مواخات

ویکی شیعہ سے

مواخات یا "بھائی چارہ" سے مراد دو مسلمان مردوں کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم کرنا ہے۔ ہجرتِ مدینہ کے بعد انصار اور مہاجرین کے درمیان قائم ہونے والا بھائی چارہ تاریخ میں سب سے زیادہ معروف‌ ہے جس میں حضرت محمدؐ نے مہاجرین اور انصار کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا۔

اس سلسے میں پیغمبر اکرم ؐ نے امام علیؑ کو اپنا بھائی منتخب کیا جو تاریخ میں تواتر کے ساتھ نقل ہوا ہے۔ یہ واقعہ شیعہ تاریخی اسناد کے علاوہ اہل سنت کے بھی بہت سارے منابع میں نقل ہوا ہے، علامہ امینی نے کتاب الغدیر میں ان میں سے پچاس موارد کی طرف اشارہ کیا ہے۔

عید غدیر کے مستحب اعمال میں سے ایک مؤمنین کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم کرنا ہے۔

مواخات تاریخ کے آئینے میں

ہجرت مدینہ کے بعد پیغمبر اکرم ؐ کے توسط سے مہاجرین اور انصار کے درمیان عقد اخوت قائم کرنے سے پہلے بھی صدر اسلام کے مسلمانوں کے درمیان بھائی چارگی کی فضا موجود تھی۔ جس کی مثال مکہ کے مسلمانوں کا یثرب میں موجود اپنے ہم مذہب بھائیوں کے ساتھ قائم اخوت اور برادری ہے۔[1] البتہ مسلمانوں کے درمیان موجود اخوت اور بھائی چارہ صرف زبانی حد تک نہیں تھا بلکہ اس کی جڑیں نہایت ہی عمیق ہیں اور یہ کام صدر اسلام میں پیغمبر اکرم ؐ کی طرف سے اٹھائے گئے بنیادی اقدامات میں شمار ہوتا تھا۔[2]

مکہ میں عقد اخوت

مورخین کے درمیان مشہور ہے کہ ہجرت مدینہ سے پہلے پیغمبر اکرم ؐ نے مکہ کے مسلمانوں (جنہیں ہجرت کے بعد مہاجرین کا لقب دیا گیا) کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم فرمایا تاکہ مشرکین کے اذیت و آزار اور ہجرت کے راستے میں درپیش مشکلات میں ایک دوسرے کا سہارا بن سکیں۔ تاریخی اسناد کے مطابق پیغمبر اکرم ؐ نے ابوبکر اور عمر، حمزہ بن عبدالمطلب اور زید بن حارثہ، عثمان اور عبدالرحمان بن عوف، زبیر اور ابن مسعود، بلال اور عبادہ بن حارثہ، مصعب بن عمیر اور سعد بن ابی وقاص و ... کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم فرمایا۔[3]

مدینہ میں عقد اخوت

مسلمانوں کی مکہ سے مدینہ ہجرت کے پانچ ماہ، ایک اور نقل کے مطابق آٹھ ماہ[4] بعد ایک دن پیغمبر اکرم ؐ نے اصحاب سے مخاطب ہو کر فرمایا: "تآخوا فی اللہ أخوین أخوین (ترجمہ: خدا کی راہ میں دو دو نفر ایک دوسرے کے بھائی بن جاؤ"[5] مشہور کے مطابق اس وقت اصحاب کی تعداد 90 نفر تھی: 45 مہاجرین اور 45 انصار تھے۔[6]

مدینے میں مہاجرین اور انصار کے درمیان قائم ہونے والی عقد اخوت تاریخی اور حدیثی مآخذ میں تواتر سے مختصر اختلاف کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔ تاریخی اسناد کے مطابق پیغمبر اکرم ؐ نے ابو بکر اور خارجۃ بن زید انصاری، عمر بن خطاب اور عتبان بن مالک انصاری خزرجی، عثمان بن عفان اور اوس بن ثابت، ابو عبیدۃ بن جراح اور سعد بن معاذ، عبد الرحمان بن عوف اور سعد بن ربیع، طلحہ اور کعب بن مالک، زبیر اور سلمۃ بن سلام، سلمان فارسی اور ابو درداء، عمار بن یاسر اور حذیفۃ بن نجار یا ایک اور نقل کے مطابق ثابت بن قیس و ... کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم فرمایا۔[7]

صدر اسلام میں اخوت کا رشتہ قائم ہونے کے بعد مسلمان اپنے دینی بھائی سے ارث بھی پاتا تھا۔ لیکن یہ حکم ایک مختصر مدت کیلئے تھا اور آیت: "وَأُولُو الْأَرْ‌حَامِ بَعْضُہمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّـہ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُہاجِرِ‌ينَ (ترجمہ: اور مومنین و مہاجرین میں سے قرابتدار ایک دوسرے سے زیادہ اولویت اور قربت رکھتے ہیں)" نازل ہونے کے بعد ارث کا معاملہ نسبی قرابتداروں سے مختص ہوا۔[8]

مواخات عمومی

ہجرت کے پہلے سال قائم ہونے والے اخوت کے رشتے نے مسلمانوں کے آپس میں برادرانہ تعلقات قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا لیکن جو چیز زیادہ اہمیت کی حامل ہے وہ تمام مسلمانوں کے درمیان اخوت اور بھائی چارہ کا قیام ہے جو سنہ 9 ہجری کو آیت:"إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَة" (ترجمہ: مومنین آپس میں بھائی ہیں) [9] کے نازل ہونے کے بعد قائم ہوا۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم ؐ نے ایک دوسرے کے ساتھ مختلف حوالے سے شباہت رکھنے والے مؤمنین کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم کیا اس سلسلے میں ابو بکر اور عمر...، ابو ذر اور ابن مسعود، سلمان اور حذیفہ...، مقداد اور عمار، عایشہ اور حفصہ، ام سلمہ اور صفیہ ... کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم فرمایا۔

پیغمبر اکرم و امام علی کے درمیان اخوت کا رشتہ

امام علیؑ اور پیغمبر اکرم ؐ کے درمیان قائم ہونے والا اخوت کا رشتہ تاریخی اعتبار سے ان معتبر واقعات میں سے ہے جو تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچا ہے۔ یہ واقعہ جہاں شیعہ تاریخی اسناد میں موجود ہے وہیں اہل سنت کے بھی مختلف تاریخی اور حدیثی منابع میں نقل ہوا ہے۔ علامہ امینی نے کتاب الغدیر میں ان موارد کی تعداد کو 50 تک ذکر کیا ہے۔[10]

ہجرت سے پہلے

مدینہ کی طرف ہجرت سے پہلے پیغمبر اکرم ؐ نے مکہ کے مسلمانوں کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم فرماتے ہوئے حصرت علی ؑ کو اپنا بھائی قرار دیا۔ بعض تاریخی منابع میں آیا ہے کہ جب پیغمبر اکرم ؐ نے مسلمانوں کے آپس میں اخوت کا رشتہ قائم کیا تو حضرت علی ؑ روتے ہوئے آپ ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فرمایا: یا رسول الله آپ نے تمام اصحاب کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم کیا لیکن مجھے کسی کا بھائی قرار نہیں دیا؟ اس موقع پر پیغمبر اکرم ؐ نے فرمایا: آپ دنیا اور آخرت دنوں میں میرے بھائی ہیں۔[11]

ایک اور روایت میں آیا ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا: اے علی! کیا آپ میرے بھائی ہونے پر راضی نہیں ہیں؟ حضرت علی ؑ نے فرمایا: کیوں نہیں یا رسول الله۔ اس وقت پیغمبر اکرم ؐ نے فرمایا: آپ دنیا اور آخرت دونوں میں میرے بھائی ہیں۔[12]

ہجرت کے بعد

مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد پیغمبر اکرم ؐ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم کیا لیکن امام علی ؑ کو انصار میں سے کسی کا بھائی نہیں بنایا بلکہ اس بار بھی آپ ؐ حضرت علی ؑ کو اپنا بھائی بنایا۔ روایت میں ملتا ہے کہ دونوں دفعہ پیغمبر اکرم ؐ نے حضرت علی ؑ سے فرمایا: اے علی! تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو یوں دونوں دفعہ حضرت علی ؑ کو اپنا بھائی بنایا۔[13]

کتاب الفصول المہمہ میں آیا ہے: جب پیغمبر اکرم ؐ نے مہاجرین اور انصار کے دمیان اخوت کا رشتہ قائم کیا اور حضرت علی ؑ کو انصار میں سے کسی کا بھائی نہیں بنایا۔ اس موقع پر حضرت علی ؑ ناراضگی کے عالم میں حضور ؐ کے پاس سے اٹھ کھڑے ہوئے اور باہر چلے گئے۔ حضور ؐ آپ کے پیچھے آئے اور فرمایا: کیا آپ اس بات سے ناراض ہوئے ہیں کہ میں نے آپ کو انصار میں سے کسی کا بھائی نہیں بنایا؟ آیا کیا آپ اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ آپ کی اور میری نسبت، حضرت موسی اور ہارون کی نسبت کی طرح ہے صرف اس تفاوت کے ساتھ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا؟[14]

بھائی چارگی کا مقصد

پیغمبر اکرم ؐ کو جن چیزوں کے بارے میں سب سے زیادہ خدشہ لاحق رہتا تھا ان میں سے ایک معاشرے میں عدالت کا قیام تھا۔[15] معاشرے میں عدالت کے قیام کیلئے جہاں ایک طرف معاشرے سے طبقاتی جنگ و جدال کا خاتمہ ضروری تھا تو دوسری طرف سے لوگوں کے درمیان محبت اور برادری ایجاد کرنے کی ضرورت تھی۔ اسی بنا پر پیغمبر اکرم ؐ نے مسلمانوں کے درمیان بھائی چارہ قائم کرتے ہوئے ان کے درمیان محبت اور الفت پیدا کرنے کی عملی کوشش فرمائی۔[16]

ایک دوسرے کے درمیان موجود کدورتوں کا ازالہ، مہاجرین کی غربت اور تنہائی کو دور کرنا اور قومی اور نسلی تعصبات کی جگہ ایمانی برادری کو فروغ دینا بھی اس اخوت اور بھائی چارگی کے اہداف میں سے تھے۔

سورہ حجرات کی آیت نمبر 10 کے نازل ہونے سے پہلے اس اخوت اور بھائی چارگی کو صرف پیغمبر اکرم ؐ کی طرف سے اٹھائے جانے والا عقلمندانہ اور زیرکانہ اقدام تصور کیا جاتا تھا اور یہ گمان کیا جاتا تھا کہ پیغمبر اکرم ؐ نے ایک الہی اور دینی رہبر ہونے کے ناطے اسلامی معاشرے میں معنوی اقدار کے فروغ کیلئے یہ قدم اٹھایا ہے۔ لیکن جب مذکورہ آیت نازل ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ کام نہ صرف اسلامی معاشرے میں اتحاد و ہمدلی ایجاد کرنے کیلئے پیغمبر اکرمؐ کا ایک تحسین بر انگیز اور عاقلانہ اقدام تھا بلکہ یہ کام اسلام کے سماجی اور معاشرتی اصول و قوانین کا ایک حصہ تھا جسے خدا نے مذکورہ آیت کے ذریعے لوگوں تک پہنچایا ہے۔

عید غدیر اور اخوت و بھائی چارگی

مؤمنین کا آپس میں عقد اخوت پڑھنا عید غدیر کے مستحب اعمال میں سے ایک ہے جس میں دنیا میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدلی اور برادرانہ سلوک روا رکھنے اور آخرت میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا عہد کیا جاتا ہے۔

اس عقد سے نہ متعلقہ افراد ایک دوسرے سے ارث پاتے ہیں اور نہ ان میں سے ہر ایک کے متعلقین دوسرے کا محرم بنتے ہیں۔

یہ عقد صرف دو مردوں یا دو عورتوں کے درمیان منعقد ہو سکتا ہے اس بنا پر اس عقد کے ذریعے کسی نامحرم مرد اور نامحرم عورت کے درمیان بہن بھائی کا رشتہ قائم نہیں ہو سکتا۔

درج بالا نکات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس عقد کے ذریعے صرف متعلقہ دو مردوں یا دو عورتوں کے درمیان دنیا اور آخرت میں ایک قسم کی دینی بھائی چارگی ایجاد ہوتی ہے۔ اور اس عقد کا مفاد یہ ہوتا ہے کہ متعلقہ افراد ایک دوسرے سے یہ عہد کرتے ہیں کہ یہ دونوں دنیا میں ایک دوسرے کو اپنی دعاوں میں فراموش نہیں کریں گے اور آخرت میں ان میں سے ایک شفاعت کے اہل ہونے کی صورت میں دوسرے کو اپنی شفاعت سے محروم نہیں کرینگے۔

عقد اخوت کا طریقہ

دو مرد یا دو عورتیں اپنے دائیں ہاتھوں کو ایک دوسرے کے ہاتھ میں رکھتے ہیں اور ان میں سے ایک عقد اخوت کا صیغہ پڑھتے ہیں اور دوسرا اسے قبول کرتے ہیں۔

صیغہ عقد کی عربی عبارت: "واخَیْتُکَ فِی اللَّہ وَ صَافَیْتُکَ فِی اللَّہ وَ صَافَحْتُکَ فِی اللَّہ وَ عَاہدْتُ اللَّہ وَ مَلَائِکَتَہ وَ کُتُبَہ وَ رُسُلَہ وَ أَنْبِیَاءَہ وَ الْأَئِمَّة الْمَعْصُومِینَ ؑ عَلَى أَنِّی إِنْ کُنْتُ مِنْ أَہلِ الْجَنَّة وَ الشَّفَاعَة وَ أُذِنَ لِی بِأَنْ أَدْخُلَ الْجَنَّة لَا أَدْخُلُہا إِلَّا وَ أَنْتَ مَعِی" (ترجمہ: خدا کی رضا کیلئے میں آپ سے برادرانہ اور صمیمیت کا اظہار کرتا ہوں اور اپنے ہاتھ کو آپ کے ہاتھ میں رکھ دیتا ہوں اور خدا، فرشتوں، آسمانی کتابوں اور خدا کے بھیجے گئے انبیاء کو حاضر و ناظر جان کر یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر میں اہل بہشت یا اہل شفاعت قرار پاؤں اور مجھے الله کی طرف سے بہشت میں داخل ہونے کی اجازت مل گئی تو میں آپ کے بغیر بہشت میں داخل نہیں ہوں گا۔)

پھر دوسرا فریق جواب میں کہے گا: "قَبِلْتُ"

اس کی بعد پہلا شخص دوبارہ کہے گا: "أَسْقَطْتُ عَنْکَ جَمِیعَ حُقُوقِ الْأُخُوَّة مَا خَلَا الشَّفَاعَة وَ الدُّعَاءَ وَ الزِّیَارَة" (ترجمہ: میں برادری کے تمام حقوق سوائے حق شفاعت، دعا اور ایک دوسرے کی زیارت کرنا، کو آپ کی گردن سے ساقط کرتا ہوں۔)

پھر دوبارہ دوسرا شخص کہے گا: "قَبِلْتُ"[17]

عقد اخوت کا صیغہ عربی میں پڑھنا ضروری نہیں بلکہ اسے اردو یا کسی اور زبان میں بھی پڑھا جا سکتا ہے لیکن ایک چیز ضروری ہے کہ ایسے الفاظ کے ساتھ عقد پڑھا جائے جس سے مطلوبہ مفاہیم ادا ہو سکیں۔

اگر دو خواتین ایک دوسرے کے ساتھ عقد اخوت پڑھ رہیں ہوں تو صیغہ عقد کو مؤنث ضمیروں کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے۔

حوالہ جات

  1. البدایہ و النہایہ، ابن کثیر، ج۳، ص۱۶۹.
  2. دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج۱۱، ص۶۱۷.
  3. الصحیح من سیرہ النبی الاعظم، ج۳، ص۳۴۵.
  4. تاریخ الخمیس، دیار البکری، ج۱، ص۳۵۳.
  5. السیرۃ النبویۃ، ج۱، ص۵۰۴-۵۰۵
  6. الصحیح من سیرہ النبی الاعظم، ج۴، ص۲۲۷
  7. تاریخ الخمیس، دیار البکری، ج۱، ص۳۵۳.
  8. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ذیل آیت ۶ سورہ احزاب
  9. حجرات/ ۱۰
  10. الغدیر، ج۳، ص۱۶۲-۱۸۰
  11. حلبی، السیرہ الحلبیہ، ج۲، ص۱۲۵
  12. قاضی نعمان، شرح الاخبار فی فضائل الائمہ، ج۲، ص۱۷۸
  13. ابن عبدالبر، الاستیعاب، بہ نقل الامین، اعیان الشیعہ، ج۲، ص ۲۷.
  14. الفصول المہمۃ، ابن صباغ المالكی، ج‏1، ص220
  15. سورہ حدید، آیہ ۲۵.
  16. دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج۱۱، ص۶۱۸.
  17. نوری، حسین این محمدتقی، مستدرک الوسائل، ۱۴۰۸ق، ج ۶، ص ۲۷۹.

مآخذ

  • ابن صباغ مالكى‏، الفصول المہمۃ في معرفۃ الأئمۃ، اول، قم، دار الحديث‏، ۱۴۲۲ق.
  • ابن كثير، البدايۃ و النہايۃ، بیروت، دار الفكر، بى تا.
  • ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، بیروت، دارالمعرفہ، بی تا
  • امین، اعیان الشیعہ، بیروت:، دار التعارف للمطبوعات، ۱۴۱۸ق./۱۹۹۸م.
  • امینی، عبدالحسین، الغدير في الكتاب و السنۃ و الأدب‏، اول، قم، مركز الغدير للدراسات الاسلاميہ‏، ۱۴۱۶ق.
  • جعفر مرتضى العاملى‏، الصحيح من سيرۃ النبي الأعظم‏، اول، قم، دار الحديث‏، ۱۴۲۶ق.
  • حلبى شافعی، السيرۃ الحلبيۃ، دوم، بیروت، دار الكتب العلميۃ، ۱۴۲۷ق.
  • ديار بكرى‏، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيس‏، بیروت، دار الصادر، بى تا
  • قاضى نعمان مغربى‏، شرح الأخبار في فضائل الأئمۃ الأطہار، اول، قم، جامعہ مدرسين‏، ۱۴۰۹ق.
  • نوری، حسین ابن محمدتقی، مستدرک الوسائل، موسسہ آل البیت لإحیاء، بیروت، ۱۴۰۸ق.