مہاجرین انصار کے مقابلے میں ان مسلمانوں کو کہا جاتا ہے جنہوں نے مسلمان ہونے کے بعد مشرکین مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر رسول خدا کے حکم سے مکہ سے مدینہ ہجرت کی۔ مہاجرین نے اپنی ہجرت کے ذریعے اسلام کی ترویج میں بہت بڑا کردار ادا کیا اور اس راہ میں بہت سختیاں برداشت کی جس کی بنا پر رسول خداؐ ان پر زیادہ توجہ دیتے تھے اور قرآن میں بھی ان کو نیکی کے ساتھ یاد کیا گیا ہے۔

ظہور اسلام سے پہلے اہل مکہ اور اہل مدینہ کے درمیان دشمنی اور جنگ و جدال تھی جو پیغمبر اکرمؐ کی ہجرت اور مہاجرین و انصار کے درمیان عقد اخوت قائم کرنے کے بعد ختم ہو گئی۔ لیکن پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد یہ دشمنی انصار اور مہاجرین کے درمیان دوبارہ شروع ہو گئی اور بنی امیہ کے دور حکومت تک جاری رہی۔ سقیفہ بنی ساعدہ کا واقعہ مہاجرین و انصار کے درمیان دشمنی کی واضح مثال ہے جس میں مہاجرین کی حمایت سے حضرت ابوبکر خلافت پر پہنچ گئے۔

امام علیؑ، حضرت فاطمہ(س)، ابوسلمہ، ام‌سلمہ، حمزۃ بن عبدالمطلب اور خلفائے ثلاثہ مشہور مہاجرین میں سے ہیں۔

مفہوم‌ شناسی

مہاجرین ان مسلمانوں کو کہا جاتا ہے جو اسلام لانے کے بعد مشرکین مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آکر پیغمبر اکرمؐ کے حکم سے مکہ سے مدینہ ہجرت کی۔[1] مہاجرین کے مقابلے میں مسلمانان مدینہ جو پیغمبراکرمؐ کی نصرت کے لئے تیار ہوئے،[2] انصار کہا جاتا ہے۔[3]

مہاجرین کا عنوان ان تمام مسلمانوں پر اطلاق ہوتا ہے جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے مدینہ ہجرت کی؛ لیکن صلح حدیبیہ سے پہلے مدینہ جانے والوں کا مقام دوسروں سے بلند ہے۔[4]

مقام و منزلت

مفسر قرآن اور مرجع تقلید آیت اللہ مکارم شیرازی کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کے نزدیک مہاجرین کا بہت بلند مقام تھا؛ کیونکہ انہوں نے اپنی ساری دولت اسلام کی راہ میں خرچ کی اور مکہ سے مدینہ اپنی ہجرت کے ذریعے دنیا کو اسلام سے روشناس کیا۔[5]

ہجرت قرآن کی نظر میں

إِنَّ الَّذينَ آمَنُوا وَ هاجَرُوا وَ جاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَ أَنْفُسِهِمْ في‏ سَبيلِ اللَّهِ وَ الَّذينَ آوَوْا وَ نَصَرُوا أُولئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِياءُ بَعْضٍ وَ الَّذينَ آمَنُوا وَ لَمْ يُهاجِرُوا ما لَكُمْ مِنْ وَلايَتِهِمْ مِنْ شَيْ‏ءٍ حَتَّى يُهاجِرُوا وَ إِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلاَّ عَلى‏ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَ بَيْنَهُمْ ميثاقٌ وَ اللَّهُ بِما تَعْمَلُونَ بَصيرٌ؛ [؟؟]ترجمہ= یقینا جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنے مال و جان سے جہاد کیا اور جنہوں نے مہاجرین کو پناہ دی اور امداد کی یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے حامی و مددگار ہیں۔ اور وہ لوگ جو ایمان تو لائے مگر ہجرت نہیں کی تو ان سے تمہارا ولایت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہاں تک کہ ہجرت کریں۔ اور اگر وہ کسی دینی معاملہ میں تم سے مدد چاہیں تو تم پر (ان کی) مدد کرنا فرض ہے۔ سوا اس صورت کے کہ یہ مدد اس قوم کے خلاف مانگیں جس سے تمہارا معاہدۂ امن ہو۔ اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اسے دیکھنے والا ہے۔

سورہ انفال، آیہ 72

قرآن میں 24 بار لفظ ہجرت یا اس کے مشتقات کے ذریعے مہاجرین کا تذکرہ ہوا ہے۔[6] قرآن میں مہاجرین کو مجاہدین کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے[7] صبر اور توکل[8] جیسے صفات کے ساتھ ان کی مدح کی گئی ہے[9] اور انہیں حقیقی مؤمن[10] قرار دیا ہے جنہوں نے اپنی ہجرت کے ساتھ اپنے ایمان کو ثابت کئے ہیں۔[11] قرآن کریم میں گناہوں کی بخشش[12] اور بہشت میں داخل ہونا ان کی جزا کے طور پر بیان ہوا ہے۔[13] البتہ شیعہ علماء کے مطابق مذکورہ آیات کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صفات مہاجرین میں سے بعض کے لئے ثابت ہیں[14] جو خدا اور اس کے رسولؐ کے ساتھ کئے ہوئے عہد و پیمان پر باقی رہے نہ تمام مہاجرین کے لئے۔[15]

پہلی صدیوں میں مہاجر ہونا باعث فخر سمجھا جاتا تھا؛ عمر بن خطاب بیت‌المال کی تقسیم میں مہاجرین کو اسلام لانے میں پہل کرنے کی وجہ سے زیادہ حصہ دیا کرتا تھا[16] اور اپنے بعد خلیفہ منتخب کرنے کے لئے بنائی گئی چھ رکنی کمیٹی کے اعضاء کو مہاجرین میں سے منتخب کیا؛[17] اگرچہ ان پر نظارت کرنے کی ذمہ داری انصار کو سونپ دی تھی۔[18]

اولین مہاجرین

پیغمبر اکرمؐ نے مدینہ ہجرت کرنے سے پہلے اصحاب کو مدینہ کی طرف حرکت کرنے کا حکم دیا۔[19] علی بن حسین مسعودی کے مطابق پیغمبر سے پہلے مدینہ میں داخل ہونے والے مسلمانوں میں سے بعض کے اسامی یہ ہیں: عبداللہ بن عبدالاسد، عامر بن ربیعہ، عبداللہ بن جحش، عمر بن خطاب اور عیاش بن ابی‌ربیعہ۔[20] تیسری صدی ہجری کے تاریخ دان احمد بن یحیی بلاذری اولین مہاجرین کو مصعب بن عمیر اور ابن ام‌مکتوم قرار دیتے ہیں جو عبداللہ بن عبدالاسد سے بھی پہلے مدینہ میں داخل ہوئے تھے۔[21] ان کے مطابق مصعب بن عمیر بیعت عقبہ کے بعد پیغمبر اکرمؐ کی جانب سے بعثت کے بارہویں سال دین اسلام کی تبلیغ کے لئے مدینہ اعزام ہوئے تھے۔[22]

مشرکین مکہ کا مہاجرین کے ساتھ برتاؤ

تاریخی شواہد کے مطابق مشرکین مکہ مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کرنے سے باز رکھنے کے لئے مختلف حربے استعمال کرتے تھے؛ بعض مسلمانوں کو زندانوں میں قید کر کے رکھے گئے اور بعض مہاجرین کے خاندانوں کو ان کے نزدیک جانے سے روکتے تھے بطور مثال ام‌سلمہ، ابوسلمہ کی بیوی اور اس کے فرزند کو مدینہ جانے سے روک دیا گیا۔[23] اسی طرح صہیب رومی کو ان کے تمام اموال کے مقابلے میں مدینہ جانے کی اجازت دی گئی۔[24]

اسی طرح بعض مہاجرین کے بیوی بچے بھی رو رو کر ان کے شوہروں اور والد کو مدینہ ہجرت کرنے سے روکتے تھے؛ چھٹی صدی ہجری کے شیعہ مفسر فضل بن حسن طبرسی ابن‌عباس اور مجاہد سے نقل کرتے ہیں کہ آیہ: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ[؟؟][25] اسی سلسلے میں نازل ہوئی ہے۔[26]

انصار کی طرف سے مہاجرین کی حمایت

پیغمبر اکرمؐ نے ہجرت کے بعد مہاجرین اور انصار کے درمیان عقد اخوت جاری فرمایا۔[27] مشہور کے مطابق اس عہد و پیمان میں 45 مہاجرین اور 45 انصار حاضر تھے۔[28]

پیغمبر اکرمؐ نے بوبکر اور خارجۃ بن زید انصاری، عمر بن خطاب اور عتبان بن مالک انصاری خزرجی، عثمان بن عفان اور اوس بن ثابت خزرجی، ابوعُبیدہ جَرّاح اور سعد بن معاذ، عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن ربیع، طلحۃ بن عبیداللہ اور کعب بن مالک، زبیر بن عوام اور سلمۃ بن سلام، سلمان فارسی اور ابودرداء، عمار بن یاسر اور حذیفۃ بن نجار یا ایک قول کی بنا پر ثابت بن قیس و... کے درمیان عقد اخوت جاری فرمایا۔[29] اسی طرح حضورؐ نے اپنے آپ اور حضرت علیؑ کے درمیان عقد اخوت جاری فرمایا۔[30]

انصار نے مہاجرین کی مادی معاونت کی چونکہ مہاحرین اپنے اموال کو مکہ چھوڑ آئے تھے، یہاں تک کہ ہجرت کے چوتھے سال پیغمبر اکرمؐ نے غزوہ بنی‌نضیر سے حاصل ہونے والے غنائم کو انصار کی موافقت کے ساتھ مہاجرین کے درمیان تقسیم فرمائی یوں انصار کی طرف سے مہاجرین کی مالی مدد کی ضرورت ختم ہو گئی۔[31]

مہاجرین اور انصار کے درمیان رقابت

کتاب "المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام" کے مصنف جواد علی کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی مدینہ ہجرت سے پہلے اہل یثرب اور اہل مکہ کے درمیان دشمنی تھی جو پیغمبر اکرمؐ کی ہجرت اور مہاجرین و انصار کے درمیان عقد اخوت منعقد کرنے کے بعد ختم ہو گئی تھی لیکن یہ دشمنی پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد مہاجر و انصار کی شکل میں دوبارہ آشکار ہوئی؛ چنانچہ حسان بن ثابت، نعمان بن بشیر اور طرماح بن حکیم نے اپنے اشعار میں اس چیز کی طرف اشارہ کئے ہیں۔[32] مہاجرین اس اعتبار سے کہ پیغمبر اکرمؐ ان میں سے تھے اور انصار اس اعتبار سے کہ پیغمبر اکرمؐ کی حمایت کی اور مادر پیغمبر اکرمؐ بنی‌نجار اور اہل مدینہ میں سے تھیں ایک دوسرے پر فخر کرتے تھے۔[33]

جواد علی کے بقول مہاجر و انصار کے درمیان نزاع اور دشمنی معاویۃ بن ابی‌سفیان اور یزید بن معاویہ کے دور میں بھی تھی؛ اگرچہ اس وقت مہاجر و انصار کی اصطلاح کم اور قریشی و یمنی جیسے اصطلاحات زیادہ استعمال کی جاتی تھی۔[34]

تاریخی شواہد کے مطابق واقعہ سقیفہ مہاجر و انصار کی رقابت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔[35] حضرت ابوبکر کی بیعت کے دوران حباب بن منذر جو کہ انصار میں سے تھا نے مہاجرین کو تلوار دکھائی اور حضرت عمر نے سعد بن عبادہ کو جوکہ انصار کے بزرگان میں سے تھا، منافق کہہ کر پکارا۔[36]

سقیفہ میں مہاجرین کا کردار

پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد انصار کا ایک گروہ سعد بن عبادہ کو خلیفہ منتخب کرنے کے لئے سقیفہ بنی‌ساعدہ میں جمع ہو گئے لیکن مہاجرین خاص کر حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور ابوعبیدہ جراح کا ان میں اضافہ ہونے کے بعد بحث مباحیہ اور جگڑا شروع ہوا؛[37] ابوبکر نے اپنی گفتگو میں مہاجرین کو انصار پر برتری دیتے ہوئے خلافت کے لئے انہیں شایستہ قرار دیا،[38] حباب بن منذر نے ایک امیر انصار سے اور ایک امیر مہاجرین میں سے انتخاب کرنے کی تجویز دی جسے عمر بن خطاب نے ٹھکرا دیا اور ابوبکر، عمر اور ابوعبیدہ جراح کو خلافت کے لئے پیش کیا، لیکن عمر اور ابوعبیدہ نے قبول نہیں کیا اور ابوبکر کے فضائل بیان کرتے ہوئے انہیں خلافت کے لئے شائستہ قرار دیتے ہوئے ان کی بیعت کی۔[39] اس کے بعد قبیلہ بنی‌اسلم جو مہاجرین کے ساتھ وابستہ تھا، مدینہ میں داخل ہو کر ابوبکر کی بیعت کی۔[40]

ممتاز اور برجستہ مہاجرین

بعض برجستہ اور ممتاز شخصیات جو پیغمبر اکرمؐ کے حکم پر مکہ سے مدینہ مہاجرت کی درج ذیل ہیں:

  • امام علیؑ آپ شیعوں کے پہلے امام اور پیغمبر اکرمؐ کے جانشین ہیں۔ آپ لیلۃ المبیت (شب ہجرت پیغمبر اکرمؐ) پیغمبر اکرمؐ کی جگہ سویے تاکہ مشرکین یہ گمان کریں کہ پیغمبر اکرمؐ ابھی تک مکہ سے خارج نہیں ہوئے ہیں۔[41] اسی طرح آپ پیغمبر اکرمؐ کی جانب سے لوگوں کے امانات جو پیغمبر اکرمؐ کے پاس تھیں، کو ان کے مالکوں تک پہنچانے پر مأمور ہوئے اور تین دن کے بعد مدینے کی طرف حرکت کی۔[42]
  • حضرت فاطمہ(س)، پیغمبر اکرمؐ کی اکلوتی بیٹی سنہ 2 ہجری کو امام علیؑ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔[43] آپ اور دیگر کئی خواتین من جملہ فاطمہ بنت اسد امام علیؑ کی سرپرستی میں پیغمبر اکرمؐ کی مدینہ ہجرت کے 3 دن بعد مدینہ کی طرف ہجرت کی۔[44]
  • ام‌سلمہ، جو اس وقت عبداللہ بن عبدالاسد کی زوجیت میں تھی، کو ان کے قبیلہ والوں نے کچھ مدت ہجرت سے باز رکھا، اپنے شوہر کے ساتھ مدینہ ہجرت کی۔ آپ نے ابوسلمہ کی شہادت کے بعد پیغمبر اکرمؐ کی زوجیت اختیار کی۔[45]
  • حضرت ابوبکر جنہوں نے پیغمبر اکرمؐ کے سانھ مدینہ ہجرت کی اور آپؐ کے ساتھ غار ثور میں پناہ لیا۔[46] پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد مسلمانوں کا خلیفہ منتخب ہوا اس بنا پر اہل سنت کے نزدیک آپ مسلمانوں کا پہلا خلیفہ ہیں، لیکن شیعہ ان کی خلافت کو قبول نہیں کرتے اور وہ اس بات کے معتقد ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ نے اپنی زندگی میں امام علیؑ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا تھا۔[47]

عمر بن خطاب (خلیفہ دوم)،[48] عثمان بن عفان (خلیفہ سوم)، حمزۃ بن عبدالمطلب پیغمبر اکرمؐ کے چچا، عثمان بن مظعون، ابوحذیفہ، مقداد بن عمرو، ابوذر غفاری و عبداللہ بن مسعود نیز مہاجرین میں سے تھے۔ اسی طرح زینب بنت پیغمبر اکرمؐ، ام‌کلثوم بنت پیغمبر اکرمؐ، رقیہ بنت پیغمبر اکرمؐ، فاطمہ بنت اسد، ام‌ایمن، عائشہ، زینب بنت جحش اور سودہ بنت زمعۃ بن قیس مہاجر خواتین میں سے تھیں۔

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج۹، ص۸۵؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۵۹م، ج۱، ص۲۵۷۔
  2. مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج۹، ص۱۶۹۔
  3. مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج۹، ص۸۲۔
  4. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۷، ص۲۶۱-۲۶۲۔
  5. مکارم شیرازی، الامثل، ۱۴۲۱ق، ج۸، ص۱۹۴۔
  6. جعفری، تفسیر کوثر، ۱۳۷۶ش، ج۲، ص۵۳۶۔
  7. نمونے کے لئے ملاحظہ کریں: سورہ انفال، آیہ۷۲-۷۵؛ سورہ بقرہ، آیہ۲۱۸۔
  8. سورہ نحل، آیہ ۴۲۔
  9. مکارم شیرازی، الامثل، ۱۴۲۱ق، ج۸، ص۹۵۔
  10. سورہ انفال، آیہ ۷۴۔
  11. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۴۹۹۔
  12. سورہ بقرہ، آیہ ۲۱۸؛ سورہ انفال، آیہ ۷۴۔
  13. سورہ آل عمران، آيہ ۱۹۵۔
  14. ملاحظہ کریں: علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۹، ص۳۷۴؛ سبحانی، الالہیات، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۴۴۵۔
  15. ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی، ج۹، ص۳۲۹۔
  16. ملاحظہ کریں:‌ ابن‌سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۳، ص۲۱۴۔
  17. ملاحظہ کریں: یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۱۶۰۔
  18. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۱۶۰۔
  19. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۳۶۹۔
  20. مسعودی، التنبیہ و الاشراف، دار الصاوی، ص۲۰۰۔
  21. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۵۹م، ج۱، ص۲۵۷۔
  22. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۵۹م، ج۱، ص۲۵۷۔
  23. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۵۹م، ج۱، ص۲۵۸-۲۵۹؛ ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دارالمعرفہ، ج۱، ص۴۶۹۔
  24. ابن‌اثیر، أسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۴۱۹۔
  25. سورہ تغابن، آیہ ۱۴۔
  26. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۴۵۱۔
  27. ملاحظہ کریں: عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، ۱۴۲۶ق، ج۵، ص۹۹۔
  28. ملاحظہ کریں: عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، ۱۴۲۶ق، ج۵، ص۱۰۱؛ مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج۱، ص۶۹۔
  29. دیار بکری، تاریخ الخمیس، دار صادر، ج۱، ص۳۵۳۔
  30. ملاحظہ کریں: عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، ۱۴۲۶ق، ج۵، ص۱۰۳۔
  31. مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج۱، ص۱۹۱-۱۹۲۔
  32. علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ۱۴۲۲ق، ۱۴ق، ج۲، ص۱۳۴۔
  33. علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ۱۴۲۲ق، ج۲، ص۱۳۶۔
  34. علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ۱۴۲۲ق، ج۲، ص۱۳۴-۱۳۶۔
  35. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۲۲۰-۲۲۱۔
  36. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۲۲۰-۲۲۱۔
  37. ابن‌اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ق، ج۲، ص۳۲۵۔
  38. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۲۱۹-۲۲۰۔
  39. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۲۲۰-۲۲۱۔
  40. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۲۰۵۔
  41. مسعودی، التنبیہ و الاشراف، دار الصاوی، ص۲۰۰۔
  42. مسعودی، التنبیہ و الاشراف، دار الصاوی، ص۲۰۰۔
  43. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۴۱۰۔
  44. ابن‌شہرآشوب، مناقب، ۱۳۷۹ق، ج۱، ص۱۸۳۔
  45. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دارالمعرفہ، ج۱، ص۴۶۹۔
  46. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۲۷۳-۲۷۴۔
  47. برای نمونہ: مظفر، السقیفۃ، ۱۴۱۵ق، ص۶۰-۶۵۔
  48. مسعودی، التنبیہ و الاشراف، دار الصاوی، ص۲۰۰۔

مآخذ

  • قرآن۔
  • ابن‌اثیر، علی بن محمد، اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، بیروت، دارالفکر، ۱۹۸۹م/۱۴۰۹ق۔
  • ابن‌اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، ۱۳۸۵ق/۱۹۶۵م۔
  • ابن‌سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۹۹۰م/۱۴۱۰ق۔
  • ابن‌شہرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، علامہ، قم، ۱۳۷۹ق۔
  • ابن‌ہشام، عبدالملک بن ہشام، السیرۃ النبویۃ، تحقیق مصطفی السقا و ابراہیم الابیاری و عبدالحفیظ شبلی، بیروت، دارالمعرفہ، بی‌تا۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف(ج۱)، تحقیق محمد حمیداللہ، مصر، دارالمعارف، ۱۹۵۹م۔
  • جعفری، یعقوب، تفسیر کوثر، قم، مؤسسہ انتشارات ہجرت، ۱۳۷۶ش۔
  • دیار بکری، حسین بن محمد، تاریخ الخمیس فی أحوال أنفس النفیس، بیروت،‌ دار صادر، بی‌تا۔
  • سبحانی، جعفر، الالہیات علی ہدی الکتاب و السنہ و العقل، قم، المرکز العالمی للدراسات الاسلامیہ، ۱۴۱۲ق۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، تحقیق احمد قصیر عاملی، مقدمہ آقابزرگ تہرانی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۷ق۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ محمدجواد بلاغی، تہران، ناصرخسرو، ۱۳۷۲ش۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، دار التراث، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷م۔
  • عاملی، جعفر مرتضی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، مؤسسہ علمی فرہنگی دارالحدیث، ۱۴۲۶ق/۱۳۸۵ش۔
  • علی، جواد، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، دارالساقی، ۱۴۲۲ق/۲۰۰۱م۔
  • مسعودی، علی بن حسین، التنبیہ و الاشراف، تصحیح عبداللہ اسماعیل الصاوی، قاہرہ، دارالصاوی، بی‌تا۔(قم، مؤسسۃ نشر المنابع الثاقۃ الاسلامیۃ)
  • مظفر، محمدرضا، السقیفہ، تحقیق محمود مظفر، قم، مؤسسہ انتشارات انصاریان، ۱۴۱۵ق۔
  • مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، بورسعید، مکتبۃ الثقافۃ الدینیہ، بی‌تا۔
  • مقریزی، احمد بن علی، امتاع الاسماع بما للنبی من الاحوال و الاموال و الحفدۃ و المتاع، تحقیق محمد عبدالحمید النسیمی، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۲۰ق/۱۹۹۹م۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، الامثل فی تفسیر کتاب‌اللہ المنزل، قم، مدرسہ امام علی بن ابی‌طالب، ۱۴۲۱ق۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب العلمیہ، ۱۳۷۴ش۔
  • یعقوبی، احمد بن ابی‌یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، بی‌تا۔