عبد مَناف بْن عَبْدُ الْمُطلب، ابوطالب کے نام سے مشہور، امام علیؑ کے والد، پیغمبر اسلامؐ کے چچا اور مکہ میں قبیلہ بنی ہاشم کے سردار تھے۔ کچھ عرصے کے لئے آپ سقایۃ الحاج کے عہدے پر فائز رہے اور اپنے والد عبد المطلب کی وفات کے بعد حضرت محمدؐ کی سرپرستی قبول کی اور آنحضرتؐ کی جانب سے نبوت کے اعلان کے بعد ان کی مکمل حمایت کی۔

ابو طالب علیہ السلام
قبرستان ابو طالب (مکہ مکرمہ، سعودی عرب)
کوائف
نام:عبد مناف بن عبد المطلب بن ہاشم
مشہور اقارب:رسول اکرمؐ(چچازاد)، حضرت علیؑ(فرزند)
وجہ شہرت:کفالت حضرت رسول خدا، والد حضرت علی
پیدائش:35 سال قبل از ولادت حضرت محمدؐ
محل زندگی:مکہ
وفات:26 رجب 10 بعثت (عام الحزن)
مدفن:قبرستان حجون یا قبرستان ابی طالب یا جنت المعلی (المعلاة)
دینی خدمات:پشت پناہی رسول اکرمؐ

ایمان ابوطالب شیعہ اور بعض اہل سنت کے درمیان اختلافی مسائل میں سے ہے۔ شیعہ علماء تاریخی قرائن و شواہد، اہل بیتؑ کی احادیث اور خود ابوطالب کے اشعار سے استناد کرتے ہوئے ان کے ایمان لانے کے معتقد ہیں۔ آپ کی طرف بعض اشعار اور قصاید کی نسبت دی گئی ہے جن کا مجموعہ دیوان ابوطالب کہا جاتا ہے۔ آپ نے بعثت کے دسویں سال 26 رجب کو وفات پائی اور قبرستان حجون میں سپرد خاک کئے گئے۔

نسب اور ولادت

آپ کا نسب عبد مناف بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب ہے۔ آپ اپنی کنیت ابو طالب سے مشہور تھے۔[1] ابن عنبہ اس روایت کو ضعیف قرار دیتے ہیں جس میں آپ کو عمران کے نام سے یا کیا گیا ہے۔[2] حضرت محمدؐ کی ولادت سے 35 سال پہلے آپ کی ولادت ہوئی۔ آپ کے والد عبدالمطلب جو پیغمبر اکرمؐ کے جد امجد بھی ہیں، تمام مورخین انہیں عرب قبائل کا سردار اور ادیان ابراہیمی کے مبلغ اعظم کے نام سے جانے جاتے ہیں۔آپ کی والدہ فاطمہ بنت عمرو بن عائذ مخزومی ہیں۔[3] ابوطالب اور پیغمبر اکرمؐ کے والد عبداللہ سگے بھائی تھے۔[4]

زوجہ اور اولاد

حضرت ابوطالب کو الله نے ان کی زوجہ فاطمہ بنت اسد کے بطن سے چار بیٹے: طالب، عقیل،‌ جعفر اور حضرت علیؑ عطا کئے۔ بعض مآخذ میں ام ہانی (فاخِتہ) اور جُمانَہ کو آپ کی بیٹی قرار دی گئی ہیں۔[5] بعض دیگر مآخذ میں آپ کی ایک اور بیٹی رَیطَہ (أسماء) کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔ اسی طرح "طُلَیق" کے نام سے ایک اور بیٹے نیز "عَلَّہ" کے نام سے ایک اور زوجہ کا بھی نام لیا جاتا ہے۔[6]

سماجی منزلت، مناصب اور خصوصیات

ابو طالبؑ مختصر مدت کے لئے مکہ میں حجاج کی میزبانی اور سقّائی کے مناصب پر فائز رہے۔[7] آپ تجارت سے بھی منسلک تھے اور عطریات اور گندم کی خرید و فروخت کرتے تھے۔[8]

امیرالمؤمنینؑ حضرت علیؑ سے منقولہ ایک حدیث، نیز مؤرخین کے مطابق حضرت ابو طالبؑ تہی دست ہونے کے باوجود قریش کے عزیز اور بزرگ تھے اور ہیبت و وقار اور حکمت کے مالک تھے۔[9] ابو طالبؑ کی فیاضی اور جود و سخا کے بارے میں کہا گیا ہے کہ "جس دن ابوطالب لوگوں کو کھانے پر بلاتے اس دن قریش میں سے کوئی اور کسی کو کھانے پر نہیں بلاتا تھا۔[10] ابو طالبؑ نے سب سے پہلے عصر جاہلیت میں مقتول کے وارثوں کی شہادت میں حلف اور قسم کو لازمی قرار دیا اور بعد میں اسلام نے اس کی تائید و تصدیق کی۔[11] حلبی کہتے ہیں: ابو طالبؑ نے اپنے والد ماجد حضرت عبد المطلب بن ہاشمؑ کی مانند شراب‌ نوشی کو اپنے اوپر حرام کر رکھا تھا۔[12]

رسول اکرمؐ کی کفالت اور سرپرستی

ابو طالبؑ نے اپنے والد کی ہدایت پر اپنے آٹھ سالہ بھتیجے حضرت محمدؐ کی سرپرستی کا بیڑا اٹھایا۔[13] ابن شہرآشوب سے منقول ایک حدیث کے مطابق ابوطالب حضرت محمدؐ کو کھانے پینے اور لباس میں اپنے اور اپنی خاندان پر فوقیت دیتے تھے۔[14]

ابن ہشام لکھتے ہیں کہ: ابو طالب حضرت محمدؐ کا خاص خیال رکھتے تھے اور اپنے بچوں سے بھی زیادہ آپؐ کے ساتھ محبت اور نیکی سے پیش آتے تھے۔ وہ آپؐ کے لئے بہترین کھانا مہیا کرتے اور آپؐ کے بستر کو اپنے بستر کے ساتھ لگاتے اور ہمیشہ آپؐ کو اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔[15] ابوطالب ہمیشہ کھانے کھاتے وقت اپنی اولاد سے کہتے تھے کہ: صبر کریں تاکہ میرا بیٹا (محمد) آجائے۔[16]

رسول اللہؐ کی حمایت اور پشت پناہی

تاریخی روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابو طالبؑ نے قریش کے دباؤ اور سازشوں کے مقابلے میں رسول اکرمؐ کی حمایت جاری رکھی۔ گوکہ ابو طالبؑ کی عمر رسول اللہؐ کی بعثت کے وقت پچھتر برس ہوچکی تھی، تاہم انھوں نے ابتداء ہی سے کار رسالت میں آپؐ کی حمایت اور ہمراہی اختیار کی یہاں تک کہ انھوں نے قریش کے عمائدین کے سے ہونے والی ملاقاتوں کے دوران رسول اللہؐ کی حمایت کا اعلان کیا۔[17] یعقوبی کے مطابق یہ حمایت اور محبت اس حد تک تھی کہ جناب ابو طالبؑ اور ان کی زوجہ مکرمہ حضرت فاطمہ بنت اسد(س) رسول اللہؐ کے لئے ماں باپ کی صورت اختیار کرگئے تھے۔[18]

قریش نے ابوطالب کو عمارہ بن ولید مخزومی جو ایک خوبصورت اور طاقتور جوان تھا کو اپنا لے پالک بیٹا بنانے اور اس کے مقابلے میں حضرت محمدؐ کو ان کے حوالے کرنے کی پیشکش کی؛ لیکن ابوطالب نے ان کی پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے ان کی سرزنش کی۔[19]

پیغمبر اکرمؐ نے حضرت ابوطالب کے وفات کے وقت فرمایا: جب تک ابوطالب بقید حیات تھے قریش مجھ سے خوف محسوس کرتے تھے۔[20]شیخ مفید نقل کرتے ہیں کہ جب ابوطالب کی وفات ہوئی تو جبرئیل پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہوئے اور کہا: مکہ سے باہر نکلو کیونکہ اب اس میں آپ کا کوئی حامی اور مددگار نہیں رہا۔[21]

اشعار

ابو طالبؑ کے قصائد اور منظوم کلام اور حکیمانہ اور ادیبانہ منظوم اقوال تقریبا ایک ہزار ابیات (اشعار) پر مشتمل ہیں اور یہ مجموعہ دیوان ابو طالب کے نام سے مشہور ہے۔ جو کچھ ان اشعار اور اقوال میں آیا ہے سب رسول خداؐ کی رسالت و نبوت کی تصدیق و تائید پر مبنی ہے۔ ان کا مشہور ترین قصیدہ قصیدہ لامیہ کے عنوان سے مشہور ہے۔[22]

أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّا وَجَدْنَا مُحَمَّدًا نَبِیا کمُوسَی خُطَّ فِی أَوَّلِ الْکتُبِ
وَأَنَّ عَلَیهِ فِی الْعِبَادِ مَحَبَّةً وَلَا خَیرَ مِمَّنْ خَصَّهُ اللَّهُ بِالْحُبِّ[23]

ترجمہ: کیا نہیں جانتے ہم نے محمدؐ کو موسی کی طرح پیغمبر پایا، جن کا نام اور ان کی نشانی آسمانی کتابوں میں آیا ہے، خدا کی مخلوقات کو ان سے ایک خاص محبت ہے اور جسے خدا نے اپنی محبت کے ساتھ مختص کیا ہے اس سے بڑھ کر کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔

ایمان

ابوطالب کا ایمان شیعہ اور اہل سنت کے درمیان بہت زیادہ مورد بحث رہا ہے۔ شیعیان اثنا عشری ابو طالب کے ایمان لانے اور اسلام قبول کرنے پر یقین کامل رکھتے ہیں اور علمائے شیعہ ائمۂ اہل بیتؑ کی روایات کی روشنی میں ان کے ایمان پر اجماع رکھتے ہیں۔[24] لیکن اس کے مقابلے میں بعض علمائے اہل سنت کا خیال ہے کہ ابو طالبؑ شریعت اسلام پر ایمان نہیں لائے اور حالت شرک میں دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔[25]

وفات اور عام الحزن

 
قبرستان ابوطالب، محل دفن ابوطالب

ابوطالب کی تاریخ وفات کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ شیخ طوسی 26 رجب دسویں بعثت کو روز وفات سمجھتے ہیں[26] یعقوبی آپ کی وفات کو ماہ رمضان میں حضرت خدیجہ کی وفات کے تین دن بعد 86 یا 90 سال کی عمر میں بتاتے ہیں[27] بعض مورخین 1 ذی‌ القعدہ اور بعض 15 شوال کو آپ کا یوم وفات قرار دیتے ہیں۔[28]

آپ کی وفات پر پیغمبر اکرمؐ نے بہت غمگین حالت میں گریہ کرتے ہوئے حضرت علیؑ کو تجہیز و تکفین کا حکم دیا اور آپؐ نے ان کے لئے طلب رحمت و مغفرت کی دعا فرمائی۔[29] جب حضرت محمدؐ حضرت ابوطاب کی قبر پر پہنچے تو فرمایا: اس طرح آپ کی مغرت اور شفاعت کے لئے دعا کرونگا کہ جن و انس حیران رہ جائے۔[30] آپ کے جسد خاکی کو مکہ میں آپ کے والد گرامی عبد المطلب کے ساتھ قبرستان حُجون میں سپرد خاک گیا گیا۔[31]

پیغمبر اکرمؐ نے حضرت ابوطالب اور حضرت خدیجہ(س) کی وفات کے سال کو عامُ الحُزْن کا نام دیا۔[32]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۲۰ق، ج۲، ص۲۸۸؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۹۶۸م، ج۱، ص۱۲۱.
  2. ابن عنبہ، عمده الطالب، ۱۳۸۰ق، ص۲۰.
  3. طبری، تاریخ الطبری، ۱۴۰۳ق، ج۲، ص۲؛ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ۱۳۸۴ق، ج۲، ص۱۱۱.
  4. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۹۶۸م، ج۱، ص۹۳
  5. ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ۱۴۲۶ق، ص۱۵۸-۱۶۷.
  6. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۹۶۸م، ج۱، ص۱۲۱ و ۱۲۲.
  7. تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 13۔
  8. ابن قتیبه، محمد، المعارف، ص 575.
  9. تاریخ یعقوبی، ج2، ص14، قمی، عباس، الکنی و الالقاب، ج1، ص108 و 109۔
  10. انساب الاشراف، ج2، ص288۔
  11. سنن نسایی، ج 8، ص 2 – 4۔
  12. سیره حلبی، ج 1، ص 184۔
  13. سیره ابن‌هشام، ج 1، ص 116، دلائل النبوه، ج 2، ص 22۔
  14. ابن شهرآشوب، مناقب، ۱۳۷۹ق، ج ۱، ص۳۶.
  15. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۹۶۸م، ج۱، ص۱۱۹.
  16. ابن شهرآشوب، مناقب، ۱۳۷۹ق، ج۱، ص۳۷.
  17. سیره ابن هشام، ج1، ص172 و 173۔
  18. تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 14۔
  19. ابن ہشام، السیرہ النبویہ، ۱۳۸۳ق، ج۱، ص۲۶۷؛ طبری، تاریخ الطبری، ۱۴۰۳ق، ج ۲، ص۳۲۷.
  20. ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج ۶۶، ص۳۳۹؛ ابن اثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۱۶۴.
  21. مفید، ایمان ابی طالب، ۱۴۱۴ق، ص۲۴.
  22. شیخ مفید، ایمان ابی طالب، ص 18۔
  23. السیرۃ النبویۃ، دارالمعرفہ، ج۱، ص۳۵۲
  24. طوسی، التبیان، ۱۴۰۹ق، ج ۸، ص۱۶۴؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۳۱؛ فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، ۱۴۲۳ق، ص۱۳۸.
  25. غفاری، کبیر الصحابۃ أبو طالب(ع)، ص۱۶۶؛ حسن، أبو طالب طود الإیمان الراسخ، ص۱۶۶.
  26. یوسفی غروی، موسوعة التاریخ الإسلامی، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۶۴۰ منقول از شیخ طوسی، المصباح، ص۵۶۶.
  27. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی(الاعلمی)، ج۱، ص۳۵۴
  28. مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج ۱، ص۴۵.
  29. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج ۳۵، ص۱۶۳، ابن جوزی، تذکرہ الخواص، ۱۴۲۶ق، ج ۱، ص۱۴۵.
  30. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۳۷۸ق، ج۱۴، ص۷۶.
  31. بلارذی، انساب الاشراف، ۱۴۲۰ق، ج ۱، ص۲۹.
  32. مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج ۱، ص۴۵.

مآخذ

  • ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق محمد ابو الفضل ابراہیم، بی جا، دار احیاء الکتب العربیہ، 1378 ہجری۔
  • ابن جوزی، یوسف بن قزاوغلی، تذکرہ الخواص، قم، محمع جہانی اہلبیت، 1426 ہجری۔
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دار صادر، بی‌تا.
  • ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، قم، علامہ، 1379 ہجری۔
  • ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینہ دمشق، تحقیق علی شیری، بیروت، دار الفکر، 1415 ہجری۔
  • ابن عنبہ، احمد بن علی، عمدہ الطالب فی انساب آل ابی طالب، نجف، المطبعہ الحیدریہ، 1380 ہجری۔
  • ابن قتیبہ، محمد، المعارف، قاہرہ، دار المعارف، بی‌تا.
  • ابن کثیر، ابو الفداء اسماعیل، البدایہ و النہایہ، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1408 ہجری۔
  • ابن ہشام، محمد بن عبد الملک، السیرہ النبویہ، تحقیق محی الدین عبد الحمید، قاہرہ، مکتبہ صبیح، 1383 ہجری۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، بیروت، دار الفکر، 1420 ہجری۔
  • بیہقی، ابوبکر، دلائل النبوہ، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1405 ہجری۔
  • ترمذی، محمد بن عیسی، سنن ترمذی، تصحیح عبد الوہاب عبد اللطیف، بیروت، دار الفکر، 1403 ہجری۔
  • خاتون آبادی، جنات الخلود، مصطفوی، قم، 1363ہجری شمسی۔
  • قمی، عباس، الکنی و الالقاب، تہران، مکتبۃ الصدر، بی‌تا.
  • علامہ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، مؤسسہ الوفاء، 1403 ہجری۔
  • شیخ مفید، محمد بن نعمان، ایمان ابی طالب، بیروت، دار المفید، 1414 ہجری۔
  • مقریزی، احمد بن علی، امتاع الاسماع، تحقیق عبد الحمید النمیسی، بیروت، دار الکتب، 1420 ہجری۔
  • نسایی، احمد بن شعیب، سنن نسایی، بیروت، دار الفکر، 1348 ہجری۔
  • یعقوبی، ابن واضح، تاریخ یعقوبی، نجف، المکتبہ الحیدریہ، 1384 ہجری۔
  • فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین و بصیرۃ المتعظین (طبع قدیم)۔
  • سید شمس الدین فِخار بن مَعَدّ موسوی، (متوفٰی 630 ہجری) الحجۃ على الذاہب إلى تكفير ابي طالب۔
  • على بن محمد الشيباني المعروف بابن الاثير، اسد الغابۃ في معرفۃ الصحابۃ۔
  • العسقلاني، أحمد بن علي بن حجر، المتوفى سنۃ 852، الاصابۃ في تميز الصحابۃ۔