رقیہ بنت رسول اللہ

ویکی شیعہ سے
رقیہ بنت رسول اللہ
کوائف
مکمل نامرقیہ بنت پیامبرؐ
تاریخ پیدائشقبل از ہجرت
محل زندگیمکہحبشہمدینہ
مہاجر/انصارمہاجر
اقاربپیغمبر اکرمؐ • خدیجہعثمانہالہ
وفاتسنہ 2 ہجری، مدینہ
دینی معلومات
ہجرتحبشہ • مدینہ
وجہ شہرترسول خداؐ سے منسوب


رُقَیۃ بنت رسول اللہ (متوفی سنہ 2 ہجری) حضرت محمدؐ و خدیجہ کی بیٹی جو حبشہ اور مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والوں میں شامل تھیں۔ شروع میں ابو لہب کے بیٹے عتبہ سے شادی کی اور «تَبَّتْ یدَا أَبِی لَہَبٍ وَتَبَّ»، کی آیت نازل ہونے کے بعد عتبہ نے انہیں طلاق دے دی۔ پھر عثمان بن عفان سے شادی کی۔ سنہ دو ہجری میں وفات پائی اور جنت البقیع میں دفن ہیں۔

بعض شیعہ محققین جیسے سید جعفر مرتضی عاملی کا کہنا ہے کہ رقیہ رسول خداؐ اور خدیجہ کی اولاد نہیں تھیں؛ بلکہ وہ خدیجہ کی بہن ہالہ کی بیٹی تھی چونکہ آنحضرتؐ کے گھر میں پرورش پائی تھی تو اس لئے پیغمبرؐ کی بیٹی سے مشہور ہوگئیں۔


پیدائش اور نسب

رقیہ ہجرت سے پہلے مکہ میں متولد ہوئی ہے۔ انہیں پیغمبر اکرمؐ کی سب سے بڑی بیٹی، دوسری بیٹی یا سب سے چھوٹی بیٹی سے یاد کیا گیا ہے۔[1] اہل سنت کی نظر میں رقیہ پیغمبر اکرمؐ اور خدیجہ کی اولاد میں سے ہیں۔[2]

شیعہ محقق سید جعفر مرتضی عاملی اور چوتھی صدی کے شیعہ عالم ابو القاسم کوفی کا کہنا ہے کہ رقیہ، زینب اور ام کلثوم رسول اللہؐ اور خدیجہ کی بیٹیاں نہیں بلکہ لے پالک بیٹیاں تھیں۔[3] جعفر مرتضی نے اپنی کتاب بنات النبی اَم رَبائبُہ؟ (پیغمبر کی بیٹیاں یا منہ بولی بیٹیاں؟) کو یہی بات ثابت کرنے کے لئے لکھا ہے۔[4]

شادی اور ہجرت

رقیہ نے عتبۃ بن ابی لہب سے شادی کی لیکن «تَبَّتْ یدَا أَبِی لَہَبٍ وَتَبَّ»،[5] نازل ہونے کے بعد عتبہ نے اپنے باپ کے حکم سے رقیہ کو طلاق دے دی۔[6] اس کے بعد پھر عثمان بن عفان سے شادی کی اور ان کے ساتھ حبشہ ہجرت کی۔ آنحضرتؐ کی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے وقت وہ بھی حبشہ سے مدینہ آئی۔[7]

تاریخِ اسلام کی کتابوں میں رقیہ اور عثمان بن عفان سے عبداللہ نامی ایک بیٹے کا ذکر ہوتا ہے جو بچپنے میں ہی فوت ہوا۔[8]

جب خدیجہ پیغمبر اکرمؐ پر ایمان لے آئیں تو رقیہ بھی مسلمان ہوگئیں اور جب خواتین نے آنحضرتؐ کی بیعت کی تو رقیہ نے بھی ان کے ساتھ بیعت کی۔[9]

جب رقیہ دینا سے چل بسی تو رسول اللہ نے فرمایا:

«الْحَقِی بِسَلَفِنَا الصَّالِحِ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ وَ أَصْحَابِہ» (ترجمہ: ہمارے سلف صالح عثمان بن مظعون اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ ملحق)

مآخذ، کلینی، اصول کافی، ج۳، ص۲۴۱

وفات

جنت البقیع میں رقیہ بنت پیغمبرؐ کا مقام دفن

جب رسول الله جنگ بدر کے لئے جا رہے تھے تو رقیہ ٹائیفائیڈ میں مبتلا ہوئیں۔ پیغمبر اکرم نے عثمان کو ان کے پاس رہنے کا حکم دیا[10] رقیہ نے دو ہجری، رمضان میں جنگ بدر کے فتح کے دن وفات پائی۔[11]

شیعہ کتابوں میں رقیہ کی وفات کی وجہ عثمان کی ضرب و شتم ذکر کیا گیا ہے۔[12] اور اس مار پٹائی کی وجہ مغیرۃ بن ابی العاص کے مخفی ہونے کی جگہ کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ کو بتانا بیان کیا گیا ہے۔[13]

ائمہ بقیع کے گنبد کے ساتھ پیغمبر اکرمؐ کی بیٹیوں کا مزار

ان کی قبر پر بعض خواتین نے گریہ کیا ان میں سے ایک فاطمہؑ بھی تھیں۔[14]خلیفہ دوم ان خواتین کو تازیانہ کے ذریعے رونے سے منع کرتے تھے تو پیغمبر اکرمؐ نے انہیں اس کام سے روکا۔[15] رسول خدا نے یہ کہہ کر کہ «جس نے بھی آج کی رات ہمبستری کی ہے قبر میں داخل نہ ہو جائیں»، عثمان کو قبر میں داخل ہونے سے روک دیا۔[16]

آپ کا نام رمضان المبارک کی دعاوں میں سے ایک میں آیا ہے: اللہم صل علی رقیۃ بنت نبیک ...[17]

مقام دفن

پیغمبر اکرمؐ کے کہنے پر رقیہ کو بقیع میں دفن کیا گیا۔[18] بقیع میں ائمہ بقیع کے مقبرے کے شمال اور ازواج نبی کے مقبرے کے جنوب مغرب میں پیغمبر اکرمؐ کی بیٹیوں سے منسوب ایک مقبرہ تھا جس پر قدیم زمانے میں ایک ضریح بھی نصب تھی۔[19] جو وہابیوں کے ہاتھوں مسمار ہوئی۔

مزید مطالعہ

اس بارے میں مزید معلومات کے لیے مندرجہ ذیل کتاب کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج‏۴، ص۱۸۳۹.
  2. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۸۳۹.
  3. عاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ۱۳۸۵ش، ج۲، ص۲۱۸؛ عاملی، بنات النبی اَم ربائبہ؟، ۱۴۱۳ق، ص۷۷-۷۹؛ کوفی الاستغاثہ، ج۱، ص۶۸.
  4. ملاحظہ کریں: عاملی، بنات النبی اَم ربائبه؟، ۱۴۱۳ق.
  5. مسد، آیہ‌۱
  6. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۴۰۱.
  7. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۱۴۱۲ق، ج‏۳، ص‌۱۰۳۸ و ج۴، ص۱۱۳۹-۱۱۴۰؛ کحّالہ، اعلام النساء، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۴۵۷؛ ابن‌ سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۸، ص۳۵.
  8. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۸، ص۳۵؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج‏۴، ص‌۱۸۴۰ و ج۳، ص۱۰۳۷
  9. صالحي دمشقي، سبل الہدى و الرشاد، ۱۴۱۴، ج۱۱، ص۳۳.
  10. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج‏۳، ص ۱۰۳۸.
  11. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج‏۳، ص‌۱۰۳۸.
  12. کلینی، الكافی، ۱۴۰۷ق، ج‏۳، ص۲۳۶.
  13. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۲، ص۱۶۷.
  14. کحّالہ، اعلام‌النساء، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۴۵۸.
  15. کحّالہ، اعلام‌ النساء، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۴۵۸.
  16. امین، اعیان ‌الشیعہ، دار التعارف للمطبوعات، ج۳، ص۴۸۷.
  17. شیخ طوسی، تہذیب‌ الاحکام، ۱۳۶۵ش، ج۳، ص۱۲۰.
  18. ابن شبہ، تاریخ‌ المدینة‌ المنورہ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۱۰۳؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۸، ص۳۷.
  19. جعفریان، پنجاہ سفرنامہ حج قاجاری، ۱۳۸۹ش، ج۵، ص۲۴۱.

مآخذ

  • ابن سعد، الطبقات الكبری، بہ كوشش محمد عبد القادر، بیروت، دار الكتب العلمیہ، ۱۴۱۸ھ
  • ابن شبّہ، تاریخ ‌المدینة ‌المنورہ، بہ كوشش شلتوت، قم، دار الفكر، ۱۴۱۰ھ
  • ابن عبدالبر، یوسف بن عبد اللہ، الاستیعاب فی معرفة الأصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت، دار الجیل، ط الأولی، ۱۴۱۲/ق۱۹۹۲ء
  • امین، سید محسن، أعیان‌ الشیعة، تحقیق حسن الأمین، دار التعارف للمطبوعات، بیروت، بی تا.
  • بلاذری، احمد بن یحیی بن جابر، انساب الاشراف، تحقیق سہیل زكار و ریاض زركلی، بیروت، دار الفكر، ۱۴۱۷ھ
  • جعفریان، رسول، پنجاہ سفرنامہ حج قاجاری، تہران، نشر علم، ۱۳۸۹ش.
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، تہران، دار الكتب الإسلامیہ، ۱۳۶۵ش.
  • سیوطی، جلال الدین، تاریخ الخلفا، محقق حمدی الدمرداش، بی جا، مکتبة نزار مصطفی الباز، ۱۴۲۵ھ
  • صالحی دمشقی، سبل الہدى و الرشاد، بیروت، دار الکتب العلمیة، ۱۴۱۴ھ
  • عاملی، سید جعفر مرتضی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، قم، دار الحدیث، ۱۴۲۶ق/۱۳۸۵ش۔
  • عاملی، سید جعفر مرتضی، بنات النبی ام ربائبہ؟، مرکز الجواد، ۱۴۱۳ق/۱۹۹۳ء
  • کوفی، علی بن احمد، الاستغاثہ فی بدع الثلاثہ، بی‌نا، بی ‌تا۔
  • کحّالہ، عمر رضا، اعلام النساء، بیروت، موسسة الرسالة، طبعة العاشرة، ۱۴۱۲ق/۱۹۹۱ء
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق علی اکبر غفاری، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ء
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، موسسہ وفا، الطبعة الثانية، ۱۴۰۳ھ