہ ہے کہ سابقہ اقوام سے باقیماندہ انحرافات کا مقابلہ کریں نیز سابقہ شریعت کی تکمیل اور شرائع کے ارتقائی سفر میں اپنا کردار ادا کریں جبکہ اوصیاء میں سے ہر ایک کا فریضہ ہے کہ اس شریعت کی تشریح کرے، اس کا نفاذ کرے اور اس کی تطبیق کا کام سرانجام دے جس کے کلی اور اجمالی اصول اس کے پیغمبر نے لوگوں کے لئے بیان کئے ہیں چنانچہ ہر اولو العزم پیغمبر نے اوصیاء اور الہی حجتوں کو اپنے بعد چھوڑا ہے تاکہ وہ اس کی شریعت کو وسعت دیں اور وسیع سطح پر اس کو نافذ کریں۔
د) تکوینی ہدایت: قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہو رہا ہے
- :وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاء الزَّكَاةِ وَكَانُوا لَنَا عَابِدِينَ۔؛
ترجمہ: اور ہم نے انہیں امام بنایا جو ہمارے حکم کے مطابق ہدایت کرتے ہیں اور ان کی جانب وحی بھیجی نیک کاموں کے کرنے اور نماز ادا کرنے اور زکوٰة دینے کی اور وہ صرف ہماری عبادت کرتے تھے۔[123]۔[124]
علامہ طباطبائی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: یہ ہدایت جو خداوند متعال نے امامت کے فرائض میں قرار دی ہے، ہدایت بمعنی راہنمائی (راہ دکھانا) نہیں ہے، کیونکہ خداوند متعال نے ابراہیمؑ کو نبوت کا عہدہ عطا کرنے کے برسوں بعد، عہدہ امامت عطا کیا؛ واضح ہے کہ نبوت منصب ہدایت ـ بمعنی راہنمائی ـ کے لحاظ سے امامت سے جدا نہیں ہے۔ پس ہدایت ـ جو منصب امامت ہے ـ کے معنی مقصود تک پہنچانے (ایصال الی المطلوب) کے سوا کچھ نہیں ہو سکتے؛ اور یہ معنی در حقیقت نفوس میں ایک قسم کا تکوینی تصرف ہے؛ اور امام اس تصرف کے ذریعے دلوں کو کمال کی طرف راغب کرتا ہے اور انہیں نچلے مرحلے سے اعلی مراحل تک پہنچانے کے لئے راستہ ہموار کرتا ہے۔ اور چونکہ یہ تصرف تکوینی اور یہ عمل باطنی عمل ہے چنانچہ لازما وہ امر بھی تکوینی ہے ـ نہ کہ تشریعی ـ جس کے ذریعے یہ ہدایت انجام پاتی ہے ... اور یہ وہی حقیقت ہے جس کی تفسیر ذیل کی آیات کریمہ سے ہوتی ہے: إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئاً أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ ٭ فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ۔؛
ترجمہ: اس کی بات تو بس یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کو چاہتا ہے، کہہ دیتا ہے ہو جا اور فوراً ہی وہ ہو جاتی ہے ٭ تو پاک ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا اقتدار ہے۔[125]
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ خدا کے حکم کے مطابق ہدایت معنوی فیوضات اور باطنی مراتب و مقامات میں سے ہے اور مؤمنین عمل صالح کے واسطے سے اس کی طرف راہنمائی پاتے ہیں اور اپنے پرودگار کی رحمت کے لباس سے ملبس ہو جاتے ہیں، اور یہ رحمت اس سے دوسرے لوگوں تک پھیل جاتی ہے، اور لوگ اپنے ذاتی استعداد کے مطابق اس سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ یہاں سے سمجھا جا سکتا ہے کہ امام لوگوں اور ان کے پروردگار کے درمیان واسطے اور رابط کا کام انجام دیتا ہے اور لوگ اس کے واسطے سے اللہ کے ظاہری اور باطنی فیوضات سے مستفیض ہوتے ہیں اور فیوضات الہی درحقیقت وہی شرائع الہیہ ہیں جو وحی کے ذریعے اترتے اور پیغمبر کے ذریعے دوسرے انسانوں تک فروغ پاتے ہیں۔ نیز ہم سمجھ لیتے ہیں کہ امام وہ ہادی اور راہنما ہے جو نفوس کی ان کے مراتب کی طرف راستے کی طرف راہنمائی کرتا ہے جس طرح کہ پیغمبر وہ ہادی اور راہنما ہے جو لوگوں کو صحیح اور حقیقی عقائد اور اعمال صالح کی طرف راہنمائی فراہم کرتا ہے، البتہ بعض اولیائے الہی صرف پیغمبر ہیں اور بعض دونوں مناصب کے عہدیدار ہیں جیسے حضرت ابراہیمؑ کے دونوں بیٹے۔ (اسماعیل اور اسحق علیہما السلام)۔[126]
حوالہ جات
- ↑ محمدی، شرح کشف المراد، ۱۳۷۸ش، ص۴۰۳؛ موسوی زنجانی، عقائد الامامیة الاثنی عشریة، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۱۷۸.
- ↑ محمدی، شرح کشف المراد، ۱۳۷۸ش، ص۴۲۵؛ موسوی زنجانی، عقائد الامامیۃ الاثنی عشریۃ، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۱۸۱و۱۸۲.
- ↑ ملاحظہ کریں: مکارم شیرازی، پیام قرآن، ۱۳۸۶ش، ج۹، ص۱۷۰و۱۷۱ و ۳۶۹و۳۷۰.
- ↑ :ملاحظہ کریں: حکیم، الامامۃ و اہل البیت، ۱۴۲۴ق، ص۳۰۵-۳۳۸.
- ↑ سبحانی، منشور عقاید امامیه، ۱۳۷۶ش، ص۱۶۵و۱۶۶.
- ↑ ملاحظہ ہو: علامہ حلی، كشف المراد، ۱۳۸۲ش، ص۱۸۴؛ فیاض لاہیجی، سرمايہ ايمان در اصول اعتقادات، ۱۳۷۲ش، ص۱۱۴و۱۱۵.
- ↑ ملاحظہ ہو: صدوق، الاعتقادات، ۱۴۱۴ق، ص۹۳؛ مفید، اوائل المقالات، ۱۴۱۳ق، ص۷۰ و ۷۱؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۲۶، ص۲۹۷؛ شبر، حق الیقین، ۱۴۲۴ق، ص۱۴۹.
- ↑ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۶، ص۲۹۷؛ شبر، حق الیقین، ۱۴۲۴ق، ص۱۴۹.
- ↑ ملاحظہ ہو: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۵۵و۲۵۶ و ۲۶۰و۲۶۱؛ سبحانی، علم غیب، ۱۳۸۶ش، ص۶۳-۷۹.
- ↑ حمود، الفوائدالبہیۃ، ۱۴۲۱ق، ج۲، ص۱۱۷و۱۱۹.
- ↑ خویی، مصباح الفقاہۃ، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۳۸؛ صافی گلپایگانی، ولایت تکوینی و ولایت تشریعی، ۱۳۹۲ش، ص۱۳۳، ۱۳۵ و۱۴۱.
- ↑ ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۶۵-۲۶۸؛ صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ق، ص۳۸۳-۳۸۷.
- ↑ ملاحظہ کریں: عاملی، الولایۃ التکوینیۃ والتشریعیۃ، ۱۴۲۸ق، ص۶۰-۶۳؛ مؤمن، «ولایة ولی المعصوم(ع)»، ص۱۰۰-۱۱۸؛ حسینی، میلانی، اثبات الولایة العامة، ۱۴۳۸ق، ص۲۷۲ و ۲۷۳، ۳۱۱و۳۱۲.
- ↑ طوسی، التبیان، داراحیاءالتراث العربی، ج۱، ص۲۱۴.
- ↑ صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ق، ص۴۱۲-۴۱۴.
- ↑ صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ق، ص۲۹۷، ح۴.
- ↑ ملاحظہ ہو: سبحانی، سیمای عقاید شیعه، ۱۳۸۶ش، ص۲۳۱-۲۳۵؛ سبحانی، منشور عقاید امامیہ، ۱۳۷۶ش، ص۱۵۷و۱۵۸؛ موسوی زنجانی، عقائد الامامیۃ الاثنی عشریۃ، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۱۸۰و۱۸۱.
- ↑ سبحانی، منشور عقاید امامیه، ۱۳۷۶ش، ص۱۴۹و۱۵۰.
- ↑ طوسی، التبیان، داراحیاءالتراث العربی، ج۳، ص۲۳۶؛ محمدی شرح کشف المراد، ۱۳۷۸ش، ص۴۱۵.
- ↑ مراجعہ کریں: صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۵۲۸؛ طبرسی، إعلام الوری،۱۳۹۰ق، ص۳۶۷؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ۱۳۷۹ ق، ج۲، ص۲۰۹؛ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۷، ص۲۰۹و۲۱۶۔
- ↑ مراجعہ کریں: مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۷، ص۲۰۷-۲۱۷.
- ↑ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۵۸۵؛ طبرسی، إعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۶۷۔
- ↑ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۶۷؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ۱۳۷۹ ق، ج۲، ص۲۰۹۔
- ↑ ملاحظہ کریں: حکیم، الامامة و اهل البیت، ۱۴۲۴ق، ص۳۰۵-۳۵۱؛ محمدی، شرح کشف المراد، ۱۳۷۸ش، ۴۹۵ و ۴۹۶.
- ↑ سورہ نساء، آیہ ۵۹۔
- ↑ خزاز رازی، کفایه الاثر، ۱۴۰۱ق، ص۵۳-۵۵؛ صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۲۵۴-۲۵۳۔
- ↑ ملاحظہ کریں:بخاری، صحیح بخاری، ۱۴۰۱ق، ج۸، ص۱۲۷؛ مسلم نيشابوری، صحیح مسلم، دارالفکر، ج۶، ص۳و۴؛ أحمد بن حنبل، مسند احمد، دارصادر، ج۵، ص۹۰، ۹۳، ۹۸، ۹۹، ۱۰۰ و۱۰۶؛ ترمذی، سنن ترمذی، ۱۴۰۳ق، ج۳، ص۳۴۰؛ سجستانی، سنن ابی داود، ۱۴۱۰ق، ج۲، ص۳۰۹.
- ↑ ملاحظہ کریں: حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۳۳۴ق، ج۴، ص۵۰۱؛ نعمانی، کتاب الغیبه، ۱۴۰۳ق، ۷۴- ۷۵.
- ↑ قندوزی، ینابیع المودة لذوی القربى، دارالاسوة، ج۳، ص۲۹۲و۲۹۳.
- ↑ ملاحظہ کریں: محمدی، شرح کشف المراد، ۱۳۷۸ش، ص۴۲۷-۴۴۱؛ موسوی زنجانی، عقائد الامامیة الاثنی عشریة، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۷و۸.
- ↑ ملاحظہ کریں: محمدی، شرح کشف المراد، ۱۳۷۸ش، ص۴۲۷-۴۴۱؛ موسوی زنجانی، عقائد الامامیة الاثنی عشریة، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۷-۱۵.
- ↑ محمدی، شرح کشف المراد، ۱۳۷۸ش، ص۴۹۵؛ موسوی زنجانی، عقائد الامامیة الاثنی عشریة، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۱۷۹و۱۸۰.
- ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۵؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۱۵۳۔
- ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۶۔
- ↑ طباطبایی، شیعہ در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۰۰۔
- ↑ محمدی، شرح کشف المراد، ۱۳۷۸ش، ص۴۲۷-۴۳۶۔
- ↑ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۱۳۸و۱۳۹۔
- ↑ طباطبایی، شیعہ در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۰۱۔
- ↑ طباطبایی، شیعہ در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۰۱-۲۰۲۔
- ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۹؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۱۵۴۔
- ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۲۹-۶۶؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۱۸۲؛ حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۲۱-۳۱۔
- ↑ قندوزی، ینابیع المودۃ، دارالاسوۃ، ج۱، ص۳۳۷۔
- ↑ حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۶۳-۷۱۔
- ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۵؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۰۵.
- ↑ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۰۵؛ طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۰۵.
- ↑ طباطبائی، شیعه در اسلام، صص205-206۔
- ↑ طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۰۶.
- ↑ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۰۶.
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۸۷؛ حاکم حسکانی، شواهد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۳۸ و۵۲-۵۵.
- ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳، ج۱، ص۱۶۸.
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۸۷؛ حاکم حسکانی، شواهد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۲۹-۱۳۹.
- ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۷.
- ↑ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۱۵.
- ↑ طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۰۸.
- ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۳۲؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۲۲.
- ↑ موسوی زنجانی، عقائد الامامیة الاثنی عشریة، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۱۴۸و۱۴۹.
- ↑ طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۰۹و۲۱۰.
- ↑ موسوی زنجانی، عقائد الامامیة الاثنی عشریة، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۱۵۰.
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۸۷؛ حاکم حسکانی، شواهد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۳۸ و۵۲-۵۵.
- ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳، ج۱، ص۱۶۸.
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۸۷؛ حاکم حسکانی، شواهد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۲۹-۱۳۹.
- ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۳۷؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۵۶؛ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابیطالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۱۷۵و۱۷۶.
- ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۱۴.
- ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۱۹.
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۵، ص۱۳۸و۱۳۹.
- ↑ طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۱۶.
- ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۳۸؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۵۶؛ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابیطالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۱۷۵.
- ↑ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۵۶؛ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۳۷و۱۳۸.
- ↑ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابیطالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۱۷۶.
- ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۳۸؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۵۶؛ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابیطالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۱۷۶.
- ↑ آقابزرگ تهرانی، الذریعه، ۱۴۰۳ق، ج۱۵، ص۱۸-۱۹.
- ↑ عمادی حائری، «صحیفه سجادیه»، ص۳۹۲.
- ↑ سبحانی، فرهنگ عقاید و مذاهب اسلامی، ۱۳۹۵ش، ج۶، ص۴۰۶.
- ↑ پیشوایی، سیره پیشوایان، ۱۳۹۷ش، ص۲۸۱.
- ↑ سبحانی، فرهنگ عقاید و مذاهب اسلامی، ۱۳۹۵ش، ج۶، ص۴۰۶.
- ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۵۵.
- ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۵۷ و ۱۵۸؛ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابیطالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۲۱۰.
- ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۵۸و۱۵۹.
- ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۵۷ و ۱۵۸؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۶۴.
- ↑ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابیطالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۲۱۰.
- ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۵۷ و ۱۵۸؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۶۴.
- ↑ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۳۲۰.
- ↑ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۶۵؛ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابیطالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۲۱۰.
- ↑ طباطبائی، شیعہ در اسلام، ص217۔
- ↑ طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۱۷-۲۱۸.
- ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۵۷.
- ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۷۹و۱۸۰؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۷۱.
- ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۸۰؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۷۱.
- ↑ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابیطالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۲۸۰؛ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۳۲۶.
- ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۸۰؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۷۲.
- ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۸۰؛ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابیطالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۲۸۰.
- ↑ طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۱۸و۲۱۹.
- ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۷۹؛ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابیطالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۲۴۷.
- ↑ طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۱۹.
- ↑ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابیطالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۲۴۷و۲۴۸؛ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۳۲۷-۳۲۹.
- ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۷۹.
- ↑ شهیدی، زندگانی امام صادق، ۱۳۷۷ش، ص۶۱.
- ↑ طباطبائی، وہی ماخذ، ص221۔
- ↑ طباطبائی، وہی ماخذ، ص221۔
- ↑ طباطبائی، وہی ماخذ، ص222۔
- ↑ طباطبائی، وہی ماخذ، ص222۔
- ↑ طباطبائی، وہی ماخذ، ص222-223۔
- ↑ طباطبائی، وہی ماخذ، ص223۔
- ↑ طباطبائی، وہی ماخذ، صص 224-225۔
- ↑ طباطبائی، وہی ماخذ، ص225۔
- ↑ طباطبائی، شیعہ در اسلام، صص225-226۔
- ↑ طباطبائی، وہی ماخذ، ص226۔
- ↑ طباطبائی، وہی ماخذ، ص226۔
- ↑ طباطبائی، وہی ماخذ، صص226-227۔
- ↑ طباطبائی، وہی ماخذ، ص227۔
- ↑ طباطبائی، وہی ماخذ، صص 227-228۔
- ↑ طباطبائی، وہی ماخذ، ص228۔
- ↑ طباطبائی، وہی ماخذ، ص229۔
- ↑ طباطبائی، وہی ماخذ، ص229۔
- ↑ طباطبائی، وہی ماخذ، ص230۔
- ↑ طباطبائی، وہی ماخذ، صص230-231۔
- ↑ طباطبائی، وہی ماخذ، ص231۔
- ↑ دیکھیں: سبط ابن جوزی، تذکرة خواص الامة فی خصائص الائمة، 365- 367۔
- ↑ ابن طولون، الشذرات الذهبیه یا الائمه الاثنا عشر، 40-43۔
- ↑ طباطبایی، اهل البیتؑ فی المکتبة العربیة، شمارہ 17، ص109-113۔
- ↑ دیگر آثار و تالیفات کے لئے رجوع کریں: طباطبایی، اهل البیتؑ فی المکتبة العربیة، شمارہ 2، ص52، شمارہ 4، ص100، 101، شمارہ 17، ص100۔
- ↑ ابن بابویہ، عیون اخبار الرضا، ج2،ص100، مجلسی، بحار الانوار، ج23، ص32۔... و يمنع ظالمهم من مظلومهم، و منها أنه لو لم يجعل لهم إماما قيما أمينا حافظا مستودعا لدرست الملة، و ذهب الدين و غيرت السنة والاحكام، ولزاد فيه المبتدعون، و نقص منه الملحدون، و شبهوا ذلك على المسلمين...۔
- ↑ سورہ انبیاء، آیت 73۔
- ↑ نیز دیکھئے:وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ۔
ترجمہ: اور ان میں سے ہم نے کچھ پیشوا قرار دیئے جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے ہیں جب کہ انہوں نے صبر سے کام لیا اور وہ ہماری آیتوں پر یقین کرتے تھے۔ سورہ انبیاء، آیت 24۔ - ↑ سورہ یس، آیات 82 و 83۔
- ↑ طباطائی، تفسیر المیزان، ج14، ص430۔
مآخذ
- قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی۔
- نہج البلاغہ، ترجمہ سید جعفر شهیدی، تهران: علمی و فرهنگی، 1377 ہجری شمسی۔
- سید محمد حسین طباطبائی، شیعہ در اسلام، قم: دفتر انتشارات اسلامی، 1383 ہجری شمسی۔
- ابن بابویہ، محمد، الخصال، بہ کوشش علی اکبر غفاری، قم، 1403 ہجری قمری۔
- وہی مؤلف، عیون اخبار الرضاؑ، منشورات موسسة الاعلمي للمطبوعات بيروت، 1404 ہجری قمری۔
- ابن صباغ مالکی، علی، الفصول المهمہ، نجف، دار الکتب التجاریہ.
- ابن طولون، محمد، الائمہ الاثنا عشر، بہ کوشش صلاح الدین منجد، بیروت، 1958 عیسوی۔
- ابن عیاش جوهری، احمد، مقتضب الاثر، قم، 1379 ہجری قمری۔
- ابن یمین فریومدی، دیوان اشعار، تصحیح: حسین علی باستانی راد، بیجا: انتشارات کتابخانه سنائی، 1344 ہجری شمسی۔
- ابو داؤد سجستانی، سلیمان، سنن، بہ کوشش محمد محیی الدین عبد الحمید، قاهره، دار احیاء السنہ النبویہ۔
- احمد بن حنبل، مسند، قاهره، 1313 ہجری قمری۔
- امین العاملی، سید محسن، أعيان الشيعہ۔
- بخاری، محمد، صحیح، استانبول، 1315 ہجری قمری۔
- ترمذی، محمد، سنن، بہ کوشش احمد محمد شاکر و دیگران، قاهره، 1357 ہجری قمری/1938 عیسوی۔
- حاکم نیشابوری، محمد، المستدرک علی الصحیحین، حیدرآباد دکن، 1334 ہجری قمری۔
- خزاز قمی، علی، کفایہ الاثر، قم، 1401 ہجری قمری۔
- سبط ابن جوزی، یوسف، تذکره الخواص، نجف، 1383 ہجری قمری/1964 عیسوی۔
- سید مرتضی، علی، الذخیره، بہ کوشش احمد حسینی، قم، 1411 ہجری قمری۔
- طباطبایی، عبدالعزیز، «اهل البیتؑ فی المکتبہ العربیہ»، تراثنا، قم، 1405 ہجری قمری۔
- علامہ حلی، حسن، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، قم، مکتبہ المصطفوی.
- کتاب سلیم بن قیس، بہ کوشش علوی حسنی نجفی، بیروت، 1400 ہجری قمری/1980 عیسوی۔
- کلینی رازی، محمد بن یعقوب، الناشر دار الكتب الاسلاميہ، تهران - بازار سلطاني، الجزء الاول الطبعہ الثالثہ 1388 ہجری قمری۔
- مسلم بن حجاج نیشابوری، صحیح، بہ کوشش محمد فؤاد عبد الباقی، قاهره، 1955 عیسوی۔
- نجاشی، احمد، الرجال، بہ کوشش موسی شبیری زنجانی، قم، 1407 ہجری قمری۔
- نعمانی، محمد، الغیبہ، بیروت، 1403 ہجری قمری/1983 عیسوی۔