غیبت صغری
غَیبت صغریٰ سے مراد مختصر مدت تک نظروں سے اوجھل ہونے کے ہیں اور شیعہ تعلیمات کے مطابق یہ وہ دور ہے جس کے دوران امام مہدی(عج) نے خفیہ زندگی اختیار کی اور صرف چار نمائندوں کے توسط سے شیعیان اہل بیت سے مرتبط تھے۔ یہ دور سنہ 260ہجری قمری (بمطابق سنہ 874عیسوی) سے شروع اور سنہ 329ہجری قمری (1-940 عیسوی) پر اختتام پذیر ہوا۔
غیبت صغری کا آغاز
امامیہ نقطۂ نظر کے مطابق ائمہؑ کا سلسلہ بارہویں امام پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ گیارہویں امام،امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنی چھ سالہ امامت کے دوران تقیے کی حالت میں خفیہ زندگی گذاری؛ کیونکہ خلیفۂ وقت معتمد عباسی نے آپؑ کے تعلقات کو محدود کررکھا تھا اور اپنے جاسوسوں کے ذریعے آپؑ کی کڑی نگرانی کررہا تھا۔ لہذا زیادہ تر شیعہ امامؑ کے ساتھ آزادانہ رابطہ برقرار کرنے سے محروم تھے۔ صرف نمایاں شیعہ شخصیات ذاتی طور پر آپؑ سے رابطہ کرسکتے تھے۔[1] امام عسکریؑ آخر کار سنہ 260ہجری قمری/ بمطابق 874عیسوی جام شہادت نوش کرگئے۔[2] امامیہ کے قدیم مآخذ کے مطابق، امام عسکریؑ نے اپنے فرزند کی امامت کا آشکارا اعلان نہیں کیا اور اپنے جانشین کا اعلانیہ تقرر نہیں کیا[3]۔[4] بلکہ آپ(عج) کو اشاروں کے ذریعے اپنے خاص اصحاب سے متعارف کرایا۔[5] امام عسکریؑ کے شیعہ عباسیوں کے ظلم و ستم سے تھک ہار چکے تھے۔ خلیفہ معتمد عباسی امام عسکریؑ کے فرزند کی تلاش میں تھا تا کہ آپ(عج) کو گرفتار کرے۔ امام مہدی(عج) کے بارے میں اہل تشیع کے اعتقادات مشہور و معروف تھے؛ جن میں سے اہم بات یہ تھی کہ "شیعہ آپ(عج) کے قیام کے منتظر ہیں"؛ چنانچہ امام عسکریؑ اپنے فرزند کو چھپا کر رکھتے تھے اور صرف بعض خاص اصحاب آپ(عج) کا شرف دیدار پانے میں کامیاب ہوئے۔[6]۔[7]۔خطا در حوالہ: Closing </ref>
missing for <ref>
tag۔[8]۔[9]
سنہ 260ہجری قمری میں امام عسکریؑ شہید ہوئے تو آپ کے فرزند امام مہدی(عج) نے آپؑ کی نماز جنازہ ادا کی اور اسی دن سے امام زمانہؑ کی غیبت کا آغاز ہوا اور یہ غیبت سنہ 329ہجری قمری تک جاری رہی۔[10] بعض دیگر نے اس غیبت کو "غیبت صغری" کا نام دیا ہے۔[11]
غیبت صغری کا اہم ترین سبب
شیعہ منابع حدیث کے مطابق، امام عسکریؑ نے امام مہدی(عج) کی ولادت کے بعد عباسیوں کی طرف سے ممکنہ خطرات سے آپ(عج) کی حفاظت کی کوشش کرتے تھے۔ سیاسی اور سماجی گھٹن اور امن و امان کے لحاظ سے شدید خطرات میں مامون کے زمانے سے اضافہ ہونا شروع ہوا تھا چنانچہ امام عسکریؑ اپنے فرزند کی ولادت کا اعلان نہ کرسکے اور صرف اپنے بعض قریبیوں اصحاب ـ منجملہ: ابو ہاشم جعفری، احمد بن اسحق اشعرى قمّى اور اپنی بہنوں حکیمہ خاتون اور خدیجہ خاتون ـ کو مطلع کیا۔[12]
امام کا شیعوں سے رابطہ
عباسیوں کے دور میں ائمہؑ کو درپیش بحرانی صورت حال نے انہیں اپنے پیروکاروں اور معاشرے کے افراد کے ساتھ رابطہ کرنے کے لئے نئی حکمت عملی اپنانے پر مجبور کیا۔ شیعہ امامیہ کے مآخذ سے معلوم ہوتا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام پہلے امام ہیں جنہوں نے خفیہ ابلاغی اور مواصلاتی نظام (التنظیم السری) سے استفادہ کیا۔[13]
وکالت کا جال
ادارہ وکالت ایک وسیع و عریض سیاسی، سماجی، معاشی اور ثقافتی ادارہ تھا جو امام معصومؑ اور آپ کے قریبی اور وفادار اصحاب سے تشکیل پاتا تھا۔ [14] امام صادقؑ نے ـ تقریبا ـ سنہ 132 ہجری قمری میں عباسیوں کے برسر اقتدار آتے ہی اس ادارے کی بنیاد رکھی۔ اور یہ سلسلہ سنہ 329ہجری قمری میں امام زمانہ(عج) کے آخری نائب خاص کی وفات پر اختتام پذیر ہوا یوں ادارہ وکالت منحل ہو گئی۔
وکالت اپنے لغوی مفہوم میں حتی رسول اللہؑ کے زمانے میں بھی تھی؛ جیسا کہ رسول اللہؑ کے زمانے میں بعض افراد کو زکٰوۃ جمع کرنے کے لئے مامور کیا جاتا تھا جو بجائے خود ایک وکالت ہے؛ یا پھر آنحضرتؑ مدینہ سے نکلتے وقت کسی شخص کو وقتی طور پر شہر کے سماجی مسائل پر غور کرنے کے لئے متعین کیا کرتے تھے۔ نیز، غیبت صغری کے بعد اور غیبت کبری کی پوری تاریخ میں بھی نیابت اور وکالت کا سلسلہ ـ غیر منظم انداز سے اور واحد قیادت کے بغیر غیر ہمآہنگ انداز سے ـ جاری رہا؛ جس کو "ولایت فقیہ" اور"نیابت عامہ" کا عنوان دیا جاتا ہے۔
اگرچہ وکالت نامی ادارہ سیاسی اور سماجی حالات کے لحاظ سے نشیب و فراز سے گذرتا آیا ہے تا ہم اس کی سرگرمیاں تاسیس سے اپنے آخری دن تک کبھی بھی نہیں رکا اور ہمیشہ ایک طاقتور بازو کی مانند ائمہؑ کی خدمت کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے۔[15]
ادارہ وکالت کی تشکیل کے اسباب
- ایک طرف سے مکتب اہل بیتؑ کا فروغ، اسلامی سرزمینوں کی وسعت، شیعہ آبادی کے پھیلاؤ اور بکھراؤ نیز آمد و رفت اور مواصلات میں دشواری اور دوسری طرف سے اس ـ مختلف النوع سیاسی اور مذہبی خطوط و مکاتب سے بھرپور ـ دور کے شکوک و شبہات کے خاتمے اور اور اعتقادی اور فقہی ضروریات کی تکمیل کے لئے شیعیان اہل بیتؑ کو درپیش قابل اعتماد راہنماؤں کی ضرورت۔
- وکالت کا ادارہ بنی عباس کے برسر اقتدار آنے کے زمانے میں تشکیل پایا چنانچہ اس کا [ایک] مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بنی عباس کے دور کا گھٹن اور علویوں ـ اور بطور خاص ائمۂ معصومین علیہم السلام اور ان کے پیروکاروں ـ کے ساتھ ان کا تشدد آمیز رویہ بھی اس ادارے کی تشکیل اور بالخصوص اس کی کمیت اور کیفیت میں مؤثر رہا ہے؛ کیونکہ ائمہؑ ان حالات میں اپنے پیروکاروں کے ساتھ بآسانی رابطہ برقرار نہیں کرسکتے تھے اور انہیں اپنے ہاں نہیں بلا سکتے تھے۔ اگر حکومت وقت کو کسی کے ائمہؑ کی خدمت میں حاضر ہونے یا حتی کسی کے شیعہ ہونے کا سراغ ملتا تو اس شخص جانی یا کم از کم مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا؛ جیسا کہ حکومت کو کوئی ایسی اطلاع ملنا ائمہؑ کے لئے بھی خطرے سے خالی نہ تھا۔ استبدادیت، ظلم و جبر اور ضبط و دباؤ کے اس ماحول میں وکالت کا جال ـ جو نمایاں علمی اور قابل اعتماد شخصیات سے تشکیل پایا تھا ـ ائمہؑ کے ساتھ براہ راست تعلق نہ ہونے سے پیدا ہونے والے نقصانات کا بڑی حد تک ازالہ کرسکتا تھا۔
- خمس اور ہدایا و نذورات کی تجمیع اور انہیں ائمہؑ تک پہنچانا یا ائمہؑ کی طرف سے متعینہ امور میں صرف کرنا نیز ائمہؑ کے نام پر وقف شدہ املاک کا انتظام و انصرام۔
- عصر غیبت امام زمانہ(عج) کے پیش نظر شیعہ معاشرے میں ذہنی اور عملی آمادگی کا اہتمام نیز انہیں غیبت کبری سے مانوس و متعارف کرانا۔[16]
نواب اربعہ
مفصل مضمون: نواب اربعہ
روایات کے مطابق، امام دوازدہم(عج) غیبت صغری کے دوران اپنے منتخب چار خاص نائبین کے توسط سے اپنے پیروکاروں کی راہنمائی کرتے تھے اور یہ خاص نمائندے "سفراء" کہلاتے تھے۔ امام(عج) کے پہلے نائب خاص عثمان بن سعید عَمری، دوسرے ان کے بیٹے محمد بن عثمان عَمری، تیسرے حسین بن روح نوبختی اور چوتھے علی بن محمد سمری تھے۔
سفراء کی اصل ذمہ داری، متعینہ فرائض کی انجام دہی سے عبارت تھی جو ان سے قبل ائمہؑ سرانجام دیتے رہے تھے، تاکہ انہیں عباسیوں کے دباؤ سے محفوظ رکھیں۔ آپ(عج) کے آباء و اجداد مامون کے دور تک اس جبر اور دباؤ کو برداشت کرتے رہے تھے؛ خاص طور پر اس لئے بھی کہ امامیہ کا عام اعتقاد یہ تھا کہ "بارہویں امام(عج) وہ ہیں جو حکومتوں [اور ستمگروں] کو [مسلحانہ اقدام کے ذریعے] گرا دیں گے "القائم بالأمر لإزالة الدُوَل"[17]
سفراء کی ایک ذمہ داری یہ تھی کہ انہیں امام(عج) کا نام اور مسکن نہ صرف دشمنوں سے بلکہ شیعیان اہل بیت سے بھی خفیہ رکھنا پڑتا تھا؛ بایں وجود ایک سفیر پر لازم آتا تھا کہ امام(عج) کا وجود مبارک آپ(عج) کے قابل اعتماد عقیدتمندوں کے لئے ثابت کردیں۔ اس نکتے کو کلینی کی ایک روایت سے واضح کیا جا سکتا ہے:
- "ایک دن عبداللہ بن جعفر حمیری نے پہلے سفیر سے پوچھا: "کیا آپ نے گیارہویں امام کے جانشین کو دیکھا ہے؟" امام کے سفیر نے تصدیق میں جواب دیا اور کہا کہ انھوں نے آنجناب کو دیکھا ہے، لیکن یہ بھی کہا کہ "لوگوں کو آپ(عج) کا نام پوچھنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ اگر حکومت وقت پر آپ(عج) کا نام منکشف ہوجائے تو یقینی طور پر آپ(عج) کی گرفتاری کی کوشش کرے گی"۔[18]
اس طرح سفیر اول نے خلیفہ معتمد کو اس فکر میں مبتلا کردیا تھا کہ گویا امام یازدہم جانشین کا تعین کئے بغیر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔[19]جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت، ص140۔</ref>
سفراء بھی اس ہدف کی حصول کے درپے تھے کہ امام عسکریؑ کے فرزند کی امامت کو ثابت کرکے امامیہ کو مزید شاخوں میں منشعب ہونے سے بچا دیں۔ اس ہدف تک پہنچنے کے لئے وہ ان احادیث کا حوالہ دیتے تھے جن سے بارہ ائمہؑ کے مجموعے کا اثبات ہوتا ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ بارہویں امام(عج) غائب ہونگے۔ کلینی نے اس روایت کا مکمل متن نقل کیا ہے جس کو غیبت صغری کے دوران دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔[20]
غیبت صغری کا دور
علمائے شیعہ کے اجماع کے مطابق، حضرت مہدی(عج) کے چوتھے نائب علی بن محمد سمری کی رحلت کے بعد، نیابت خاصہ اور وکالت خاصہ کا باب بند ہوگیا اور ظہور تک شیعہ کے درمیان آپ(عج) کا کوئی نائب خاص نہ ہوگا۔ یوں علی بن محمد سمری کی وفات کے ساتھ غیبت صغری ـ جو 70 سال کے عرصے تک جاری رہی تھی ـ اختتام پذیر ہوئی اور غیبت کبری کا آغاز ہوا۔
نظریۂ ولایت فقیہ کے مطابق، شیعیان اہل بیت کو غیبت کبری کے دوران اپنے دینی مسائل حل کرنے کے لئے امام زمانہ(عج) کے وکلائے عام یعنی جامع الشرائط فقہاء سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ فقہاء کے لئے متعینہ شرطوں میں سے بعض کچھ یوں ہیں: "استنباط احکام کی قوت رکھنا، تقوی اور ہوی و ہوس اور دنیاوی وابستگیوں سے دور رہنا"۔[21]
متعلقہ مآخذ
حوالہ جات
- ↑ ابن شہر آشوب، مناقب، ج3، ص533۔
- ↑ طبری، دلائل الامامہ، ص223۔
- ↑ نوبختی، فرق الشیعہ، ص79۔
- ↑ الاشعري القمي، مقالات والفرق، ص102۔
- ↑ کلینی، کلینی، ج1، ص28 و 29۔
- ↑ کلینی، الکافی، ج1، ص330 - 333۔
- ↑ مفید، الارشاد، ص90- 389۔
- ↑ کلینی، الکافی، ج1، ص1- 330۔
- ↑ طوسی، الغیبہ، ص148 و 152۔
- ↑ نوبختی، فرق الشیعہ، ص9- 88۔
- ↑ الاشعري القمي، مقالات والفرق، ص103۔
- ↑ جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت، ص123؛ صدوق، کمال الدین، ص 435؛ طوسی، الغییہ، ص148 و 152۔
- ↑ جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت، ص135۔
- ↑ جباری، سازمان وکالت، ص8۔
- ↑ دشتی، فرهنگ جهاد، ص102۔
- ↑ دشتی، فرہنگ جہاد، ص102۔
- ↑ طوسی، الغیبه، ص56 و 109۔
- ↑ کلینی، اصول کافی، ج2، ص541۔
- ↑ کلینی، کافی، ج1 ص330۔
- ↑ کلینی، کافی، ج1، ص355-525۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ج2، ص88 ۔
مآخذ
- جباری، محمد رضا، سازمان وکالت و نقش آن در عصر ائمہ علیہم السلام، موسسہ آموزشی پژوہشی امام خمینی(رہ)، قم، 1382ہجری شمسی۔
- حسین، جاسم، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم (عج)، مترجم:آیت اللہی، محمد تقی، ناشر: امیر کبیر، تہران، 1385ہجری شمسی۔
- طبری، محمد بن جریر، دلائل الإمامة، محقق: قسم الدراسات الاسلامیة موسسة البعثة، ناشر: بعثت، قم۔
- شہر آشوب، محمد، مناقب آل ابی طالب، مؤسسہ انتشارات علامہ، قم، 1379ہجری قمری۔
- دشتی، محمد، فرہنگ جہاد، «نقش سیاسی سازمان وکالت در عصر حضور ائمہ علیہم السلام»، شمارہ 40، تابستان 1384ہجری شمسی۔
- الاشعري القمي، سعد بن عبداللہ ، المقالات و الفرق۔
- مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی۔
- شیخ کلینی، اصول کافی، ترجمہ آیت اللہ کمرہای، قم اسوہ، 1375ہجری شمسی۔
- نوبختي، حسن بن موسي، فرق الشيعة و سعد بن عبد اللہ قمي؛ تحقیق: عبد المنعم الحفني، موسسہ تحقيقات و نشر معارف اہل البيتؑ۔
- الصدوق، محمد بن على بن الحسين بن بابويہ القمى، كمال الدين وتمام النعمة، تصحیح: على اكبر الغفاري، مؤسسة النشر الاسلامي (التابعة) لجامعة المدرسين بقم المشرفة (ايران)، 1405ہجری قمری - 1363ہجری شمسی.
- طوسی، الغیبہ۔
- مفید، محمد بن محمد، الارشاد۔
- مجلسی، بحار الانوار۔