روضہ عسکریین

ویکی شیعہ سے
حرم عسکریین
ابتدائی معلومات
استعمالروضہ امامین عسکریین
محل وقوعسامرا، عراق
مشخصات
معماری
طرز تعمیرایرانی معماری
گنبد1
مینار2
مینار کی بلندی36 میٹر
تعمیر نودفتر آیت اللہ سیستانی اور ستاد بازسازی عتبات عالیات
ویب سائٹالعتبۃ العسکریۃ المقدسۃ


روضہ عَسْکَریَین، عراق کے شہر سامرا میں واقع وہ روضہ ہے جس میں امام علی نقی علیہ السلام، آپ کے فرزند امام حسن عسکری علیہ السلام، زوجہ امام حسن عسکریؑ و مادر امام زمانہؑ نرجس خاتون، دختر امام محمد تقی ؑ حکیمہ خاتون اور بعض دیگر علوی سادات اور علماء دفن ہیں۔ اسی کے ساتھ ایک بڑی مسجد ہے جسے سرداب غیبت امام زمانہ ؑ کہا جاتا ہے۔

سنہ 2006ء اور 2008ء میں دو دہشتگرانہ حملوں میں روضے کی عمارت کو نقصان پہنچا۔ ان دہشت گردانہ حملوں کے بعد حرم اور ضریح کی دوبارہ تعمیرات کا سلسلہ شروع ہوا۔

محل وقوع

روضہ عسکریین سامرا شہر کے مرکز میں واقع ہے۔ یہ شہر بغداد اور تکریت کے درمیان دجلہ کے شرق میں واقع ہے۔ اس وقت صلاح الدین صوبے کا مرکز ہے جس کے شرق میں صوبہ تمیم (کرکوک)، شمال میں نینوا، غرب میں صوبہ الانبار اور جنوب میں بغداد واقع ہیں۔ بغداد سے شمال کی جانب 120 کیلومتر کے فاصلے پر ہے۔[1]

تاریخچہ

  • امام علی نقی(ع) اور امام حسن عسکری(ع) کی شہادت کے بعد انہیں ان کے گھر میں سپرد خاک کیا گیا۔ کئی سالوں تک شیعہ اسی گھر میں زیارت کیلئے آتے۔ یہ گھر ایک مسجد کے ساتھ واقع تھا، کہتے ہیں کہ یہ مسجد دونوں اماموں کے نماز پڑھنے کی جگہ تھی۔ جب اس گھر کے دروازے بند تھے تو شیعہ اس گھر کی کھڑکی کے پاس اکٹھے ہوتے اور یہاں سے زیارت کرنے کے بعد مسجد میں جاتے اور وہاں نماز زیارت ادا کرتے۔ یہ عمارت سنہ 260 تا 318 ہجری تک اپنی اصلی حالت میں موجود رہی۔

یہ گھر جس گلی میں تھا اسے راضہ یا وصافہ کہتے تھے.[2] امام زمان(ع) اسی گھر میں متولد ہوئے۔[3]

  • آل حمدان کے ناصر الدولہ کے ذریعے دوسری عمارت تعمیر ہوئی لیکن سب سے پہلے جس نے قبہ تعمیر کیا، سامرا کے خراب ہونے کے بعد دوبارہ تعمیر کی، ضریح پر پردہ لگایا وہ شیعہ خاندانوں میں سے حمدان خاندان اور اس کے بادشاہ تھے۔
  • معز الدولہ دیلمی نے سنہ 335 تا 337 ھ حرم میں تعمیرات انجام دیں: سرداب میں میں پانی کے حوض کو پُر کرنا، مرقد کیلئے لکڑی کی ضریح بنوانا۔ اس نے پہلی مرتبہ مرقد کیلئے قبہ اور بارگاہ تعمیر کروائی۔
  • عضد الدولہ دیلمی سنہ 368 ہجری میں زیارت کے قصد سے سامرا آیا۔ اس نے روضہ کی تعمیر کا حکم دیا لہذا ساگوان کی لکڑی سے دروازے بنوائے، صحن کو وسیع کیا اور شہر کے گرد مضبوط حصار بنوایا۔
  • ارسلان بساسیری نے سنہ 445 ھ میں قبر پر پلاسٹر اور اینٹوں کی عمارت بنوائی، ساگوان کی لکڑی کی دو ضریحیں بنوا کر انہیں قبروں پر رکھوایا۔
  • سلطان برکیارق بن ملک شاه سلجوقی، مجد الدولہ قمی نے سنہ 495 میں عسکریین کے بقعہ میں تعمیرات کروائیں. قالین بچھوائے، ایوانوں کی تعمیرات، صحن میں کمرے اور قیمیتی لکڑی کے دروازے بنوائے۔
  • ابن فوطی بغدادی کتاب الحوادث الجامعہ فی المائہ السابعہ میں لکھتا ہے: سنہ 604 ھ میں سامرا میں آگ لگی جو روضہ عسکریین تک پہنچ گئی۔ سنہ 606 ھ میں احمد الناصر لدین الله کے توسط سے حرم میں تعمیرات ہوئیں اور سرداب کی تعمیر بھی اسی نے کروائی۔
  • سنہ 640 ھ ہجری میں مناسب دیکھ بھال نہ ہونے اور خادموں کی توجہ نہ کرنے کی وجہ سے دوبارہ یہاں آگ لگ گئی جس کی وجہ سے آئمہ کی ضریحوں کو آگ لگ گئی اور پھر مستنصر باللہ کے ذریعے پہلے سے بہتر حرم اور روضوں کی تعمیر ہوئی۔
  • صفویہ کے آخری دور میں ایک بار پھر عدم توجہ کی بنا پر ضریح میں نصب چراغوں سے آگ بھڑک گئی جس نے لکڑی کی ضریحوں اور حرم کو نقصان پہنچایا۔ شاه سلطان حسین صفوی نے سنہ 1106 ھ میں فولاد کی ضریح بنوائی نیز حرم اور ایوان کے فرش پر پتھر لگوایا۔[4] نسخہ خطی شماره ۱۶۳۶۲ کتابخانۂ آستان قدس رضوی کہ آقا جمال خوانساری سے متعلق مجموعہ ہے اس میں ان تعمیرات کی تاریخ 110 ہجری ثبت ہے۔[5]
  • آذربائیجان کے حکّام میں سے احمد خان دنبلی سنہہ 1200 ھ میں حرم اور سرداب کی بنیادیں اور مکمل کروائیں۔ ان تعمیرات میں عمارت کا نقشہ مکمل تبدیل ہوگیا۔ سرداب جانے کا قدیمی راستہ سیڑھیوں اور تاریک راستے کے ذریعے حرم سے متصل تھا اب اسے ایک نئے راستے کے ذریعے حرم سے ملایا گیا۔
  • احمد خان دنبلی کے قتل کے بعد اس کے بیٹے حسن قلی خان نے سنہ 1225 ھ میں اس روضے کی تعمیرات کی تکمیل کا حکم دیا، گنبد کو ٹائلوں سے مزین، مسجد، حمام اور زائرین کیلئے کاروان سرا تعمیر کروائی۔[6]
  • ناصرالدین شاه قاجار کے حکم سے سنہ 1282 ھ میں عبد الحسین طہرانی کے نگرانی میں اہم اور کلی تعمیرات انجام پائیں۔ جس میں قبہ پر طلاکاری، صحن اور ایوان کی تعمیر، مرقد کے اطراف میں سبز رنگ کا سنگ مرمر لگوایا اور صحن کی مرمت اور ٹائلیں لگوائیں۔
  • میرزای شیرازی کے زمانے میں سنہ 1288 ھ میں جب انہوں نے نجف سے سامرا ہجرت کی تو ان کے حکم سے صحن اور حرم میں جو تعمیرات انجام دی گئیں: صحن میں پتھر لگانا، بعض ایوانوں میں شیشے بندی کا کام، زیبائی کا کام، بڑے دروازے پر ایک بڑے گھڑیال کا نصب، حرم کے دروازوں اور ایوانوں میں پردے لگوانا، طلاب علومی دینی کی رہائش کیلئے مدرسے کی تعمیر۔
  • آقا مرزا محمد عسکری طہرانی نے جو اس روضے میں تعمیرات کروائیں: روضے کے دروازوں اور ایوانوں میں چاندی کا کام، قبہ کے اطراف میں 24 زوج ساگوان کی لکڑی کے دروازے بنوانا؛ روشنی اور ہوا کی آمد و رفت کیلئے قدیمی کھڑکیوں کی جگہ 12 دروازے اندر کی جانب سے اور 12 دروازے باہر کی جانب سے لگوانا۔ اسی طرح آیت اللہ بروجردی کے دستور سے زائرین کی سہولت کیلئے دو حمام اور امام بارگاہ کی تعمیر ہوئی۔[7]

معماری حرم

گنبد اور مینار

ان دو اماموں کے بقعے اور مرقد پر گنبد بنائے گئے ہیں کہ جو دیگر عتبات عالیہ کی نسبت سب سے بڑے اور محکم تھے۔ ناصر الدولہ حمدانی نے مرقد پر پلاسٹر اور اینٹوں سے ایک چھوٹا گنبد تعمیر کروایا۔ معز الدولہ دیلمی نے ایک اور گنبد بنوایا۔ ناصر الدین شاه کے زمانے میں امیر کبیر کی دولت کی ایک تہائی سے گنبد کو طلائی کیا گیا اور عبد الحسین تہرانی کی نگرانی یہ کام انجام پایا۔ گنبد کا محیط 68 میٹر و 72 ہزار طلائی ٹائلیں استعمال ہوئیں۔ گنبد کے اندرونی حصے میں آئینہ بندی اور قرآنی آیات سے اور آئمہ اطہار کے نام سات رنگوں سے مزین تھے۔

گنبد کے دو طرف گلدستے کی بلندی 36 میٹر تھی۔ پہلی مرتبہ عباسی خلیفہ ناصر نے سنہ 606 ھ میں حرم کیلئے دو مینار بنوائے۔ ان دو میناروں کی دوبارہ مرمت کا کام ناصر الدین شاه کے زمانے میں شیخ عبد الحسین مجتہد تہرانی (شیخ العراقین) کے توسط سے انجام پایا اور ان کے اوپر والے حصے کو سونے سے حاج علی اصفہانی کہربائی نے سنہ 1387 ھ میں آراستہ کیا۔[8]

صدام کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب عراق امریکی فوج کے زیر تسلط تھا تو دو دہشت گردانہ حملوں میں گنبد اور حرم کے دو گلدستے تخریب ہو گئے۔

رواق‌ اور ایوان‌

عسکریین کے حرم کا نقشہ

ضریح کے اطراف میں چار رواق بنائے گئے ہیں کہ جو پانچ دروازوں کے ذریعے حرم اور روضے کے اندرونی حصے سے متصل ہوتے ہیں؛ان میں سے دو دروازے جنوب کی سمت، دو دروازے شمال کی سمت اور ایک دروازہ مشرق کی سمت ہیں۔ چار دروازے چاندی اور ایک سونے کا دروازہ ہے۔

رواق کے دروازے اور چھت ایک شکل کے ہیں اور اس میں آئینہ بندی کا سارا کام ایرانی ہنرمندوں نے حاج علی نقی کاشانی کے خرچے سے انجام دیا ہے۔ جنوبی رواق مرزا شیرازی کے زمانے میں آئینہ بندی سے مزین ہوا جس کا ارتفاع دس میٹر ہے۔ حرم کے جنوبی دروازے کے سامنے ایک مستطیلی شکل میں ایوان موجود ہے کہ جس کی دیواریں ایرانی ہنرمندوں کے ہاتھوں آئینہ بندی سے مزین ہیں۔ یہ ایوان 33 میٹر طول اور دس میٹر عرض پر مشتمل ہے کہ جو صحن کے جنوب کی سمت واقع ہے نیز وہ شمال سے رواق جنوبی کے ساتھ متصل ہوتا ہے۔ ایوان کے درمیان میں شمالی جانب ایک اور چھوٹا سا ایوان موجود ہے کہ جو آل بویہ کے زمانے میں بنایا گیا۔ ایوان کے فرش پر سنگ مرمر لگا ہوا ہے اور دیواریں ایک میٹر تک سنگ مرمر سے چھپی ہوئی ہیں۔ ایوان کے دونوں طرف دو مینار بنائے گئے ہیں۔ رواق اور ایوانوں کے فرش پر سنگ مرمر پر لگا ہوا ہے۔ پہلے پتھر کو سنہ 1381 ھ میں اٹلی کے مرغوب سنگ مرمر سے تبدیل کیا گیا۔ حرم اور رواق کی یہ عمارت تین طرف سے صحنوں سے گھری ہوئی ہے۔ نیز اس کے بیرونی حصے میں 62 چھوٹے ایوان ہیں.[9]

صحن حرم

مرقد عسکریین تین صحنوں پر مشتمل ہے۔ ایک صحن سرداب سے مخصوص ہے، ایک صحن ایوانوں کے سامنے اور ایک صحن پہلے صحن کے ساتھ واقع ہے۔ تمام صحن دروازوں کے توسط سے باہمی متصل اور باہر سے مرتبط ہیں۔ عمارت کے بیرونی حصے کے صحن 62 ایوانوں پر مشتمل ہیں۔

مرزا محمد تہرانی نے بڑے ایوان کے سامنے ایک خوبصورت حوض بنایا لیکن بعد میں اسے خراب کر دیا۔ بڑے صحن کا طول 78 اور عرض 77 میٹر ہے۔ مرزا عبد الحسین مجتہد نے ناصر الدین شاه کے دستور سے یہاں تعمیرات کروائیں اور ٹائلیں لگوائیں۔ شرقی اور غربی صحن میں اٹھارہ ایوان ہیں اور حرم کا بڑا ایوان صحن کے ذریعے متصل ہے۔

دوسرا صحن مصلیٰ کے نام سے ہے جس کا طول پچاس اور عرض چالیس مٹر پر مشتمل ہے۔

تیسرا صحن غیبت کے نام سے ہے جو 64 مٹر طول اور 61.5 مٹر عرض رکھتا ہے۔ معاصر دور میں دو صحنوں کے درمیان دیواریں ہٹا کر انہیں ایک صحن بنا دیا گیا۔ نیز چار دروازے ان میں نصب کئے گئے جس میں سے ایک دروازہ سلطان عبد الحمید عثمانی نے بنوایا ۔ایوان کے سامنے اس دروازے پر ایک گھڑی نصب ہے۔[10]

قبر اور ضریح

ضریح امام حسن عسکری و امام علی نقی

چوتھی صدی میں معزالدولہ دیلمی نے لکڑی کی ضریح بنوا کر ان قبروں کے صندوقوں پر نصب کروائی کہ بعد میں اس کی مرمت کی گئی۔ صفویوں کے دور میں اس لکڑی کی ضریح کو آگ لگی اور وہ ضائع ہو گئی۔ اس کے بعد 1116 ھ میں شاه سلطان حسین صفوی نے فولاد کی ضریح بنوا کر نصب کروائی۔ یہ ضریح فتح علی شاه قاچار کے زمانہ تک باقی رہی اور پھر اس کی جگہ لکڑی کے پایوں پر چاندی کی بنی ہوئی ضریح یہاں نصب ہوئی۔ 1360 ھ میں ہندوستان کے اسماعیلیوں نے مرقد امام حسین (ع) کیلئے چاندی کی ضریح بنوائی اور ناصر الدین شاه کی بنوائی ہوئی ضریح مرمت کرکے اسے سامراء لے گئے۔

سنہ 1375 ھ میں استاد محمد صنیع خاتم سمیت اصفہانی ہنرمندون نے سونے اور چاندی سے چھ گوشوں والی خوبصورت ضریح بنائی، یہ ضریح وہاں پر موجود چار قبروں کے صندوقوں پر نصب ہوئی۔ اس چھ کونوں پر مشتمل ضریح کا طول 5.3 اور عرض 26 میٹر تھا۔

اس ضریح کے اطراف میں سترہ محراب دار جالی اور اندر داخل ہونے کیلئے سونے اور چاندی کے بنے ہوئے دو دروازے تھے۔ اس ضریح کے اوپر سونے کے چھ گلدان اور انکے درمیان سونے کے تاج بنے ہوئے تھے۔ ضریح کے اوپر والے حصے پر تین ردیفوں میں اسمائے الہی لکھے ہوئے تھے۔[11]

چند سال پہلے دو بم دھماکوں کی وجہ سے قبروں پر نصب لکڑی کے صندوق اور ضریح خراب ہو گئے۔ اب دوبارہ قم میں ان صندوقوں اور ضریح کو نیا بنایا گیا ہے۔[12]

احاطۂ حرم میں مدفون شخصیات

حرم میں مدفون شخصیات
  • نرجس خاتون: امام حسن عسکری (ع) کی زوجہ نرجس خاتون اور حضرت مہدی(ع) کی والدہ کی قبر امام حسن عسکری کی قبر کے پیچھے ہے۔[13]
  • حکیمہ خاتون: امام محمد تقی (ع) کی بیٹی اور امام حسن عسکری (ع) کی پھوپھی حکیمہ کی قبر عسکریین کی ضریح کی پائینتی کے ساتھ متصل ہے۔[14]
  • حُدیث: امام حسن عسکری (ع) کی والدہ فوت ہونے کے بعد اپنے گھر یعنی (آستان عسکریین) میں دفن ہوئیں۔[15]
  • حسین بن علی ہادی: حسین بن علی نقی (ع) اپنے زمانے کے زاہد اور عابد اشخاص میں سے تھے اور اپنے بھائی کی امامت قائل تھے۔ وہ بھی اسی حرم میں مدفون ہیں۔[16]
  • جعفر کذاب: جعفر بن امام علی النقی (ع) ابو عبداللّٰه بھی وفات کے بعد اپنے والد کے گھر میں امام علی نقی کے پاس دفن ہوئے۔[17]
  • سمانہ بنت علی: سمانہ یا سمانہ مغربیہ امام علی نقی (ع) کی والدہ امام کے گھر میں اپنے بیٹے کے پاس دفن ہوئیں۔[18]
  • ابو ہاشم جعفری: جعفر طیار کے نواسے اور اسحاق بن عبداللّٰه بن جعفر بن ابی طالب کے فرزند داؤد بن قاسم ہیں۔ ان کی قبر عسکریین کی ضریح کے اندر موجود ہے۔[19]
  • آقا رضا ہمدانی: سامرا میں میرزائے شیرازی کے خاص شاگرد جو ان کی وفات کے بعد مرجع تقلید ہوئے۔

تہہ خانہ یا سرداب غیبت

غیبت کا مقام

عراق کے شہر سامرا کی زیارتگاہوں میں سے ایک شیعہ زیارت سرداب غیبت یعنی غیبت کا تہہ خانہ ہے۔ حرم عسکریین کے شمال غرب میں یہ تہ خانہ واقع ہے کہ جو امام حسن عسکری (ع) کے گھر کا ایک حصہ تھا۔ امام اس میں عبادت کرتے تھے اور ان کے بعد امام زمانہ اس میں رہتے تھے۔ شیعوں کے نزدیک یہ جگہ ایک مقدس مقام کی حیثیت رکھتی ہے۔[20]

دھماکوں کے بعد حرم کا منظر
حرم کے گلدستوں اور گنبد کی تعمیر و مرمت کے بعد کا منظر

پہلے سرادب کا احاطہ زیادہ بڑا نہیں تھا جس کی وجہ سے زائرین کی ایک محدود تعداد اس میں نماز اور زیارت کر سکتی تھی لیکن اب یہ حرم کے احاطے میں ایک بہت بڑی مسجد میں تبدیل ہو چکا ہے کہ جس میں سینکڑوں زائرین ایک وقت میں نماز اور زیارت کر سکتے ہیں۔[21]

شیعوں کے نزدیک یہ تہہ خانہ امام کے رہنے کی جگہ نہیں ہے بلکہ وہ معتقد ہیں کہ امام اس طول غیبت کے دور امام زمان (عج) لوگوں کے اجتماعات میں موجود ہیں اور اس عالم کے امور پر نظارت رکھتے ہیں۔ ان کا یہ عقیدہ نہیں کہ ظہور کے وقت تک امام زمان اس تہہ خانہ میں مخفی ہیں۔ سید محسن امین لکھتے ہیں: یہ ایک باطل خیال ہے کہ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ حضرت مہدی (عج) اس تہہ خانہ میں ہیں اور یہ مقام صرف خدا کے صالح افراد کے متبرک مقامات میں سے ہے اور اس مقام پر ہمارے تین اماموں نے زندگی گزاری ہے۔[22]

تخریب اور دوبارہ تعمیر

22 فروری 2006 عیسوی کو عراق میں ابو مصعب زرقاوی کی سرکردگی میں موجود القاعدہ کے دہشت گروہ کی جانب سے اس حرم میں بم دھماکہ ہوا۔ اس دھماکے میں ایک اندازے کے مطابق 200 کیلوگرام منفجرۂ مواد TNT استعمال ہوا جسے حرم کی عمارت میں منفجر کیا گیا۔ اس دھماکے سے گنبد کا ایک حصہ منہدم ہوا لیکن عمارت کے استحکام کی بدولت گنبد کے پائے، عمارت کا اصلی اسٹریکچر (ڈھانچہ) اور دیواریں سالم رہیں۔

  • دوسرا دھماکہ 13 جون 2007 عیسوی میں ہوا۔ دہشت گرد صبح 3 بجے حرم میں داخل ہوئے۔ حرم کے محافظین سے درگیری کے بعد انہوں نے حرم کی ساری عمارت میں بمب نصب کئے۔ ان بموں کے انفجار سے حرم کا بایاں حصہ اور دائیں طرف کا گلدستہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔

اس حادثے کے بعد حرم کی دوبارہ مرمت اور تعمیر کا کام شروع ہو گیا جو 2015 ء میں مکمل ہوا۔[23]۔ اس گنبد پر 23 ہزار سونے کی اینٹوں سے زیادہ لگی ہوئی ہیں۔ حرم کی ضریح مطہر آیت اللہ سید علی سیستانی کی مدد سے بنائی گئی ہے۔ اس پروجیکٹ میں خرچ ہونے والا 70 کیلو سونا، 4500 کیلو چاندی، 1100 کلوگرام تانبہ اور (300 سال پرانی) 11 ٹن ساگوان کی لکڑی کے تمام اخراجات اس مجتہد کے دفتر نے ادا کئے۔[24] عتبات عالیات کی تعمیرات کے ادارے نے بھی اس کی تعمیر اور مرمت میں حصہ لیا۔[25]

روضہ عسکریین کی ضریح کی تعمیر کا کام سنہ 2009 ء میں ایران میں شروع ہوا اور سنہ 2011 ء میں مکمل ہوا۔ اس ضریح کی تعمیر میں تقریبا 4.5 ٹن چاندی اور 60 کیلو سے زیادہ سونا استعمال ہوا ہے۔ تعمیر کے بعد یہ ضریح 2 فروری 2017 ء میں سامرا منتقل کی گئی اور 24 اپریل 2017 ء میں اس کی رونمائی کی گئی۔[26]

حوالہ جات

  1. قائدان، عتبات عالیات عراق، ص۱۹۳
  2. مقدسی، بازپژوہی تاریخ ولادت و شہادت معصومان(ع)، ص۶۰۵. صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۲، ص۴۷۵.
  3. مقدسی، بازپژوہی تاریخ ولادت و شہادت معصومان(ع)، ص۶۰۵.
  4. نیلفروشان، زمین آسمانی، ص۳۱۵-۳۲۰
  5. آقا جمال، نسخہ خطی شماره ۱۶۳۶۲، ص۲۴۵-۲۴۶ بحوالہ واثقی، ماده تاریخ دو تعمیر حرم عسکریین، ص۱۸۹-۱۹۰.
  6. واثقی، ماده تاریخ دو تعمیر حرم عسکریین، ص۸۱-۸۲.
  7. نیلفروشان، زمین آسمانی، ص۳۱۵-۳۲۰
  8. قائدان، عتبات عالیات عراق، ص۲۰۹۲۰۸
  9. قائدان، عتبات عالیات عراق، ص۲۰۸۲۰۷
  10. قائدان، عتبات عالیات عراق، ص۲۰۸
  11. قائدان، عتبات عالیات عراق، ص۲۰۴۲۰۳
  12. بازسازی حرم امامین عسکریین
  13. مقدس، راہنمای اماکن زیارتی و سیاحتی در عراق، ص۳۰۹
  14. مقدس، راہنمای اماکن زیارتی و سیاحتی در عراق، ص۳۱۰
  15. قائدان، عتبات عالیات عراق، ص۲۰۵
  16. مقدس، راہنمای اماکن زیارتی و سیاحتی در عراق، ص۳۱۰
  17. قائدان، عتبات عالیات عراق، ص۲۰۶
  18. قائدان، عتبات عالیات عراق، ص۲۰۶
  19. قائدان، عتبات عالیات عراق، ص۲۰۶
  20. مقدس، راہنمای اماکن زیارتی و سیاحتی در عراق، ص ۳۱۱۳۱۰
  21. مرقد مطہر امامین عسکریین
  22. علوی، راہنمای مصور سفر زیارتی عراق، ص۴۱۲
  23. حرم عسکریین کی تعمر اور مرمت کا کام مکمل ہو گیا
  24. حرم عسکریین کی تعمیر
  25. سامرا میں عتبات عالیہ کی خدمات
  26. خبر گزاری ابنا- رونمایی از ضریح حرم مطهر امامین عسکریین (ع).

مآخذ

  • قریشی، عبدالامیر، مرقدہا و مکان‌ہای زیارتی کربلا، مشعر، تہران، ۱۳۹۱ش.
  • مقدس، احسان، راہنمای اماکن زیارتی و سیاحتی در عراق، تہران، مشعر، ۱۳۸۸ش.
  • قائدان، اصغر، عتبات عالیات عراق، تہران، مشعر، ۱۳۸۷ش.
  • صحتی سردرودی، محمد، گزیده سیمای سامرا سینای سہ موسی، مشعر، تہران، ۱۳۸۸ش.
  • مقدسی، یدالله، بازپژوہی تاریخ ولادت و شہادت معصومان (ع)، قم، پژوہشگاه علوم و فرہنگ اسلامی، ۱۳۹۱ش.
  • صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، قم، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۹۵ق.
  • واثقی، حسین، ماده تاریخ دو تعمیر حرم عسکریین در سال ۱۱۰۹ق و در حدود ۱۲۰۰ق، مجلہ میراث شہاب، سال بیست و یکم، شماره۸۱-۸۲، پاییز و زمستان ۱۳۹۴ش.

بیرونی روابط