بنی اسرائیل

ویکی شیعہ سے
صحرائے سینا میں بنی اسرائیل کے واقعات سے متعلق ہاتھ کا بنا ہوا قالین

بنی‌اسرائیل، ان بارہ اولاد یا قوم کو کہتے ہیں جن کا نام اپنے والد یا دادا اسرائیل (حضرت یعقوب) کے نام پر ہے۔ قرآن 41 بات یہ لفظ آیا ہے اور بنی اسرائیل کو اللہ کی نعمتوں، اس کے احکام اور ان کی اچھی خاصی سرزنش کئے جانے کا ذکر ہوا ہے۔

اسرائیل اور ان کی اولاد، کنعان میں قحط کی وجہ سے مصر گئے اور حضرت موسیٰ کے زمانے تک ان کی نسل مصر ہی میں رہی۔ اس زمانے میں فرعون کے ظلم و ستم کہ وجہ سے وہاں سے نکل گئے۔ جب جناب موسیٰ طور سینا پہاڑ پر گئے اور ایک مدت تک غائب تھے تو بنی اسرائیل نے گوسالہ‌ پرستی شروع کردی تھی۔

جناب موسیٰ اور حضرت یوشع کی وفات کے بعد بنی اسرائیل کے منصفوں کا دور شروع ہوا۔ یہ لوگ بادشاہ نہیں تھے اور صورت اختلافات کو حل کرتے تھے۔ برسوں بعد عصر داوران بنی‌اسرائیل شروع شد۔ آنان پادشاہ نبودند و فقط بہ حل اختلافات می‌پرداختند۔ سال‌ہا بعد، جناب طالوت و پھر حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کے ساتھ بنی اسرائیل کے بادشاہوں کا دور شروع ہوا۔ جناب سلیمان کے بعد آپ کا بیٹا بادشاہ تک پہنچا لیکن بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں میں سے دس قبیلوں نے ان کی اطاعت نہیں کی اور دو قبیلوں یعنی بنیامین و یہودا آپ کی اطاعت کی۔ یہ لوگ اورشلیم میں یہودا نام کے ایک علاقے میں رہنے لگے۔ یہودی لفظ اسی قبیلہ کے نام سے بنا ہے۔

جناب سلیمان کے زمانے میں ہیکل سلیمان کے نام سے عبادت کے لئے ایک عبادتگاہ تعمیر کی گئی تھی جو بنی اسرائیل کی اقوام کے اختلافات اور یوریشلم پر قبضہ ہو جانے کی وجہ سے کئی بار منہدم ہوئی۔

مفہوم شناسی

لغت میں «بنی‌‌اسرائیل»، اولاد حضرت یعقوب کے معنی میں ہے۔ لیکن عام طور سے قوم یہود کے لئے استعمال ہوتا ہے[1] جو کہ جناب یعقوب کے لقب یعنی اسرائیل کی نسبت سے بنی‌اسرائیل کہلائے گئے۔[2] عبری زبان میں خدا کے برگزیدہ اور بندہ خدا کو اسرائیل کہتے ہیں۔[3]

مختصر تاریخ

اسرائیل اور ان کی اولاد، کنعان میں قحط کی وجہ سے مصر گئے[4] اور حضرت موسیٰ کے زمانے تک ان کی نسل مصر ہی میں رہی۔ اس زمانے میں فرعون کے ظلم و ستم کی وجہ سے وہاں سے نکل گئے اور دوبارہ کنعان میں پلٹ آئے، یہ لوگ تقریبا چالیس سال تک صحرائے سینا میں سرگرداں تھے۔[5] یہاں تک کہ جناب موسیٰ کی وفات کے بعد جناب یوشع آپ کے جانشین ہوئے اور آہستہ آہستہ کنعان کو فتح کر لیا۔[6]

یہ قوم آسمانی کتاب، دینی مراسم اور تاریخی پس منظر رکھنے کی وجہ سے اسلام سے پہلے عرب میں ایک تعلیم یافتہ قوم سمجھی جاتی تھی۔ صدر اسلام کی قرآنی ثقافت کے باوجود بنی اسرائیل ایک مدمقابل پہچان کے عنوان سے تھے۔[7]

بنی اسرائیل کے قضات

حضرت یوشع کے بعد بنی اسرائیل میں بہت سی شخصیتوں نے قیادت کی جن کو بنی اسرائیل کا قاضی یا منصف کہا جاتا تھا تھا وہ لوگ بادشاہ نہیں تھے اور صرف لوگوں کے اختلاف کو حل کرتے تھے۔ سموئیل، بنی اسرائیل کے سب سے آخری قاضی تھے تھے اور بنی اسرائیل کے بادشاہوں کا دور جناب طالوت اور پھر جناب داوود اور سلیمان(ع) سے شروع ہوا۔[8]

ایرانی بادشاہ کوروش، بابِل کی فتح اور بنی اسرائیل کی آزادی کے متعلق فرانس کے مشہور نقاش گوستاو دورہ کی فنکاری

عہد عتیق کے بقول، حضرت سلیمان کی وفات کے بعد آپ کے بیٹے نے حکومت سنبھالی، لیکن اس کے ظلم و ستم کی وجہ سے بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں میں سے دس قبیلوں نے اس کے حکم کی مخالفت کی اور صرف یہودا اور بنیامین کی نسل ہی یہودا نامی ایک چھوٹی سی سرزمین کر جو یروشلم (بیت المقدس) کو بھی شامل ہوتی تھی، اس کے لئے رہ گئی۔ یہودی لفظ یہی سے نکلا ہے۔ باقی دس قبیلوں نے اسرائیل نام کی ایک مستقل حکومت تشکیل دے لی اور حضرت سلیمان کے سرداروں میں سے ایک نے اس کی سربراہی کی۔[9]

ہیکل سلیمان

ہیکل سلیمان ایک عبادت گاہ کا نام ہے جس کو حضرت سلیمان نے ساڑھے سات سال میں تعمیر کروایا تھا۔ یہ عبادت گاہ یوریشلم ممک ن کوہ موریا کے اوپر تعمیر ہوئی ہے۔[10] بنی اسرائیل کے ایک دوسرے سے الگ ہونے کے بعد بادشاہ بابِل، بُخْتُ‌النَّصْر نے اس عبادت گاہ کو منہدم کر دیا اور یہ قوم بابل کی قید میں آگئی۔[11] کچھ عرصے بعد ایران طاقتور ہو گیا اور کوروش نے بابل کو فتح کرلیا اور بنی اسرائیل کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ اپنی سر زمین پر لوٹ جائیں۔ انہوں نے عبادت گاہ کو دوبارہ بنایا لیکن کچھ دنوں بعد ان کے درمیان اختلاف ہوگیا اور رومیوں نے کیونکہ ان سے خطرے کا احساس کیا تھا اس لئے سنہ 70 ء میں یوریشلم پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا اور ہیکل سلیمان کو دوسری مرتبہ منہدم کر ڈالا۔ اس کے بعد بنی اسرائیل مکمل طور سے مختلف علاقوں میں بکھر گئے۔[12]

قرآن مجید میں بنی اسرائیل کا تذکرہ

قرآن میں لفظ «بنی‌اسرائیل» 41 بار استعمال ہوا۔[13] اس نام کو لیکر زیادہ تر جن لوگوں کو مخاطب قرار دیا گیا ہے وہ جناب موسیٰ کے پیروکار ہیں، دوسرے الفاظ میں جناب موسیٰ کے بعد جناب یعقوب کی نسل۔[14] بنی اسرائیل کے بارے میں قرآن کے اندر آنے والے بعض موضوعات مندرجہ ذیل ہیں: بنی اسرائیل کے نقیب، بنی اسرائیل کے لئے اللہ کہ نعمتیں، ان کے لئے اللہ کا حکم اور ان کی مذمت:

بارہ نقیب

قرآن میں بارہ نقیبوں کی نسبت بنی اسرائیل کی طرف دی گئی ہے اور مسلمان مفسرین نے اس کے مختلف معنی بیان کئے ہیں:[15] منجملہ:

  • بنی‌ اسرائيل کے سربراہان[16]
  • وہ شاہدین جن کے سامنے بنی اسرائیل نے خدا یا حضرت موسیٰ کی بیعت کی۔[17]
  • وہ ضامن اشخاص جن سے اللہ نے یا موسی نے عید لیا۔[18]
  • فرزندان یعقوب (اسرائیل)۔[19]

بنی اسرائیل پر اللہ کی نعمتیں

بنی اسرائیل ایسی قوم ہیں کہ قرآن نے بارہا ان نعمتوں کا تذکرہ کیا ہے جو ان کو عطا کی گئی۔[20] یہ نعمتیں کچھ اس طرح تھی:

  • حکم عطا کرنا (تشخیص خیر و شر)، نبوت اور کتاب۔[21]
  • پاکیزہ روزی سے بہرہ مندی۔[22]
  • بیابان کی گرمی سے بنی اسرائیل کی حفاظت کے لئے بادلوں کا سایہ فگن ہونا۔[23]
  • عالمین پر فضیلت۔[24]
  • دشمنوں سے نجات۔[25]
  • رہنے کے لئے بہترین مکان کا انتظام۔[26]
  • الہی معجزات کا مشاہدہ۔[27]
  • منّ و سلوی کا نزول۔[28]

بنی اسرائیل کو اللہ کی ہدایات

جو نعمتیں بنی اسرائیل کی دی تھیں قرآن میں اللہ نے ان کے مقابل میں کچھ احکامات بھی دیے ہیں؛ منجملہ:

  • عہد و پیمان سے وفا۔[29]
  • اللہ کا ڈر۔[30]
  • وحی پر ایمان۔[31]
  • حق و باطل کو نہ ملانا اور حق کو نہ چھپانا۔[32]
  • نماز قائم کرنا اور زکات دینا۔[33]
  • عبادت خدا، والدین کے ساتھ نیکی اور یتیموں اور بینواؤں کی دستگیری۔[34]
  • نیک گفتگو۔[35]
  • زیادہ روی سے پرہیز۔[36]

بنی‌‌ اسرائیل‌ کی مذمت

متعدد آیات میں بنی اسرائیل کی مذمت کی گئی ہے اور ان آیتوں میں لعن، کور دلی اور دنیا و آخرت میں رسوائی جیسے عذاب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اور اس قوم کےگناہوں کو اس عذاب کا سبب بتایا گیا ہے۔؛[37] منجملہ:

  • بہت سے آیات ہونے کے باوجود گمراہی۔[38]
  • انبیاء علیہم السلام کی نافرمانی۔[39]
  • پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کی نبوت کا انکار۔[40]
  • آسمانی کتاب پر عمل نہ کرنا۔[41]
  • اسراف۔[42]
  • شرک۔[43]
  • انبیاء کو اذیت دینا اور ان کا انکار کرنا۔[44]
  • الہی نعمتوں ک

ے باوجود تفرقہ و اختلاف۔[45]

کتاب مقدس میں بنی‌ اسرائيل کا تذکرہ

اگرچہ لفظ «بنی‌ اسرائیل» مرکب صورت میں پہلی بار قرآن میں استعمال ہوا ہے،[54] لیکن کتاب مقدس کے مختلف حصوں میں حضرت یعقوب کی اولاد اور ان کے پوتوں نواسوں کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے۔[55] کتاب مقدس میں نسل اسرائیل (یعقوب)، مومنین کا گروہ جو اللہ کی روحانی اولاد ہے اور ملک اسرائیل کہہ کر بنی اسرائیل کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ البتہ پہلے مفہوم کا رواج زیادہ رہا ہے۔[56]

عہد عتیق میں کنعان کی قحط سالی، یعقوب(ع) کی مصر کو ہجرت اور جناب یوسف سے آپ کے دیدار سے اسرائیل اور بنی اسرائیل کی تاریخ کا آغاز ہوتا ہے۔[57] بعد کی بحث میں ان کی ترقی کے مشکلات اور ان کے درمیان متعدد انبیاء کی موجودگی کے بارے میں بیان ہوگا۔[58]

بنی اسرائیل کے انبیاء

بعض شیعہ احادیث کے مطابق بنی اسرائیل کے 600 انبیاء تھے جن میں پہلے جناب موسی اور آخری جناب عیسی تھے۔[59] حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی اولو العزم انبیاء؛ یعنی وہ انبیاء جو نئی شریعت لیکر آئے تھے اور اللہ نے ان پر وحی نازل کی، میں سے ہیں۔[60] بنی اسرائیل کے دیگر انبیاء میں: یعقوب، یوسف، یوشَع، ہارون، داؤود، سلیمان، الیاس، الیَسَع، یونس، عُزَیر اور زکریا قابل ذکر ہیں۔[61]

عید پِسَح

عہد عتیق کے مطابق مصر کے حکمرانوں کی طرف سے بنی اسرائیل پر ظلم و ستم کے بعد حضرت موسیٰ نے اللہ کے حکم سے قوم کے بزرگوں کو جمع کرکے کہا کہ اپنی نجات کے لئے کنعان کے علاقے میں واپس چلے جائیں تاکہ اللہ کی نعمتوں سے بہرہ مند ہوں۔ جناب موسی اور آپ کے بھائی حضرت ہارون مصر چلے گئے اور معجزے کے ذریعے فرعون کے لئے کچھ مشکلات کھڑی کیں کہ وہ بنی اسرائیل کو آزاد کرنے پر مجبور ہو گیا۔ اس نجات کے دن کو یہودی عید‌ پِسَح کے عنوان سے جشن مناتے ہیں۔[62]

گوسالہ‌ پرستی

بنی اسرائیل کے بچھڑا پوجنے کا تذکرہ قرآن مجید اور کتاب مقدس دونوں میں آیا ہے۔ عہد عتیق کے مطابق موسی نے طور سینا سے پلٹنے میں تاخیر کی۔ بنی اسرائیل حضرت ہارون کے پاس گئے اور کہنے لگے ہمارے لئے ایک خدا بنا دیجئے۔ آخرکار انھوں نے سونے کا ایک بچھڑا بنا لیا اور اسی کی پرستش کرنے لگے۔ جناب موسی نے واپسی پر جب بچھڑے کو دیکھا تو بہت ناراض ہوئے اور پتھر کی تختی کو توڑ دیا اور پھر اس کو حاصل کرنے کے لئے چالیس دن تک عبادت کی اور پھر یہ تختی ان کو عطا کی گئی۔[63] قرآن نے اس داستان کو تقریبا اسی طرح نقل کیا ہے، صرف اس کے علاوہ کہ ہارون کو بت سازی سے مبرا جانا ہے اور بچھڑا بنانے والے شخص کو سامری کا نام سے پہچنواتا ہے۔[64]

متعلقہ مقالے

حوالہ جات

  1. ہاشمی رفسنجانی، فرہنگ قرآن، ۱۳۸۵ش، ج۶، ص۲۹۴۔
  2. مہروش، «بنی‌اسرائیل»،‌ ۱۳۸۳ش، ج۱۲، ص۶۲۹۔
  3. دہخدا، لغت‌نامہ، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۲۲۴۶۔
  4. پژوہشکدہ تحقیقات اسلامی، فرہنگ شیعہ، ۱۳۸۶ش، ص۲۶۲۔
  5. توفیقی، ادیان بزرگ، ‌۱۳۸۹ش، ص۸۳۔
  6. توفیقی، ادیان بزرگ، ‌۱۳۸۹ش، ص۸۳۔
  7. مہروش، «بنی‌اسرائیل»،‌ ۱۳۸۳ش، ج۱۲، ص۶۲۹۔
  8. توفیقی، ادیان بزرگ، ‌۱۳۸۹ش، ص۹۱ و ۹۳۔
  9. توفیقی، ادیان بزرگ، ‌۱۳۸۹ش، ص۹۵۔
  10. حسن‌زادہ آملی، دروس معرفت نفس، ۱۳۸۱ش، ص۶۱۵۔
  11. فیض کاشانی، الاصفی فی تفسیر القرآن، ۱۴۱۸ھ، ج۱، ص۴۰۹۔
  12. توفیقی، ادیان بزرگ، ‌۱۳۸۹ش، ص۸۳۔
  13. روحی، «سیمای بنی‌اسرائیل در قرآن و عہدین»، ۱۳۸۴ش، ص۵۵۔
  14. روحی، «سیمای بنی‌اسرائیل در قرآن و عہدین»، ۱۳۸۴ش، ص۵۸۔
  15. روحی، «سیمای بنی‌اسرائیل در قرآن و عہدین»، ۱۳۸۴ش، ص۵۸۔
  16. طوسی‌، التبیان‌، بےتا، ج۳، ص۴۶۵۔
  17. طوسی‌، التبیان‌، بےتا، ج۳، ص۴۶۵۔
  18. قمی مشہدی، تفسیر کنز الدقائق، ۱۳۶۸ش، ج۴، ص۶۰۔
  19. العروسی الحویزی، تفسیر نور الثقلین، ۱۴۱۵ھ، ج۲، ص۸۷۔
  20. روحی، «سیمای بنی‌اسرائیل در قرآن و عہدین»، ۱۳۸۴ش، ص۵۸۔
  21. سورہ جاثیہ، آیہ ۱۶۔
  22. سورہ جاثیہ، آیہ ۱۶۔
  23. سورہ بقرہ، آیہ ۵۷۔
  24. سورہ بقرہ، آیہ ۱۲۲۔
  25. سورہ طہ، آیہ ۸۰۔
  26. سورہ اسراء، آیہ ۱۰۴۔
  27. سورہ یونس، آیہ ۹۰۔
  28. سورہ طہ، آیہ ۸۰۔
  29. سورہ بقرہ، آیہ ۴۵۔
  30. سورہ بقرہ، آیہ ۴۰۔
  31. سورہ بقرہ، آیہ ۴۱۔
  32. سورہ بقرہ، آیہ ۴۲۔
  33. سورہ بقرہ، آیہ ۴۳۔
  34. سورہ بقرہ، آیہ ۸۳۔
  35. سورہ بقرہ، آیہ ۸۳۔
  36. سورہ طہ، آیہ ۸۱۔
  37. روحی، «سیمای بنی‌ اسرائیل در قرآن و عہدین»، ۱۳۸۴ش، ص۶۰۔
  38. سورہ بقرہ، آیہ ۲۱۱۔
  39. سورہ بقرہ، آیہ ۲۴۶۔
  40. سورہ شعراء، آیہ ۱۹۷۔
  41. سورہ بقرہ، آیہ ۸۵۔
  42. سورہ مائدہ، آیہ ۳۲۔
  43. سورہ مائدہ، آیہ ۷۲۔
  44. سورہ مائدہ، آیہ ۱۱۰۔
  45. سورہ یونس، آیہ ۹۳۔
  46. سورہ اسراء، آیہ ۴۔
  47. سورہ بقرہ،‌ آیہ ۴۴۔
  48. سورہ بقرہ،‌ آیہ ۵۱۔
  49. سورہ بقرہ،‌ آیہ ۵۵۔
  50. سورہ بقرہ،‌ آیہ ۶۱۔
  51. سورہ بقرہ،‌ آیہ ۲۴۷۔
  52. سورہ بقرہ،‌ آیہ ۸۴ و ۸۵۔
  53. سورہ بقرہ، آیہ ۸۳و۸۷۔
  54. روحی، «سیمای بنی‌اسرائیل در قرآن و عہدین»، ۱۳۸۴ش، ص۵۶۔
  55. نمونے کے طور پر دیکھئے: کتاب مقدس، سفر خروج، ۱:۳-۱۸؛ سفر پیدایش ۴۶-۵۰، سفر اعداد، ۱۱؛ سفر لاویان، ۲۱۔
  56. روحی، «سیمای بنی‌اسرائیل در قرآن و عہدین»، ۱۳۸۴ش، ص۵۶۔
  57. کتاب مقدس، سفر پیدایش، ۴۶-۴۷۔
  58. روحی، «سیمای بنی‌اسرائیل در قرآن و عہدین»، ص۵۶۔
  59. صدوق،‌ خصال، بی‌تا،‌ ج۲، ص۶۲۴۔
  60. مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۶۸۔
  61. مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۶۸۔
  62. روحی، «سیمای بنی‌اسرائیل در قرآن و عہدین»، ۱۳۸۴ش، ص۵۶۔
  63. توفیقی، ادیان بزرگ، ‌۱۳۸۹ش، ص۸۹۔
  64. توفیقی، ادیان بزرگ، ‌۱۳۸۹ش، ص۸۹۔

مآخذ

  • العروسی الحویزی، عبد علی بن جمعۃ، تفسیر نور الثقلین، قم، اسماعیلیان، چاپ چہارم، ۱۴۱۵ھ۔
  • پژوہشکدہ تحقیقات اسلامی، فرہنگ شیعہ، قم، نشر زمزم ہدایت، چاپ دوم، ۱۳۸۶ش۔
  • توفیقی، حسین، ادیان بزرگ، تہران، نشر وزارت فرہنگ و ارشاد، چاپ سیزدہم، ۱۳۸۹ش۔
  • حسن‌زادہ آملی، حسن، دروس معرفت نفس، قم،‌ انتشارات الف لام میم، چاپ اول، ۱۳۸۱ش۔
  • روحی، ابوالفضل، «سیمای بنی‌اسرائیل در قرآن و عہدین»، در مجلہ معرفت، شمارہ ۹۵، آبان ۱۳۸۴ش۔
  • طوسی محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت،‌ دار احیاء ا

لتراث العربی، بےتا۔

  • فیض کاشانی، ملا محسن، الاصفی فی تفسیرالقرآن، قم، مرکز انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی، چاپ اول، ۱۴۱۸ھ۔
  • قمی مشہدی، محمد بن محمدرضا، تفسیر کنز الدقائق و بحر الغرائب، تہران، نشر وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، چاپ اول، ۱۳۶۸ش۔
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار استاد شہید مطہری، تہران، انتشارات صدرا، ۱۳۷۷ش۔
  • مہروش، فرہنگ، «بنی‌اسرائیل»،‌ در دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، نشر مرکز دائرۃالمعارف بزرگ اسلامی، تہران،‌ ۱۳۸۳ش۔
  • ہاشمی رفسنجانی، اکبر، فرہنگ قرآن، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۵ش۔