حدیث رایت

فاقد خانہ معلومات
فاقد تصویر
جانبدار
ویکی شیعہ سے
شیعوں کے پہلے امام
امام علی علیہ السلام
حیات طیبہ
یوم‌ الدارشعب ابی‌ طالبلیلۃ المبیتواقعہ غدیرمختصر زندگی نامہ
علمی میراث
نہج‌البلاغہغرر الحکمخطبہ شقشقیہبغیر الف کا خطبہبغیر نقطہ کا خطبہحرم
فضائل
آیہ ولایتآیہ اہل‌الذکرآیہ شراءآیہ اولی‌الامرآیہ تطہیرآیہ مباہلہآیہ مودتآیہ صادقینحدیث مدینہ‌العلمحدیث رایتحدیث سفینہحدیث کساءخطبہ غدیرحدیث منزلتحدیث یوم‌الدارحدیث ولایتسدالابوابحدیث وصایتصالح المؤمنینحدیث تہنیتبت شکنی کا واقعہ
اصحاب
عمار بن یاسرمالک اشترسلمان فارسیابوذر غفاریمقدادعبید اللہ بن ابی رافعحجر بن عدیمزید


حدیث رایَت حضرت محمدؐ سے منقول ایک مشہور حدیث کو کہتے ہیں جسے آپؐ نے امام علیؑ کی شجاعت کے بارے میں غزوہ خیبر کے موقع پر ارشاد فرمایا ہے۔ شیعہ متکلمین اس حدیث کو دوسرے صحابہ پر امام علیؑ کی برتری اور فضیلت ثابت کرنے کیلئے ذکر کرتے ہیں۔

رایت کا مفہوم

پیغمبر اکرمؐ کی حیات طیبہ اور آپ کی رحلت کے بعد تقریبا ہر جنگ میں ایک اصلی پرچم اور ہر قبیلہ اور لشکر کے لئے الگ الگ کئی فرعی پرچمیں ہوا کرتا تھا جسے اس قبیلہ یا لشکر کے سب سے شجاع فرد کے ہاتھ میں دیا جاتا تھا، اسے عربی زبان میں رایت کہا جاتا ہے۔[1] اس قسم کے پرچم کا پہلی بار جنگ خیبر میں استعمال کیا گیا تھا اور انہیں مختلف افراد کے ہاتھوں میں تھمایا گیا تھا۔[2]

متن حدیث

پیغمبر اکرمؐ نے جنگ خیبر میں پرچم (رایت) کو شروع میں ابوبکر اور دوسرے دن عمر بن خطاب کے سپرد کیا لیکن یہ دونوں شخصیات قلعہ خیبر کو فتح کئے بغیر رسول اکرمؐ کے پاس واپس پلٹ آئے تو اس موقع پر پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا:

"لاعطین الرایة غدا رجلا یحب الله و رسوله (و یحبه الله و رسوله) یفتح الله علی یدیه لیس بفرار ، ترجمہ: یقینا میں کل پرچم ایک ایسے شخص کے ہاتھ سپرد کرونگا جو خدا اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ہے (اور خدا اور اس کا رسول بھی اسے دوست رکھتا ہے)، خدا اس کے ہاتھ خیبر کا قلعہ فتح کریگا اور وہ کبھی بھی فرار اختیار کرنے والا نہیں ہے۔"

اس کے بعد پیغمبر اکرمؐ نے حضرت علیؑ کو طلب کیا اس وقت حضرت علی کی آنکھیں درد کر رہے تھے لیکن رسول خدا نے آپ کو اس مرض سے شفا دیا اور فرمایا: "خذ هذه الرایة فامض بها حتی یفتح الله علیک؛، ترجمہ: اس پرچم کو اٹھاؤ اور اپنے ساتھ لے جاؤ تاکہ خدا آپ کے ذریعے خیبر کو مسلمانوں کیلئے فتح کرے۔" حضرت علیؑ نے اس پرچم کو اپنے ساتھ لے گیا اور خیبر پر حملہ آورا ہوا اور اسے فتح کیا۔[3]

ابو رافع خادم رسول خداؐ فتح خیبر کے بارے میں یوں کہتے تھے: "علی بن ابی طالبؑ کے ساتھ خیبر کے قلعہ کی طرف چلے گئے اس وقت آپؑ کے ہاتھ میں رسول خداؐ کا دیا ہوا وہ پرچم(رایت) تھا۔ جیسے ہی حضرت علیؑ قلعہ کے نزدیک پہنچے تو قلعہ میں موجود افراد باہر آکر جنگ کرنا شروع کیا۔ جنگ کے دوران دشمن کے کسی پہلوان نے آپ پر ایک وار کیا جس کی وجہ سے آپ کے ہاتھ سے ڈھال زمین پر گر گیا اس موقع پر حضرت علیؑ نے قلعہ کے دروازے کو اکھیڑا اور اسے ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہوئے جنگ کرنے لگے اور یہاں تک جنگ کیا کہ خدا نے انہیں فتح سے ہمکنار فرمایا۔[4]

خیبر میں امام علیؑ کی فضیلت

جنگ خیبر میں ابوبکر اور عمر جیسے بلند پایہ اصحاب یهودیوں کے مستحکم قلعہ کے فتح سے عاجز آگئے یہاں تک کہ رسول خداؐ نے اس قلعے کو فتح کرنے کیلئے حضرت علیؑ کو مامور کیا۔ یوں حضرت علیؑ نے خیبر کے مشہور پہلوان مرحب اور اسکے بھائی یاسر کو قتل کرکے قلعہ کے اندر داخل ہوئے اور مقاومت کرنے والے تمام دشمنوں کو قتل کر کے قلعہ میں موجود یہودیوں کو بغیر کسی قید و شرط کے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا۔[5]

حدیث کی سند

حدیث رایت شیعہ اور اہل سنت حدیثی اور تاریخی کتابوں میں تواتر کی حد تک نقل ہوئی ہے۔ یہ حدیث مختلف دلائل کی بنیاد پر حضرت علیؑ کی باقی صحابہ پر افضلیت اور برتری پر دلالت کرتی ہے۔[6]

حدیث رایت کو نقل کرنے والے اصحاب میں: عمر بن خطاب،[7] عایشہ، [8] عبداللہ بن عباس، انس بن مالک[9] اور جابر بن عبداللہ انصاری شامل ہیں۔ [10]

حدیث رایت کا متن مختلف الفاظ کے ساتھ اہل سنت کی مختلف کتابوں منجملہ سیرۃ النبویہ،[11] مستدرک،[12] مجمع الزوائد،‌[13] مسند احمد بن حنبل،[14] کنزالعمال،[15] اور حلیۃ الاولیاء وغیرہ میں نقل ہوئی ہے۔[16]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. طبری، تاریخ، ج۳، ص۳۸۷
  2. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۲، ص۷۷
  3. ابن ہشام، سیرہ النوبویہ، ج۲، ص۳۳۴؛ حاکم نیشابوری، مستدرک، ج۳، ص۳۷
  4. ذہبی، میزان الاعتدال، ج۲، ص۲۱۸؛ ابن حجر، فتح الباری، ج۹، ص۱۸
  5. ابن ہشام، سیرہ النوبویہ، ج۲، ص۳۱۶
  6. امین عاملی، اعیان الشیعہ، ج‌۱، ص۳۳۷ به بعد
  7. زرکلی، الاعلام، ج‌۵، ص۲۰۳
  8. ابن سعد، طبقات الکبری، ج‌۸، ص۳۹
  9. ابن حجر، تہذیب التہذیب، ج‌۱، ص۳۷۶
  10. طبری، ذیل المذیل طبری، ص۲۷
  11. ابن ہشام، سیرہ النوبویہ، ج‌۲، ص۳۳۴
  12. حاکم نیشابوری، مستدرک، ج‌۴، ص۳۵۶
  13. ہیثمی، مجمع الزوائد، ج‌۹، ص۱۰۸
  14. احمد بن حنبل، مسند، ج‌۱، ص۲۳
  15. متقی ہندی، کنزالعمال، ج‌۵، ص۲۸۴
  16. حافظ ابو نعیم، حلیۃ الاولیاء، ج‌۴، ص۳۵۶

مآخذ

  • امین عاملی، اعیان الشیعہ، تحقیق حسن امین، دار التعارف، بیروت.
  • ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، دار الفکر، بیروت.
  • ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، دار المعرفہ، بیروت.
  • ابن سعد، طبقات الکبری، دار صادر، بیروت.
  • ابن ہشام، السیرہ النبویہ، تحقیق محمد محی الدین عبدالحمید، مکتبہ محمد علی صبیح، قاہرہ.
  • احمد بن حنبل، مسند احمد، دار صادر، بیروت.
  • حافظ ابو نعیم، حلیۃ الاولیاء، تحقیق سعید زغول، مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی.
  • حاکم نیشابوری، مستدرک، تحقیق یوسف عبدالرحمن مرعشلی.
  • ذہبی، میزان الاعتدال، تحقیق علی محمد بجاوی، دار المعرفہ، بیروت.
  • زرکلی، الاعلام، دار العلم للملایین، بیروت.
  • طبری، تاریخ طبری، موسسہ اعلمی للمطبوعات، بیروت.
  • طبری، ذیل المذیل طبری، موسسہ اعلمی، بیروت.
  • متقی ہندی، کنزالعمال، تحقیق بکری حیانی، الرسالہ، بیروت.
  • ہیثمی، مجمع الزوائد، دار الکتب العلمیہ، بیروت.