مندرجات کا رخ کریں

آیت نجوا

ویکی شیعہ سے
(آیہ نجوا سے رجوع مکرر)
آیت نجوا
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامآیت نجوا
سورہمجادلہ
آیت نمبر12
پارہ28
محل نزولمدینہ
موضوعاخلاقی
مضمونپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کے ساتھ نجوا(خلوت میں گفتگو) کے لئے صدقہ ادا کرنا


آیہ نجوا یا آیہ مناجات (سورہ مجادلہ:12) میں دولتمند مسلمانوں کو مخاطب قرار دے کر انہیں حکم دیا گیا ہے کہ وہ پیغمبر اسلامؐ سے نجوا (خلوت میں گفتگو) کرنے سے پہلے خیرات دیا کریں۔ روایات کہتی ہیں کہ حضرت علیؑ کے علاوہ کسی اور مسلمان نے اس دستور پر عمل نہیں کیا۔ اسی وجہ سے بعد کی آیت میں اللہ نے مسلمانوں کی ملامت کرنے کے بعد حضورؐ سے خلوت میں گفتگو کرنے سے پہلے صدقہ دینے کے حکم کو نسخ کردیا۔

آیت اور اس کا ترجمہ

یا أَیہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا نَاجَیتُمُ الرَّ‌سُولَ فَقَدِّمُوا بَینَ یدَی نَجْوَاکمْ صَدَقَۃً ۚ ذَٰلِک خَیرٌ‌ لَّکمْ وَأَطْہَرُ‌ ۚ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِیمٌ


مومنو! جب تم پیغمبر خداؐ کے کان میں کوئی بات کہو تو بات کہنے سے پہلے (مساکین کو) کچھ خیرات دے دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہت بہتر اور پاکیزگی کی بات ہے اور اگر خیرات تم کو میسر نہ آئے تو خدا بخشنے والا مہربان ہے۔



سورہ مجادلہ: آیت 12

شان نزول

اس آیت کی شان نزول کے بارے میں آیا ہے کہ ثروتمند مسلمانوں کے کچھ گروہ پیغمبر اسلامؐ کے پاس آکر آپؐ کے ساتھ نجوا (سرگوشی) کرتے تھے۔ یہ امر فقیروں کی پیغمبر خداؐ کے ساتھ ملاقات سے محرومی کا سب بنتا تھا[1] اورخود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ بھی ان کی زیادہ باتوں سے تکلیف محسوس کرتے تھے۔ اسی وجہ سے اللہ نے آیت نجوا نازل فرمائی جس میں انہیں نجوا کرنے سے پہلے صدقہ دینے کا حکم دیا گیا۔[2] "آیت نجوا'' کو '' آیت مناجات" بھی کہا جاتا ہے۔ [3]

ابن‌ ابی‌ حاتم کی روایت کے مطابق مقاتل سے منقول ہے کہ یہ حکم دس راتوں تک نافذ رہا، لیکن اس پر عمل کرنے والے صرف امام علی علیہ‌ السلام تھے، جبکہ دوسرے لوگوں نے صدقہ دینے سے گریز کیا۔[4]

نجوا سے پہلے صدقہ کے حکم کی وجہ

شیعہ مفسر قرآن علامہ محمد حسین طباطبائی کے مطابق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کے ساتھ خصوصی گفتگو کرنے سے پہلے مالداروں کی طرف سے غریبوں کو صدقہ دینے کے عمل سے ان کے دل میں موجود کینہ کدورتیں ختم ہونے میں مدد ملتا تھا۔[5] ناصر مکارم شیرازی بھی اس حکم کو دو مثبت پہلوؤں کا حامل قرار دیتے ہیں: ایک طرف تو یہ مالداروں کے لیے انفاق کے ذریعے ثواب کمانے کا موقع تھا، اور دوسری طرف فقراء کو اس ذمہ داری سے مستثنیٰ کر کے ان کے لیے رسول خداؐ کے ساتھ آزادانہ گفتگو کا امکان فراہم کرتا تھا۔[6] اسی کے ساتھ، یہ حکم مومنین کے ایمان اور ایثار کو پرکھنے کے لیے ایک آزمائش کا کردار بھی ادا کرتا تھا۔[7]

اہل سنت مفسر قرآن فخر رازی نے بھی اس حکم کے لیے چند فوائد بیان کیے ہیں، جن میں رسول خداؐ کے مقام کی تعظیم اور طبقاتی فاصلے کو کم کر کے ایک سماجی توازن پیدا کرنا شامل ہے۔[8]

نجوا سے پہلے صدقہ ادا کرنے کے حکم کی منسوخیت

مفسرین کے مطابق آیت نجوا سورہ مجادلہ کی 13 ویں آیت کے ذریعہ نسخ ہوگئی ہے۔[9] یہ حکم مسلمانوں کے لیے ایک امتحان کے طور پر مقرر کیا گیا تھا، لیکن امام علیؑ کے سوا کسی نے اس پر عمل نہیں کیا۔[10] اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں اس نافرمانی کو معاف کرتے ہوئے الہی احکام کی اطاعت کی اہمیت پر زور دیا۔[11] بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ حکم شروع سے ہی عارضی حیثیت کا تھا، کیونکہ اس کا جاری رہنا رسولِ خداؐ کے ساتھ ضروری مسائل کے بیان میں رکاوٹ بننے کے ساتھ اسلامی معاشرے کو نقصان پہنچنے کا سبب بن سکتا تھا۔[12]

اس آیت پر صرف حضرت علیؑ نے عمل کیا

اہل سنت کے بعض مفسرین؛ جیسے ابن کثیر،[13] طبری،[14] فخر رازی[15] اور ابن تیمیہ حرانی[16] کے مطابق آیت نجوا کا حکم نسخ ہونے سے پہلے صرف حضرت علیؑ نے اس پر عمل کیا۔ اشعری مذہب کے پیروکار فضل بن روزبہان نے حضرت علیؑ کے اس عمل کو آپؑ کی ناقابل انکار فضیلت قرار دیا ہے۔[17] نیز علامہ حلی نے بھی خلفائے ثلاثہ پر حضرت علیؑ کی افضلیت کے اثبات کے سلسلے میں اسی آیت سے استدلال کیا ہے۔[18]

تابعی مفسرِ قرآن، مجاہد بن جبر نے امام علیؑ سے نقل کیا ہے کہ آپؑ نے فرمایا: «قرآن میں ایک ایسی آیت ہے جس پر نہ مجھ سے پہلے کسی نے عمل کیا اور نہ میرے بعد کسی نے اس پر عمل کیا ہے اور نہ عمل کرے گا۔ میرے پاس ایک دینار تھا، میں نے اس کو دس درہم میں تبدیل کیا اور جب بھی میں پیغمبر اسلامؐ سے نجوا کرنا چاہتا تھا تو ان میں سے ایک درہم صدقہ دے دیتا تھا۔»[19] حاکم نیشارپوری نے اس حدیث کو اہل سنت کی معروف حدیثی کتاب صحیح مسلم اور صحیح بخاری کے حدیثی معیار کے مطابق صحیح قرار جانا ہے۔[20]

حوالہ جات

  1. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج19، ص189۔
  2. واحدی، اسباب النزول، 1419ھ، ص432۔
  3. علامہ حلی، نہج الحق، 1407ھ، ص182-183؛ میبدی، کشف الاسرار و عدہ الابرار، 1371شمسی، ج10، ص20-21۔
  4. سیوطی، الدرالمنثور، 1404ھ، ج8، ص84۔
  5. طباطبائی، المیزان، 1390ھ، ج19، ص189۔
  6. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج23، ص448۔
  7. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج23، ص448۔
  8. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج29، ص495۔
  9. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج19، ص189-190۔
  10. سیوطی، الدرالمنثور، 1404ھ، ج6، ص185۔
  11. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج19، ص189-190۔
  12. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج23، ص452۔
  13. ابن‌کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1419ھ، ج8، ص50۔
  14. طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج23، ص248۔
  15. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج29، ص496۔
  16. ابن تیمیہ، منہاج السنہ النبویہ، 1406ھ، ج5، ص16۔
  17. شوشتری، احقاق الحق، 1409ھ، ج3، ص140۔
  18. علامہ حلی، منہاج الکرامہ، 1379شمسی، ص85۔
  19. متقی ہندی، کنز العمال، 1409ھ، ج2، ص521؛ ابن‌ابی‌شیبہ، المصنف، 1416ھ، ج11، ص152؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج29، ص495۔
  20. حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1420ھ، ج2، ص524۔

مآخذ

  • ابن‌ابی‌شیبہ، عبداللہ‌بن محمد، المصنف فی الاحادیث و الآثار، محقق: محمد عبدالسلام شاہین، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1416ھ۔
  • ابن‌تیمیہ، احمدبن عبدالحلیم، منہاج السنہ النبویہ، محقق: محمدرشاد سالم، ریاض، جامعہ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ، 1406ھ۔
  • ابن‌کثیر، اسماعیل‌بن عمر، تفسیر القرآن العظیم، محقق: محمدحسین شمس الدین، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1419ھ۔
  • حاکم نیشابوری، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، مصحح: حمری‌ دمردانس‌ محمد، بیروت، المکتبہ العصريہ، 1420ھ۔
  • سیوطی، عبدالرحمن بن ابی‌بکر، الدر المنثور فی التفسیر بالماثور، قم، کتابخانہ عمومی حضرت آیت اللہ العظمی مرعشی نجفی (رہ)، 1404ھ۔
  • شوشتری، سید نوراللہ، إحقاق الحق و إزہاق الباطل‏، قم، کتابخانہ عمومی آیت‌اللہ‌مرعشی نجفی(رہ)، 1409ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1390ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارالمعرفہ، 1412ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، نہج الحق و کشف الصدق، قم، دار الہجرۃ، 1407ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، منہاج الکرامہ فی معرفہ الإمامہ، محقق: مؤسسہ پژوہش و مطالعات عاشورا، گروہ معارف اسلامی، مشہد، نشر تاسوعا، 1379ہجری شمسی۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر (مفاتیح الغیب)، بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربی، 1420ھ۔
  • متقی ہندی، علی‌بن حسام الدین، کنز العمال فی سنن الأقوال و الأفعال، مصحح: بکری حیانی، بیروت، مؤسسہ الرسالہ، 1406ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، 1371ہجری شمسی۔
  • میبدی، احمد بن محمد، كشف الاسرار و عدۃ الابرار، بہ اہتمام على اصغر حکمت، تہران، امیرکبیر، 1371ہجری شمسی۔
  • واحدی، علی بن احمد، اسباب النزول القرآن، تحقیق کمال بسیونی زغلول، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1419ق/1998ء۔