مالک بن نویرہ
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | مالک بن نُوَیرہ یربوعی |
نسب/قبیلہ | قبیلہ بنی تمیم |
اقارب | متمم بن نویرہ |
دینی معلومات | |
وجہ شہرت | ردہ کی جنگوں میں بیگناہ قتل |
نمایاں کارنامے | زکات کی جمع آوری میں پیغمبر اکرمؐ کا نمایندہ |
دیگر فعالیتیں | ابوبکر کی بیعت کی مخالفت |
مالک بن نویرہ (شہادت: 11ھ) پیغمبر اکرمؐ کے صحابی تھے جو خالد بن ولید کی غیر اخلاقی حرکتوں کی وجہ سے مارا گیا۔ ردہ کی جنگوں میں مالک بن نویرہ کا قتل شیعہ اور اہل سنت کے مابین کلامی مباحث کا باعث بنا ہے۔ شیعہ کسی وجہ کے بغیر مالک کا قتل کے ذریعے عدالت صحابہ کے نظریے کو رد کرتے ہیں۔ عمر بن خطاب، خالد بن ولید کو مالک کے قتل کے جرم میں قصاص کا مستحق اور ان کی بیوی کے ساتھ ہمبستری کے جرم میں سنگسار کا مستحق سمجھتے تھے۔ ان کے مقابلے میں ابوبکر نے خالد کو اپنے اجتہاد میں معذور سمجھا۔
فضل بن شاذان کی روایت کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے مالک کو اہل بہشت قرار دیا تھا اور اسے امام علیؑ کی خلافت کی رہنمائی کی تھی۔ اسی وجہ سے جب مالک بن نویرہ پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد مدینہ واپس پہنچے تو ابوبکر پر اعتراض کیا اور کہا کہ رسول اللہ کے فرمان کے مطابق خلافت امام علیؑ کو کیوں نہیں سونپ دی گئی۔ شیعہ محققین کا کہنا ہے کہ مالک نے ابوبکر کی خلافت کو غیرمشروع سمجھ کر حکومت کو زکات دینے سے انکار کیا اور اسی وجہ سے وہ قتل ہوا۔
بعض اہل سنت مصنفین نے خالد کی اس حرکت کی توجیہ کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ولید، مالک کو مرتد سمجھتے تھے۔ لیکن شیعہ اور بعض اہل سنت مالک مرتد نہ ہونے پر اس طرح کی کچھ دلائل پیش کرتے ہیں کہ بعض صحابہ کا مالک کے اسلام کی گواہی دینا اور ابوبکر کی طرف سے بیت المال سے اس کی دیت دینا مالک مرتد نہ ہونے کی دلیل ہے۔
مالک بن نویرہ کے بارے میں بعض کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں سے ایک فارسی کی کتاب «پژوہشی در حیات سیاسی و مبارزاتی مالک بن نویرہ» ہے۔
منزلت اور تعارف
مالک بن نُوَیرۃ بن جَمْرَۃ تَمیمی رسول اللہ کے صحابی اور زمانہ جاہلیت اور عصر اسلامی میں ان کا شمار اشراف و بزرگان میں ہوتا تھا۔[1] مالک شاعر تھے اور ان کے اشعار کا ایک دیوان بھی تھا۔[2] آپ پیغمبر اکرم کے پاس جاکر مسلمان ہوئے۔[3] رسول اللہ نے اسے اپنے قبیلے میں زکات جمع کرنے کے لئے اپنا نمائندہ بنایا۔[4]
مالک بن نویرہ کا قتل ان مسائل میں سے ایک ہے جس پر فریقین نے بہت بحث کی ہے۔[5]خالد بن ولید کے ہاتھوں مالک کا قتل اور ان کی بیوی کے ساتھ خالد کی ہمبستری کو ردہ کی جنگوں کا سب سے اختلافی واقعہ کہا گیا ہے۔[6] شیعہ محققین نے اسی واقعے سے استناد کرتے ہوئے اہل سنت کا عدالت صحابہ کے نظرئے کو رد کردیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یہ نظریہ بعض صحابہ کی ناشایستہ حرکتوں کی توجیہہ کی خاطر پیش کیا گیا ہے۔[7]چوتھی صدی ہجری کے مورخ مَقْدِسی کا کہنا ہے کہ مسئلہ امامت کے بعد ردہ کی جنگوں میں مسلمانوں کے مابین اختلاف ظاہر ہوا؛ اگرچہ ابوبکر قائل تھے کہ اہل ردہ کے ساتھ جنگ ہونی چاہئے لیکن مسلمانوں نے ان کی مخالفت کی۔[8]
چودہویں صدی ہجری کے محدث شیخ عباس قمی کہتے ہیں کہ مالک بن نویرہ اہل بیتؑ سے محبت کی وجہ سے مارا گیا۔[9] فضل بن شاذان کی روایت کے مطابق پیغمبر خداؐ نے مالک بن نویرہ کو اہل بہشت میں سے شمار کیا تھا۔[10] یہ اس وقت پیش آیا جب مالک نے پیغمبر خداؐ سے ایمان کی حقیقت بیان کرنے اور اسے سکھانے کی درخواست کی تو آنحضرتؐ نے بعض احکام اسے سکھایا اور امام علیؑ کی خلافت کی رہنمائی کی۔[11] ابن شاذان کی روایت کے مطابق رسول اللہؐ کی ارتحال کے بعد مالک بن نویرہ مدینہ آئے تو اسے ابوبکر کی خلافت کا پتہ چلا تو اس پر اعتراض کیا کہ رسول اللہ کے فرمایشات کے تحت خلافت امام علیؑ کو کیوں نہیں دی گئی ہے۔[12] اس اعتراض پر ابوبکر کے حکم سے قُنْفُذ اور خالد بن ولید نے مالک کو مسجد سے باہر نکال دیا۔[13]
ردہ کی جنگوں میں مالک کا قتل
شیعہ مورخین علامہ امینی[14] اور رسول جعفریان،[15] کا کہنا ہے کہ مالک بن نویرہ، خالد بن ولید کی اخلاقی انحراف کی وجہ سے مارا گیا۔ مالک زکات ابوبکر کو نہیں دیتا تھا اور وہ اپنی قوم میں تقسیم کرتا تھا۔[16] کتاب النص و الاجتہاد کے مصنف سید عبد الحسین شرف الدین کہتے ہیں کہ مالک ابوبکر کو زکات نہیں دیتے تھے کیونکہ وہ ان کی خلافت کو مشروع نہیں سمجھتے اور ان کو زکات دینا صحیح نہیں سمجھتے تھے۔[17]
خالد بن ولید ابوبکر کے حکم سے مالک اور ان کے قبیلے سے ارتداد کا مقابلہ کرنے بُطاح کا علاقہ گیا۔[18] حضرت ابوبکر نے حکم دیا تھا کہ جنگ سے پہلے یہ دیکھ لیں کہ وہ نماز پڑھتے ہیں یا نہیں تاکہ مرتد ہونا واضح ہوجائے۔[19]
مالک کو جب خالد اور اس کی لشکر کے آنے کا پتہ چلا تو حُسن نیت دکھانے اور اس گمان کو دور کرنے کے لئے کہ کہیں یہ نہ سوچیں کہ مالک نے جنگ کے لئے لشکر تیار کیا ہے، اپنے قبیلے کے افراد کو منتشر کردیا تاکہ جنگ کا گمان ختم ہوجائے۔[20] بعض انصار نے جب مالک اور اس کے قبیلے کو نماز کے پابند پایا تو خالد بن ولید کی مخالفت کی لیکن خالد نے ان کی ایک نہ سنی۔[21]
مالک خود کا مرتد نہ ہونے کو ثابت کرنے کے لئے اپنی بیوی اُمّ تَمیم کے ہمراہ خالد کے پاس گیا، اس کی بیوی ایک خوبرو خاتون تھی اس لئے خالد نے مالک کو قتل کیا اور اسی رات اس کی بیوی سے شوہر کی وفات کے عِدّہ کی حالت میں ہمبستری کیا۔[22]تیسری صدی ہجری کے مورخ یعقوبی کے مطابق جب خالد نے ام تمیم کو دیکھا تو یہ کہتے ہوئے کہ «خدا کی قسم جو تمہارے پاس ہے تجھے قتل کئے بغیر میرے ہاتھ نہیں آئے گا» مالک کو قتل کیا۔[23] دوسری صدی ہجری کے مورخ واقدی کے مطابق خالد کافی عرصے سے ام تمیم کے تعاقب میں تھا اور مالک نے اس کے قتل کی وجہ اس کی بیوی کی خوبصورتی بیان کیا تھا۔[24] ان کے قتل کو 11ھ کے واقعات میں ذکر کیا ہے۔[25]
مالک کے قتل پر صحابہ کا اعتراض
خالد کے غیر شرعی کاموں پر ابو قَتادَہ انصاری اور عبداللہ بن عمر جیسے بعض صحابہ نے اعتراض کیا[26] خالد کے سپاہ کی رپورٹ جب مدینہ پہنچی تو خالد کے غیر شرعی کاموں کے بارے میں عُمَر بن خَطّاب، ابوبکر کے پاس گیا اور ان سے خالد کو منصب سے برطرف کرنے کی درخواست کی۔[27] عمر بن خطاب، خالد بن ولید کو مالک کا قاتل اور انہیں قصاص کا حقدار اور نیز مالک کی بیوی سے زنا کی سزا میں سنگسار کا مستحق سمجھتے تھے۔[28] لیکن ابوبکر نے عمر کی درخواست کو رد کرتے ہوئے خالد کے فعل کو اجتہاد میں اشتباہ قرار دیا۔[29]
مالک کے بھائی مُتَمِّم بن نویرہ نے جب اپنے بھائی کے خونخواہی کا مطالبہ کیا تو ابوبکر نے خون بہا بیت المال سے دینے کا حکم دیا۔[30] اور اس نے خالد کو مالک کی بیوی سے جدا ہونے کا بھی حکم دیا لیکن خالد کو ابوبکر نے سپہ سالاری سے عزل نہیں کیا۔[31]مصری مورخ محمد حسین ہِیْکَل کہتے ہیں کہ جب تک ابوبکر کو اپنی حکومت میں خالد کی ضرورت تھی اسے استعمال کیا۔[32]، لیکن عمر کے ذہن سے اس کی غلطی کبھی نہیں گئی اسی لئے ابوبکر کی وفات کے بعد جب خلافت پر آیا تو خالد کو اپنے منصب سے برطرف کیا۔[33]
مالک مسلمان یا مرتد
شیعہ علما اور بعض اہل سنت نے مالک کے مسلمان ہونے پر بعض دلائل پیش کیا ہے جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
- مالک اور ان کے حامیوں کا اسلام کا اقرار اور نماز پڑھنا؛
- بعض اصحاب کا مالک کے اسلام پر گواہی دینا؛
- ابوبکر کی طرف سے ان کی دیت ادا کرنا؛
- خالد کو مالک کی بیوی سے الگ ہونے کا ابوبکر کی طرف سے حکم[34]
اس کے باوجود اہل سنت ان کے اسلام کے بارے میں سب کا ایک نظریہ نہیں ہے۔ بعض نے انہیں مرتد جانا ہے۔[35] محمد حسین ہِیْکَل کہتے ہیں کہ اگرچہ خالد کا مالک کی بیوی سے عدہ میں ہمبستری کرنا شریعت کے مطابق نہیں لیکن یہ حکم خالد جیسے افراد پر جاری نہیں ہوتا ہے کیونکہ وہ حاکمیت کی مدد کرتا تھا۔[36] اسی طرح اس کا کہنا ہے کہ حکومت کے لئے کی جانے والی خدمات کے مقابلے میں مالک کا قتل اور اس کی بیوی سے زنا ناچیز اور معمولی ہیں۔[37]
علامہ امینی[38] اور سید عبد الحسین شرف الدین کہتے ہیں کہ مالک ابوبکر کو زکات نہیں دیتے تھے کیونکہ وہ ان کی خلافت کو مشروع نہیں سمجھتے اور ان کو زکات دینا صحیح نہیں سمجھتے تھے۔[39] مالک اور خالد کا واقعہ بیان کرنے کے بعد اہل سنت کی طرف سے خالد کی دفاع میں کی جانے والی باتوں کو رد کرتے ہیں۔ مصر کے مصنف عباس محمود عَقّاد لکھتے ہیں کہ اگرچہ مالک کے قتل کی روایات مختلف ہیں لیکن مالک کا قتل کوئی واجب اور واضح امر نہیں تھا اور اے کاش خالد کی تاریخ میں یہ واقعہ نہ ہوتا۔[40]
مونوگراف
مالک بن نویرہ کے بارے میں لکھی جانے والی کتابوں میں سے بعض درج ذیل ہیں:
- «پژوہشی در حیات سیاسی و مبارزاتی مالک بن نویرہ» بقلم حسن علی پور وحید؛ یہ کتاب 1395شمسی کو دفتر انتشارات اسلامی سے چھپ گئی یہ کتاب 685 صفحوں پر مشتمل ہے۔[41]
- «مالک بن نویرہ» حسن علی پور وحید کی دوسری کتاب؛ اس کتاب میں مؤلف نے مالک بن نویرہ کے واقعے کے بارے میں اہل سنت کے مآخذ سے تجزیہ و تحلیل کیا ہے۔[42] یہ کتاب انتشارات دلیل ما سے 1402 ہجری شمسی کو 616 صفحوں پر مشتمل چھپ گئی[43]
- «ماجرای قتل مالک بن نویرہ» علی لَبّاف؛ یہ کتاب سید مرتضی عسکری کی کتابوں سے اقتباس ہے جسے انتشارات منیر تہران نے منتشر کیا۔[44]
حوالہ جات
- ↑ ابنأثیر، اسد الغابہ، 1409ھ، ج4، ص276.
- ↑ آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1403ھ، ج9، ص264.
- ↑ ذہبی، تاریخ الاسلام، 1413ھ، ج3، ص33.
- ↑ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص122.
- ↑ صیامیان گرجی، «ردہ، جنگہا»، ص695.
- ↑ غلامی، «جنگہای ارتداد و بحران جانشینی پس از پیامبر(ص)»، ص39.
- ↑ نیکزاد، «عدالت صحابہ در ترازوی نقد»، ص42-44.
- ↑ مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیہ، ج5، ص123.
- ↑ قمی، منتہی الآمال، 1379ھ، ج1، ص311.
- ↑ ابنشاذان، الفضائل، 1363شمسی، ص75.
- ↑ ابنشاذان، الفضائل، 1363شمسی، ص75.
- ↑ ابنشاذان، الفضائل، 1363شمسی، ص76.
- ↑ ابنشاذان، الفضائل، 1363شمسی، ص76.
- ↑ امینی، الغدیر، 1416ھ، ج7، ص219-220.
- ↑ جعفریان، تاریخ خلفا، 1394شمسی، ص38.
- ↑ ابنحجر، الإصابہ، 1415ھ، ج5، ص560.
- ↑ شرفالدین، النص و الاجتہاد، 1404ھ، ص118.
- ↑ ابنخلدون، تاریخ ابنخلدون، 1408ھ، ج2، ص495.
- ↑ سید مرتضی، الشافی فی الإمامہ، 1410ھ، ج4، ص163.
- ↑ شرفالدین، النص و الاجتہاد، 1404ھ، ص118-119.
- ↑ واقدی، الردہ، 1410ھ، ص106-107.
- ↑ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص131-132.
- ↑ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص131.
- ↑ واقدی، الردہ، 1410ھ، ص107.
- ↑ طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج3، ص278.
- ↑ مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، ج5، ص159.
- ↑ طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج3، ص278-279.
- ↑ ابیالفداء، تاریخ ابیالفداء، 1417ھ، ج1، ص222.
- ↑ ابنکثیر، البدایۃ و النہایہ، 1407ھ، ج6، ص323.
- ↑ ابناثیر، اسد الغابہ، 1409ھ، ج4، ص277.
- ↑ ابنحجر، الإصابہ، 1415ھ، ج2، ص218.
- ↑ ہِیْکَل، الصدیق ابوبکر، دار المعارف، ص157.
- ↑ ہِیْکَل، الصدیق ابوبکر، دار المعارف، ص138.
- ↑ ملاحظہ کریں: ابنأثیر، اسد الغابۃ، 1409ھ، ج4، ص277؛ غلامی، «جنگہای ارتداد و بحران جانشینی پس از پیامبر(ص)»، ص40.
- ↑ ملاحظہ کریں: ابناثیر، اسد الغابۃ، 1409ھ، ج4، ص277.
- ↑ ہِیْکَل، الصدیق ابوبکر، دار المعارف، ص140.
- ↑ ہِیْکَل، الصدیق ابوبکر، دار المعارف، ص141.
- ↑ امینی، الغدیر، 1416ھ، ج7، ص218-229.
- ↑ شرفالدین، النص و الاجتہاد، 1404ھ، ص116-138.
- ↑ عقاد، عبقریۃ خالد، 2005م، ص80.
- ↑ علیپوروحید، پژوہشی در حیات سیاسی و مبارزاتی مالک بن نویرہ، 1395ہجری شمسی۔
- ↑ علیپوروحید، مالک بن نویرہ، 1402ہجری شمسی۔
- ↑ علیپوروحید، مالک بن نویرہ، 1402ہجری شمسی۔
- ↑ لباف، ماجرای قتل مالک بن نویرہ، 1391ہجری شمسی۔
مآخذ
- آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعۃ الی تصانیف الشیعہ، بیروت، دار الأضواء، 1403ھ۔
- ابنأثیر، علی بن ابیالکرم، اُسُد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، بیروت، دارالفکر، 1409ھ۔
- ابنحجر عسقلانی، احمد بن علی، الإصابۃ فی تمییز الصحابہ، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1415ھ۔
- ابنخلدون، عبدالرحمن بن محمد، تاریخ ابنخلدون، بیروت، دار الفکر، 1408ھ۔
- ابنشاذان، فضل، الفضائل، قم، رضی، 1363ہجری شمسی۔
- ابنکثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایہ، بیروت، دار الفکر، 1407ھ۔
- ابیالفداء، اسماعیل بن علی، تاریخ ابیالفداء، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1417ھ۔
- امینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیہ، 1416ھ۔
- جعفریان، رسول، تاریخ خلفا، قم، دلیل ما، 1394ہجری شمسی۔
- ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الأعلام، بیروت، دار الکتاب العربی، 1413ھ۔
- سید مرتضی، علی بن الحسین، الشافی فی الإمامہ، تہران، مؤسسۃ الصادق(ع)، 1410ھ۔
- شرفالدین، سید عبدالحسین، النص و الاجتہاد، قم، ابومجتبی، 1404ھ۔
- صیامیان گرجی، زہیر، «ردہ، جنگہا»، در جلد 24 دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، تہران، مرکز دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، 1398ہجری شمسی۔
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، بیروت دار التراث1387ھ۔
- عقاد، عباس محمود، عبقریۃ خالد، قاہرہ، نہضۃ مصر، 2005ء۔
- علیپوروحید، حسن، پژوہشی در حیات سیاسی و مبارزاتی مالک بن نویرہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1395ہجری شمسی۔
- علیپوروحید، حسن، مالک بن نویرہ، قم، دلیل ما، 1402ہجری شمسی۔
- غلامی، علی، «جنگہای ارتداد و بحران جانشینی پس از پیامبر(ص)»، در مجلہ معرفت، شمارہ 40، فروردین 1380ہجری شمسی۔
- قمی، عباس، منتہی الآمال ، قم، دلیل ما، 1379ھ۔
- لَبّاف، علی، ماجرای قتل مالک بن نویرہ، تہران، منیر، 1391ہجری شمسی۔
- مَقْدِسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، بیروت، پورت سعید، مکتبۃ الثقافۃ الدینیہ، بیتا.
- نیکزاد، عباس، «عدالت صحابہ در ترازوی نقد»، در مجلہ رواق اندیشہ، شمارہ 28، فروردین 1383ہجری شمسی۔
- واقدی، محمد بن عمر، الردہ، بیروت، دار الغرب الاسلامی، 1410ھ۔
- ہِیْکَل، محمد حسین، الصدیق ابوبکر، قاہرہ، دار المعارف، بیتا.
- یعقوبی، احمد بن أبییعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، بیتا.