سعد بن معاذ
ابوعمرو سعد بن مُعاذ(متوفی سنہ 5 ہجری قمری) پیغمبر اسلام کے صحابی اور قبیلہ اوس کے سرداروں میں سے تھے جس نے مدینہ میں بیعت عقبہ اول کے موقع پر مصعب بن عمیر کے ہاتھوں اسلام قبول کیا جن کی تبعیت میں ان کا پورا خاندان مسلمان ہوئے۔ انہوں نے جنگ بدر اور جنگ احد میں شرکت کی اور ان جنگوں میں پیغمبر اکرمؐ کے قریبی ساتھیوں اور جنگی مشاورین میں سے تھے۔ بنی قریظہ کی پیمان شکنی اور اسلامی فوج کے ہاتھوں ان کی شکست کے بعد آپ ان کی طرف سے بعنوان حکم مقرر ہوئے۔ جنگ خندق میں آپ زخمی ہوئے اور بعد میں انہی جراحتوں کی وجہ سے اس دنیا سے چل بسے۔ کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے ان کے بارے میں فرمایا: ان کی تشییع جنازہ میں ہزاروں فرشتے شریک تھے۔ اہل سنت منابع میں آیا ہے کہ ان کی موت سے عرش الہی کو زلزلہ آیا۔
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | سعد بن مُعاذ بن نعمان بن امرئ القیس بن زید بن عبدالاشہل |
کنیت | ابوعمرو |
محل زندگی | مدینہ |
مہاجر/انصار | انصار |
اقارب | اسعد بن زرارہ |
وفات | سنہ 5 ہجری قمری |
دینی معلومات | |
اسلام لانا | بیعت عقبہ اول اور دوم کے درمیان مصعب بن عمیر کے ہاتھوں |
جنگوں میں شرکت | غزوہ بدر، غزوہ احد اور جنگ خندق |
دیگر فعالیتیں | جنگ بدر میں قبیلہ اوس کا پرچم دار، بنیقریظہ کے یہودیوں کا مسلمانوں کے ہاتھوں شکست کے بعد ان کا حکم |
نسب
سعد بن مُعاذ بن نعمان بن امرؤالقیس بن زید بن عبدالاشہل، جن کی کنیت ابوعمرو، ان کی والدہ کبشہ بنت رافع بن معاویہ بن عبید[1] ہیں۔ وہ اسعد بن زرارہ کے خالہ زاد بھی ہیں۔[2]
اسلام لانا
سعد بن معاذ بیعت عقبہ اول اور دوم کے درمیان مدینہ میں مصعب بن عمیر کے ہاتھوں مسلمان ہوا اور ان کے اسلام لانے کے ساتھ ان کا پورا کنبہ بھی مسلمان ہو گئے۔[3] یہ پہلا خاندان تھا جس کے مرد اور عورتیں سب اکھٹے مسلمان ہوئے۔[4]
سعد بن معاذ نے اسلام لانے کے بعد اسید بن حضیر کے ساتھ مل کر بنی عبدالاشہل کے سارے بتوں کو توڑ ڈالا۔ [5] پیغمبر اکرمؐ کی مدینہ ہجرت کے بعد رسول اللہؐ نے سعد اور ابوعبیدہ جراح جو کہ مہاجرین میں سے تھے کے درمیان عقد اخوت قائم فرمایا۔[6] آپ انصار کے بزرگان اور قبیلہ اوس کے سرداروں میں سے تھے اور نہایت شجاع، ارادے میں مصمم اور جنگ و جہاد میں ثابت قدم تھے۔[7]
جنگوں میں شرکت
بدر اور احد
جنگ بدر میں وہ قبیلہ اوس کا علمدار تھا۔ اس جنگ میں انہوں نے پیغمبر اکرمؐ کیلئے ایک سایہ بان بنایا تاکہ آپؐ وہاں بیٹھ کر جنگ کی نگرانی کر سکیں۔ اس جنگ میں انهوں نے دوسرے مسلمان سپاہیوں کے ساتھ میدان جنگ میں حصہ لیا۔ جب بھی قریش کی طرف سے عمومی حملہ شروع ہوتا تو وہ حضرت علیؑ اور دیگر صحابہ کے ساتھ پیغمبر اکرمؐ کی دفاع کرتے اور عین اسی حالت میں اسلام کی تبلیغ کے سلسلے میں وعظ و نصیحت بھی کیا کرتے تھے۔[8]
اس جنگ میں پیغبر اکرمؐ نے دو دفعہ سعد کی تعریف اور ان کے حق میں دعا فرمائی۔ جنگ سے واپسی پر وہ پیغمبر اکرمؐ کے سواری کی لگام تھامے پیدل جارہے تھے حالنکہ اس جنگ میں ان کے بھائی بھی شہید ہو گئے تھے
انہوں نے جنگ احد میں بھی حصہ لیا۔[9]
خندق
اسی طرح غزوۀ خندق کی گمسان لڑائی میں پیغمبر اکرمؐ کو بنی قریظہ کی پیمان شکنی اور قریش کے ساتھ جا ملنے کی خبر ملی۔ سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ جن کو بنی قریظہ کے ہاں مقام و منزلت حاصل تھی اور ان کی باتوں پر توجہ دیتے تھے، ان کی طرف گئے اور جب سعد کو ان کی عہد شکنی کا علم ہوا تو اس نے پیغمبر اکرمؐ کو اس بات سے آگاہ کیا۔ جب پیغمبر اکرمؐ کو اس بات کا علم ہوا کہ مسلمان چاروں طرف سے محاصرے میں آگئے ہیں اور کوئی راہ فرار دکھائی نہیں دیا تو آپ ؐ نے مدینہ کے کجھوروں میں سے کچھ مقدار ادا کر کے ان کے ساتھ صلح کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت سعد بن معاذ نے یہ مشورہ دیا کہ ہمیں کبھی بھی ذلت و خواری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے اس کے بعد صلح نامے کو پھاڑ دیا گیا اور جنگ کرنے کو ترجیح دی گئی۔
بنی قریظہ کے معاملے میں ثالثی
جنگ خندق کی گمسان لڑائی میں مدینہ کے ایک یہودی قبیلہ بنی قریظہ نے مسلمانوں کے ساتھ اپنا میثاق ختم کرکے مسلمانوں کے خلاف لڑے لگا۔ لڑائی میں اس قبیلے کو شکست ہوئی۔ جب یہ قبیلہ مسلمانوں کے محاصرے میں آگئے اور مسلمانوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کی ہمت نہ رہی تو انہوں نے سیعد بن معاذ کی ثالثی کو قبول کیا۔ سیعد بن معاذ زخمی اور بیمار ہونے کے باوجود خیمے سے باہر آگئے اور بنی قریظہ کی طرف چلا گیا۔ اس معاملے میں اپنے قبیلے کی مرضی کے برخلاف حکم سنایا جو بنی قریظہ کا ہم پیمان تھا، اس نے ان کے مردوں کو قتل کرنے، ان کے اموال کو ضبط کرنے اور ان کے بیوی بچوں کو قیدی بنانے کا حکم سنایا۔ جب پیغمبر اکرمؐ کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا: تم نے ان کے بارے میں سحیح حکم سنایا خدا اور اس کے رسول کا حکم بھی ان کے متعلق یہی ہے۔[10]
سید جعفر شہیدی نے بعض قرائن و شواہد کی بنا پر بنی قریظہ سے متعلق مذکورہ حکم کے بارے میں تردید کا اظہار کیا ہے۔[11]
وفات
سنہ 5 ہجری قمری کو غزوۀ خندق میں مسلمان سپاہیوں میں سے پانچ افراد شہید ہو گئے۔ سعد بن معاذ بھی اس جنگ میں شدید زخمی ہوگئے تھے۔ زخمی ہونے کے بعد اسے مدینہ لایا گیا اور ابن سعد کے بقول جیسے ہی پیغمبر اکرمؐ نے سعد کو دیکھا تو فرمایا: اٹھو اور اپنے سردار کو گھوڑے سے نیچے اتارو۔ اس کے بعد آپ نے مسجد نبوی کے ساتھ ایک خیمہ نصب کروا کر سعد کا علاج شروع کروایا۔ لیکن یہ معالجہ موثر واقع نہیں ہوا یوس کچھ مدت بعد سعد اس دنیا سے چل بسا۔ وفات کے وقت ان کی عمر 37 سال تھی۔[12]
اہل سنت میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے خدا کے ہاں ان کے مقام و منزلت کے بارے میں فرمایا: "سعد بن معاذ کی موت سے عرش الہی کو زلزلہ آیا۔"[13] لیکن شیخ صدوق نے کتاب معانی الاخبار میں اس حوالے سے یوں نقل کیا ہے: "امام صادقؑ سے پوچھا گیا کہ اہل سنت کہتے ہیں کہ سعد بن معاذ کی موت سے عرش الہی کو زلزلہ آیا کیا یہ بات درست ہے؟ اس پر امامؑ نے فرمایا: پیغمبر اکرمؐ کی مراد عرش سے وہ تختہ تھا جس پر سعد کو رکھا گیا تھا یعنی وہ تختہ جس پر سعد کو رکھا گیا تھا اس کی موت سے یہ تختہ لرزنے لگا تھا اور لوگوں نے یہ گمان کیا کہ عرش سے مراد عرش الہی ہے۔[14]
تشییع جنازہ
جب سعد بن معاذ کی وفات ہوئی تو پیغمبر اکرمؐ نے انہیں غسل دینے کا حکم دیا اور ان کے جنازے میں ننگے پاؤوں شرکت فرمائی اور بار بار ان کی تابوت کے دائیں اور بائیں طرف کو اٹھاتے تھے۔[15]
کہا جاتا ہے کہ جب ان کے جنازے کو باہر لایا گیا تو بعض منافقین نے کہا کہ ان کا جنازہ کتنا ہلکا ہے؟ اس پر پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: "70 ہزار فرشتے ان کے جنازے میں شرکت کرنے اور ان کی تابوت اٹھانے کیلئے زمین پر آگئے ہیں جبکہ اس سے پہلے انتی کثیر تعداد میں فرشتے زمین پر نہیں آئے تھے"۔[16]
اسی طرج ایک حدیث میں امام صادقؑ فرماتے ہیں: "پیغمبر اکرمؐ نے سعد کی نماز جنازہ پڑھائی اس وقت جبرائیل کو دیکھا کہ کثیر تعداد فرشتوں کے ساتھ ان کی نماز جنازہ پڑھ رہے تھے۔ اس موقع پر پیغبر اکرمؐ نے فرمایا: اے جبرئیل کس وجہ سے ان کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے ہو؟ جبرئیل نے جواب دیا وہ ہر وقت چاہے بیٹھے ہوئے ہوں یا کھڑے ہوں یا سواری کی حالت میں ہو سورہ اخلاص کی تلاوت کیا کرتے تھے اسی ہم اس کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے ہیوں۔"[17]
آخر میں جب سعد کو دفنا کر پیغمبر اکرم اور آپ کے اصحاب ان کی قبر سے اٹھنے لگے تو سعد کی والده نے کہا: اے سعد تمہیں بہشت مبارک ہو! اس پر پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: اے سعد کی ماں! وہ آخرت میں مشکلات میں گرفتار ہونگے کیونکہ ان کے گھر والوں کے ساتھ اس کا برتاؤ جتنا ہونا چاہئے تھا اچھا نہیں تھا۔[18]ان کی قبر قبرستان بقیع میں فاطمہ بنت اسد کی قبر کے پاس ہے۔
حوالہ جات
- ↑ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۲، ص۳۱۳؛ ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۴۲۰؛ مزی، تہذیب الکمال، ج۱۰، ص۳۰۰؛ ابوحاتم، کتاب الثقات، ج۳، ص۱۴۶؛ ابن حجر، تہذیب التہذیب، ج۳، صص۴۱۷-۴۱۸؛ بخاری، کتاب التاریخ الکبیر، ج۴، ص۴۳؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، صص۱۶۷-۱۶۸؛ زرکلی، الاعلام، ج۳، ص۸۸؛ رکـ: طوسی، رجال، ص۲۰؛ شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۱، ۲۶۵۔
- ↑ مزی، تہذیب الکمال، ج۱۰، ص۳۰۰۔
- ↑ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۲، ص۳۱۳؛ ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۴۲۰؛ مزی، تہذیب الکمال، ج۱۰، ص۳۰۰؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۱۶۸؛ طبری، تاریخ طبری، ج۳، صص۸۹۷-۸۹۸۔
- ↑ ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۴۲۱۔
- ↑ ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، صص۴۲۰-۴۲۱۔
- ↑ ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۴۲۱۔
- ↑ ابن حجر، تہذیب التہذیب، ج۳، صص۴۱۸۔
- ↑ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۲، ص۳۱۳؛ ابن حجر، تقریب التہذیب، ص۲۸۲؛ ابن حجر، تہذیب التہذیب، ج۳، صص۴۱۸؛ بخاری، کتاب التاریخ الکبیر، ج۴، ص۴۳؛ تستری، قاموس الرجال، ج۵، ص۶۹؛ زرکلی، الاعلام، ج۳، ص۸۸۔
- ↑ ابن حجر، تہذیب التہذیب، ج۳، صص۴۱۷-۴۱۸۔
- ↑ تاریخ یعقوبی، ج۱، ص۴۱۲؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۲، ص۳۱۵؛ ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، صص۴۲۲-۴۲۳؛ مزی، تہذیب الکمال، ج۱۰، ص۳۰۲؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۱۶۹؛ ابن عبد ربہ، العقد الفرید، ج۳، ص۳۲۷؛ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج۲، ص۵۲؛ طبری، تاریخ طبری، ج۳، صص۱۰۷۳-۱۰۷۴ و ۱۰۸۴و ۱۰۸۸۔
- ↑ شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص ۹۰ـ۸۸۔
- ↑ ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۴۳۳؛ ابن حجر، تقریب التہذیب، ص۲۸۲؛ ابوحاتم، کتاب الثقات، ج۳، صص۱۴۶-۱۴۷؛ ابن حجر، تہذیب التہذیب، ج۳، صص۴۱۸؛ بخاری، کتاب التاریخ الکبیر، ج۴، ص۴۳؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۱۶۸؛ زرکلی، الاعلام، ج۳، ص۸۸۔
- ↑ اسد الغابۃ، ج۲، صص۳۱۵-۳۱۶؛ ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۴۳۴؛ مزی، تہذیب الکمال، ج۱۰، ص۳۰۲؛ ابوحاتم، کتاب الثقات، ج۳، ص۱۴۶؛ ابن حجر، تہذیب التہذیب، ج۳، صص۴۱۸؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، صص۱۶۸-۱۶۹؛ ابن عبد ربہ، العقد الفرید، ج۳، ص۲۸۵، ۳۲۷۔
- ↑ ابن بابویہ، معانی الاخبار، ج۱، ص۳۸۸، نوادر الاخبار، ح۲۵؛ تستری، قاموس الرجال، ج۵، ص۶۸۔
- ↑ ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۴۲۹-۴۳۳؛ تستری، قاموس الرجال، ج۵، ص۶۶۔
- ↑ طبقات، ابن سعد، ج۳، ص۳۲۸؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۲، ص۳۱۶؛ ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۴۲۸ و ۴۲۹؛ مزی، تہذیب الکمال، ج۱۰، ص۳۰۲؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۱۶۸۔
- ↑ دایرۃ المعارف الشیعۃ العامۃ، ج۱۰، ص۳۶۵۔
- ↑ تستری، قاموس الرجال، ج۵، ص۶۶۔
مآخذ
- ابن اثیر، اسدالغابہ فی معرفہ الصحابہ، دارالمعرفہ، بیروت، ۱۴۲۲ق/۲۰۰۱م۔
- ابن بابویہ، محمد بن علی، معانی الأخبار، تصحیح علی اکبر غفاری، موسسہ النشر الاسلامی التابعہ لجماعہ المدرسین بقم، قم، ۱۳۶۱ش۔
- ابن حجر، تقریب التہذیب، تحقیق خلیل مأمون شیحا، دارالمعرفۃ، بیروت، ۱۴۲۲ق/۲۰۰۱م۔
- ہمو، تہذیب التہذیب، دارالفکر، بیروت، ۱۴۰۴ق/۱۹۸۴م۔
- ابن سعد، الطبقات الکبری، دارالفکر، بیروت، ۱۴۰۵ق/۱۹۸۵م۔
- ابن عبد ربہ، احمد بن محمد، العقد الفرید، تحقیق مفید محمد قمیحہ، دار الکتب العلمیہ، بیروت۔
- ابن عبدالبر قرطبی، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، تحقیق علی محمد معوض و عادل احمد عبدالموجود، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵م۔
- ابوحاتم تمیمی، کتاب الثقات، وزارۃ المعارف و الشؤون للحکومۃ العالیۃ الہندیۃ، دارالفکر للطباعہ و النشر و التوزیع، بیروت۔
- تستری، محمدتقی، قاموس الرجال، موسسہ نشر الاسلامی، قم، ۱۴۱۴ق۔
- زرکلی، خیرالدین، الاعلام قاموس تراجم لاشہر الرجال و النساء من العرب و المستعربین و المسشترقین، دارالعلم للملایین، بیروت، ۱۹۹۲م۔
- شوشتری، نوراللہ، مجالس المؤمنین، کتابفروشی اسلامیہ، تہران، ۱۳۷۷ش۔
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ترجمہ ابوالقاسم پایندہ، اساطیر، تہران، ۱۳۶۲ش۔
- مزی، یوسف، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال، تحقیق بشار عواد معروف، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ۱۴۰۹ق/۱۹۹۸م۔
- یعقوبی، احمدبن اسحاق، تاریخ الیعقوبی، بیروت، ۱۳۷۹/۱۹۶۰۔
- شہیدی، سیدجعفر، تاریخ تحلیلی اسلام، تہران: مرکز نشر دانشگاہی، ۱۳۹۰ش۔