حجاز
حِجاز، سعودی عرب کے مغرب میں بحیرہ احمر کے ساحل پر واقع ہے۔ مکہ اور مدینہ جیسے شہروں کی وجہ سے اس علاقہ کو اسلامی جغرافیا میں بہت اہم مقام حاصل ہے اور صدر اسلام اور تاریخ شیعہ کے اہم واقعات بھی اسی خطے میں رونما ہوئے ہیں۔
اس لفظ کے معنی عربی لغت میں مانع اور حائل کے ہیں[1] اور چونکہ یہ علاقہ نَجد اور تِہامَہ کے درمیان واقع ہے اس لئے اسے حجاز کا نام دیا گیا ہے۔
محل وقوع
حجاز کے حدود اربعہ کے بارے میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے ۔[2] حجاز شمال سے جنوب کی طرف اردن اور سعودی عرب کے بارڈر سے شروع ہوتا ہے جو 1200 کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور بحیرہ احمر کے ساحل کے سامنے سے ہوتا ہوا سعودی عرب کے جنوب میں عَسیر کے علاقے تک پہنچتا ہے۔ اس علاقے کا کل رقبہ تقریبا 436454 مربع کلومیٹر ہے۔[3] مکہ، مدینہ، جَدّہ، طائف، تبوک اور ینبُع حجاز کے اہم شہروں میں سے ہیں۔[4]
طبیعی طور پر حجاز تین حصوں میں تقسیم ہوتا ہے:
- بحیرہ احمر کے ساحل پر واقع تِہامّہ نامی صحرا۔
- پہاڑی علاقہ، حجاز میں سب سے زیادہ بارش اسی علاقے میں ہوتی ہے۔ اس علاقے میں ایسے پہاڑی سلسلے پائے جاتے ہیں جو جزیرۃالعرب اور سعودی عرب کی اہم بلندیوں میں شمار ہوتے ہیں۔
- صحرائی علاقہ، جو مدین کے پہاڑوں کے مشرق سے لیکر نَفود کے بڑے صحرا اور آجا اور سَلْمی کے پہاڑوں تک پھیلا ہوا ہے اور اسکا نشیب شمال اور مشرق کی طرف مائل ہے۔[5]
آب و ہوا
حجاز کی آب و ہوا خشک ہے۔ لیکن تِہامہ میں نمی اور بادل ، نیز پہاڑی علاقوں میں مختصر بارش بحیرہ احمر کے اثرات کی وجہ سے ہوتی ہے۔ حجاز میں کوئی مستقل دریا نہیں ہے لیکن اس کی وادیوں میں بارش کے بعد سیلاب آتے ہیں اور بعض دفعہ نقصانات کا باعث بھی بنتے ہیں۔[6] بارش اور سیلاب کے بعد جو جڑی بوٹیاں حجاز کی زمین پر اگتی ہیں حجاز کے باشندوں کے یہاں بہت اہمیت کے حامل ہیں۔[7] جزیرۃالعرب میں حجاز کے چشمے اور کنویں بہت مشہور تھے جیسے زمزم کا کنواں جو قدیم زمانے سے عربوں کے یہاں بہت اہمیت کا حامل تھا۔[8]
پانی کی قلت کی وجہ سے حجاز میں بہت کم پیمانے پر کھیتی باڑی ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود قدیم زمانے سے یہاں پر کھیتی باڑی کا رواج ہے جیسا کہ طائف، حجاز کے علاقوں میں ایک ذرخیز علاقہ جانا جاتا ہے۔[9] لیکن آج کل کے دور میں بند باندھنے اور گہرے ٹیوب ویل لگانے کی وجہ سے اس علاقے کی کھیتی باڑی میں زیادہ رونق آئی ہے اور گندم، جو، مکئی اور مختلف سبزیاں کاشت ہوتی ہیں خاص کر طائف، جَدّہ، مدینہ اور ینبع جیسے شہروں کے اطراف میں زیادہ رائج ہے۔ خرما کی پیداوار خاص کر مدینہ کے خرما بہت مشہور ہیں۔[10] اور پہاڑی اور صحرائی علاقوں میں مال مویشی پالنا بہت رائج ہے۔
تجارت
قدیم زمانے میں حجاز کے جغرافیایی اہمیت کی وجہ سے اس علاقے کی تجارت میں رونق تھی۔ بحیرہ احمر کا طویل ساحل اور شمال میں شام اور جنوب میں یمن کا ہمسایہ ہونے کی وجہ سے حجاز کے تاجروں کیلیے ہمسایہ ممالک کے تاجروں کے ساتھ معاملات انجام دینے میں بہت اہم موقع میسر تھا اور یمن سے آنے والے تجارتی کاروان حجاز سے ہوتے ہوئے شمال کی طرف سے شام اور بعض مصر جاتے تھے۔ حجاز ہمیشہ سے حبشہ، چین، ہندوستان اور مصر کی تجارتی کشتیوں کا لنگر تھا۔[11] اور اسی وجہ سے مکہ، مدینہ، طائف اور جَدّہ کی تجارت مشہور تھی۔ تاریخی منابع میں مکہ ایک تجارتی مرکز کے طور پر معرفی ہوئی ہے جہاں سے تجارتی قافلے اگلے سفر کیلئے پانی اور دیگر ضروریات کا بندوتست بھی کرتے تھے۔[12]
مکہ میں موجود کعبہ بھی حجاز کی اقتصاد میں قدیم زمانے سے بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے اور اسلام کے بعد یہ اہمیت اور بڑھ گئی اور ہر سال کروڑوں مسلمان دنیا کے مختلف گوشوں سے زیارت کے علاوہ تجارت بھی کرتے ہیں اور مکہ کا جدہ بندرگاہ سے نزدیک ہونا بھی جدہ کی تجارت میں اہمیت کا حامل ہے۔[13] آج کل مختلف کارخانوں کی وجہ سے اس علاقے کی صنعت میں بھی رونق آئی ہے۔[14]
علمی مقام
حجاز صدر اسلام سے ہی جزیرۃالعرب کا علمی مرکز رہا ہے اور ہمیشہ سے اسلام کی علمی زندگی اور اسلامی میراث کی حفاظت میں اس کا بنیادی کردار تھا خاص کر حج کے ایام میں جہاں ہر طرف سے مسلمان حجاز کا رخ کرتے تھے اور مکہ میں علمی مباحثے اور مجالس برپا ہوتے تھے[15] سرزمین حجاز کی ثقافتی اور علمی کارکردگی میں مسجدالحرام اور مسجدالنبی میں ہونے والے علمی مباحثوں کے لیے کلیدی کردار تھا۔[16] اس علاقے میں ہمیشہ سے کثیر تعداد میں دینی مدارس موجود تھے اور مکہ اور مدینہ میں ان مدارس کی تاسیس کا ہدف دینی علوم کو اہمیت دینا اور قرآن مجید کے مطالعہ اور تفسیر کو رواج دینا تھا۔[17]
تاریخ
اسلام سے پہلے حجاز میں شہری زندگی اور صحرانشینی دونوں رائج تھیں اور چونکہ حجاز کا اکثر علاقہ بھی جزیرۃالعرب کے دوسرے علاقوں کی طرح خشک اور صحرا پر مشتمل تھا،[18] بادیہ نشینی بھی یہاں پر زیادہ رائج تھی۔ اکثر دیہات اور شہر، نخلستانوں کے ذرخیز سبزہ زاروں یا کاروان کے راستے میں آرام کرنے والی جگہوں پر آباد تھے۔ عَدنان، قَحطان اور قُضاعہ کے بڑے خانہ بدوش قبیلوں کا مسکن بھی حجاز ہی تھا۔ قُرَیش کا قبیلہ مکہ میں، ثَقیف طائف میں، اور اوس و خزرج یثرب اور (مدینہ) میں رہتے تھے۔[19]
بعض یہودی قبیلے بھی وادی قری کے شہر، یثرب، خیبر، فدک، تیماء اور اذرح میں رہتے تھے؛ یثرب میں اوس خزرج قبیلوں کے علاوہ تین یہودی قبیلے بنی قینقاع، بنی نَضیر اور بنی قُرَیظہ بھی مشہور تھے۔ مکہ میں بھی بعض رومی، ایرانی اور حبشہ کے بعض یہودی اور عیسائی تجارت کرتے ہوئے اپنی زندگی بسر کرتے تھے۔[20] حجاز کی اہمیت مکہ اور مسجدالحرام کا دینی مرکز ہونے کی وجہ سے تھی؛ اگرچہ اسلام سے پہلے یہاں بت پرستی بہت زیادہ رائج تھی اور حجاز کی مختلف شہروں میں مختلف عبادتگاہیں اور بتیں، اعراب کی نظر میں قابل احترام تھے۔[21]
ظہور اسلام
اسلام کے ظہور کے بعد حجاز کی شان و منزلت میں مزید اضافہ ہوا اور پیغمبر اکرم(ص) کی اسلامی حکومت جزیرہ کی اتحاد کا سبب بنی۔[22] ہجرت کے گیارھویں سال کے آغاز میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی رحلت کے بعد خلفاء کی زیادہ تر توجہ جزیرۃ العرب اور اس کے مضافات میں اسلامی حاکمیت کو پھیلانے پر مرکوز رہی اور 35 ہجری کو عثمان بن عفان کے قتل کے بعد جب خلافت علی بن ابی طالب(ع) کو منتقل ہوئی تو آپ نے دار الخلافہ کو کوفہ منتقل کر دیا۔ اور اسی وقت بڑے قبیلوں کے بہت سارے لوگوں نے بھی ہجرت کی۔ 41 ہجری کو جب خلافت معاویۃ بن ابی سفیان کو ملی تو اس نے شام کو اپنا حکومتی مرکز قرار دیتے ہوئے دمشق کو اسلامی حکومت کا دار الخلافہ قرار دیا۔[23]
بنی امیہ کے دور میں سیاسی مرکز کا شام پھر بنی عباس کے دور میں بغداد منتقلی کے باوجود بھی حجاز، مکہ اور مدینے کی اہمیت میں کمی نہیں آئی۔[24] بنی امیہ اور بنی عباس کی حکومت میں حجاز ان کی حکومت کا ایک صوبہ سمجھا جاتا تھا پھر بھی اس علاقے نے دنیا کے مسلمانوں کی نظر میں اپنی دینی مقام و منزلت کو محفوظ رکھا۔[25]
بنی امیہ کے دور میں سرزمین حجاز کا مرکز مدینہ تھا اور صرف عبداللّہ بن زبیر (۶۴ـ۷۳) کی حکومت کے دوران اس مکہ کو حجاز کا مرکز قرارد دیا تھا۔[26]
145 ہجری کو مدینہ میں حسنی سادات میں سے محمد بن عبداللہ جو کہ نفس زکیہ سے مشہور تھے نے منصور عباسی کی حکومت کے خلاف خروج کر کے مدینہ، مکہ اور یمن پر مسلط ہوا لیکن ساڑھ دو مہینے کے بعد بنی عباس کی فوج سے شکست کھایا اور مارا گیا۔ بنی عباس کے والیوں کی آل علی کے خلاف سنگدلی مشہور ہے، منصور نے انہیں مال دریافت کرنے سے محروم رکھا تھا اور حجاز میں فقر کا عالم تھا اور اس غربت اور بعض دیگر عوامل کی وجہ سے اس سرزمین پر علمی اور ثقافتی رونق میں کمی آگئی لیکن علم حدیث اور فقہ میں کوئی خاص فرق نہیں آیا۔[27]
301 ہجری کو علویوں نے امام حسن مجتبی) کے فرزند حسن مُثَنّی کے بیٹے سلیمان بن داوود کے پوتوں میں سے محمد بن سلیمان کی سربراہی میں مکہ میں حج کے موقعے پر حاجیوں کے اجتماع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عباسیوں کے ہاتھوں میں موجود حکومت کو اپنے ہاتھ لیا اور محمد بن سلیمان کو مسلمانوں کا خلیفہ اعلان کیا۔[28]
عباسیوں کی خلافت کی کمزوریوں کی وجہ سے حجاز کی سرزمین پر بغاوت کا آغاز ہوا قحط، بھوک اور بحرین کے قرامطہ کی حاجیوں کے قافلوں پر حملوں سے حجاز کے باشندے بہت تکلیف میں پڑ گئے اور حجاز کچھ عرصہ تک مختلف حاکموں کی کشمکش کی نذر ہوگیا۔
شُرَفا کی حکومت
358 ہجری کو فاطمیوں کے ہاتھوں مصر فتح ہونے کے بعد حسنی سادات میں سے جعفر ابن محمد ابن حسن نے مکہ میں خود مختاری کا اعلان کیا اور جمعہ کے خطبے میں فاطمی خلیفہ کے عنوان سے نام لیا گیا۔ اس کے دو سال بعد سن 360 ہجری کو طاہر ابن مسلم حسینی نے مدینہ میں استقلال کا اعلان کیا اور فاطمی خلیفہ، المعز لدین اللہ کے عنوان سے خطبہ دیا۔[29] اس طرح سے دو مقدس شہروں میں بعض علویوں نے حکومت کی اور نسب میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سے منسوب ہونے کی وجہ سے ان کے حاکموں کو شریف کا لقب ملا۔[30] اور ان کی حکومت (شریف کی جمع) شرفا سے مشہور ہوئی۔
حجاز میں تقریبا ایک ہزار سال تک شرفا کی حکومت رہی لیکن یہ حاکم اکثر اوقات اپنی حکومت میں مستقل نہیں تھے اور بڑی سلطنتوں کے ماتحت تھے اس کے باوجود شرفا کا اثر رسوخ اتنا زیادہ تھا کہ عثمانی حکومت ان کے بغیر حجاز کو نہیں سنبھال سکتی تھی۔
ایوبیوں کی حکومت
567 ہجری سے مصر اور حجاز میں فاطمیوں کا اثر رسوخ کم ہوتا گیا اور اس سال صلاح الدین ایوبی حجاز کی طرف متوجہ ہوا اور اپنا بھائی تورانشاہ کی سربراہی میں 569 ہجری کو حجاز اور یمن پر حملے شروع کیا، توران شاہ کسی مزاحمت اور مقاومت کا سامنا کئے بغیر مکہ میں داخل ہوا اور شریف عیسی ابن خلیفہ نے اس کا استقبال کیا اور وعدہ کیا کہ خلیفہ کے نام کے بعد صلاح الدین کے نام سے خطبہ پڑھے گا۔[31] صلیبیوں کے مقابلے میں مقدس مکانات کی حفاظت ایوبیوں کے اہم اقدامات میں سے تھے؛ 577 ہجری کو (بحر المیت کے مشرق میں واقع) کرک کی صلیبی حکومت کے حاکم نے اپنی حاکمیت کو پھیلانے کے لیے مسلمانوں کے مقدس مقامات حرمین شریفین پر حملہ کیا اور سمندری راستوں پر قابض ہونے کے لیے حجاز پر حملہ کیا[32] اور صلیبی کشتیاں عیذاب بندرگاہ سے حجاز کے ساحلوں کی طرف روانہ ہوئیں، لیکن ایوبیوں نے مقدس مقامات کا دفاع کیا۔[33]
بنو رسول کی حکومت
ساتویں صدی کے پہلے حصے میں یمن میں ایوبیوں کی حکومت کا زوال ہوا اور بنی رسول کی حکومت آگئی اور مدینہ کے والی بھی بنو رسول کی حکومت کے ماتحت آگئے۔ دوسری طرف سے عباسی خلافت بھی 656 ہجری کو مغولوں کے ہاتھوں ختم ہوئی یوں بنو رسول نے پوری سرزمین حجاز کا کنٹرول سنبھال لیا۔[34]
عثمانیوں کی حکومت
چھٹی صدی ہجری کے درمیان سے لیکر نویں صدی کے پہلے نصف حصے تک یعنی تقریبا تین صدیاں حجاز پر مصر کے چرکسوں(Circassians)اور مملوکوں نے حکومت کی اور دسویں صدی کے ابتدا میں حجاز عثمانیوں کے کنٹرول میں آگئی۔[35]
1218 ہجری سے 1221 ہجری تک حجاز میں وہابیوں کے فسادات شروع ہوگئیں جس میں مکہ اور مدینہ پر بھی حملہ ہوا۔ عثمانی بادشاہ کی طرف سے مصر کے گورنر محمد علی پاشا کو شوریوں کو سرکوب کرنے پر مامور کیا گیا یوں وہابیوں کو 1233 ہجری میں شکست سے دچار ہونا پڑا۔ [36] 1261 ہجری تک حجاز مصر کے ماتحت تھا اور عثمانی حکومت حجاز پر براہ راست اپنا والی بھیجتی تھی۔[37] حجاز تک رفت و آمد میں آسانی کے لیے حجاز کی ریلوے پٹڑی بھی دمشق سے حجاز تک بچھائی گئی۔
آل سعود کی سلطنت
1335 ہجری کو مکہ کے سردار حسین ابن علی نے حجاز کو عثمانی حکومت سے آزاد کر کے ایک مستقل مملکت تشکیل دیا اور برطانیہ نے اس کے استقلال کی ضمانت دی جبکہ دوسری طرف سے انہوں نے عبد العزیز ابن سعود کو بھی یہی وعدہ دیا تھا۔ یوں ابن سعود، شریف حسین کے خلاف لڑنے چلے اور 1343 کو حجاز پر حملہ کیا اور مکہ، مدینہ اور جدّہ پر قبضہ کیا اور کچھ عرصہ بعد حجاز اور نَجد پر بھی اپنی سلطنت کا اعلان کردیا۔[38] سن ۱۳۱۱ش/۱۹۳۲ء کو ابن سعود نے اپنے آپ کو سعودی عرب کے بادشاہ کے طور پر متعارف کرایا۔
حوالہ جات
- ↑ لغتنامہ دہخدا، مدخل حجاز
- ↑ مراجعہ کریں جابری، ص۳۶ـ۳۸
- ↑ مراجعہ کریں الموسوعۃ العربیۃ، ج۸، ص۶۱
- ↑ عمر فاروق سیدرجب، ص۴۳
- ↑ احمد ابراہیم شریف، ص۷۵؛ اطلس المملکۃ العربیۃ السعودیۃ، ص۳۸
- ↑ نہروالی، ص۷۷؛ حاجی خلیفہ، ص۴۱، ۴۸، ۱۵۵؛ مکہ کے سیلاب اور اس کے اثرات کے بارے میں معلومات کے لیے مراجعہ کریں رفعت باشا، ج۱، ص۱۹۸ـ ۲۰۰
- ↑ مراجعہ کریں بلاشر، ج۱، ص۵
- ↑ مراجعہ کریں، طبری، ص۴۸۵؛ فاسی، ۱۴۱۹، ج۵، ص۲۹۶
- ↑ مراجعہ کریں ناصرخسرو، ص۱۱۷؛ سیدامیرعلی، ص۲
- ↑ الموسوعۃ العربیۃ، ج۸، ص۶۳
- ↑ سباعی، ج۱، ص۳۹ـ۴۰؛ مالکی، ص۸۷
- ↑ مثال کے طور پر مراجعہ کریں ابن جبیر، ص۹۶ـ۱۰۱؛ مالکی، ص۸۸؛ نہروالی، ص۱۲
- ↑ مالکی، ص۸۸
- ↑ الموسوعۃ العربیۃ، ج۸، ص۶۳
- ↑ مراجعہ کریں مالکی، ص۱۸۵ـ۱۸۷؛ سباعی، ج۱، ص۷۹ـ۸۱
- ↑ مراجعہ کریں، شوقی ضیف، ج۵، ص۵۲ـ۶۷؛ مالکی، ص۱۸۶
- ↑ مالکی، ص۱۹۶
- ↑ مراجعہ کریں دلّو، ج۱، ص۳۹
- ↑ دلّو، ج۱، ص۷۴، ۷۷، ۷۹؛ الموسوعۃ العربیۃ، ج۸، ص۶۴؛ اسی طرح مراجعہ کریں، احمد ابراہیم شریف، ص۹ـ۱۳؛ د۔ اسلام، چاپ دوم، ذیل مادّہ
- ↑ دلّو، ج۱، ص۷۶؛ الموسوعۃالعربیۃ، ج۸، ص۶۴
- ↑ مراجعہ کریں، احمد ابراہیم شریف، ص۱۴ـ۲۷؛ الموسوعۃ العربیۃ، ج۸، ص۶۴
- ↑ مراجعہ کریں صالح احمد علی، ص۷ـ۸
- ↑ الموسوعۃالعربیۃ، ج۸، ص۶۵
- ↑ مراجعہ کریں بیضون، ص۱۱ـ ۱۲
- ↑ مالکی، ص۲۳
- ↑ الموسوعۃ العربیۃ، ج۸، ص۶۵
- ↑ الموسوعۃ العربیۃ، ج۸، ص۶۵
- ↑ مراجعہ کریں، قلقشندی، ج۴، ص۲۶۷ـ ۲۶۸؛ محمد جمال الدین سرور، ص۱۹؛ دحلان، ص۱۵
- ↑ مرجعہ کریں، ابن اثیر، ج۸، ص۶۱۲؛ سیدہ اسماعیل کاشف، ص۹۶ـ۹۷؛ محمد جمال الدین سرور، ص۲۴ـ ۲۸؛ مزید مراجعہ کریں فاسی، ۱۴۰۵، ج۲، ص۳۵۰ـ۳۵۲
- ↑ محمد جمال الدین سرور، ص۲۴ـ۲۵
- ↑ ابن اثیر، ج۱۱، ص۳۶۸ـ۳۷۱، ۳۹۶؛ مزید، ابن جبیر، ص۲۵۷؛ فاسی، ۱۴۰۵، ج۲، ص۳۶۶ـ۳۶۷
- ↑ مراجعہ کریں، ابن اثیر، ج۱۱، ص۴۷۰؛ ابن واصل، ج۲، ص۱۰۱ـ۱۰۲، ۱۲۷؛ مالکی، ص۴۴ـ ۴۵
- ↑ ابن اثیر، ج۱۱، ص۴۹۰ـ۴۹۱؛ مقریزی، ج۱، ص۱۸۹ـ۱۹۰
- ↑ سباعی، ج۱، ص۲۳۸ـ۲۳۹؛ مالکی، ص۶۲
- ↑ مراجعہ کریں، صبری پاشا، ص۶۰ـ۶۱؛ جابری، ص۴۶ـ۶۲
- ↑ امین، ص۴۵؛ لوتسکی، ص۱۰۳؛ درویش، ص۴۹، ۵۲
- ↑ مراجعہ کریں، شاکر، ج۸، ص۲۴۸؛ بدر، ج۲، ص۴۷۸
- ↑ مراجعہ کریں، امین، ص۴۸ـ۴۹، ۵۲؛ درویش، ص۹۰، ۱۱۱
مآخذ
- ابن اثیر، الكامل فىالتاریخ، بیروت ۱۳۸۵ـ۱۳۸۶/۱۹۶۵ـ۱۹۶۶، چاپ افست ۱۳۹۹ـ۱۴۰۲/ ۱۹۷۹ـ۱۹۸۲۔
- ابن جبیر، رحلۃ ابن جبیر، بیروت ۱۴۰۴/۱۹۸۴۔
- ابن واصل، مُفَرِّج الکروب فی اخبار بنی ایوب، ج۲، چاپ جمال الدین شیال، قاہرہ ۱۳۷۷/ ۱۹۵۷۔
- احمد ابراہیم شریف، دورالحجاز فی الحیاۃ السیاسیۃ العامۃ فی القرنین الاول و الثانی للہجرۃ، قاہرہ، ۱۹۶۸۔
- اطلس المملکۃ العربیۃ السعودیۃ، ریاض: وزارۃ التعلیم العالی، ۱۴۲۰/۲۰۰۰۔
- امین، محسن، تجدید کشف الارتیاب فی اتباع محمدبن عبدالوہاب، چاپ حسن امین، بیروت، ۱۳۸۲/ ۱۹۶۲۔
- بدر، عبدالباسط، التاریخ الشامل للمدینۃ النورۃ، مدینہ ۱۴۱۴/۱۹۹۳۔
- بیضون، ابراہیم، الحجاز و الدولۃالاسلامیۃ: دراسۃ فی اشکالیۃ العلاقۃ مع السلطۃ المرکزیۃ فی القرن الاول الہجری، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳۔
- جابری، خالد، الحیاۃالعلمیۃ فی الحجاز خلال العصر المملوکی: ۶۴۸ـ۹۲۳ہ / ۱۲۵۰ـ۱۵۱۷م، ریاض ۱۴۲۶/۲۰۰۵۔
- حاجی خلیفہ، مصطفی بن عبداللّہ، ترجمہ تقویم التواریخ: سالشمار وقایع مہم جہان از آغاز آفرینش تا سال ۱۰۸۵ہ۔ق، از مترجمی ناشناختہ، چاپ میرہاشم محدث، تہران ۱۳۷۶ش۔
- حدودالعالم منالمشرق الىالمغرب، چاپ منوچہر ستودہ، تہران: دانشگاہ تہران، ۱۳۴۰ش، ۱۳۶۲ش۔
- دحلان، احمد بن زینی، خلاصۃ الکلام فی بیان امراء البلد الحرام، مصر ۱۳۰۵۔
- درویش، مدیحۃ احمد، تاریخ الدولۃ السعودیۃ حتی الربع الاول من القرن العشرین، بیروت ۱۴۲۹/ ۲۰۰۸۔
- دلّو، برہان الدین، جزیرۃالعرب قبل الاسلام: التاریخ الاقتصادی، الاجتماعی، الثقافی و السیاسی، بیروت ۱۹۸۹۔
- رفعت باشا، ابراہیم، مرآۃالحرمین، او، الرحلات الحجازیۃ و الحج و مشاعرہ الدینیۃ، بیروت: دارالمعرفۃ، بیتا۔
- سباعی، احمد، تاریخ مکۃ: دراسات فی السیاسۃ و العلم و الاجتماع و العمران، مکہ ۱۴۲۰/۱۹۹۹۔
- سیدامیرعلی، مختصر تاریخ العرب و التمدن الاسلامی، ترجمۃ ریاض رأفت، قاہرہ ۱۴۲۱/۲۰۰۱۔
- سیدہ اسماعیل کاشف، مصر فی عصرالاخشیدیین، قاہرہ، ۱۹۸۹۔
- شاکر، محمود، التاریخ الاسلامی، ج۸، بیروت ۱۴۲۱/۲۰۰۰۔
- شوقی ضیف، تاریخ الادب العربی، ج۵: عصرالدول و الامارات، الجزیرۃالعربیۃ، العراق، ایران، قاہرہ، ۱۹۸۰،
- صالح احمد علی، الحجاز فی صدر الاسلام: دراسات فی احوالہ العمرانیۃ و الادرایۃ، بیروت ۱۴۱۰/۱۹۹۰۔
- صبری پاشا، ایوب، مرآۃ جزیرۃالعرب، ترجمۃ و تعلیق احمد فؤاد متولّی و صفصافی احمد مرسی، قاہرہ ۱۴۱۹/۱۹۹۹۔
- طبری، احمد بن عبداللّہ، القری لقاصد ام القری، چاپ مصطفی سقا، بیروت، بیتا۔
- عمرفاروق سیدرجب، المدن الحجازیۃ، قاہرہ، ۱۹۸۱۔
- فاسی، محمد بن احمد، شغاء الغرام بأخبار البلدالحرام، چاپ عمر عبدالسلام تدمری، بیروت ۱۴۰۵/ ۱۹۸۵۔
- فاسی، محمد بن احمد، العقد الثمین فی تاریخ البلد الأمین، چاپ محمد عبدالقادر احمد عطا، بیروت ۱۴۱۹/ ۱۹۹۸۔
- قلقشندی، احمدبن على، صبحالاعشى فى صناعۃالانشا، قاہرہ ۱۹۱۰ـ۱۹۲۰، چاپ افست ۱۳۸۳/۱۹۶۳۔
- لوتسکی، ولادیمیر باریسوویچ، تاریخ الاقطار العربیۃ الحدیث، ترجمۃ عفیفہ بستانی، مسکو ۱۹۷۱۔
- مالکی، سلیمان عبدالغنی، بلاد الحجاز: منذبدایۃ عہدالاشراف حتی سقوط الخلافۃ العباسیۃ فی بغداد، ریاض ۱۴۰۳/ ۱۹۸۳۔
- سرور، محمد جمال الدین، سیاسۃ الفاطمیین الخارجیۃ، قاہرہ، ۱۳۹۳/ ۱۹۷۳۔
- مقدسی، محمدبن احمد، كتاب احسنالتقاسیم فى معرفۃالاقالیم، چاپ دخویہ، لیدن ۱۸۷۷، چاپ افست ۱۹۶۷۔
- مقریزی، احمد بن علی، السلوک لمعرفۃ دول الملوک، چاپ محمد عبدالقادر عطا، بیروت ۱۴۱۸/ ۱۹۹۷۔
- الموسوعۃ العربیۃ، مشق: ہیئۃ الموسوعۃالعربیۃ، ۱۹۹۸۔
- الموسوعۃ العربیۃ العالمیۃ، ریاض: مؤسسۃ اعمال الموسوعۃ للنشر و التوزیع، ۱۴۱۹/۱۹۹۹۔
- ناصرخسرو، سفرنامہ حکیم ناصرخسرو قبادیانی مروزی، چاپ محمد دبیرسیاقی، تہران۱۳۶۳ش۔
- نہروالی، محمد بن احمد، کتاب الاعلام باعلام بیت اللّہ الحرام، چاپ علی محمد عمر، قاہرہ ۱۴۲۵/۲۰۰۴۔
- یاقوت حموی، كتاب معجمالبلدان، چاپ فردیناند ووستنفلد، لایپزیگ ۱۸۶۶ـ۱۸۷۳، چاپ افست تہران ۱۹۶۵۔
- یعقوبی، احمدبن اسحاق، كتابالبلدان، چاپ دخویہ، لیدن ۱۸۹۲، چاپ افست ۱۹۶۷۔
- یمانی، مہدالاسلام: البحث عن الہویۃ الحجازیۃ، ترجمۃ غادہ حیدر، بیروت ۲۰۰۵۔
بیرونی لینک
- منبع مقالہ: دانشنامہ جہان اسلام