فدک

ویکی شیعہ سے
مدینہ کے شمال میں فدک کا علاقہ

فدک سعودی عرب کے شہر حجاز کے نزدیک خیبر کے پاس ایک وسیع سر سبز اور باغات پر مشتمل علاقے کا نام ہے۔ یہاں یہودی بستے تھے۔ فدک کا علاقہ جنگ کے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ آگیا۔ رسول اللہ نے «وَآتِ ذَا الْقُرْ‌بَیٰ حَقَّهُ؛ اور اپنے رشتہ داروں کو حق دو» نازل ہونے کے بعد اسے اپنی بیٹی فاطمہ زہراؑ کو دیدیا۔

رسول اکرم کے وصال کے فورا بعد اس کی ملکیت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اور حضرت ابوبکر کے درمیان محل نزاع قرار پائی جو واقعہ فدک سے مشہور ہے۔ خلیفہ اول نے فدک کو حضرت فاطمہؑ سے چھین کر خلافت کے نام کر دیا اور حضرت فاطمہ نے اس پر اعتراض کیا۔ یہ علاقہ خلفائے راشدین کے زمانے کے علاوہ بنی امیہ اور بنی عباس کے دور حکومت میں بھی بیت المال میں باقی رہا۔ البتہ اموی اور عباسی حکومت کے بعض ادوار میں یہ علاقہ حضرت فاطمہؑ کی اولاد کے حوالے کیا گیا۔ اگرچہ بعد کے خلیفوں نے دوبارہ اسے چھین لیا۔ فدک کا علاقہ سعودی عرب کے صوبہ حائل میں واقع ہے جو وادئ فاطمہ کے نام سے جانا جاتا ہے وہاں کے نخلستان کو باغ فاطمہ، مسجد کو مسجد فاطمہ اور وہاں کے کنوؤں کو عیون فاطمہ کا نام دیا جاتا ہے۔

محل وقوع اور تاریخ اہمیت

فدک کے باغات کا ایک منظر

فدک منطقہ حجاز میں[1] مدینہ سے تقریبا 200 کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔[2] فدک میں صدر اسلام کے دور میں یہودی آباد تھے[3] جنگ خیبر میں یہ علاقہ جنگ کے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ آگیا[4] اور پیغمبر اکرمؐ نے حضرت فاطمہؑ کو دیدیا۔[5] پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد فدک کی ملکیت پر اختلاف ہوا جس کے سبب شیعہ اور سنی علما نے بہت کچھ اس بارے میں لکھ دیا[6] اس حوالے سے مستقل کچھ کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔[7] اسی طرح مختلف ادوار میں حکمرانوں کے مختلف عکس العمل کا بھی سامنا رہا ہے۔[8]

فدک کی قدر و قیمت

ظہور اسلام کے وقت فدک باغات اور نخلستانوں پر مشتمل تھا۔ [9] ابن‌ ابی‌ الحدید معتزلی (متوفی: 656ھ) کسی شیعہ عالم سے نقل کرتے ہیں کہ یہاں کی نخلستان میں موجود کھجوروں کی درختوں کی قیمت شہر کوفہ جو کھجوروں سے منافع لینے کے حوالے سے ایک غنی شہر محسوب کیا جاتا تھا، کے مساوی سمجھی جاتی تھی۔[10] کہا جاتا ہے کہ عمر کے دور تک فدک میں یہودی بستے تھے؛ لیکن جس وقت انھوں نے یہودیوں کو حجاز ترک کرنے پر مجبور کیا۔[11] اور جب خلیفہ دوم نے یہودیوں کو حجاز سے باہر کردیا تو فدک میں موجود نصف درختوں کے مقابلے میں یہودیوں کو 50 ہزار درہم ادا کیا۔[12] بعض مآخذ، پیغمر اکرمؐ کے زمانے میں فدک کی سالانہ آمدنی کو 24 ہزار دینار[13] سے 70 ہزار دینار تک کا اندازہ لگایا گیا ہے۔[14]

فدک پر مسلمانوں کا قبضہ

تاریخ فدک
شعبان سنہ 6ھ امام علیؑ کا فدک پر حملہ[15]
صفر سنہ 7ھ فتح خیبر[16]
صفر یا ربیع الاول سنہ 7ھ یہودیوں کی طرف سے فدک کا پیغمبر اکرمؐ کو دے دینا
سنہ 7ھ فدک کا حضرت فاطمہ زہراؑ کو بخش دینا
ربیع الاول سنہ11ق ابوبکر کے حکم سے فدک پر قبضہ
تقریبا 30ھ عثمان کی طرف سے فدک کو مروان کو دے دینا [17]
سنہ 40ھ معاویہ کی طرف سے مروان، عمرو بن عثمان اور یزید میں تقسیم کرنا[18]
تقریبا 100ھ عمر بن عبدالعزیز کے توسط سے حضرت فاطمہ کی اولاد کی ملکیت میں آنا
سنہ 101ھ یزید بن عبدالملک کے توسط سے دوبارہ غصب ہونا
تقریبا سنہ ۱۳۲ سے ۱۳۶ تک سفاح کے توسط سے دوباہ لوٹایا جانا[19]
تقریبا سنہ 140 ھ منصور عباسی کے توسط سے دوبارہ غصب ہونا[20]
تقریبا 160ھ مہدی عباسی کے حکم سے دوبارہ واپس لوٹایا جانا[21]
تقریبا 170 ھ ہادی عباسی کے توسط سے دوبارہ غصب ہونا
سنہ 210ھ مامون عباسی کے توسط سے دوبارہ لوٹایا جانا [22]
(۲۳۲-۲۴۷) متوکل عباسی کے توسط سے دوبارہ غصب ہونا[23]
سنہ 248ھ منتصر عباسی کے توسط سے دوبارہ لوٹایا جانا[24]

جنگ خیبر میں مسلمانوں کے ہاتھوں منطقہ خیبر کا علاقہ اور اس کا قلعہ‌ فتح ہوا تو اس علاقے اور قلعے میں رہنے والے یہودیوں نے پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں اپنا نمائندہ بھیجا اور ہتھیار ڈالنے اور مصالحت پر رضامندی کا اظہار کیا۔ یوں یہودیوں کے ساتھ یہ طے پایا کہ وہ اس علاقے کی نصف زمین بطور مصالحت مسلمانوں کے حوالے کر دے گا اور یوں فدک جنگ کے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ آگیا۔[25] آیہ فیء کے تحت [یادداشت 1] جنگ کے بغیر ہاتھ آنے والی زمین فئ کہلاتی ہے جس کا اختیار پیغمبر اکرمؐ کو ہے کہ جس کو چاہے یہ اموال دے سکتا ہے۔[26] اہل تشیع[27] اور اہل سنت [28] کے مآخذ کے مطابق آیت "وَآتِ ذَا الْقُرْ‌بَیٰ حَقَّه (ترجمہ: اور دیکھو قرابتداروں کو اس کا حق دے دو)[29] کے نازل ہونے کی بعد پیغمبر اکرمؐ نے فدک حضرت فاطمہؑ کو بخش دیا۔

فدک کی ملکیت کا تنازعہ

پیغمبر اکرمؐ کی وصال کے بعد فدک کی مالکیت پر تنازعہ کھڑ ا ہوا۔ اس واقعہ میں ابوبکر نے فدک کو حضرت فاطمہؑ سے چھین کر خلافت کے قبضے میں لے لیا۔[30] ابوبکر کی استدلال پیغمبر اکرمؐ یہ تھی کہ انبیاء ارث نہیں چھوڑتے ہیں اور ان کا دعوا تھا کہ یہ پیغمبر اکرمؐ سے سنا ہے۔[31] لیکن حضرت فاطمہؑ نے خطبہ فدکیہ میں ابوبکر کی اس بات کو قرآن کے منافی قرار دیا[32] اور امام علیؑ اور اُم‌اَیمن کو بطور گواہ پیش کیا کہ پیغمبر اکرمؐ نے اپنی وصال سے پہلے اسے آپؑ کو بخش دیا ہے۔[33] ابوبکر نے حضرت فاطمہؑ کی بات قبول کرتے ہوئے ایک سند تحریر کیا تاکہ کوئی اور فدک کو غصب نہ کر سکے لیکن جب فاطمہؑ مجلس سے باہر تشریف لے گئیں تو عمر بن خطاب نے وہ کاغذ اٹھا لیا اور پھاڑ دیا۔[34] امام علیؑ کے درج کردہ مقدمے کو بے نتیجہ پا کر حضرت فاطمہؑ مسجد تشریف لے گئی اور ایک خطبہ دیا جو خطبہ فدکیہ کے نام سے مشہور ہے۔[35]

اموی اور عباسی حکومت میں بھی فدک خُلفا کے پاس رہا۔ البتہ بعض خلفا جیسے عمر بن عبدالعزیز اموی،[36] سَفّاح[37] اور مأمون عباسی[38] نے اسے حضرفت فاطمہ کی اولاد کو واپس کیا۔ متوکل عباسی (حکومت: 232-247ق) نے مأمون سے پہلے کی حالت پر واپس لانے کا حکم دیا۔[39]

فدک کی موجودہ حالت

موجودہ دور میں فدک سعودیہ عربیہ کے "حائل" نامی صوبے میں واقع ہے۔ اس علاقے میں الحائط نامی کوئی شہر بنا ہے۔[40] فدک کا علاقہ وادئ فاطمہ کے نام سے جانا جاتا ہے وہاں کے نخلستان کو باغ فاطمہ، مسجد کو مسجد فاطمہ اور وہاں کے کنوؤں کو عیون فاطمہ کا نام دیا جاتا ہے۔[41] اس علاقے میں موجود عمارتیں اور گھر ویران ہوکر خرابے کی شکل اختیار کر چکے ہیں اور نخلستان میں موجود اکثر کھجور کے درخت بھی سوکھ چکے ہیں۔ [42] سنہ 1387ش میں ایرانی معروف سیاستدان اکبر ہاشمی رفسنجانی ایک وفد کے ہمراہ فدک دیکھنے وہاں چلے گئے۔[43]

مونوگراف

فدک کے بارے میں لکھی جانے والی بعض کتابیں درج ذیل ہیں:

متعلقہ مضامین

واقعہ فدک

فوٹو گیلری

حوالہ جات

  1. یاقوت حموی، معجم البلدان، 1995ء، ج4، ص238
  2. google maps
  3. بلادی، معجم معالم الحجاز، 1431ھ، ج2، ص206 و 205 و ج7، ص23.
  4. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج3، ص15.
  5. سیوطی، الدر المنثور، دار المعرفة، ج5، ص273.
  6. ملاحظہ کریں: مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج29، ص124-125؛ سبحانی، فروغ ولایت، 1380شمسی، ص219؛ طبرسی، الاحتجاج،‌ 1403ھ، ج1،‌ ص107، 108؛ فخر رازی، مفاتیح الغیب، 1420ھ، ج29، ص506؛ ابن‌ابی‌الحدید، شرح نهج‌البلاغه، 1404ھ، ج16، ص284؛ بخاری، صحیح بخاری، 1422ھ، ج4، ص79.
  7. ملاحظہ کریں صدر، فدک فی التاریخ، 1415ق؛ حسینی میلانی، فدک در فراز و نشیب، 1386ش؛ حسنی، فدک و بازتاب‌های تاریخی و سیاسی، 1372ہجری شمسی۔
  8. ابن‌عساکر، تاریخ مدینة دمشق، 1415ھ، ج45، ص178، 179؛ بلاذری، فتوح البلدان، 1956ء، ص37، 38، 41؛ علامہ حلی، نهج الحق، 1982ء، ص357.
  9. یاقوت حموی، معجم البلدان، ج4، ص238؛ ابن منظور، لسان العرب، 1410ھ، ج10، ص437.
  10. ابن ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1387ھ، ج16، ص236.
  11. مرجانی، بهجة النفوس، 2002ء، ج1، ص438.
  12. جوہری بصری، السقیفۃ و فدک، 1401ھ، ص98.
  13. قطب راوندی، الخرائج و الجرائح، 1409ھ، ج1، ص113.
  14. ابن طاووس، کشف المحجۃ لثمرۃ المہجۃ، 1370ھ، ص124.
  15. طبری، تاريخ الأمم و الملوك، [بی‌تا]، ج۲، ص۶۴۲
  16. ابن ہشام، السيرۃ النبويۃ، ج‏۲، ص۳۴۱
  17. مقريزي، إمتاع الأسماع، ج۱۳، ص۱۴۹
  18. ابن ابی الحدید، ج۱۶، ص۲۱۶
  19. علامہ حلی، نہج الحق و کشف الصدق، ص۳۵۷.
  20. محسن امين، أعيان الشيعۃ، ج۱، ص۳۱۸
  21. علامہ حلی، نہج الحق و کشف الصدق، ص۳۵۷.
  22. بلاذری، فتوح البلدان، ج۱، ص۳۷
  23. بلاذری، فتوح البلدان، ج۱، ص۳۸
  24. ابن اثير، الكامل في التاريخ، ج۷، ص۱۱۶
  25. مقریزى‏، إمتاع الأسماع، 1420ھ، ج1، ص325.
  26. فخر رازی، مفاتیح الغیب،‌ 1420ھ، ج29، ص506؛طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج19، ص203.
  27. ملاحظہ کریں: عیاشی، تفسیر عیاشی، ج2، ص287؛ کوفی، تفسیر فرات، 1410ھ، ص239، ح322؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج8، ص478؛ قمی، تفسیر قمی، 1404ھ، ج2، ص18.
  28. سیوطی، الدر المنثور، [بی‌تا]، ج2، ص158 و ج5، ص273. متقی ہندی، کنز العمال، [بی‌تا]، ج2، ص158 و ج3، ص767. ابن ابی الحدید، [بی‌تا]، شرح نہج البلاغہ، ج16، ص216. حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، 1380شمسی، ص169. قندوزی، ینابیع المودة، 1422ھ، ص138 و 359
  29. سورہ اسراء: آیت 26.
  30. شیخ مفید، المقنعۃ، 1410ھ، ص289 و 290.
  31. بلاذری، فتوح البلدان، 1956ء، ص40 و 41.
  32. طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج1، ص102.
  33. حلبی، السیرۃ الحلبیۃ، 1971ء، ج3، ص512.
  34. حلبی، السیرة الحلبیة، 1971ء، ج3، ص512.
  35. اربلی، کشف الغمة، 1421ھ، ج1، ص353-364.
  36. ابن‌عساکر، تاریخ مدینة دمشق، 1415ھ، ج45، ص178 و 179؛ بلاذری، فتوح البلدان، 1956ء، ص41.
  37. علامہ حلی، نهج الحق، 1982ء، ص357.
  38. بلاذری، فتوح البلدان، 1956ء، ج1، ص37 و 38.
  39. بلاذری، فتوح البلدان، 1956ء، ج1، ص38.
  40. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینه، 1384شمسی، ص396.
  41. مجلسی کوپائی، فدک از غصب تا تخریب، 1388شمسی، ص248 و 250.
  42. مجلسی کوپائی، فدک از غصب تا تخریب، 1388شمسی، ص248 و 278ـ282.
  43. ملاحظہ کریں: مجلسی کوپائی، فدک از غصب تا تخریب، 1388شمسی، ص28-0-286.
  44. «دغدغہ فاطمه(س) نجات میراث نبوت بود/ نگاهی تاریخی بہ خطبہ فاطمی»، خبرگزاری مهر.
  45. ملاحظہ کریں: مجلسی کوپائی، فدک از غصب تا تخریب، 1388شمسی، صفحہ شناسنامہ کتاب.
  46. ملاحظہ کریں: مجلسی کوپائی، فدک از غصب تا تخریب، 1388شمسی، ص247.

نوٹ

  1. وَمَا أَفَاءَ اللَّـه عَلَىٰ رَ‌سُولِه مِنْهمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْه مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِ‌كَابٍ وَلَـٰكِنَّ اللَّـه يُسَلِّطُ رُ‌سُلَه عَلَىٰ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّـه عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‌ ﴿٦﴾ مَّا أَفَاءَ اللَّـه عَلَىٰ رَ‌سُولِه مِنْ أَهلِ الْقُرَ‌ىٰ فَلِلَّـه وَلِلرَّ‌سُولِ وَلِذِي الْقُرْ‌بَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ ۚ وَمَا آتَاكُمُ الرَّ‌سُولُ فَخُذُوه وَمَا نَهاكُمْ عَنْه فَانتَهوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّـه ۖ إِنَّ اللَّـه شَدِيدُ الْعِقَابِ اور خدا نے جو کچھ ان کی طرف سے مال غنیمت اپنے رسول کو دلوایا ہے جس کے لئے تم نے گھوڑے یا اونٹ کے ذریعہ کوئی دوڑ دھوپ نہیں کی ہے.... لیکن اللہ اپنے رسولوں کو غلبہ عنایت کرتا ہے اور وہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے (6) تو کچھ بھی اللہ نے اہل قریہ کی طرف سے اپنے رسول کو دلوایا ہے وہ سب اللہ ,رسول اور رسول کے قرابتدار, ایتام, مساکین اور مسافران غربت زدہ کے لئے ہے تاکہ سارا مال صرف مالداروں کے درمیان گھوم پھر کر نہ رہ جائے اور جو کچھ بھی رسول تمہیں دیدے اسے لے لو اور جس چیز سے منع کردے اس سے رک جاؤ اور اللہ سے ڈرو کہ اللہ سخت عذاب کرنے والا ہے

مآخذ

  • ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، قم، کتابخانہ آیت‌اللہ مرعشی نجفی، 1404ھ۔
  • ابن‌طاووس، سیدعلی بن موسی، کشف المحجۃ لثمرۃ المہجۃ، نجف، المطبعۃ الحیدریۃ، 1370ھ۔
  • ابن‌عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینۃ دمشق، بیروت، دارالفکر، چاپ اول، 1415ھ۔
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری (الجامع المسند الصحیح المختصر من أمور رسول اللہ(ص) و سننہ و أیامہ)، تحقیق محمد زہیر بن ناصر، بیروت،‌ دار طوق النجاۃ، چاپ اول، 1422ھ۔
  • بلادی، عاتق بن غیث، معجم معالم الحجاز، دارمکہ/مؤسسہ الریان، 1431ھ،
  • بلاذری، احمد بن یحیی بن جابر، فتوح البلدان، تحقیق صلاح الدین المنجد، قاہرہ، مکتبۃ النہضۃ المصریۃ، 1956ء۔
  • جعفریان، رسول، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، تہران، مشعر، چاپ سوم، 1384ہجری شمسی۔
  • جوہری بصری، ابوبکر احمدبن عبدالعزیز، السقیفۃ و فدک، تحقیق: محمدہادی امینی، تہران، مکتبۃ النینوی الحدیثہ، 1401ھ۔
  • «دغدغہ فاطمہ(س) نجات میراث نبوت بود/ نگاہی تاریخی بہ خطبہ فاطمی»، خبرگزاری مہر، درج مطلب 9 بہمن 1398شمسی، مشاہدہ 4 تیر 1402ہجری شمسی۔
  • حسنی، علی‌اکبر، فدک و بازتاب‌ہای تاریخی و سیاسی آن، قم، کنگرہ ہزارہ شیخ مفید، 1372ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، فروغ ولایت: تاریخ تحلیلی زندگانی امیر مؤمنان علی(ع)، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، چاپ ششم، 1380ہجری شمسی۔
  • سیوطی، جلال‌الدین، الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور، بیروت، دار المعرفۃ للطباعۃ والنشر، بی‌تا.
  • شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، المقنعۃ، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، چاپ دوم 1410ھ۔
  • صدر، محمدباقر، فدک فی التاریخ، تحقیق عبدالجبار شرارۃ، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیہ، 1415ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان، انتشارات جامعہ مدرسین، قم، 1417ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، الاحتجاج على أہل اللجاج‏، تحقیق و تصحیح محمدباقر خرسان، مشہد، نشر مرتضی، چاپ اول، 1403ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصرخسرو، 1372ہجری شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، بہ تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، ط الثانیۃ، 1387ھ/1967ء۔
  • علامہ حلی، الحسن بن یوسف، نہج الحق وکشف الصدق‏، بیروت، دار الکتاب اللبنانی‏، 1982ء۔
  • عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر عیاشی، تحقیق ہاشم رسولی، تہران، مکتبۃ العلمیۃ الاسلامیۃ، چاپ اول، 1380ھ۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، داراحیاء التراث العربی، سوم، بیروت، 1420ھ۔
  • قطب راوندی، سعید بن ہبۃ اللہ، الخرائج و الجرائح، قم، مؤسسۃ الامام المہدی (عج)، 1409ھ۔
  • کوفی، فرات بن ابراہیم، تفسیر فرات، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، چاپ اول، 1410ھ۔
  • متقی ہندی، علی بن حسام‌الدین، کنز العمال فی سنن الأقوال والأفعال، تحقیق بکری حيانی و صفوۃ السقا، مؤسسہ الرسالۃ، چاپ پنجم، 1401ھ۔
  • مجلسی کوپائی، غلامحسین، فدک از غصب تا تخریب، قم، دلیل ما، 1388ہجری شمسی۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت،‌ دار أحیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • مرجانی، عبداللہ بن عبدالملک، بہجۃ النفوس و الأسرار فی تاریخ‌دار ہجرۃ النبی المختار، بیروت، دارالغرب الاسلامی، چاپ اول، 2002ء۔
  • مقریزى‏، إمتاع الأسماع بما للنبي من الأحوال و الأموال و الحفدۃ و المتاع‏، بیروت، دارالكتب العلميۃ، چاپ اول 1420ھ۔
  • حسینی میلانی، سید علی، فدک در فراز و نشیب؛ پژوہشی در مورد فدک در پاسخ بہ یک دانشور سنی، قم، الحقایق، 1386ہجری شمسی۔
  • یاقوت حموی، یاقوت بن عبداللہ، معجم البلدان، بیروت، دارصادر، چاپ دوم، 1995ء۔