عقیل بن ابی طالب
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | عقیل بن ابی طالب |
کنیت | ابو یزید |
تاریخ پیدائش | عام الفیل کے 10 سال بعد |
جائے پیدائش | مکہ |
محل زندگی | مکہ، مدینہ |
مہاجر/انصار | مہاجر |
نسب/قبیلہ | بنی ہاشم، قریش |
اقارب | حضرت ابو طالب، امام علی |
وفات | معاویہ کے دور حکومت میں، مدینہ |
مدفن | جنت البقیع |
دینی معلومات | |
اسلام لانا | جنگ بدر کے بعد |
جنگوں میں شرکت | جنگ موتہ، غزوہ حنین |
ہجرت | مدینہ |
وجہ شہرت | امام علی کے بھائی و مسلم بن عقیل کے بھائی، صحابی رسول |
نمایاں کارنامے | ماہر نسب |
عقیل بن ابی طالب، رسول اللہ کے صحابی، امیر المؤمنین علی بن ابی طالب کے بھائی اور حضرت مسلم کے والد تھے۔ وہ پیغمبر اکرمؐ کی تدفین اور حضرت فاطمہ(س) کی تجہیز و تکفین جیسے اہم واقعات میں امام علیؑ کے ساتھ تھے۔
امام علیؑ کے دور حکومت میں عقیل نے ان سے درخواست کی کہ وہ ان کا قرض بیت المال سے ادا کریں لیکن انہیں امام کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ واقعہ الحدیدۃ المحاماۃ کے نام سے مشہور ہوا ہے۔
عقیل جنگ بدر میں مشرکین کی فوج میں شامل تھے اور مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے۔ بعض کا خیال ہے کہ اس سے پہلے انہوں نے اسلام قبول کیا تھا اور اسے جنگ بدر میں شرکت پر مجبور کیا گیا تھا۔ انہوں نے جنگ موتہ میں بھی شرکت کی لیکن بیماری کی وجہ سے رسول اللہ کی دیگر غزوات میں شریک نہیں ہوئے۔
عقیل نے عمر بن خطاب کے دور میں بیت المال کی تقسیم میں حصہ لیا۔ اس نے معاویہ سے بھی ملاقات کی لیکن ہمیشہ امام علیؑ سے اپنی وفاداری برقرار رکھی۔ عقیل کے کچھ بیٹے واقعہ کربلا میں شہید ہوئے جن میں مسلم بھی شامل ہیں، جنہیں امام حسینؑ نے اپنا سفیر بنا کر کوفہ بھیجا تھا۔ بقیع میں عقیل کا ایک گھر تھا جہاں شیعوں کے چار امام دفن ہوئے ہیں۔ یہ گھر بقیع پر وہابیوں کے حملے میں تباہ ہو گیا۔
زندگی نامہ
عقیل ابوطالب اور فاطمہ بنت اسد کے بیٹے ہیں۔[1] بعض روایات کے مطابق وہ اپنے بھائی حضرت علیؑ سے بیس سال بڑے تھے اور اس بنا پر آپ کی تاریخ پیدائی عام الفیل کے دس سال بعد کی ہوتی ہے۔[2]
عقیل کا تعلق قریش کے قبیلے سے تھا، ایک ماہر نسب شناس اور تاریخ عرب پر عبور تھا۔[3] اسے ایک حاضر جواب فرد کے طور پر بھی متعارف کرایا گیا ہے۔[4] صحابہ کے بارے میں لکھی جانے والی تاریخی کتابوں کے مطابق عقیل کی وفات معاویۃ بن ابی سفیان کے دور میں[5] یا یزید کی خلافت کے آغاز میں (واقعہ حرہ سے پہلے)[6] ہوئی تھی۔ وہ جنت البقیع میں اپنے گھر پر آسودۂ خاک ہیں۔[7]
اسلام قبول کرنا اور غزوات میں شرکت
عقیل نے جنگ بدر کے بعد اسلام قبول کیا۔ الطبقات الکبریٰ میں ابن سعد کے کہنے کے مطابق عقیل کو جنگ بدر میں مشرکین کے لشکر میں زبردستی لے جایا گیا تھا اور اس جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھوں پکڑا گیا۔ ان کے پاس پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ان کے چچا عباس نے اس کا تاوان ادا کر کے انہیں آزاد کر دیا۔ ابن قتیبہ کے مطابق، عقیل نے قید سے رہائی کے فوراً بعد اسلام قبول کیا۔[8] شیعہ مؤرخ محمد صادق نجمی نے احتمال دیا ہے کہ عقیل نے اس سے پہلے ہی مکہ میں اسلام قبول کیا تھا، لیکن اپنا ایمان مخفی رکھا تھا اور جنگ بدر کے بعد ظاہر کیا۔[9] جنگ بدر شروع ہونے سے پہلے رسول اللہؐ نے مسلمانوں سے یہ کہا تھا کہ اگر وہ عباس، عقیل، نوفل بن حارث یا بَخْتَری کو دیکھیں تو انہیں قتل نہ کریں، کیونکہ انہیں جنگ میں زبردستی شرکت کرائی گئی ہے۔[10]
صحابہ کے بارے میں لکھنے والے بعض مورخین کا کہنا ہے کہ عقیل نے صلح حدیبیہ (چھ ہجری) کے بعد اسلام قبول کیا۔[11] اہل سنت مورخ ابن حجر عسقلانی کا بھی خیال ہے کہ عقیل نے فتح مکہ (8 ہجری) کے دوران اسلام قبول کیا اور پھر مدینہ کی طرف ہجرت کی۔[12] ابن مناقب ابن شہر آشوب میں بھی یہ کہا گیا ہے کہ عقیل نے امام علیؑ اور حضرت فاطمہؑ کی شادی کی تقریب میں شرکت کی جو جنگ بدر کے چند ماہ بعد مدینہ میں منعقد ہوئی ۔[13]
میں تم سے دو وجوہات کی بنا پر محبت کرتا ہوں؛ ایک آپ کی قرابت کی وجہ سے، اور دوسرا میرے چچا ابو طالب کی آپ سے محبت کی وجہ سے۔[14]
ابن حجر عسقلانی کے مطابق عقیل نے جنگ موتہ میں شرکت کی لیکن فتح مکہ، غزوہ طایف، جنگ خیبر اور جنگ حُنین میں ان کی شرکت کے بارے میں کوئی ذکر نہیں ملتا ہے۔ احتمال یہ دیا جاتا ہے کہ بیماری کی وجہ سے ان جنگوں میں شرکت نہیں کی ہے۔[15] البتہ زبیر بن بکر کی روایت کے مطابق وہ ان لوگوں میں سے تھے جو جنگ حنین میں ثابت قدم رہے جب کہ کچھ لوگ بھاگ گئے تھے۔[16] رسول اللہؐ نے خیبر کی فصل کا ایک حصہ عقیل کے لیے مختص کیا۔ کہا جاتا ہے کہ چونکہ وہ جسمانی حالت کی وجہ سے جنگوں میں حصہ نہیں لے سکتے تھے، اس لیے ان کے اخراجات پورا کرنے کے لئے یہ حصہ ان کو دیا گیا تھا۔[17]
پیغمبر اکرمؐ سے عقیل نے متعدد احادیث نقل کی ہیں۔[18] عقیل کو عمر بن خطاب کے دور میں خزانے کی تقسیم میں مدد کے لیے بلایا گیا۔[19]
عقیل امام علیؑ کے ساتھ
عقیل پیغمبر اکرمؐ کے غسل اور امام علیؑ کے توسط آنحضرتؐ کی تدفین کے وقت موجود تھے۔[20] آپ نے حضرت فاطمہؑ کی تجہیز و تکفین میں بھی شرکت کی۔[21] جب عثمان نے ابوذر کو رَبذہ، جلاوطن کیا اور لوگوں کو ان کے ساتھ جانے سے منع کیا تو عقیل، امام علیؑ، امام حسنؑ، امام حسینؑ اور عمار، ابوذر کے ساتھ گئے اور انہیں خدا حافظی کیا۔[22]
افسوس ہے زندگی کے ایسے وقت پر جب ضحاک نے آپ پر حملہ کیا اور یہ ضحاک ایک پست اور بدبخت شخص ہے۔ اور جب مجھے ان امور [ضحاک کا حملہ اور کوفیوں کی بےوفائی] کا علم ہوا تو میں نے سوچا کہ شیعوں اور آپ کے ساتھیوں نے آپ کو چھوڑ دیا ہے۔ اے میری ماں کے بیٹے! مجھے اپنی رائے سے آگاہ کرو، اگر آپ موت چاہتے ہو تو میں تمہارے بھتیجوں اور تمہارے باپ کی اولاد کو تمہارے پاس لاؤں گا، کیونکہ جب تم جیتے ہو تو ہم تمہارے ساتھ رہتے ہیں اور جب تم مرتے ہو تو ہم تمہارے ساتھ مرتے ہیں۔ خدا کی قسم! کہ میں تمہارے بعد ایک لمحہ بھی اس دنیا میں نہیں رہنا چاہتا؛ اور خدا کی قسم! کہ آپ کے بعد ہماری زندگی دکھی اور ناگوار ہے اور آپ پر اللہ کی رحمت اور برکتوں کا نزول ہو۔
نہج السعادۃ، محمودی، ج5، ص209- 300.
اسلامی دارالحکومت کوفہ منتقل ہونے کے بعد، عقیل مدینہ میں ہی رہا اور امام علیؑ کی کسی جنگ میں شریک نہیں ہوا۔[23] محمد صادق نجمی کے مطابق عقیل کی جنگوں سے غیر حاضری کی وجہ ان کا نابینا ہونا تھا جو انہیں جنگِ موتہ کے بعد لاحق ہوا تھا۔[24]
واقعہ حکمیت کے بعد معاویہ نے ضَحّاک بن قیس کی سرپرستی میں ایک لشکر عراق بھیجا۔[25] حضرت علیؑ نے حجر ابن عدی کی قیادت میں ایک لشکر تیار کیا اور ضحاک کے لشکر کو شکست دی۔[26] یہ خبر عقیل تک پہنچی تو اس نے امام کو ایک خط لکھا تاکہ اپنی ذمہ داری کے بارے میں امام سے کسب تکلیف کرے۔[27] خط کے جواب میں امام نے عقیل کو بتایا کہ ضحاک کا فتنہ دفع ہو چکا ہے اور اب کوئی پریشانی نہیں ہے۔[28]
عقیل نے امام علیؑ کی خلافت کے آخری ایام میں ایک خط لکھا، جس میں امام سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا اور عبداللہ بن اَبی سَرْح کا معاویہ سے جا ملنے کو خدا اور پیغمبر کے خلاف دشمنی اور نور الہی کو بجھانے کی ایک سازش قرار دیا۔ عقیل کے جواب میں امام علی علیہ السلام نے معاویہ اور دین کے دشمنوں کے خلاف جہاد جاری رکھنے کی تاکید کی اور ساتھ ہی اسے اور اس کی اولاد کو میدان جنگ میں حاضر ہونے سے مستثنیٰ قرار دیا۔[29]
بیت المال سے قرض کی ادائیگی کی درخواست
جب خلافت کی باگ ڈور کوفہ میں حضرت علی کے ہاتھوں میں تھی تو عقیل نے اپنا قرض بیت المال سے ادا کرنے کی درخواست کی۔[30] امام علی علیہ السلام نے ایک گرم لوہا عقیل کے ہاتھ کے قریب لایا اور جب عقیل نے غلطی سے لوہا ہاتھ میں لیا اور اسے دہکتے لوہے کی حرارت محسوس ہونے پر شکایت کی۔ امام علیؑ نے اس سے فرمایا: اگر وہ اس آگ کو برداشت نہیں کرسکتا تو وہ لوگوں کے حقوق کو کیسے نظرانداز کرسکتا ہے؟[31] یہ واقعہ الحدیدۃ المحماۃ کے نام سے مشہور ہوا۔[32]
عقیل کی معاویہ سے ملاقات
"اگرچہ معاویہ ان (عقیل) کے لیے بہت کچھ دیا لیکن عقیل نے کبھی اس سے علی کے بارے میں شکایت نہیں کی اور نہ ہی علی کی مخالفت میں اس کا ساتھ دیا۔"[33]
اطلاعات کے مطابق عقیل نے معاویہ سے ملاقات کی ہے۔[34] بعض اہل سنت ذرائع نے اس ملاقات کی وجہ کو عقیل کی طرف سے قرض ادا کرنے کی درخواست[35] یا دونوں کے درمیان کی رشتہ داری قرار دیا ہے۔[36] اس ملاقات کے دوران معاویہ نے کہا ہے کہ اگر عقیل کو یہ معلوم نہ ہوتا کہ میں اس کے لیے اس کے بھائی سے بہتر ہوں تو وہ ہمارے پاس نہ آتا اور اسے ترک نہ کرتا۔ عقیل نے جواب میں کہا ہے کہ اس کا بھائی اس کے لیے دین میں بہترین ہے اور معاویہ دنیا میں۔ نیز، امام علیؑ کے بارے میں معاویہ کے سوال کے جواب میں، عقیل نے معاویہ کو ابو سفیان سے تشبیہ دی ہے۔
ابن ابی الحدید کے مطابق تمام موثق راویوں کا خیال ہے کہ عقیل امام علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد شام گئے ہیں۔[37] نیز محمد صادق نجمی نے معاویہ کا عقیل سے امام حسنؑ ، ابن زبیر اور مروان جیسی شخصیات کے بارے میں سوالات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ملاقات امام علیؑ کی شہادت کے بعد ہوئی ہے۔[38] نجمی کا خیال ہے کہ عقیل کی معاویہ سے ملاقات کا مقصد قرابت داری یا قرض ادا کرنا نہیں تھا بلکہ امام علی علیہ السلام سے وفاداری تھی۔[39]
«امام علیؑ پیغمبر اور ان کے اصحاب کی طرح تھے، اور تم تم ابو سفیان اور ان کے ساتھیوں کی طرح ہو، بس فرق اتنا ہے کہ ادھر پیغمبر نہیں ہے اور تمہارے درمیان ابوسفیان نہیں ہے۔»[40]
عقیل کی اولاد
تیسری صدی ہجری کے مؤرخ ابن سعد نے مسلم، یزید، سعید، جعفر اکبر، ابوسعید اَحول، عبداللہ، عبدالرحمان، عبداللہ اصغر، علی، جعفر اصغر، حمزہ، عثمان، ام قاسم، زینب اور ام نعمان کو آپ کی اولاد میں ذکر کیا ہے۔[41] دوسرے منابع میں عبیداللہ، ام عبداللہ، محمد، فاطمہ، ام ہانی، اسماء، رَمْلہ اور زینب بھی ان کی اولاد کے طور پر مذکور ہیں۔[42]
واقعہ کربلا میں بعض بیٹوں کی شہادت
ان کے بیٹوں میں سے جعفر، مسلم، عبداللہ اور عبدالرحمان، واقعہ کربلا میں شہید ہوئے ہیں۔ البتہ بعض نے کہا ہے کہ واقعہ کربلا میں ان کے چھ بیٹے شہید ہوئے ہیں۔[43] شیخ مفید نے اُمّ لُقمان نامی لڑکی کا بھی تذکرہ کیا جو امام حسینؑ کی شہادت کی خبر سن کر اپنی دوسری بہنوں کے ساتھ رو رہی تھی۔[44]
عقیل کے گھر میں بنی ہاشم کے بزرگوں کی تدفین
بقیع میں عقیل کا ایک بڑا گھر تھا،[45] وقت کے ساتھ ساتھ یہ گھر بنو ہاشم کے لوگوں کی تدفین کی جگہ بن گیا [46]اور بعد میں بقیع کے قبرستان میں شامل ہوا۔ اس گھر میں دفن ہونے والوں میں ائمہ بقیع، عقیل کی والدہ فاطمہ بنت اسد اور عباس بن عبد المطلب شامل ہیں۔[47] ان کی قبروں پر ایک مقبرہ بنایا گیا تھا۔ یہ مقبرہ بقیع پر وہابیوں کے حملے میں تباہ ہوگیا۔[48]
حوالہ جات
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ق، ج4، ص31.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ق، ج4، ص31.
- ↑ ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1412ق، ج3، ص1078.
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، 1394ق، ج2، ص69.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ق، ج4، ص33؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1412ق، ج3، ص1078.
- ↑ ابن حجر، الاصابۃ، 1415ق، ج4، ص439.
- ↑ سمہودی، وفاء الوفاء، 1419ق، ج3، ص82.
- ↑ ابن قتیبہ، المعارف، 1960م، ص156.
- ↑ نجمی، عقیل بن ابی طالب در میزان تاریخ صحیح، 1375ش، ص49.
- ↑ بلعمی، تاریخنامہ طبری، 1373ش، ج3، ص128
- ↑ نگاہ کنید بہ ابن حجر، الاصابۃ، 1415ق، ج4، ص438.
- ↑ ابن حجر، الاصابۃ، 1415ق، ج4، ص438.
- ↑ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب(ع)، 1379ق، ج3، ص354
- ↑ ابن عبدالبر، الاستیعاب 1412ق، ج3، ص1078
- ↑ ابن حجر، الاصابۃ، 1415ق، ج4، ص438.
- ↑ ابن حجر، الاصابۃ، 1415ق، ج4، ص438.
- ↑ نجمی، «انگیزہ سفر عقیل بہ شام و پذیرفتن ہدیہ از معاویہ»، ص76.
- ↑ ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، ج7، ص2542.
- ↑ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، 1378ش، ج2، ص40.
- ↑ الہلالی، کتاب سلیم، 1405ق، ص665.
- ↑ مجلسی، بحار الأنوار، 1404ق، ج43، ص183.
- ↑ کلینی، الکافی، 1365ش، ج8، ص20.
- ↑ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، 1404ق، ج10، ص250.
- ↑ نجمی، «انگیزہ سفر عقیل بہ شام و پذیرفتن ہدیہ از معاویہ»، ص76.
- ↑ مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمومنین(ع)، 1386ش، ج10، ص55-56.
- ↑ مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمومنین(ع)، 1386ش، ج10، ص56.
- ↑ مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمومنین(ع)، 1386ش، ج10، ص56.
- ↑ مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمومنین(ع)، 1386ش، ج10، ص56.
- ↑ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، 1404ق، ج10، ص250؛ مدنی شیرازی، الدرجات الرفیعۃ، 1397ق، ص155.
- ↑ ابن شہرآشوب، مناقب، 1379ق، ج2، ص109.
- ↑ ابن أبی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، 1404ق، ج11، ص245؛ دیلمی، إرشاد القلوب، 1412ق، ج2، ص216.
- ↑ قمی، سفینۃ البحار، ج2، ص125.
- ↑ زرین کوب، بامداد اسلام، 1369ش، ص135.
- ↑ نگاہ کنید بہ ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1412ق، ج3، ص1078.
- ↑ ابن حجر، الاصابہ، 1415ق، ج4، ص439.
- ↑ ابن اثیر، أسد الغابۃ، 1409ق، ج3، ص560-561.
- ↑ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، 1404ق، ج10، ص250.
- ↑ نجمی، عقیل بن ابی طالب در میزان تاریخ صحیح، 1375ش، ص51.
- ↑ نجمی، «انگیزہ سفر عقیل بہ شام و پذیرفتن ہدیہ از معاویہ»، ص71-72.
- ↑ ابن اثیر، أسد الغابۃ، 1409ق، ج3، ص560-562.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ق، ج4، ص31-32.
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، 1394ش، ص69-70.
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، 1394ق، ج2، ص69-70.
- ↑ المفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص124.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ق، ج4، ص33.
- ↑ سمہودی، وفاء الوفاء، ج3، ص195.
- ↑ ابن شبہ، تاریخ المدینۃ المنورہ، منشورات دار الفکر، ج1، ص127.
- ↑ نجمی، «تاریخ حرم ائمہ بقیع»، ص175.
مآخذ
- ابن ابی الحدید، عبد الحمید بن ہبۃاللہ، شرح نہج البلاغۃ لابن ابی الحدید، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی، چاپ اول، 1404ھ۔
- ابن اثیر، علی بن ابی کرم، اسد الغابۃ، بیروت، دار الفکر، 1409ق/1989ء۔
- ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1415ھ۔
- ابن سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1410ھ۔
- ابن شبہ نمیری، عمر بن شبہ، تاریخ المدینۃ المنورۃ (اخبار المدینۃ النبویۃ)، تحقیق: محمد شلتوت، منشورات دار الفکر، بی تا.
- ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، قم، نشر علامہ، 1379ھ۔
- ابن عبد البر، یوسف بن عبداللہ بن محمد، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، علی محمد البجاوی، بیروت، دار الجیل، الطبعۃ الاولی، 1412ق/1992ء۔
- بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق محمدباقر محمودی، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1394ق/1974ء۔
- دیلمی، حسن بن محمد، إرشاد القلوب إلی الصواب، قم، الشریف الرضی، چاپ اول، 1412ھ۔
- زرین کوب، عبدالحسین، بامداد اسلام، تہران، امیرکبیر، 1369ہجری شمسی۔
- سمہودی، علی بن عبد اللہ، وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفی، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، الطبعۃ الأولی، 1419ھ۔
- کلینی، الکافی، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، 1365ہجری شمسی۔
- مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دار االإحیاء التراث العربی، 1403ھ۔
- مجلسی، محمد تقی، بحار الأنوار، بیروت، مؤسسۃ الوفاء، 1404ھ۔
- محمودی، محمد باقر، نہج السعادۃ فی مستدرک نہج البلاغۃ، بیروت، مؤسسۃ التضامن الفکری، 1387ق/1968ء۔
- مدنی شیرازی، سید علی خان، الدرجات الرفیعۃ فی طبقات الشیعۃ، تحقیق سید محمد صادق بحر العلوم، قم، منشورات مکتبۃ بصیرتی، 1397ھ۔
- مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، تحقیق مؤسسۃ آل البیت(ع) لاحیاء التراث، قم، المؤتمر العالمی لالفیۃ الشیخ المفید، 1413ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، پیام امام امیرالمومنین(ع)، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1386ہجری شمسی۔
- نجمی، محمد صادق، «تاریخ حرم ائمہ بقیع»، میقات حج، شمارہ4، تابستان 1372ہجری شمسی۔
- نجمی، محمد صادق، «عقیل بن ابی طالب در میزان تاریخ صحیح»، مجلہ میقات حج، شمارہ 15، بہار 1375ش، شمار15.
- نجمی، محمد صادق، «انگیزہ سفر عقیل بہ شام و پذیرفتن ہدیہ از معاویہ»، میقات حج، شمارہ 16، تابستان 1375ز
- یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ترجمہ محمد ابراہیم آیتی، تہران، علمی و فرہنگی، 1378ہجری شمسی۔