رکوع

فاقد تصویر
ویکی شیعہ سے
حالت رکوع

رکوع، نماز کے ارکان میں سے ہے۔ نماز میں دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھ کر جھکنے کو رکوع کہتے ہیں۔ نماز آیات کے علاوہ تمام واجب اور مستحب نمازوں کی ہر رکعت میں ایک بار انجام دینا واجب ہے۔ نماز آیات کی ہر رکعت میں پانچ رکوع ہیں۔ رکن ہونے کی بنا پر عمدا یا بھولے سے رکوع میں کمی بیشی کی صورت میں نماز باطل ہو جاتی ہے۔

معنی

لغوی اعتبار سے رکوع کے معنی انسان یا غیر انسان کا جھکنا ہے۔[1] فقہی اصطلاح میں نماز کے دوران دونوں ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھ کر جھکنے کو رکوع کہتے ہیں۔[2]

اہمیت

رکوع عبودیت اور نماز کی علامت کے عنوان سے قرآن میں دس مرتبہ اس کا تذکرہ آیا ہے۔ جیسے:یا أَیهَا الَّذینَ آمَنُوا ارْکعُوا وَ اسْجُدُوا وَ اعْبُدُوا رَبَّکمْ وَ افْعَلُوا الْخَیرَ لَعَلَّکمْ تُفْلِحُونَ(الحج77) (ترجمہ: اے ایمان والو! رکوع و سجود کرو۔ اور اپنے پروردگار کی عبادت کرو۔ اور نیک کام کرو۔ تاکہ تم فلاح پاؤ۔)[؟؟]

نیز روایات اہل بیت میں بھی اس کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور نماز جماعت کے علاوہ رکوع کو طول دینے کی سفارش کی گئی ہے۔۔[3] وسائل الشیعہ اور مستدرک وسائل الشیعہ میں اس حوالے سے تقریبا 172 روایات ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔

نماز کا جزو یا مستقل عبادت

قرآن کی بعض آیات جیسے سورہ حج کی آیت نمبر 77 میں رکوع اور سجدہ کا حکم دیا گیا ہے، رکوع کا سجدے کے ساتھ ذکر کئے جانے کی بنا پر بعض مفسرین اس بات کے قائل ہیں کہ جس طرح سجدہ نماز کا جزء ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مستقل عبادت بھی ہے اسی طرح رکوع بھی نماز کا جزء ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مستقل عبادت ہے۔ لہذا رکوع کو نماز کے بغیر بھی عبادت کے عنوان سے مستقل طور پر انجام دیا جا سکتا ہے۔ لیکن بعض دوسرے مفسرین کے مطابق ان آیات میں رکوع کا حکم در حقیقت نماز میں رکوع کا حکم ہے نہ یہ کہ خود مستقل عبادت ہو۔[4]

نماز کا رکن

رکوع نماز کے واجبات میں سے ہونے کے ساتھ ساتھ نماز کے ارکان میں سے بھی ہے لہذا عمدا یا بھولے سے اس میں کمی بیشی نماز کے باطل ہونے کا سبب ہے۔[5] رکوع نماز آیات کے علاوہ تمام واجب اور مستحب نمازوں کی ہر رکعت میں ایک بار انجام دینا واجب ہے۔ نماز آیات کی ہر رکعت میں پانچ رکوع ہیں۔[6]

بعض قدیم فقہا رکوع کے حوالے سے نماز کی ابتدائی دو رکعتوں اور آخری دو رکعتوں میں فرق کے قائل ہیں۔ اس سلسلے میں وہ کہتے ہیں اگر نماز کی آخری دو رکعتوں میں بھولے سے رکوع انجام نہ دیا ہو اور دونوں سجدے مکمل ہونے کے بعد یاد آئے تو بھی نماز گزار واپس جا کر رکوع کو انجام دے سکتا ہے اور اس کے بعد دونوں سجدوں کو دوبارہ انجام دے گا یوں اس کی نماز صحیح ہو گی۔ یہ فتوا معاصر مشہور فقہاء کے فتوا سے بالکل مخالف ہے۔[7]

واجبات

تمام واجب اور مستحب نمازوں میں قرآت کے بعد اور سجدوں سے پہلے رکوع انجام دینا ضروری ہے۔ رکوع کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ نماز میں قیام کی حالت سے رکوع کی نیت کے ساتھ اس قدر جھکے کہ دونوں ہاتھ گھٹنوں تک پہنچ جائیں۔[8] بعض فقہاء کے نزدیک گھٹنوں پر ہاتھ رکھنا ضروری ہے۔[9]

مذکورہ حالت میں پہنچ کر بدن کے سکون کے بعد ذکر رکوع صحیح عربی میں پڑھا جاتا ہے۔ رکوع کا مخصوص ذکر سبحان ربی العظیم و بحمدہ ہے، اس کی جگہ تین مرتبہ سبحان اللہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔ بعض مراجع مذکورہ اذکار کے علاوہ دیگر اذکار کو کافی نہیں سمجھتے ہیں۔[10]

جان بوجھ کر سکون اور طمأنینہ کے بغیر ذکر رکوع پڑھنا نماز کے باطل ہونے کا موجب بنتا ہے لیکن اگر بھول کر ایسا ہو جائے تو نماز صحیح ہے۔ اس صورت میں اگر رکوع سے سر اٹھانے سے پہلے یاد آ جائے کہ حالت سکون میں ذکر نہیں پڑھا تو دوبارہ سکون کی حالت میں ذکر پڑھنا ضروری ہے۔[11] ذکر ختم ہونے کے بعد رکوع سے سر اٹھائے اور بدن کے سکون کے بعد سجدے میں چلا جائے۔

رکوع سے پہلے قیام کی حالت میں ہونا بھی ارکان نماز میں سے ہے اس بنا پر عمدا یا بھولے سے اسے ترک کرنا نماز کے بطلان کا سبب ہے، اس بنا پر اگر کوئی شخص مکمل طور پر کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا لیکن تکبیرۃ الاحرام اور رکوع میں جانے سے پہلے کھڑا ہو سکتا ہو تو ایسا کرنا واچب ہے۔

فراموشی اور شک کے احکام

  • اگر سجدے میں جانے سے پہلے یاد آ جائے کہ رکوع انجام نہیں دیا تو سیدھا کھڑا ہو کر رکوع انجام دینا ضروری ہے۔ اگر سیدھا کھڑے ہوئے بغیر رکوع میں جائے تو نماز باطل ہے۔ چنانچہ دوسرے سجدے میں پہنچ کر یا دونوں سجدے مکمل ہونے کے بعد یاد آجائے تو نماز باطل ہے کیونکہ رکوع رکن ہے اور رکن کا عمدا یا سہوا ترک کرنا نماز کے بطلان کا سبب ہے۔
  • اگر سجدے میں جانے سے پہلے شک کرے کہ رکوع انجام دیا ہے یا نہیں تو ضروری ہے رکوع انجام دے لیکن اگر سجدے میں پہنچنے کے بعد یا سجدے کے بعد یاد آ جائے تو اس شک کی پروا نہیں کی جائے گی۔[12]
  • رکوع میں عمدا ذکر کا ترک کرنا نماز کے بطلان کا سبب ہے۔ لیکن اگر رکوع سے سر اٹھانے کے بعد یاد آئے کہ ذکر نہیں پڑھا تو دوبارہ رکوع انجام نہیں دینا چاہئے اور نماز صحیح ہے۔ بعض فقہاء اس قسم کی کمی بیشی پر نماز کے خاتم ہونے کے بعد سجدہ سہو انجام دینا ضروری سمجھتے ہیں۔[13]

نماز جماعت میں رکوع کے احکام

اگر نمازی رکوع کی حالت میں امام جماعت اقتدا کرے اور امام کے ساتھ رکوع درک کرے تو نماز صحیح ہے اور نماز کی پہلی رکعت شمار ہوگی۔ لیکن رکوع میں اقتداء کرنے کے بعد رکوع میں پہنچنے سے پہلے امام جماعت رکوع سے سر اٹھائے تو اس صورت میں نماز کو فرادا انجام دینے یا انتظار کرے تاکہ امام دوسری رکعت کے لئے بلند ہو پھر پہلی رکعت کے عنوان سے امام کی اقتداء کرنے میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔[14]

ماموم کا رکوع میں جانے سے پہلے مام جماعت رکوع سے سر اٹھائے تو آیا اس کی نماز باطل ہے یا فرادا اس کی نماز صحیح ہے؟ اختلاف پایا جاتا ہے۔[15]

نماز جماعت میں اگر مأموم امام سے پہلے رکوع سے سر اٹھائے تو مشہور کے مطابق واجب ہے دوبارہ رکوع میں چلا جائے اور امام کی متابعت کرے اس صورت میں رکوع کا اضافہ ہونا نماز کے بطلان کا سبب نہیں ہے۔[16]

مشہور کے مطابق جو شخص نماز جمعہ کی دوسری رکعت کے رکوع میں امام کی اقتداء کرے تو اس نے نماز جمعہ کو درک کر لیا ہے اور دوسری رکعت کو فرادا پڑھی جائے گی۔[17]

مستحبات

  • رکوع میں جانے سے پہلے حالت سکون میں اللہ اکبر اور رکوع کے بعد سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہ کہنا مستحب ہے۔[18]
  • رکوع کے دوران انگلیوں کو کھول کر ہاتھوں کو گٹھنوں پر رکھنا مستحب ہے۔
  • پہلے دائیں ہاتھ کو دائیں گٹھنے پر پھر بائیں ہاتھ کو بائیں گٹھنے پر رکھنا مستحب ہے۔
  • رکوع میں گھٹنوں کو پیچھے کی جانب دبانا اور اپنی کمر کو گردن کے موازی رکھنا نیز نگاہ قدموں کے درمیان رکھنا۔[19]
  • گٹھنوں کو ایک دوسرے کے موازی رکھنا۔[20]
  • ٹانگوں کے درمیان ایک بالشت فاصلہ رکھنا۔
  • عورتوں کے لئے مستحب ہے کہ رکوع میں ہاتھوں کو گھٹنوں سے اوپر رکھیں اور گھٹنوں کو پیچھے کی طرف نہ دھکیلیں[21]۔
  • رکوع کے ذکر طاق تین ،پانچ یا سات مرتبہ پڑھنا۔
  • رکوع کے ذکر سے پہلے یا بعد میں محمد اور ٓل محمد پر درود بھیجنا۔۔[22]

مکروہات

حالت رکوع میں قرآن پڑھنا مکروہ ہے۔[23]

حوالہ جات

  1. ابن فارس، مقاییس اللغۃ مادہ رکع۔ جوہری، الصحاح مادہ رکع راغب اصفہانی، المفردات فی غریب القرآن مادہ رکع۔
  2. احمد فتح اللہ، معجم الفاظ الفقہ الجعفری،212
  3. کلینی، کافی2/77۔
  4. اسلام کوئست
  5. غایۃ المرام ۱/۱۹۷؛ جواہرالکلام ۱۰/۶۹ و ۱۲/۲۴۳۔
  6. جواہرالکلام، ۱۰/۶۹؛ العروۃ الوثقی ۲/۵۳۷۔
  7. طوسی، المبسوط، 1/109۔
  8. الحدائق الناضرۃ ۸/۲۳۶-۲۳۸؛ جواہرالکلام ۱۰/۷۳؛ مستند العروۃ (الصلاۃ) ۴/۶-۔
  9. العروة الوثقی، ۲/۵۳۹۔
  10. توضیح المسائل مراجع، نجفی، جواہر الکلام 10 ص 89 و...۔
  11. جواہرالکلام، ۱۲/۲۷۵، ۲۷۶۔
  12. پورتال انہار
  13. پورتال انہار
  14. پورتال انہار
  15. پورتال انہار
  16. مستمسک العروۃ، ۷/۲۶۹ ۲۷۱۔
  17. جواہر الکلام، ج۱۱، ص۴۴۵-۴۴۶
  18. جواہرالکلام، ۱۰/۱۰۶، ۱۱۶؛ العروۃ الوثقی، ۲/۵۵۲، ۵۵۳۔
  19. جواہرالکلام، ۱۰/۱۰۴، ۱۰۵؛ العروۃ الوثقی، ۲/۵۵۲۔
  20. الدروس الشرعیۃ ۱/۱۷۸۔
  21. توضیح المسائل مسئلہ 1053
  22. توضیح المسائل مراجع
  23. نجفی، جواہر الکلام 10ص116

مآخذ

  • بحرانی، یوسف، الحدائق الناضرۃ فی احکام العترۃ الطاہرہ، بہ کوشش علی آخوندی، قم، نشر اسلامی، ۱۳۶۳ہجری شمسی۔
  • حکیم، سید محسن، مستمسک العروۃ الوثقی، سید محسن، قم، مؤسسہ دار التفسیر، ۱۴۱۶ ھ۔
  • شہید اول، الدروس الشرعیۃ فی فقہ الامامیہ، قم، نشر اسلامی، ۱۴۱۲ھ۔
  • طباطبایی یزدی، سید محمد کاظم، العروۃ الوثقی، مؤسسۃ النشر الاسلامی، قم۔
  • طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الامامیہ، بہ کوشش محمد باقر بہبودی، تہران، مکتبۃ المرتضویۃ، [بی‌تا]۔
  • طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، محقق، موسوی خرسان، حسن، تہران،‌ دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ھ۔
  • فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم‌السلام
  • کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، محقق، مصحح، غفاری، آخوندی، تہران،‌ دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ھ۔
  • نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی۔