امام حسین علیہ السلام کا روضہ، امام حسینؑ اور بعض بنی ہاشم و کربلا میں امامؑ کے اعوان و انصار کے دفن ہونے کا مقام ہے۔ جو 10 محرم سنہ 61 ہجری میں عبید اللہ بن زیاد کے لشکر سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ مختار ثقفی نے امام حسینؑ کی قبر پر پہلی بناء رکھی اور بعد کے ادوار میں اہل بیتؑ کے چاہنے والوں اور شیعوں نے خاص طور پر سلاطین اور بادشاہوں نے اس روضہ کی باز سازی اور تعمیر و توسیع کے سلسلہ میں خاص اہتمام کئے۔ یہ روضہ دشمنوں کی طرف سے جن میں خلفاء عباسی اور وہابی شامل ہیں، متعدد بار خراب کیا جا چکا ہے۔ جن میں سے امام حسینؑ کے روضہ کی سب سے زیادہ تخریب متوکل کے زمانہ میں ہوئی اور اس سلسلہ کی آخری کڑی سن 1411 ھ میں بعثی حکومت کی طرف سے عراقی عوام کے انتفاضہ شعبانیہ کے وقت پیش آئی۔

روضہ امام حسینؑ
معلومات
مکانکربلا  عراق
مختصات جغرافیایی۳۲°۳۷′۰۱″ شمالی ۴۴°۰۱′۵۷″ شرقی / ۳۲٫۶۱۶۸۷۸° شمالی ۴۴٫۰۳۲۳۹۶° شرقی / 32.616878; 44.032396
تأسیسپہلی صدی ہجری
معماری
گنبد1
گنبد کی اندرونی بلندی37 میٹر
مینار2
منیار کی بلندی25 میٹر
ویب سائٹالعتبۃ الحسینۃ المقدسۃ


روضۂ امام حسینؑ

امام حسین علیہ السلام کے روضہ کی زیارت کرنا ایسا عمل ہے جو ہمیشہ شیعوں کی توجہ کا باعث رہا ہے اور جس پر شیعہ ائمہ کی احادیت میں تاکید کی گئی ہے۔ زیارت کرنے والوں کی سب سے زیادہ تعداد عاشورا و اربعین اور نیمہ شعبان کے مواقع پر امام حسین علیہ السلام کے روضہ میں جمع ہوتی ہے۔ شیعہ فقہ میں امام حسینؑ کے حرم اور ان کی تربت کے سلسلہ میں مخصوص احکام بیان ہوئے ہیں۔

امام حسین علیہ السلام

حسین بن علی بن ابی طالب علیہ السلام، شیعوں کے تیسرے امام، امام علیؑ و حضرت فاطمہ زہرا (س) کے دوسرے فرزند اور نواسہ رسول (ص) ہیں، جن کی کنیت ابا عبد اللہ ہے۔ آپ 10 محرم سنہ 61 ہجری میں اپنے اصحاب کے ساتھ یزید بن معاویہ کے ذریعہ سے شہادت پر فائز ہوئے۔[1]

تاریخچہ

امام حسینؑ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد، بنی اسد کے ایک گروہ نے آپ کے اور آپ کے اصحاب کے جنازوں کو ان کی شہادت کے مقام پر دفن کیا۔ اور اس وقت آپ کی قبر کو عوام کی زیارت کے لئے محض لحد کی شکل میں بنا دی گئی تھی۔[2]

اولین تعمیر

جس وقت مختار ثقفی نے شعبان سنہ 65 ھ میں اپنے قیام میں جو انہوں نے امام حسین علیہ السلام کے خون کا انتقام لینے کے لئے کیا تھا، کامیابی حاصل کر لی تو انہوں نے امام حسین علیہ السلام کی قبر پر ایک بناء تعمیر کرائی اور اس پر اینٹوں سے گنبد بنوایا۔ اپنی حکومت کے دور میں مختار پہلے انسان تھے جنہوں نے آپ کی قبر پر ضریح اور بناء تعمیر کرائی۔ جس میں انہوں نے ایک مسقف عمارت اور ایک مسجد بنوائی اور مسجد میں دو دروازہ قرار دیئے، جس میں ایک مشرق کی جابب اور دوسرا مغرب کی سمت کھلتا تھا۔[3]

چونکہ شیعہ کثرت سے امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے جاتے تھے، ہارون عباسی نے بعض لوگوں کو بھیجا کہ وہ آپ کے روضہ کو خراب کر دیں۔ ہارون کے کارندوں نے اس مسجد کو جس میں امام حسین علیہ السلام کا روضہ بنایا گیا تھا اور اسی طرح سے اس مسجد کو جس میں ابو الفضل العباس کا روضہ بنایا گیا تھا، تباہ کر ڈالا۔ اور اسی طرح سے ہارون نے ان سے کہا تھا کہ امام حسین علیہ السلام کی قبر کے پاس جو سدر کا درخت لگایا گیا ہے اسے کاٹ دیں اور قبر کے مقام کو زمین کے برابر کر دیں اور ان لوگوں ایسا ہی کیا۔[4]

دوسری بناء

جس وقت مامون عباسی نے زمام خلافت کو اپنے اختیار میں لیا، تمام عباسی اس کے مقابلہ میں کھڑے ہوگئے اور اس نے اپنی حکومت کو مضبوط کرنے اور خود کو عباسیوں کی مخالفت سے بچانے کے لئے، علی علیہ السلام کی اولاد اور شیعوں کا سہارا لیا اور ان سے نزدیکی بڑھانا شروع کر دی اور اسی وجہ سے اس نے امام رضا علیہ السلام کو اپنا ولی عہد معین کیا۔ مامون نے سنہ 193 ھ میں حکم دیا کہ امام حسین علیہ السلام کی قبر کی باز سازی کی جائے اور شیعوں کو اجازت دی گئی کہ وہ اپنے اماموں کی زیارت کے لئے جا سکتے ہیں۔

مامون کے دور میں امام حسین علیہ السلام کی قبر پر ایک بناء تعمیر کرائی گئی اور یہ عمارت سنہ 232 ھ تک یعنی متوکل کے زمانہ تک باقی رہی۔ جب متوکل نے قدرت حاصل کی تو اس نے شیعوں پر سختی شروع کر دی اور ان پر زمین کو تنگ کر دیا، اس نے علویوں کا پیچھا کرنے کا حکم صادر کر دیا اور انہیں امام حسین علیہ السلام کے روضہ کی زیارت سے روک دیا۔ اس نے شیعوں کو زیارت سے روکنے کے لئے جگہ جگہ چوکیاں بنا دیں، اس نے اپنی حکومت کے تمام پندرہ برسوں میں اس چیز پر سختی کی اور اس نے اس پابندی کو جاری رکھنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس نے حکم دیا کہ اس روضہ کو مسمار کر دیا جائے اور اس مقام پر پانی چھوڑ دیا جائے۔[5]

تیسری بناء

منتصر عباسی سنہ 247 ھ کے اواخر میں کرسی خلافت پر بیٹھا اور اس نے حکم دیا کہ امام حسین علیہ السلام کے روضہ پر گنبد بنایا جائے۔ اس طرح سے اس خلیفہ نے بعض اموال علویوں کو حوالہ کئے اور انہیں امام حسین (ع) کی زیارت کی طرف دعوت دی۔ اس کی اس نرمی کی وجہ سے ایک گروہ نے کربلا کی طرف ہجرت کر لی۔ جس عمارت کو منتصر نے تعمیر کرایا وہ سنہ 273 ھ تک یعنی متعضد عباسی کے دور خلافت تک باقی رہی۔[6]

چوتھی بناء

9 ذی الحجہ 273 ھ میں اس وقت جب زائرین روز عرفہ امام حسین علیہ السلام کے روضہ میں جمع تھے، اس عمارت کو جو منتصر نے بنوائی تھی، ان کے سروں پر خراب کر دیا گیا، جس کے نتیجہ میں بعض افراد جاں بحق ہو گئے۔ اس کے بعد 10 سال تک امامؑ کا روضہ اسی طرح سے بغیر تعمیر کے رہا، یہاں تک کہ داعی صغیر نے حکومت اپنے ہاتھ میں لی۔ اس نے امام علیؑ اور امام حسینؑ کی قبروں پر مناسب عمارت تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ اس بناء کی تاریخ سنہ 279 سے 289 ھ تک بنتی ہے۔ داعی صغیر نے جو روضہ کربلا میں تعمیر کرایا تھا اس میں ایک بلند گنبد اور دو دروازے شامل تھے اور ان دونوں دروازوں کے درمیان ایک چھت قرار دی گئی تھی۔ اس نے اسی طرح سے امام حسین علیہ السلام کے روضہ اور اس کے اطراف میں شامل گھروں کے درمیان موجود احاطہ کی باز سازی کرائی۔[7]

پانچویں بناء

مطیع عباسی کے بیٹے طائع کی خلافت کے دوران، عضد الدولہ بویہی نے بغداد کی حکمرانی کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ اس نے اپنے پنج سالہ دور حکومت میں ایک بار جمادی الاول 371 ھ میں کربلا کی زیارت کی اور اس نے امام حسین علیہ السلام کے روضہ کے لئے اوقاف معین کئے اور حرم کی تجدید نو کا حکم دیا۔ اسی طرح سے اس نے اپنی زیارت کے دوران عوام اور زائرین کو تحفے عطا کئے اور حرم کے صندوق میں کچھ رقم عطا کی۔ عضد الدولہ نے عمارت کی تجدید نو علاوہ اس کی تزئین میں بھی حصہ لیا، اور اس نے ضریح کے اطراف میں رواق بھی تعمیر کرائے۔ ضریح ساج و دیبا کے ذریعہ ضریح کی آرائش کی اور اس پر لکڑی کی جالی بنوائی اور حرم میں روشنی و نور کی غرض سے چراغ دانوں اور شمع دانوں کو ہدیہ کیا۔ عضد الدولہ کی یہ توجہ کربلا کی دینی، سماجی اور تجارتی ترقی اور پیشرفت کا سبب بنی۔ نجف اشرف میں امام علی علیہ السلام کے روضہ میں موجود عمران بن شاہین کے نام سے مشہور رواق اور اسی طرح سے وہ مسجد جو امام حسین (ع) کے حرم میں مغرب کی سمت بنی ہوئی ہے وہ اسی زمانہ میں تعمیر کی گئی ہے۔

معز الدولہ بویھی نے سنہ 369 ھ میں واسط کے قریب بطیح نامی جگہ کی گورنری عمران بن شاہین کے سپرد کی اور عمران بن شاہین نے نجف میں مسجد اور رواق کی تعمیر کا کام شروع کر دیا اور اسی طرح سے اس نے کربلا و کاظمین میں بھی مسجد اور رواق کی تعمیر کا کام شروع کرا دیا۔ جس رواق کو عمران بن شاہین نے تعمیر کرایا تھا وہ سید ابراہیم بن مجاب کے نام سے مشہور ہوا اور مسجد جو اس رواق کے بغل میں بنائی گئی تھی وہ سلاطین صفوی کی حکومت کے دور تک باقی تھی اور اس زمانہ میں ایک فتوی کے مطابق اس مسجد کو امام حسین (ع) کے حرم کے صحن سے ملحق کرنے کا جواز پیدا کیا گیا، اور حرم کی توسیع و باز سازی میں اسے صحن کا حصہ قرار دے دیا گیا۔ البتہ اس مسجد کا ایک حصہ آج بھی امام حسینؑ کے حرم کے جزء کے عنوان سے باقی ہے اور آج وہ حرم کے قالینوں کے اسٹور کے طور پر استعمال ہوتا ہے جو ایوان ناصری کے نام سے معروف ایوان کی پشت پر واقع ہے۔


امام حسین علیہ السلام کے روضہ میں آگ زنی

سنہ 407 ھ میں ایک شب حرم میں روشن ہونے والی دو بڑی شمعیں، جن سے حرم میں روشنی ہوتی تھی، فرش کے اوپر گر گئیں، جس سے پہلے پردوں اور غلافوں میں آگ لگنا شروع ہوئی اور پھر وہ رواق اور گنبد تک پہچ گئی، اس آگ سے فقط حرم کی دیواریں، اس کے کچھ دوسرے حصہ اور مسجد عمران بن شاہین ہی محفوظ رہ سکیں۔[8]

چھٹی بناء

حسن بن مفضل بن سہلان نے قدرت اپنے اختیار میں لینے کے بعد امام حسین علیہ السلام کے روضہ کی باز سازی کی، جس میں اس نے حرم، گنبد اور رواق کے ان حصوں کو پھر سے بنایا جو آتش کی نذر ہو چکے تھے۔ اس نے سنہ 412 ھ میں حرم کے گنبد کی تجدید نو کے ساتھ آگ سے متاثر جگہوں کو ٹھیک کرایا اور حکم دیا کہ حرم کے گرد ایک چار دیواری بنائی جائے۔[9]

ساتویں بناء

سنہ 620 ھ میں محمد بن عبد الکریم جندی نے ناصر الدین اللہ کی حکومت میں وزارت کا عہدہ حاصل کیا۔ اس نے اپنی وزارت کے دوران حرم کے ان حصوں کی ترمیمم، تجدید نو اور باز سازی میں حصہ لیا جو ویران ہو چکے تھے اور اس نے حرم کی دیواروں اور چاروں رواق میں ساج کی لکڑی سے غلاف چڑھایا، اور ایک لکڑی کی ضریح جس پر دیبا اور حریر کے کپڑوں سے تزئین کی گئی تھی، قبر کے اوپر رکھوائی۔[10]

آٹھویں بناء

اویس بن حسن جلائری نے سنہ 767 ھ میں مسجد اور حرم کی بنائ کی باز سازی کرائی اور ضریح کے اوپر ایک نیم دائرہ گنبد تعمیر کرایا۔ یہ گنبد امامؑ کی قبر کے چارو اطراف میں چار طاقوں پر استوار تھا اور ان طاقوں میں سے ہر ایک کا باہری حصہ حرم کے ایک رواق پر مشتمل تھا۔ ایک بلند گنبد ان چار طاقوں کے اوپر بنایا گیا تھا اور اس نے جدید معماری نمونہ تشکیل دیا تھا۔ یہ تعمیر جو اویس کے بیٹوں میں سے ایک احمد نے سنہ 786 ھ میں مکمل کرائی؛ اس طرح سے تھی کہ اگر کوئی باہر باب القبلہ کی طرف کھڑا ہو جائے تو وہ سارا حرم، گنبد اور ضریح کو مکمل طور پر دیکھ سکتا تھا اور اس کے علاوہ زائرین کے لئے قبر کی طواف کا موقع بھی میسر تھا۔

احمد بن جلائری نے صحن کے سامنے کے ایوان کو جو ایوان طلا کے نام سے مشہور ہے، اور اسی طرح سے صحن کی مسجد کو جسے مربع شکل میں حرم کے اطراف میں قرار دیا گیا ہے، تعمیرا کرایا۔ اور رواقوں اور حرم کے اندرونی حصوں کی تزئین، آئینہ کاری، نقش و نگار اور کاشانی کاشی کاری کے ذریعہ کرا کر طبیعی مناظر تخلیق کرنے کا اہتمام کیا۔ احمد جلائری کے حکم کے مطابق حرم کے دونوں گل دستوں کو بھی کاشان کے زرد پتھروں سے آراستہ کیا گیا۔[11]

صفوی دور میں

 
امام حسین(ع) کے روضہ کی ایک قدیم تصویر

سنہ 914 ھ میں شاہ اسماعیل صفوی نے بغداد کو فتح کیا اور اس کے دو دن وہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے گیا اور حکم دیا کہ ضریح کے کناروں کی طلا کاری کی جائے۔ اسی طرح سے اس نے روضہ کے لئے بارہ طلائی چراغ دان ہدیہ کئے۔ سنہ 920 ھ میں شاہ اسماعیل دوسری بار زیارت کے لئے کربلا آیا اور اس نے حکم دیا کہ ضریح کے لئے ساگوان کی لکڑی کا ایک صندوق بنایا جائے۔ سنہ 932 ھ میں شاہ اسماعیل دوم نے چاندی سے بنی ہوئی ایک خوب صورت جالی دار ضریح امام حسین کے حرم میں ہدیہ کی۔ سنہ 983 ھ میں علی پاشا جس کا لقب وند زادہ تھا، نے گنبد کی تجدید بناء کی۔ سنہ 1032 ھ میں شاہ عباس صفوی نے ضریح کے لئے ایک پیتل کا صندوق بنوایا اور گنبد کو بھی کاشانی پتھروں سے مزین کرایا۔ سنہ 1048 ھ میں سلطان مراد چہارم نے جو عثمانی سلاطین میں سے تھا، کربلا کی زیارت کی اور اس نے حکم دیا کہ گنبد کو باہر سے گچ سفید کیا جائے۔[12]

نادر شاہ کے دور میں

سنہ 1135 ھ میں نادر شاہ کی بیوی نے امام حسین علیہ السلام کے حرم کے متولیوں کے اختیار میں بہت سارا مال دیا اور حکم دیا کہ اس سے حرم میں بڑے پیمانے پر نو سازی کا کام کیا جائے۔ سنہ 1155 ھ میں نادر شاہ نے کربلا کی زیارت کی اور حکم دیا کہ موجودہ عمارت کی تزئین کی جائے اور اسی طرح سے اس نے حرم کے گنجینہ کے لئے بیحد قیمتی تحفے عطا کئے۔[13]

قاجار کے دور میں

سنہ 1211 ھ میں آقا محمد خان قاجار نے گنبد کو سونے سے آراستہ کرنے کا حکم دیا۔ سنہ 1216 ھ میں وہابیوں نے کربلا پر حملہ کر دیا اور ضریح اور رواق کو ویران کر ڈالا اور حرم کے خزانے میں موجود تمام نفیس اشیاء اٹھا لے گئے۔ سنہ 1227 ھ میں حرم کی عمارت فرسودگی کا شکار ہو چکی تھی لہذا کربلا کے عوام نے فتح علی شاہ قاجار کو خط لکھا اور گنبد کی فرسودگی کی اطلاع دی۔ اس نے ایک نمائندہ کو بھیجنے کے ساتھ تا کہ وہ اخراجات اور تعمیرات کی نگرانی کر سکے، عمارت کی تعمیر نو کا حکم دیا اور گنبد کے طلاق اوراق کو تبدیل کروایا۔

سنہ 1232 ھ میں فتح شاہ علی قاجار نے چاندی کی ایک نئی ضریح تعمیر کرائی اور ایوان گنبد کو سونے سے آراستہ کرایا اور ان تمام مقامات کی باز سازی کرائی جو وھابیوں کے حملے میں نابود ہو گئے تھے۔ سنہ 1250 ھ میں فتح شاہ علی قاجار نے حکم دیا کہ امام حسین علیہ السلام اور حضرت عباس علیہ السلام کے روضوں کے گنبدوں کی نو سازی کی جائے اور حضرت عباسؑ کے گنبد پر طلائی ملمع کیا جائے۔[14]

بعد کے ادوار میں

سنہ 1358 ھ میں سیف الدین طاہر اسماعیلی داعی نے چاندی کی ضریح کو نئی ضریح میں تبدیل کیا۔ سنہ 1360 ھ میں اس نے حرم کے ایک گلدستہ کو خراب ہو چکا تھا، پھر سے تعمیر کرایا۔ سنہ 1367 ھ میں بہت سے گھر اور اسی طرح سے وہ دینی مدارس جو حرم کے صحن سے متصل تھے، حرم کی توسیع میں خراب ہو گئے۔ سنہ 1370 ھ میں حرم کا مشرقی حصہ تعمیر کیا گیا اور حرم کے ایوانوں اور طاقوں کو نفیس کاشی کاری سے تزئین کیا گیا۔ سنہ 1371 ھ میں گنبد کی تجدید نو کے ساتھ اس سے سونے کی اینٹوں سے مزین کیا گیا۔

سنہ 1373 ھ میں حرم کی چھت اور رواق مکمل طور پر باز سازی کئے گئے اور امام حسین (ع) اور حضرت عباس (ع) کے روضوں کو سجانے کے لئے اصفہان سے خاص قسم کی ٹائلیں منگوائی گئیں۔ اسی سال ایوان قبلہ (ایوان طلا) کے بالائی حصہ پر طلاکاری کی گئی۔ سنہ 1383 ھ میں حرم میں نو سازی کے امور کو انجام دینی والی کمیٹی نے حرم کی باہری دیواروں کے لئے اٹلی سے پتھروں کی خریداری کی۔

سنہ 1383 ھ میں حرم کی باز سازی کرنے والی کمیٹی نے ایوانوں کو مزید بلند کرنے اور اس کی دیواروں کو تزئین کے لئے کاشی کاری کرائی۔ سنہ 1388 ھ میں ایران سے سنگی ستونوں کو لایا گیا اور اس کے ذریعہ سے ایوان کی قدیم چھت کو تبدیل کیا گیا۔

سنہ 1392 ھ میں ایوان طلا کی جدید تعمیرات کے لئے کام شروع کیا گیا۔ اور 1394 ھ میں صحن کی نو سازی اور تعمیرات میں ہم آہنگی کا کام شروع ہوا۔ اس کام میں ایوان کی تعمیر نو کے علاوہ صحن کے مغربی حصہ کو خراب کرنا اور اسی طرح سے اس کی دیواروں پر کاشی کاری کا کام شامل تھا۔

سنہ 1395 ھ میں امام حسین علیہ السلام اور حضرت عباس علیہ السلام کے روضوں میں تعمیری کام صحن کے سامنے کی دیواروں کی کاشی کاری کے ساتھ حرم کے مغربی حصہ میں کتب خانہ اور میوزیم کی تعمیر ساتھ ساتھ جاری رہا۔ سنہ 1396 H میں وزارت اوقاف نے ایوان طلا کی نو سازی اور تزئین کا کام کاشی کاری اور خاتم کاری کے ذریعہ انجام دیا۔[15]

گزشتہ چند برسوں میں حرم کے صحن مسقف (چھت دار) ہو چکے ہیں۔ صحن کے اوپر چھت کا بن جانا سبب بن چکا ہے کہ حرم کا گبند اور اس کی میناریں دور سے دکھائی نہ دیں۔[16] اس مشکل کو حل کرنے کے لئے ایران کے ادارہ باز سازی عتبات عالیات نے عراقی عہدہ داروں کے ساتھ مل کر روضہ کے گنبد کو مزید بلند کرنے کی تجویز پر غور کر رہے ہیں۔ اس پلان کے تحت گنبد کی بلندی میں مزید 5 میٹر 70 سینٹی میٹر کا اضافہ ہو جائے گا تا کہ دور سے بھی گنبد کا نظارہ کیا جا سکے۔[17]

تخریب حرم

امام حسین علیہ السلام کے روضہ کی تخریب سے مراد اہل بیت علیہم السلام کے دشمنوں کی طرف سے اس کا خراب کیا جانا ہے۔ عباسی خلفاء کے ادوار میں منصور، ہارون اور متوکل کے دورہ خلافت میں امام حسین علیہ السلام کے روضہ کے تخریب کے لئے اقدام کئے گئے۔ ان تخریب میں مھم ترین و معروف ترین تخریب متوکل کے حکم سے انجام پائی۔ وہابیوں نے بھی سن 1216 ق میں اس بارگاہ کو شدید ترین نقصان پہچایا اور اس سلسلہ کی آخری تخریب صدام کے زمانہ میں بعثیوں کے حملہ میں کی گئی۔

حرم کی معماری

حرم کے صحن

امام حسین علیہ السلام کے روضہ کے صحن نے اپنی حدود کے دائرے میں تمام رواق اور گنبد کا احاطہ کر لیا ہے۔ بعض نے صحن کو جامع کا نام بھی دیا ہے، اس سبب سے کہ لوگ نماز کے اوقات میں اور اسی طرح سے زیارت یا دعا پڑھتے وقت اور دینی مراسم کے انعقاد کے وقت وہاں پر جمع ہوتے ہیں۔ صحن کو مشہد کا نام بھی دیا گیا ہے۔ اس وجہ سے کہ لوگ اس میں زیارت و دعا کے لئے حاضر ہوتے ہیں۔

امام حسین علیہ السلام کا روضہ شہر کربلا کے قدیمی علاقہ میں ہے اور سن 1948 عیسوی سے پہلے تک تمام رہائشی مکانات، بازار اور عمارتیں اس سے متصل تھیں اور ان کے اور روضہ کے درمیان کسی سڑک کا وجود نہیں تھا۔ اسی سال امامؑ کے حرم کے ساتھ سڑک بنائی گئی اور اجازت نہیں دی گئی کہ شہر کی عمارتیں حرم کی عمارت سے متصل رہے۔ حرم کی باہری دیوار شہر کی دوسری عمارتوں سے جدا اور اسے ٹائل اور زرد اینٹوں سے سجایا گیا ہے اور دروازوں اور دیواروں کے اوپری حصوں کو آیات قرآن کے کتیبہ نصب کئے گئے ہیں، جنہیں کاشی پر خط کوفی سے منقوش کیا گیا ہے۔

روضہ امام اندر سے مستطیل شکل میں ہے البتہ وہ بھی ضریح کی طرح دو اصافی ضلع کے ساتھ چھ گوشوں پر مشتمل تھا۔ لیکن حرم کی توسیع میں سن 1947 ع میں ان دو اضافی گوشوں کو یعنی جنوب شرقی اور شمال شرقی گوشوں کو ہٹا دیا گیا، جس کے نتیجہ میں صحن اندر سے مستطیل شکل میں ہو گیا، اگر چہ وہ باہر سے بیضوی شکل میں نطر آتا ہے۔

صحن کے دیواروں کی اونچائی بارہ میٹر تک ہے جس میں اندر کی طرف دو میٹر تک پتھر لگے ہوئے ہیں۔ سن 1947 ع میں حرم کی توسیع سے پہلے تک صحن کے اطراف میں مساجد اور دینی مدارس موجود تھے جن کے دروازے حرم کے اندر کھلتے تھے۔ لیکن کربلا کے شہری ترقیاتی ادارہ نے ان مساجد اور مدارس کو ختم کرکے ان کی جگہ پر حرم سے متصل سڑک بنا دی۔

صحن کی مجموعی مساحت 1500 میٹر تک ہے۔ جس کے اطراف میں 65 ایوان بنے ہوئے ہیں اور ہر ایوان کے اندر حجرے بنے ہوئے ہیں۔ ان حجروں میں طلاب مباحثے کیا کرتے تھے اور بعض حجرے بادشاہوں، امراء، عمال، علماء اور دینی شخصیتوں سے متعلق اور مخصوص تھے۔[18]

صحن کے دروازے

 
روضہ امام حسین کا نقشہ

امام حسین علیہ السلام کے روضے کے دروازے اور رواق

امام حسین علیہ السلام کے حرم کے صحن میں کچھ دروازے ہیں جن میں سے ہر ایک کربلا شہر کے کسی محلے میں کھلتے ہیں۔ یہ دروازے بلند اور کاشی جن کے کناروں پر خط کوفی سے آیات قرآنی منقوش ہیں، سے آراستہ، ایوانوں کی سطح سے نیچے قرار دیئے گئے ہیں۔

ماضی میں، صحن میں سات دروازے تھے لیکن اس وقت صحن میں دس دروازے ہیں:

  1. باب القبلہ: صحن میں داخلہ کا قدیمی ترین و اصلی ترین دروازہ شمار ہوتا ہے۔ چونکہ وہ قبلہ کی سمت میں واقع ہے اس لئے اس کا نام باب القبلہ رکھا گیا ہے۔
  2. باب الرجاء: یہ دروازہ باب القبلہ اور باب قاضی الحاجات کے درمیان میں واقع ہے۔
  3. باب قاضی الحاجات: یہ دروازہ سوق العرب کے سامنے کی طرف واقع ہے اور امام زمانہ علیہ السلام کے نام سے اسے باب قاضی الحاجات کا نام دیا گیا ہے۔ اس کی اونچائی 5 میٹر اور چوڑائی ساڑھے تین میٹر تک ہے۔
  4. باب الشہداء: یہ دروازہ ضلع شرقی اور حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام کے حرم کی طرف جانے والی گذرگاہ کے درمیان واقع ہے اور شہداء کربلا کے کی یاد میں اس کا نام باب الشہدائ رکھا گیا ہے۔
  5. باب الکرامہ: یہ دروازہ صحن کے شمال شرقی ضلع کے دور ترین حصہ کی طرف واقع ہے اور باب الشہداء کے برابر میں ہے۔ اس کا نام امام حسین علیہ السلام کی کرامت اور بزرگواری کی یاد میں باب الکرامہ رکھا گیا ہے۔
  6. باب السلام: یہ دروازہ ضلع شمالی کے درمیان میں واقع ہے۔ اس کا یہ نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ جب لوگ اس دروازے کے سامنے پہچتے تھے تو امامؑ پر درود و سلام بھیجتے تھے۔
  7. باب السدرہ: یہ دروازہ صحن کے ضلع شمال مغرب کے دور ترین حصہ میں واقع ہے اور اس کا نام سدر کے اس درخت کی یاد میں رکھا گیا ہے جو سب سے پہلے امام حسین علیہ السلام کی قبر کے کنارے لگایا گیا تھا اور زائرین اس کے سبب سے قبر تک رسائی حاصل کرتے تھے۔
  8. باب السلطانیہ: یہ دروازہ صحن کے مغربی سمت میں واقع ہے اور اس کا نام سلاطین عثمانی میں سے ایک سلطان جس نے اس باب کو تعمیر کرایا تھا، کے نام پر رکھا گیا ہے۔
  9. باب راس الحسین: یہ دروازہ صحن کے مغربی ضلع کے درمیانی حصہ میں واقع ہے اور چونکہ یہ امامؑ سرہانے (بالای سر) کی جانب ہے اس لئے اس نام سے معروف ہے۔
  10. باب الزینبیہ: یہ دروازہ صحن کے جنوب مغربی حصہ میں واقع ہے اور چونکہ یہ تلہ زینبیہ یا مقام زینب (س) سے بھی نزدیک ہے اس لئے باب الزینبیہ کے نام سے مسہور ہو گیا ہے۔[19]

گنبد

امام حسین علیہ السلام کے روضہ کے فراز پر ایک بلند گنبد ہے جس پر خالص سونے کا ملمع کیا گیا ہے۔ گنبد کے اندرونی حصہ میں دس کھڑکیاں ہیں جو باہر کی طرف کھلتی ہیں، جن میں سے ہر ایک کی چوڑائی ایک میٹر اور تینتیس سینٹی میٹر تک ہے اور ان کے درمیان موجود فاصلہ ایک میٹر اور پچپن سینٹی میٹر تک ہے۔ گنبد کی اونچائی نیچے سے اوپر تک تقریبا 37 میٹر ہے اور باہر کی اس کی شکل پیاز نما بیضوی ہے۔ گنبد کی بلندی پر سونے کا ایک راڈ لگا ہوا ہے جس کی لمبائی دو میٹر ہے اور جس کے فراز پر ایک چراغ نصب کیا گیا ہے۔ گنبد میں استعمال ہونے والی سونے کی اینٹوں کی تعداد 7526 اور طلاکاری شدہ مجموعی رقبہ کی مساحت 301 مربع میٹر ہے۔[20]

گلدستے

روضہ امامؑ کے گنبد کے جنوب میں دس میٹر کے فاصلہ پر دو بڑے گلدستے ہیں جن پر سونے سے ملمع کیا گیا ہے، صحن کی زمین سے جن کی بلندی تقریبا 25 میٹر اور ان کا قطر چار میٹر تک ہے۔ ان دونوں گلدستوں کی نوک پر ایک راڈ نصب کیا گیا ہے جس کے فراز پر روشنی کے لئے چراغ لگائے گئے ہیں۔ یہ دونوں گلدستے سن 786 ق میں اویس جلایری اور اس کے بیٹے احمد جلایری کے دور میں تعمیر کئے گئے تھے۔ اس دونوں گلدستوں میں استعمال ہونے والی سونے کی اینٹوں کی مجموعی تعداد 8024 ہے۔[21]

ایوان طلا

ایوان طلا سے حرم کے جنوبی حصہ سے صحن کا منظر دکھائی دیتا ہے۔ اس ایوان کی چھت کافی اونچائی پر واقع ہے جس کی تین حصے ہیں: وسط کے حصہ کی بلندی باقی دونوں اطراف کی بنسبت زیادہ ہے۔ ان کے درمیان میں موجود ستون کی لمبائی 13 میٹر اور اطراف کے دونوں حصوں کے ستون کی لمبائی 9 میٹر تک ہے ۔ ایوان کی شکل مستطیل ہے اور اس کی لمبائی 36 میٹر اور وسط کے حصہ کی چوڑائی بھی 10 میٹر تک ہے۔

ایوان کا نچلا حصہ جسے لوہے کی سیڑھی سے ایوان کے درمیان قرار دیا گیا ہے، صحن سے الگ ہو گیا ہے اور زائرین ایوان کے کنارے کی دونوں سمت سے حرم میں رفت و آمد کرتے ہیں۔ اس ایوان کی دیواروں پر خالص سونے سے ملمع کیا گیا ہے اور دیوار کے اوپری حصوں کو کنارے استعمال ہونے والی ٹائلوں سے سجایا گیا ہے۔[22]

رواق

امامؑ کے روضہ کا گنبد کا حصہ چاروں سمت سے چار رواق پر مشتمل ہے۔ ان میں ہر رواق کی چوڑائی 5 میٹر اور شمال سے جنوب تک اس کی لمبائی تقریبا 40 میٹر ہے اور رواق کی شرقی و غربی سمت کی لمبائی تقریبا 45 میٹر ہے اور ہر رواق کی اونچائی 12 میٹر تک ہے۔ ان رواقوں کے فرش پر سفید شفاف پتھر لگائے گئے ہیں اور ان کی دیواروں کے وسط میں مختلف سایز کے چھوٹے اور بڑے آئینے لگائے گئے ہیں۔

مغربی رواق جسے عام طور پر رواق عمران بن شاہین کہا جاتا ہے، اور جو اس وقت رواق ابراہیم بن مجاب کے نام سے معروف ہے۔ یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کہ اس میں امام موسی کاظم علیہ السلام کے پوتے سید ابراہیم مجاب دفن ہیں۔ اس مغربی رواق میں بعض دینی و علمی شخصیتیں بھی مدفون ہیں۔

مشرقی رواق جسے کبھی رواق آقا باقر کا نام دیا گیا تھا اور اس وقت اسے علماء کے مقبروں کی وجہ سے رواق فقہا کہا جاتا ہے۔

جنوبی رواق، رواق حبیب بن مظاہر کے نام سے مشہور ہے۔ ان کی قبر پر چاندی کی ایک چھوٹی سی ضریح لگائی گئی ہے جس کی دس جمادی الثانی 1410 ھ ق میں نو سازی کی گئی ہے۔ رواق حبیب بن مظاہر، اور اسی طرح سے علمی شخصیتوں کی قبروں کی وجہ سے معروف ہے۔[23]

شمالی رواق (بادشاہوں کا رواق) کو شاہ صفی نے تعمیر کرایا تھا اور چونکہ اس رواق میں قاجار سلسلہ کے بادشاہ دفن ہیں اس لئے اسے بادشاہوں کا رواق کہا جاتا ہے۔ شاہ صفی جو حرم کی زیارت کے لئے آیا تھا، اس نے حرم کے خدام اور شہر کے فقیروں کو کافی عطیے دینے کے بعد اس رواق کی تعمیر کا حکم دیا۔[24]

حرم کی ضریح

 

اس گنبد کے نیچے ایک بڑی چاندی کی چند گوشہ والی ضریح موجود ہے۔ جس کے اندر امام حسین علیہ السلام اور ان کے دو فرزند علی اصغر اور علی اکبر علیہما السلام مدفون ہیں۔[25] مختلف ادوار میں متعدد ضریحیں بنائی گئی ہیں اور امام حسین علیہ السلام کی قبر پر نصب کی گئی ہیں۔ آخری بار امام حسین علیہ السلام کے حرم کی نئی ضریح چار سال چار مہینوں کے عرصے میں (جون 2008ع‍ سے اکتوبر 2012ع‍ تک) شہر قم کے مدرسہ معصومیہ میں تیار کی گئی[26] جس کی تنصیب کا کام ربیع الاول سنہ 1434ھ کو شروع ہوا اور 22 ربیع الثانی سنہ 1334ھ بمطابق 5 مارچ سنہ 2013ع‍ کو نئی ضریح کی تقریب رونمائی کا اہتمام کیا گیا۔ یہ ضریح ہندسی شکل کے لحاظ سے پرانی ضریح کی مانند ہے لیکن بلندی کے لحاظ سے پرانی ضریح کی نسبت زیادہ اونچی ہے، اور اس کا رقبہ 34 میٹر مربع ہے۔[27]

شہدائے کربلا کا مدفن

 
مرقد شهدای کربلا

بائیں سمت میں ایک چاندی کی جالی میں غیر بنی ہاشم شہدائے کربلا مدفون ہیں۔

حضرت علی اکبرؑ کے دفن ہونے کی جگہ امام حسین علیہ السلام کے پائینتی واقع ہے اور امام حسینؑ کی ضریح کے نچلے دو حصوں میں جناب علی اکبر اور بنی ہاشم کے شہداء دفن ہیں ۔ یہ حصہ امام حسینؑ کی ضریح کے بیرونی حصہ سے متصل ہے جس کی لبمائی 2 میٹر 60 سینٹی میٹر اور چوڑائی ایل میٹر 40 سینٹی میٹر ہے۔

بنی ہاشم شہداء کا مزار جناب علی اکبر کی قبر کی طرف امام حسین علیہ السلام کے پیر کی جانب واقع ہے۔ روایات کے مطابق، بنی اسد نے جس وقت شہداء کے جنازوں کو دفن کیا اس وقت بنی ہاشم کے جنازوں کو جسے امام حسینؑ نے ایک خیمہ میں جمع کر دیا تھا، حضرت کے پیر کی سمت میں دفن کیا اور اس کے بعد وہاں سے کچھ میٹر کے فاصلہ پر دوسرے تمام غیر بنی ہاشم شہداء کو دفن کیا ۔ حضرت ابو الفضل العباس، حر بن یزید ریاحی اور حبیب بن مظاہر کے علاوہ تمام شہدائے کربلا امام حسین علیہ السلام کی قبر کے قریب دفن کئے گئے ہیں اور ان کا مقبرہ امام حسینؑ کی ضریح کے جنوب مشرقی سمت میں کچھ میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے ۔ یہ قبریں جو ایک 12 میٹر کے چھوٹے سے حجرہ میں ایک منقش صندوق کے اندر واقع ہیں، اس کے اوپر چاندی کی ایک جالی لگی ہوئی ہے جس کی لمبائی 5 میٹر ہے اور جس سے قبریں کا نشان پتہ چلتا ہے۔ اس جالی کے اوپر شہدائے کربلا میں سے تقریبا ایک سو بیس حضرات کے نام، ان کی مخصوص زیارت کے ساتھ کاشی کے کتبہ کی صورت میں نقش اور ثبت ہیں۔[28]

قتل گاہ یا مقتل

مقتل اس مقام کو کہتے ہیں جس میں امام حسین علیہ السلام کے سر کو تن سے جدا کیا گیا ہے۔ یہ مقام ایک مخصوص حجرہ میں واقع ہے جس کا دروازہ چاندی کا ہے اور اس کی کھڑکی صحن کی طرف، حبیب بن مظاہر کے رواق کے جنوب مغرب کی سمت میں ہے۔ اس کی زمین کا فرش شفاف سنگ مرمر سے بنایا گیا ہے اور اس میں ایک سرداب بھی ہے جس کا دروازہ چاندی کا ہے۔[29]

حائر حسینی

حائر اس مقام کو کہتے ہیں جس میں پانی جمع ہو جائے اور باہر نہ نکل سکے۔ دوسرے الفاظ میں، حوض یا ایسے مقام کو کہتے ہیں جس سے پانی اس کی طرف بہہ جائے لیکن پانی اس میں جمع ہو جائے اور خارج نہ ہو سکے۔ یہ نام امام حسین علیہ السلام کی قبر کے مقام اور مزار کے محدودہ کو کہا جاتا ہے۔

اس کو حائر کہنے کا سبب یہ ہے کہ جس وقت متوکل عباسی نے امام حسین علیہ السلام اور شہدائے کربلا کے روضہ اور مزار کو مسمار کرنے کا حکم دیا اور روضہ کی طرف پانی چھوڑا گیا تو پانی وہاں تک پہچ کر رک گا، روضہ کے اطراف اور چارو طرف پانی جمع ہو گیا مگر قبر کے پاس نہیں گیا۔ حائر میں امام حسین علیہ السلام کے روضہ کے مرکزی مقامات، گنبد، ضریح اور شہدائے کربلا کے مزارات شامل ہیں۔[30]

حرم کا گنجینہ اور کتب خانہ

حرم کا گنجینہ اس کی شمالی سمت میں واقع ہے اور اس میں جواہرات، نفیس اشیاء اور بے شمار قیمتی آثار شامل ہیں جو مختلف صدیوں میں اسلامی ممالک کے مختلف بادشاہوں، اور سلاطین کے ذریعہ ہدیہ کئے گئے ہیں۔ حرم کا کتب خانہ اس کے مشرقی سمت میں واقع ہے اور اس میں قرآن کریم کے متعدد نفیس خطی نسخے موجود ہیں۔[31]

امام حسینؑ کے روضہ میں مدفون شخصیات

عرصہ دراز سے بہت سی بزرگ شخصیتیں، شاہ زادے، امراء، شعراء اور علماء امام حسین علیہ السلام کے حرم میں سپرد خاک کئے گئے ہیں۔ جن میں سے بعض کا ذکر مندرجہ ذیل سطور میں کیا جا رہا ہے:

  • زائدہ بن قدامہ (متوفی سنہ 161 ھ)
  • سلیمان بن مھران اعشمی (پہلی صدی ہجری)
  • حسن بن محبوب (پہلی صدی ہجری)
  • ابو حمزہ ثمالی (متوفی سنہ 128 ھ)
  • معاویہ بن عماد دہنی (متوفی سنہ 157 ھ)
  • عبد اللہ بن طاہر (متوفی سنہ 300 ھ)
  • شیخ علی بن بسام بغدادی (متوفی 302 ھ)
  • شیخ ابوالحسن محمد المزین (متوفی 327 ھ)
  • شیخ ابو علی اسکافی (متوفی سنہ 336 ھ)
  • شیخ ابو بکر محمد بن عمر بن یسار تمیمی (متوفی سنہ 344 ھ)
  • شیخ ابو عبد اللہ غضائری کوفی
  • شیخ علی بروغندی بزرگ صوفی (متوفی سنہ 359 ھ)
  • شیخ ابو علی مغربی (متوفی سنہ 364 ھ)
  • وزیر، احمد بن ابراہیم ضبی الکافی، وزیر مئوید الدولہ بویہ (متوفی سنہ 398 ھ)
  • شیخ ابو سہل صلعوکی (متوفی سنہ 369 ھ)
  • ابو محمد حسن مرعشی طبری (متوفی سنہ 308 ھ)
  • ظافر بن قاسم اسکندری شاعر (متوفی سنہ 529 ھ)
  • امیر قطب الدین سنجر مملوک ناصر لدین اللہ عباسی (متوفی سنہ 607 ھ)
  • جمال الدین قشمر ناصری (متوفی 637 ھ)
  • جمال دین علی بن یحی مخرمی (متوفی سنہ 646 ھ)
  • امیر امین الدین کافور (متوفی سنہ 653 ھ)
  • ابو الفتوح نصر بن علی نحوی ابن المخازن (متوفی سنہ 600 ھ)
  • وزیر، افنسقر بن عبد اللہ ترکی (متوفی سنہ 604 ھ)
  • سلطان طاہر شاہ بادشاہ مملکت دکن حیدر آباد ھندوستان (متوفی سنہ 957 ھ)
  • سلطان برمان نظام بن سلطان احمد ھندی (متوفی سنہ 961 ھ)
  • سلطان حمزہ میرزا صفوی (متوفی سنہ 997 ھ)
  • محمد بن سلیمان ملقب بہ فضولی شاعر (متوفی سنہ 963 ھ)
  • شاعر صوفی فضلی بن فضولی (متوفی سنہ 978 ھ)
  • شیخ وحید بہبہانی (متوفی سنہ 1208 ھ)
  • میرزا مھدی شہرستانی (متوفی 1216 ھ)
  • سید علی بن محمد طباطبایی صاحب الریاض (متوفی سنہ 1231 ھ)
  • میرزا شفیع خان صدر اعظم ایران (متوفی سنہ 1224 ھ)
  • سید کاظم رشتی رہبر فرقہ شیخیہ (متوفی سنہ 1259 ھ)
  • امیر کبیر (متوفی سنہ 1268 ھ)
  • شیخ محمد تقی شیرازی حائری (متوفی سنہ 1338 ھ) (۳۰)[32]

کربلا کے نقباء اور حرم کے متولی

نقیب یا علوی سادات کے سرپرست افراد ایک خاص سماجی و سیاسی حیثیت کے حامل تھے اور ان کے ذمہ خاص فرایض تھے اور اس منصب اور مقام کے لئے مخصوص شرائط لازم و ضروری تھیں۔ نقابت علوی خاندان سے مخصوص تھی اور ایک علوی خاندان سے دوسرے علوی خاندان تک، خاص شرائط اور لیاقت کے ساتھ منتقل ہوتی تھی اور عام طور پر کسی نہایت برجستہ اور با اثر و رسوخ فرد کے اختیار میں قرار دی جاتی تھی۔ نقیب کے سب سے اہم کاموں میں سے ایک علویوں کے امور کی سرپرستی کرنا اور اسی طرح سے ائمہؑ کے روضوں اور زیارتی شہروں سے مربوط امور کی نگرانی کرنا تھا۔[33]

امام حسینؑ کے حرم کے متولی

ام موسی، مہدی عباسی کی ماں نے چند افراد کو امام کے روضہ کی خدمت پر مامور کیا، تا کہ وہ وہاں کے کاموں کو انجام دیں۔ اس نے اس گروہ کے لئے تنخواہ مقرر کی۔ ہارون نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا اور در واقع اسی ہہلے گروہ نے امام حسین علیہ السلام کے روضے کے خادمین اور متولیوں کو تشکیل دیا۔ اس وجہ سے کہ شہر کی اکثریت علویوں پر مشتمل تھی، شہر کی حاکمیت علوی نقیب کے اختیار میں دی جاتی تھی۔ مغولوں کے ذریعہ سنہ 656 ھ میں بغداد کے سقوط کے بعد تاریخ عراق کے بہت ہی کم منابع میں امام حسین (ع) اور حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام کے روضوں کے متولیوں اور اس بارے میں کہ کس طرح سے روضے کے امور کی رسیدگی کی جاتی تھی، تذکرہ کیا گیا ہے۔ اۤٹھویں صدی ہجری کے اوائل میں قبیلہ بنی اسد کے بعض افراد نے اطراف کی سر زمینوں پر قبضہ کے ساتھ حرم کے امور کی ذمہ داری کو اپنے ہاتھوں میں لینے میں کامیابی حاصل کر لی تھا۔

امام حسین علیہ السلام کے روضے کے متولی کے عہدے پر فائز ہونے کا شرف سب سے زیادہ ان دو علوی گروہ؛ اۤل زحیک اور اۤل فائز کے مردوں کو حاصل ہوا کہ جن میں ہر ایک کے حصہ میں اشراف کربلا کی نقابت اۤتی رہی، ایک طائفہ کے ہاتھ میں حرم کی تولیت اور دوسرے کے حصہ میں نقابت کا منصب رہتا تھا۔

منصب تولیت کی طاقت کے جلوہ کے طور پر جس کے نتیجہ میں بطور طبیعی پورے شہر کے انتظامی امور کی قدرت حاصل ہو جاتی ہے، یہ چیز سامنے آئی کہ اس نے کربلا پر وہابیوں کے حملے کے واقعہ میں جو سنہ 1216۔1220 ھ میں پیش آیا اور اسی طرح سے دوسرا حملہ جو سنہ 1258 ھ میں نجیب پاشا کی طرف سے کیا گیا جس کی شہرت غدیر خون کے حادثہ کے طور پر ہے، اس نے عوامی مقاومت و مزاحمت کی رہنمائی کی۔غدیر خون کے حادثہ میں اور کربلا پر ایک بعد ایک حملوں کے بعد حرم کی تولیت کی قدرت نہایت تیزی سے زوال کا شکار ہو گئی، اس طرح سے کہ دو صدیوں سے زیادہ ایسے لوگوں کے پاتھ میں حرم کی تولیت رہی جو غیر علوی خاندانوں سے تھے۔ تیرہویں صدی ہجری کے اواخر تک تولیت غیر علویوں کے ہاتھوں میں تھی اور اس کے بعد آل طعمہ خاندان کے اختیار میں آ گئی اور عثمانی حکومت کے آخر تک اور اسی طرح سے بعد کے ادوار میں ان ہی ہاتھوں میں رہی۔[34]

امام حسینؑ کی زیارت کا ثواب

بہت سی روایات میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے سلسلہ میں تاکید کی گئی ہے اور زیارت پر اس قدر تاکید دوسرے امام کے بارے میں نہیں ملتی ہے۔ اس طرح سے کہ بعض روایات میں امام حسین (ع) کی زیارت کو واجب قرار دیا گیا ہے۔

ایک روایت میں امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: اگر لوگوں کو علم ہوتا کہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی کس قدر فضیلت ہے تو وہ شوق کے مارے اپنی جان دے دیتے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں: جس نے حسینؑ کی زیارت شوق کے ساتھ کی، اس کے نامہ اعمال میں ہزار مقبول حج اور ہزار مقبول عمرے، شہدائے بدر میں سے ہزار شہداء اور ہزار روزے دار، ہزار مقبولہ صدقہ اور راہ خدا میں ہزار غلام آزاد کرنے کا ثواب لکھا جائے گا۔[35]

امام حسین (ع) کے روضے کی زیارت، تمام شیعوں کے قابل توجہ اعمال میں سے ایک ہے۔ کربلا اور امام حسین کے حرم میں سب سے زیادہ زائرین عاشورا، اربعین اور نیمہ شعبان کے ایام میں جمع ہوتے ہیں۔

امام حسینؑ کے حرم کے احکام

امام حسین (ع) کی زیارت شیعوں کے نزدیک ایک خاص اہمیت کی حامل ہے۔

  • مسافر امام حسین علیہ السلام کے حرم میں اپنی نماز بطور کامل یا قصر پڑھ سکتا ہے لیکن اس کے لئے پوری نماز پڑھنا زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔ امام حسینؑ کے پورے روضہ میں زیر گنبد، اس سے متصل تمام رواقوں اور مساجد میں بھی یہی حکم ہے اور مسافر وہاں پر اپنی نماز بطور کامل پڑھ سکتا ہے۔[36]
  • ائمہ علیہم السلام کے روضوں میں اور خاص طور پر امام علیؑ اور امام حسینؑ کے روضوں میں نماز پڑھنے کا ثواب بہت زیادہ ہے۔[37]
  • انسان کو چاہئے کہ وہ ادب کی رعایت کرے اور رسول اکرم (ص) اور ائمہ معصومینؑ کی قبور کے آگے نماز نہ پڑھے اور چنانچہ نماز پڑھنا بے احترامی شمار ہو تو حرام ہے البتہ نماز باطل نہیں ہے۔ اگر نماز میں کوئی چیز جیسے اس کے اور قبر کے درمیان دیوار حائل ہو جس سے بے احترامی نہ ہوتی ہو تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن ضریح اور اس کے پاس ڈالے گئے پردہ کا فاصلہ ہونا آگے نماز پڑھنے کے لئے کافی نہیں ہے۔[38]
  • تمام ائمہؑ کی زیارت کے وقت عطر لگانا اور خوشبو کرنا مستحب ہے لیکن امام حسین (ع) کی زیارت میں ایسا کرنا مستحب نہیں ہے۔[39]
  • تربت امام حسین علیہ السلام کے لئے مخصوص آثار اور احکام بیان کئے گئے ہیں:
  1. نماز کی حالت میں تربت امام حسینؑ پر سجدہ کرنا مستحب ہے اور نماز کے ثواب میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔
  2. کسی بھی قسم کی خاک کا کھانا حرام ہے سوائے تربت امام حسینؑ کے، جس کا شفا حاصل کرنے کی نیت سے کم مقدار میں کھانا جائز ہے۔
  3. نوزائیدہ بچہ کو تربت امام حسین (ع) چٹانا مستحب ہے۔
  4. اس تربت کے احترام کا خیال رکھنا لازم ہے اور کسی بھی طرح سے اس کی بے احترامی کرنا حرام ہے۔ جیسے:
  5. اس کا نجس کرنا جایز نہیں ہے۔
  6. اس کا ایسی جگہ پر ڈالنا جہاں بے احترامی ہوتی ہو، حرام ہے۔
  7. اگر وہ ایسی جگہ پر گر جائے جہاں اس کی بے احترامی ہوتی ہو تو اس کا باہر نکالنا لازم ہے حتی اگر وہ کسی کنویں میں ہی کیوں نہ ہو اور اگر اس تربت کو باہر نکالنا ممکن نہ ہو تو اس کنویں کو بند کر دینا چاہئے۔
  8. مستحب ہے کہ دفن کے وقت میت کے ہمراہ کچھ مقدار میں اس تربت کو رکھا جائے اور اس کے حنوط میں بھی اس کو مخلوط کیا جائے۔
  9. جو سامان دوسری جگہ بھیجا جاتا ہے مستحب ہے کہ اس کے ہمراہ کچھ مقدار میں اس تربت کو بھی رکھ دیا جائے جیسے بیٹی کا جہیز میں۔
  10. تربت امام حسین کو سونکھنا، چومنا اور آنکھوں پر لگانا مستحب ہے اور حتی کہ اس پر ہاتھ پھیرنا اور اسے تمام اعضائے بدن پر مس کرنا بھی ثواب کا باعث ہے۔
  11. ایسی تسبیح سے ذکر پڑھنا جو تربت امام حسین سے بنی ہو مستحب ہے اور حتی اسے ساتھ میں رکھنا مستحب ہے۔[40]

جستجو کے لئے متعلقہ عناوین

فوٹو گیلری

حوالہ جات

  1. راہنمای مصور سفر زیارتی عراق، صفحہ ۲۴۴۔۲۴۶
  2. قریشی، مرقدھا و مکان ھای زیارتی کربلا، صفحہ ۲۲۔
  3. آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۸۹۔
  4. آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۹۳۔
  5. آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۹۴۔۹۵
  6. آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۹۹۔
  7. آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۹۹۔۱۰۰
  8. آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۱۰۰۔۱۰۲
  9. آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۱۰۳۔
  10. آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۱۰۳۔۱۰۴
  11. آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۱۰۴۔۱۰۶
  12. آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۱۱۰۔
  13. آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۱۱۰۔۱۱۱
  14. آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۱۱۱۔
  15. آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۱۱۱۔۱۱۲
  16. افزایش ارتفاع گنبد حرم امام حسین علیہ السلام
  17. امام حسین علیہ السلام کے روضہ کا گنبد 700 سال کے بعد تبدیل اور مزید بلند کیا جا رہا ہے۔
  18. آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۱۷۰۔۱۷۵
  19. آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۱۹۳۔۲۰۳
  20. آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۱۸۴۔
  21. آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۱۹۰۔۱۹۱
  22. آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۱۶۳۔
  23. آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۱۵۶۔۱۵۷
  24. قائدان، عتبات عالیات عراق، صفحہ ۱۲۲۔ ۱۲۳
  25. قمی، اماکن زیارتی و سیاحتی عراق، صفحہ ۴۶۔
  26. ناگفته‌هایی از ساخت ضریح جدید امام حسین(ع)۔
  27. تصاویر رونمایی ضریح جدید حرم امام حسینؑ همشهری آنلاین۔
  28. قائدان، عتبات عالیات عراق، صفحہ ۱۱۸۔۱۱۹
  29. آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۱۶۲۔
  30. قائدان، عتبات عالیات عراق، صفحہ ۱۰۱۔
  31. آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۱۲۴۔
  32. مقدس، راہنمای اماکن زیارتی و سیاحتی عراق، صفحہ ۲۲۳۔۲۲۵
  33. آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۲۰۴۔
  34. آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۲۱۷۔۲۲۰
  35. قریشی، مرقدھا و مکان زیارتی کربلا، صفحہ ۳۰۔
  36. فلاح زادہ، احکام فقہی سفر زیارتی کربلا، صفحہ ۱۴۔
  37. فلاح زادہ، احکام فقہی سفر زیارتی کربلا، صفحہ ۱۷۔
  38. فلاح زادہ، احکام فقہی سفر زیارتی کربلا، صفحہ ۱۷۔۱۸
  39. فلاح زادہ، احکام فقہی سفر زیارتی کربلا، صفحہ ۳۶۔
  40. فلاح زادہ، احکام فقہی سفر زیارتی کربلا، صفحہ ۵۷۔۵۹

مآخذ

  • آل طعمہ، سلمان ھادی، کربلا و حرم ھای مطھر، مشعر، تھران۔
  • قریشی، عبد الامیر، مرقدھا و مکان ھای زیارتی کربلا، مشعر، تھران، ۱۳۹۱ ش۔
  • مقدس، احسان، راہنمای اماکن زیارتی و سیاحتی کربلا عراق، تھران، مشعر، ۱۲۸۸ ش۔
  • قائدان، اصغر، عتبات عالیات عراق، تھران، مشعر، ۱۳۸۷ ش۔
  • فلاح زادہ، محمد حسین، احکام فقہی سفر زیارتی کربلا، تھران، مرکز تحقیقات حج۔