آیت نجوا

ویکی شیعہ سے
(آیہ نجوا سے رجوع مکرر)
آیہ نجوا
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامنجوا، مناجات
سورہمجادلہ
آیت نمبر12
پارہ18
شان نزولپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کے ساتھ نجوا(خلوت میں گفتگو) کے لئے صدقہ ادا کرنا
محل نزولمدینہ


آیہ نجوا یا آیہ مناجات (سورہ مجادلہ:12) مالدار مسلمانوں کو مخاطب قرار دیتی ہے اور کہتی ہے کہ پیغمبر اسلام سے نجوا (خلوت میں گفتگو) کرنے کے لئے صدقہ ادا کریں۔ روایات کہتی ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کسی اور مسلمان نے اس دستور پر عمل نہیں کیا۔ اسی وجہ سے بعد کی آیت میں اللہ نے مسلمانوں کی سرزنش کرنے کے بعد پچھلی آیت کے (حضور سے خلوت میں گفتگو کرنے سے پہلے صدقہ دینے کے) حکم کو نسخ کردیا۔

آیت اور اس کا ترجمہ

یا أَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا نَاجَیتُمُ الرَّ‌سُولَ فَقَدِّمُوا بَینَ یدَی نَجْوَاکمْ صَدَقَةً ۚ ذَٰلِک خَیرٌ‌ لَّکمْ وَأَطْهَرُ‌ ۚ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِیمٌ


مومنو! جب تم پیغمبر کے کان میں کوئی بات کہو تو بات کہنے سے پہلے (مساکین کو) کچھ خیرات دے دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہت بہتر اور پاکیزگی کی بات ہے۔ اور اگر خیرات تم کو میسر نہ آئے تو خدا بخشنے والا مہربان ہے



سورہ مجادلہ: آیت 12


شان نزول

اس آیت کی شان نزول کے بارے میں آیا ہے کہ ثروتمند مسلمانوں کے کچھ گروہ بہت زیادہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کے پاس آتے تھے اور آپ کے ساتھ نجوا (خلوت میں گفتگو) کرتے تھے اور فقیروں کی باری نہیں آ پاتی تھی جس کی وجہ سے فقراء کو بڑی پریشانی ہوتی تھی۔[1] پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ بھی ان کی زیادہ باتوں اور زیادہ دیر تک بیٹھنے سے پریشان تھے۔ اسی وجہ سے اللہ نے آیہ نجوا نازل فرمائی جسے "آیہ مناجات" بھی کہا جاتا ہے۔ [2] اس آیت میں آپ سے خلوت میں گفتگو کرنے سے پہلے صدقہ دینے کے لئے کہا گیا ہے۔[3] بعض مفسرین نے تصریح کی ہے کہ نجوا کرنے والوں میں سے بعض کا مقصد یہ تھا کہ اس طریقہ سے دوسروں پر برتری حاصل کریں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ اگرچہ ان سے پریشان تھے لیکن ان کو روکتے نہیں تھے یہاں تک کہ قرآن نے خود ان کو اس کام سے روک دیا۔[4]

اخلاق
اخلاقی آیات
آیات افکآیہ اخوتآیہ اطعامآیہ نبأآیہ نجواآیہ مشیتآیہ برآیہ اصلاح ذات بینآیہ ایثار
اخلاقی احادیث
حدیث قرب نوافلحدیث مکارم اخلاقحدیث معراجحدیث جنود عقل و جہل
اخلاقی فضائل
تواضعقناعتسخاوتکظم غیظاخلاصخشیتحلمزہدشجاعتعفتانصافاصلاح ذات البینعیب‌پوشی
اخلاقی رذائل
تکبرحرصحسددروغغیبتسخن‌چینیتہمتبخلعاق والدینحدیث نفسعجبعیب‌جوییسمعہقطع رحماشاعہ فحشاءکفران نعمت
اخلاقی اصطلاحات
جہاد نفسنفس لوامہنفس امارہنفس مطمئنہمحاسبہمراقبہمشارطہگناہدرس اخلاقاستدراج
علمائے اخلاق
ملامہدی نراقیملا احمد نراقیمیرزا جواد ملکی تبریزیسید علی قاضیسید رضا بہاءالدینیسید عبدالحسین دستغیبعبدالکریم حق‌شناسعزیزاللہ خوشوقتمحمدتقی بہجتعلی‌اکبر مشکینیحسین مظاہریمحمدرضا مہدوی کنی
اخلاقی مآخذ
قرآننہج البلاغہمصباح الشریعۃمکارم الاخلاقالمحجۃ البیضاءرسالہ لقاءاللہ (کتاب)مجموعہ وَرّامجامع السعاداتمعراج السعادۃالمراقبات

نجوا سے پہلے صدقہ کے حکم کی وجہ

مفسر قرآن آیت اللہ مکارم کے بقول نجوا سے پہلے صدقہ دینے کے وجوب کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح مسلمانوں کے لئے نجوا کا عمل زیادہ پاکیزہ ہوگا۔کیونکہ اس طرح ایک طرف تو مالداروں کے لئے خیر و ثواب کا باعث ہوگا اور ضرورتمندوں کی مدد کا سبب بھی بنے گا۔اور دوسری طرف ثروتمندوں کا دل مال دنیا کی محبت سے اور غریبوں کا دل پریشانی اور ناراضگی سے مزید پاک ہوجائے گا۔[5] علامہ طباطبائی نے بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کے ساتھ خصوصی گفتگو کرنے سے پہلے مالداروں کی طرف سے غریبوں کو صدقہ دینے کی یہ بیان کی ہے کہ اس عمل سے ان کے دل آپس میں قریب ہوجائیں گے اور کینے ختم ہوجائیں گے۔[6] اسی طرح آیت کے تسلسل میں اللہ نے ضرورتمندوں کو صدقہ دینے سے معاف کیا ہے تاکہ وہ لوگ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کے ساتھ اپنے اہم مسائل اور ضرورتوں کے لئے خصوصی گفتگو سے محروم نہ ہوجائیں۔ جیساکہ تفسیر نمونہ میں آیا ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے سے بہت سے مسلمانوں کی آزمائش ہوگئی جو حضور سے اظہار محبت کیا کرتے تھے، اس سے ان کی محبت کا درجہ پتہ چل گیا۔[7]

نجوا سے پہلے صدقہ کا حکم دینے کے فوائد

فخر رازی نے اپنی تفسیر کبیر میں مسلمانوں کو حضور سے نجوا کرنے سے پہلے صدقہ ادا کرنے کا حکم دینے کے فوائد کا ذکر کیا ہے۔ منجملہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کا احترام اور آپ سے خلوت میں گفتگو کرنے کی اہمیت، اس صدقہ سے غریبوں کا فائدہ، غرباء اور فقراء کی شان و منزلت کا زیادہ ہونا اور نجوا سے پہلے صدقہ نہ دینے کی وجہ سے ثروت مندوں کا درجہ کم ہونا، حضور کو اپنے کچھ ذاتی اور عبادت کے امور کے لئے فرصت کا وقت ملنا اور مال دنیا کے ذریعہ مسلمانوں کی آزمائش ہونا[8]

نجوا سے پہلے صدقہ کے حکم کا منسوخ ہونا

آیہ نجوا اپنے بعد کی آیت یعنی سورہ مجادلہ کی 13 ویں آیت کے ذریعہ نسخ ہوگئی۔ پیغمبر اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ کے ساتھ نجوا کرنے سے پہلے صدقہ دینے کے حکم پر حضرت علی علیہ السّلام کے علاوہ کسی مسلمان نے عمل نہیں کیا[9] اسی وجہ سے خدا نے بعد کی آیت میں صدقہ کے سبب غریب ہوجانے کے ڈر سے مسلمانوں کی سرزنش کی اور اس کے وجوب کے حکم کو اٹھا لیا۔ اور اس حکم کی پیروی نہ کرنے کے مسلمانوں کے گناہ کو بخش دیا۔ اور اس کے بدلے میں دیگر واجبات پر عمل کرنے، حرام سے بچنے اور اللہ و رسول کی اطاعت کرنے پر تاکید کی۔[10] کچھ مفسرین کا خیال ہے کہ اس آیت کا نزول شروع سے ہی وقتی حیثیت کا حامل تھا کیونکہ یہ ایک طرح سے مسلمانوں کی آزمائش تھی اور جب آزمائش ختم ہوگئی تو یہ آیت بھی منسوخ ہوگئی۔ پھر یہ بھی ہے کہ حضور اکرم سے نجوا کرنے سے پہلے صدقہ کے حکم کا جاری رہنا سماج کے لئے مشکل ساز ہوسکتا تھا کیونکہ کبھی کبھی کچھ ضروری مسائل کے لئے آپ سے ملاقات کرنا ضروری ہوتا تھا اور اگر یہ حکم صدقہ باقی رہتا تو ممکن تھا کہ یہ ضرورتیں نابود ہوجاتی اور اسلامی سماج کا نقصان ہوتا۔ [11]

حضرت علیؑ ہی آیت پر عمل کرنے والا

فضل بن حسن طبرسی کے نقل کے مطابق اکثر شیعہ اور اہل سنت مفسرین کا نظریہ ہے کہ اس آیت پر عمل کرنے والے صرف اور صرف حضرت علی علیہ السّلام تھے[12] اسی طرح حضرت علی علیہ السّلام سے منقول ایک روایت میں آیا ہے کہ قرآن میں ایک ایسی آیت ہے جس پر نہ مجھ سے پہلے کسی نے عمل کیا اور نہ میری بعد کسی نے عمل کیا ہے اور نہ عمل کرے گا۔ میری پاس ایک دینار تھا، میں نے اس کو دس درہم میں تبدیل کیا اور جب بھی میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ سے نجوا کرنا چاہتا تھا تو ان میں سے ایک درہم صدقہ دے دیتا تھا۔[13]

حوالہ جات

  1. طباطبایی، المیزان، 1390ق، ج19، ص189.
  2. علامه حلی، نہج الحق، 1407ق، ص182-183؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج35، ص376؛ میبدی، کشف الاسرار و عده الابرار، 1371ش، ج10، ص20-21.
  3. واحدی، اسباب النزول، ترجمہ ذکاوتی، 1386ش، ص220-221.
  4. آلوسی، روح المعانی، 1415ق، ج14، ص224.
  5. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج23، ص448.
  6. طباطبائی، المیزان، 1390ق، ج19، ص189.
  7. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1371ش، ج23، ص448.
  8. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج29، ص495.
  9. سیوطی، الدرالمنثور، 1404ق، ج6، ص185.
  10. طباطبائی، المیزان، 1390ق، ج19، ص189-190.
  11. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج23، ص452.
  12. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج9، ص380
  13. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج29، ص495.

مآخذ

  • آلوسی، محمود بن عبداللہ، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم و السبع المثانی، بیروت،‌ دار الکتب العلمیۃ، 1415ھ.
  • سیوطی، عبدالرحمن بن ابی‌بکر، الدر المنثور فی التفسیر بالماثور، قم، عمومی کتبخانہ حضرت آیت اللہ العظمی مرعشی نجفی (رہ)، 1404ھ.
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1390ھ.
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، 1372ھ.
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، نہج الحق و کشف الصدق، قم، دار الہجرۃ، 1407ھ.
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر (مفاتیح الغیب)، بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربی، 1420ھ.
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، 1371ہجری شمسی۔
  • میبدی، احمد بن محمد، كشف الاسرار و عدۃ الابرار، بہ اہتمام على اصغر حکمت، تہران، امیرکبیر، 1371ہجری شمسی۔
  • واحدی، علی بن احمد، اسباب النزول، ترجمہ ذکاوتی قراگزلو، علی رضا، تہران، نشر نی، 1383ہجری شمسی۔