حارثۃ بن نعمان

ویکی شیعہ سے
حارثۃ ابن نعمان
کوائف
کنیتابو عبد اللہ
جائے پیدائشمدینہ
محل زندگیمدینہ
مہاجر/انصارانصار
نسب/قبیلہخَزْرَج
وفاتسنہ50ھ
دینی معلومات
جنگوں میں شرکتبَدْر، اُحُد، حُنَین
وجہ شہرتصحابی رسولؐ
نمایاں کارنامےپیغمبر خداؐ کو اپنا گھر عطیہ کرنا
دیگر فعالیتیںنقل روایت


حارثة بن نُعمان (متوفی: 50ھ) رسول خداؐ اور امام علیؑ کے صحابی ہیں۔ انہوں نے بَدْر، اُحُد اور حُنَین کی جنگوں کے علاوہ امام علیؑ کے دور میں لڑی گئی جنگوں میں بھی شرکت کی۔ حارثہ نے اپنا گھر رسول خداؐ کو عطیہ کیا تاکہ آپؐ اپنی زوجات کے ساتھ وہاں قیام پذیر ہوں۔ اسی طرح انہوں نے حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہ الزہراء(س) کی سکونت کے لیے بھی ایک گھر بطور ہدیہ دیا۔ حارثہ نے جبرئیل کو دحیہ کَلبی کی صورت میں دیکھا اور انہیں سلام کیا ہے۔

منابع حدیث میں حارثہ سے پیغمبر خداؐ کی کئ احادیث نقل ہوئی ہیں۔

مقام

پیغمبر خداؐ نے فرمایا

میں نے عالم رویا میں بہشت سے تلاوت کی آواز سنی؛ میں نے پوچھا: یہ کس کی آواز ہے؟ کہا گیا: یہ حارثۃ بن نعمان کی آواز ہے؛ «تمہارے نیک افراد ایسے ہوتے ہیں

ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج1،ص307

حارثۃ بن نعمان رسول خداؐ اور امام علیؑ کے اصحاب میں سے تھے۔[1] انہوں نے پیغمبر خداؐ کے ساتھ جنگ بدر،[2] جنگ اُحُد، حُنَین اور دیگر چند جنگوں میں شرکت کی.[3] شیخ طوسی کے مطابق حارثۃ بن نعمان امام علیؑ کے دور حکومت میں آپؑ کے ساتھ جنگوں میں شریک رہا۔[4]

حارثہ وہ صحابی ہیں جنہوں نے جنگ حنین سے بعض مسلمانوں کے فرار کے بعد مشرکین کی طرف سے لائے گئے دھاوے کے باوجود رسول خداؐ کے ساتھ رہ کر آپؐ کا دفاع کیا۔[5]

نقل روایت کے لحاظ سے مرتبہ

حارثۃ کا شمار ان راویوں میں ہوتا ہے[6] جن کی روایت منابع حدیثی، رجالی اور کتب تاریخ جیسے مُسند احمد بن حنبل، کتاب المَغازی، المؤتلف و المُختَلف وغیرہ میں نقل ہوئی ہے۔[7] عبد اللہ بن عباس، عبد الله بن عامر بن ربیعہ و ثعلبۃ بن ابی‌ مالک جیسے راویوں نے حارثہ سے پیغمبر خداؐ کی چند احادیث نقل کی ہیں۔[8]

جبرئیل کا مشاہدہ

اصحاب رسول کی سوانح حیات لکھنے والوں نے حارثۃ کو فضلائے صحابہ میں شمار کیا ہے۔[9] شیخ طوسی کے مطابق حارثۃ نے دو مرتبہ جبرئیل کو دحیہ کلبی کی شکل میں مشاہدہ کیا اور انہیں سلام کیا۔[10] اسی طرح ابن‌ عبد البر نے اپنی کتاب "الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب" میں لکھا ہے کہ حارثۃ اپنی ماں کا بے حد احترام کیا کرتا تھا اسی لیے وه نیک نامی میں معروف ہے۔[11]

پیغمبرؐ کو اپنا گھر عطیہ کرنا

جن لوگوں نے مدینہ میں پیغمبر اکرمؐ کو گھر عطیہ کیا، اس سلسلے میں سب سے پہلا نام حارثۃ کا ملتا ہے۔[12] تیسری صدی ہجری کے مورخ ابن‌ سعد کے مطابق حارثۃ کا حجرہ پیغمبر خداؐ کے حجرے کے ساتھ ملا ہوا تھا۔[13] جب بھی پیغمبر اکرمؐ کے گھر میں کوئی نئی زوجہ آتی حارثہ اپنے گھر کا ایک حصہ پیغمبرؐ کو عطیہ کرتے اس طرح مرحلہ یہاں تک پہنچا کہ انہوں نے اپنا سارا گھر حضورؐ کے لیے عطیہ کیا تاکہ زوجات رسول یہاں رہائش پذیر ہوں۔[14] ان گھروں میں سے ایک ماریہ کا گھر ہے،[15] نیز وہ گھر جسے پیغمبر اکرمؐ نے صَفیّه کو یہاں رہائش دے رکھی تھی؛ عائشہ اور دیگر انصاری خواتین ان سے ملاقات کرنے یہاں آتی جاتی رہتی تھیں۔[16] رسول خداؐ نے خود اور دیگر مہاجرین کو گھر عطیہ کرنے پر حارثۃ کے حق میں دعا کی۔[17]

حضرت علیؑ اور فاطمہ(س) کی رہائش کے لیے مکان کا عطیہ

اہل سنت مورخ ابن‌ سعد (متوفیٰ: 230ھ) نے اپنی کتاب "الطبقات الکبری" میں امام محمد باقرؑ سے ایک روایت نقل کی ہے جس کے مطابق جب امام علیؑ اور حضرت زہراء(س) کی شادی ہوئی تو امام علیؑ نے پیغمبر خداؐ کے دولت سرا سے تھوڑا دور گھر مہیا کیا۔ پیغمبر خداؐ نے فرمایا کہ ان کی بیٹی والد کے گھر کے ساتھ رہائش پذیر ہونا چاہتی ہیں۔ ایک دن حضرت زہراء(س) نے اپنے بابا سے درخواست کی کہ آپؐ حارثۃ سے اس بابت بات کریں تاکہ آپ(س) اس کے گھر میں رہائش پذیر ہوں۔[18] رسول خداؐ نے فرمایا: میں اس سلسلے میں حارثۃ سے حیا محسوس کرتا ہوں؛ کیونکہ اس نے پہلے ہی اپنے گھر کے چند حجرے مجھے عطیہ کیا ہے اور خود ایک سے دوسرے میں اور دوسرے سے تیسرے حجرے میں منتقل ہوتا رہا ہے۔[19] ایک دن حارثۃ خود اس ماجرا سے با خبر ہوا تو اس نے اپنا ایک اور گھر پیغمبرؐ کو عطیہ کیا[20] شیعہ منابع کے مطابق حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہ(س) شادی کے بعد حارثۃ کی طرف سے رسول خداؐ کو عطیہ کردہ گھر میں رہائش پذیر ہوئے۔[21]

اہل سنت مورخ اِبن‌ شَبَّه (متوفی: 262ھ) کے مطابق حارثۃ کا گھر امام جعفر صادقؑ کے گھر کے ہمسائے میں تھا، وہ گھر امامؑ کی ملکیت میں آیا اور امامؑ وہاں قیام پذیر ہوئے۔[22] یہ گھر سنہ 1986ء میں ترقیای منصوبے کے زد آیا اور اسے منہدم کیا گیا۔[23]

شجرہ نسب اور وفات

حارثۃ نعمان بن نفع یا ابن‌ نقع[24] انصاری خزرجی[25] اور جَعْدة بنت عبید بن ثعلبۃ کا بیٹا تھا۔[26] اس کی کنیت ابو عبد الله[27] تھی، خاندانی لحاظ سے قبیلہ بنی‌ نجار سے تعلق رکھتا تھا اور مدینہ [28] میں رہتا تھا۔[29] بعض تاریخی منابع میں انہیں جنگ بدر میں شرکت کی وجہ سے حارثۃ بن نعمان انصاری بدری کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے۔[30] کہا جاتا ہے کہ محمد بن عبد الرحمن بن عبدالله بن حارثہ، المعروف ابوالرجال حارثۃ کے پوتوں میں سے ہے۔[31]

اہل سنت عالم علم رجال ابن‌ حِبّان (متوفیٰ: 354ھ) نے ایک روایت سے استناد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حارثۃ جنگ بَدْر میں شہید ہوا ہے؛[32] لیکن بعض نے حارثۃ کی پیغمبر خداؐ کے زمانے میں دیگر جنگوں میں بھی شرکت کو مد نظر رکھتے ہوئے ابن جبان کی بات کو رد کیا ہے۔[33] ابن‌ سعد (متوفیٰ: 230ھ) کے مطابق مورخین نے حارثۃ کی وفات کے سلسلے میں صرف یہی لکھا ہے کہ وہ معاویہ کے زمانے میں وفات پاگئے ہیں۔ [34] البتہ ذہبی (متوفیٰ: 748ھ) کے مطابق حارثۃ سنہ 50ھ میں وفات پاگیا ہے۔[35]

حوالہ جات

  1. طوسی، رجال طوسی، 1381ق، ص17.
  2. واقدی، المغازی، 1409ق، ج1، ص24.
  3. ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، 1412ق، ج1، ص307.
  4. طوسی، رجال طوسی، 1381ق، ص17.
  5. ابن‌اثیر، أسد الغابة، 1415ھ، ج1، ص655.
  6. هیثمی، مجمع الزوائد، 1414ھ، ج9، ص313–314.
  7. عزیزی و دیگران، الرواة المشترکون بین الشیعة و السنة، 1388ہجری شمسی، ج1، ص191.
  8. طبرانی، المعجم الکبیر، 1415ھ، ج3، ص227؛ ابی‌نعیم، معرفۃ الاصحاب، 1422ھ، ج2، ص58.
  9. ملاحظہ کیجیے: ابن‌اثیر، أسد الغابة، 1415ھ، ج1، ص655.
  10. طوسی، رجال طوسی، 1381ق، ص17.
  11. ابن‌عبدالبر، الإستیعاب، 1412ھ، ج1 ص307.
  12. عبدالغنی، بیوت الصحابه، 1420ھ، ص69.
  13. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج8، ص132.
  14. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج8، ص132.
  15. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج8، ص171.
  16. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج8، ص100؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج1، ص444.
  17. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج8، ص133.
  18. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج8، ص132.
  19. ابن‌جوزی، المنتظم، 1412ھ، ج5، ص246.
  20. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج8، ص132–133.
  21. طبرسی، إعلام الوری، 1417ھ، ج1، ص161.
  22. اِبن‌شَبَّه، تاریخ المدینة لابن‌شبة، 1399ھ، ج1، ص259ِ.
  23. شرّاب، فرهنگ اعلام جغرافیایی، 1383ہجری شمسی، ج1، ص149.
  24. ابن‌حبان، الثقات، 1393ھ، ج3، ص79.
  25. ذهبی، سیر أعلام النبلاء، 1414ھ، ج2، ص378.
  26. ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج1، ص307.
  27. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ق، ج3، ص371.
  28. ابی‌نعیم، معرفة الاصحاب، 1422ھ، ج2، ص58.
  29. ابن‌اثیر، أسد الغابة، 1415ھ، ج1، ص655.
  30. طبرانی، المعجم الکبیر، 1415ھ، ج3، ص227؛ ابی‌نعیم، معرفۃ الاصحاب، 1422ھ، ج2، ص58.
  31. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج5، ص402.
  32. ابن‌حبان، الثقات، 1393ھ، ج3، ص79.
  33. ابن‌بلبان الفارسی، الإحسان، 1408ھ، ج10، ص510.
  34. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج8، ص132.
  35. ذهبی، تاریخ الإسلام، 2003م، ج2، ص396.

مآخذ

  • ابی‌نعیم، احمد بن عبدالله، معرفة الاصحابة، بیروت، دارالکتب العلمیة، 1422ھ.
  • ابن‌اثیر، علی بن محمد، أسد الغابة فی معرفة الصحابة، تحقیق علی محمد معوض، عادل أحمد عبد الموجود، بیروت، دار الکتب العلمیة، 1415ھ.
  • ابن‌حبان، محمد بن حبان، الثقات، تحقیق محمد عبدالمعید خان، هند، دائرة المعارف العثمانیة بحیدر آباد الدکن الهند، 1393ھ.
  • ابن‌جوزی، عبدالرحمن بن علی، المنتظم، تحقی محمد عبدالقادر عطا، مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیة، چاپ اول، 1412ھ.
  • ابن‌سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، تحقیق محمدعبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیة، چاپ اول، 1410ھ.
  • ابن‌شبه، عمر، تاریخ المدینة لابن‌شبة، تحقیق فهیم محمد شلتوت، جده، بی‌نا، 1399ھ.
  • ابن‌عبدالبر، یوسف بن عبدالله، الإستیعاب فی معرفة الاصحاب، تحقیق علی محمد بجاوی، بیروت، صبح پیروزی، 1412ھ.
  • ابن‌بلبان الفارسی، علاء الدین علی، الإحسان فی تقریب صحیح ابن‌حبان، تحقیق شعیب أرنؤوط، بیروت، مؤسسة الرسالة، 1408ھ.
  • بیهقی، احمد بن حسین، دلائل النبوة و معرفة أحوال صاحب الشریعة، بیروت، دار الکتب العلمیة، 1405ھ.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، کتاب جمل من أنساب الأشراف، تحقیق سهیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، دارالفکر، 1417ھ.
  • ذهبی، محمد بن احمد، تاریخ الإسلام و وفیات المشاهیر و الأعلام، تحقیق بشار عوّاد معروف، بی‌جا، دار الغرب الإسلامی، 2003ء.
  • ذهبی، محمد بن احمد، سیر أعلام النبلاء، تحقیق شعیب أرنؤوط، بیروت، مؤسسة الرسالة، 1414ھ.
  • شراب، محمدحسین، فرهنگ اعلام جغرافیایی تاریخی در حدیث و سیره نبوی، ترجمه محمدرضا نعمتی، حمیدرضا شیخی، تهران، مشعر، 1383ہجری شمسی.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، کتاب جمل من انساب الأشراف، تحقیق سهیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، دارالفکر، 1417ھ.
  • طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، تحقیق حمدی بن عبد المجید السلفی، قاهره، مکتبة ابن‌تیمیة، 1415ھ.
  • طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری بأعلام الهدی، قم، آل البیت(ع)، 1417ھ.
  • عبدالغنی، محمد الیاس، بیوت الصحابة رضی الله عنهم حول المسجد النبوی الشریف، مدینه منوره، بی‌نا، 1420ھ.
  • عزیزی، حسین و دیگران، الرواة المشترکون بین الشیعة و السنة، تهران، المجمع العالمی للتقریب بین المذاهب الإسلامیة، 1388ہجری شمسی.
  • واقدی، محمد بن عمر، المغازی، تحقیق مارسدن جونس، بیروت، مؤسسة الأعلمی للمطبوعات، 1409ھ.