دمشق
دمَشق، شام کا دارالخلافہ ہے جو اہم ترین اور قدیمی ترین اسلامی شہروں میں سے ہے، جسے سنہ تیرہ یا چودہ ہجری کو مسلمانوں نے فتح کیا۔ یہ شہر اموی حکومت کے زمانے سے ہی دار الخلافہ تھا۔ اس شہر میں باب الصغیر قبرستان ہے جس میں حضرت پیغمبرؐ کی زوجہ محترمہ ام حبیبہ کا مزار، اور عبدالملک بن مروان، ابودرداء انصاری اور بلال حبشی مدفن ہیں، اور اسی طرح حضرت زینبؑ اور حضرت رقیہؑ کا حرم مبارک، اورامام حسینؑ اور دوسرے شہدائے کربلا کا مقام رؤوس بھی ہے، اسی وجہ سے دمشق مسلمانوں کی نظر میں ایک قیمتی ترین شہر ہے۔ بعض منابع میں دمشق کو حضرت ابراہیمؑ کی زاد گاہ، حضرت نوحؑ کی محل سکونت، ٢٧٠٠ پیغمبروں کی جای مدفن جن میں حضرت موسیؑ بھی ہیں اورآخری زمانے میں حضرت عیسیؑ کی محل نزول کہا گیا ہے۔
شہر دمشق کے بانیوں کے نام
یونان کے مشہور افسانے کے مطابق، ہرمس کے فرزند دمسکوس نے دمشق کی بنیاد اپنے نام پر رکھی۔ [1] لیکن اسطورہ کی روایات کے مطابق تاریخی اسلامی منابعوں میں، دمشق کو، حضرت نوحؑ کے فرزندوں میں سے ایک نے دمشق یا دماشق کا نام دیا تھا۔ [2]
قدیمی اہل شناخت کے بقول اور دمشق کے پہاڑوں سے ملنے والے پتھروں پر لکھے نشان سے پتہ چلتا ہے کہ دمشق میں حیات بشری کی تاریخ نویں صدی اور میلاد مسیح سے بھی پہلے ہے، اوردمشق کا نام سنہ ١٤٠٣ سے ١٣٤٧ میلاد سے پہلے استعمال ہوتا تھا۔
دمشق کے اہم ترین تاریخی واقعے
اسلامی منابع کے مطابق، بہت سے اہم واقعات دمشق میں رونما ہوئے ہیں۔ جن میں سے بعض یہ ہیں:
- حضرت آدمؑ و حضرت حوا کی اقامت گاہ اور ھبوط
- ھابیل کی قتل گاہ
- حضرت ابراہیمؑ کی جای پیدائش
- حضرت نوحؑ کی محل زندگی
- حضرت موسیؑ اور دوسرے ٢٧٠٠ پیغمبروں کی محل دفن
- حضرت عیسیٰؑ کا نزول۔ [3]
- دمشق کی قدیمی تاریخ
اسلام سے پہلے
دمشق میں پرانے چھوٹے پہاڑوں پر پائے جانے والے نشانات سے ظاہر ہوتا ہے، کہ میلاد مسیح سے بھی پہلے اس شہر میں انسان زندگی گزارتے تھے۔ [4] قدیمی شناخت کے مطابق حضرت عیسیؑ کے میلاد سے پہلے اس شہر کو دمشق کہا جاتا تھا۔ [5] دمشق کی سر زمین پر طول تاریخ میں مختلف حکومتوں، کی حکومت رہی اور دنیا کے مختلف ممالک سے لوگوں کی آمد و رفت رہی ہے۔ بارہویں ہجری میلاد سے پہلے، دمشق میں فرعون مصر کی حکومت تھی، اس کے بعد آرمیان سامی تبار اور سنہ ٧٣٢ حکومت آشوریان کے ہاتھوں آ گئی۔[6] یابلی قبیلے نے دمشق کو فتح کیا۔ [7] ھخامنشیان نے اپنی حکومت کی ابتداء میں یعنی چھٹی ہجری میلاد سے پہلے دمشق میں تصرف کیا۔ اس کے بعد دمشق اسکندریوں کے ہاتھوں میں آ گیا اور اس کے بعد، کئی بار یونانی سرداروں کے ہاتھوں جا بجا ہوئی۔ دمشق میں روم کے بادشاہ کی حکومت اور مسحیحیت کے عام ہونے کی وجہ سے، یہ شہر مسیحی کے نام سے مشہور ہو گیا اور غسائیان عرب نژاد اس میں نفوذ پذیر ہو گئے۔ [8] دمشق آخر سنہ چودہ ہجری کو مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوا۔ [9]
اسلام کے بعد
دمشق کا اسلامی سر زمین کے ساتھ ملحق ہونا اور اس کے فتح کرنے کا طریقہ کار اور زمان، میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ [10] بعض مورخین جیسے طبری اور ابن کثیر کے بقول، دمشن مسلمانوں کے ہاتھوں سنہ تیرہ ہجری کو فتح ہوا ہے۔ مشہور روایات کے مطابق سنہ چودہ ہجری کو محرم کے مہینے میں دمشق کی فتح ہوئی۔[11] اور یہ کہ دمشق کی فتح کے وقت مسلمانوں کے لشکر کا سردار خالد بن ولید تھا یا ابو خالد یزید بن ابی سفیان، اس میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ [12] فتح دمشق کے ایک سال بعد دوسرے خلیفہ کے حکم پر یزید بن ابی سفیان دمشق کا خلیفہ مقرر ہوا۔ اور سنہ سترہ ہجری کو دمشق کی حکومت معاویہ نے سھنبال لی۔ سنہ ٤١ ہجری کو مدینہ کے بعد دمشق اسلامی خلافت کا جدید مرکز اور امویان کا اڈہ بن گیا۔ [13] پہلی صدی کے آخر میں ولید بن عبدالملک کے حکم پر دمشق میں اموی جامع مسجد تیار کی گئی۔
عبداللہ بن علی(پہلا عباسی خلیفہ) نے سنہ ١٣٢ق کو دمشق پر حملہ کیا جس کی وجہ سے شہر کو بہت نقصان ہوا اور دارالخلافہ کی وہ پہلی اہمیت ختم ہو گئی۔ [14]
سنہ ١٣٢٠ شمسی، سوریہ کی آزادی کے بعد، دمشق اس ملک کا اہم ترین شہر اور دارالخلافہ ہے۔[15]
اسلامی اور شیعی اماکن
- مسجد جامعہ اموی
- حضرت زینب(س) کا روضہ مبارک
- ام حبیبہ (حضرت پیغمبر(ص) کی زوجہ محترمہ) کی آرامگاہ
- بلال حبشی کی قبر مبارک
- راس الحسین کی زیارت گاہ
- مقام رؤوس الشہداء، اور شہدای کربلا کے سروں کا محل دفن۔ [16]
حوالہ جات
- ↑ دانشنامہ جہان اسلام، ص ۱۰۶ و ۱۰۷
- ↑ دانشنامہ جہان اسلام، ص ۱۰۷
- ↑ دانشنامہ جہان اسلام، ص ۱۰۷۔
- ↑ دانشنامہ جہان اسلام، ص ۱۰۷ و ۱۰۸۔
- ↑ دانشنامہ جہان اسلام، ص ۱۰۸۔
- ↑ دانشنامہ جہان اسلام، ص ۱۰۸۔
- ↑ دانشنامہ جہان اسلام، ص ۱۰۸
- ↑ دانشنامہ جہان اسلام، ص ۱۰۹۔
- ↑ دانشنامہ جہان اسلام، ص ۱۰۹۔
- ↑ دانشنامہ جہان اسلام، ص ۱۱۰۔
- ↑ دانشنامہ جہان اسلام، ص ۱۱۰
- ↑ دانشنامہ جہان اسلام، ص ۱۱۰۔
- ↑ دانشنامہ جہان اسلام، ص ۱۱۱۔
- ↑ دانشنامہ جہان اسلام، ص ۱۱۱۔
- ↑ دانشنامہ جہان اسلام، ص ۱۱۵۔
- ↑ دانشنامہ جہان اسلام، ص ۱۱۷۔