حدیث ولایت
حیات طیبہ | |
---|---|
یوم الدار • شعب ابی طالب • لیلۃ المبیت • واقعہ غدیر • مختصر زندگی نامہ | |
علمی میراث | |
نہجالبلاغہ • غرر الحکم • خطبہ شقشقیہ • بغیر الف کا خطبہ • بغیر نقطہ کا خطبہ • حرم | |
فضائل | |
آیہ ولایت • آیہ اہلالذکر • آیہ شراء • آیہ اولیالامر • آیہ تطہیر • آیہ مباہلہ • آیہ مودت • آیہ صادقین • حدیث مدینہالعلم • حدیث رایت • حدیث سفینہ • حدیث کساء • خطبہ غدیر • حدیث منزلت • حدیث یومالدار • حدیث ولایت • سدالابواب • حدیث وصایت • صالح المؤمنین • حدیث تہنیت • بت شکنی کا واقعہ | |
اصحاب | |
عمار بن یاسر • مالک اشتر • سلمان فارسی • ابوذر غفاری • مقداد• عبید اللہ بن ابی رافع • حجر بن عدی • مزید | |
حدیث ولایت، پیغمبر اسلامؐ کی ایک مشہور حدیث ہے جو مختلف عبارتوں کے ساتھ شیعہ سنی حدیثی کتابوں میں ذکر ہوئی ہے۔ اس حدیث کی مشہور عبارت یہ ہے:"هُوَ وَلِیُّ کُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدی" (ترجمہ: وہ (علیؑ) میرے بعد ہر مومن کا ولی ہے۔)
شیعہ اس حدیث میں "ولی" کے لفظ کو امام اور سرپرست کے معنی میں لیتے ہوئے اسے حضرت علیؑ کی امامت پر دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کا مدعا ہے کہ "ولی" کا لغوی معنی بھی یہی ہے اور شیخین، صحابہ، تابعین اور اہل سنت کے بعض علماء کی نظر میں بھی ولی سے مراد امام اور سرپرست ہی ہے۔ لیکن اہل سنت کہتے ہیں کہ ولی کے معنی صرف امام اور سرپرست نہیں بلکہ دوست کو بھی ولی کہا جاتا ہے اور اس حدیث میں بھی ولی سے مراد دوست ہی ہے لذا اس حدیث کا حضرت علیؑ کی ولایت اور امامت کے مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
متن
جعفر بن سلیمان نے عمران بن حصین سے نقل کیا ہے کہ رسول خداؐ نے اصحاب کے ایک گروہ کو حضرت علیؑ کی سپہ سالاری میں جنگ کے لئے بھیجا۔ اس جنگ میں مسلمانوں کو کچھ غنیمت ملی جسے حضرت علیؑ نے اس طرح تقسیم کیا کہ بعض اصحاب کو یہ طریقہ پسند نہ آیا۔ لذا انہوں نے آپس میں طے کیا کہ پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں پہنچ کر علیؑ کے اس عمل کے بارے میں رسول خدا سے شکایت کریں گے۔ جب پیغمبرؐ کی خدمت میں پہنچے تو یکے بعد دیگرے کہنے لگے: یا رسول اللہؐ کیا آپکو پتہ ہے علیؑ نے ایسا کیا ہے؟ رسول خداؐ کے چہرے پر غصے کے آثار نمودار ہوئے اور فرمایا: علی سے کیا چاہتے ہو؟ علی سے کیا چاہتے ہو؟ علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور میرے بعد علی ہر مومن کا ولی ہے۔[1]
مختلف نقل قول
یہ حدیث مختلف عبارتوں کے ساتھ شیعہ اور سنی مآخذ میں نقل ہوئی ہے۔ من جملہ: "علی ولی کل مؤمن بعدی"[2] "هو ولی کل مؤمن بعدی"[3] "انت ولی کل مؤمن بعدی"[4] "أنت ولی کل مؤمن بعدی و مؤمنه"[5]"انت ولیی فی کل مؤمن بعدی"[6] "فانه ولیکم بعدی"[7] "ان علیا ولیکم بعدی"[8] "هذا ولیکم بعدی"[9] "انک ولی المؤمنین من بعدی"[10] "انت ولیی فی کل مؤمن بعدی"[11] "و انت خیلفتی فی کل مؤمن من بعدی" [12] "و فهو اولی الناس بکم بعدی"[13]
مضمون
اہل تشیع کے مطابق، یہ حدیث حضرت علیؑ کی امامت اور ولایت کو بیان کرتی ہے۔ [14] وہ لفظ "ولی" کو سرپرست، امام، رہبر اور خلیفہ کے معنی لیتے ہیں۔ [15] لیکن اہل سنت کے مطابق اس حدیث کا حضرت علیؑ کی ولایت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ان کی نگاہ میں "ولی" کا مطلب دوستی اور مددگار کے ہیں۔ [16] شیعہ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے کہتے ہیں: لفظ "ولی" کا معنی سرپرست، رہبر، خلیفہ، صاحب اختیار اور امام ہے، جو صدر اسلام اور اس کے بعد بھی خلیفہ اور سرپرست کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اور ان کا کہنا ہے کہ پہلے خلیفہ، [17] دوسرے خلیفہ، [18] صحابہ، [19] تابعین [20] اور بعض اہل سنت علماء [21] بھی لفظ "ولی" کو خلیفہ اور سرپرست کے معنی میں استعمال کرتے تھے۔
اعتبار
عبدالقادر بغدادی اور ابن حجر عسقلانی نے کہا ہے کہ اس حدیث کو ترمذی نے صحیح سند کے ساتھ عمران بن حصین سے نقل کیا ہے۔ [22] متقی ہندی نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔ [23] حاکم نیشابوری نے اس حدیث کو صحیح السند کہا ہے، مسلم اور بخاری نے اسے صحیحین میں ذکر نہیں کیا ہے۔ [24] اسی طرح شمس الدین ذہبی اور ناصر الدین البانی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ [25]
مآخذ
یہ حدیث درج ذیل کتابوں میں ذکر ہوئی ہے:
- صحیح ترمذی
- مسند احمد بن حنبل [26]
- جامع الاحادیث سیوطی [27]
- کنز العمال [28]
- مسند ابی داود [29]
- فضائل الصحابہ [30]
- الآحاد والمثانی [31]
- سنن نسائی [32]
- مسند ابویعلی [33]
- صحیح ابن حبان [34]
- المعجم الکبیر طبرانی [35]
- تاریخ مدینہ دمشق[36]
- البدایہ والنہایہ[37]
- الاصابہ [38]
- الجوہرہ فی نسب الامام علی و آلہ[39]
- خزانہ الادب و لب لباب لسان العرب [40]
- الغدیر[41]
- الاستیعاب [42]
- کشف الغمہ[43]
سندی تحقیقات
مبارکفوی کا اعتقاد ہے کہ لفظ "بعدی" جو کہ اس حدیث کی بعض سند میں موجود نہیں ہے، شیعہ راویوں کی طرف سے اس میں اضافہ ہوا ہے۔ وہ اپنے ادعا کو ثابت کرنے کے لئے احمد بن حنبل کے مسند کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جس میں، یہ حدیث مختلف سندوں کے ساتھ ذکر ہوئی ہے اور کسی میں بھی یہ اضافہ نہیں ہوا ہے۔ [44] البتہ احمد بن حنبل نے اسی حدیث کو مسند [45] اور فضائل الصحابہ میں اس اضافے کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ [46]
اسی طرح مبارکفوی ادعا کرتا ہے کہ یہ حدیث صرف جعفر بن سلیمان اور ابن اجلح کندی نے روایت کی ہے۔ اور کیونکہ یہ دونوں شیعہ ہیں، اسی لئے ان کی روایات قابل قبول نہیں ہیں وہ شیعہ کو اہل بدعت کہتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر بدعت گزار کوئی روایت اپنے مذہب کے حق میں نقل کرتا ہے تو اس کی روایت قابل قبول نہیں ہے۔ [47] حالانکہ البانی کے کہنے کے مطابق، اہل سنت کے نزدیک حدیث کو قبول کرنے کا معیار صرف سچائی اور راوی کا صحیح ہونا ہے اور راوی کے مذہب کے بارے میں کچھ بحث نہیں کی گئی اسی لئے بخاری اور مسلم نے صحیحین میں دوسرے مذاہب جیسے کہ خوارج اور شیعہ سے بھی روایت نقل کی ہیں۔ [48]
البانی نے کہا ہے کہ یہ حدیث اہل سنت کے منابع میں دوسری سندوں کے ساتھ نقل ہوئی ہے اور اس کے سلسلہ سند میں کوئی شیعہ راوی نہیں ہے۔ [49] سید علی میلانی نے کہا ہے کہ یہ حدیث بارہ تن صحابہ[50] من جملہ امام علیؑ، امام حسنؑ، ابوذر، ابوسعید خدری اور براء بن عازب سے روایت ہوئی ہے۔[51] اور اکثر اس کے ناقل عمران بن حصین، ابن عباس اور بریدہ بن حصیب ہیں۔ [52] حدیث اس عبارت کے ساتھ "انت ولی کل مؤمن بعدی" [53]، "انت ولی کل مؤمن بعدی و مؤمنہ" [54] اور وانت ولیی فی کل مؤمن بعدی" [55] ابن عباس سے اور یہ عبارت "علی ولی کل مؤمن بعدی" عمران بن حصین سے نقل ہوئی ہے۔ [56] بریدہ بن حصیب نے اسے ان عبارات "ان علیا ولیکم بعدی" [57] اور"ھذا ولیکم کل مؤمن بعدی" [58] سے نقل کیا ہے۔
اسی طرح جعفر بن سلیمان، صحیح مسلم کے راویوں سے ہے[59] ذہبی نے اسے امام کی تعبیر سے یاد کیا ہے [60] اور یحییٰ بن معین سے نقل کیا ہے کہ اسے ثقہ کہتے تھے۔ [61] البانی، جعفر کو ایک با اعتماد اور صاحب روایات راوی مانتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ اہل بیتؑ کی طرف مائل تھا اور اپنے مذہب کی دعوت نہیں کرتا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ ہمارے مذہب میں اگر اہل بدعت سے اگر کو سچا ہو لیکن اپنے مذہب کی دعوت نہ کرتا ہو تو اس کی حدیث کی طرف رجوع کرنا صحیح ہے۔ [62]
بعض اہل سنت علماء، ابن اجلح کی حدیث کو بھی صحیح سمجھتے ہیں۔ [63] البانی نے اجلح کی حدیث کو گواہی کے طور پر پیش کی ہے جس میں اس نے جعفر بن سلیمان کی حدیث کو صحیح کہا ہے۔ [64]
مبارکفوری نے کہا ہے کہ "ابن تیمیہ" کا ادعا ہے کہ یہ روایت جھوٹھی ہے اور اسے رسول خداؐ سے نسبت دی گئی ہے۔[65] البانی جو کہ اہل سنت کا عالم ہے اس نے ابن تیمیہ کے اس حدیث پر انکار کرنے پر، تعجب کا اظہار کیا ہے۔[66]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ ابن شیبہ، المصنف، ۱۴۰۹ق، ج۸، ص۵۰۴، ح۵۸؛ طیالسی، مسند ابیداود، دارالمعرفہ، ص۱۱۱۔
- ↑ ابن شیبہ، المصنف، ۱۴۰۹ق، ج۸، ص۵۰۴، ح۵۸؛ نسائی، السنن الکبری، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۱۳۲؛ ہندی، کنزالعمال، ۱۴۰۹ق، ج۱۳، ص۱۴۲۔
- ↑ طیالسی، مسند ابیداود، دارالمعرفہ، ص۱۱۱؛ ابن حنبل، مسند، مؤسسۃ قرطبہ، ج۴، ص۴۳۷؛ ابویعلی موصلی، مسند ابییعلی، ۱۴۰۴ق، ص۲۹۳۔
- ↑ طیالسی، مسند ابیداود، دارالمعرفہ، ص۳۶۰؛ نسائی، خصائص امیرالمؤمنینؑ، ۱۳۸۳ش، ص۹۸۔
- ↑ ابن حنبل، فضائل الصحابہ، ۱۴۰۳ق، ج۲، ص۶۸۴، ح۱۱۶۸؛ حاکم نیشابوری، المستدرک، ج۳، ص۱۳۴؛ امینی، الغدیر، ۱۳۹۷ق، ج۱، ص۵۱؛ اربلی، کشف الغمہ، ۱۴۰۵ق، ص۱۷۷۔
- ↑ ابن حنبل، مسند، مؤسسۃ قرطبہ، ج۱، ص۳۳۰۔
- ↑ ابن حجر، الاصابہ، ۱۴۱۵ق، ج۶، ص۴۸۸۔
- ↑ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ق، ج۷، ص۳۴۵؛ ہندی، کنزالعمال، ۱۴۰۹ق، ج۱۱، ص۶۱۲، ح۳۲۹۶۳؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۴۲، ص۱۹۱۔
- ↑ نسائی، السنن الکبری، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۱۳۳۔
- ↑ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، دارالکتب العلمیہ، ج۴، ص۳۳۸۔
- ↑ ابن حنبل، مسند، مؤسسۃ قرطبہ، ج۱، ص۳۳۰۔
- ↑ ابن ابیعاصم، السنہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۵۵۰؛ طبرانی، المعجم الکبیر، داراحیاء التراث العربی، ج۱۲، ص۷۸۔
- ↑ طبرانی، المعجم الکبیر، ۱۴۰۴ق، ج۲۲، ص۱۳۵۔
- ↑ میلانی، تشیید المراجعات، ۱۴۲۷ق، ج۳، ص۱۶۴۔
- ↑ رحیمی اصفہانی، ولایت و رہبری، ۱۳۷۴ش، ج۳، ص۱۱۹-۱۲۱۔
- ↑ ایجی، شرح المواقف، ۱۳۲۵ق، ج۸، ص۳۶۵-۳۶۵۔
- ↑ مسلم، صحیح مسلم، کتاب الجہاد و السیر باب حکم الفی ء: ج۳، ص۱۳۷۸، ح۱۷۵۷؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۵۹م، ج۱، ص۵۹۰؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۲۱۱؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ق، ج۵، ص۲۴۸۔
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱۰، ص۳۶۳؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۴، ص۶۵، ۲۱۴؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ق، ج۷، ص۷۹۔
- ↑ ابن بیشیبہ المصنف، ۱۴۰۹ق، ج۸، ص۵۷۴؛ ابن تیمیہ، منہاج السنہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۴۶۱۔
- ↑ مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۱۲۲۔
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۵، ص۲۴۵۔
- ↑ بغدادی، خزانہ الادب، ۱۹۹۸م، ج۶، ص۶۹؛ ابن حجر، الاصابہ، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۴۶۸۔
- ↑ ہندی، کنزالعمال، ۱۴۱۹ق، ج۱۱، ص۲۷۹، ح۳۲۹۴۱۔
- ↑ حاکم نیشابوری، المستدرک، ج۳، ص۱۳۴۔
- ↑ المستدرک بتعلیق ذہبی، کتاب معرفۃ الصحابہ قسم ذکر اسلام امیرالمؤمنین علی، ج۳، ص۱۴۳، ح۴۶۵۲؛ البانی، السلسلۃ الصحیحہ، ج۵، ص۲۶۳۔
- ↑ ابن حنبل، مسند، مؤسسۃ قرطبہ، ج۴، ص۴۳۷۔
- ↑ سیوطی، جامع الاحادیث، ج۱۶، ص۲۵۶، ح۷۸۶۶ و ج۲۷ ص۷۲۔
- ↑ ہندی، کنزالعمال، ۱۴۰۹ق، ج۱۳، ص۱۴۲۔
- ↑ طیالسی، مسند ابیداود، دارالمعرفہ، ص۳۶۰۔
- ↑ ابن حنبل، فضائل الصحابہ، ۱۴۰۳ق، ج۲، ۶۰۵، ۶۲۰، ۶۴۹۔
- ↑ ابوبکر شیبانی، الآحاد و المثانی، ۱۴۱۱ق، ج۴، ص۲۷۹، ح۲۲۹۸۔
- ↑ نسائی، السنن الکبری، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۱۳۲۔
- ↑ ابویعلی موصلی، مسند ابییعلی، ۱۴۰۴ق، ص۲۹۳۔
- ↑ ابن حبان، صحیح ابن حبان، ۱۴۱۴ق، ج۱۵، ص۳۷۳۔
- ↑ طبرانی، المعجم الکبیر، داراحیاء التراث العربی، ج۱۲، ص۷۸۔
- ↑ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۴۲، ص۱۰۰۔
- ↑ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ق، ج۷، ص۳۴۵۔
- ↑ ابن حجر، الاصابہ، ۱۴۱۵ق، ج۶، ص۴۸۸۔
- ↑ تلمسانی، الجوہره، انصاریان، ج۱، ص۶۵۔
- ↑ بغدادی، خزانہ الادب، ۱۹۹۸م، ج۶، ص۶۸۔
- ↑ امینی، الغدیر، ۱۳۹۷ق، ج۱، ص۵۱۔
- ↑ ابن عبدالبر، استیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۳، ص۱۰۹۱۔
- ↑ اربلی، کشف الغمہ، ۱۴۰۵ق، ص۱۷۷۔
- ↑ مبارکفوری، تحفۃ الاحوذی، ۱۴۱۰ق، ج۱۰، ص۱۴۶-۱۴۷۔
- ↑ ابن حنبل، مسند، مؤسسۃ قرطبہ، ج۱، ص۳۳۰، ج۴، ص۴۳۷۔
- ↑ ابن حنبل، فضائل الصحابہ، ۱۴۰۳ق، ج۲، ص۶۸۴، ح۱۱۶۸۔
- ↑ مبارکفوری، تحفۃ الاحوذی، ۱۴۱۰ق، ج۱۰، ص۱۴۶-۱۴۷۔
- ↑ البانی، السلسلۃ الصحیحۃ، ج۵، ص۲۶۲۔
- ↑ البانی، السلسلۃ الصحیحۃ، ج۵، ص۲۶۳۔
- ↑ سایٹ سید علی میلانی، متن حدیث ولایت و تصحیح اسناد آن، بازبینی: ۲۰ خرداد ۱۳۹۵ش۔
- ↑ میلانی، تشیید المراجعات، ۱۴۲۷ق، ج۳، ص۲۳۸۔
- ↑ سایٹ سید علی میلانی، متن حدیث ولایت و تصحیح اسناد آن، بازبینی: ۲۰ خرداد ۱۳۹۵ش۔
- ↑ مسند ابیداود، دارالمعرفہ، ص۳۶۰۔
- ↑ حاکم نیشابوری، المستدرک، ج۳، ص۱۳۴۔
- ↑ ابن حنبل، مسند، مؤسسۃ قرطبہ، ج۱، ص۳۳۰۔
- ↑ ابن شیبہ، المصنف، ۱۴۰۹ق، ج۶، ص۳۷۲؛ مسند ابیداود، دارالمعرفہ، ص۱۱۱۔
- ↑ ہندی، کنزالعمال، ۱۴۰۹، ج۱۱، ص۶۱۲۔
- ↑ نسائی، السنن الکبری، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۱۳۳۔
- ↑ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ۱۴۱۳ق، ج۸، ص۲۰۰؛ مثال کے طور پر نیشابوری، صحیح مسلم، دارالفکر، ج۱، ص۷۷، ۸۳، ۱۵۳۔
- ↑ ذہبی، تاریخ الاسلام، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۶۳۱۔
- ↑ ذہبی سیر اعلام النبلاء ۱۴۱۳ق، ج۸ ص۱۹۸۔
- ↑ البانی، السلسلۃ الصحیحۃ، ج۵، ص۲۶۳۔
- ↑ مناوی، فیض القدیر، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۴۷۱۔
- ↑ البانی، السلسلۃ الصحیحۃ، ج۵، ص۲۶۳۔
- ↑ مبارکفوری، تحفۃ الاحوذی، ۱۴۱۰ق، ج۱۰، ص۱۴۷۔
- ↑ البانی، السلسلۃ الصحیحۃ، ج۵، ص۲۶۳۔
مآخذ
- ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، تحقیق: محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۰ق/۱۹۹۰م۔
- ابن ابیعاصم شیبانی، عمرو بن ابیعاصم، السنہ، تحقیق: محمدناصرالدین البانی، بیروت، المکتب الاسلامی، ۱۴۱۳ق/۱۹۹۳م۔
- ابن جوزی، عبدالرحمن بن علی، المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم، تحقیق: محمد عبدالقادر عطا و مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۲ق/۱۹۹۲م۔
- ابن حبان، محمد بن حبان، صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان، تحقیق: شعیب ارنؤوط، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، ۱۴۱۴ق/۱۹۹۳م۔
- ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، تحقیق: عادل احمد عبدالموجود و علی محمد معوض، بیروت دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵م۔
- ابن حنبل، احمد، فضائل الصحابہ، تحقیق: وصی الله محمد عباس، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳م۔
- ابن حنبل، احمد، مسند، مصر، مؤسسۃ قرطبہ، بیتا۔
- ابن شیبہ کوفی، عبدالله بن محمد، المصنف فی الاحادیث و الآثار، تحقیق: سعید اللحام، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۹ق/۱۹۸۹م۔
- ابن عبدالبر، یوسف بن عبدالبر، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، تحقیق: علی محمد بجاوی، دارالجیل، بیروت، ۱۴۱۲ق/۱۹۹۲م۔
- ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینہ دمشق، تحقیق: محب الدین ابیسعید عمر بن غرامہ عمری، بیروت، دارالفکر، ۱۹۹۵م/۱۴۱۵ق۔
- ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایہ و النہایہ، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۶م۔
- ابوبکر شیبانی، احمد بن عمرو، الآحاد و المثانی، تحقیق: باسم فیصل احمد جوابره، ریاض، دارالدرایہ، ۱۴۱۱ق/۱۹۹۱م۔
- ابویعلی موصلی، احمد بن علی، مسند ابییعلی، تحقیق: حسن سلیم اسد، دارالمأمون للتراث۔
- اربلی، علی بن ابیالفتح، کشف الغمہ فی معرفۃ الائمۃ، بیروت، دارالاضواء، ۱۴۰۵ق/۱۹۸۵م۔
- البانی، محمدناصرالدین، السلسلۃ الصحیحۃ۔
- ایجی، میر سید شریف، شرح المواقف، تصحیح: بدرالدین نعسانی، قم، الشریف الرضی، ۱۳۲۵ق۔
- حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، تحقیق: تحت اشراف عبدالرحمن مرعشلی، بینا، بیجا، بیتا۔
- امینی، الغدیر، دارالکتاب العربی، بیروت، ۱۳۹۷ق/۱۹۷۷م۔
- تلمسانی، محمد بن ابیبکر، الجوہرة فی نسب الامام علی و آلہ، قم، انصاریان، بیتا۔
- بغدادی، عبدالقادر، خزانہ الادب و لب لباب لسان العرب، تحقیق: محمد نبیل طریقی و امیل بدیع یعقوب، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۹۹۸م۔(بازبینی)
- بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف (ج۱)، تحقیق: محمد حمیدالله، مصر، دارالمعارف، ۱۹۵۹م۔
- بلاذری، احمد بن یحیی، جمل من انساب الاشراف، تحقیق: سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۷ق/۱۹۹۶م۔
- میلانی، سیدعلی، تشیید المراجعات و تفنید المکابرات، قم، مرکز الحقائق الاسلامیہ، ۱۴۲۷ق/۱۳۸۵ش۔
- خطیب بغدادی، احمد بن علی، تاریخ بغداد، بیروت، دارالکتب العلمیہ، بیتا۔
- ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الاعلام، تحقیق: عمر عبدالسلام تدمری، بیروت، دارالکتب العربی، ۱۴۱۳ق/۱۹۹۳م۔
- ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، تحقیق: شعیب ارناؤوط و محمد نعیم عرقسوسی، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، ۱۴۱۳ق/۱۹۹۳م۔
- رحیمی اصفہانی، غلامحسین، ولایت و رہبری، تفرش، انتشارات عسکریہ،۱۳۷۴ش۔
- طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر(۱۲جلدی)، تحقیق: حمدی بن عبدالمجید سلفی، داراحیاء التراث العربی۔
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، تحقیق: محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، ۱۹۶۷م/۱۳۸۷ق۔
- طیالسی، سلیمان بن داوود، مسند ابیداود الطیالسی، بیروت، دارالمعرفہ، بیتا۔
- مبارکفوری، محمد عبدالرحمن، تحفۃ الاحوذی بشرح جامع الترمذی، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۰ق/۱۹۹۰م۔
- مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق: اسعد داغر، قم، دارالحجره، ۱۴۰۹ق۔
- مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، بورسعید، مکتبۃ الثقافیۃ الدینیۃ، بیتا۔
- مناوی، عبدالرؤوف، فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، تصحیح: احمد عبدالسلام، بیروت، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۱م۔
- نسائی، احمد بن شعیب، السنن الکبری، تحقیق: عبدالغفار سلیمان بنداری و سید حسن کسروی، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۱ق/۱۹۹۱م۔
- نسائی، احمد بن شعیب، خصائص امیرالمؤمنینؑ، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۳ش۔
- نیشابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، بیروت، دارالفکر، بیتا۔
- ہندی، متقی، کنزالعمال، تحقیق: شیخ بکری حیانی، تصحیح: شیخ صفوه سقا، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ۱۴۰۹ق-۱۹۸۹م۔