خلفائے راشدین

ویکی شیعہ سے
خلفائے ثلاثہ

نام


دورہ خلافت


  • 11-13ق
  • 13-23ق
  • 23-35ق

انتخاب کا طریقہ


اہم واقعات


  • ارتداد کی جنگیں، شہادت حضرت زہراؑ
  • فتح ایران، فتح شام، فتح مصر
  • توحید مصاحف، تبعید ابوذر، خلیفہ کے خلاف قیام


ائمہ علیہم السلام مدت حیات اور دور امامت ہم عصر خلفاء
امام علی علیہ السلام مدت حیات: (30 عام الفیل-40ھ) ابوبکر عمر بن خطاب عثمان بن عفان
دور امامت: ۱۱-۴۰ق
امام حسن مجتبی علیہ السلام مدت حیات: (3تا50ھ) ابوبکر عمر بن خطاب عثمان بن عفان امام علیؑ معاویہ بن ابی سفیان (41-61ھ)
دور امامت: 40-50ھ
امام حسین علیہ السلام مدت حیات: (4تا61ھ) ابوبکر عمر بن خطاب عثمان بن عفان امام علیؑ امام حسنؑ معاویہ بن ابی سفیان یزید بن معاویہ
دور امامت: 50-61ھ
امام زین العابدین علیہ السلام مدت حیات: (38تا95ھ) امام علی امام حسن معاویہ بن ابی سفیان یزید بن معاویہ معاویہ بن یزید مروان بن حکم(64-65ھ) عبدالملک بن مروان (65-86ھ) ولید بن عبدالملک (86تا96ھ)
دور امامت: 61-95ھ
امام محمد باقر علیہ السلام مدت حیات: (57تا114ھ) معاویہ بن ابی سفیان یزید بن معاویہ معاویہ بن یزید مروان بن الحکم عبدالملک بن مروان ولید بن عبدالملک سلیمان بن عبدالملک (96-99ھ) عمر بن عبدالعزیز (99-101ھ) یزید بن عبدالملک (101-105ھ) ہشام بن عبدالملک (105-125ھ)
دور امامت: 95-114ھ
امام جعفر صادق علیہ السلام مدت حیات: (82تا148ھ) عبدالملک بن مروان ولید بن عبدالملک سلیمان بن عبدالملک عمر بن عبدالعزیز یزید بن عبدالملک ہشام بن عبدالملک ولید بن یزید (125-126ھ) ولید بن عبدالملک (126-126ھ) ابراہیم بن ولید (126-127ھ) مروان بن محمد (127-132) ابوالعباس سفاح (132-136ھ) منصور دوانیقی (136-158ھ)
دور امامت: 114-148ھ
امام موسی کاظم علیہ السلام مدت حیات: (۱۲۸-۱۸۳ق) مروان بن محمد ابوالعباس سفاح منصور دوانیقی مہدی عباسی(158-169) ہادی عباسی(169-170ھ) ہارون‌الرشید(170-193ھ)
دور امامت: (128تا183ھ)
امام علی رضا علیہ السلام مدت حیات: (148تا203ھ) منصور دوانیقی مہدی عباسی ہادی عباسی ہارون‌الرشید امین عباسی (193-198ھ) مأمون عباسی (198-218ھ)
دور امامت: 183-203ھ
امام محمد تقی علیہ السلام مدت حیات: (195تا220ھ) امین عباسی مأمون المعتصم باللہ (218-227ھ)
دور امامت: 203-220ھ
امام علی نقی علیہ السلام مدت حیات: (254-212ھ) مأمون المعتصم باللہ الواثق باللہ (227-232ھ) متوکل (232-247ھ) منتصر (247-248) مستعین (248-252) معتز (252-255)
دور امامت: 220-254ھ
امام حسن عسکری علیہ السلام مدت حیات:(232تا260ھ) متوکل منتصر مستعین معتز مہتدی (255-256) معتمد (256-278ھ)
دور امامت: 255-260ھ
امام مہدی علیہ السلام مدت حیات: (255ھ-بقید حیات) خلفا غیبت صغری کے اختتام تک

معتز مہتدی معتمد معتضد (278-289ھ) مکتفی (289-295ھ) مقتدر (295-320ھ) قاہر (320-322ھ) راضی (322-329ھ)

دور امامت: 260ھ-...

خلفائے راشدین ایک ایسا عنوان ہے جسے اہل سنت حضرات پیغمبر اکرمؐ کے بعد صدر اسلام کے اسلامی حکمرانوں کیلئے اطلاق کرتے ہیں۔ اہل سنت کے مطابق خلفائے راشدین بالترتیب ابوبکر، عمر، عثمان اور حضرت علیؑ ہیں۔ بعض منابع میں امام حسنؑ کو بھی خلفائے راشدین میں شمار کرتے ہیں۔ بعض حضرات اس عنوان کو پیغمبر اکرمؐ کی ایک حدیث سے منسوب کرتے ہیں جس میں آپ نے اپنے بعد خلافت کو 30 سال پر محیط قرار دیتے ہیں۔

اس اصطلاح کے حامی حضرات اس 30 سال کے عرصے کو اسلامی دور حکومت کا سنہرا دور قرار دیتے ہیں جس میں ایمان، عدالت اور اسلامی فضائل اپنے عروج پر تھے۔ یہ حضرات "راشدین" کے عنوان کو صدر اسلام کے ان شخصیات کو بنی امیہ کے دور کے ناپاک اور دنیا پرست خلفاء سے جدا اور متمائز کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ اگرچہ بعض حضرات نے اس اصطلاح کو عثمانیوں کا شیعوں کے نظریہ امامت سے مقابلہ کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔[1]

راشد کے معنی

راشد کے معنی ہدایت یافتہ کے ہیں۔ اور اہل سنت کے عقیدے کے مطابق خلفائے راشدین بالترتیب ابوبکر، عمر، عثمان اور حضرت علیؑ ہیں۔[2] اکثر معاصر مصنفین نے بھی خلفائے راشدین کو صرف انہی چار شخصیات میں منحصر جانا ہے۔[3]

اس عنوان کا احادیث سے استناد

"خلفائے راشدین" کے عنوان کی سند کو پیغمبر اکرمؐ کی ایک حدیث کی طرف منسوب کرتے ہیں جو تھوڑی بہت اختلاف کے ساتھ اہل سنت کی حدیثی مجامع میں نقل ہوئی ہے۔[4] اس کے بعد اہل سنت محدثین اور مورخین نے اس عنوان کو صدر اسلام کے پہلے چار خلفاء کے اوپر اطلاق کیا ہے۔ جن کے بارے میں ان کا عقیدہ ہے کہ ان شخصیات نے پیغمبر اکرمؐ کی سنت کی پیروی اور اس کی حفاظت کی ہے۔ [5]

کہا جاتا ہے کہ بنی امیہ کے کارندے "خلفائے راشدین" کے عنوان کو پیغمبر اکرمؐ کی ابتدائی جانشنینوں پر اطلاق کرتے ہیں۔[6]

بعض شیعہ بزرگان مانند علامہ امینی اس حدیث کے بارے میں تحقیق ارو جانچ پڑتال کے بعد اسے جعلی قرار دیتے ہیں۔ [7] البتہ شیعہ احادیث کی کتابوں میں چہ بسا یہ عنوان ائمہ معصومین کیلئے بھی استعمال ہوا ہے.[8]

ابوبکر کی خلافت

تفصیلی مضمون:ابوبکر بن ابوقحافہ یا واقعہ سقیفہ بنی ساعدہ

پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد مدینہ میں موجود انصار اور مہاجرین آپؐ کی جانشین کی تعیین کی خاطر سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہو گئے۔ اس حوالے سے ایک طرف خود انصار کے درمیان دوسری طرف سے انصار کا مہاجرین کے درمیان اختلاف پیدا ہوا اس درمیان بعض نے ابوبکر کی بعنوان خلیفہ بیعت کر ڈالا [9] یہ بیعت جو پیغمبر اکرمؐ کے اکثر صحابہ کی غیر موجودگی میں واقع ہوئی بیعت سقیفہ سے مشہور ہوئی۔[10] اہل سنت متکلمین کے مطابق اہل حل و عقد کا اجماع ابوبکر کی خلافت کو مشروعیت دینے کیلئے کافی ہے۔[11]

اگرچہ امام علیؑ، بنی ہاشم اور حضرت علیؑ کے پیروکار منجملہ مہاجران اور انصار کا ایک گروہ جو حضرت علیؑ کے ابتدائی شیعہ کے نام سے معروف ہیں، نے پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے حضرت علیؑ کی جانشینی پر نص، رسول اللہ سے ان کی قرابت اور اسلام میں ان کی سبقت کو مد نظر رکھتے ہوئے ابوبکر کی بیعت سے انکار کیا۔ [12]

عمر بن خطاب کی خلافت

دوس سال کچھ مہینے خلافت (۱۱- ۱۳ق)کے بعد ابوبکر نے مرنے سے پہلے ایک وصیت نامہ لکھ کر عمر کو اپنا جانشین معرفی کر دیا یوں اس نے خود اپنے ہاتھوں سقیفہ میں انجام پانے والی بیعت کو قانونی شمار نہیں کیا بلکہ خلیفہ انتخاب کرنے کا ایک ایک طریقہ معرفی کیا کہ موجودہ خلیفہ اپنے بعد والے خلیفہ کو انتخاب کر کے جائے۔[13] اسی وجہ سے عمر کا اس طریقے سے انتخاب پر بعض بزرگ صحابہ نے اپنی ناراضگی اور نگرانی کا اظہار کیا[14] لیکن دوسروں نے آنکھ بند کرکے چپکے سے اسے تسلیم کر لیا۔

عمر کے اقدامات

عمر کی دس سالہ دورہ خلافت(۱۳-۲۳ق) کے دوران اسلامی حکومت کا دائرہ کار تیزی سے پھیلا۔ اس نے بیت المال کی تقسیم میں اسلام میں سبقت، غزوہ بدر میں شرکت، پیغمبر اکرمؐ سے قرابت اور خاندانی حسب و نسب کو ملاک قرار دیا[15] جو سراسر اسلامی احکام کے خلاف تھا۔

عمر مسلمانوں کا پہلا خلیفہ ہے ہوا۔ اس نے اپنی موت سے پہلے چھ افراد پر مشتمل ایک شورای(کمیٹی) تشکیل دی جس میں امام علیؑ اور عثمان بھی شامل تھے۔ اس کمیٹی کی یہ ذمہ داری تھی کہ تین دن کے اندر اپنے درمیان سے کسی کو بعنوان خلیفہ انتخاب کیا جائے لیکن اس میں ایک انوکھی شرط رکھی گئی تھی جس کے مطابق آخری فیصلہ کرنے کا حق عبدالرحمان بن عوف کو دیا جو حقیقت میں امام علیؑ کو انتخاب ہونے سے بچانے کی سازش تھی۔ یوں اقربا پروری اور ذاتی دشمنی کی بنا پر عثمان کو اس شرط پر خلیفہ منتخب کیا گیا کہ وہ کتاب خدا، سنت پیغمبرؐ اور شیخین (ابوبکر اور عمر) کی سیرت پر عمل پیرا ہوگا۔

عثمان کی خلافت

اگرچہ عثمان کے 12 سالہ دور خلافت(۲۳-۳۵ق) کو دو چھ سالہ دور میں تقسیم کیا گیا ہے جس کے تحت آخری چھ سالہ دور خلافت میں عثمان نے عمر کی سیرت پو پس پشت ڈال کر اقرباء پروری کا بازار گرم کر دیا جو لوگوں کی ناراضگی اور غم و غصے کا باعث بنا لیکن اگر دقت سے عثمان کے اقدامات کی طرف نظر کریں تو معلوم ہوگا کہ اس نے ابتداء سے ہی اسلامی حکومت کی کیلدی عہدوں پر اپنے نزدیکی افراد کو منصوب کیا تھا۔[16]

عثمان اس بات کو اپنا حق سمجھتا تھا کہ قدرت اور ثروت کو اپنی مرضی سے جسے چاہے آزادانہ بخش دے اس حوالے سے کسی بھی اعتراض کو قبول نہیں کرتا تھا۔[17] اس کے دور میں اس نے بنی امیہ کی کھل کر حمایت کی اور حکومتی اثاثوں کا بے ذریغ استعمال کیا نیز اس کے دور خلافت میں تجمل گرائی، اسراف اور تبذیر جیسی برائیاں اسلامی معاشرے میں رائج ہو گیا۔[18]

اس نے عمومی اور بیت المال کی زمینوں کو اموال خصوصی میں تبدیل کرکے خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کرنے کی طرف ایک بڑا قدم اٹھایا۔[19]بعض صحابہ کے ساتھ اس کی بد سلوکی، اس کے کارندوں کا ظلم و ستم اور بدعتوں کی ترویج قرآن اور سنت پیغمبرؐ کے سراسر خلاف ورزی تھی جس کی وجہ سے لوگوں کی شدید احتجاجات اور اعتراضات کا نشانہ بنا اور آخر کا اسے قتل کیا گیا۔

امام علیؑ کی خلافت ظاہری

عثمان کے بعد مسلمانوں نے امام علیؑ کی بیعت کی۔ جس میں پچھلے تین خلفاء کے برخلاف مدینے میں موجود تمام مسلمانوں نے شرکت کی اور حضرت علیؑ کی بعنوان خلیفہ بیعت کی۔[20] شروع میں عثمان کے خلاف اعتراضات کرنے والے مدینہ کے انصار، کوفہ اور مصر کے باسیوں اور مہاجرین کی ایک گروہ نے آپ کی حمایت کی پھر کچھ مدت کے بعد تمام بڑے بڑے قبائل کے سرداروں کی حمایت حاصل ہوئی۔ [21]

علیؑ کے اصلاحات

آپ کی خلافت اسلام کی نظام سیاسی کی استحکام اور لوگوں کی سماجی اور معاشی حالات کی بہتری کا سنگ بنیاد قرار پائی۔ [22] خلافت ظاہر پر جلوہ افروز ہونے کے بعد آپ نے پہلا قدم عثمان کے زمانے میں غیر قانونی اور غیر شرعی طور پر منصوب ہونے والے حکومتی عہدہ داروں کو معزول کرکے ان کی جگہ لائق اور فرض شناس عہدہ داروں کو مقرر کرنے اور لوگوں کے ضایع شدہ حقوق کو پلٹانے کے ذریعے اٹھایا۔ [23] جبکہ یہ بیت المال اور پوری امت اسلامی کا حصہ تھےپی۔ [24]

مسلمانوں کے داخلی اختلافات کا عروج

عثمان کے دور خلافت میں شروع ہونے والی داخلی اختلافات امام علیؑ کے دور میں بھی جاری رہی بلکہ آپ کے دور خلافت میں یہ اختلافات عروج پر پہنچے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے آپس میں تین جنگیں لڑنی پڑی۔ آپؑ کے دور خلافت میں لڑی جانے والی جنگیں اور ان کے اسباب؛

  • پہلی جنگ، (جنگ جمل) جو طلحہ، زبیر اور عایشہ کی سربراہی میں لڑی گئی جس کا اصلی سبب طلحہ اور زبیر کی قدرت طلبی اور بیعت شکنی تھا یہ جنگ طلحہ اور زبیر کی ہلاکت اور امام علیؑ کی کامیاب پر اختتام پذیر ہوئی۔
  • دوسری جنگ، (جنگ صفین) جو معاویہ کی سرکردگی میں شروع ہوا جس میں معاویہ اور عمروعاص نے افکار عمومی کو ورغلا کر عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے بہانے مسلمانوں کو ایک دوسرے آمنے سامنے لاکھڑا کر دیا۔ [25] یہ جنگ جو کئی مہینے جاری رہی آخر کار جب معاویہ نے اپنی شکست کو چند قدموں کے فاصلے پر دیکھا تو عمروعاص کے ذریعے امام علیؑ کی سادہ لوح لشکر کو فریب دے کر قرآن کو نیزوں پر بلند کرکے اعلان کیا کہ آج کے بعد ہمارے درمیان قرآن فیصلہ کریگا یوں یہ جنگ، حکمیت کے مسئلے پر اختتام پذیر ہوئی جس میں عمروعاص کو معاویہ کی جانب سے اور ابوموسی اشعری کو امام علیؑ کی جانب سے بعنوان حکم انتخاب کیا گیا جس میں عمروعاص نے ابوموسی کو فریب دے کر امام علیؑ کو خلافت سے عزل اور معاویہ کو خلافت پر باقی رکھا یوں مسئلہ حکمت کا جنازہ بر آمد ہوا۔ جبکہ یہ فیصلہ ان دونوں کی حیطہ اختیار سے باہر تھا اور امام علیؑ نے بھی اس پر اعتراض کیا لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
  • حکمیت کے مسئلے میں امام علیؑ کے بعض سپاہی جو پہلے حکمیت کو قبول کرنے پر ایڑی چوٹی کا زور دے رہے تھے معاویہ اور عمروعاص کی فریبکاری کو دیکھنے کے بعد اس کے قبول کرنے پر امام علیؑ کو ملامت کرنے لگے اور حکمیت کے خلاف اعتراضات کرنے لگے اور لا حکم الا للہ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے آپؑ سے جدا ہوگئے۔ جن کی کج فہمی اور جمود فکری کی وجہ سے جنگ نہروان وجود میں آگئی جو خوارج کی نابودی پر اختتام پذیر ہوئی [26]

آخر کار 21 رمضان ۴۰ ق، کو خوارج کے ہاتھوں امام علیؑ کی شہادت کے ساتھ مسلمانوں کا چوتھا خلیفہ بھی مارا گیا یوں خلافت راشدہ کا دور (ایک قول کی بنا پر)اپنے اختتام کو پہنچا جس کے بعد کوفہ والوں نے امام حسنؑ کی بیعت کی۔ [27]

امام حسنؑ کا دور خلافت

امام حسنؑ کی مختصر دور حکومت کو امام علیؑ کی حکومت کا تسلسل جانا جاتا ہے۔ کیونکہ ایک طرف سے آپ کی خلافت بھی امام علیؑ کی خلافت کی طرف عمومی بیعت کے ذریعے شروع ہوئی اور آپ نے بھی کتاب اللہ اور سنت پیغمبرؐ پر عمل کرنے کو اپنی بیعت کیلئے شرط قرار دے دیا۔ امام حسن کا اہم ترین حکومتی اقدام بھی اپنے پدر بزرگوار کی طرح معاویہ سے مقابلہ کرنا تھا۔ [28] آپؑ نے معاویہ کے ساتھ مقابلہ کی خاطر ایک لشکر تیار کیا لیکن معاویہ نے طاقت کے بل بوتے اور اپنے حامیوں نیز امام حسنؑ کے لشکریوں میں مال و ثروت کے بے تحاشا بخششوں کے ذریعے امام کا مقابلہ کیا یہاں تک کہ امامؑ کو معاویہ کے ساتھ مسلح جنگ کرنا ناممکن بنا دیا یوں ناچار معاویہ کے ساتھ صلح کرکے حکومت کی باگ ڈور کو معاویہ کے سپرد کردیا۔[29]

خلافت اسلامی کا اختتام

امام حسنؑ اور معاویہ کے درمیان اس صلح کے ساتھ اسلامی خلافت کا 30 سالہ دور اپنے اختتام کو پہنچا اور اس کے بعد ملوکیت نے خلافت کا لبادہ اوڑا یوں بنی امیہ کی بادشاہت کا آغاز ہوا۔ [30]

حوالہ جات

  1. منبع مقالہ، دانشنامہ جہان اسلام، ج۱۶، صص۱۳-۱۶.
  2. ابن اثیر، النہایۃ، فی غریب الحدیث و الاثر، ج۲، ص۲۲۵؛ ابن منظور، ذیل راشد.
  3. حسن ابراہیم حسن، تاریخ الاسلام: السیاسی و الدینی و الثقافی و الاجتماعی، ج۱، صص۲۰۳- ۲۷۴؛ باسورث، صص۱- ۲.
  4. ابن حنبل، ج۴، ص۱۲۶؛ دارمی، ج۱، ص۴۵؛ ابن ماجه، ج۱، ص۱۶؛ شریف رضی، ص۱۷۴
  5. ابن خُزیمہ، ج۴، ص۳۲۵؛ ابن ابی زید، ص۲۳؛ ابن عبدالبر، ص۱۳۶
  6. مدرسی طباطبائی، ص۱۴۱
  7. امینی، ج۸، ص۲۰۶؛ عسکری، ج۲، صص۲۳۳- ۲۳۵؛ حسینی میلانی، ص۵- ۶۰
  8. ابن بابویہ، ج۱، ص۳۳۱- ۳۳۲؛ مجلسی، ج۲۵، ص۱۷۴؛ ج۹۷، ص۲۰۸
  9. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج ۴، صص ۳۱۰- ۳۱۱؛ ابن قتیبہ، تاریخ الخلفاء، ج ۱، صص ۴- ۹؛ یعقوبی، تاریخ، ج ۲، صص ۱۲۳- ۱۲۴؛ طبری، تاریخ، ج ۳، صص ۲۱۸- ۲۲.
  10. یعقوبی، تاریخ، ج ۲، صص ۳۲۵- ۳۲۶؛ حسن ابراہیم حسن، تاریخ الاسلام: السیاسی و الدینی و الثقافی و الاجتماعی، ج ۱، ص۲۰۵.
  11. قاضی عبدالجبار بن احمد، المغنی فی ابواب التوحید و العدل، ج ۲۰، قسم ۱، صص ۲۵۹ بہ بعد؛ ماوردی، کتاب الاحکام السلطانیۃ و الولایات الدینیۃ، ص۶؛ ابن فراء، الاحکام السلطانیۃ، صص ۲۳- ۲۴؛ قلقشندی، آثر الانافۃ فی معالم الخلافۃ، ج ۱، ص۴۰.
  12. یعقوبی، تاریخ، ج ۲، صص ۳۲۵- ۳۲۶؛ مسعودی، تاریخ، ج ۳، ص۴۳؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج ۱، ص۳۲۵.
  13. ابن قتیبہ، ج۱، صص۱۸- ۱۹؛ فضل اللہ بن روزبہان، ص۸۰
  14. ابن قتیبہ، ج۱، ص۲۰؛ طبری، ج۳، ص۴۲۸
  15. یعقوبی، ج۲، ص۱۵۳
  16. مادلونگ، صص۸۶- ۸۷
  17. مادلونگ، ص۸۱
  18. مسعودی، ج۳، صص۷۶- ۷۷
  19. مادلونگ، ص۸۵
  20. مسعودی، ج۳، ص۸۷-۹۰، ۹۳؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۳، صص۱۹۰- ۱۹۱.
  21. یعقوبی، ج۲، صص۱۷۸- ۱۷۹.
  22. نہج البلاغہ، خطبہ16، ۱۲۶
  23. (جس کی واضح مثال وہ زمینیں ہیں جسے عثمان نے اپنی مرضی سے لوگوں میں تقسیم کیا تھا)
  24. یعقوبی، ج۲، ص۱۷۹؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۳، ص۲۰۱؛ ابن ابی الحدید، ج۱، ص۲۶۹؛ محمد عبدالقادر خریسات، صص۸۱- ۸۵
  25. ابن قتیبہ، ج۱، صص۲۸- ۴۹
  26. یعقوبی، ج۲، صص۱۸۹- ۱۹۰؛ طبری، ج۵، صص۶۴- ۸۵
  27. یعقوبی، ج۲، ص۲۱۴؛ طبری، ج۵، ص۱۵۸؛ مسعودی، ج۳، ص۱۸۱
  28. یعقوبی، ج۲، ص۲۱۴؛ طبری، ج۵، ص۱۵۸- ۱۵۹
  29. یعقوبی، ج۲، صص۲۱۴- ۲۱۵
  30. رک: مسعودی، مروج الذہب، ج ۳، ص۱۸۴؛ سیوطی، تاریخ الخلفاء، ص۹.

مآخذ

  • ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، چاپ محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہرہ، ۱۳۸۵-۱۳۸۷/ ۱۹۶۵-۱۹۶۷، چاپ افست بیروت، بی‌تا.
  • ابن ابی زید، رسالۃ ابن ابی زید القیروانی، چاپ صالح عبدالسمیع آبی ازہری، بیروت، بی‌تا.
  • ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، ۱۳۸۵-۱۳۸۶/ ۱۹۶۵-۱۹۶۶، چاپ افست ۱۳۹۹-۱۴۰۲/ ۱۹۷۹-۱۹۸۲.
  • ابن اثیر، مبارک بن محمد، النہایۃ فی غریب الحدیث و الاثر، چاپ محمود محمد طناحی و طاہر احمد زاوی، بیروت ۱۳۸۳/۱۹۶۳، چاپ افست قم ۱۳۶۴ ش.
  • ابن بابویہ، کمال الدین و تمام النعمۃ، چاپ علی اکبر غفاری، قم ۱۳۶۳ ش.
  • ابن حنبل، احمد، مسند الامام احمد بن حنبل، بیروت: دارصادر، بی‌تا.
  • ابن خزیمہ، صحیح این خزیمہ، چاپ محمد مصطفی اعظمی، بیروت، ۱۴۱۲/ ۱۹۹۲.
  • ابن عبد البَر، الانتفاء فی فضائل الائمہ الثلاثۃ الفقہاء: مالک بن انس الاصبحی مدنی و محمد بن ادریس الشافعی المطلبی و ابی حنیفہ النعمان بن ثابت کوفی، چاپ عبدالفتاح ابوغدّہ، حلب ۱۴۱۷/ ۱۹۹۷.
  • ابن فرّاء، الاحکام السلطانیۃ، چاپ محمد حامد فقی، بیروت ۱۴۰۳/ ۱۹۸۳.
  • ابن قتیبہ، تاریخ الخلفاء، او، الامامۃ و السیاسۃ، بیروت ۱۴۰۱/۱۹۸۱.
  • ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، چاپ علی شیری، بیروت ۱۴۰۸/ ۱۹۸۸.
  • ابن ماجہ، سنن ابن ماجۃ، چاپ محمد فؤاد عبدالباقی، قاہرہ ۱۳۷۳/ ۱۹۸۸، چاپ افست، بیروت بی‌تا.
  • ابن منظور.
  • ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، چاپ مصطفی سقا، ابراہیم ابیاری، و عبدالحفیظ شلبی، قاہرہ ۱۳۵۵/ ۱۹۳۶، چاپ افست بیروت بی‌تا.
  • امینی عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب السنۃ و الادب، ج ۸، بیروت ۱۳۸۷ /۱۹۶۷.
  • حسن ابراہیم حسن، تاریخ الاسلام: السیاسی و الدینی و الثقافی و الاجتماعی، ج ۱، قاہرہ ۱۹۶۴، چاپ افست، بیروت بی‌تا.
  • حسینی میلانی، رسالۃ فی حدیث «‌علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء، الراشدین »، قم ۱۴۱۸ ق.
  • دارمی، سنن الدارمی، چاپ محمد احمد دہقان، دمشق، ۱۳۴۹.
  • ذہبی.
  • سیوطی عبدالرحمان بن ابی بکر، تاریخ الخلفاء، چاپ محمد محیی الدین عبدالحمید، قاہرہ، ۱۳۷۸ /۱۹۵۹؛
  • شریف رضی، محمد بن حسین، المجازات النبویۃ، چاپ طہ محمد.
  • زینی، قاہرہ ۱۹۶۸، چاپ افست قم، بی‌تا.
  • عسکری، مرتضی، معالم المدرستین، تہران، ۱۴۱۳ /۱۹۹۳.
  • علی بن ابی طالب، امام اول شیعیان، نہج البلاغۃ، ترجمہ جعفر شہیدی، تہران، ۱۳۷۱ ش.
  • فضل اللہ بن روزبہان، سلوک الملوک، چاپ محمد علی موحد، تہران ۱۳۶۲ ش.
  • قاضی عبدالجبار بن احمد، المغنی فی ابواب التوحید و العدل، ج۲۰، چاپ عبدالحلیم محمود و سلیمان دنیا، قاہرہ، بی‌تا.
  • قلقشندی، احمد بن علی، مآثر الانافۃ فی معالم الخلافۃ، چاپ عبدالستار احمر فراج، کویت ۱۹۸۵.
  • ماوردی، علی بن محمد، کتاب الاحکام السلطانیۃ و الولایات الدینیۃ، چاپ احمد مبارک بغدادی، کویت، ۱۴۰۹/ ۱۹۸۹.
  • مجلسی، محمد عبدالقادر خریسات، «‌القطائع فی صدر الاسلام: عصر الرسول و خلفاء الراشدین »، دراسات تاریخیۃ، ش ۲۷ و ۲۸ (ایلول- کانون الاول ۱۹۸۷).
  • مدرسی طباطبائی، حسین، مکتب در فرایند تکامل: نظری بر تطور مبانی فکری تشیع در سہ قرن نخستین، ترجمہ ہاشم ایزد پناہ، نیوجرسی، ۱۳۷۴ ش.
  • مسعودی، مروج الذہب، (بیروت).
  • واقدی، محمد بن عمر، کتاب المغازی، چاپ مارسدن جونز، لندن ۱۹۶۶، چاپ افست قاہرہ، بی‌تا.
  • یعقوبی، تاریخ.
  • Clifford Edmond Bosworth, The new Islamic dynasties: a chronological and genealogical manual, Edinburg 2004.
  • Philip Khuri Hitti, History of the Arabs, London 1977.
  • Madelung, The succession to Muhammad: a study of the early Caliphate, Cambridge 1997.