بچپنے میں امامت

ویکی شیعہ سے
شیعہ عقائد
‌خداشناسی
توحیدتوحید ذاتیتوحید صفاتیتوحید افعالیتوحید عبادیصفات ذات و صفات فعل
فروعتوسلشفاعتتبرک
عدل (افعال الہی)
حُسن و قُبحبداءامر بین الامرین
نبوت
خاتمیتپیامبر اسلام اعجازعدم تحریف قرآن
امامت
اعتقاداتعصمت ولایت تكوینیعلم غیبخلیفۃ اللہ غیبتمہدویتانتظار فرجظہور رجعت
ائمہ معصومینؑ
معاد
برزخمعاد جسمانی حشرصراطتطایر کتبمیزان
اہم موضوعات
اہل بیت چودہ معصومینتقیہ مرجعیت


بچپنے میں امامت کا مطلب اس شخص کی امامت ہے جو ابھی شرعی اعتبار سے بالغ نہیں ہوا ہے۔ شیعہ عقیدے کے مطابق شیعہ اماموں میں سے امام جوادؑ، امام ہادیؑ اور امام مہدیؑ 5 سے 8 سال کی عمر میں امامت پر فائز ہوئے ہیں۔ امامیہ، امامت کو الہی منصب سمجھتے ہیں جس میں بلوغت شرط نہیں ہے۔

شیعہ اپنے مخالفوں کے جواب میں اپنے عقیدے کو قرآنی آیات سے مستند کرتے ہیں جن میں حضرت یحییؑ اور حضرت عیسیؑ کے بچپنے میں نبوت پر فائز ہونے کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ شیعوں کے اس عقیدے کو ثابت کرنے اور مخالفوں کو جواب دینے کے لئے بعض کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔

امامیہ عقیدے میں اس کی اہمیت

بچپنے کی امامت شیعہ عقائد میں امامت سے مربوط ایک عقیدہ ہے جس پر علم کلام کی کتابوں میں بحث ہوتی ہے۔[1] یہ بحث شیعہ ائمہ میں سے بعض اماموں (امام جوادؑ، امام ہادیؑ اور امام مہدی(عج)) کی امامت کے بارے میں مخالفوں کی طرف سے کئے جانے والے اعتراضات کے جواب میں ہوتی ہے کہ جو 5 سے 8 سال کی عمر میں امامت پر فائز ہوئے ہیں۔[2] اسی وجہ سے امام محمد تقیؑ کی امامت کے بارے میں بعض شیعوں نے بھی شک و تردید کا مظاہرہ کیا کیونکہ اس دوران تک امامت کے لئے بلوغت شرط ہونا رائج تھا۔[3]

اہل سنت علما کے مطابق امامت کی اصلی شروط میں سے ایک بلوغ ہے۔[4] لیکن شیعہ علما، امامت کو الہی منصب سمجھتے ہیں اور جس شخص میں شرائط موجود ہو اللہ اسے عطا کرتا ہے۔[5] وہ لوگ امامت کے لئے عصمت، افضلیت اور نص کو شرط جانتے ہیں۔[6] امامت کے لئے بلوغت شرط نہ ہونے کے عقیدے پر امامیہ کے مخالفین کی طرف سے بعض اشکالات بیان ہوئے ہیں اور شیعہ متکلمین کی طرف سے ان کا جواب[7] بھی دیا گیا ہے۔

ابن تیمیہ (وفات:728ق)، ابن‌حجر ہیتمی (وفات:974ق) اور احمد الکاتب ان افراد میں سے ہیں جنہوں نے بچپنے کی امامت پر اشکال کیا ہے۔ یتیم بچے کا کسی کی کفالت میں ہونا،[8] اس کا محجور ہونا،[9] بچے کو ولایت کا حق نہ ہونا،[10] بچے کا مکلف نہ ہونا[11] اور سیکھنے کے مواقع فراہم نہ ہونا [12] ان دلائل میں سے ہیں جو بچے کی امامت غیر معقول ہونے پر قائم ہوئی ہیں۔

بچپنے میں امامت پر فائز ہونے والے ائمہؑ

  • امام جوادؑ: آپؑ اس وقت امامت پر فائز ہوئے جب آپ کی عمر تقریباً آٹھ سال تھی۔[13] حسن بن موسی نوبختی (وفات:310ھ) کے مطابق امام رضاؑ کی شہادت کے وقت امام محمد تقیؑ کی کمسنی کے سبب شیعہ حیران ہوئے؛[14] اور شیعوں میں سے بعض نے ان کی امامت کو قبول نہیں کیا۔[15]
  • امام ہادیؑ: آپ آٹھ سال کی عمر میں منصبِ امامت پر فائز ہوئے۔[16] ایک عراقی مورخ جاسم حسین کے مطابق امام جواد علیہ السلام کی امامت کے دوران بچپن میں امامت پر فائز ہونے کا مسئلہ حل ہو گیا تھا اسی لئے شیعوں کے لیے امام ہادیؑ کی امامت کا مسئلہ کسی پریشانی کے بغیر قبول کیا گیا۔[17]
  • امام مہدی (عج): آپ پانچ سال کی عمر میں امامت پر فائز ہوئے۔پہنچے۔[18] کہا جاتا ہے کہ امام جواد علیہ السلام اور امام ہادی علیہ السلام بچپن میں امامت کے منصب پر فائز ہونے کو امام مہدی علیہ السلام کی طفولیت میں امامت قبول کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیاری کی دلیل قرار دے سکتے ہیں۔[19]

بچپنے کی امامت پر شیعوں کا استدلال

علمائے امامیہ نے تصریح کی ہے کہ عقل کا کمال جسمانی بلوغ پر منحصر نہیں ہے اور اگر کسی شخص کی امامت قطعی دلیل کے ساتھ ثابت ہو تو اس کی عصمت اور علم الہی بھی ثابت ہوتی ہے اور اس مسئلہ پر امام کی عمر کا کوئی اثر نہیں ہے۔ نیز شریعت نے بچپن کے لیے مختلف امور میں جو پابندیاں عائد کی ہیں ان کا تعلق عام لوگوں سے ہے جو زندگی کے گزرنے کے ساتھ ساتھ فکری اور علمی ترقی کو پہنچتے ہیں اور یہ محدودیتیں امام معصوم کے لئے نہیں ہیں کیونکہ ان کے پاس علم لَدُنّی ہے۔[20]

بچپن میں امام کی علمی صلاحیت

شیخ مفید کی روایت کے مطابق جب امام جواد نے یحییٰ ابن اکثم کے ساتھ ہونے والے مناظرے میں یحییٰ کے سوال کا اس طرح جواب دیا کہ حاضرین حیران رہ گئے؛؛[21] تو مأمون نے اپنے اردگرد موجود لوگوں سے کہا کہ امام جوادؑ کا بچہ اور کم عمر ہونا ان کی علم و حکمت کی کمی دلیل نہیں ہے۔[22]

شیخ مفید (متوفی: 413 ھ) کے مطابق، حسنینؑ کا نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ میں ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ایک شخص بچپن میں ہی عظیم الہی ذمہ داریاں نبھا سکتا ہے۔[23] اسی طرح حضرت علیؑ کا بچپن میں پیغمبر اکرمؐ پر ایمان لانا[24] یہ ظاہر کرتا ہے کہ بچہ بھی اعلیٰ فہم اور عقل کا مالک ہوسکتا ہے۔[25]

حضرت سلیمان، یحییٰ اور عیسیٰ کے بچپنے کی نبوت سے استناد

بچپن میں امامت کو ثابت کرنے کے لیے بعض انبیاء کی ان کے بچپن کی نبوت کا حوالہ دیا گیا ہے۔[26] فخر رازی کے مطابق سورہ مریم کی آیت نمبر 12 میں حکم سے مراد نبوت ہے جسے اللہ تعالی نے حضرت یحیی اور حضرت عیسی کو بچپنے میں عطا کیا ہے۔[27] اس طرح شیعہ متکلم جعفر سبحانی کے مطابق سورہ مریم کی آیت نمبر 30، جس میں عیسیٰ علیہ السلام کا بچپن میں بات کرنے کو بیان کیا گیا ہے، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے اگر خدا چاہے تو وہ بچے میں امامت کے لیے علم، عقل اور ضروری تدبیر عطا کرسکتا ہے۔[28]

جیسا کہ روایت کیا گیا ہے کہ امام رضا علیہ السلام نے جب اپنے بیٹے حضرت جوادؑ کو امام کے طور پر متعارف کرایا تو اس وقت وہ تین سال کے تھے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کم عمری میں امام بننے کو ممکن قرار دیا ہے۔[29] یا امام جوادؑ نے ایک روایت میں حضرت سلیمان کو بچپن میں حضرت داوود کے جانشین بننے سے استشہاد کرتے ہوئے اس بات کو ممکن سمجھا ہے۔[30]

یوم الدار میں رسول اللہؐ کے عمل سے استناد

شیعہ متکلم شیخ مفید کے مطابق، یوم الدار کی حدیث میں پیغمبر اکرمؐ کے عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر خدا چاہے تو نابالغ بچے کو اپنا حجت بنا سکتا ہے۔[31] شیعہ سنی سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول اللہؐ نے یوم الدار میں امام علیؑ جو کہ ابھی نابالغ تھے کو اپنا وصی اور جانشین معین کیا۔[32]

مونوگراف

کتاب امامت در سنین کودکی، بقلم علی اصغر رضوانی

بچپن میں امامت کے حوالے سے بہت ساری کتابیں لکھی گئی ہیں:

  • علی اصغر رضوانی کی لکھی گئی کتاب "امامت در سنین کودکی" (بچپن میں امامت) میں 48 صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب سنہ 2005ء میں انتشارات مسجد جمکران نے شائع کیا ہے۔[33]
  • محمد بامری کی لکھی گئی کتاب "ستارگان ہدایت: امامت در کودکی" (ستارگان ہدایت: بچپن میں امامت) جو 176 صفحات پر مشتمل ہے اور سنہ 1391 شمسی میں اسے امام پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے۔[34]
  • کتاب امامت بچپن میں: "بچپن میں امامت کا تجزیاتی نقطہ نظر"، ہادی ترکمانی کی سنہ 1402ء میں 166 صفحات پر لکھی گئی، داعی پبلی کیشنز نے شائع کی۔[35]

حوالہ جات

  1. ملاحظہ کریں: شیخ مفید، الفصول المختارۃ، 1413قن، ص149-153۔
  2. ملاحظہ کریں شیخ مفید، الفصول المختارۃ، 1413ق، ص149-153؛ سبحانی، «امامت در کودکی؟»، ص46۔
  3. نوبختی، فرق الشیعۃ، 1404ھ، ص88۔
  4. عضدالدین ایجی، شرح المواقف، نشر الشریف الرضی، ج8، ص350؛ تفتازانی، شرح المقاصد، 1412ق، ج5، ص244۔
  5. مطہری، امامت و رہبری، 1390ش، ص131۔
  6. علامہ حلی، کشف المراد، 1437ق، ص492-495۔
  7. ملاحظہ کریں شیخ مفید، الفصول المختارۃ، 1413ق، ص149-153۔
  8. ابن‌تیمیہ حرَانی، منہاج السنۃ النبویۃ، 1406ق، ج4، ص89۔
  9. ابن‌تیمیہ حرَانی، منہاج السنۃ النبویۃ، 1406ق، ج4، ص89؛ الکاتب، تطور الفکر السیاسی الشیعی، 1998م، ص103۔
  10. ابن‌حجر ہیتمی، الصواعق المحرقۃ، 1417ق، ج2، ص483۔
  11. الکاتب، تطور الفکر السیاسی الشیعی، 1998م، ص103۔
  12. الکاتب، تطور الفکر السیاسی الشیعی، 1998م، ص103۔
  13. نوبختی، فرق الشیعہ، 1404ق، ص88۔
  14. نوبختی، فرق الشیعہ، 1404ق، ص88۔
  15. نوبختی، فرق الشیعہ، 1404ق، ص77-78۔
  16. قمی، منتہى الآمال، 1379ش، ج3، ص 1878۔
  17. حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم، 1385ش، ص81۔
  18. شیخ مفید، الإرشاد، 1413ق، ج2، ص339۔
  19. سلیمیان، «حضرت مہدی(عج) خردسال‌ترین پیشوای معصوم»، ص44۔
  20. شیخ مفید، الفصول المختارۃ، 1413ق، ص149-153؛ بحرانی، النجاۃ فی القیامۃ،1417ق، ص200۔
  21. شیخ مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص281-286۔
  22. شیخ مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص287۔
  23. شیخ مفید، الفصول المختارۃ، 1413ق، ص316۔
  24. کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص384۔
  25. مجلسی، مرآۃ العقول، 1404ق، ج4، ص252۔
  26. رضوانی، امامت در سنین کودکی،‌ 1386ش، ص11۔
  27. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج21، ص516۔
  28. سبحانی، «امامت در کودکی؟»، ص46۔
  29. کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص383۔
  30. کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص383۔
  31. شیخ مفید، الفصول المختارۃ، 1413ق، ص316۔
  32. ملاحظہ کریںː طبری، تاریخ الامم والملوک، 1387ق، ج2، ص320؛ سید بن طاووس، الطرائف، 1400ق، ج1، ص21؛ حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ق، ج1، ص543۔
  33. رضوانی، امامت در سنین کودکی،‌ 1386ش، شناسہ کتاب۔
  34. بامری، ستارگان ہدایت: امامت در کودکی، 1391ش، شناسہ کتاب۔
  35. ترکمنی، درآمدی تحلیلی بر امامت در کودکی، 1402ش، شناسہ کتاب۔

مآخذ

  • ابن‌حجر ہیتمی، احمد بن محمد، الصواعق المحرقۃ فی الرد علی أہل البدع و الزندقۃ، بیروت، موسسہ الرسالۃ، 1417ھ۔
  • ابن‌تیمیہ حرَانی، احمد بن عبدالحلیم، منہاج السنۃ النبويۃ في نقض كلام الشيعۃ القدريۃ، ریاض، جامعۃ الإمام محمد بن سعود الإسلاميۃ، 1406ھ۔
  • الکاتب، احمد، تطور الفکر السیاسی الشیعی من الشوری الی ولایۃ الفقیہ،‌ بیروت، دارالجدید، 1998ء۔
  • بامری، محمد، ستارگان ہدایت: امامت در کودکی، قم، ائمہ، 1391ہجری شمسی۔
  • بحرانی، میثم بن علی، النجاۃ فی القیامۃ فی تحقیق أمر الإمامۃ، قم،‌ مجمع الفکر الاسلامی، 1417ھ۔
  • ترکمنی، ہادی، درآمدی تحلیلی بر امامت در کودکی، ہمدان،‌ نشر داعیہ، 1402ہجری شمسی۔
  • تفتازانی، مسعود بن عمر، شرح المقاصد، قم، نشر الشریف الرضی، 1412ھ۔
  • حسکانی، عبیداللہ بن عبداللہ، شواہد التنزیل لقواعد التفضیل، محقق: محمدباقر محمودی، تہران، سازمان چاپ و انتشارات وزارت ارشاد اسلامی، 1411ھ۔
  • حسين، جاسم، تاريخ سياسى غيبت امام دوازدہم، مترجم: سيد محمدتقى آيت‌‏اللہى‏، سوم، تہران، امير كبير، 1385ہجری شمسی۔
  • رضوانی، علی‌اصغر، امامت در سنین کودکی،‌ قم، انتشارات مسجد جمکران، 1386ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، «امامت در کودکی؟»، مجلہ درس‌ہایی از مکتب اسلام، شمارہ 640، شہریور 1393ہجری شمسی۔
  • سلیمیان، خدامراد، «حضرت مہدی(عج) خردسال‌ترین پیشوای معصوم»، مجلہ مبلغان، شمارہ 41، 1382ہجری شمسی۔
  • سید بن طاووس، علی بن موسی، الطرائف فی معرفہ مذاہب الطوائف، قم، چاپخانہ خیام، 1400ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الإرشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، المؤتمر العالمی لالفیۃ الشیخ المفید، 1413ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1413ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الفصول المختارۃ، قم، دارالمفید، 1413ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری تاریخ الامم و الملوک ، تحقیق: ابراہیم محمد أبوالفضل، بیروت، دارالتراث، چاپ دوم، 1387ھ۔
  • عضدالدین ایجی، عبدالرحمن بن احمد، شرح المواقف، قم، نشر الشریف الرضی، بی‌تا.
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، چاپ شانزدہم، 1437ھ۔
  • فخر رازی، فخرالدین، التفسیر الکبیر، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1420ھ۔
  • قمی، شیخ عباس، منتہى الآمال، قم‏، دلیل ما، 1379ش‏.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق: علی‌اکبر غفاری، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، 1407ھ۔

مجلسی، محمدباقر، مرآۃ العقول، تہران، دار الكتب الإسلاميّۃ، 1404ھ۔

  • مطہری، مرتضی، امامت و رہبری، قم، انتشارات صدرا، 1390ہجری شمسی۔
  • نوبختی، حسن بن موسی، فرق الشیعۃ، بیروت، دارالاضواء، 1404ھ۔