مندرجات کا رخ کریں

آیت مباہلہ

فاقد خانہ معلومات
حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
غیر جامع
ویکی شیعہ سے
(آیۂ مباہلہ سے رجوع مکرر)
آیت مباہلہ
آیت کی خصوصیات
آیت کا ناممباہلہ
سورہسورہ آل عمران
آیت نمبر61
پارہ3
صفحہ نمبر57
شان نزولنجران کے عیسائیوں کا پیغمبر اکرمؐ سے مناظرہ
محل نزولمدینہ
موضوععقائد
مضمونپیغمبر اکرمؐ کا نجران کے عیسائیوں سے مباہلہ
مربوط آیاتآیت تطہیر


آیت مُباہلہ؛ سورہ آل عمران کی 61ویں آیت ہے جس میں پیغمبر اکرمؐ کا نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ کے واقعے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ واقعہ پیغمبر اکرمؐ اور عیسائیوں کے درمیان حضرت عیسی کے مقام ومرتبے کے بارے میں پیدا ہونے والے اختلاف کے بعد پیش آیا۔ شیعہ اور بعض اہل سنت مفسرین اس آیت کو پیغمبر اکرمؐ کی حقانیت اور اصحاب کساء یعنی پنچتن آل عبا کے فضائل میں شمار کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ اس آیت میں «اَبْناءَنا» (ہمارے بیٹے) سے مراد امام حسنؑ و امام حسینؑ، «نِساءَنا» (ہماری خواتین) سے مراد حضرت فاطمہ (س) اور «اَنْفُسَنا» (ہمارے نفسوں) سے مراد حضرت علیؑ ہیں۔

شیعہ ائمہ اور بعض اصحاب نے امام علیؑ کی فضلیت کو ثابت کرنے کے لئے آیت مباہلہ سے استناد کیا ہے۔ اسی طرح مباہلہ کی مشروعیت نیز سیاسی اور سماجی امور میں خواتین کی شمولیت کے جواز پر بھی اس آیت سے اسنتاد کیا جاتا ہے۔

آیت کا متن اور ترجمہ

فَمَنْ حَاجَّک فِیہِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَک مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَکمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَکمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَکمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَل‌لَّعْنَتَ اللَّہِ عَلَی الْکاذِبِینَ


(اے پیغمبرؐ) اس معاملہ میں تمہارے پاس صحیح علم آجانے کے بعد جو آپ سے حجت بازی کرے تو آپ ان سے کہیں کہ آؤ! ہم اپنے اپنے بیٹوں، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر مباہلہ کریں (بارگاہِ خدا میں دعا و التجا کریں) اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔ (یعنی ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں کو، ہم اپنی عورتوں کو بلائیں تم اپنی عورتوں کو اور ہم اپنے نفسوں کو بلائیں تم اپنے نفسوں کو۔ پھر اللہ کے سامنے گڑگڑائیں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں)۔ [1]



سورہ آل عمران: آیت 61


شأن نزول

آیتِ مباہلہ نجران کے عیسائیوں کے جواب میں نازل ہوئی۔[2] نجران کے کچھ عیسائی پیغمبر اسلامؐ سے ان کی رسالت کے دعوے پر گفتگو کرنے کے لیے مدینہ آئے۔ پیغمبر اکرمؐ نے اپنا تعارف کرانے کے بعد حضرت عیسیٰ کو اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ قرار دیا۔ جبکہ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰؑ کے بغیر باپ کی پیدائش کو ان کی الوہیت کی دلیل قرار دیا۔[3] نجران کے عیسائی اپنے عقیدے پر مصر رہے، تو نبی اکرمؐ نے انہیں مباہلہ کی دعوت دی، جسے انہوں نے قبول کر لی۔ مقررہ دن نبی اکرمؐ حضرت علیؑ، حضرت فاطمہ (س) اور حسنینؑ کے ساتھ مباہلہ کے لیے حاضر ہوئے، لیکن جب عیسائیوں نے نبی اکرمؐ اور ان کے ساتھیوں کی سنجیدگی دیکھی، تو اپنے بزرگوں کے مشورے سے مباہلہ سے مصرف ہو گئے۔ انہوں نے نبی اکرمؐ کے ساتھ صلح کر لی اور جزیہ ادا کر کے اپنے دین پر باقی رہنے کی درخواست کی، جسے نبی اکرمؐ نے قبول کر لیا۔[4]

تفسیر

شیعہ متکلم قاضی نور اللہ شوشتری کے مطابق مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ آیتِ مباہلہ میں "اَبْناءَنا" (ہمارے بیٹے) سے مراد حسنؑ اور حسینؑ، "نِساءَنا" (ہماری عورتیں) سے مراد حضرت فاطمہؑ اور "اَنفُسَنا" (ہمارے نفسوں) سے مراد امام علیؑ ہیں۔[5]

علامہ مجلسی نے ان احادیث کو متواتر قرار دیا ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ آیتِ مباہلہ اہل کساء کی شان میں نازل ہوئی ہے۔[6] کتاب "اِحقاقُ الحق" (تألیف 1014 ہجری) میں اہلِ سنت کے تقریباً ساٹھ مصادر ذکر کیے گئے ہیں، جن میں تصریح کی گئی ہے کہ یہ آیت مذکورہ ہستیوں کے حق میں نازل ہوئی۔[7] ان مصادر میں زمخشری کی کتاب "الکشاف، [8] فخر رازی کی کتاب "التفسیر الکبیر"[9] اور بیضاوی کی کتاب "انوار التنزیل و اسرار التأویل"[10] شامل ہیں۔

اس آیت میں "اَبْناءَنا"، "نِساءَنا" اور "اَنفُسَنا" جمع کے صیغے استعمال ہوئے ہیں، حالانکہ ان کے مصادیق یا تو واحد ہیں یا تثنیہ (دو افراد)، شیعہ مفسرین نے اس نکتے کی وضاحت کی ہیں:

  1. اس آیت کی شأن نزول اس تفسیر کی صحت پر قرینہ ہے، کیونکہ مفسرین کے اجماع کے مطابق رسول اللہؐ نے مباہلہ کے لیے حضرت علیؑ، حضرت فاطمہ(س) اور امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے علاوہ کسی کو ساتھ نہیں لے گیا تھا۔[11]
  2. معاہدات میں الفاظ عمومی رکھے جاتے ہیں تاکہ وہ تمام مصادیق پر صادق آئیں، جبکہ عملی نفاذ میں ممکن ہے کہ مصداق صرف ایک یا دو افراد تک محدود ہو۔ مثال کے طور پر، کسی معاہدے میں لکھا جاتا ہے کہ اس پر عمل درآمد کرنے والے فریقین اور ان کی اولاد ہوں گے، حالانکہ ممکن ہے کہ کسی فریق کی صرف ایک یا دو اولاد ہوں۔[12]
  3. قرآن میں دیگر مقامات پر بھی جمع کا اطلاق واحد پر ہوا ہے، جیسے آیتِ ظِہار[13] میں "الَّذِينَ يُظَاہِرُونَ مِنكُم مِّن نِّسَائِہِم" (ترجمہ: (وہ لوگ جو تم میں سے اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں)) جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے، حالانکہ اس کا سببِ نزول صرف ایک فرد کے متعلق تھا۔[14]

تاریخی احتجاجات

احادیث کے مطابق شیعہ ائمہ اور بعض صحابہ نے امام علیؑ کی فضیلت کو ثابت کرنے کے لیے آیت مباہلہ سے استناد کیا ہے:

سعد بن ابی وقاص کا احتجاج

عامر بن سعد بن ابی وقاص اپنے والد سعد بن ابی وقاص سے نقل کرتے ہیں کہ معاویہ نے ایک دن سعد سے کہا: "تم علی کو سبّ یعنی برابھلا کیوں نہیں کہتے؟" سعد نے جواب دیا:

"جب تک تین چیزیں مجھے یاد ہیں، میں ہرگز علی کو سبّ نہیں کروں گا؛ کیونکہ اگر ان میں سے ایک چیز بھی میرے لیے ہوتی، تو میں اسے سرخ اونٹوں (قیمتی اونٹ) سے زیادہ پسند کرتا۔ ان تین میں سے ایک یہ ہے کہ جب آیت مباہلہ نازل ہوئی، تو رسول خداؐ نے علیؑ، فاطمہ(س)، حسنؑ اور حسینؑ کو بلایا اور فرمایا: اَللّٰہُمَّ ہٰؤُلَاءِ أَہْلُ بَيْتِي (اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں)"۔[15]

امام کاظمؑ کا احتجاج

ہارون عباسی نے امام کاظمؑ سے کہا: "آپ یہ کیسے کہتے ہو کہ آپ نبیؐ کی نسل میں سے ہیں، حالانکہ نبیؑ کی کوئی نسل نہیں ہے، کیونکہ نسل صرف بیٹے سے چلتی ہے، بیٹی سے نہیں، اور آپ پیغمبر اکرمؐ کی بیٹی کی اولاد میں سے ہیں؟" امام کاظمؑ نے جواب میں آیت مباہلہ کی تلاوت کی اور فرمایا:

"کسی نے یہ نہیں کہا کہ نبیؐ نے نصاریٰ سے مباہلہ کرتے وقت علی بن ابی طالب، فاطمہ(س)، حسنؑ اور حسینؑ کے علاوہ کسی اور کو اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ پس 'ابنائنا' (ہمارے بیٹے) سے مراد حسنؑ و حسینؑ، 'نسائنا' (ہماری عورتیں) سے مراد فاطمہ(س)، اور 'انفسنا' (ہمارے نفس) سے مراد علی بن ابی طالبؑ ہیں"۔[16]

امام رضاؑ کا احتجاج

شیخ مفید کے مطابق مأمون عباسی نے امام رضاؑ سے درخواست کی کہ وہ امام علیؑ کی سب سے بڑی فضیلت بیان کریں، جو قرآن سے ثابت ہو۔ امام رضاؑ نے اس کے جواب میں آیت مباہلہ کی تلاوت کی۔

مأمون نے کہا: "اللہ نے اس آیت میں 'ابنائنا' (ہمارے بیٹے) اور 'نسائنا' (ہماری عورتیں) کو جمع کے صیغے میں ذکر کیا ہے، جبکہ نبیؐ اپنے ساتھ صرف دو بیٹوں اور اپنی واحد بیٹی کو لے گئے۔ اسی طرح 'انفسنا' (ہمارے نفس) کا حقیقی مفہوم نبیؐ خود ہیں، لہٰذا اس میں علیؑ کے لیے کوئی فضیلت نہیں"۔

امام رضاؑ نے جواب میں فرمایا:

"جو کچھ تم نے کہا وہ درست نہیں، کیونکہ 'دعوت دینے والا' اپنے علاوہ کسی ا ور کو دعوت دیتا ہے، جس طرح 'حکم دینے والا' اپنے علاوہ کسی اور کو حکم دیتا ہے۔ کوئی شخص حقیقت میں اپنے آپ کو دعوت نہیں دے سکتا، جس طرح وہ اپنے آپ کو کسی چیز کا حکم نہیں دے سکتا۔ رسول خداؐ نے مباہلہ کے وقت امام علیؑ کے علاوہ کسی اور مرد کو دعوت نہیں دی ہے، لہٰذا یہ ثابت ہوتا ہے کہ علیؑ وہی 'نفس رسول' ہیں، جن کا ذکر اللہ نے اپنی کتاب میں کیا اور ان کے لیے قرآن میں ایک خاص مقام مقرر کیا"۔[17]
آیت مباہلہ (سورہ آل عمران آیت نمبر 61) کی خطاطی

فقہی استبناطات

برض معاصر محققین اور مفسرین نے آیت مباہلہ سے مختلف فقہی مسائل استنباط کیے ہیں، جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • سیاسی و سماجی امور میں عورتوں کی شمولیت کا جواز:

یہ مطلب آیت میں مذکور "نساءَنا" (ہماری عورتیں) اور واقعہ مباہلہ میں حضرت فاطمہؑ کی موجودگی سے اخذ کیا گیا ہے۔[18] شیعہ مفسر سید عبد الاعلی سبزواری (متوفی 1414ھ) کے مطابق اگرچہ قرآن کا اسلوب کنایہ اور خواتین کی حرمت کی حفاظت پر مبنی ہے، لیکن آیت میں "نساء" کا استعمال اس بات کی دلیل ہے کہ دینی معاملات میں عورتوں کی شرکت جائز ہے۔[19] اہل سنت عالم دین رشید رضا کے مطابق آیت مباہلہ میں مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی قومی اور دینی معاملات میں شمولیت کا حکم دیا گیا ہے، اور یہ حکم عمومی معاملات میں مردوں و عورتوں کی برابری اور مساوات پر مبنی ہے، سوائے جنگ جیسے امور جنہیں استثنیٰ کیا گیا ہے۔[20]

تفسیر نمونہ (تالیف 14ویں صدی شمسی) میں بیان کیا گیا ہے کہ اگرچہ آیت میں مباہلہ کی دعوت دینے کا خطاب خاص طور پر نبی اکرمؐ کے ساتھ مختص ہے، لیکن مباہلہ ایک مشروع اور عمومی حکم ہے۔[24]

  • اسلام کے دفاع میں جان و مال قربان کرنے کی مشروعیت[25]: تفسیر مواہب‌ الرحمان میں عبد الاعلی سبزواری کے مطابق آیت مباہلہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہر انسان کا مقصد حق کی حمایت اور اس کے حصول کی راہ میں جد و جہد ہونا چاہئے، اور اس راہ میں اسے اپنی جان، مال اور خاندان کی قربانی دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔[26]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. ترجمہ محمد حسین نجفی
  2. طبرسی، مجمع‌البیان، 1372شمسی، ج2، ص762۔
  3. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج2، ص575۔
  4. طبرسی، مجمع‌البیان، 1372شمسی، ج2، ص762۔
  5. مرعشى، احقاق‌الحق، 1409ھ، ج3، ص46۔
  6. مجلسی، حق‌الیقین، انتشارات اسلامیہ، ج‏1، ص67۔
  7. ملاحظہ کریں: مرعشى، احقاق الحق، 1409ھ، ج3، ص46-72۔
  8. زمخشری، الکشاف، 1415ھ، ج1، ص370۔
  9. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ۔ ج8، ص247۔
  10. بیضاوی، انوار التنزیل و اسرار التأویل، 1418ھ،‌ ج2، ص21۔
  11. ملاحظہ کریں: طبرسی، مجمع‌البیان، 1372شمسی، ج2، ص763؛ طباطبایی، المیزان، 1351-1352، ج3، ص223؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج2، ص586۔
  12. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج2، ص586-587۔
  13. ملاحظہ کریں: طباطبایی، المیزان، 1351-1352، ج3، ص223۔
  14. نگاہ کنید بہ طباطبایی، المیزان، 1351-1352، ج3، ص223-224۔
  15. ملاحظہ کریں: طباطبایی، المیزان، 1351/1352، ج3، ص232۔
  16. طباطبایی، المیزان، 1351/1352، ج3، ص230-229۔
  17. مفید، الفصول المختارہ، 1414ھ، ص38۔
  18. الغفوری، «خوانش فقہی جدید از آیہ مباہلہ(2)»، ص48-49۔
  19. سبزواری، مواہب الرحمان، 1409-1410ھ، ج6، ص18-19۔
  20. رشید رضا، تفسیر المنار، 1990م، ج3، ص266۔
  21. الغفوری، «خوانش فقہی جدید از آیہ مباہلہ(1)»، ص73۔
  22. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج5، ص432۔
  23. الغفوری، «خوانش فقہی جدید از آیہ مباہلہ(1)»، ص76-79۔
  24. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج2، ص589۔
  25. الغفوری، «خوانش فقہی جدید از آیہ مباہلہ(2)»، ص52۔
  26. سبزواری، مواہب الرحمان، 1409-1410ھ، ج6، ص8۔

مآخذ

  • بیضاوی، عبداللہ بن عمر، انوار التنزیل و اسرار التأویل (تفسیر البیضاوی)، بیروت، الاحیاء التراث العربی، 1418ق/1998ء۔
  • رشید رضا، محمدرشید بن علیرضا، تفسیر القرآن الکریم (تفسیر المنار)، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، 1990ء۔
  • زمخشری، محمود، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، قم، نشر البلاغہ، الطبعۃ الثانیۃ، 1415ھ۔
  • سبزواری، سید عبدالاعلی، مواہب الرحمان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسہ اہل البیت(ع)، 1409-1410ھ۔
  • شوشتری، قاضى نوراللہ، احقاق الحق و إزہاق الباطل، قم، کتابخانہ آیت‌اللہ مرعشی نجفی، چاپ اول، 1409ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1351/1352۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، تحقیق محمدابوالفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، الطبعۃ الثانیۃ، 1387ق/1967ء۔
  • الغفوری، خالد، «خوانش فقہی جدید از آیہ مباہلہ(2)»، ترجمہ محمودرضا توکلی محمدی، کوثر معارف، شمارہ 22، تابستان 1391ہجری شمسی۔
  • الغفوری، خالد، «خوانش فقہی جدید از آیہ مباہلہ(1)»، ترجمہ محمودرضا توکلی محمدی، کوثر معارف، شمارہ 21، بہار 1391ہجری شمسی۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1420ق/1999ء۔
  • مفید، محمد بن محمد، الفصول المختارہ، تحقیق: سید میرعلی شریفی، بیروت، دار المفید، الطعبۃ الثانیۃ، 1414ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران،‌ دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، 1374ہجری شمسی۔