پنجتن آل عبا

ویکی شیعہ سے
مصلائے امام خمینی تہران میں کاشی معرق پر پنج تن کے نام خط ثلث میں، احمد عبد الرضایی

پنجتن، پنجتن آل عبا یا پنجتن پاک (الخمسة الطيبة) حضرت محمّد، حضرت علی، حضرت فاطمہ، امام حسن اور امام حسین علیہم السّلام کا عنوان ہے؛ جس کی بنیاد ان پانچ افراد کے درمیان مشترکہ مقامات و فضائل ہیں، وہ فضائل جن کی بنا پر ـ "شیعہ" امامیہ کے نزدیک ـ یہ پانچ ذوات مقدسہ 14 صاحبان عصمت و طہارت کے درمیان ممتاز ہوجاتے ہیں؛ وہ آل عبا اور آل کساء یا اصحاب کساء اور خمسۂ طیبہ کے ناموں سے بھی مشہور ہیں۔

پنجتن آل عبا کے فضائل قرآن کی روشنی میں

قرآنی آیات اور احادیث نبوی میں پنجتن کا عنوان آیت تطہیر سے اخذ کیا گیا ہے۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب حضرت محمد(ص) اور اہل بیت(ع) آپ(ص) کی عبا (یا کساء) کے نیچے جمع ہوئے تھی۔ شیعہ مفسرین نیز بہت سے سنی مفسرین کی رائے ہے کہ اہل بیت رسول(ص) کا اطلاق صرف حضرت فاطمہ(س)، ان کے شوہر اور دو بیٹوں پر ہوتا ہے جنہیں مذکورہ آیت میں ہر گناہ اور پلیدی سے پاک قرار دیا گیا ہے۔ "آل عبا" اور "اصحاب کساء" یا "آل کساء" کے عناوین اسی تناظر میں وارد ہوئے ہیں۔

"إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا"
ترجمہ: اللہ کا بس یہ ارادہ ہے کہ تم لوگوں سے ہر گناہ کو دور رکھے اے اس گھر والو! اللہ تمہیں پاک رکھے جو پاک رکھنے کا حق ہے۔[1]

قرآن کی دوسری آیات کریمہ سے بھی پنجتن آل عبا کی فضیلت ثابت ہے مثلا:

"فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ۔"
ترجمہ: چنانچہ اب آپ کو علم (اور وحی) پہنچنے کے بعد، جو بھی اس (عیسی(ع)) کے بارے میں آپ سے کٹ حجتی کرے، تو کہہ دیجیے کہ آؤ! ہم اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں، اور اپنی عورتوں اور تمہاری عورتوں، اور اپنے نفسوں کو اور تمہارے نفسوں کو، بلالیں، پھر التجا کریں اور اللہ کی لعنت قرار دیں جھوٹوں پر۔[2]

اس آیت کریمہ میں علی(ع) کو رسول اللہ(ص) کا نفس (یا آپ(ص) کی جان)، حضرت فاطمہ(س) کو خاندان رسول(ص) کی برگزیدہ خاتون اور حسن و حسین علیہما السلام کو رسول خدا(ص) کے فرزندوں، کے عنوان سے متعارف کرایا گیا:

علی(ع)، فاطمہ(س)، حسن اور حسین نے تین دن مسلسل روزہ رکھا اور تینوں روزوں کا افطار مسکین، یتیم اور اسیر کو عطا کیا تو مذکورہ آیات نازل ہوئیں اور ان کے اخلاص و ایثار کی تعریف و تمجید کی گئی۔ [آیات کریمہ صفحے کی بائیں سمت ملاحظہ ہوں]

"قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى وَمَن يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهُ فِيهَا حُسْناً إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَكُورٌ۔"
ترجمہ: (اے میرے رسول!) کہئے کہ میں تم سے اس (رسالت کے عوض) پر کوئی معاوضہ (اور مزد و اجرت) نہیں مانگتا سوا (میرے) قرابت داروں (اور اہل خاندان) کی محبت کے اور جو کوئی نیک کام کرے گا ہم اسے اس میں بھلائی اور زیادہ عطا کریں گے، یقینا اللہ بڑا بخشنے والا ہے، قدردان۔[3]

عامہ اور خاصہ کے مفسرین کے مطابق اس آیت میں ذوی القربٰی (رسول اللہ(ص) کےاقرباء) کا مصداق علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام ہیں اور ان کی مودت رسول خدا(ص) کی رسالت کا اجر قرار دی گئی ہے۔

"مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ" (19) "بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيَانِ" (20)"فَبِأَيِّ آلَاء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ"(21) "يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ" (22)۔
ترجمہ: اس نے دو دریاؤں کو جاری کیا اس طرح کہ وہ دونوں اکٹھا کیے (19) ان کے درمیان ایک حد فاصل ہے کہ وہ دونوں آگے نہیں بڑھتے (20) کس نعمت کو اللہ کی تم دونوں جھٹلاؤ گے (21) نکلتے ہیں ان میں سے بڑے چھوٹے موتی۔ (22)

ان آیات میں علی اور فاطمہ علیہما السلام کو دو سمندر قرار دیا گیا ہے جن کے درمیان رسول اللہ(ص) برزخ کی مانند ہے اور حسن اور حسین علیہما السلام لؤلؤ و مرجان ہیں جو ان دو سمندروں کے اکٹھا ہونے سے معرض خلقت میں آتے ہیں۔[4]

"فَتَلَقَّى آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ۔"
ترجمہ: اس کے بعدآدم نے اپنے پرور دگار سے کچھ کلمات سیکھ لیے تو اس نے ان کی توبہ قبول کرلی۔

اہل سنت اور شیعہ کے بعض مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے "کلمات" سے مراد پنجتن آل عبا کے اسماء گرامی ہیں اور حضرت آدم(ع) نے خمسۂ طیبہ کے انوار سے توسل کیا اور ان کے ان کے اسماء کے صدقے اللہ سے التجا اور توبہ کی تو خداوند متعال نے ان کی توبہ قبول کرلی۔[5]۔[6] بعض روایات میں [7] مختصر سے اختلاف کے ساتھ، اشارہ ہوا ہے کہ ان کے نام (یعنی محمّد، علی، فاطمہ، حسن اور حسین) اللہ تعالی کے اسماء حسنی (یعنی محمود، حمید، علی و عالی و اعلی، فاطر و فاطم، محسن و ذوالاحسان اور ذوالاسماء الحسنی) سے مشتق ہوئے ہیں۔

"وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَاماً قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي قَالَ لاَ يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ۔"
ترجمہ: اور وہ وقت جب ابرہیم کا ان کے پروردگار نے چند باتوں کے ساتھ امتحان لیا اور انہوں نے ان باتوں کو پورا کر دیا تو ارشاد ہوا کہ میں تمہیں خلق خدا کا امام بناتا ہوں۔ انہوں نے کہا اور میری اولاد میں سے؟ارشاد ہوا کہ میری طرف کا عہد ظالموں تک نہیں پہنچے گا۔

اس آیت کریمہ کی تفسیر میں كَلِمَاتٍ کو پنجتن سے اور فَأَتَمَّهُنَّ" کو امام حسین(ع) کی نسل سے 9 ائمہ(ع) سے، تاویل کیا گیا ہے اور علاوہ ازیں آل عبا کی شان میں متعدد فضائل و مناقب بیان کئے گئے ہیں۔[8]

"قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَن تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ أَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنتَ مِنَ الْعَالِينَ۔"
ترجمہ: فرمایا اے ابلیس ! کونسا امر تجھے مانع ہوا اس سے کہ تو سجدہ کرے اسے جسے میں نے خود اپنی قدرت خاص سے پیدا کیا ہے؟ تو کیا تو نے گھمنڈ سے کام لیا ہے یا تو واقعی اونچے رتبے والے افراد میں سے تھا۔

اس آیت کریمہ میں " اَلْعَالِينَ" (اونچے رتبے والے افراد) کو خمسۂ طیبہ سے تاویل کیا گیا ہے۔[9].

عامہ اور خاصہ کی روایات میں بیان ہوا ہے کہ بہت سی آیات اہل بیت(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہیں اور ذیل کی چند آیات کریمہ ان ہی میں سے ہیں:

"وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَـئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاء وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقاً۔"
ترجمہ:

اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا تو یہ لوگ ان کے ساتھ ہوں گے جنہیں اللہ نے اپنی نعمتوں سے نوازا ہے، انبیاء، صدیقین، شہیدان راہ خدا اور صالحین اور یہ بہت ہی اچھے رفیق ہیں۔

"أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللّهُ مَثَلاً كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاء۔"
ترجمہ: کیا تم نے نہیں دیکھا کیسی مثال قرار دی ہے اللہ نے اچھے کلمہ کی؟ مثل اچھے درخت کے جس کی جڑ قائم ہو اور شاخ آسمان سے باتیں کر رہی ہو۔
"وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلاَّ رِجَالاً نُّوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ۔"
ترجمہ: اور ہم نے نہیں بھیجا آپ کے پہلے مگر آدمیوں ہی کو جن کی جانب ہم وحی بھیجتے تو پوچھ لو یادداشت رکھنے والوں سے اگر تم نہیں جانتے۔
"وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقاً نَّحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى۔"
ترجمہ: اور اپنے والوں کو نماز کا حکم دو اور اس پر صبر و برداشت کے ساتھ برقرار رہو۔ ہم تم سے روزی نہیں مانگتے ہم ہی تمہیں روزی پہنچاتے ہیں اور انجام کی بہتری پرہیز گاری سے وابستہ ہے۔
"وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَاماً۔"
ترجمہ: اور وہ جو کہتے ہیں کہ پروردگار! ہمیں عطا کرنا ہماری بیویوں اور بچوں کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک اور ہمیں پرہیز گاروں کا پیش رو بنا۔
"فَرَاغَ إِلَى أَهْلِهِ فَجَاء بِعِجْلٍ سَمِينٍ (26) فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ قَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ" (27)۔
ترجمہ: تو اپنے گھر والوں کے پاس گئے اور ایک موٹے تازے بچھڑے کے کباب (26) لا کر ان کے پاس رکھے کہا کیوں؟ آپ لوگ کھاتے نہیں؟ (جب انہوں نے اس کے بعد بھی کچھ نہ کھایا) (27)
"وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُم مِّنْ عَمَلِهِم مِّن شَيْءٍ كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌ۔"
ترجمہ: اور جو ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ان کے ساتھ ان کی پیروی کی۔ ہم نے ان کی اولاد کو ان سے ملا دیا اور ان کے اعمال میں کچھ بھی کمی نہیں کی۔ ہر آدمی اپنے اعمال کے ساتھ گروی ہے۔
"وَالَّذِينَ تَبَوَّؤُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِن قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ۔"
ترجمہ: اور وہ جو پہلے سے اس دیار میں قیام کئے ہوئے تھے اور ان کے (آنے سے) پہلے ایمان لائے تھے، وہ محبت رکھتے ہیں ان سے جو ہجرت کر کے ان کی طرف آتے ہیں اور وہ اپنی بستیوں کے اندر رشک وحسد محسوس نہیں کرتے اس سے جو انہیں دیا گیا ہے اور اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں چاہے وہ ضرورت مند ہوں اور جو اپنی نفسانی تنگدستی سے بچا رہے تو یہی لوگ دین ودنیا کی بہتری حاصل کرنے والے ہیں۔[10].

پنجتن کے فضائل احادیث کی روشنی میں

سجدہ گاہ پر خدا اور پنج تن کے اسامی

قرآنی آیات کے علاوہ عامہ اور خاصہ کی کتب حدیث میں بھی پنجتن کے مناقب کے لئے مستقل ابواب مختص کئے گئے ہیں۔ [11] بعض روایات میں ہے کہ جبرائیل کو اصحاب کساء کے ساتھ چھٹا فرد قرار دیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے اور پنجتن کے تذکرے کے بعد فرمایا گیا ہے: جَبْریلُ سادِسُنا۔[12] متعدد روایات میں پنجتن کی فضیلت ان کی محبت اور اطاعت اور ان کی دنیاوی اور اخروی منزلت و مرتبت بیان ہوئی ہے اور اس سلسلے میں مختلف قسم کی عبارات بروئے کار لائی گئی ہیں۔[13]

اہل بیت(ع) کے کلمات، مناظرات و مباحثات اور خطبات میں پنجتن کے احترام، ان کی عظمت پر افتخار و اعتزاز پایا جاتا ہے۔ بہت سے مناشدات اور فخریہ انداز سے اپنا تعارف کراتے ہوئے ائمۂ اطہار(ع) نے خمسۂ طیبہ کے اسماء گرامی سے استناد کیا ہے اور ان کو اہل بیت(ع) کی خاندانی شرافت اور حسب نسب کا معیار سمجھتے ہیں۔[14].

دوسرے ائمہ(ع) پر پنجتن کی برتری

چودہ معصومین(ع) کے درمیان پجتن کی برتری اور فوقیت کلام معصومین(ع) علائم و قرائن سے ثابت ہوتی ہے۔ یہ قرائن خمسۂ طیبہ کے لئے مختص اوصاف و خصوصیات اور ان کے مشترکہ مناقب ہیں؛ دعاؤں اور زیارات میں امام حسین(ع) کو "خاتم پنجتن آل عبا"، "خامس اصحاب کساء"، اور "خامس آل عبا" جیسے عناوین و القاب دیئے گئے ہیں؛[15] چنانچہ، آپ(ع) نے سنہ 61 ہجری میں شہادت پائی تو اس واقعے کو پورے پنجتن کی وفات کے عنوان سے عظیم ترین مصیبت قرار دیا گیا ہے۔[16]

پنجتن کے درمیان بھی فضیلت اور برتری کی ترتیب کسی حد تک واضح ہے۔ امر مسلّم ہے کہ رسول اللہ(ص) پنجتن کے باقی ارکان پر فضیلت رکھتے ہیں جبکہ امیرالمؤمنین(ع) حضرت فاطمہ(س) اور حسن و حسین علیہما السلام پر فضیلت و برتری رکھتے ہیں۔[17] اور اس بات میں اختلاف ہے کہ کیا حضرت فاطمہ(س) حسن و حسین علیہما السلام سے افضل ہیں یا حسن و حسین علیہما السلام حضرت فاطمہ(س) پر برتری رکھتے ہیں۔[18].

متعلقہ مآخذ

حوالہ جات

  1. سورہ احزاب آیت 33۔
  2. سورہ آل عمران آیت 61۔
  3. شوری:23۔
  4. شوشتری، احقاق الحق ج3، ص274ـ279، ج9، ص107ـ109۔مجلسی، بحار الانوار ج24، ص97ـ99، ج37، ص64، 73، 96۔سیوطی اور طبرسی، مذکورہ آیات کے ذیل میں۔
  5. شوشتری، ج3، ص76ـ80، ج5، ص11، ج9، ص102ـ105۔
  6. مجلسی، ج26، ص323ـ 328، 333۔حسینی فیروزآبادی، ج1، ص205۔امینی، ج7، ص300ـ301۔طبرسی؛ بحرانی؛ ابوالفتوح رازی، ذیل آیه۔
  7. شوشتری، ج5، ص4۔مجلسی، ج15، ص9، 14ـ15، ج25، ص6، ج26، ص327ـ 328، ج37، ص47، 62ـ63۔امینی، ج2، ص300ـ301۔
  8. بحرانی؛ طبرسی، ذیل آیت ابتلائے ابراہیم(ع)۔ شوشتری، ج3، ص79، ج5، ص262ـ265، ج7، ص180ـ 183، ج18، ص344ـ347۔مجلسی، ج25، ص2ـ3، 6، 16ـ 17، ج26، ص273، 311ـ312، 323ـ327، 343۔حسینی فیروزآبادی، ج1، ص207. امینی، ج2، ص300ـ301۔قندوزی، ج1، ص290۔
  9. بحرانی، ص75 ذیل آیت۔[گویا استفہام انکاری ہے]۔ مجلسی، ج25، ص2، ج26، ص346ـ 347۔
  10. رجوع کنید به شوشتری، ج3، ص482ـ483، 542، 560، ج14، ص375، 389ـ391، 542، 550، 591 ـ593، 637، 682۔مجلسی، ج25، ص16، 30، 220، 241، ج37، ص83۔
  11. حسینی فیروزآبادی، ج1، ص264ـ311۔شوشتری، ج5، ص3ـ4، 11ـ22، 45ـ 46، ج18، ص384 اور بعد کے صفحات۔مجلسی، ج37، ص35ـ107۔
  12. قندوزی، ج1، ص323۔مجلسی، ج42، ص63، ج43، ص49۔
  13. مجلسی، ج37، ص36ـ37، 47، 64ـ65، 75، 78، 84 ـ 85۔حسینی فیروزآبادی، ج1، ص300، ج2، ص78، ج3، ص133، 139ـ 141۔امینی، ج2، ص300ـ 301۔شوشتری، ج5، ص20، 53، 90، ج18، ص348ـ355۔تفسیر آیت مودت زمخشری، کشاف۔قندوزی،ینابیع المودہ، ج2، ص68، 297۔
  14. شوشتری، ج5، ص28ـ29، 31ـ32، 39۔مجلسی، ج33، ص184، ج37، ص48، 66، ج45، ص138۔امینی، ج1، ص160، 209۔
  15. مجلسی، ج45، ص250، ج98، ص179، 196، 235، 313، 318، 360۔
  16. مجلسی، ج44، ص269ـ270، ج45، ص2، 88۔مجلسی، ج65، ص130، ج97، ص205، 302، 373۔
  17. مجلسی، ج26، ص272، ج37، ص75، 87، ج39، ص90ـ92۔
  18. آقا بزرگ طهرانی، الذریعہ، ج4، ص359۔میرزای قمی، جامع الشتات، ج2، ص785۔مجلسی، ج43، ص264، ج45، ص3۔

مآخذ

  1. قرآن، اردو ترجمہ: سید علی نقی نقوی۔
  2. محمد محسن آقا بزرگ طہرانی، الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ، چاپ علی نقی منزوی و احمد منزوی، بیروت 1403/1983۔
  3. ابو الفتوح رازی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، چاپ محمد جعفر یاحقی و محمد مهدی ناصح، مشہد 1365ـ1375 شمسی۔
  4. عبد الحسین امینی، الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب، بیروت 1387/1967۔
  5. ہاشم بن سلیمان بحرانی، البرہان فی تفسیر القرآن، قم، بی تا ۔
  6. مرتضی حسینی فیروز آبادی، فضائل الخمسۃ من الصحاح الستۃ، بیروت 1402/ 1982۔
  7. عبد الرحمان بن ابی بکر سیوطی، الدرّ المنثور فی التفسیر بالمأثور، بیروت، بی تا۔
  8. نورالله بن شریف الدین شوشتری، احقاق الحق و ازہاق الباطل، با تعلیقات شہاب الدین مرعشی، چاپ محمود مرعشی، قم 1377 شمسی۔
  9. فضل بن حسن طبرسی، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، چاپ ہاشم رسولی محلاتی و فضل الله یزدی طباطبائی، بیروت 1408/1988۔
  10. محمد بن عمر فخر رازی، التفسیر الکبیر، قاہره، بی تا، چاپ افست تہران ] بی تا۔
  11. سلیمان بن ابراہیم قندوزی، "ینابیع المَودَّةِ لِذَویِ القُربی"، چاپ علی جمال اشرف حسینی، قم 1416۔
  12. محمد باقر بن محمد تقی مجلسی، بحار الانوار، بیروت 1403/1983۔
  13. ابو القاسم بن محمد حسن میرزای قمی، جامع الشتات، چاپ سنگی تہران 1277۔
  14. میرزا محمد تقی سپہر لسان‌الملک، ناسخ التواريخ، سيد الشہداء طبع اسلاميہ۔