جبیر بن مطعم

ویکی شیعہ سے
جبیر بن مطعم
شام کا علاقہ صنمین میں جبیر بن مطعم کی قبر
شام کا علاقہ صنمین میں جبیر بن مطعم کی قبر
کوائف
مکمل نامجُبَیرِ بْنِ مُطْعِم
کنیتابو محمد، یا ابو عَدی
محل زندگیمکہ، مدینہ، کوفہ
وفات57 - 59ھ کے درمیان؛ مدینہ
مدفنشام کا علاقہ صنمین
دینی معلومات
اسلام لانافتح مکہ سے پہلے یا اس سے پہلے
جنگوں میں شرکتغزوہ بدر میں مشرکین کے رکاب میں شرکت
دیگر فعالیتیںعمر کی خلافت کے دوران کوفہ کا گورنر


جُبَیرِ بْنِ مُطْعِم (متوفی 57 - 59ھ کے درمیان) پیغمبر اکرمؐ کے صحابی اور مطعم بن عدی کے بیٹے تھے جن کی پناہ میں رسول اللہؐ مکہ میں داخل ہوئے۔ آپ کی کنیت ابو محمد، یا ابو عدی تھی۔ اسلام کی تاریخ میں ان سے متعلق کچھ واقعات درج ذیل ہیں: پیغمبر اکرمؐ کو قتل کرنے کے حق میں ووٹ دینے والی قریش کے شورا کی ہمراہی اور آنحضرتؐ کے قتل کے حق میں رائے دی، جنگ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں پکڑا گیا، جنگ احد میں اپنے وحشی نامی غلام کو حمزہ سید الشہداء کو قتل کرنے کی ترغیب دی اور تیسرے خلیفہ عثمان کے جنازے پر نماز پڑھی۔

نسب

جُبَیر بن مُطعِم بن عدیّ بن نَوفل بن عبد مَناف بن قُصَیّ بن کِلاب قُرَشی نَوفلی مَکّی جو قبیلہ قریش کے بنو نوفل بن عبد مناف سے ہیں۔[1] ان کے والد مطعم بن عدی نے شعب ابو طالب میں محاصرہ کے دوران بنی ہاشم کے خلاف لکھی جانے والی صحیفہ قریش نامی کتاب کا رد لکھا، اور واقعہ طائف کے بعد جب حضرت رسول اللہؐ مکہ آئے تو مطعم نے اس آنحضرتؐ کو پناہ دی، اسی وجہ سے رسول اللہؐ ان کی بہت عزت کرتے تھے۔[2]

صدرِ اسلام کی تاریخ میں جبیر کا کردار

جبیر خود قریش کی اس شورا میں موجود تھا جس نے پیغمبر اکرمؐ کو قتل کرنے کے حق میں رائے دی، جہاں اپنے چچا طُعَیمۃ بن عدی اور حارث بن عامر کے ساتھ بنی نوفل کی نمائندگی کر رہے تھے۔[3] انہوں نے جنگ بدر میں بھی حصہ لیا اور مسلمانوں کے ہاتھوں اسیر ہوا[4] لیکن جب رسول اللہؐ نے جبیر کو کفار کے قیدیوں میں سے دیکھا تو اس کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ اگر تیرا باپ مطعم زندہ ہوتا تو میں ان کی شفاعت سے تمام قیدیوں کو آزاد کر دیتا۔[5]

جبیر سے منقول ہے کہ اس نے اپنی اسیری کے دوران رسول اللہؐ سے قرآن مجید کی چند آیتیں سنیں اور اس سے بہت متاثر ہوا۔[6] تاہم جنگ احد میں اس نے اپنے غلام وحشی کو جنگ بدر میں مارے جانے والے ان کے چچا طَعیمَہ کا بدلہ لینے کے لئے حمزہ بن عبد المطلب کو شہید کرنے کی ترغیب دی۔[7]

جبیر کا اسلام قبول کرنا

بعض کا خیال ہے کہ وہ فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہوا[8] اور بعض کا خیال ہے کہ اس نے فتح مکہ کے دن اسلام قبول کیا۔[9] ہوازن کا مال غنیمت تقسیم ہوتے وقت وہ مؤلفة قلوبہم کے گروہ میں شامل تھا۔[10]

عہدے

سنہ 21 ہجری میں جبیر کچھ عرصے کے لیے کوفہ کا گورنر تھا لیکن عمر بن خطاب نے مغیرہ بن شعبہ کی سازش کی وجہ سے انھیں کوفہ سے ہٹا دیا۔[11] عثمان کی خلافت کے آخری ایام میں خلیفہ کی طرف سے عبد اللہ بن عامر[12] سے مدد طلب کرنے اس کے پاس گیا اور ایک بار امام علیؑ اور بعض دوسرے لوگوں کے ساتھ مخالفوں کے ساتھ مذاکرات میں بھی بیٹھ گیا۔[13]

عثمان کے قتل کے تین دن بعد، اس نے بعض دوسرے لوگوں کے ساتھ، مقتول خلیفہ کی لاش کو دفن کیا اور اس پر نماز ادا کی۔[14] امام علی علیہ السلام کے دور خلافت میں بھی وہ قریش کے ان بزرگوں میں سے ایک تھے جن سے عمرو بن عاص کی طرف سے حکمیت کی تجویز پر مشورہ کیا گیا۔[15]

روایت کے راوی

جبیر نے نبی اکرمؐ سے کچھ احادیث نقل کی ہیں[16] اور ابراہیم بن عبد الرحمٰن بن عوف، سعید بن مسیب، سلیمان بن صرد خزاعی اور ان کے بیٹے محمد اور نافع سمیت بہت سے دوسرے لوگوں نے ان سے روایت کی ہے۔[17]

شام کا علاقہ صنمین میں جبیر بن مطعم کی قبر

وفات

جبیر کا انتقال مدینہ میں ہوا۔[18] ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جبیر سنہ 61 ہجری کو واقعہ عاشورا کے بعد زندہ تھا اور امام سجادؑ کے ساتھیوں میں شمار ہوتا تھا۔[19] لیکن یہ روایت قابل قبول نہیں ہے اور ممکن ہے کہ جبیر کے بیٹے محمد کا نام روایت سے خارج کردیا گیا ہو[20] یا کوئی تحریف واقع ہوئی ہو۔[21]

مشہور نسب شناس

جبیر کو عربی نسب اور خاص کر قریش نسب کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھنے والا شخص سمجھا جاتا ہے۔[22] اس وجہ سے عمر نے وہ اور عرب کے مشہور نسب شناس عقیل بن ابی طالب و مخرمة بن نوفل سے کہا کہ وہ دیوان عطا (مالی عطیات کا ادارہ) کو منظم کرنے کے لیے مسلمانوں کے نام اور نسب کو جمع کریں۔[23]

حوالہ جات

  1. ابن حزم، جمہرة انساب العرب، دار الکتب العلميہ، منشورات محمد علي بيضون، ص115-116۔
  2. ابن عبدالبر، الاستیعاب فی معرفة الصحابہ، 1412ق، 1992م، ج1، ص233؛ ابن اثیر، اسدالغابہ،1415ق، 1994م، ج1، ص271؛ ابن حجر، الاصابة،1415ق، ج1، ص236۔
  3. طبری، ج2، ص370۔
  4. واقدی، ج1، ص130؛ ابن عبدالبر، ج1، ص232۔
  5. ابن عبدالبر،1412ق، ج1، ص233؛ ابن اثیر، 1415ق، ج1، ص271؛ ابن حجر، الاصابة، 1415ق،ج1، ص236۔
  6. ابن عبدالبر، ج1، ص232-233۔
  7. ابن اسحاق، ص323؛ واقدی، المغازی، 1409ق، 1989م، ج1، ص286؛ نیز نک: ذہبی، تاریخ، ص169، 181۔
  8. ابن قیسرانی، ج1، ص76؛ ابن عبدالبر، ج1، ص233؛ ابن اثیر، ج1، ص271؛ ابن حجر، الاصابة، ج1، ص236؛ قس: مزی، ج4، ص506؛ تہذیب، ج2، ص62۔
  9. ابن حبان، ص58؛ ابن عبدالبر، ج1، ص232۔
  10. ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1422ق، ج1، ص305؛ ابن قتیبہ،المعارف، 1992م، ج3، ص285، 342؛ ابن عبدالبر، ج1، ص233؛ نیز نک: ذہبی، سیر اعلام النبلا، 1414ق، 1994م، ج3، ص97۔
  11. یعقوبی، ج2، ص155؛ طبری، ج4، ص144۔
  12. بلاذری، انساب...، ج4، ص561
  13. طبری، ج4، ص359 ؛ برای دیگر اقدامات او در این زمینہ نک: بلاذری، ہمان، ج4، ص568۔
  14. ابن قتیبہ، ص197؛ طبری، ج4، ص413۔
  15. ذہبی، ہمان، ج3، ص98۔
  16. احمدبن حنبل، ج5، ص34-43؛ ابونعیم، ج1، ص431-434۔
  17. مزی، ج4، ص506، 507؛ ابن حجر، تہذیب، ج2، ص64۔
  18. خلیفہ، ص9؛ برای گزارش‌ہای مختلف دربارہ تاریخ درگذشت وی، نک: ابن قتیبہ، ص285؛ ذہبی، ہمان، ج3، ص99؛ مزی، ج4، ص509۔
  19. کشی، ص123؛ ابن شہید، ص120۔
  20. جواہری، ص120۔
  21. ملاحظہ کریں: تُستری، ج2، ص570-572؛ خویی، ج4ص36۔
  22. ابن ہشام، ج1، ص12؛ ابن عبدالبر، ج1، ص232؛ ابن حجر، الاصابة، ج1، ص235۔
  23. بلاذری، فتوح، 449، 457؛ یعقوبی، ج2، ص153۔

مآخذ

  • ابن اثیر، علی، اسدالغابة، قاہرہ، 1280ھ۔
  • ابن اسحاق، محمد، السیر و المغازی، بہ کوشش سہیل زکار، بیروت، 1398ھ/1978ء۔
  • ابن حبان، محمد، تاریخ الصحابة، بہ کوشش بوران ضناوی، بیروت، 1408ھ/1988ء۔
  • ابن حجر عسقلانی، احمد، الاصابة، قاہرہ، 1328ھ؛ ہمو، تہذیب التہذیب، حیدرآباددکن، 1325ھ۔
  • ابن حزم، علی جمہرة انساب العرب، بیروت، 1403ھ/1983ء۔
  • ابن حزم، علی بن احمد، جمہرة انساب العرب،دار الکتب العلميہ، منشورات محمد علي بيضون، بی تا، بی جا.
  • ابن شہیدثانی، حسن، التحریر الطاووسی، بہ کوشش فاضل جواہری، قم، 1411ھ۔
  • ابن عبدالبر، یوسف، الاستیعاب، بہ کوشش علی محمد بجاوی، قاہرہ، 1380ھ/1960ء۔
  • ابن قتیبہ، عبداللہ، المعارف، بہ کوشش ثروت عکاشہ، قاہرہ، 1960ء۔
  • ابن قیسرانی، محمد، الجمع بین رجال الصححین، بیروت، 1405ھ۔
  • ابن ہشام، عبدالملک، السیرة النبویة، بہ کوشش مصطفیٰ سقا و دیگران، قاہرہ، 1355ھ/1936ء۔
  • ابونعیم اصفہانی، احمد، معرفة الصحابة، بہ کوشش محمدحسن اسماعیل و مسعد عبدالحمید سعدنی، بیروت، 1422ھ/2002ء۔
  • احمدبن حنبل، مسند، بیروت، 1412ھ/1911ء۔
  • بلاذری، احمد، انساب الاشراف، بہ کوشش احسان عباس، بیـروت، 1400ھ/ 1979م؛ ہمو، فتوح البلـدان، بہ کـوشش دخـویہ، لیدن، 1865ء۔
  • تستری، محمدتقی، قاموس الرجال، قم، 1410ھ۔
  • جواہری، فاضل، تعلیقات بر التحریر الطاووسی (نک: ہم، ابن شہید ثانی).
  • خلیفة بن خیاط، الطبقات، بہ کوشش اکرم ضیاءعمری، ریاض، 1402ھ/1982ء۔
  • خویی، ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، قم، 1410ھ۔
  • ذہبی، محمد، تاریخ الاسلام، المغازی، بہ کوشش عمر عبدالسلام تدمری، بیروت، 1410ھ/1990م؛ ہمو، سیراعلام النبلاء، بہ کوشش شعیب ارنؤوط و دیگران، بیروت، 1986ء۔
  • طبری، تاریخ، بیروت.
  • کشی، محمد، معرفةالرجال، اختیار طوسی، بہ کوشش حسن مصطفوی، مشہد، 1348ہجری شمسی۔
  • مزی، یوسف، تہذیب الکمال، بہ کوشش بشار عواد معروف، بیروت، 1403ھ/1983ء۔
  • واقدی، محمد، المغازی، بہ کوشش مارسدن جونز، لندن، 1966ء۔
  • یعقوبی، احمد، تاریخ، بیروت، 1415ھ/1995ء۔ علیرضا اشتری تفرشی.

بیرونی روابط