ابن ملجم مرادی

نامکمل زمرہ
غیر سلیس
غیر جامع
تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے
(ابن ملجم سے رجوع مکرر)
ابن ملجم مرادی
کوائف
نام:عَبدالرّحمن بن عمرو بن مُلْجَم
وجہ شہرت:جنگ نہروان کے خوارج، امام علیؑ کا قاتل
وفات:21 رمضان سنہ 40 ہجری، کوفہ


عَبد الرّحمن بن عمرو بن مُلجَم مُرادی، إبن مُلجَم مُرادی کے نام سے معروف، جنگ نہروان کے خوارج اور شیعوں کے پہلے امام علی بن ابی طالبؑ کے قاتلوں میں سے ہے۔ ابن ملجم نے امام علیؑ کے مقام خلافت پر فائز ہونے کے بعد آپؑ کی بیعت کی اور جنگ جمل میں آپ کے لشکر میں رہ کر آپ کے دشمنوں کے خلاف جنگ لڑی لیکن جنگ صفین میں حکمیت کے مسئلے میں خوارج کے ساتھ ملحق ہوگیا اور جنگ نہروان میں امام علیؑ کے مد مقابل آکھڑے ہوئے اور جنگ کے اختتام پر جان بچا کر فرار ہونے والے معدود افراد میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ مشہور قول کی بنا پر ابن ملجم نے 19 رمضان المبارک کی رات فجر کی نماز کے موقع پر مسجد کوفہ کے محراب میں حضرت علیؑ پر وار کیا۔ اس حملے میں حضرت علیؑ زخمی ہوئے اور 21 رمضان المبارک کو جام شہادت نوش فرمایا۔ کہا جاتا ہے کہ 21 رمضان ہی کے دن امام حسنؑ نے اپنے بابا کے قصاص میں تلوار کے ایک وار سے ابن ملجم کو واصل جہنم کیا۔ روایات اہل بیت کے مطابق وہ شیعوں میں "اَشقَی الاَولّینَ وَ الآخرین" و "اشقی الاشقیاء" کے نام سے مشہور ہے۔

ولادت اور حسب و نسب

اس کی تاریخ ولادت کے بارے میں کوئی یقینی بات تاریخ میں ثبت نہیں ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ ابن ملجم نے جاہلیت کا زمانہ دیکھا ہے ۔[1] اس کے نسب کے بارے میں ابن سعد کہتے ہیں: وہ بنی حمیری کے قبیلہ مراد سے تھا جو بود جبلہ کے قبیلہ کندہ کے ساتھ ہم پیمان تھے۔[2] بعض نے اسے بنی حمیری کے قبیلہ تجوب سے بتایا ہے جو قبیلہ مراد کے ساتھ ہم پیمان تھے۔[3] بلاذری کہتے ہیں: "تجوب" ابن ملجم کا دادا تھا۔[4]

امیرمؤمنینؑ کو شہید کرنے کا مقصد

ابن ملجم کے ہاتھوں امام علیؑ کی شہادت کے حوالے سے اس کے اس اقدام کا محرک اصلی کیا تھا؟ اس بارے میں مختلف علتیں ذکر ہوئی ہیں:

ابن سعد اس کام کی علت کو انتقام ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: جنگ نہروان میں امام علیؑ کے ہاتھوں خوارج کی شکست کے بعد وہاں سے جان بچا کر بھاگنے والوں میں سے تین افراد عبدالرحمن بن ملجم، برک بن عبداللہ تمیمی اور عمرو بن بکیر تمیمی مکہ میں جمع ہوئے اور کافی بحث و مباحثے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ ایک ہی وقت میں حضرت علیؑ، معاویہ اور عمرو بن عاص تینوں کو قتل کیا جائے گا۔ عبدالرحمن ابن ملجم نے حضرت علیؑ کو شہید کرنے کی ذمہ داری قبول کی اور اسی کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے وہ کوفہ آیا اور اپنے خوارجی ساتھیوں کے ساتھ ملاقات کی۔ اس دوران اس کی ملاقات شجنۃ بن عدی کی بیٹی قطام سے ہوئی پہلی نظر میں اس کا عاشق ہو گیا اور اس سے شادی کرنے کیلئے پیغام بھیجا۔ قطام جس کا باپ اور بھائی جنگ نہروان میں مارے گئے تھے، ابن ملجم کی درخواست کو قبول کرتی ہے لیکن شادی کیلئے اس نے شرط رکھ دی کہ حضرت علیؑ کو قتل کیا جائے۔[5]

ابن اعثم کوفی قطام سے ابن ملجم کے عشق ہی کو اس خطرناک اقدام کے محرک اصلی کے طور پر معرفی کرتے ہوئے کہتے ہیں: جنگ نہروان کے بعد حضرت علیؑ کے کوفہ پہنچنے سے پہلے ابن ملجم کوفہ میں داخل ہوا اور خوارج کی شکست اور اپنے ساتھیوں کی ہلاکت سے باقی دوستوں کو آگاہ کیا۔ کوفے میں قیام کے دوران اس کی ملاقات قطام نامی کسی خوارج کی بیٹی سے ہوئی اور وہ اس کا عاشق ہو گیا بات شادی تک پہنچی تو لڑکی نے شادی کیلئے حضرت علیؑ کو قتل کرنے کی شرط رکھ دی۔ اس قول کی بنا پر 23 رمضان کی رات ابن ملجم قطام کے گھر میں تھا اور اذان صبح کے وقت قطام نے اسے بیدار کرکے مسجد کوفہ بھیجا اس وقت وہ شراب میں مست تھا اور جب حضرت علیؑ نے نماز صبح کی دوسری رکعت میں سجدے کا ارادہ کیا تو اس نے آپؑ پر زہریلے تلوار سے وار کیا جس سے آپؑ کا فرق اطہر شگافتہ ہوا۔[6]

لیکن معتبر تاریخی منابع کے مطابق ابن ملجم مرادی نے 19 رمضان المبارک کی رات مسجد کوفہ کے محراب میں آپؑ پر وار کیا جس سے آپ شدید زخمی ہوئے اور 21 رمضان المبارک کو آپ شہادت کے عظیم درجے پر فائز ہوئے۔[7]

ملائکہ کی لعنت

امام صادقؑ سے منقول ایک حدیث میں آپ نے فرمایا: جب ابن ملجم نے امام علیؑ کے سر مبارک پر تلوار سے وار کیا اور آپ کا فرق اطہر زخمی ہوا تو اسی زخم کے مانند ایک زخم آپ کے اس صورت پر بھی نمودار ہوا جو ملائکہ کے پاس آپ کی صورت موجود تھی۔ اس کے بعد سے ملائکہ ہر صبح و شام اس صورت کی زیارت کرتے وقت ابن ملجم پر لعنت بھیجتے ہیں اور یہ کام بغیر توقف کے قیامت تک جاری رہے گا۔[8]

انجام

تاریخی منابع میں ابن ملجم کے انجام کے بارے میں مختلف واقعات درج ہیں۔ جو چیز زیادہ مشہور ہے وہ یہ ہے کہ امام علیؑ اپنی زندگی کے آخری ایام میں بھی اپنے فرزندان سے اس کے ساتھ مدارا کرنے کی سفارش فرماتے رہے۔ آپ کی شہادت کے بعد ابن ملجم کو قصاص کی خاطر امام حسنؑ کے پاس لایا گیا اور انھوں نے بھی تلوار کے ایک ہی وار سے اس سے قصاص لیا اور یہ واقعہ 21 رمضان المبارک کو پیش آیا۔ مشہور یہی ہے کہ ام الہیثم ابو اسود نخعی کی بیٹی نے اس کے جنازے کو آگ لگا دی۔[9]

قبر

ابن بطوطہ لکھتے ہیں: کوفہ مسافرت کے دوران کوفہ کے مغرب میں ایک مکمل سفید زمین کے درمیان ایک حصہ نہایت ہی کالا ٹکڑا دیکھا اور جب میں نے تجسس کی حالت میں سوال کیا اور اس کے بارے میں تحقیق کی تو اس علاقے کے ایک مکین نے جواب دیا: یہ حصہ حضرت علیؑ کے قاتل ابن ملجم کی قبر ہے اور اہل کوفہ کی یہ رسم چلی آ رہی ہے کہ ہر سال یہاں لکڑیاں جمع کرکے 7 دن تک ان لکڑیوں کو جلاتے ہیں اس وجہ سے زمین کا یہ حصہ کالا ہو گیا ہے۔[10]

حوالہ جات

  1. الاصابہ، ج ۵، ص۸۵.
  2. طبقات کبری، ج ۳، ص۳۵.
  3. اسماء المغتالین، ص۱۱۹.
  4. انساب الاشراف، ص۵۰۷.
  5. طبقات کبری، ج ۳، ص۳۵ و ۳۶.
  6. کتاب الفتوح، ج ۴، ص۲۷۶ - ۲۷۸.
  7. الارشاد، ج۱، ص۲۰.
  8. حیاۃ القلوب، ص۲۸۲.
  9. الارشاد، ج ۱، ص۲۲.
  10. الرحلۃ، ج ۱، ص۱۶۷.

مآخذ

  • ابن بطوطہ، محمد بن عبداللہ، رحلۃ ابن بطوطۃ، تحفۃ النظار فی غرائب الأمصار و عجائب الأسفار، ریاض، اکادیمیہ المملکہ المغربیہ.
  • ابن اثیر، علی بن ابی الکرم، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، بیرو، دار الکتاب العربی.
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دار صادر.
  • بغدادی، محمدبن حبیب، أسماء المغتالین من الأشراف فی الجالی و الإسلام، بیروت، دارالکتب العلمی.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، بیروت، مؤسسہ الاعلمی، ۱۳۹۴ هـ ق.
  • عسقلانی، ابن حجر، لسان المیزان، بیروت، مؤسس الاعلمی، ۱۳۹۰ هـ ق.
  • کوفی، احمد بن اعثم، کتاب الفتوح، دار الاضواء، ۱۴۱۱ هـ ق.
  • مفید، محمد بن نعمان، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، بیروت، دار المفید، ۱۴۱۴ هـ ق.

بیرونی روابط