امام علی علیہ السلام

حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
علاقائی تقاضوں سے غیر مماثل
ویکی شیعہ سے
(امیرالمؤمنین علی سے رجوع مکرر)
امام علی علیہ السلام
حرم امام علیؑ
حرم امام علیؑ
منصبشیعوں کے پہلے امام، اہل سنت کے چوتھے خلیفہ
نامعلی ابن ابی طالبؑ
کنیتابو الحسن، ابو السبطین، ابو الریحانتین، ابو تراب، ابو الائمہ ...
القابامیرالمؤمنین، یعسوب الدین، حیدر، مرتضی، نفس رسول، أخو الرسول، زوج البتول، قسیم الجنّۃ والنار ...
تاریخ ولادت13 رجب، سنہ 30 عام الفیل
جائے ولادتکعبہ، مکہ
مدت امامت29 سال (11-40ھ)
شہادت21 رمضان، سنہ 40 ہجری
سبب شہادتضربت ابن ملجم
مدفننجف، عراق
رہائشمکہ، مدینہ، کوفہ
والد ماجدابو طالب
والدہ ماجدہفاطمہ بنت اسد
ازواجحضرت فاطمہ، خولہ، ام حبیب، ام البنین، لیلا، اسما، ام سعید
اولادحسن، حسین، زینب، ام کلثوم، محسن، محمد بن حنفیہ، عباس، عمر، رقیہ، جعفر، عثمان، عبداللہ، محمد اصغر، عبیداللہ، یحیی، ام الحسن، رملہ، نفیسہ، ام ہانی ۔۔۔
عمر63 سال
ائمہ معصومینؑ
امام علیؑامام حسنؑامام حسینؑامام سجادؑامام محمد باقرؑامام صادقؑامام موسی کاظمؑامام رضاؑامام محمد تقیؑامام علی نقیؑامام حسن عسکریؑامام مہدیؑ


علی بن ابی طالب (23 عالم الفیل - 40ھ) امام علی و امیرالمومنین کے نام سے مشہور، شیعوں کے پہلے امام، صحابی، راوی، کاتب وحی، اہل سنت کے چوتھے خلیفہ، رسول خداؐ کے چچازاد بھائی و داماد، حضرت فاطمہؑ کے شوہر، امام حسن اور امام حسین کے والد ماجد اور باقی ائمہ کے جد امجد ہیں۔ حضرت ابو طالب آپ کے والد و فاطمہ بنت اسد والدہ ہیں۔ شیعہ و اکثر سنی مؤرخین کے مطابق آپ کی ولادت کعبہ کے اندر ہوئی۔ رسول اللہؐ نے جب اپنی نبوت کا اعلان کیا تو سب سے پہلے آپ ایمان لے آئے۔ شیعوں کے مطابق آپ بحکم خدا رسول اللہؐ کے بلا فصل جانشین ہیں۔

آپ کے سلسلہ میں بہت زیادہ فضائل نقل ہوئے ہیں؛ آنحضرت نے دعوت ذوالعشیرہ میں آپ کو اپنا وصی و جانشین معین کیا۔ شب ہجرت جب قریش رسول خدا کو قتل کرنا چاہتے تھے، آپ نے ان کے بستر پر سو کر ان کی جان بچائی۔ اس طرح حضورؐ نے مخفیانہ طریقہ سے مدینہ ہجرت فرمائی۔ مدینہ میں جب مسلمانوں کے درمیان عقد اخوت قائم ہوا تو رسول خدا نے آپ کو اپنا بھائی قرار دیا۔ شیعہ و سنی مفسرین کے مطابق قرآن مجید کی تقریبا 300 آیات کریمہ آپ کی فضیلت میں نازل ہوئی ہیں۔ جن میں سے آیہ مباہلہ و آیہ تطہیر و بعض دیگر آیات آپ کی عصمت پر دلالت کرتی ہیں۔

آپ جنگ تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ شریک تھے۔ جنگ تبوک میں رسول اللہؐ نے مدینے میں آپ کو اپنے جانشین کے طور پر مقرر کیا۔ آپ نے جنگ بدر میں بہت سے مشرکین کو قتل کیا۔ جنگ احد میں آنحضرت کی جان کی حفاظت کی۔ جنگ خندق میں عمرو بن عبدود کو قتل کرکے جنگ کا خاتمہ کر دیا اور جنگ خیبر میں در خیبر کو اکھاڑ کر جنگ فتح کر لی۔

رسول خدا نے اپنے آخری حج سے واپسی پر آیہ تبلیغ کے حکم خدا کے مطابق، غدیر خم کے مقام پر لوگوں کو جمع کیا۔ خطبہ غدیر پڑھنے کے بعد حضرت علی کو اپنے ہاتھوں پر بلند کیا اور فرمایا؛ جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی مولا ہیں۔ خدایا اس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے، اس کو دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے۔ اس خطبے کے بعد صحابہ میں سے بعض جیسے عمر بن خطاب نے آپ کو مبارک باد پیش کی اور امیرالمومنین کے لقب سے خطاب کیا۔ شیعہ و بعض اہل سنت مفسرین کے مطابق، آیہ اکمال اسی دن نازل ہوئی ہے۔ شیعہ عقیدہ کے مطابق، من کنت مولاہ فعلی مولاہ کی روز غدیر کی تعبیر، جانشین معین کرنے کے معنی ہے۔ اسی بنیاد پر شیعہ دوسرے فرق کے مقابل اپنا امتیاز آنحضرت کی جانشینی کے لئے حضرت علی کے اللہ تعالی کی طرف سے منتخب ہونے کو قرار دیتے ہیں۔ جبکہ اہل سنت اسے عوامی انتخاب مانتے ہیں۔

رسول اللہؐ کے وصال کے بعد سقیفہ میں ایک گروہ نے خلیفہ کے عنوان سے حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر بیعت کی۔ قبائلی رقابت، کینہ و حسد کو خلافت کے مسئلہ میں آنحضرت کے فرمان کے مطابق حضرت علی کو خلیفہ نہ ماننے کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ آپ نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی۔ اس کے بعد خود اصل بیعت اور زمان بیعت کے سلسلہ میں اختلاف بظر پایا جاتا ہے۔ بعض منابع کے مطابق، آپ نے صریح طور پر ابوبکر کے ساتھ مناظرہ کیا اور اس میں انہوں نے ابوبکر کی طرف سے واقعہ سقیفہ میں خلاف ورزی کرنے اور اہل بیت پیغمبر کے حق کو نظر انداز کرنے پر مزمت کی۔ شیعہ و بعض سنی منابع کے مطابق، خلیفہ کے ساتھیوں نے حضرت علی سے بیعت لینے کے لئے ان کے گھر پر حملہ کیا۔ اس میں حضرت فاطمہ زخمی ہوئیں، ان کا بچہ ساقط ہوگیا اور کچھ عرصے کے بعد ان کی شہادت ہوگئی۔ امام علی نے مختلف مواقع اور متعدد اقوال میں واقعہ سقیفہ پر اعتراض کیا اور جانشینی کے مسئلہ میں اپنے حق کو یاد دلایا۔ اس کی مشہور ترین مثال خطبہ شقشقیہ ہے۔

امام علی نے خلفائے ثلاثہ کے 25 سالہ دور خلافت میں تقریبا سیاسی و حکومتی امور سے دوری اختیار کی اور فقط علمی و سماجی امور میں مشغول رہے۔ جیسے جمع آوری قرآن کریم، جو مصحف امام علی کے نام سے مشہور ہے، مختلف امور میں خلفاء کو مشورہ دینا، جیسے قضاوت، انفاق فقراء، تقریبا ایک ہزار غلاموں کو خریدنا، انہیں آزاد کرنا، زراعت و شجرکاری، کنویں کھودنا، مساجد تعمیر کرنا و اماکن و املاک وقف کرنا، جن کی سالانہ آمدنی چالیس ہزار دینار تک ذکر ہوئی ہے۔ اسی طرح سے خلفاء آپ سے قضاوت جیسے مختلف حکومتی امور کے بارے میں مشورہ کیا کرتے تھے۔

آپ نے خلیفہ سوم کے بعد مسلمانوں کے اصرار پر خلافت و حکومت کو قبول کیا۔ آپ اپنی حکومت میں عدل و انصاف کو بظور خاص اہمیت دیتے تھے۔ آپ نے خلفاء کی اس روش کا مقابلہ کیا، جس میں افراد کے سوابق کے اعتبار سے انہیں بیت المال سے حصہ دیا جاتا تھا۔ آپ نے حکم دیا کہ عرب و عجم، ہر مسلمان کو چاہے اس کا تعلق کسی بھی خاندان و قبیلہ سے ہو، بیت المال میں سب کا حصہ برابر ہے اور انہوں نے ان تمام زمینوں، جنہیں عثمان نے مختلف افراد کے حوالے کر دیا تھا، بیت المال کو واپس کیا۔

امام علی دینی امور، قانون کے دقیق اجرا اور صحیح طریقے سے حکومت چلانے کے معاملے میں بیحد سنجیدہ و نظر انداز نہ کرنے والے تھے اور یہی سبب تھا جس نے آپ کو بعض افراد کے لئے ناقابل برداشت بنا دیا تھا۔ وہ اس راہ میں حتی اپنے نزدیک ترین افراد کے ساتھ بھی سختی سے پیش آتے تھے۔ امام علی کے مطابق حاکم کا حق اپنی رعیت پر اور رعیت کا حق اپنے حاکم پر، بزرگ ترین حقوق میں سے ہے جسے خداوند عالم نے قرار دیا ہے اور یہ کاملا دو طرفہ ہے اور دونوں طرف سے حقوق کی رعایت بیحد ثمرات کی حامل ہے۔ جس وقت حضرت نے مالک اشتر کو مصر کا گورنر منصوب کیا تو انہیں تمام لوگوں کے ساتھ چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلمان، مہربانی و خوش اخلاقی و انسانی سلوک سے پیش آنے کی نصیحت فرمائی۔ حضرت کو اپنی مختصر حکومت کے عرصے میں تین سنگین داخلی جنگوں جمل، صفین اور نہروان کا سامنا کرنا پڑا۔

آخر کار محرام مسجد کوفہ میں نماز کی حالت میں ابن ملجم مرادی نامی ایک خارجی کے ہاتھوں شہید ہوئے اور مخفیانہ طور پر نجف میں دفن کئے گئے۔ روضہ امام علی شہر نجف میں شیعوں کے مقدس مقامات میں شمار ہوتا ہے۔ جس کی زیارت پر شیعہ توجہ مبذول کرتے ہیں۔ آپ کے روضے میں دیگر مشاہیر بھی مدفون ہیں۔ جن کا تذکرہ بعض مصادر میں حرم امام علی میں مدفون شخصیات کے ضمن میں ہوا ہے۔

نحو، کلام، فقہ و تفسیر جیسے بہت سے اسلامی علوم کا سلسلہ آپؑ تک منتہی ہوتا ہے اور تصوف کے مختلف مکاتب فکر اپنے سلسلہ سند کو آپ ہی سے متصل کرتے ہیں۔ امام علی شیعوں کے یہاں ہمیشہ سے خاص مرتبہ و منزلت رکھتے ہیں اور وہ آنحضرت کے بعد بہترین، با تقوی ترین، عالم ترین انسان اور آپ کے بر حق جانشین ہیں۔ اسی بنیاد پر صحابہ کے ایک گروہ کو پیغمبر اکرم کی حیات سے ہی مطیع و محب علی یعنی شیعہ علی کہا جاتا تھا۔ مشہور کتاب نہج البلاغہ آپ کے خطبات و اقوال و مکتوبات کا منتخب مجموعہ ہے۔ اس کے علاوہ دیگر مکتوبات کی نسبت بھی آپ کی طرف دی گئی ہے جسے رسول خدا نے املا فرمایا اور آپ نے تحریر کیا۔ آپ کے بارے میں مختلف زبانوں میں بہت سی تحریریں لکھی گئیں ہیں۔

نسب، القاب و اوصاف ظاہری

مورخین کے مطابق، حضرت ابو طالب و فاطمہ بنت اسد کی شادی پہلی شادی ہے جس میں زوج و زوجہ دونوں ہاشمی ہیں[5] اور اس لحاظ سے امام علی ؑ پہلے فرد ہیں جن کے والد و والدہ دونوں ہاشمی ہیں۔[6]

کنیت، القاب و صفات

  • کنیت: ابو الحسن،[7] ابو الحسین، ابو السبطین، ابو الریحانتین، ابو تراب و ابو الآئمہ۔[8]
  • القاب: امیرالمؤمنین، یعسوب الدین والمسلمین، مبیر الشرک والمشرکین، قاتل الناکثین والقاسطین والمارقین، مولٰی المؤمنین، شبیہ ہارون، حیدر، مرتضی، نفس الرسول، أخو الرسول، زوج البتول، سیف اللّہ‏ المسلول، امیر البررة، قاتل الفجرة، قسیم الجنّة والنار، صاحب اللواء، سیّد العرب، کشّاف الکرب، الصدّیق الأکبر، ذوالقرنین، الہادی، الفاروق، الداعی، الشاہد، باب المدینة، والی، وصیّ، قاضی دین رسول اللّہ‏ؐ، منجز وعدہ، النبأ العظیم، الصراط المستقیم والأنزع البطین[9]

لقب امیر المؤمنین

امیرالمومنین کے معنی مؤمنین کے امیر، حاکم اور رہبر کے ہیں۔ اہل تشیع کے مطابق یہ لقب حضرت علیؑ کے ساتھ مختص ہے۔ ان کے مطابق یہ لقب پہلی بار پیغمبر اسلامؐ کے زمانے میں حضرت علیؑ کے لئے استعمال کیا گیا اور صرف آپؑ کے ساتھ مخصوص ہے۔ اسی لئے شیعہ حضرات اس کا استعمال دوسرے خلفاء حتی امام علیؑ کے علاوہ دوسرے ائمہ کے لئے بھی صحیح نہیں سمجھتے ہیں۔[10]

جسمانی اوصاف

مختلف مصادر کے مطابق آپ کا قد درمیانہ، آنکھیں سیاہ و کھلی، ابرو کمان کی مانند کھنچے و ملے ہوئے، چہرہ انتہائی خوبصورت و دلکش، چہرے کی رنگت گندمی، داڑھی گھنی اور شانے کشادہ تھے۔[11] بعض منابع کے مطابق رسول اللہ نے انہیں بطین کے لقب سے نوازا اسی وجہ سے بعض یہ خیال کرتے ہیں کہ امام علی جسمانی لحاظ سے موٹاپے کی طرف مائل تھے لیکن بعض نے اس بطین سے البطین من العلم (علم سے بھرا ہوا) مراد لیا ہے۔[12] دیگر اور قرائن بھی اسی کی تائید کرتے ہیں ان میں سے بعض زیارتوں میں حضرت علی کو بطین کی صفت سے یاد کیا گیا ہے۔[13]

آپ کی قدرت بدنی کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ جس کسی کے ساتھ بھی لڑے اس کو زمین پر دے مارا۔[14] ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں لکھتے ہیں: امامؑ کی جسمانی قوت ضرب المثل میں بدل گئی ہے۔ آپ ہی تھے جنہوں نے در خیبر اکھاڑا اورجبکہ ایک جماعت نے وہ دروازہ دوبارہ لگانے کی کوشش کی لیکن ایسا ممکن نہ ہوا۔ آپ ہی تھے جنہوں نے ہبَل نامی بت کو جو حقیقتاً بڑا بت تھا، کعبہ کے اوپر سے زمین پر دے مارا۔ آپ ہی تھے جنہوں نے اپنی خلافت کے زمانے میں ایک بڑے پتھر کو اکھاڑ دیا اور اس کے نیچے سے پانی ابل پڑا، جبکہ آپ کے لشکر میں شامل تمام افراد اس میں ناکام ہو چکے تھے۔[15]

سوانح حیات

مولود کعبہ کے بارے میں ایرانی آرٹسٹ فرشچیان کی فنکاری

حضرت علیؑ مردوں میں سب سے پہلے حضرت محمدؐ پر ایمان لائے۔[16] آپ شیعوں کے پہلے امام[17] اور اہل سنت کے چوتھے خلیفہ ہیں۔

ولادت سے ہجرت تک

امام علیؑ 13 رجب 30 عام الفیل بروز جمعہ (23 سال قبل از ہجرت) خانہ کعبہ کے اندر متولد ہوئے۔[18] کعبہ میں آپ کی ولادت کی روایت کو شیخ صدوق، شیخ مفید سید رضی، قطب راوندی و ابن شہرآشوب سمیت تمام شیعہ علماء اور حاکم نیشابوری، حافظ گنجی شافعی، ابن جوزی حنفی، ابن صباغ مالکی، حلبی اور مسعودی سمیت بیشتر سنی علماء متواتر (مسَلَّمہ) سمجھتے ہیں۔[19]

6 برس کی عمر میں (ہجرت سے 17 سال پہلے) جب مکہ میں قحط پڑا تو آپ کو آنحضرت کے گھر جبکہ آپ کے بھائی جعفر کو عباس بن عبد المطلب کے گھر جانا پڑا چونکہ آپ کے والد ابو طالب اس وقت اپنے کثیر العیال خانوادے کا خرچ اٹھانے سے قاصر تھے۔[20] امام علی نے اپنے ایک خطبہ میں اس دور میں آنحضرت کے نیک سلوک کی طرف اشارہ کیا ہے۔[21]

بعثت پیغمبر کے بعد (ہجرت سے 13 سال قبل) مردوں میں آپ و عورتوں میں حضرت خدیجہ سب سے پہلے آنحضرت پر ایمان لائیں۔[22] آپ اس وقت دس برس کے تھے اور پیغمبر کے ہمراہ مخفیانہ طور پر مکہ کے اطراف کے پہاڑوں میں نماز پڑھا کرتے تھے۔[23] جب آنحضرت نے علنی طور پر دعوت اسلام شروع کی اور حکم ہوا کہ اپنے اعزا کو اسلام کی دعوت دیں جسے دعوت ذو العشیرہ یا واقعہ یوم الدار کہتے ہیں، میں آپ نے آنحضرتؐ کی حمایت کی اور انہوں نے آپ کو اپنا بھائی، وصی و جانشین قرار دیا۔[24] ہجرت سے 6 سال قبل جب مسلمانوں کو مشرکین مکہ نے شعب ابی طالب میں محصور کر دیا اور ان کی خرید و فروش، آمد و رفت پر پابندی عائد کر دی گئی، اس عرصہ میں حضرت ابو طالب نے بارہا آنحضرت کی جگہ پر آپؑ کو سلایا۔[25] محاصرہ ختم ہونے کے کچھ عرصہ کے بعد ہجرت سے تین سال پہلے جب آپ 19 سال کے تھے تو والد کے سایہ سے محروم ہو گئے۔[26] حضرت ابو طالب کے بعد حالات مسلمانوں کے لئے بدتر ہو گئے اور آنحضرت نے مدینہ ہجرت کا ارادہ کیا۔ شب ہجرت میں جب آپ کی عمر 23 تھی، آپ مشرکین کی پیغمبر اکرم کے قتل کی سازش سے آگاہ ہونے کے باوجود ان کی جگہ پر سوئے۔ یہ شب لیلۃ المبیت کے نام سے مشہور ہے۔[27] آپ چند روز کے بعد آنحضرتؐ کے پاس جمع امانتوں کو واپس کرکے ایک گروہ کے ساتھ حضرت فاطمہ و فاطمہ بنت اسد کے ہمراہ مدینہ گئے۔[28]

ہجرت کے بعد

مدینہ ہجرت کرتے وقت آنحضرت نے مقام قبا میں تقریبا 15 دن تک رک کر حضرت علی اور ان کے ہمراہ آنے والے افراد کا انتظار کیا۔[29] مدینہ میں مسجد النبی کی تعمیر کے بعد آنحضرتؐ نے اپنے پہلے خطبے میں مہاجرین و انصار کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا اور حضرت علی کو اپنا بھائی بنایا۔[30] سنہ 2 ہجری میں مسلمانوں و مشرکین کے درمیان جنگ بدر پیش آئی۔ دشمن کی فوج کے بہت سے افراد جن میں سردار بھی شامل تھے، حضرت علی کے ہاتھوں قتل ہوئے۔[31] جنگ بدر کے بعد[32] آپ نے 25 برس کی عمر میں حضرت فاطمہ سے شادی کی[33] جبکہ ان کے اور بھی طلبگار تھے۔[34] آنحضرت نے بذات خود صیغہ عقد جاری کیا۔[35]

سنہ 3 ہجری مین مشرکین نے جنگ بدر کا بدلہ لینے کے لئے جنگ احد مسلمانوں پر تحمیل کی۔[36] آپ ان افراد میں سے تھے جنہوں کے جنگ کو ترک نہیں کیا اور آنحضرت کا دفاع کرتے رہے۔[37] نقل ہوا ہے کہ اس جنگ میں آپ کو 16 زخم لگے۔[38] شیخ کلینی و طبری کے مطابق، یہ مشہور جملہ: سَیفَ اِلّا ذوالفَقار، لا فَتی اِلّا عَلیّ اس جنگ میں حضرت جبرئیل نے آپ کی مدح میں کہا ہے۔[39] اسی سال آپ کے بڑے بیٹے امام حسن کی ولادت ہوئی۔[40] سنہ 4 ہجری میں جب آپ کی عمر 27 سال تھی، آپ کی والدہ فاطمہ بنت اسد کی وفات ہوئی۔[41] آپ کے دوسرے فرزند امام حسین کی ولادت اسی سال میں ہوئی۔[42]

سنہ 5 ہجری میں جنگ خندق پیش آئی[43] اور حضرت علی کی شجاعت کی وجہ سے عمرو بن عبدود کے قتل پر اس کا خاتمہ ہوا۔[44] اسی سال آپ کی بیٹی حضرت زینب کی ولادت ہوئی۔[45] سنہ 6 ہجری میں آنحضرت و کفار کے درمیان صلح حدیبیہ ہوئی، جس کی کتابت آپ نے کی۔[46] اسی سال آپ کی دوسری بیٹی حضرت ام کلثوم کی ولادت ہوئی۔[47] اس سال کے ماہ شعبان میں آنحضرت نے سریہ فدک و یہودیوں کے سرکوبی کے لئے آپ کو منتخب کیا۔[48] سنہ 7 ہجری میں جنگ خیبر پیش آئی۔[49] اس جنگ میں آپ پرچم داروں میں سے تھے[50] اور آپ ہی کے پرچم تلے مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔[51] سنہ 8 ہجری 31 برس کی عمر میں فتح مکہ کے موقع پر آپ فوج کے سرداروں میں سے تھے[52] اور آپ نے کعبہ میں موجود بتوں کو توڑنے آنحضرت کی نصرت کی۔[53]

سنہ 9 ہجری میں جنگ تبوک پیش آئی۔ آنحضرت نے پہلی بار حضرت علی کو مدینہ میں اپنے جانشین و اپنے خانوادے کی محافظت پر مامور کیا۔ یہ واحد جنگ ہے جس میں امیر المومنین نے شرکت نہیں کی۔[54] مشرکین کی طرف سے پھیلائی گئی افواہ کے بعد آپ نے خود کو آنحضرت تک پہچایا اور انہیں اس ماجرا سے آگاہ کیا۔ آنحضرت نے فرمایا: کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو حضرت موسی سے تھی۔[55] یہ قول حدیث منزلت کے نام سے مشہور ہے۔[56] اسی سال آپ کو آنحضرت نے مکہ کے مشرکین کے اجتماع میں آیات برائت کے ابلاغ کے لئے مقرر کیا[57] اور آپ نے روز عید الاضحی بعد از ظہر ان آیات کو ابلاغ کیا۔[58] 24 ذی الحجہ سنہ 9 ہجری[59] میں آنحضرت نے علی، فاطمہ حسن و حسین کے ساتھ نجران کے عیسائیوں سے مباہلہ کا اعلان کیا۔[60] سنہ 10 ہجری میں آنحضرت نے حضرت علی کو اہل یمن کو دعوت اسلام دینے کے لئے وہاں بھیجا۔[61] اسی سال آنحضرت حج کے لئے تشریف لے گئے۔[62] حضرت علی یمن سے روانہ ہوئے اور مکہ میں آپ ؐ سے ملحق ہو گئے۔[63] آنحضرت نے حج سے واپسی پر غدیر خم کے مقام پر آپ کو اپنا وصی و جانشین قرار دیا۔[64] یہ واقعہ غدیر خم کے نام سے مشہور ہے، اس وقت آپ کی عمر 33 سال تھی۔

رحلت پیغمبر اکرمؐ کے بعد

سنہ 11 ہجری میں آنحضرت ؐ نے وفات پائی۔[65] شیعوں کے مطابق، حضرت علی رحلت پیغمبر کے بعد 24 سال کی عمر میں امامت کے مرتبے پر فائز ہوئے۔ امام علی آنحضرت کی تکفین و تجہیز میں مشغول تھے کہ ایک گروہ نے سقیفہ بنی ساعدہ میں حضرت ابوبکر کو خلیفہ بنا دیا۔ حضرت ابو بکر کی خلافت کے بعد ابتداء میں حضرت علی نے ان کی بیعت نہیں کی[66] لیکن بعد میں آخرکار بیعت کر لی۔[67] شیعوں کا ماننا ہے کہ یہ بیعت اجباری تھی[68] اور شیخ مفید کا ماننا ہے کہ امام علی نے ہرگز بیعت نہیں کی۔[69] [70] شیعوں کے مطابق، خلیفہ کے ساتھیوں نے امام علی سے بیعت لینے کے لئے ان کے گھر پر حملہ کیا[71] جس میں حضرت فاطمہ زخمی ہوئیں اور ان حمل ساقط ہو گیا۔[72] اسی زمانہ میں حضرت ابوبکر نے باغ فدک کو غصب کر لیا[73] اور حضرت ان کا حق لینے کے لئے اٹھے۔[74] حضرت فاطمہ گھر پر ہونے والے حملے کے بعد مریض ہو گئیں اور کچھ عرصہ کے بعد سنہ 11 ہجری میں شہید ہو گئیں۔[75]

سنہ 13 ہجری میں حضرت ابوبکر کی وفات ہوئی۔[76] ان کی وصیت کے مطابق عمر بن خطاب خلیفہ بنے۔[77] سنہ 14 ہجری محرم میں حضرت عمر ساسانیوں سے جنگ کے لئے مدینہ سے خارج ہوئے اور صرار نامی مقام پر پڑاو ڈالا۔ انہوں نے امام علی کو مدینہ میں اپنی جگہ قرار دیا تا کہ وہ خود اس جنگ کی فرماندہی اپنے ذمے لیں۔ لیکن بعض صحابہ و امام علی سے مشورہ کے بعد انہوں نے اپنا ارادہ بدل لیا اور سعد بن ابی وقاص کو جنگ کے لئے بھیجا۔[78] معادی خواہ نے ابن اثیر سے منقول قول سے استناد کرتے ہوئے نقل کیا ہے کہ دوسری خلافت کے زمانہ میں اس کے ابتدائی سالوں کے بعد سے منصب قضاوت کے مالک تھے۔[79] [80] سنہ 16 ہجری یا سنہ 17 ہجری میں[81] امام علی کے مشورے کو حضرت عمر نے قبول کرکے پیغمبر کی مدینہ ہجرت کو اسلامی تاریخ کا مبداء قرار دیا۔[82] [83] سنہ 17 ہجری[84] میں عمر فتح بیت المقدس کے لئے شام روانہ ہو گئے اور امام علی کو مدینہ میں اپنا جانشین قرار دیا۔[85] [86] اسی سال[87] عمر نے اصرار اور دھمکی سے علی و فاطمہ کی بیٹی ام کلثوم سے شادی کی۔[88] [89] سنہ 18 ہجری میں ایک بار پھر عمر نے شام کے سفر میں امام علی کو مدینہ میں اپنا جانشین معین کیا۔[90] عمر نے حملے کے بعد اور مرنے سے پہلے سنہ 23 ہجری[91] میں اپنے بعد خلافت کے لئے 6 افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی۔[92] جس میں حضرت بھی شامل تھے۔[93] اس میں انہوں نے عبد الرحمن بن عوف کو تعیین کنندہ شخص کا درجہ دیا۔ عبد الرحمن نے پہلے امام علی سے چاہا کہ کتاب خدا و سنت پیغمبر و سیرت شیخین پر عمل کی شرط پر خلافت کو قبول کر لیں لیکن آپ نے سیرت شیخین کو قبول نہیں کیا اور جواب دیا کہ میں اپنے علم و استعداد و اجتہاد سے کتاب خدا و سنت پیغمبر پر عمل کروں گا۔[94] اس کے بعد عبد الرحمن نے عثمان کو ان شرطوں کے ساتھ خلافت کی دعوت دی انہوں نے قبول کر لیا تو انہیں خلافت مل گئی۔[95] [96] [97]

معادی خواہ ابن جوزی کی کتاب المنتظم سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں: حضرت علی سنہ 24 ہجری میں بھی قضاوت کے منصب پر فائز تھے۔[98] سنہ 25 ہجری میں[99] حضرت عثمان نے قرآن کی جمع آوری و تدوین کا حکم دیا۔[100] سیوطی نے امام علی سے نقل کیا ہے کہ تدوین و جمع آوری قرآن کا کام ان کے مشورہ پر انجام دیا گیا ہے۔[101] [102] سنہ 26 ہجری میں آپ کے پانچویں فرزند عباس بن علی کی ولادت ہوئی۔[103] سنہ 35 ہجری میں مدینہ میں لوگوں نے ناراض ہو کر عثمان کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔[104] امام علی محاصرہ کے وقت مدینہ میں نہیں تھے۔[105] معادی خواہ نے اس سفر کو ینبع کی طرف ذکر کیا ہے جو حضرت عثمان کی خواہش پر ہوا تھا۔[106] اہل سنت مصادر کے مطابق امام علی نے حسنین کو خلیفہ کی حفاظت پر مامور کیا تھا[107] لیکن آخرکار شورشیوں نے انہیں قتل کر ڈالا[108] اور ان کے قتل کے بعد لوگوں نے حضرت علی کا رخ کیا تا کہ وہ خلافت کو قبول کر لیں۔[109]

دوران حکومت

حضرت علی ماہ ذی الحجہ سنہ 35 ہجری میں قتل عثمان کے بعد خلیفہ بنے۔[110] [111] عثمان کے بعض قریبیوں اور بعض اصحاب پیغمبر جنہیں قاعدین کہا جاتا ہے،[112] کے علاوہ مدینہ میں موجود تمام صحابہ نے آپ کی بیعت کی۔[113] آپ نے اپنی خلافت کے دو دن بعد اپنے اولین خطبے میں عثمان کے زمانہ مین ناحق قبضہ کئے گئے اموال[114] کو واپس کرنے اور بیت المال کی عادلانہ تقسیم کا حکم دیا۔[115] سنہ 36 ہجری میں طلحہ و زبیر نے آپ کی بیعت کو توڑ دیا اور مکہ میں عائشہ کے ساتھ ملحق ہو گئے[116] جو خون عثمان کا انتقام لینے کے لئے اٹھی تھیں، اس کے بعد انہوں نے بصرہ کی سمت حرکت کی۔[117] اس طرح جنگ جمل، آپ سے ہونے والی[118] اور مسلمانوں کی پہلی داخلی جنگ ہوئی[119] جو امام علی و ناکیثن (بیعت توڑنے والے) کے درمیان بصرہ میں ہوئی۔[120] طلحہ[121] و زبیر[122] اس جنگ میں مارے گئے اور عائشہ کو مدینہ واپس بھیج دیا گیا۔[123] آپ پہلے بصرہ گئے اور آپ نے وہاں عمومی معافی کا اعلان کیا[124] اور رجب سنہ 36 ہجری میں کوفہ گئے اور اسے مرکز خلافت قرار دیا۔[125] اسی سال امام نے معاویہ کو بیعت حکم دیا اس کے انکار کے بعد آپ نے اسے شام کی حکومت سے معزول کر دیا۔[126] ماہ شوال سنہ 36 ہجری میں آپ نے شام پر لشکر کشی کی۔[127] صفین کے علاقہ میں جنگ صفین سنہ 36 ھ کے اواخر اور سنہ 37 ہجری کے اوائل میں واقع ہوئی۔[128] معادی خواہ کا ماننا ہے کہ ماہ صفر سنہ 37 ھ کے برخلاف جسے طبری و ابن اثیر نے ذکر کیا ہے، اوج جنگ سنہ 38 ہجری میں ہوئی ہے۔[129] [130] جب امام علی کی فوج جنگ جیت رہی تھی[131] تو معاویہ کی فوج نے عمرو عاص کی چال سے قرآن کو نیزوں پر بلند کر دیا تا کہ وہ ان کے درمیان حکم کرے۔[132] امام نے مجبوری میں اپنی فوج کے باغیوں کے فشار کے تحت حکمیت کو قبول کر لیا اور ان کے اجبار کی وجہ سے ابو موسی اشعری کو حکم قرار دیا۔[133] لیکن حکمیت کو قبول کرنے کے کچھ ہی دیر بعد امام پر نئے اعتراضات ہونے لگے۔[134] بعض لوگوں نے سورہ مائدہ کی آیت 44 و سورہ حجرات کی آیت 9 سے استدلال کرتے ہوئے جنگ جاری رکھنے کا مطالبہ کیا اور حکمیت قبول کرنے کو کفر مانتے ہوئے اس سے توبہ کیا۔[135] تعجب کی بات یہ تھی کہ یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے کچھ دیر پہلے امام کو حکمیت کے لئے مجبور کیا تھا۔[136] انہوں نے امام سے مطالبہ کیا کہ وہ اس کفر سے توبہ کریں اور معاویہ کے ساتھ ہوئے وعدہ کو نقض کریں۔ لیکن امام نے نقض حکمیت کو قبول نہیں کیا[137] اور کہا حکمین کے قرآن کے مطابق حکم نہ کرنے صورت میں جنگ جاری رکھی جا سکتی ہے۔[138]

حکمیت کے وقت ابو موسی اشعری نے امام علی و معاویہ دونوں کو خلافت سے معزول کر دیا۔[139] نگاه کریں: ابن ابی ‏الحدید، شرح نهج البلاغة، 1385ق، ج2، ص255. اس کے بعد عمرو عاص نے معاویہ کو خلافت پر باقی رکھا۔[140] حکمیت کے بعد[141] [142] امام کے ماننے والوں میں سے ایک گروہ نے اس بات کی مخالفت کی اور اسے دین سے برگشت سے تعبیر کرتے ہوئے ایمان میں شک کیا۔[143] اس دوران ایک گروہ جو خوارج کی بنیادی افراد میں سے تھے انہوں نے قبول حکمیت کو کفر کہا اور وہ سپاہ امام سے جدا ہو گئے اور کوفہ کے بجائے حرورا چلے گئے۔[144]

خوارج کے اعتراضات صفین کے 6 ماہ بعد تک جاری رہے۔ اسی وجہ سے امام نے عبد اللہ بن عباس اور صعصعہ بن صوحان کو ان کے پاس گفتگو کے لئے بھیجا لیکن ان لوگوں نے ان دونوں کی بات نہیں سنی اور لشکر میں واپس آنے کے لئے آمادہ نہیں ہوئے۔ اس کے بعد امام نے ان سے کہا کہ وہ بارہ افراد کا انتخاب کر لیں اور امام بھی بارہ افراد کے ہمراہ ان سے گفتگو کے لئے بیٹھے۔[145] امام نے ان کے سرداروں کے خطوط بھی لکھے اور انہیں دعوت دی کہ وہ مومنین کی طرف لوٹ آئیں لیکن عبد اللہ بن وہب نے صفین کا تذکرہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ علی دین سے خارج ہو چکے ہیں انہیں توبہ کرنا چاہئے۔ اس کے بعد بھی امام نے بارہا قیس بن سعد و ابو ایوب انصاری جیسے افراد کو ان کے پاس بھیجتے رہے، انہیں اپنی طرف بلاتے رہے اور انہیں امان بھی دی[146] اور جب ان کے تسلیم ہونے سے مایوس ہو گئے تو ٓآپ نے چودہ ہزار کے لشکر کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا۔ آپ نے تاکید کہ کوئی بھی جنگ شروع نہیں کرے گا اور آخر میں نہروان والوں نے جنگ شروع کی۔[147] آغاز جنگ کے ساتھ ہی نہایت سرعت سے تمام خوارج قتل یا زخمی ہوگئے، زخمیوں میں سے چار سو افراد کو ان کے گھر والوں کے حوالے کیا گیا۔ امام کے لشکر میں سے دس سے بھی کم افراد شہید ہوئے۔ نہروان میں خوارج میں سے دس سے کم افراد فرار ہونے میں کامیاب رہے ان میں سے ایک عبد الرحمن بن ملجم مرادی،[148] قاتل امام بھی تھا۔ ابن ملجم مرادی نے آپ کو 19 رمضان سنہ 40 ہجری فجر کے وقت کوفہ میں اپنی شمشیر سے زخمی کیا اور آپ اس کے دو روز بعد 21 رمضان میں 63 برس کی عمر میں شہید ہوئے اور مخفیانہ طور پر دفن ہوئے۔[149]

ازواج و اولاد

حضرت فاطمہ زہرا کے ہمراہ شادی

امام علیؑ کی پہلی زوجہ رسول اللہؐ کی بیٹی حضرت فاطمہ زہراءؑ تھیں۔[150] علیؑ سے پہلے ابوبکر، عمر بن خطاب اور عبد الرحمن بن عوف نے بنت رسولؐ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تاہم رسول اللہؐ اس بارے میں وحی الہی کے منتظر تھے۔[151] حضرت فاطمہ کے ساتھ حضرت امیرالمؤمنین علیؑ کی شادی کی تاریخ میں اختلاف پایا جاتا ہے: بعض کا کہنا ہے کہ یہ شادی اول ذی الحجہ سنہ 2 ہجری کو ہوئی[152]، بعض کے مطابق شوال میں ہوئی اور بعض دیگر نے 21 محرم میں قرار دی ہے۔[153] حضرت علی و فاطمہ کے پانچ بچے ہیں: حسن، حسین، زینب، ام کلثوم[154] و محسن جو ولادت سے پہلے سقط ہوئے۔[155] [156]

دیگر ازواج

آپ نے حضرت زہرا کی حیات میں کوئی شادی نہیں کی۔ ان کی شہادت کے بعد آپ نے شادیاں کیں جن میں:

اولاد

شیخ مفید نے الارشاد میں آپ کی اولاد کی تعداد 27 ذکر کی ہے۔ ان کی تعداد محسن جو شکم می شہید ہوئے، ان کے ہمراہ 28 ہوتی ہے۔[158] یہاں آپ کی اولاد کا تذکرہ ان کی والدہ کے نام کے ساتھ کیا جا رہا ہے:

حضرت فاطمہؑ خولہ بنت جعفر ام‌ حبیب ام‌ البنین لیلا بنت مسعود اسماء بنت عمیس ام سعید بنت عروہ دیگر ازواج
1. حسن 6. محمد حنفیہ 7. عمر 9. عباس 13. محمد اصغر 15. یحیی 16. ام الحسن 18. أم ہانی

19. خدیجہ

2. حسین 8. رقیہ[159] 10. جعفر 14. عبیداللہ 17. رملہ 20.جمانہ (أم جعفر)

21. زینب صغری

3. زینب کبری 11. عثمان 22. أمامہ

23. رقیہ صغری

4. زینب صغری 12. عبداللہ 24. نفیسہ

25.ام‌سلمہ

5. محسن 26. أم الکرام

27. میمونہ
28. فاطمہ[160]

غزوات میں شرکت

امام علیؑ نے اسلام کے غزوات اور سرایا میں مؤثر کردار ادا کیا۔ غزوہ تبوک کے سوا تمام غزوات میں رسول اللہؐ کے ساتھ دشمنان اسلام کے خلاف لڑے۔[161] آپ بہت سی جنگوں میں سپاہ اسلام کے اصلی سپہ سالار رہے[162] اور جیسے جنگ میں بہت مسلمان فرار اختیار کرتے تھے وہ کبھی فرار نہیں ہوئے اور ہمیشہ آنحضرت ؐ کے ساتھ رہے اور جنگ کرتے رہے۔[163]

جنگ بدر

جنگ بدر یا غزوہ بدر مسلمانوں اور کفار کے درمیان پہلی جنگ تھی جو بروز جمعہ 17 رمضان المبارک سنہ 2 ہجری کو بدر کے کنوؤں کے کنارے واقع ہوئی۔[164] اس جنگ میں ابو جہل،[165] عتبہ بن ربیعہ[166] جیسے قریش کے بزرگ قتل ہوئے۔

علیؑ نے ولید بن عتبہ بن ربیعہ کو قتل کیا۔[167] اس جنگ میں نوفل بن خویلد جس پر آنحضرت نے نفرین کی تھی، حضرت کے ہاتھوں مارا گیا۔[168] ان کے علاوہ دیگر بیس افراد آپ کے ہاتھوں قتل ہوئے جن میں حنظلہ بن ابو سفیان و عاص بن سعید شامل ہیں۔[169] بعد امام علی نے معاویہ کو ایک خط میں لکھا: ابھی بھی وہ شمشیر جس سے تمہارے جد (عتبہ ہندہ کا باپ)، ماموں (ولید عتبہ کا بیٹا) اور بھائی (حنظلہ بن ابی سفیان) کو قتل کیا تھا، میرے پاس ہے۔[170]

جنگ احد

جنگ احد میں مشرکین کے غلبہ کے بعد بہت سے مسلمانوں نے میدان جنگ سے فرار اختیار کی اور پیغمبر ؐ کو تنہا چھوڑ دیا۔ حضرت علی و بعض دیگر افراد موجود رہے اور انہوں نے آنحضرت کا دفاع کیا۔[171] خود علیؑ نے اس واقعہ کو اس طرح نقل کیا ہے مہاجرین و انصار نے اپنے گھروں کی طرف راہ فرار اختیار کی۔ لیکن میں نے جبکہ میرے جسم پر ستر زخم تھے، رسول خدا ؐ کا دفاع کیا۔[172]

شیعہ[173] و اہل سنت[174] مصادر کے مطابق، امام علیؑ اس جان نثاری کے صلے میں جبرائیل نازل ہوئے اور رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر علیؑ کے ایثار کی تعریف و تمجید کی اور عرض کیا: یہ ایثار اور قربانی کی انتہا ہے جو وہ دکھا رہے ہیں۔ رسول خداؐ نے تصدیق کرتے ہوئے فرمایا: إِنَّہ ُ مِنِّي وَأَنَا مِنْہ(وہ مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں) اس کے بعد ایک ندا آسمان سے سنائی دی: لا سیف الا ذوالفقار و لا فتٰی الا علی۔ (ترجمہ: ذوالفقار کے سوا کوئی تلوار نہیں اور علی کے سوا کوئی جوان نہیں ہے)۔

جنگ خندق (احزاب)

جنگ خندق میں رسول اللہؐ نے اصحاب کے ساتھ مشورہ کیا تو سلمان فارسی نے رائے دی کہ مدینہ کے اطراف میں ایک خندق کھودی جائے جو حملہ آوروں اور مسلمانوں کے درمیان حائل ہو۔[175] کئی دن تک لشکر اسلام اور لشکر کفر خندق کے دو کناروں پر آمنے سامنے رہے اور کبھی کبھی ایک دوسرے کی طرف تیر یا پتھر پھینکتے تھے؛ بالآخر لشکر کفار سے عمرو بن عبدود اور اس کے چند ساتھی خندق کے سب سے تنگ حصے سے گذر کر دوسری طرف مسلمانوں کے سامنے آنے میں کامیاب ہوئے۔ علیؑ نے رسول خداؐ سے درخواست کی کہ انہیں عمرو کا مقابلہ کرنے کا اذن دیں اور آپؐ نے اذن دے دیا۔ علیؑ نے عمرو کو زمین پر گرا کر ہلاک کردیا۔[176] جب علیؑ عمرو کا سر لے کر رسول خداؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے فرمایا: ضَربَةُ عَليٍ يَومَ الخَندَقِ اَفضَلُ مِن عِبادَةِ الثَّقَلَینِ۔ (ترجمہ: روز خندق علیؑ کا ایک وار جن و انس کی عبادت سے افضل ہے)۔[177]

جنگ خیبر

جنگ خیبر جمادی الاولی سنہ 7 ہجری میں واقع ہوئی جب رسول اللہؐ نے یہودیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ان کے قلعوں پر حملہ کرنے کا فرمان جاری کیا۔[178]اور جب ابوبکر اور عمر جیسے متعدد افراد یہودی قلعوں کی تسخیر کے مشن میں ناکام رہے تو رسول خداؐ نے فرمایا: لأعطين الراية رجلا يحب اللہ ورسولہ أو يحبہ اللہ ورسولہ میں کل پرچم ایسے فرد کے سپرد کر رہا ہوں جو خدا اور اس کے رسولؐ کو دوست رکھتا ہے اور خدا اور اس کا رسول بھی اسے دوست رکھتے ہیں۔[179] صبح کے وقت رسول اللہؐ نے علیؑ کو بلایا اور پرچم ان کے سپرد کیا۔ شیخ مفید کے نقل کے مطابق، علیؑ اپنی ذوالفقار لے کر میدان جنگ میں اترے اور جب ڈھال ہاتھ سے گر گئی تو آپ نے ایک قلعے کا دروازہ اکھاڑ کر اسے ڈھال قرار دیا اور جنگ کے آخر تک اسے ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔[180]

فتح مکہ

رسول خداؐ ماہ مبارک رمضان سنہ 8 ہجری کو فتح مکہ کی غرض سے مدینہ سے خارج ہوئے۔مکہ میں داخل ہونے سے پہلے لشکر اسلام کا پرچم سعد بن عبادہ کے ہاتھ میں تھا لیکن سعد نے جنگ، خون ریزی اور انتقام جوئی کے بارے میں باتیں کیں۔ پیغمبرؐ اسلام کو جب انکا پتہ چلا تو آپ نے امام علیؑ کو کہا کہ اس سے تم پرچم لے لو۔ فتح مکہ کے بعد رسول اللہؐ کی ہدایت پر تمام بتوں کو توڑ دیا گیا اور آپؐ کی ہدایت پر علیؑ نے آپؐ کے دوش پر کھڑے ہو کر بتوں کو توڑا۔ امام علیؑ نے خزاعہ کے بت کو کعبہ کے اوپر سے نیچے گرا دیا اور مستحکم بتوں کو زمین سے اکھاڑ کر زمین پر پھینک دیا۔[181]

جنگ حنین

جنگ حنین سنہ 8 ہجری میں واقع ہوئی۔ اس میں مہاجرین کا پرچم امام علی کے ہاتھوں میں تھا۔[182] اس جنگ میں مشرکین کے اچانک حملے کے بعد مسلمانوں نے فرار اختیار کی۔ صرف و جند دیگر افراد ثابت قدم رہے اور انہوں نے آنحضرت کا دفاع کیا۔ غزوہ کا سبب یہ تھا کہ قبیلہ ہواز اور قبیلہ ثقیف کے اشراف نے فتح مکہ کے بعد رسول اللہؐ کی طرف اپنے خلاف جنگ کے آغاز کے خوف سے حفظ ما تقدم کے تحت مسلمانوں پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔[183]

جنگ تبوک

وہ واحد غزوہ جس میں علیؑ نے رسول اللہؐ کے ساتھ شرکت نہیں کی وہ غزوہ تبوک تھا۔ علیؑ رسول اللہؐ کی ہدایت پر مدینہ میں ٹہرے تاکہ آپؐ کی غیر موجودگی میں مسلمانوں اور اسلام کو منافقین کی سازشوں سے محفوظ رکھیں۔ علیؑ کے مدینہ میں ٹھہرنے کے بعد منافقین نے علی کے خلاف تشہیری مہم کا آغاز کیا اور علیؑ نے فتنے کی آگ بجھانے کی غرض سے اپنا اسلحہ اٹھایا اور مدینے سے باہر رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور منافقین کی تشہیری مہم کی اطلاع دی۔ یہی وہ موقع تھا جب رسول اللہؐ نے حدیث منزلت فرمائی کہ: "میرے بھائی علی! مدینہ لوٹو، کیونکہ وہاں کے معاملات سلجھانے کے لئے تمہارے اور میرے بغیر کسی میں اہلیت نہیں ہے۔ پس تم میرے اہل بیت اور میرے گھر اور میری قوم کے اندر میرے جانشین ہو! کہ تم خوشنود نہیں ہو کہ تمہاری نسبت مجھ سے وہی ہے جو موسی سے ہارون کی تھی، سوا اس کے میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا"۔[184]

سرایا

یمن کی ذمہ داری

آنحضرت نے فتح مکہ اور جنگ حنین میں کامیابی کے بعد سنہ 8 ہجری میں اپنی دعوت میں وسعت دی۔ اسی سلسلہ میں معاذ بن جبل کو یمن بھیجا۔ وہ بعض مسائل کے حل میں ناکام رہے اور واپس آ گئے۔ اس کے بعد آپ نے خالد بن ولید کو بھیجا۔ ان سے مسئلہ حل نہیں ہوا اور 6 کے بعد وہ بھی واپس آ گئے۔ تب آنحضرت نے امام علی کو بلایا اور انہیں اپنے خط کے ہمراہ یمن روانہ کیا۔ امام نے اہل یمن کو آنحضرت کا خط پڑھ کر سنایا اور انہیں توحید کی دعوت دی۔ امام کی کوششوں سے قبیلہ ہمدان مسلمان ہو گیا۔ امام نے ان کے اسلام لانے کی خبر آنحضرت ؐ کو بھیجی۔ آپ خوش ہوئے اور ہمدانیوں کو دعائیں دی۔[188] ایک دوسری گزارش میں قبیلہ مذحج کے ساتھ امام علی کی جنگ کا ذکر ہوا ہے۔ اس گزارش کے مطابق، امام ان کی سر زمین کی طرف گئے اور انہیں اسلام کی دعوت دی۔ انہوں نے قبول نہیں کیا اور جنگ کے لئے آمادہ ہو گئے تو آپ نے ان سے جنگ کی اور ان کے فرار اختیار کرنے کے بعد انہیں دوبارہ اسلام کی دعوت دی، غنائم جنگ کو جمع کیا اور نجران کے صدقات کے ساتھ حج کے موسم میں سب آنحضرت کے حوالے کیا۔[189] آنحضرت نے یمن کی قضاوت بھی امام کے حوالے کی اور اس میں استواری کے لئے ان کے حق میں دعا فرمائی۔ تاریخی مصادر میں وہاں قضاوت کے بعض نمونے ذکر ہوئے ہیں۔[190]

واقعۂ غدیر

غدیر کے بارے میں ایرانی فنکار محمود فرشچیان کی نقاشی

پیغمبرؐ نے سنہ 10 ہجری میں ہجرت کے بعد پہلی بار حج کا فریضہ انجام دینے کا ارادہ کیا۔ جب مسلمانوں کو اس بات کی خبر ملی تو انہوں نے آپ کی ہمراہی کی غرض سے مکہ کی طرف عزیمت کی۔[191] آنحضرت نے امام علی کو خط لکھا جو یمن میں جہاد میں[192] مصروف تھے اور انہیں حج میں شامل ہونے کی دعوت دی۔[193]

حج کے بعد غدیر خم میں جہاں سے مسلمان ایک دوسرے سے جدا ہوتے تھے اور اپنے شہر کا رخ کا کرتے تھے۔ خداوند عالم نے رسول اللہؐ کو توقف اور پیغام ابلاغ کرنے کا حکم دیا۔[194]

آنحضرت نے نماز ظہر پڑھانے کے بعد خطبہ پڑھا اور مسلمانوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: «أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّی أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟؛ کیا میں مومنین پر ان کے نفسوں سے زیادہ اولویت نہیں رکھتا ہوں؟ سب نے کہا: ہاں بے شک، اس کے بعد آپ نے حضرت علی کے ہاتھوں کو بلند کیا اور فرمایا: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ؛ جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں، اللہ اسے دوست رکھے جو انہیں دوست رکھے اور انہیں دشمن رکھے جو انہیں دشمن رکھے۔[195]

اس کے بعد رسول اللہؐ نے آیت تبلیغ کے ضمن میں آنے والے پروردگار کے حکمِ کا ابلاغ فرمایا [196]جو کچھ یوں تھا:

يَاأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ [المائدة: 67] (ترجمہ: اے پیغمبر ! جو اللہ کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے، اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو اس کا پیغام پہنچایا ہی نہیں اور اللہ لوگوں سے آپ کی حفاظت کرے گا، بلاشبہ اللہ کافروں کو منزل تک نہیں پہنچایا کرتا)۔

اس آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہؐ نے مسلمانوں سے فرمایا:

"أَلَستُ أَولٰى بِالمُؤمِنِينَ مِن أَنفُسِهِم؟ قالوا بَلىٰ، قال: مَن کُنتُ مَولاه ُ فَهذا عَلٰى مَولاہ ُ، اللّٰهُمَّ والِ مَن والاہ ُ وَعادِ مَن عاداہ ُ وَانصُر مَن نَصَرَہ ُ وَاخذُل مَن خَذَلَه۔
کیا میں مؤمنین پر حقِ تصرف رکھنے میں ان پر مقدم نہیں ہوں؟ سب نے کہا: کیوں نہیں! چنانچہ آپؐ نے فرمایا: میں جس کا مولا و سرپرست ہوں یہ علی اس کے مولا اور سرپرست ہیں؛ یا اللہ! تو اس کے دوست کو دوست رکھ اور اس کے دشمن کو دشمن رکھ؛ جو اس کی نصرت کرے اس کی مدد کر اور جو اس کو تنہا چھوڑے اس کو خوار و تنہا کردے.[197]

سقیفہ

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کے وصال کے بعد آپ کی وصیت کے مطابق[198] علىؑ اور بنی ہاشم آپؐ کی تجہیز و تکفین اور تدفین میں مصروف تھے کہ انصار نے بعض دلائل، جیسے اس بات کا خوف کہ قریش ان سے غزوات میں ان کے قتل ہونے والوں کا انتقام نہ لیں اور اس بات کے پیش نظر کہ قریش امام علی کی جانشینی کے سلسلہ میں آنحضرت کے بات پر عمل نہیں کریں گے، کی وجہ سے سقیفہ بنی ساعدہ میں جلسہ تشکیل دیا۔ تا کہ وہ انصار میں سے کسی کا آنحضرت کا جانشین معین کریں۔[199] ابوبکرو عمر کو جب اس بات کی خبر ملی تو انہوں نے ابو عبیدہ جراح، عبدالرحمن بن عوف اور عثمان بن عفان کے ساتھ سقیفۂ بنی ساعدہ پہچ گئے۔ جہاں ان کے درمیان تنازعات و اختلافات اور بحث و جدل کے بعد ابوبکر کو رسول خداؐ کے بعد خلیفہ کے عنوان سے متعارف کرایا گیا اور کچھ ہی عرصہ قبل مقام غدیر پر ہونے والے اعلان خلافت اور علیؑ کے ہاتھ پر ان سب کی بیعت کےاعلان کو بھلا دیا گیا۔[200]

امام علی سے مخالفت کا سابقہ

امام علی کی زندگی کے زمانہ میں حالات پرتلاطم، بیحد حساس اور تمام تاریخ اسلام میں نہایت تاثیر گزار تھے۔ خاص طور پر ان کے خلافت تک پہچنے کے بعد مسلمانوں کے درمیان بہت اختلافات پیش آئے۔ عبد الرحیم قنوات دانش نامہ امام علی میں تحریر کرتے ہیں کہ آنحضرت و امام علی کے زمانے کے بہت سے اختلافات کی برگشت قریش میں عبد مناف کے بیٹوں کے درمیان آپسی خاندانی و قبائلی چشمک و رقابت کی طرف ہوتی ہے۔ وہ عبد مناف کے بیٹوں و پوتوں کے درمیان مکہ کے مناصب حاصل کرنے و عبد المطلب کے بعد بنی امیہ کے مقابلہ میں بنی ہاشم کی حیثیت کے کمزور ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تصریح کرتے ہیں: امام علی پر بنی امیہ (معاویہ) کی طرف سے فشار کا آغاز آپ کی خلافت کی ابتداء سے ہوتا ہے اور خاندان عبد المطلب و خاندان حرب (معاویہ کے دادا) کے درمیان یہ خاندانی رقابت اپنی انتہا کو پہچ جاتی ہے۔ بنی امیہ اس راہ میں اتنے آگے بڑھ جاتے ہیں کہ وہ ابو طالب (حضرت علی کے والد) کے ایمان کو ہی زیر سوال لے آتے ہیں۔ فشار کا یہ سلسلہ 100 سال بعد تک عباسیوں کی حکومت کے آغاز تک جاری رہتا ہے۔ قنوات کے مطابق، عباسی دور میں یہ فشار دوسرے عنوان سے جاری رہے۔ اس لئے کہ عباسیوں کا نسب آنحضرت کے چچا عباس بن عبد المطلب تک پہچتا ہے اور چونکہ وہ ابتداء سے مسلمان نہیں تھے اور حتی کہ جنگ بدر میں پیغمبر ؐ کے ہاتھوں اسیر ہوئے لہذا بنی عباس علویوں کے فضائل و افتخارات کے سامنے حقارت کا احساس کرتے تھے۔

جنگ بدر میں پیش آنے والے واقعات نہایت اہم شمار ہوتے ہیں اور امام علی کی خلافت کے زمانہ کے بعض کلامی و سیاسی منازعات کی بنیاد ہیں۔ امام علی نے جنگ بدر میں مشرکین کے سب سے زیادہ افراد کو قتل کیا ہے۔ واقدی امام علی کے ذریعہ قتل ہوئے افراد کی تعداد 22، ابن ابی الحدید 35 و شیخ مفید نے 36 ذکر کی ہے۔ حسن طارمی دانش نامہ جہان اسلام میں تحریر کرتے ہیں کہ امام علی کے ہاتھ سے قتل ہونے والوں میں 13 افراد جن میں ابو جہل بھی شامل ہے، بزرگان قریش میں سے تھے۔ یہ شکست اور اس میں قتل ہونے والے قریش کے بزرگان مشرکین کے لئے بڑی رسوائی تھے۔ اس نے ان کے ہیبت و حیثیت کو نقصان پہچایا تھا۔ تاریخی شواہد کے مطابق، بدر کے دن سے قریشیوں کے دل میں امام کی طرف سے کینہ تھا، مسلمان ہونے کے بعد بھی قریش اپنے اشعار کے ذریعہ امام علی سے مقابلہ کرنے اور انہیں آپ کی بیعت توڑنے کی طرف تشویق کیا کرتے تھے۔ قریش اصحاب پیغمبر میں سے کسی کو بھی اما علی کی طرح اپنا دشمن نہیں مانتے تھے۔ جنگ بدر کے بعد امام کے بعض ساتھیوں کا رشک و حسد امام کے دشمنوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو گیا۔ جو بعد میں جانشینی پیغمبر اور مسلمانوں کی سرنوشت کے مسئلے میں موثر شمار کیا گیا ہے۔

سید حسن فاطمی دانش نامہ امام علی میں، امام علی سے آنحضرت ؐ کی محبت کو بھی قریش کے کینہ و حسد کا ایک سبب قرار دیتے ہیں۔ فاطمی کے بقول: سقیفہ اور اس کے بعد کے واقعات، ابوبکر کا جانشینی پیغمبر کے لئے انتخاب جیسے واقعات آپ کی رحلت کے بعد پیش آئے اور امام علی کو کنارے کرنے کے لئے ایک گروہ نے آمادگی کر رکھی تھی۔ ان کے مطابق، ایک طرف منافقین و حاسدین کا ان کے تلوار سے ضربہ کھانا، دوسری طرف انصار کا مہاجرین کو ضربہ لگانا، انصار کا خود میں سے جانشین پیغمبر منتخب کرنے میں جلدی کرنا۔ ابوبکر و دیگر قریش مدینہ نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا جبکہ امیر المومنین آنحضرت کی تجہیز و تکفین میں مشغول تھے۔

حضرت علی کا موقف

روز سقیفہ امام نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی اور اس کے بعد خود اصل بیعت اور اس طرح سے اس کے وقت کے بارے میں مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض مصادر کے مطابق، علی نے ابوبکر سے نرم البتہ مفصل مناظرہ کیا اور اس میں انہیں سقیفہ میں خلاف ورزی اور پیغمبر اکرم کے اہل بیت کے حق سے چشم پوشی پر مذمت کی۔ ابوبکر امام کے دلائل کو قبول کرتے ہوئے منقلب ہو گئے اور امام کے ہاتھ پر جانشین پیغمبر کے عنوان سے بیعت کرنے تک کی حد تک پہچ جاتے ہیں۔ لیکن آخر میں اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرنے کے بعد ایسا کرنے منصرف ہو جاتے ہیں۔ امام علی نے مختلف منابسات اور مختلف مواقع پر سقیفہ کے واقعہ کے خلاف اعتراضات کئے اور جانشینی پیغمبر کے مسئلہ میں اپنے حق کو یاد دلایا۔ خطبہ شقشقیہ ان کے معروف ترین خطبوں میں سے ہے جس میں آپ نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ بعض دیگر منابع کے مطابق، حضرت فاطمہ زہرا کی حیات میں واقعہ سقیفہ کے بعد امام علی شب میں انہیں مرکب پر سوار کرکے انصار کے گھروں و محافل میں لیکر جاتے تھے اور ان سے مدد طلب کرتے تھے اور ان کا جواب سنتے تھے: اے دختر پیغمبر، ہم نے ابوبکر کی بیعت کی یے۔ اگر علی پہلے آئے ہوتے تو ہم ان کی بیعت کرتے، ان سے عدول نہیں کرتے۔ امام علی انہیں جواب دیتے تھے: تو کیا میں آنحضرت کو دفن نہ کرتا اور خلافت کے بارے میں بحث کرتا؟۔

جانشینی پیغمبر کے مسئلہ میں آپ کا اپنے حق سے وفاع کرنے ان ہی موارد میں منحصر نہیں تھا۔ مہم ترین واقعات میں سے ایک جس میں امام علی نے اپنے حق کے وفاع کے لئے تاکید کی، وہ واقعہ ہے جو مناشدہ (اللہ کی قسم دلانا) کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں امام نے صحابہ کو قسم دلائی کہ ان لوگوں جو کچھ آنحضرت سے آپ کے بارے میں سنا ہے، اس کی شہادت دیں۔ جیسا کہ علامہ امینی نے نقل کیا ہے کہ شیعہ و اہل سنت کے متعدد منابع نے رحبہ کے مقام پر کوفہ میں سنہ 35 ہجری میں آپ کی خلافت کے ابتدائی ایام میں مناشدہ کے واقع ہونے کی تصریح کی ہے۔ اس واقعہ میں امام نے صحابہ کو قسم دیکر ان سے پوچھا کہ انہوں نے غدیر خم میں رسول خدا ؐ سے جو کچھ بھی آپ کی جانشینی کے مسئلہ میں سنا تھا اس کی شہادت دیں، شیعہ مصادر نے ایک دوسرے مناشدہ کا ذکر، عمر کی بنائی ہوئی 6 افراد پر مشتمل شوری میں بھی کیا ہے اس مناشدہ کی روایات میں امام علی نے ایک طویل فہرست ان واقعات کی ذکر کی ہے جن میں خاص طور پر آنحضرت ؐ نے آپ کی نیابت و جانشنی کے بارے میں تصریح کی ہے کہ کیا انہوں نے ان باتوں کو آنحضرت سے سنا ہے تو انہوں نے ان کے باتوں کی تائید کی۔

خلفائے ثلاثہ کا دور

خلفائے ثلاثہ کے 25 سالہ دور میں امام علی تقریبا امور سیاسی و حکومتی سے دور رہے اور فقط علمی و سماجی امور کی انجام میں مشغول رہے۔ جیسے جمع آوری قرآن جو مصحف امام کے نام سے مشہور ہے، مختلف امور میں خلفاء کو مشورہ دینا، فقراء کو انفاق کرنا، تقریبا ایک ہزار غلاموں کو خرید کر آزاد کرنا، زراعت و شجر کاری، نہریں کھودنا، تعمیر مساجد جیسے مدینہ میں مسجد فتح، جناب حمزہ کی قبر کے پاس مسجد کی تعمیر، میقات میں ایک مسجد کی تعمیر اور اسی طرح سے مقامات و ملک کو وقف کرنا، جن کی سالانہ آمدنی 40 ہزار دنیار تک بتائی گئی ہے۔

اس دور کے بعض اہم امور کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جا رہا ہے:

ابوبکر

ابو بکر کا دور شروع ہوتے ہی خاندان رسولؐ کو نہایت ہولناک حوادث و واقعات کا سامنا کرنا پڑا؛ جن میں یہ تین واقعات خاص طور پر قابل ذکر ہیں:

  1. خانہ امام علیؑ پر حملہ و ابوبکر کے لئے جبری بیعت[201]
  2. غصب فدک [202]
  3. شہادت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا

اجباری بیعت

بیعت سے امام علیؑ کا اجتناب اور بعض صحابہ کی خلافت ابوبکر کے خلاف اقدامات، ابوبکر اور حتی عمر کے لئے سنجیدہ خطرے میں تبدیل ہوگئے۔ چنانچہ ابوبکر و عمر نے اس خطرے کے خاتمے اور اپنے منصوبے کے تحت علی بن ابیطالبؑ کو بیعت پر مجبور کرنے کا فیصلہ کیا۔[203] ابوبکر نے کئی مرتبہ امامؑ سے بیعت لینے کیلئے قُنفُذ نامی شخص کو امام علیؑ کے گھر کے دروازے پر بھجوایا لیکن امامؑ نے قبول نہ کیا چنانچہ عمر نے ابوبکر سے کہا: خود ہی اٹھو، ہم مل کر علی بن ابیطالب کے پاس جاتے ہیں اور یوں ابو بکر، عمر، عثمان، خالد بن ولید، مغیرہ بن شعبہ، ابو عبیدہ جراح اور قنفذ علیؑ کے گھر کے دروازے پر پہنچے۔ یہ گروہ جب گھر کے دروازے پر پہنچا تو اس نے بنت رسولؐ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی توہین کی اور دروازے کو دھکا دیا اور سیدہؑ دروازے اور دیوار کے درمیان دب گئیں اور ان افراد میں سے بعض نے سیدہؑ کو تازیانے مارے۔[204] اور اس کے بعد امام علیؑ پر حملہ کیا اور آپ کا لباس ان کی گردن میں لپیٹا اور انہیں گھسیٹ کر سقیفہ لے گئے اور ان کے بیعت کا مطالبہ کیا۔ امام نے جواب دیا: میں خلافت کے لئے تم سے زیادہ اس کا اہل ہوں، اس لئے میں تمہاری بیعت نہیں کروں گا۔ بہتر ہوگا کہ تم میری بیعت کرو، اس لئے کہ تم نے انصار کو رسول خدا کا رشتہ دار بتا کر ان سے خلافت لے لی اور اب ہم سے خلافت کو غصب کرنا چاہتے ہو۔[205]

بیعت کے وقت کے سلسلہ میں مورخین کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ بعض اس بیعت کو حضرت فاطمہ زہرا کی وفات کے بعد اور بعض دیگر 40 روز کے بعد مانتے ہیں اور ایک دوسرے گروہ کے مطابق 6 ماہ بعد ذکر ہوئی ہے۔[206] البتہ شیخ مفید کا ماننا ہے کہ امام نے ہرگز ابوبکر کی بیعت نہیں کی۔[207]

خلافت ابوبکر میں آپ کا رویہ

خلافت ابوبکر کے زمانہ میں جس کی مدت 2 سال تھی، امام علی تمام محظورات کے باوجود دستگاہ خلافت کو جہاں تک ان کے لئے قبول کرنا ممکن ہوتا تھا، انہیں مشورہ دیا کرتے تھے۔ علمائے اہل سنت کے عقیدہ کے مطابق، ابوبکر مہم امور میں امام علی سے مشورہ کیا کرتے تھے۔[208] اور ان کے مشورہ کے مطابق عمل کیا کرتے تھے اور اس لئے کہ وہ امام کے مشوروں سے فائدہ اٹھا سکیں انہیں دیگر مسلمانوں کی طرح مدینہ سے خارج ہونے کی اجازت نہین دیتے تھے۔[209] آپ نے کوئی بھی منصب قبول نہ کرنے سے پرہیز کے باجود جب بھی انہیں مشورہ کی کوئی ضرورت پیش آتی تھی اور اسلام و مسلمین کی مصلحت کا تقاضا ہوتا تھا تو خلیفہ کے ساتھ تعاون سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ یعقوبی اس بارے میں تحریر کرتے ہیں: خلافت ابوبکر کے زمانے میں جن افراد سے فقہ حاصل کی جاتی تھی ان میں سے ایک علی بن ابی طالب تھے۔[210] ان کے دور حکومت میں جنگوں و فتوحات کے سلسلہ میں امام کا موقف غیر جانب دارانہ یا زیادہ سے زیادہ مشاورانہ ہوتا تھا لیکن آپ نے بذات خود ان میں سے کسی میں شرکت نہیں کی۔ بعض تاریخی گزارشات کے مطابق، ابوبکر نے فتح شام کے سلسلہ میں اصحاب سے نظر خواہی کی اور فقط امام علی کے نظریہ کو قبول کیا۔[211]

عمر

حضرت ابوبکر نے اپنی وصیت میں جسے عثمان نے تحریر کیا، لوگوں کو عمر کی پیروی کی دعوی دی اور اعلان کیا: میں عمر بن خطاب اپنے بعد تمہارا حاکم معین کرتا ہوں۔ ان کے بات سنیں اور ان کے اطاعت کریں۔[212] امام علی نے ان کے اس اقدام پر سکوت اختیار کیا۔ لیکن بعد میں آپ نے اس اقدام کو مذموم و ناحق بتایا اور اس کی توصیف ان الفاظ میں کی: تعجب خیز ہے، حیرت انگیز ہے کہ ابوبکر اپنی حیات میں لوگوں سے اپنی بیعت فسخ کرنے کا مطالبہ کرتے تھے (جیسا کہ وہ کہتے تھے مجھے چھوڑ دو میں تم بہترین نہیں ہوں) لیکن خلافت کو دوسرے کے لئے مضبوط کرتے رہے۔ ان دو لوگوں (ابوبکر و عمر) نے شتر خلافت کے پستانوں کو سختی کے ساتھ دوہا۔ جبکہ میری برجستگی ان کے دونوں کے مقابلے میں اس قدر ہے کہ میں اس دریا کی مانند ہوں جس پر سے سیلاب کا پانی آ کر گذر جاتا ہے اور کوئی بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا جو میرے علم کی بلندی تک پہچ سکے ... میں نے شجاعت کے ساتھ اس طولانی مدت میں نہایت اندوہ کے ساتھ اس پر صبر کیا۔[213]

خلافت عمر میں آپ کا رویہ

حضرت عمر کی خلافت دس سال تک رہی اور امام علی نے ابوبکر کے دور خلافت کی عمر کے دور میں بھی کسی طرح کا کوئی بھی منصب قبول کرنے سے پرہیز کیا۔ لیکن ایک مشاور کے عنوان سے عمر کے ساتھ رہے اور ان کے اپنے مشوروں کے ذریعہ سے مدد کی۔[214] جیسا کہ اہل سنت مورخین نے ذکر کیا ہے کہ عمر کوئی بھی کام امام علی کے مشورہ کے بغیر نہیں کرتے تھے۔ اس لئے عمر امام کی خردمندی، دقت نظر اور تدین کے قائل تھے۔[215] امام نے ان زمانے کی فتوحات کے مقابلہ میں وہی موقف اختیار کیا جو ابوبکر کے دور میں اختیار کیا تھا، لیکن چونکہ اس زمانہ میں فتوحات کا دائرہ بیحد وسیع ہو چکا تھا۔ لہذا امام کا کردار بھی ابوبکر کے دور سے زیادہ ملموس و چشمگیر تھا۔ کسی بھی تاریخی یا حدیثی ماخذ میں ان فتوحات میں امام کی شرکت کا کوئی ذکر نہیں ہوا ہے۔ اس دور کی کسی بھی کتاب میں یہ بات دیکھنے میں نہیں آئی ہے کہ عمر نے امام علی سے کوئی مشورہ طلب کیا ہو اور امام نے اس سے منع کیا ہو۔ بلکہ امام باقرؑ سے منقول روایت کے مطابق، عمر امور حکومت کو، جن میں مہم ترین مسئلہ فتوحات کا تھا، امام علی کے مشورہ سے انجام دیا کرتے تھے۔[216] دوسری طرف اصحاب و پیروان علی نے ان فتوحات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔خطا در حوالہ: Closing </ref> missing for <ref> tag انصار میں سے چند افراد کے سوا سب نے علیؑ کی بیعت کی۔ مخالفین میں حسان بن ثابت، کعب بن مالک، مسلمہ بن مخلَّد، محمد بن مُسًلمہ اور چند دیگر افراد شامل تھے؛ جنہیں عثمانیہ میں شمار کیا جاتا تھا۔ غیر انصاری مخالفین میں عبداللہ بن عمر، زید بن ثابت، اور اسامہ بن زید کی طرف شارہ کیا جاسکتا ہے جو عثمان کے قریبیوں میں شمار ہوتے تھے۔[217] حضرت علی کی جانب سے لوگوں کی بیعت قبول نہ کرنے کا سبب جیسا کہ نہج البلاغہ کے ایک خطبہ سے معلوم ہوتا ہے، یہ تھا کہ آپ اپنے دور کے معاشرے کو اس قدر فساد زدہ سمجھتے تھے کہ جس کی قیادت کرنا، اس میں اپنے منصوبوں اور ارادوں کو عملی جامہ پہنانا آپ کے لئے ممکن نہ تھا۔[218]

والی و کارگزار

امام علیؑ نے اپنی حکومت کے دوران اپنے والی و گورنر مختلف اسلامی شہروں میں تعینات کئے جیسے: عثمان بن حنیف کو بصرہ، عمارہ بن شہاب کو کوفہ، عبید اللہ بن عباس کو یمن، قیس بن سعد بن عبادہ کو مصر، سہل بن حنیف کو شام کا والی بنا کر بھیجا۔ شام جاتے ہوئے سہل بن حنیف جب تبوک پہچے تو وہاں ان کو اور گروہ کے درمیان بحث ہوگئی اور ان لوگوں نے انہیں واپس بھیج دیا۔ عبید اللہ بن عباس جب یمن پہنچے تو یعلی بن منیہ جو عثمان کی طرف سے یمن میں والی تھا، اس نے بیت المال میں جو کچھ تھا اسے لیکر مکہ بھاگ گیا۔ عمارہ بن شہاب جب مدینہ و کوفہ کے درمیان زبالہ کے مقام پر پہنچے تو طلیحہ بن خویلد جو عثمان کی خون خواہی کے نکلا تھا جب اس نے انہیں دیکھا اور اسے پتہ چلا کہ یہ کوفہ کی حکومت کے لئے جا رہے ہیں تو ان سے کہا: واپس لوٹ جاو اہل کوفہ اپنے والی کے علاوہ کسی کو قبول نہیں کریں گے اور اگر تم واپس نہیں جاتے تو میں تمہاری گردن اڑا دوں گا۔ لہذا وہ واپس لوٹ آئے اور کچھ عرصہ کے بعد آپ نے مالک اشتر کی سفارش پر ابو موسی اشعری کو وہاں کی حکومت پر باقی رکھا۔

جنگیں

جنگ جمل (ناکثین)

جنگ جمل امام علیؑ کی پہلی جنگ تھی جو آپ اور ناکثین کے درمیان واقع ہوئی۔ نکث بمعنی نقض اور توڑنا، اور چونکہ طلحہ و زبیر اور اور ان کے پیروکاروں نے ابتدا میں امام علیؑ کی بیعت کی تھی جو بالآخر انہوں نے توڑ دی چنانچہ انہیں ناکثین اور عہد شکنوں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔[219] یہ جنگ جمادی الثانی سنہ 36 ہجری میں لڑی گئی۔[220] طلحہ اور زبیر جو قتل عثمان کے بعد ابتدا میں خلافت پر نظریں جمائے ہوئے تھے [221] جب ناکام ہوئے اور خلافت امام علیؑ کو ملی تو انہیں توقع تھی کہ علیؑ کے ساتھ خلافت میں شریک ہو جائیں گے۔ ان دونوں نے آکر آپ سے بصرہ اور کوفہ کی ولایت مانگی، لیکن علیؑ نے انہیں اس کام کے لئے اہل قرار نہیں دیا۔[222] جبکہ وہ دونوں قتل عثمان کے اصل ملزم تھے اور عوام کے درمیان کوئی بھی طلحہ جتنا قتل عثمان کا خواہاں نہ تھا،[223] وہ دونوں اپنے مقاصد تک پہنچنے کے لئے عائشہ‌ سے جا ملے؛ حالانکہ عائشہ نے عثمان کے محاصرے کے وقت نہ صرف ان کی مدد نہیں کی تھی بلکہ موقف اختیار کیا تھا کہ عثمان کو گھیرنے والے حق طلب ہیں۔ لیکن جب انہیں خبر ملی کہ لوگوں نے علیؑ کی بیعت کی ہے تو کہنے لگیں کہ "عثمان کو ظلم کرکے قتل کیا گیا ہے اور اس کے بعد انہوں نے عثمان کے قتل کے سلسلے میں انصاف مانگنا شروع کیا!۔[224] عائشہ اس سے پیشتر علیؑ کے لئے عداوت یا عدواتیں دل میں رکھے ہوئی تھیں اسی وجہ سے انہوں نے طلحہ اور زبیر کا ساتھ دیا۔[225] چنانچہ ان تین افراد نے تین ہزار افراد پر مشتمل لشکر تیار کیا اور بصرہ کی طرف روانہ ہوئے۔[226] اس جنگ میں عائشہ عسکر نامی اونٹ (جمل) پر سوار ہوئی تھیں اسی وجہ سے اس جنگ کو جنگ جمل کا نام دیا گیا۔[227]

امام علیؑ نے بصرہ پہنچ کر سب سے پہلے عہد شکن باغیوں کو نصیحت کی اور یوں جنگ کا راستہ روکنے کی کوشش کی لیکن باغیوں نے امامؑ کے ایک ساتھی کو قتل کرکے جنگ کا آغاز کیا[228] تاہم زبیر نے جنگ شروع ہونے سے قبل ہی لشکر سے کنارہ کشی اختیار کی جس کا سبب یہ تھا کہ علیؑ نے اسے وہ حدیث یاد دلائی کہ جب رسول اللہؐ نے زبیر سے کہا تھا کہ ایک دن تم علیؑ کے خلاف بغاوت کرو گے۔ زبیر جنگ سے دستبردار ہونے کے بعد بصرہ کے باہر ایک تمیمی مرد عمرو بن جرموز کے ہاتھوں قتل ہوا۔[229] اصحاب جمل نے چند گھنٹوں کی مختصر جنگ میں بڑا جانی نقصان اٹھا کر شکست کھائی[230] اس جنگ میں طلحہ (اپنے لشکر میں شامل مروان) کے ہاتھوں مارا گیا اور عائشہ کو عزت و احترام کے ساتھ مدینہ لوٹا دیا گیا۔[231]

جنگ صفین (قاسطین)

جنگ صفین امام علیؑ اور قاسطین (معاویہ اور اس کی سپاہ)[232] کے درمیان صفر المظفر سنہ 37 ہجری کو شام میں دریائے فرات کے قریب صفین نامی مقام پر لڑی گئی اور اس کا اختتام اُس حَکَمیت پر ہوا جو رمضان سنہ 38 ہجری میں انجام پائی۔[233] عثمان کو مسلمانوں نے گھیرے میں لیا تو معاویہ ان کی مدد کر سکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ وہ انہیں دمشق منتقل کرنا چاہتا تھا تاکہ وہ وہاں امور مملکت کی باگ ڈور خود سنبھال لے۔ اس نے قتل عثمان کے بعد شامیوں کے درمیان علیؑ کو ان کے قاتل کے طور پر پہجان کرانے کی کوشش کی۔ امامؑ نے اپنی حکومت کے آغاز پر معاویہ کو خط لکھا اور اس کو بیعت کرنے کا کہا لیکن اس نے حیلوں بہانوں سے کام لیا اور کہا کہ "پہلے عثمان کے ان قاتلوں کو میرے حوالے کریں جو آپ کے پاس موجود ہیں تا کہ میں ان سے قصاص لوں اور اگر آپ نے ایسا کیا تو میں بیعت کروں گا۔ امامؑ نے معاویہ کے ساتھ خط و کتابت کی اور اپنا نمائندہ بھیجا اور جب آپ کو معلوم ہوا کہ معاویہ جنگ چاہتا ہے تو آپ نے اپنا لشکر لے کر شام کی جانب رخ کیا۔ ادھر معاویہ بھی اپنا لشکر لے کر روانہ ہوا اور دونوں لشکروں کا سامنا صفین کے مقام پر ہوا۔ امام علیؑ کی کوشش تھی کہ جہاں تک ممکن ہو یہ مسئلہ جنگ پر ختم نہ ہو۔ لہذا آپ نے پھر بھی خطوط روانہ کئے جن سے کوئی نتیجہ حاصل نہ ہوا اور آخر کار سنہ 36 ہجری میں جنگ کا آغاز ہوا۔[234]

سپاہ علیؑ کا آخری حملہ شروع ہوا اور اگر جاری رہتا تو علوی سپاہ کی کامیابی یقینی تھی لیکن معاویہ نے عمرو بن عاص کے ساتھ مشورہ کرکے ایک مکارانہ چال چلی اور حکم دیا کہ لشکر کے پاس قرآن کے جتنے بھی نسخے ہیں انہيں نیزوں پر اٹھائیں اور سپاہ علیؑ کے سامنے جائيں اور انہيں قرآن کے فیصلے کی طرف بلائیں۔ یہ بہانہ کار گر ہوا اور سپاہ علیؑ میں قاریوں کی جماعت علیؑ کے پاس آئی اور اور کہا: ہمیں کوئی حق نہيں ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ لڑیں چنانچہ وہ جو کہتے ہیں وہی ہمیں قبول کرنا پڑے گا۔علیؑ نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ ایک چال ہے جس کے ذریعے وہ ہاری ہوئی جنگ سے جان چھڑانا چاہتے ہیں لیکن بے سود۔[235]

امامؑ نے مجبور ہوکر معاویہ کے نام ایک خط کے ضمن میں لکھا: ہم جانتے ہیں کہ تمہارا قرآن سے کوئی تعلق نہيں ہے تاہم ہم قرآن کی حکمیت (یا قرآنی فیصلہ) قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔[236] طے یہ پایا کہ ایک فرد سپاہ شام کی طرف سے آ جائے اور ایک فرد سپاہ عراق کی طرف سے اور وہ دونوں بیٹھ کر فیصلہ کریں کہ اس موضوع میں قرآن کا حکم کیا ہے۔ شامیوں نے عمرو بن عاص کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا اور اشعث اور بعد میں خوارج کے مسلک میں شامل ہونے والے کئی دیگر افراد نے ابو موسی اشعری کا نام تجویز کیا۔ امام علیؑ نے عبداللہ بن عباس یا مالک اشتر کے نام تجویز کئے لیکن اشعث اور اس کے گروہ نے کہا کہ چونکہ مالک اشتر جنگ جاری رکھنے پر یقین رکھتے ہیں اور عبداللہ بن عباس کو ہونا ہی نہیں چاہئے اور چونکہ عمرو بن عاص مصر سے ہے اسی لئے دوسرے فریق کا نمائندہ یمنى ہونا چاہئے!۔[237] آخر کار عمرو بن عاص نے ابو موسی اشعری کو دھوکہ دیا اور بظاہر قرآنی حَکَمِیت کو معاویہ کے مفاد میں ختم کردیا۔[238]

جنگ نہروان (مارقین)

جنگ صفین میں حَکَمِیت کے نتیجے میں امامؑ کے بعض ساتھیوں نے احتجاج کیا اور آپ سے کہنے لگے: آپ نے خدا کے کام میں کسی کو فیصلہ کرنے کی اجازت کیوں دی؟ حالانکہ امام علیؑ شروع سے ہی حَکَمِیت کی مخالفت کر رہے تھے اور ان ہی لوگوں نے امامؑ کو اس کام پر مجبور کیا تھا لیکن بہر صورت انہوں نے امامؑ کو کافر قرار دیا اور آپ پر لعن کرنے لگے۔[239]

یہ لوگ خوارج یا مارقین کہلائے جنہوں نے آخر کار لوگوں کو قتل کرنا شروع کیا۔ انہوں نے صحابی رسول خداؐ کے فرزند عبداللہ بن خباب کو قتل کیا اور اس کی بیوی کا پیٹ چیر کر اس میں موجود بچے کو بھی قتل کیا۔[240]] چنانچہ امامؑ نے مجبورا جنگ کا فیصلہ کیا۔ آپ نے ابتدا میں عبداللہ بن عباس کو بات چیت کی غرض سے ان کے پاس بھیجا اور بات چیت ہوئی اور نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں سے بہت سے تو اپنی رائے سے دستبردار ہوئے لیکن بہت سے رہ گئے۔ آخر کا نہروان کے مقام پر جنگ ہوئی جس کے نتیجے میں امامؑ کے لشکر سے 7 یا 9 افراد شہید ہوئے اور خوارج میں سے 9 افراد زندہ بچ گئے۔ [241]

شہادت

عراق، نجف اشرف، امام علیؑ کا حرم مطہر

امام علی 19 رمضان سنہ 40 ہجری فجر کے وقت مسجد کوفہ میں سجدہ کی حالت میں ابن ملجم مرادی کی تلوار سے زخمی ہوئے اور دو دن کے بعد 21 رمضان میں شہید ہوئے اور مخفی طور پر دفن کئے گئے۔ آپ کا ضربت کھانا ان حالات میں پیش آیا جب جنگ نہروان کے بعد امامؑ نے عراق میں ایک بار پھر شام کے خلاف جنگ کے لئے لشکر تشکیل دینے کی کوشش کی لیکن تھوڑے سے لوگوں نے ساتھ دیا۔ دوسری طرف سے معاویہ نے عراق کے حالات اور عراقیوں کی سستیوں کے پیش نظر جزیرة العرب اور حتی کہ عراق میں امامؑ کی عملداری کے اندر بعض علاقوں کو جارحیت اور افراد کو دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنانا شروع کیا تاکہ ان کی قوت کو ضعف میں بدل دے اور عراق کو فتح کرنے کا راستہ ہموار کر دے۔[242] تاریخی منابع کے مطابق، خوارج میں سے تین لوگوں نے تین افراد حضرت علی، معاویہ و عمرو عاص کو قتل کرنے کا عہد کیا۔ ابن ملجم نے امام علی کو قتل کرنے کی ذمہ داری لی۔

امیرالمؤمنین کے بیٹوں امام حسن، امام حسین اور محمد بن حنفیہ نے اپنے چچا زاد بھائی عبداللہ بن جعفر کے تعاون سے رات کے وقت آپؑ کو غریین (موجودہ نجف) کے مقام پر سپرد خاک کیا[243] کیونکہ بنی امیہ اور خوارج اگر آپ کی قبر کو ڈھونڈ لیتے تو قبرکشائی کرکے آپ کی بے حرمتی کرتے۔[244] امام جعفر صادقؑ نے سنہ 135 ہجری میں منصور عباسی کی حکومت کے زمانہ میں نجف میں آپ کے محل دفن کو آشکار کیا۔[245]

امیرالمؤمنینؑ سے ایسی روایات نقل ہوئی ہیں جن میں آپ نے اپنے بیٹوں کو اپنے غسل، کفن، نماز اور تدفین کی کیفیت کے بارے میں ہدایات دی ہیں۔[246] جب محراب مسجد میں ابن ملجم کے ہاتھوں زخمی ہوئے تو آپ نے اپنے بیٹوں حسن اور حسین ؑ سے فرمایا: اگر اس ضربت کی وجہ سے میری وفات ہو جاتی ہے تو تم ابن ملجم کو ایک ہی ضرب لگانا۔[247] امام نے اسی طرح سے قرآن، نماز، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، جہاد و خانہ خدا کو خالی چھوڑنے، اولاد کو خوف خدا کی تعلیم، امور میں نظم و ایک دوسرے کے ساتھ صلح کی وصیت فرمائی اور ان سے یتمیوں اور پڑوسیوں کا حق ادا کرنے کی سفارش کی۔[248]

روضہ

آپ کی شہادت سنہ 40 ہجری میں ہوئی اور وصیت کے مطابق آپ کو مخفی طور پر دفن کیا گیا۔[249] تقریبا ایک صدی تک آپ کی قبر مخفی رہی۔ بنی امیہ کے زوال کے بعد آپ کی قبر کے مخفی رہنے کا سبب ختم ہوگیا اور آپ کی قبر کے آشکار ہونے کا زمینہ فراہم ہوگیا۔[250] اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ امام جعفر صادقؑ نے آپ کی قبر کو آشکار کردیا۔[251] اس کے باوجود قبر کب آشکار ہوئی اس بارے میں کوئی معین تاریخ نہیں ہے۔[252] بعض کا ماننا ہے کہ امام جعفر صادقؑ نے اولین خلیفہ عباسی سفاح (خلافت: 131 سے 136 ھ) کے دور میں[253] اور بعض نے عباسی سلسلے کا دوسرا خلیفہ منصور کے دور میں قرار دیا ہے۔[254]

فضائل و مناقب

مولود کعبہ

علامہ امینی کے نقل کے مطابق، 16 منابع اہل سنت، 50 منابع شیعہ اور 41 شعراء نے دوسرے صدی ہجری کے بعد خانہ کعبہ میں امام علی کی ولادت کی طرف اشارہ کیا ہے۔[255] اسی طرح سے علامہ مجلسی نے 18 شیعہ منابع میں خانہ کعبہ میں آپ کی ولادت ہونے کا ذکر کیا ہے۔[256] ان روایات کی بناء پر امام کی والدہ فاطمہ بنت اسد کنار کعبہ دعا کی اور اللہ سے چاہا کہ ان کے فرزند کی ولادت ان پر آسان ہو۔[257] دعا کے دیوار کعبہ شگافتہ ہوئی، آپ اس کے اندر وارد ہوئیں، تین دن کعبہ میں رہنے بعد چوتھے دن کعبہ سے باہر آئیں جبکہ ان کے فرزند علی ان کی آغوش میں تھے۔[258]

مسلمِ اول

شیعہ عقائد اور بعض علمائے اہل سنت کے مطابق حضرت علی آنحضرت پر ایمان لانے والے پہلے مرد ہیں۔[259] بعض شیعہ روایات کے مطابق، پیغمبر اکرم ؐ نے امام علی کا تعارف پہلے مسلمان، پہلے مومن[260] اور آپ کی تصدیق کرکے والے انسان کے عنوان سے کرایا ہے۔[261] شیخ طوسی نے امام رضا سے ایک روایت نقل کی ہے کہ جس میں آپ نے امام علی کا تعارف آنحضرت پر سب سے ایمان لانے والے کے طور پر کیا ہے۔[262] علامہ مجلسی ایمان لانے والے افراد کا ذکر اس ترتیب سے کرتے ہیں: سب سے پہلے حضرت علی، اس کے بعد حضرت خدیجہ، اس کے بعد جعفر بن ابی طالب ایمان لائے۔[263]

بعض محققین کے مطابق اس بات پر شیعوں میں اجماع ہے کہ امام علی پہلے مسلمان مرد ہیں۔[264] جبکہ طبری[265]، ذہبی[266] وغیرہ[267] جیسے بعض اہل سنت مورخین نے بھی بعض روایات کی ہیں جن کی بنیاد پر حضرت علی پہلے مسلمان ہیں۔ مشہور کی بناء پر اس وقت حضرت علی کی عمر دس سال تھی۔ حالانکہ بعض منابع میں ایمان لانے کے وقت ان کی عمر بارہ سال ذکر ہوئی ہے، اس لئے کہ شہادت کے وقت آپ کی عمر 65 سال ذکر ہوئی ہے۔[268]

حدیث یوم الدار

رسول خدا ؐ نے مکہ میں تین سال تک مخفیانہ طور پر اسلام کی دعوت دی۔ اس کے بعد خداوند عالم کی طرف سے حکم ہوا کہ وہ علنی طور رپر دعوت دیں۔ تاریخ اسلام و تفاسیر قرآن کے مصادر کے مطابق جب سنہ 3 بعثت میں آیہ انذار نازل ہوئی تو آنحضرت نے امام کو حکم دیا کہ وہ غذا کا انتظام کریں اور فرزندان عبد المطلب کو بلائیں تا کہ وہ انہیں اسلام کی دعوت دیں۔ تقریبا چالیس افراد جن میں ابو طالب، حمزہ و ابو لہب شامل تھے، دعوت میں آئے۔ آنحضرت نے کھانے کے بعد فرمایا: اے اولاد عبد المطلب، خدا کی قسم، عربوں کے درمیان میں کسی ایسے جوان کو نہیں جانتا جو تمہارے لئے اس چیز سے بہتر لایا ہو جو میں تمہارے لئے لایا ہوں۔ میں تمہارے لئے خیر دنیا و آخرت لایا ہوں۔ پروردگار نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں اس کی دعوت دوں، تم میں سے کون اس کام میں میری مدد کرے گا تا کہ وہ میرا بھائی اور وصی و جانشین بنے۔ کسی نے جواب نہیں دیا۔ امام علی جو سب سے چھوٹے تھے اور ان کی عمر تیرہ یا چودہ سال تھی، نے کہا: اے رسول خدا میں آپ کی نصرت کروں گا۔ آپ نے فرمایا: یہ تمہارے درمیان میر بھائی، وصی و جانشین ہے، اس کے بات سنو اور اس کی اطاعت کرو۔[269]

شب ہجرت (لیلۃ المبیت)

قریش نے مسلمانوں کو آزار و اذيت کا نشانہ بنایا تو پیغمبرؐ نے اپنے اصحاب کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ آپ کے اصحاب مرحلہ وار مدینہ کی طرف ہجرت کرگئے۔[270] دار الندوہ میں مشرکین کا اجلاس ہوا تو قریشی سرداروں کے درمیان مختلف آرا پر بحث و مباحثہ ہونے کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ ہر قبیلے کا ایک نڈر اور بہادر نوجوان اٹھے اور رسول خدا کے قتل میں شرکت کرے۔ جبرائیل نے اللہ کے حکم پر نازل ہوکر آپؐ کو سازش سے آگاہ کیا اور آپ کو اللہ کا یہ حکم پہنچایا کہ: آج رات اپنے بستر پر نہ سوئیں اور ہجرت کریں۔ پیغمبرؐ نے علیؑ کو حقیقت حال سے آگاہ کیا اور حکم دیا کہ آپ کی خوابگاہ میں آپ کے بستر پر آرام کریں۔[271]

آیت اور اس کا شان نزول: وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَہ ُ ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللّہ ِ وَاللّہ ُ رَؤُوفٌ بِالْعِبَادِ اور آدمیوں ہی میں وہ بھی ہے جو اللہ کی مرضی کی طلب میں اپنی جان بیچ ڈالتا ہے اور اور اللہ بندوں پر بڑا شفیق و مہربان ہے۔[272]

مفسرین کے مطابق یہ آیت لیلۃ المبیت سے تعلق رکھتی ہے اور علیؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔[273]

رسول خداؐ کے ساتھ مؤاخات

رسول خداؐ نے ہجرت کے بعد مدینہ پہنچنے پر مہاجرین کے درمیان عقد اخوت برقرار کیا اور پھر مہاجرین اور انصار کے درمیان اخوت قائم کی اور دونوں مواقع پر علیؑ سے فرمایا: تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو نیز اپنے اور علیؑ کے درمیان عقد اخوت جاری کیا۔ [274]

ردّ الشمس

یہ سنہ 7 ہجری کا واقعہ ہے جب رسول خداؐ اور علیؑ نے نماز ظہر ادا کی اور رسول خداؐ نے علیؑ کو کسی کام کی غرض سے کہیں بھیجا جبکہ علیؑ نے نماز عصر ادا نہیں کی تھی۔ جب علیؑ واپس لوٹ کر آئے تو پیغمبرؐ نے اپنا سر علیؑ کی گود میں رکھا اور سوگئے یہاں تک سورج غروب ہوگیا۔ جب رسول خداؐ جاگ اٹھے بارگاہ الہی میں دعا کی: "خدایا! تیرے بندے علی نے اپنے آپ کو تیرے رسولؐ کے لئے وقف کیا، سورج کی تابش اس کی طرف لوٹا دے"۔ پس علیؑ اٹھے، وضو تازہ کیا اور نماز عصر ادا کی اور سورج ایک بار پھر غروب ہوگیا۔[275]

ابلاغ سورہ برائت ( توبہ)

سورہ توبہ کی ابتدائی آیات میں بیان کیا گیا تھا کہ مشرکین کو چار مہینوں تک مہلت دی جاتی ہے کہ یکتا پرستی اور توحید کا عقیدہ قبول کریں جس کے بعد وہ مسلمانوں کے زمرے میں آئیں گے لیکن اگر وہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہیں تو انہیں جنگ کے لئے تیار ہونا پڑے گا اور انہیں جان لینا چاہئے کہ جہاں بھی پکڑے جائیں گے مارے جائیں گے۔ یہ آیات کریمہ ایسے حال میں نازل ہوئیں کہ پیغمبرؐ حج کی انجام دہی میں شرکت کا ارادہ نہیں رکھتے تھے؛ چنانچہ اللہ کے فرمان کے مطابق ان پیغامات کے ابلاغ کی ذمہ داری یا تو رسول اللہؐ خود نبھائیں یا پھر ایسا فرد یہ ذمہ داری پوری کرے جو آپؐ سے ہو، اور ان کے سوا کوئی بھی اس کام کی اہلیت نہيں رکھتا" [276]، ـ حضرت محمدؐ نے علیؑ کو بلوایا اور حکم دیا کہ مکہ۔ تشریف لے جائے اور عید الاضحیٰ کے دن مِنیٰ کے مقام پر سورہ برائت کو مشرکین تک پہنچا دیں۔[277]

حدیث حق

پیغمبرؐ نے فرمایا: عَلىٌّ مَعَ الحقِّ والحقُّ مَعَ عَلىٍّ۔ (ترجمہ: على ہمیشہ حق کے ساتھ ہیں اور حق ہمیشہ علی کے ساتھ ہے)"۔ [278]

سد الابواب

صدر اسلام میں مسجد النبی کے اطراف میں موجود گھروں کے دروازے مسجد کے اندر کھلتے تھے۔ پیغمبر اکرمؐ نے حضرت علیؑ کے سوا تمام گھروں کے مسجد النبی میں کھلنے والے دروازوں کے بند کرنے کا حکم دیا گیا۔ لوگوں نے سبب پوچھا تو رسول خدا نے فرمایا:
"مجھے علی کے گھر کے سوا تمام گھروں کے دروازے بند کرنے کا حکم تھا لیکن اس بارے میں بہت سی باتیں ہوئی ہیں۔ خدا کی قسم! میں نے کوئی دروازہ بند نہيں کیا اور نہيں کھولا مگر یہ کہ ایسا کرنے کا مجھے حکم ہوا اور میں نے بھی اطاعت کی۔[279]

جمع آوری قرآن

علمائے شیعہ و اہل سنت کا ماننا ہے کہ آنحضرت ؐ کی رحلت کے بعد حضرت علی نے آپ کے حکم کے مطابق قرآن کریم کی جمع آوری و تدوین کا کام شروع کیا۔ یہی سبب ہے کہ ایک روایت میں ذکر ہوا ہے کہ آپ نے قسم کھائی کہ جب تک قرآن کی جمع آوری نہیں کر لیتا، عبا دوش پر نہیں ڈالوں گا۔ اسی طرح سے نقل ہوا ہے کہ امام علی نے رحلت پیغمبر ؐ کے بعد 6 ماہ کی مدت میں قرآن مجید کو جمع کیا۔ سب سے پہلے قرآن کی تدوین کرنے والے حضرت علیؑ ہیں۔

مبداء تاریخ اسلام

امام علی کے مشورہ پر حضرت عمر نے آنحضرت ؐ کی مکہ سے مدینہ ہجرت کی تاریخ کو اسلامی تاریخ کا مبداء قرار دیا۔

قرآن میں امام علی کے فضائل

حضرت علیؑ کے فضائل و مناقب میں نازل ہونے والی آیات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ ابن عباس سے نقل ہوا ہے کہ 300 سے زیادہ آیات حضرت علی کے متعلق نازل ہوئی ہیں۔[280] یہاں پر ان میں سے بعض کا ذکر کیا جا رہا ہے:

آیت مباہلہ

سنہ 10 ہجری میں روز مباہلہ طے یہ پایا تھا کہ مسلمان اور نجران کے عیسائی ایک دوسرے پر لعنت کریں، تا کہ خدا جھوٹی جماعت پر عذاب نازل کرے۔ اسی مقصد سے رسول خداؐ علی، فاطمہ، حسن اور حسین کو لے کر صحرا میں نکلے۔ عیسائیوں نے جب دیکھا کہ آپ اس قدر مطمئن ہیں کہ صرف قریب ترین افراد خاندان کو ساتھ لائے ہیں، تو خوفزدہ ہوئے اور جزیہ کی ادائیگی قبول کرلی۔ آیہ مباہلہ میں حضرت علی کو نفس پیغمبر کہا گیا ہے۔[281]

آیت تطہیر

شیعہ علماء کی عمومی رائے یہ ہے کہ یہ آیت کریمہ زوجۂ رسولؐ ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی اور نزول کے وقت رسول اللہؐ کے علاوہ، علیؑ، فاطمہؑ اور حسنینؑ بھی موجود تھے۔ آيت نازل ہونے کے بعد رسول خداؐ نے چادر کساء کو جس پر آپ بیٹھے تھے، اٹھا کر اصحاب کساء یعنی اپنے آپ، علی، فاطمہ اور حسنین کے اوپر ڈال دیا اور اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور عرض کیا: خداوندا! یہ میرے اہل بیت ہیں، انہیں ہر پلیدی سے پاک رکھ۔[282]

آیت مودت

اس آیہ کریمہ میں مودت و محبت القربی کو اجر رسالت کے عنوان سے مسلمانوں پر واجب کیا گیا ہے۔ ابن عباس کہتے ہیں: جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے رسول اللہؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ اس آیت کی رو سے جن لوگوں کی مودت واجب ہوئی ہے، وہ کون ہیں؟ آپؑ نے فرمایا: علی، فاطمہ، حسن اور حسین اور یہ جملہ آپ نے تین مرتبہ دہرایا۔[283]

دیگر فضائل

سرچشمہ علوم

مسلمان علماء کے مطابق، امام علیؑ بہت سے علوم مبتکر اور سرچشمہ ہیں۔ ساتویں صدی ہجری کے اہل سنت عالم ابن ابی الحدید کا ماننا ہے کہ امام تمام فضائل کی بنیاد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر فرقہ، ہر گروہ خود کو ان سے منتسب کرتا ہے۔[284] اور ان کے و ان کے چاہنے والوں کے خلاف نہایت بد گوئی و دشمنی کے باوجود ان کے نام میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔[285] اسی طرح سے ابن ابی الحدید کا ماننا ہے کہ علم کلام، فقہ، تفسیر[286] و قرائت، ادبیات عرب و فصاحت و بلاغت[287] جیسے علوم کا سرچشمہ آپ کی ذات ہے۔[288] ابن ابی الحدید کے بقول: الہیات کے تفصیلی بیان کا منشاء بھی حضرت امیرؑ ہیں اور محمد بن حنفیہ کے واسطہ سے تمام معتزلہ ان کے شاگرد ہیں اور اشاعرہ، امامیہ و زیدیہ کا معاملہ بھی ہے۔[289] فقہ میں بھی احمد بن حنبل، مالک بن انس، شافعی و ابو حنیفہ بھی با واسطہ ان کے شاگرد ہیں۔[290] قرائت میں بھی ان کے شاگرد ابو عبد الرحمن سلمی کے واسطہ سے قاریوں کی قرائت کی سند امام تک منتہی ہوتی ہے۔[291] اور انہیں علم نحو کا واضع بھی مانتے ہے کیونکہ اس علم کے قواعد ان کے شاگرد ابو الاسود دوئلی نے دوسروں تک منتقل کئے ہیں۔[292]

سلسلہ صوفیان

تقریبا اکثر سلسلہ تصوف اسلامی اپنا سلسلہ حضرت امیر المومنینؑ سے منسوب کرتے ہیں۔ نصر اللہ پور جوادی دانش نامہ جہان اسلام میں تحریر کرتے ہیں کہ شیخ احمد غزالی (متوفی 520 ھ) تصوف کے سلسلوں کے وجود میں آنے میں موثر تھے اور بہت سے سلسلوں نے اہنی نسبت ان کی طرف دی ہے۔ ان سلسلہ سازوں (چونکہ اس کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے) کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے ایک شجرہ نسب تلاش کریں اور اپنے سلسلہ کو صحابہ و آنحضرت ؐ تک پہچا دیں۔[293] دانش نامہ جہان اسلام میں شہرام پازوکی کے بقول، تمام صوفی سلسلہ اپنے مشایخ کے تمام اجازت ناموں (بشمول اجازہ ارشاد و تربیت) کے سلسلہ کو پیغمبر اکرم ؐ سے متصل کرتے ہیں اور اس سلسلہ کو زیادہ تر حضرت علی کے ذریعہ سے آنحضرت تک پہچاتے ہیں۔[294] ابن ابی الحدید کے مطابق، خرقہ جو صوفیہ شعار ہے، وہ اس بات پر دلالت کرتا ہے۔[295]

امامت و ولایت

دانش نامہ امام علی میں سید کاظم نژاد طباطبائی کے بقول، امام علی کی ولایت پر تصریح اور نص اس قدر زیادہ اور روشن ہے کہ اس میں کسی تردید کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ہے اور اس سلسلہ میں اقوال پیغمبر کی تحقیق اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ آنحضرت ؐ کی سب سے بڑی فکر اپنے بعد امامت و رہبری کا مسئلہ تھا۔[296] اس سلسلہ میں آپ کے اقدامات کی ابتداء دعوت ذوالعشیرہ سے ہوتی ہے جس میں آنحضرت نے امام کو اپنے بعد[297] اپنے جانشین و خلیفہ کے طور پر متعارف کیا۔ یہاں تک کہ آپ نے اپنے آخری سفر حج سے واپسی میں 18 ذی الحجہ میں غدیر خم کے مقام پر[298] اور اسی طرح سے اپنی عمر کے آخری لمحات میں جب آپ نے قلم و کاغذ طلب کیا تا کہ وہ وصیت لکھ دیں اور ان کے بعد مسلمان گمراہ نہ ہوں،[299] تک یہ سلسلہ جاری رکھا۔

دلائل امامت حضرت علیؑ کبھی صراحت کے ساتھ آنحضرت کے بعد آپ کی امامت و ولایت کی حکایت کرتے ہیں اور کبھی امامت و ولایت کی طرف اشارہ کے بغیر آپ کے فضائل کو آشکار کرتے ہیں۔ نوع اول کے بعض دلائل مندرجہ ذیل ہیں:

آیہ ولایت: مفسرین اس کے شان نزول کے سلسلہ میں امام علی کے انگوٹھی دینے کے واقعہ کو ذکر کرتے ہیں۔ جس میں آپ نے رکوع کی حالت میں اہنی انگوٹھی ایک سائل کو بخش دی۔[300] آیہ تبلیغ و آیہ اکمال جو واقعہ غدیر کے بارے میں نازل ہوئی۔ جس کے بعد آنحضرت نے لوگوں کے لئے حدیث غدیر بیان کی۔ حدیث غدیر؛ امامت امیر المومنین کے مہم ترین دلائل میں سے ہے۔ واقعہ غدیر پیغمبر اکرم کی عمر کے آخری سال میں پیش آیا اور لوگوں نے امام علی کو ان کے خلیفہ بنائے جانے پر مبارک باد پیش کی۔

بعض آیات و روایات جنہیں امام علی کی امامت و ولایت کے لئے دلیل سمجھا جاتا ہے، حالانکہ ان میں صراحت کے ساتھ آپ کی امامت کی طرف نہیں کیا گیا ہے اور آپ کے فضائل میں شمار کیا گیا ہے۔ ان میں سے بعض یہ ہیں: آیہ تطہیر، آیہ مباہلہ، آیہ صادقین، آیہ خیر البریہ، آیہ اہل ذکر، آیہ شراء، آیہ نجوا، آیہ صالح المؤمنین، حدیث ثقلین، حدیث مدینۃ العلم، حدیث رایت، حدیث کسا، حدیث وصایت، حدیث یوم الدار، حدیث طیر، حدیث مؤاخاة۔[301] حدیث منزلت، حدیث ولایت، حدیث سفینہ، حدیث سد الابواب۔

اقوال اور آثار

آپ کے اقوال

حضرت علیؑ کی حیات سے ہی لوگوں نے آپ کے اقوال، خطبات و بعض اشعار کو حفظ اور انہیں سینہ بہ سینہ نقل کیا۔ جنہیں بعد میں بعض شیعہ و اہل سنت علماء نے جمع کیا اور ان اقوال کے مجموعے کتاب کی شکل میں شائع ہوئے۔

نہج البلاغہ

امام علیؑ کے خطبات، مکتوبات و اقوال پر مشتمل مشہور کتاب ہے۔ اس کے مولف سید رضی چوتھی صدی ہجری کے علماء میں سے ہیں۔ نہج البلاغہ قرآن کے بعد شیعوں کا مقدس ترین دینی متن اور عرب دنیا کا نمایاں ترین ادبی شہ پارہ ہے۔ یہ کتاب تین حصوں میں مرتب کی گئی ہے: خطبات، خطوط اور مختصر کلمات یا کلمات قصار جو امیرالمؤمنینؑ نے مختلف مواقع پر بیان یا مختلف افراد کے نام تحریر کئے ہیں:

  1. خطبات میں 239 خطبے شامل ہیں۔
  2. خطوط کے حصے میں آپ کے 79 خطوط و مراسلات شامل ہیں اور تقریبا تمام خطوط دوران خلافت تحریر ہوئے ہیں۔
  3. کلمات قصار یا قصار الحکم یا مختصر کلمات میں 480 اقوال شامل ہیں۔

نہج البلاغہ پر متعدد شرحیں لکھی گئی ہیں جن میں شرح ابن میثم بجرانی، شرح ابن ابی الحدید معتزلی، شرح شیخ محمد عبدہ، شرح علامہ محمد تقی جعفری، حسین علی منتظری کے درس ہایی از نہج البلاغہ، شرح فخر رازي، قطب الدین راوندی کی منہاج البراعہ اور محمد باقر نواب لاہیجانی کی شرح نہج البلاغہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔[302] اس بات کے پیش نظر کہ نہج البلاغہ امام کے اقوال کا منتخب مجموعہ ہے۔ اس میں تمام اقوال شامل نہیں ہیں لہذا بعض محققین نے آپ کے تمام اقوال کو جمع کونے کی کوشش ہے۔ اصطلاحا ان کتابوں کو مستدرکات نهج البلاغہ کہا جاتا ہے۔

غُرَرُ الحِکَم و دُرَرُ الکَلِم

غرر الحکم و درر الکلم کو پانچویں صدی ہجری کے عالم عبدالواحد بن محمد تمیمی نے تالیف کیا ہے۔ غرر الحکم میں تقریباً دس ہزار سات سو ساٹھ (10760) اقوال امام علیؑ سے منقول ہیں جو الف باء کی ترتیب سے اعتقادی، عبادی، سیاسی، معاشی اور سماجی مختلف موضوعات کے اعتبار سے تقسیم کئے گئے ہیں۔[303]

دستور مَعالمِ الحِکَم و مأثور مکارم الشِیَم

دستور معالم الحکم و ماثور مکارم الشیم، کو محمد بن سلامۃ بن جعفر بن علی بن حکمون مغربی شافعی معروف بہ قاضی القضاعی نے تالیف کیا ہے جو پانچویں صدی ہجری کے شافعی علماء میں سے ہیں۔ وہ اہل حدیث کے ہاں بھی صاحب اعتبار ہیں گو کہ بعض لوگوں نے ان کو شیعہ ذکر کیا ہے۔[304]

کتاب "دستور معالم الحکم" نو ابواب میں مرتب کی گئی ہے: حضرت علیؑ کے مفید اقوال و حکم، دنیا کی مذمت، دنیا کی طرف بے رغبتی، مواعظ، وصیتیں اور نواہی (نہی)، سوالات کے جوابات، کلام غریب، نادر کلام، دعا و مناجات اور ایک منظوم کلام جو امامؑ سے ہم تک پہنچا ہے۔[305]

بعض دیگر تالیفات جن میں کلام امام علیؑ کو اکٹھا کیا گیا ہے:

  • نثر اللآلی تالیف: ابو علی فضل بن حسن طبرسی۔
  • مطلوب کل طالب من کلام امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام، انتخاب: جاحظ، شرح: رشید وطواط۔
  • قلائد الحکم و فرائد الکلم تالیف: قاضی ابو یوسف یعقوب بن سلیمان اسفراینی۔
  • امثال الامام علی بن ابیطالب، یہ نصر بن مزاحم کی کتاب الصفین میں منقولہ امام علیؑ کے خطوط و کلمات کا مجموعہ۔

دیوان اشعار

امام علی علیہ السلام سے منسوب اشعار میں دیوان میں جمع کئے گئے ہیں۔ جو بارہا مختلف ناشرین کی طرف سے شائع ہو چکا ہے۔[306]

آپ کے مکتوبات

شیعہ منابع و بعض اہل سنت مصادر میں آپ کے مندرجہ ذیل نوشتہ جات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:

جَفْر و جامعہ

جفر و جامعہ، دو کتابوں کے نام ہیں جنہیں رسول اکرم ؐ نے املا فرمایا اور امامؑ نے تحریر کیا ہے۔[307] یہ دونوں کتابیں ودایع امامت و علم امام کے منابع میں ہوتی ہیں۔ [308] کتاب جفر میں مستقبل میں قیامت تک پیش آنے والے مطالب ذکر ہوئے ہیں۔[309] امام موسی کاظمؑ کی روایت کے مطابق، نبی و وصی کے سوا کوئی اس کتاب کو پڑھ نہیں سکتا ہے۔ اس کا مطالعہ اوصیاء کے امتیازات میں شمار ہوتا ہے۔[310] کتاب جامعہ میں بھی ماضی سے مستقبل میں قیامت تک پیش آنے والے واقعات ذکر ہوئے ہیں۔ اسی طرح سے اس میں تمام آیات کی تاویل، تمام انبیاء کے اوصیاء کے اسماء، ان کے ساتھ پیش آنے والے حالات موجود ہیں۔ کتاب جامعہ کا بعض افراد نے مشاہدہ کیا ہے۔[311]

مصحف امام علیؑ

مصحف علی یا مصحف امامؑ، قرآن کا پہلا جمع شدہ نسخہ ہے جسے رسول خدا ؐ کی رحلت کے بعد امام نے جمع کیا گیا۔[312] یہ مصحف اس وقت دسترسی میں نہیں ہے اور روایات کے مطابق، یہ امام علی کے ہاتھ سے لکھا ہوا نسخہ ہے جو سوروں کی ترتیب نزول کے اعتبار سے مرتب ہوا ہے۔ بعض روایات کے مطابق، اس کے حاشیے میں آیات کے شان نزول و ناسخ و منسوخ کو ذکر کیا گیا ہے۔[313] شیعہ عقاید کے مطابق یہ مصحف ائمہ معصومینؑ کے پاس موجود تھا اور اب امام زمانہ (عج) کے پاس ہے۔[314]

مصحف فاطمہؑ

مصحف فاطمہ اس کتاب کا نام ہے جس کے مطالب فرشتہ الہی نے حضرت فاطمہ زہرا (س) کے لئے بیان کئے اور حضرت علیؑ نے اسے تحریر کیا ہے۔[315] یہ کتاب جنت میں پیغمبر اکرم ؐ کے مقام اور مستقبل کے واقعات جیسے مطالب پر مشتمل ہے۔[316] یہ کتاب بھی شیعہ ائمہ معصومینؑ کے ہاتھوں میں تھیں اور ایک امام سے دوسرے امام تک منتقل ہوتی رہی ہے اور ان کے علاوہ کسی کی دسترسی نہ اس کتاب تک تھی نہ ہے۔ یہ کتاب اس وقت امام زمانہ (عج) کے پاس موجود ہے۔[317]

اصحاب

  • ابوذر غفاری: ابو ذر غفاری معروف بنام ابوذر غفاری رسول اللہؐ پر ایمان لانے والے چوتھے فرد ہیں۔ [320] ابوذر رسول اللہؐ کے وصال کے بعد امامؑ کے حامی تھے اور ان چند افراد میں سے ایک ہیں جنہوں نے ابوبکر کی بیعت سے امتناع و اجتناب کیا۔[321]
  • مقداد بن عمرو: مقداد بن اسود کندی کے نام سے مشہور ہیں اور ان سات افراد میں سے ایک ہیں جو رسول اللہؐ کی بعثت کے ابتدائی ایام میں ایمان لائے اور مسلمان ہوئے۔ رسول اللہؐ کے وصال کے بعد مقداد بھی ابوبکر کی بیعت سے انکار کرنے والوں میں ایک تھے اور امامؑ کی 25 سالہ گوشہ نشینی کے ایام میں ہر وقت آپ کے ساتھ رہتے تھے۔[322]
  • عمار یاسر: عمار یاسر اولین شہدائے اسلام یاسر اور سمیہ کے بیٹے ہیں۔ وہ رسول اللہؐ پر ایمان لانے والے پہلے مسلمانوں میں سے ہیں۔ وہ مسلمانوں کی پہلی ہجرت یعنی ہجرت حبشہ میں حبشہ نامی افریقی ملک میں ہجرت کرگئے اور رسول اللہؐ کی ہجرت مدینہ کے بعد، مدینہ میں آپ سے آملے۔ وہ رسول اللہؐ کی وفات کے بعد بدستور اہل بیت اور امامؑ کے دفاع میں استوار رہے۔ عمر بن خطاب کی خلافت کے ایام میں کچھ عرصے تک کوفہ کے امیر رہے لیکن چونکہ عادل انسان تھے اور سادہ زندگی گذارنے کے قائل تھے، کچھ لوگوں نے ان کی برطرفی کے اسباب فراہم کئے جس کے بعد وہ مدینہ واپس آگئے اور علیؑ کے ساتھ رہے اور آپ سے فیض حاصل کرتے رہے۔[323]
  • صعصعہ بن صوحان: صعصعہ بن صوحان عبدی امام علیؑ کے اصحاب میں شامل ہیں۔ انہوں نے امام علیؑ کی تمام جنگوں میں شرکت کی۔ [331]
    وہ ان اولین افراد میں شامل ہیں جنہوں نے امیرالمؤمنین علیہ السلام کے ساتھ بیعت کی۔[332]
  • کمیل بن زیاد: کمیل بن زیاد نخعی اصحاب رسولؐ کے تابعین میں شامل ہیں اور ان کا شمار امام علیؑ اور امام حسنؑ کے اصحاب خاص میں ہوتا ہے۔[333] وہ ان شیعیان آل رسولؐ میں سے ہیں جنہوں نے حضرت علیؑ کی خلافت کے ابتدائی ایام میں آپ کی بیعت کی اور امام علیؑ کی جنگوں میں آپ کے دشمنوں کے خلاف لڑے۔[334]
  • محمد بن ابی بکر: خلیفۂ اول کے فرزند تھے۔ سنہ 10 ہجری میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ وہ امامؑ کے اصحاب خاص میں شمار ہوتے تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ سابقہ خلفاء نے امام علیؑ کا حق پامال کیا ہے اور کہتے تھے کہ کوئی بھی خلافت کا منصب سنبھالنے کے سلسلے میں امام علیؑ سے زیادہ اہل نہیں ہے۔[335] محمد نے جنگ جمل اور جنگ صفین میں امام علیؑ کا ساتھ دیا۔ وہ رمضان سنہ 36 ہجری کو مصر کے حاکم مقرر ہوئے اور صفر سنہ 38 ہجری کو معاویہ کی سپاہ کے ہاتھوں قتل ہوگئے۔ [336]
  • میثم تمار: میثَم تمّار اَسَدی کوفی امام علیؑ اور حسنینؑ کے اصحاب خاص میں شامل ہیں۔ وہ شرطۃ الخمیس کے رکن تھے۔ یہ وہ جماعت تھی جس کے اراکین نے امام علیؑ کے ساتھ عہد کیا تھا کہ زندگی کے آخری لمحے تک آپ کا ساتھ دیں گے اور آپ کی مدد کریں گے۔[337]

مزید مطالعہ

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. مفید، الارشاد، 1:‎ 15۔
  2. ابن اثیر، اسد الغابہ، ج 1، ص 15۔
  3. مفید، ارشاد، ج 1، ص2۔
  4. مجلسی، ج 19، ص 57۔
  5. قنوات، دانشنامہ امام علیؑ، 8:‎ 68۔
  6. مصاحب، دایرة المعارف فارسی، 2:‎ 1760۔
  7. شیخ مفید، الارشاد، 1413ق، ج1، ص5۔
  8. مرعشی نجفی، موسوعة الإمامة، 1430ق، ج6، ص197و 198؛ محمدی ری‌ شہری، دانشنامہ أمیرالمؤمنین ع، 1389ش، ج14، ص308۔
  9. ابن شہر آشوب، ج 3، ص 321-334۔
  10. مجلسی، بحار الانوار، ج37، ص334؛ حر عاملی، وسائل‌ الشیعہ، ج14، ص600۔
  11. امین، سیره معصومان، ج2، ص13۔
  12. طوسی، الأمالی، ص293۔
  13. ر ک: مستدرك‏ الوسائل ج : 18 ص : 152۔
  14. ابن قتیبہ، المعارف، بیروت: دار الکتب العلمیہ، 1407ق/1987ء، ص 121۔
  15. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 21۔
  16. نسائی، السنن الکبری، 5:‎ 107؛ ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، 1:‎ 15؛ آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، 65؛ ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، 1:‎ 30۔
  17. مفید، الارشاد، 1:‎ 2۔
  18. مفید، الارشاد، ج 1، ص 5 (کتب خانہ اہل بیتؑ میں موجود سی ڈی، نسخۂ دوئم)۔
  19. امینی، ج 6، ص 21-23۔
  20. ابن هشام، السیرة النبویہ، 1:‎ 162۔
  21. شہیدی، ترجمہ نهج‌ البلاغہ، 222۔
  22. مصاحب، دایرة المعارف فارسی، 2:‎ 1760۔، شهیدی، دانشنامہ امام علیؑ، 8:‎ 13۔
  23. معادی خواه، تاریخ اسلام (عصر بعثت)، 64۔، مصاحب، دایرة المعارف فارسی، 2:‎ 1760۔
  24. معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر بعثت)، 80۔
  25. شهیدی، دانشنامہ امام علیؑ، 8:‎ 14۔
  26. قنوات، دانشنامہ امام علیؑ، 8:‎ 99۔
  27. شهیدی، دانشنامہ امام علیؑ، 8:‎ 14؛۔
  28. معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر بعثت)، 155-158؛ مصاحب، دایرة المعارف فارسی، 2:‎ 1760۔
  29. رجبی، دانشنامہ امام علیؑ، 8:‎ 161۔
  30. معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر بعثت)، 188۔
  31. عاملی، الصحیح، 5:‎ 60؛ قنوات، دانشنامہ امام علیؑ، 8:‎ 166؛ شهیدی، دانشنامہ امام علیؑ، 8:‎ 16۔
  32. ابو الفرج اصفهانی، مقاتل الطالبین، 59۔
  33. طبری، تاریخ طبری، 2:‎ 410۔
  34. ابن سعد، طبقات الکبری، 8:‎ 16؛ قزوینی، فاطمة الزهراء، 192۔
  35. ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌ طالب، 3:‎ 350۔
  36. شهیدی، دانشنامہ امام علیؑ، 8:‎ 16۔
  37. شهیدی، دانشنامہ امام علیؑ، 8:‎ 14۔
  38. مصاحب، دایرة المعارف فارسی، 2:‎ 1760۔
  39. طبری، تاریخ طبری، 3:‎ 1027؛ کلینی، کافی، 110؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، 2:‎ 107۔
  40. کلینی، کافی، 1:‎ 461؛ طبری، تاریخ طبری، 2:‎ 537؛ مفید، الارشاد، 2:‎ 5۔
  41. این جوزی، تذکرة الخواص، 6۔
  42. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، 2:‎ 246؛ دولابی، الذریة الطاهرة، 102؛ طبری، تاریخ طبری، 2:‎ 555؛ مفید، الارشاد، 2:‎ 27۔
  43. ابن هشام، السیرة النبویہ، 3:‎ 224؛ طبری، تاریخ طبری، 2:‎ 564۔
  44. واقدی، المغازی، 2:‎ 471-770؛ ابن هشام، السیرة النبویہ، 3:‎ 237-234؛ طبری، تاریخ طبری، 2:‎ 574-673؛ مفید، الارشاد، 109-98؛ طبرسی، اعلام الوری، 1:‎ 382-379۔
  45. ابن اثیر، اسد الغابہ، 6:‎ 132؛ کحالہ، اعلام النساء، 2:‎ 91۔
  46. ابن هشام، السیرة النبویہ، 2:‎ 776۔
  47. ذهبی، اعلام النبلاء، 3:‎ 500؛ دخیل، اعلام النساء، 238۔
  48. طبری، تاریخ طبری، 2:‎ 642۔
  49. ابن هشام، السیرة النبویہ، 3:‎ 355-342؛ ابن حبیب، کتاب المحبر، 115۔
  50. معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر بعثت)، 674۔
  51. معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر بعثت)، 678۔
  52. معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر بعثت)، 789۔
  53. ابن طاووس، الطرائف، 1:‎ 80۔
  54. مفید، الارشاد، 1:‎ 156؛ ابن هشام، السیرة النبویہ، 4:‎ 163۔
  55. معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر بعثت)، 926۔
  56. ابن حنبل، مسند، 1:‎ 277؛ ابن حنبل، مسند، 3:‎ 417؛ ابن حنبل، مسند، 7:‎ 513؛ بخاری، صحیح بخاری، 5:‎ 129؛ مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، 2:‎ 1870-1871؛ تزمذی، سنن ترمذی، 5:‎ 638، 640-641؛ نسائی، سنن نسائی، 61-50؛ حاکم نیشابوری، المستدرک، 3:‎ 134-133؛ طبری، الریاض النضرة، 3:‎ 119-117؛ ابن کثیر، البدایة و النهایة، 5:‎ 8-7؛ هیثمی، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، 9:‎ 110؛ عینی، عمدة القاری، 16:‎ 301؛ سیوطی، تاریخ الخلفاء، 168؛ سیوطی، الدر المنثور، 3:‎ 236، 291؛ متقی، کنز العمال، 13:‎ 163، 172-171؛ میر حامد حسین، عبقات الانوار، 2:‎ 59-29؛ شرف‌ الدین، المراجعات، 130؛ حسینی میلانی، نفحات الازهار، 18:‎ 411-363۔
  57. رجبی، دانشنامہ امام علیؑ، 8:‎ 209۔
  58. شهیدی، دانشنامہ امام علیؑ، 8:‎ 211۔
  59. ابن شهر آشوب، مناقب، 3:‎ 144۔
  60. مکارم شیرازی، نفسیر نمونہ، 2:‎ 582؛ رجبی، دانشنامہ امام علیؑ، 8:‎ 213۔
  61. عاملی، سیره النبی، 4:‎ 319۔
  62. طبری، تاریخ طبری، 3:‎ 148؛ ابن سعد، طبقات الکبری، 2:‎ 131؛ واقدی، المغازی، 3:‎ 1089۔
  63. معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، 7۔
  64. عیاشی، کتاب التفسیر، 1:‎ 4۔
  65. شهیدی، دانشنامہ امام علیؑ، 8:‎ 21۔
  66. معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، 85۔
  67. مجلسی، بحار الانوار، ج28، ص299؛ مجلسی، مرآة العقول، ج5، ص320۔
  68. دینوری، الامامة والسیاسة، 1:‎ 30-29؛ مسعودی، مروج الذهب، 1:‎ 646. طبری، تاریخ طبری، ج4، ص 1330؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج 1، ص 586 ـ 587۔
  69. شيخ مفيد، الفصول المختاره، ص 40 و 56 به بعد۔
  70. فاطمی، دانشنامہ امام علیؑ، 8:‎ 407۔
  71. جوهری بصری، السقیفة و فدک، 1413ق، ص72 و 73۔
  72. طبرسی، الاحتجاج، 1386ق، ج1، ص109۔
  73. استادی، دانشنامہ امام علیؑ، 8:‎ 366۔
  74. مجلسی، بحار الانوار، دار الرضا، ج29، ص124۔
  75. طبری امامی، دلائل الامامة، 1413ق، ص134۔
  76. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، 1379ق، ج2، ص136-138؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ق، ج3، ص419-420؛ ابن حبان، کتاب الثقات، 1393ق، ج2، ص191، 194۔
  77. معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، 322و331۔
  78. معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، 379۔
  79. معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، 441۔
  80. معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، 348۔
  81. معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، 453۔
  82. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج2، ص145۔
  83. مسعودی، مروج الذهب، 4:‎ 300؛۔
  84. بلاذری، ص139۔
  85. طبری،ج5، ص2519-2520۔
  86. معادی خواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، 475-476۔
  87. نویری، نهایہ الارب، 1423ق، ج19، ص347۔
  88. کلینی، الکافی، 1363ش، ج5، ص346؛ طوسی، تهذیب الاحکام، 1364ش، ج8، ص161؛ طبرسی، اعلام الوری، 1417ق، ج1، ص397؛ مفید، المسائل العکبریہ، 1414ق، ص60؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1420ق، ص189۔
  89. معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، 496۔
  90. معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، 513۔
  91. معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، 540۔
  92. ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ق، ج3، ص344۔
  93. سیوطی، تاریخ الخلفا، 1413ق، ص129۔
  94. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، 1386ق، ج3، ص71۔
  95. دینوری، الامامة والسیاسة، 1:‎ 46-44۔
  96. زرکلی، الاعلام، 4، 210۔
  97. ابن عبد البر، الاستیعاب، 3، 1044۔
  98. معادیخواه، تاریخ اسلام (روزگار عثمان)، 146۔
  99. معرفت، التمهید، 1412ق، ج1، ص343-346۔
  100. معرفت، التمهید، 1412ق، ج1، ص338و339۔
  101. معرفت، التمهید، 1412ق، ج1، ص341۔
  102. معادیخواه، تاریخ اسلام (روزگار عثمان)، 515۔
  103. زجاجی کاشانی، سقای کربلا، 1379ش، ص89-90؛ امین، اعیان الشیعه، 1406ق، ج7، ص429۔
  104. دینوری، امامت و سیاست، 61۔
  105. دینوری، امامت و سیاست، 58-57۔
  106. معادیخواه، تاریخ اسلام (روزگار عثمان)، 773۔
  107. دینوری، امامت و سیاست، 58-57، 64۔
  108. ابن عبد البر، الاستیعاب،۔
  109. نک: ابن مزاحم، وقعة صفین/ترجمہ، ص:271۔
  110. ملکی میانجی، دانشنامہ امام علیؑ، 9:‎ 49۔
  111. معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر علوی)، 1:‎ 58۔
  112. جودکی، دانشنامہ امام علیؑ، 9:‎ ص15-16۔
  113. ملکی میانجی، دانشنامہ امام علیؑ، 9:‎ 49۔
  114. ملکی میانجی، دانشنامہ امام علیؑ، 9:‎ 53۔
  115. ملکی میانجی، دانشنامہ امام علیؑ، 9:‎ 54۔
  116. ملکی میانجی، دانشنامہ امام علیؑ، 9:‎ 64۔
  117. ملکی میانجی، دانشنامہ امام علیؑ، 9:‎ 66۔
  118. طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1388ش، ص42۔
  119. دلشاد تهرانی، سودای پیمان‌شکنان، 1394ش، ص14۔
  120. بلاذری، جمل من أنساب الأشراف، 1417ش، ج3، ص41؛ حموی‌، معجم البلدان، 1995م، ذیل کلمه «خُرَیبَة»؛ سمعانی، الأنساب، 1400ق، ج12، ص180۔
  121. دینوری، اخبار الطوال، 150۔
  122. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1970م، ج4، ص511۔
  123. مسعودی، مروج الذهب، 2:‎ 370۔
  124. ملکی میانجی، دانشنامہ امام علیؑ، 9:‎ صص13-14۔
  125. دینوری، اخبار الطوال، 154۔
  126. معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر علوی)، 1:‎ 233-236۔
  127. معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر علوی)، 2:‎ 91۔
  128. معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر علوی)، 1:‎ 194۔
  129. معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر علوی)، 1:‎ 194-197۔
  130. معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر علوی)، 1:‎ 211-212۔
  131. جعفری، دانشنامہ امام علیؑ، 9:‎ 213-214۔
  132. جعفری، دانشنامہ امام علیؑ، 9:‎ 210-211۔
  133. جعفری، دانشنامہ امام علیؑ، 9:‎ 211-216۔
  134. جعفری، دانشنامہ امام علیؑ، 9:‎ 216-217۔
  135. بلاذری، انساب الأشراف، ج2، ص349۔
  136. جعفری، دانشنامہ امام علیؑ، 9:‎ 216-217۔
  137. بلاذری، انساب الأشراف، ج2، ص359۔
  138. بلاذری، انساب الأشراف، ج2، ص349۔
  139. امین، اعبان‌الشیعہ، 1:‎ 511۔
  140. نگاه کریں: ابن ابی ‏الحدید، شرح نهج البلاغة، 1385ق، ج2، ص256۔
  141. نگاه کنید به: ابن ابی ‏الحدید، شرح نهج البلاغة، 1385ق، ج2، ص256۔
  142. نصر بن مزاحم، وقعة صفین، 1404ق، ص484؛ ابن قتیبة الدینوري، الامامة و السیاسة، ج1، ص104؛ بلاذري، انساب الأشراف، ج3، ص110۔
  143. سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، ج5، ص75۔
  144. نصر بن مزاحم، وقعة صفین، 1404ق، ص484؛ بلاذری، انساب الأشراف، ج3، ص111-112۔
  145. بلاذری، انساب الاشراف، ج2، ص352۔
  146. بلاذری، انساب الاشراف، ج2، ص370۔
  147. دینوری، اخبار الطوال، 210۔
  148. بلاذری، انساب الاشراف، ج2، ص373-375۔
  149. المفید، الارشاد، ج1، ص9 (نسخہ موجود در لوح فشرده کتابخانہ اهل بیت، نسخہ دوم)۔
  150. المفید، الارشاد، ص 5 (کتب خانہ اہل بیتؑ میں موجود سی ڈی، نسخۂ دوم)۔
  151. مجلسی، بحار الانوار43/124۔دلائل الإمامہ، محمد بن جرير بن رستم طبرى‏، ناشر: بعثت‏، مكان نشر: قم‏، سال چاپ: 1413 ق‏، نوبت چاپ: اوّل‏۔ فضائل فاطمہ بنت رسول اللہ صلى اللہ عليہ و سلم ج1 ص47 مؤلف: أبو حفص عمر بن أحمد بن عثمان بن أحمد بن محمد بن أيوب بن أزداذ البغدادي المعروف بـابن شاہ ين (المتوفى: 385 ھ)، تحقيق: بدر البدر، الناشر: دار ابن الأثير، الكويت (ضمن مجموع فيہ من مصنفات ابن شاہين)، الطبعہ: الأولى 1415 ھ، 1994 ء، عدد الأجزاء: 1. نسائي، أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن، المجتبى من السنن، ج 6، ص 62، تحقيق: عبد الفتاح أبو غدة، ناشر: مكتب المطبوعات الإسلاميہ، حلب، الطبعہ: الثانيہ، 1406 - 1986. مستدرك على الصحيحين ج2 ص181 مؤلف: أبو عبد اللہ الحاكم محمد بن عبد اللہ بن محمد بن حمدويہ بن نُعيم بن الحكم الضبي الطہماني نيشاپوري معروف بابن البيع (المتوفى: 405 ھ)، تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا، الناشر: دار الكتب العلميہ بيروت، الطبعہ: الأولى، 1411 - 1990، عدد الأجزاء: 4 .المعجم الكبير ج4 ص34، مؤلف: سليمان بن أحمد بن أيوب بن مطير اللخمي الشامي، أبو القاسم الطبراني (المتوفى: 360 ھ)، المحقق: حمدي بن عبد المجيد السلفي، دار النشر: مكتبہ ابن تيميہ القاہرة، الطبعہ: الثانيہ، عدد الأجزاء:25.بحوالۂ
  152. مفید، مسار الشیعۃ، ص 17۔
  153. سید بن طاوس، ص 584۔
  154. مسعودی، اثبات الوصیہ، ص153۔
  155. مسعودی، مروج الذهب، 3:‎ 63۔
  156. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج 2، ص213؛ شیخ مفید، الارشاد، 1413ق، ج1، ص354-355؛ طبرسی، اعلام الوری، ج1، ص395؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌ طالب، ج3، ص133؛ اربلی، کشف الغمہ، ج2، ص67۔
  157. ری شہری، ج1، ص108۔
  158. المفید، الارشاد، 1428ق، ص354۔
  159. رقیہ و عمر دوقلو بودہ‌اند۔
  160. مفید، الارشاد، قم: سعید بن جبیر، 1428ھ، ص 270-271۔
  161. ابن سعد، ج 3، ص 24۔
  162. احمدی، «تحلیل روایی - تاریخی پرچم‌داری امیرمومنان علیؑ در غزوات پیامبر اکرم»، ص37۔
  163. ابن عبد البر، الاستیعاب، 1412ق، ج3، ص1090۔
  164. بلاذری، ج1، ص2883 ۔
  165. ابن‌حجر، الإصابة، 1415ق، ج8، ص190۔
  166. بلاذری،‌ أنساب ‏الأشراف، 1417ق، ج1، ص152۔
  167. طبری، ج 2، ص 148۔
  168. واقدی، محمد بن عمر، المغازی، ج‌1، ص‌91۔
  169. ابن ہشام، ج 1، ص 708-713۔
  170. سید رضی، نهج البلاغة، 1414ق، ص454، نامہ 64۔
  171. واقدی، المغازى، 1409ق، ج1، ص240۔
  172. دیلمی، إرشاد القلوب إلى الصواب، 1412ق، ج2، ص346۔
  173. کلینی، الكافی، 1407ق، ج8، ص110۔
  174. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج2، ص154۔
  175. ابن‌ ہشام، ج3، ص235۔
  176. ابن کثیر، البدایه و النهایہ، 1413ق، ج4، ص121۔
  177. مجلسی، ج‏20، ص‏ 216۔ بغدادی، تاریخ بغداد13/18/6978
  178. ابن ہشام، ج 2، ص 328۔
  179. مسلم، ج 15، ص 178-179۔
  180. مفید، ارشاد، 590۔
  181. حلبى، ج 3، ص 30۔
  182. آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ص459۔
  183. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج2، ص62۔
  184. مفید، ارشاد، ج 1، ص 156؛ ابن ہشام، ج 4، ص 163۔
  185. واقدی، المغازى، 1409، ج2 ص562؛ ابن سعد، الطبقات الکبرى، 1410، ج2، ص69؛ یاقوت حموى، معجم البلدان، 1995، ج4، ص238؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387، ج2، ص 642؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، 1385ق، ج2، ص209۔
  186. آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، 1361، ص 576۔
  187. ابن هشام، السیرة النبویة، ج 4، ص 319؛ واقدی، کتاب المغازى، 1409، ج3، ص826 و رسولی محلاتی، تاریخ اسلام، 1374، ج 1، ص141 و 153۔
  188. طبری، تاریخ الامم و الملوک (تاریخ طبری)، ج 3، ص 131-132، 1387ق؛ ذهبی، تاریخ الاسلام، ج 2، ص 690-691، 1409ق؛ مفید، الارشاد، ج ‏1، ص 62، 1413ق۔
  189. ابن سعد، الطبقات الکبری‏، ج 2، ص 128-129، 1410ق؛ واقدی، محمد بن عمر، کتاب المغازی، ج ‏3، ص 1802-1803، 1409ق۔
  190. ابن حنبل، مسند احمد بن حنبل، ج 2، ص 225، 1421ق؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ج 3، ص 145، 1411ق۔
  191. کلینی، الكافی، 1407ق، ج4، ص245۔
  192. رشید رضا، المنار، 1990م، ج6، ص384۔
  193. شیخ مفید، الإرشاد فی معرفة حجج الله على العباد، 1413ق، ج1، ص171۔
  194. اربلی، كشف الغمة فی معرفة الأئمة، 1381ق، ج1، ص237۔
  195. ابن حنبل، مسند احمد بن حنبل، 1421ق، ج30، ص430؛ با کمی تفاوت: قمی، تفسیر القمی، 1404ق، ج1، ص174۔
  196. رجوع کریں: ابن‌ مغازلی، ص 16؛ کلینی، ج1، ص290؛ طبرسی، احتجاج، ج1، ص73؛ علی بن ابراہیم، ج1، ص 173؛ رشیدرضا، ج6، ص464ـ465۔
  197. احمد بن حنبل،مسند ،1/119۔محمد بن یزید قزوینی،سنن ابن ماجہ،1/43/116۔نسائی،فضائل الصحابہ،14ابو یعلی موصلی،مسند ابی یعلی،1/429۔شیخ صدوق،معانی الاخبار،67/8۔محمد بن سلیمان کوفی، مناقب امیر المومنین،2/368/844قاضی نعمان مغربی، شرح الاخبار،1/100/24۔ ابو الحسن علی بن محمد بن طبیب واسطی المعروف بہ ابن مغازلی شافعی، ابن مغازلی، مناقب علي بن ابي طالب، ص 24۔
  198. مفید، الارشاد، ج 1 ص 186
  199. مظفر، السقیفہ 1415، ص95۔97
  200. ابن ابی الحدید، ج 6، ص 8۔
  201. طوسی، تلخیص الشافی، ج‏3، ص‏76؛ شہرستانی، ج‏2، ص 95؛ ابن قتیبہ ، ج‏2، ص 12۔
  202. حلبى، ج‏3، ص 400؛ ابن ابى الحدید، ج‏16، ص‏316۔بلاذری، ص40 و 41.کلینی، ج1، ص543
  203. پیشوائی، ج 2، ص 191۔
  204. ابن قتیبہ، ج 1، ص 29-30؛ مجلسی، ج 43، ص 70؛ مجلسی، مرآة العقول، ج 5، ص 320 ؛ شہرستانی، ج1، ص 57۔
  205. ابن قتیبہ، ج1، ص28۔
  206. يعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج 1، ص 527.
  207. مفيد، الفصول المختارہ، ص 56-57۔
  208. جعفریان، تاریخ سیاسی اسلام، ج 1، ص 306۔
  209. رسولی محلاتی، زندگانی امیرالمؤمنین علیه‌السلام، ص253۔
  210. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج 2، ص138.
  211. ازدی‌، تاریخ فتوح الشام‌، ص‌4-54؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی‌، ج‌2، ص 133۔
  212. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 37۔
  213. نہج البلاغہ خطبہ شقشقیہ۔
  214. ابن حجر عسقلانى، الاصابه فى تمییز الصحابه، 1328ق، ج 2، ص 509؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1328ق، ج 3، ص 39۔
  215. جعفریان، تاریخ سیاسی اسلام، ج 1، ص 306۔
  216. صدوق‌، الخصال‌، ج‌2، ص‌424؛ مفید، الاختصاص‌، تصحيح و تعليق على‌اكبر غفارى‌، ص‌173۔
  217. طبری، ج 4، ص 427-431۔
  218. نہج البلاغہ، خطبہ 92۔
  219. زبیدی، ج3، ص 273۔
  220. طبری، ج‌4، ص‌534۔
  221. طبری‌، ج‌4، ص‌453۔
  222. طبری‌، ج‌4، ص‌453۔
  223. نہج‌البلاغہ، ترجمہ سید جعفر شہیدی، خطبہ 174، ص 180۔
  224. طبری، ج 6، ص 3096؛ بحوالہ نقل شہیدی، علی از زبان علی، ص 84-85۔
  225. طبری‌، ج‌4، ص ‌451، 544 و ج 5، ص 150؛ شہیدی، علی از زبان علی، ص 82-83 و 108۔ ۔
  226. طبری‌، ج‌4، ص ‌454۔
  227. طبری‌، ج‌4، ص ‌507۔
  228. طبری‌، ج‌4، ص‌511؛ شہیدی، علی از زبان علی، ص 104۔
  229. شہیدی، علی از زبان علی، ص 104۔
  230. یعقوبی، ج‌2، ص‌183۔
  231. طبری‌، ج‌4، ص ‌510؛ شہیدی، علی از زبان علی، ص 108۔
  232. جوہری، ج3، ص 1152۔
  233. یعقوبى، ج 2، ص 188؛ خلیفہ، ص 191۔
  234. تلخیص از: شہیدی، علی از زبان علی، ص 113-121۔
  235. المعیار و الموازنہ، ص 162؛ بہ نقل شہیدی، علی از زبان علی، ص 122۔
  236. ابن مزاحم، ص 490۔
  237. ابن اعثم، ج 3، ص 163۔
  238. شہیدی، علی از زبان علی، ص 129۔
  239. شہرستانی، الملل و النحل، تخریج: محمد بن فتح اللہ بدران، قاہرہ، الطبعہ الثانیہ، القسم الاول، ص 106-107۔
  240. شہیدی، علی از زبان علی، ص 132۔
  241. شہیدی، علی از زبان علی، ص 133-134۔
  242. جعفریان، رسول، گزیدہ حیات سیاسی و فکری امامان شیعہ، قم: دفتر نشر معارف، 1391، ص 54-53۔
  243. مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الارشاد، قم، سعید بن جبیر، 1428ہجری۔، صص 27-28۔
  244. عبد الکریم بن احمد بن طاووس، فرحة الغریٰ، ص 93؛ مجلسی، بحار، ج 42، ص 222؛بحوالۂ مقدسی، یداللہ، بازپژوہی تاریخ ولادت و شہادت معصومان ؑ، قم: پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، 1391، ص 239-240۔
  245. مفید، الارشاد، 1428 ھ، ص13
  246. مجلسی، ج 36، ص 5۔
  247. نہج البلاغہ، نامہ 47، ص 320،321
  248. نہج البلاغہ، نامہ 47، ص 320،321
  249. ثقی کوفی، الغارات، تعلیقہ علامہ حلی، 1353،‌ ج2، ص835-837۔
  250. حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الأشرف، 1427ش، ج2، ص29
  251. حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الأشرف، 1427ش، ج2، ص31؛ فرطوسی، تاریخچہ آستان مطهر امام علیؑ، 1393ش، ص159-179
  252. نک؛ حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الأشرف، 1427ش، ج2، ص29.
  253. فرطوسی، تاریخچه آستان مطهر امام علی(ع)، 1393ش، ص159-179؛ حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الأشرف، 1427ش، ج2، ص29.
  254. شیخ مفید، الارشاد، 1413ق، ج1، ص10؛ حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الأشرف، 1427ش، ج2، ص30.
  255. امینی، الغدیر، 1397ق، ج6، ص21-23۔
  256. مجلسی، بحار الأنوار، 1403 ج35، ص23۔
  257. کلینی، کافی، 1407ق، ج3، ص301۔
  258. امینی، الغدیر، 1397ق، ج 6، ص22۔
  259. النسائی، السنن الکبری، ج5، ص107؛ ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ج1، ص15؛ آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، 1378ش، ص65، پاورقی شماره 2؛ ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ج1، ص30۔
  260. ابن شهر آشوب، مناقب آل أبی‌ طالب، 1379ق، ج2، ص6۔
  261. صفار، بصائر الدرجات، 1404ق، ج1، ص84۔
  262. طوسی، الأمالی، 1414ق، ص343۔
  263. مجلسی، بحار الأنوار، 1403ق، ج66، ص102
  264. حسینی، «نخستین مومن و آگاهانه‌ترین ایمان»، ص48۔
  265. طبری، تاریخ طبری، 1387ق، ج2، ص310۔
  266. ذهبی، تاریخ الإسلام، 1409ق، ج1، ص128۔
  267. ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1412ق، ج3، ص1090۔
  268. رسولی محلاتی، زندگانی امیرالمؤمنین، 1386، ص44۔
  269. طبری، تاریخ الامم والملوک، دار قاموس الحدیث، ج2، ص279؛ سید بن طاووس، الطرائف، 1400ق، ج1، ص21؛ حسکانی، شواهد التنزیل، 1411ق، ج1، ص543؛ رجوع کریں: ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، 1399ق، ج2، ص63-60؛ ابن کثیر، البدایہ و النهایہ، 1413ق، ج3، ص54-50؛ ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1419ق، ج6، ص153-151؛ طبرسی، مجمع البیان، 1406ق، ج7، ص206؛ بحرانی، البرهان فی تفسیر القرآن، 1416ق، ج4، ص189-186؛ فرات کوفی، تفسیر فرات کوفی، 1410ق، ص300؛ سیوطی، الدر المنثور، 1404ق، ج5، ص97؛ حاکم حسکانی، شواهد التنزیل، 1411ق، ج1، ص543-542؛ ابن هشام، السیرة النبویہ، المکتبہ العلمیہ، ج1، ص262۔
  270. ابن ہشام، ج 1، ص 480۔
  271. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج2، ص 72؛ مجلسی، ج 19، 59۔
  272. سورہ بقرہ (2) آیت 207، ترجمہ علامہ سید علی نقی نقوی۔
  273. فخر رازی، ج 5، 223؛ حاکم حسکانی، ج 1، 96؛ علی بن ابراہیم، ص 61؛ طباطبائی، ج 2، ص 150۔
  274. ابن عبدالبر، الاستیعاب، بحوالہ محسن امین العاملی، اعیان الشیعہ، بیروت: دار التعارف للمطبوعات، 1418ق۔/1998م۔، ج 2، ص 27۔
  275. امینی، ج 3، ص 140؛ شوشتری، احقاق الحق،ج 5،ص 522۔
  276. ابن ہشام، ج‏4، ص 545۔
  277. طبری، ج 6، جزء 10؛ ابن ہشام ، ج 4، ص 188ـ190۔
  278. بحرانی، باب 360۔
  279. متقی ہندی، ج 6، ص 155۔
  280. تاریخ بغداد، ج6، ص221؛بحوالۂ خرمشاہی، بہاء الدین، علی بن ابی طالبؑ و قرآن، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج2، ص1486۔
  281. سیوطی، الدر المنثور، ذیل آیہ 61؛ زمخشری، ذیل آیہ 61 سورہ آل عمران؛ طبرسی، مجمع البیان، ذیل آیہ 61 سورہ آل عمران؛ طباطبایی، ذیل آیہ 61 سورہ آل عمران۔
  282. ابن بابویہ، ج2، ص403؛ سید قطب، ج6، ص586؛ طبرسی، مجمع‌البیان، ج 8، ص 559۔
  283. مجلسی بحار الانوار، ج 23، ص 233۔
  284. ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، 1:‎ 17۔
  285. ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، 1:‎ 16-17۔
  286. ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، 1:‎ 19۔
  287. ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، 1:‎ 24۔
  288. ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، 1:‎ 27-18۔
  289. ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، 1:‎ 17۔
  290. ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، 1:‎ 18۔
  291. ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، 1:‎ 28-27۔
  292. ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، 1:‎ 20۔
  293. پور جوادی، دانشنامہ جهان اسلام، 7:‎ 381-387۔
  294. پازوکی، دانشنامہ جهان اسلام، 7:‎ 387-398۔
  295. ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، 1:‎ 19۔
  296. طباطبایی‌ نژاد، دانشنامہ امام علیؑ، 3:‎ 193-194۔
  297. طبری، تاریخ الامم والملوک، دار قاموس الحدیث، ج2، ص279۔
  298. خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ق، ج8، ص284؛ مفید، الارشاد، 1413ق، ج1، ص177۔
  299. بخاری، صحیح البخاری، 1401ق، ج1، ص37، ج4، ص66، ج5، ص137-138، ج7، ص9؛ شیخ مفید، الإرشاد، 1372ش، ج1، ص184۔
  300. قرطبی، ج6، ص208؛ طباطبایی، المیزان، ج6، ص25؛ فخر رازی، ج12، ص30؛ سیوطی، الدر المنثور، ج3، ص98۔
  301. پیامبر ؐ نے جب تمام اصحاب کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا تو امام علی سے فرمایا: أنت أخی فی الدنیا و الآخرة (تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو) (سنن ترمذی، ج5، ص300؛ طبرانی، المعجم الکبیر ج5، ص221)۔
  302. ضمیری، ص 365-367۔
  303. ضمیری، ص 375۔
  304. نوری، ج 3، ص 367۔
  305. قاضی قضاعی، مقدمہ کتاب۔
  306. رجوع کریں: سایٹ سازمان اسناد و کتابخانہ ملی جمهوری اسلامی ایران
  307. کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص239؛ صفار قمی‌، بصائر الدرجات، ص142-146۔
  308. عاملی‌، حقیقة الجفرعند الشیعة، ص‌125-133۔
  309. مجلسی‌، بحار الانوار، ج‌51، ص‌220۔
  310. صفار قمی‌، ص‌158-159۔
  311. کلینی‌، الکافی، ج‌1، ص‌239۔
  312. طباطبایی، قرآن در اسلام، 1376ش، ص113؛ السجستانی، کتاب المصاحف، 1405ق، ص16؛ سیوطی، الاتقان، 1416ق، ج1، ص161۔
  313. ایازی، مصحف امام علیؑ، ص177-178۔
  314. عاملی، حقائق هامّة، ص160، بہ نقل از: خرمشاهی، قرآن ‎پژوهی، 1389ش، ج2، ص469۔
  315. صفار قمی، بصائر الدرجات، 1404ق، ص152۔
  316. صفار قمی، بصائر الدرجات، 1404ق، ص156- 157۔
  317. آقا بزرگ تهرانی، الذریعة، ج21، ص126؛ مهدوی راد، مصحف فاطمه، ص83-84۔
  318. مجلسی، ج22، ص343۔
  319. صدوق، عیون اخبار الرضا، ج1، ص70۔
  320. ابن سعد، ج 4، ص 224۔
  321. دائرہ المعارف تشیع، ج 1، ذیل ابوذر۔
  322. یعقوبی، ج1، ص524۔
  323. کمپانی، ص 412۔
  324. نہج‌البلاغہ،‌ ترجمہ محمد دشتی، ص 565۔
  325. مفید، امالی، ص 140۔
  326. مفید، جمل، ص265؛ ابن مزاحم، ص 410؛ ابن ابی الحدید، ج 2، ص 273 و ج 6، ص 293۔
  327. ذهبی، سیر اعلام النبلاء، 1405ق، ج1، ص190۔
  328. شیخ صدوق، خصال، 1362ش، ج2، ص462۔
  329. انساب الاشراف، 1394ق، ج2، ص319۔
  330. نهج البلاغہ، صبحی صالح، 1414ق، خطبه 182، ص264۔
  331. ابن اثیر، اسد الغابہ ، ج 3، ص 20۔
  332. یعقوبی، ج 2، ص 179۔
  333. قطب راوندی، منہ اج البراعہ ، ج 21، ص 219؛ مفید، اختصاص، ص 7۔
  334. مفید، اختصاص، ص 108۔
  335. شوشتری، قاموس الرجال، ج7، ص495۔
  336. ابراہیم بن محمد، ج 1، ص224 و 285؛ زرکلی، ج 6، ص 220۔
  337. برقی، ص 3۔

مآخذ

  • قرآن کریم
  • ابن ابی الفتح اربلی، کشف الغمہ، دار الاضواء، بیروت
  • ابن اثیر، اسد الغابہ، تحقیق محمد ابراہیم بنا، دار الشعب، قاہرہ
  • ابن اثیر، الکامل فى التاریخ، دار صادر، بیروت
  • امینی، الغدیر، دار الکتاب العربی، بیروت
  • احمد حنبل شیبانی، مسند احمد بن حنبل، دار احیاء التراث العربی، بیروت
  • ابن ہشام، السیرہ النبویہ، تحقیق محمد محی الدین عبدالحمید، مکتبہ محمد علی صبیح، قاہرہ
  • ابن عبد البر، الاستیعاب، تحقیق علی محمد بجاوی، دارالجیل، بیروت
  • ابن بابویہ، کتاب الخصال، علی اکبر غفاری، جامع مدرسین، قم
  • امین، سیرہ معصومان، ترجمہ علی حجتی، انتشارات سروش، تہران
  • احمد بن عبداللہ طبری، ذخائر العقبی، مکتبہ القدسی، قاہرہ
  • ابن مغازلی، مناقب علی بن ابی طالب، مکتبہ اسلامیہ، تہران
  • ابن ندیم بغدادی ، فہرست ابن ندیم، تحقیق رضا تجدد
  • ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، مکتبہ حیدریہ، نجف
  • ابن ابن الحدید، شرح البلاغہ، تحقیق محمد ابو الفضل ابراہیم، دار احیاء الکتب العربیہ، قاہرہ
  • ابن فقیہ ہمدانی، اخبار البلدان، تحقیق یوسف الہادی، عالم الکتب، بیروت
  • ابراہیم بن محمد ثقفی، الغارات، تحقیق ارموی
  • اسکافی‌، المعیار و الموازنۃ‌ فی‌ فضائل‌ امیرالمؤمنین‌ علی ‌بن‌ ابی‌طالب‌، محمد باقر محمودی‌، بیروت‌
  • ابن اعثم، الفتوح، دار الندوہ، بیروت
  • ابن مزاحم، وقعۃ صفین، انتشارات بصیرتی، قم
  • آبی ابوسعد، من نثر الدر، وزاۃ الثقافہ سوریہ، دمشق
  • اشعری، مقالات الاسلامیین، دارالنشر، بیروت
  • ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، تحقیق کاظم مظفر، مکتبہ حیدریہ، نجف
  • ابن صباغ مالکی، الفصول المہمہ، تحقیق سامی الغریری، در الحدیث، قم
  • ابن سعد، طبقات الکبری، دار صادر، بیروت
  • ابن قتیبہ دینوری، الامامۃ والسیاسۃ، تحقیق علی شیری، انتشارات شریف رضی، قم
  • الامین، السید حسن، اعیان الشیعۃ، ج 2، حققہ و خرجہ: السید حسن الامین، بیروت: دار التعارف للمطبوعات، 1418ق/1998 ء۔
  • بحرانی، غایۃ المرام، تحقیق سید علی عاشور، موسسہ تاریخ العربی، بیروت
  • برقی، رجال برقی، تحقیق محدّث ارموی، دانشگاہ تہران، تہران
  • بلاذری، انساب الاشراف، تحقیق محمد باقر محمودی، موسسہ اعلمی، بیروت
  • پیشوایی، سیرہ پیشوایان، انتشارات توحید، قم
  • جوہری، الصحاح، تحقیق احمد عبد الغفور، دارالعلم للملایین، بیروت
  • جعفریان، تاریخ خلفاء، انتشارات دلیل ما، قم
  • حاکم نیشابوری، المستدرک، تحقیق یوسف عبدالرحمن مرعشلی
  • حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، تحقیق محمد باقر محمودی، وزارت ارشاد اسلامی، تہران
  • حلی، تذکرہ الفقہاء، موسسہ آل البیت، قم
  • حموینی جوینی، فرائد السمطین، تحقیق محمد باقر محمودی، موسسہ محمودی، بیروت
  • حلبی، السیرہ الحلبیہ، دار المعرفہ، بیروت
  • حویزی، تفسیر نور الثقلین، تحقیق رسولی محلاتی، موسسہ اسماعیلیان، قم
  • خليفۃ بن خياط العصفری، تاریخ خلیفۃ بن خیاط، تحقیق سہیل زکار، دار الفکر بیروت
  • شریف الرضی، محمد بن حسین، خصائص الآئمہ ؑ(خصائص امیرالمؤمنین علیہ السلام)، محقق و مصحح: امینی، محمد ہادی، آستان قدس رضوی، مشہد، چاپ اول، 1406 ہجری شمسی۔
  • ابن بطریق، یحیی بن حسن، عمدۃ عیون صحاح الأخبار فی مناقب إمام الأبرار، جامعہ مدرسین، قم، چاپ اول، 1407ہجری۔
  • فیروز آبادى‏، سید مرتضى، فضائل پنج تن ؑ در صحاح ششگانہ اہل سنت‏، ترجمہ: ساعدى، محمد باقر، ‏نشر فیروز آبادى، قم، چاپ اول، 1374 ہجری۔
  • ذاکری، سیمای کارگزاران امام علی ؑ، انتشارات دفتر تبلیغات، قم
  • ری شہری، موسوعہ الامام علی ابن ابی طالب، دار الحدیث، قم
  • رشید رضا، تفسیر المنار، دار المعرفہ، بیروت
  • زمخشری، الكشاف عن حقائق التنزيل، مکتبہ البابی حلبی، قاہرہ
  • زبیدی، تاج العروس، تحقیق علی شیری، دار الفکر، بیروت
  • زرکلی، الاعلام، دار العلم للملایین، بیروت
  • سید بن طاوس، إقبال الاعمال، تحقیق جواد قیومی، مکتب اعلام الاسلامی
  • سید قطب، فی ظلال القرآن، دار الشروق، بیروت
  • سیوطی، الدر المنثور، دار المعرفہ، بیروت
  • سیوطی، الاتقان في علوم القرآن، تحقیق سعید مندوب، دار الفکر، بیروت
  • سلیمان بن عبد الوہاب، فصل الخطاب، نخبۃ الاخبار، بمبئی
  • شہرستانی، الملل و النحل، تحقیق محمد سید کیلانی، دار المعرفہ، بیروت
  • شوشتری، احقاق الحق مکتبہ آیت اللہ مرعشی، قم
  • شوشتری، قاموس الرجال، مرکز نشر کتاب، تہران
  • شوشتری، مجالس المؤمنین، کتاب فروشی اسلامیہ، تہران
  • صدوق، الہدایہ، الہادی، قم
  • صدوق، عیون اخبار الرضا، انتشارات اعلمی، تہران
  • صدوق، کمال الدین ، تحقیق علی اکبر غفاری، جامعہ مدرسین، قم
  • ضمیری، کتاب شناسی تفصیلی مذاہب اسلامی، موسسہ آموزشی پژوہشی مذاہب اسلامی، قم
  • طبری، تاریخ طبری، موسسہ اعلمی، بیروت
  • طبرسی، احتجاج، نشر مرتضی، مشہد
  • طبرسی، مجمع البیان، موسسہ اعلمی، بیروت
  • طبرسی، جوامع الجامع، تحقیق موسسہ نشر اسلامی، جامعہ مدرسین، قم
  • طباطبایی، المیزان، جامعہ مدرسین، قم
  • طوسی، مصباح المتہجد، موسسہ فقہ الشیعہ، بیروت
  • طوسی، تلخیص الشافی، تحقیق سید حسین بحر العلوم، دار الکتب الاسلامیہ، تہران
  • علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، تحقیق سید طیب موسوی، دار الکتاب، قم
  • فیض کاشانی، الحق المبین، تصحیح ارموی، سازمان چاپ دانشگاہ
  • فیض کاشانی، تفسیر الصافى، موسسہ الہادی، قم
  • فخر رازی، تفسیر الرازی، دار احیاء التراث، بیروت
  • قاضی قضاعی، دستور معالم الحکم، ترجمہ فیروز حریرچی، دانشکدہ علوم حدیث، قم
  • قطب راوندی، الخرائج و الجرائح، موسسہ امام مہدی (عج)، قم
  • قطب راوندی، منہاج البراعہ، تحقیق آیت اللہ مرعشی، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی، قم
  • قرطبی، تفسیر القرطبی، تحقیق احمد عبد العلیم، دار احیاء التراث، بیروت
  • قندوزی، ینابیع المودۃ، تحقیق سید علی جمال اشرف، دار الاسوہ، تہران
  • قمی، سفینۃ البحار، کتابخانہ سنائی، تہران
  • کلینی، الکافی، تحقیق علی اکبر غفاری، دار الکتب، تہران
  • کمپانی، علی کیست، دار الکتب اسلامیہ، تہران
  • گنجی شافعی، کفایۃ الطالب، دار احیاء التراث، بیروت
  • متقی ہندی، کنز العمال، موسسہ الرسالہ، بیروت
  • مجلہ پرسمان، اسفند 1380، پیش شمارہ 7
  • محمودی، نہج السعادۃ فی مستدرک نہج البلاغہ، موسسہ اعلمی، بیروت
  • مسعودی، اثبات الوصیۃ للامام علی بن ابی طالب، دار الاضواء، بیروت
  • مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، دار الفکر بیروت
  • مجلسی، مرآۃ العقول، دار الکتب الاسلامیہ، تہران
  • مجلسی، بحار الانوار، موسسہ الوفاء، بیروت
  • مسعودی، مروج الذہب و معادن الجواہر، ترجمہ ابو القاسم پایندہ، انتشارات علمی و فرہنگی، تہران
  • مفید، جمل، ترجمہ محمود مہدوی دامغانی، نشر نی، تہران
  • مفید، امالی، تحقیق علی اکبر غفاری، دار المفید، بیروت
  • مفید، الاختصاص، تحقیق علی اکبر غفاری، دار المفید، بیروت
  • مفید، ارشاد، موسسہ آل البیت، قم
  • نوری، مستدرک الوسائل، موسسہ آل البیت، بیروت
  • نہج البلاغہ، صبحی صالح
  • نہج البلاغہ، ترجمہ دشتی، موسسہ نشر شہر، تہران
  • واقدی، المغازی، عالم الکتب، بیروت
  • ہیثمی، الصواعق المحرقہ المکتبۃ العصریۃ، بیروت
  • یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ترجمہ ابراہیم آیتی، بنگاہ ترجمہ و نشر کتاب، تہران
  • أبو حفص عمر بن أحمد بن عثمان بن أحمد بن محمد بن أيوب بن أزداذ البغدادي المعروف بـ ابن شاہين (المتوفى: 385 ھ)، فضائل فاطمہ بنت رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم تحقيق: بدر البدر، الناشر: دار ابن الأثير - الكويت (ضمن مجموع فيہ من مصنفات ابن شاہين)، الطبعہ: الأولى 1415 ھ- 1994 ء، عدد الأجزاء
  • نسائي، أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن، المجتبى من السنن، تحقيق: عبدالفتاح أبو غدة، ناشر: مكتب المطبوعات الإسلاميہ - حلب، الطبعہ: الثانيہ، 1406 - 1986.
  • أبو عبد اللہ الحاكم محمد بن عبد اللہ بن محمد بن حمدويہ بن نُعيم بن الحكم الضبي الطہماني نيشاپوري معروف بابن البيع (المتوفى: 405 ھ)، مستدرك على الصحيحين ج2 ص181 تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا، الناشر: دار الكتب العلميہ - بيروت، الطبعہ: الأولى، 1411 - 1990، عدد الأجزاء: 4 .
  • سليمان بن أحمد بن أيوب بن مطير اللخمي الشامي، أبو القاسم الطبراني (المتوفى: 360 ھ)،المعجم الكبير ج4 ص34، المحقق: حمدي بن عبد المجيد السلفي، دار النشر: مكتبہ ابن تيميہ - القاہرة، الطبعہ: الثانيہ، عدد الأجزاء:25.
معصوم اول:
رسول اللہؐ
14 معصومین
امام علی علیہ السلام
معصوم سوئم:
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا
چودہ معصومین علیہم السلام
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا
بارہ امام
امام علی علیہ السلام امام سجّاد علیہ‌السلام امام موسی کاظم علیہ السلام امام علی نقی علیہ السلام
امام حسن مجتبی علیہ السلام امام محمد باقر علیہ السلام امام علی رضا علیہ السلام امام حسن عسکری علیہ السلام
امام حسین علیہ السلام امام جعفر صادق علیہ السلام امام محمد تقی علیہ السلام امام مہدی علیہ السلام